وہ کون تھی !!! - خوفناک ناول - از شاہد بھائی

شاہد بھائی

محفلین
وہ کون تھی؟
مصنف :۔ شاہد بھائی
قسط نمبر - 1
پراسرار لڑکی
ایل ایل بی شہباز احمد کو وکالت سے ایک ماہ کی چھٹی مل چکی تھی۔ ایک ماہ تک وہ کسی کا کیس نہیں لڑ سکتے تھے ۔یہی وجہ تھی کہ اس وقت شہباز احمد اور ان کی پوری فیملی ڈرائنگ روم میں بیٹھے اس خیال پر تبصرہ کررہے تھے کہ اب وہ یہ پورا ایک ماہ کس طرح گزاریں گے؟ ان دنوں عرفان بردارز کو بھی کالج سے چھٹیاں ملی ہوئی تھیں۔فرسٹ آئیر کے امتحان دینے کے بعدوہ سیکنڈ آئیر کی کلاسز شروع ہونے تک چھٹیاں منارہے تھے ۔ڈرائنگ روم میں اس وقت اسی موضوع پر گرما گرم بحث جاری تھی کہ ایک طرف ان کے اباجان کو بھی چھٹیاں مل چکی ہیں اور دوسری طرف ان کی بھی امتحان دینے کے بعد نئی کلاسز شروع ہونے تک چھٹیاں ہیں تو ان چھٹیوں کو گھر میں رہ کر نہیں بلکہ کسی پر فضا مقام پر گزارا جائے۔ شہباز احمد کا نیا اسسٹنٹ شہزاد بھی کبھی کبھی ان کی باتوں میں حصہ لے لیتا تھا۔ اس وقت ڈرائنگ روم میں سب سے زیادہ آواز سلطان کی گونج رہی تھی:۔
میں کہتا ہوں ان چھٹیوں کو گھر میں رہ کر ضائع نہیں کیا جاسکتا ‘‘ سلطان پرزور لہجے میں بولا۔
اس کا مطلب ہے کہیں باہر رہ کر ضائع کیا جاسکتا ہے ‘‘ عمران مسکرا کر بولا۔
تم آج کل بڑ ے شوخ مزاج بن رہے ہو ۔۔۔ سلطان کا اثر ہو گیا ہے کیا ‘‘عرفان نے جل بھن کر کہا۔
اوہ !۔۔۔ پھر تو ہم ایک گھرمیں دو شوخ مزاج افراد کو کس طرح برداشت کریں گے ‘‘ سادیہ گھبرا کر بولی۔
بات کہاں سے کہاں جارہی ہے ۔۔۔ میں کہتا ہوں کسی تاریخی مقام کے سیر کی بات کرو‘‘ سلطان نے جھلا کر کہا۔
تاریخی مقام کیوں ۔۔۔ ہم کسی تفریحی مقام کی سیر بھی کرسکتے ہیں‘‘ شہزاد نے ان کی باتوں میں حصہ لیا۔
کیوں نہ اباجان کے ریسٹ ہاؤس میں رہ کر یہ پورا ایک ماہ شہر سے باہر وہاں گزارا جائے ‘‘ عدنان نے خیال پیش کیا جس پر سب چونک اُٹھے۔
یہ خیال میرے ذہن میں کیوں نہ آیا۔۔۔ اباجان کا ریسٹ ہاؤس شہر سے دور بھی ہے اور پر فضا مقام بھی ہے ۔۔۔ ہم کتنے وقت سے وہاں گئے بھی نہیں ہیں ‘‘ سلطان نے پرجوش لہجے میں کہا۔
تو پھر ٹھیک ہے ۔۔۔ طے رہا۔۔۔ ہم کل صبح ریسٹ ہاؤ س کے لیے نکل جائیں گے ‘‘ شہباز احمد نے آخر میں فیصلہ کن لہجے میں کہا جس پر سب نے ان کی تائید میں سر ہلا دیا۔ بیگم شہباز ان دنوں اپنے میکے گئی ہوئی تھیں۔ ان کے دور کے رشتہ کے ماموں کی بیٹی کی منگنی تھی۔ انہوں نے وہاں جانا پسند کیا تھا البتہ باقی سب گھر میں ہی رہ گئے تھے۔شہباز احمد بھی اپنی بیگم کے ساتھ نہیں گئے تھے کیونکہ ان کے وہاں جانا کی کوئی تک نہیں بنتی تھی۔ ویسے بھی ان کے بیگم کے بھی دور کے رشتے دار تھے پھر بھلا شہباز احمد کا ان دور کے رشتے داروں سے کیا رشتہ بنتا؟ لہٰذا وہ بھی بچوں کے ساتھ گھر میں ہی رہ گئے تھے۔شہزاد بھی مستقل دور پر ان کے ساتھ رہ رہا تھا۔ اُس کے لئے انہوں نے گھرکے پچھلی طرف ایک کمرہ خالی کر دیا تھا جہاں وہ مستقل طور پر رہائش پذیر ہوگیا تھا۔ شہزاد کے والدین بچپن میں ہی فوت ہو چکے تھے اورپچپن سے لے کر اب تک وہ اپنے چچا کے گھر رہا تھا ۔ ابھی کچھ دنوں پہلے اس کے چچا بھی طویل بیماری کے بعد اجل کو لبیک کہہ گئے تھے یہی وجہ تھی کہ اب اسے کسی مستقل ٹھکانے کی تلاش تھی ۔ پچھلے کیس میں اس نے یہ خبر پڑھی تھی کہ شہباز احمد کا اسسٹنٹ بطور مجرم پکڑا گیا ہے اس وجہ سے اس نے شہباز احمد سے یہ درخواست کی تھی کہ اسے اپنا اسسٹنٹ بنا لیں۔ اس کے بدلے میں اس نے صرف دو وقت کا کھانا اور رہائش مانگی تھی ۔شہباز احمد نے اسے کھانا اور رہائش دینے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی خاصی تنخواہ بھی دینے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اس کے بعد سے وہ ا ن کے ساتھ قیام پذیر ہوگیا تھا۔اگلے دن صبح وہ سب ریسٹ ہاؤس کے لیے نکلنے کو تیار تھے۔ایل ایل بی شہباز احمد نے اپنی گاڑی کی سروس کل ہی کروا لی تھی ۔ بچوں نے شہزاد کے ساتھ مل کر مارکیٹ کی راہ لی تھی اور پھر گاڑی کو کھانے پینے کی چیزوں سے بھر دیا تھا۔سلطان نے جیب میں کچھ ٹافیاں بھی بھر لی تھیں۔اسے ایسے کرتے دیکھ عرفا ن برے برے منہ بنا رہا تھا جس پر وہاں موجود ہر شخص کے چہر ے پر مسکراہٹ دوڑ گئی تھی۔تبھی شہباز احمد اپنے اسسٹنٹ شہزاد اور اپنے بچوں کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوگئے۔ شہزاد گاڑی چلانے میں بھی کافی مہارت رکھتا تھا۔ گاڑی کی ڈرائیونگ تو شہباز احمد کو بھی خوب آتی تھی لیکن انہوں نے شہزاد کو موقع دیا اور خود اس کے ساتھ والی سیٹ پر برجمان ہوگئے ۔ بچہ پارٹی پچھلی سیٹوں پر بیٹھ چکی تھی اورپھر شہزاد نے گاڑی کا رخ ریسٹ ہاؤس کی طرف کر دیا اور ریس کا پیڈل دبا دیا۔ دوسری ہی لمحے گاڑی فراٹے بھرتی اپنے منزل کی طرف روانہ ہوگئی ۔ پندرہ منٹ کے سفر کے بعد جنگل شروع ہوگیا۔ تبھی سلطان نے راستے میں زبان کھولی:۔
ریسٹ ہاؤس کی صفائی کا بھی کچھ انتظام کیا گیا تھا اباجان ‘‘ سلطان نے سنجیدہ انداز میں شہباز احمد کی طر ف دیکھا۔
ہاں ۔۔۔ وہاں پر موجود سیکورٹی گارڈ کو کل ہی فون کرکے صفائی کرانے کی ہدایت کر دی تھی ‘‘ شہباز احمد نے حیران ہو کر کہا۔
اس میں حیران ہونے والی کون سی بات ہے اباجان ‘‘ سلطان بھی حیران رہ گیا۔
تمہاری زبان سے اس قدر سنجیدہ سوال سننے والا حیران تو ہو ہی جائے گا ‘‘ شہباز احمد معصومانہ انداز میں بولے جس پر گاڑی میں ایک قہقہہ گونج اُٹھا البتہ سلطان کا منہ بن گیا۔
میں ہر وقت تومذاق نہیں کرتا اباجان ۔۔۔ کبھی کبھی سنجیدہ بھی ہو جاتا ہوں‘‘ سلطان برا مان کر بولا جس پر سب ایک بار پھر مسکرا دئیے۔تبھی گاڑی زبردست ہچکولے کھانے لگی۔ وہ سب گھبرا گئے ۔ دوسرے ہی لمحے گاڑی کا رخ جنگل کی طرف ہوگیا اور وہ پوری رفتار سے گھنے جنگل کے اندر ہی اندر بڑھتی چلی گئی۔ شہزاد نے اپنی پوری مہارت صرف کردی ۔ اس کے چہرے پر پسینے کے قطرے صاف بتارہے تھے کہ گاڑی اس کے کنٹرول سے باہر ہو چکی ہے اور پھر!!!۔۔۔ گاڑی ایک درخت کی سمت گئی اور پوری قوت سے درخت سے ٹکرانے ہی لگی تھی کہ تبھی شہزاد نے اپنی پوری طاقت سے بریک لگائی۔ گاڑی صرف چند انچ کے فاصلے سے درخت سے دور رہ کر رک گئی۔ یہ دیکھ کر ان سب نے سکون کا سانس لیا۔
آپ نے پہلے ہی بریک کیوں نہ لگائی جب گاڑی جنگل کے اندر بڑھ رہی تھی ‘‘ سلطان نے لرزتی آواز کے ساتھ کہا۔
پہلے بریک کا پیڈل دبایا تھا لیکن اس وقت بریک کام نہیں کر رہی تھی۔۔۔ درخت سے ٹکراتے وقت ایک بار پھر اپنا پورا زور بریک کے پیڈل پر لگایا توبریک کام کر گئی اور گاڑی رک گئی‘‘ شہزاد ہانپتے ہوئے بولا۔
اس وقت ہم کہاں ہیں ‘‘سادیہ پریشان ہو کر بولی۔
یہ تو کوئی بہت ہی گہرا اورگھنا جنگل معلوم ہوتا ہے‘‘ عرفان نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔
میراخیال ہے میں اور شہزاد نیچے اتر کر دیکھتے ہیں ۔۔۔اگر کوئی خطرہ نہ ہوا تو تم لوگ بھی نیچے اتر آنا‘‘ شہباز احمد نے فیصلہ سنا دیا جس پر انہوں نے سر ہلا دیا۔ شہزاد اور ایل ایل بی شہباز احمد گاڑی سے نیچے اتر آئے۔انہوں نے دیکھا وہ اس وقت گہرے اور تاریک جنگل کے درمیان میں کھڑے تھے۔اس جنگل کو دیکھ کر وہ ایک پل کے لئے پریشان ہوگئے ۔ درخت کے جھنڈ ہی جھنڈ نظر آرہے تھے اور اوپر درخت کے پتوں نے سورج کی روشنی کو نیچے آنے سے مکمل طور پر روک دیا تھا۔ پھر کچھ وقت تک انہوں نے آس پاس کا جائزہ لیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ جنگل اس قدر بھی خطرناک نہیں ہے ۔ وہ یہاں سے کچھ فاصلہ طے کر کے کسی ایسی جگہ پہنچ سکتے ہیں جہاں سے دوبارہ یا تو اپنے ریسٹ ہاؤس کی طرف روانہ ہو جائیں یا پھر دوبارہ شہر کا رخ کر لیں۔ اس فیصلے پر پہنچ کر شہباز احمد ، شہزاد کی طرف مڑے۔ وہ اس وقت گاڑی کے انجن کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ گاڑی کے انجن سے دھواں نکل رہا تھا۔
یہ گاڑی تو اب کسی کام کی نہیں رہی ۔۔۔ میں حیران ہوں کہ آپ نے کل ہی اس کی سروس کروائی تھی اور آج ہی اس کا انجن گرم ہو کر بند ہوگیا‘‘ شہزاد واقعی حیرت زدہ نظر آرہا تھا۔
اب تو کچھ دور کسی مکان میں رہائش پذیر شخص سے ہی مدد مل سکتی ہے ۔۔۔ تمہاری کیا رائے ہے ‘‘ شہباز احمد نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
میری بھی یہی رائے ہے ۔۔۔ کچھ فاصلہ پیدل طے کرلیتے ہیں ۔۔۔ پھر آس پاس کسی رہائشی مکان یا جھونپڑی میں رہنے والے افراد سے مدد مانگ کر شہر پہنچ جائیں گے ۔۔۔ وہاں سے کسی میکینک کو بلا کر گاڑی صحیح کرالیں گے ۔۔۔ پھر دوبارہ ریسٹ ہاؤس کی طرف سفرشروع کر دیں گے‘‘شہزاد نے ان کے خیال کی تائید کرتے ہوئے کہا۔شہباز احمد نے سر ہلا دیا ۔ پھر وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے عرفان اور دوسروں کو اس فیصلے سے آگاہ کرنے کے لئے گاڑی کے پچھلی سیٹ کی کھڑکی کی طرف آئے لیکن تبھی ان دونوں کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔ایک بچکانی سی آواز نے انہیں مخاطب کیا تھا:۔
انکل ۔۔۔ میری بات سنیں‘‘ آواز کسی بچی کی معلوم ہوتی تھی۔ شہزاد اور شہباز احمد حیران ہو کر آواز کی سمت پلٹے۔ ایک پندرہ سولہ سال کی لڑکی انہیں دیکھ رہی تھی۔ اس کی طرف دیکھ کر انہیں اَنجانا سا احساس ہوا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ دونوں اس کی سمت بڑھے۔ اس کے پاس پہنچ کر شہباز احمد کہنے لگے:۔
کیا بات ہے بیٹی۔۔۔ تم یہاں اس جنگل میں تنہا کیا کررہی ہو‘‘شہباز احمد نرمی سے بولے۔
میری ماں باپ یہاں کسی کام سے مجھے ساتھ لے کر آئے تھے ۔۔۔ میں ان کا ہاتھ چھڑا کر غلطی سے دوسری طرف نکل گئی اور بھٹک گئی ۔۔۔ اب مجھے اپنے ماں باپ مل نہیں رہے ہیں ۔۔۔ آپ میری مدد کریں گے‘‘ لڑکی نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔ شہباز احمد کو اس پر بڑا ترس آیا البتہ شہزاد کے چہر ے پر الجھن نظر آرہی تھی۔اسے محسوس ہورہا تھا کہ بچی جتنی بھولی بن رہی ہے اتنی بھولی ہے نہیں!۔اس کے آنکھوں میں شہزاد کو حیرت انگیز عیاری نظر آرہی تھی۔
اچھا بیٹی۔۔۔ میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں ۔۔۔ تمہارے والدین کہاں پر تھے ‘‘ شہباز احمد نے ترس کھا کر کہا۔
یہاں سے کچھ فاصلے پر ۔۔۔ میں ابھی اسی جگہ پر تھی لیکن اب وہاں میرے والدین نہیں ہیں ‘‘ لڑکی نے روتے ہوئے کہا۔
کوئی بات نہیں ۔۔۔ وہ بھی تمہیں ڈھونڈتے ہوئے وہیں کہیں ہونگے ۔۔۔ آؤ ۔۔۔ ہم تمہارے کے ساتھ انہیں تلاش کرتے ہیں‘‘ شہباز احمد نے اسے دلاسا دیا اور شہزاد کو ساتھ لے کر اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔
لیکن بچے گاڑی میں رہ گئے ہیں‘‘ شہزاد نے شہباز احمد کو احساس دلایا۔
کوئی بات نہیں ۔۔۔ اس بچی کے والدین مل جائیں گے تو ہم واپس یہاں آ جائیں گے‘‘ شہباز احمد نے لاپروائی سے کہا۔ شہزاد مجبوراً شہباز احمد کے ساتھ چلنے لگا۔ اسے لڑکی کی آنکھوں میں کوئی بہت ہی گہری سازش چلتی ہوئی نظر آئی لیکن پھر بھی وہ بے بسی سے شہباز احمد کے پیچھے چل رہا تھا۔تھوڑا دور چل کر لڑکی رک گئی اور پھر عجیب سے لہجے میں کہنے لگی:۔
اب آپ واپس جا سکتے ہیں ۔۔۔ مجھے آپ کی مدد نہیں چاہیے‘‘لڑکی نے سفاک لہجے میں کہا جس پر وہ دونوں حیران رہ گئے ۔ شہبازاحمد اور شہزاد نے حیرانگی کے عالم میں ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ پھر دونوں نے واپس نظریں اس لڑکی کی طرف گھمائیں۔ دوسرے ہی لمحے شہباز احمد اور شہزاد دونوں دھک سے رہ گئے۔وہ لڑکی اب وہاں موجود نہیں تھی۔ و ہ کچھ پل میں وہاں سے غائب ہو چکی تھی ۔ تبھی شہباز احمد کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔ انہیں فوراً اپنی غلطی کا احسا س ہوا اور وہ اپنی گاڑی کی سمت دوڑ پڑے ۔ شہزاد بھی سمجھ گیا کہ کیامعاملہ ہے ۔ دوسرے ہی لمحے وہ بھی ان کے پیچھے بھاگا ۔ دونوں آگے پیچھے دوڑتے ہوئے گاڑی کی طرف آئے۔ان دونوں کا سانس پھول چکا تھا اور دل کی دھڑکن کی رفتار کئی گنا بڑھ چکی تھی۔ حیرت اور خوف کے ملے جلے جذبات نے انہیں پوری طرح جکڑ رکھا تھا۔پھر دونوں نے ایک ساتھ گاڑی کی کھڑکی سے گاڑی کے اندر جھانکا۔ آگلے ہی لمحے ان کے جسموں میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ گئی ۔چہر ے کا رنگ دودھ کی طرح سفید پڑ گیا اور ان دونوں کی آنکھوں میں بے پناہ خوف نظر آنے لگا۔گاڑی کے اندر کوئی بھی نہیں تھی۔ عرفان اور دوسرے وہاں سے غائب تھے۔شہباز احمد کھوئے کھوئے انداز میں پچھلی سیٹ کو دیکھنے لگے جہاں ابھی کچھ دیر پہلے وہ اپنے بچوں کو چھوڑ کر گئے تھے۔ان کی آنکھوں میں ندامت اور حسرت صاف دیکھی جاسکتی تھی۔ شہزاد بھی پریشانی کے عالم میں انہیں دیکھ رہا تھا۔تبھی شہباز احمد سیدھے ہو کر کھڑے ہوگئے اور شہزاد کو خوف زدہ انداز میں دیکھنے لگے۔آگلے ہی لمحے شہزاد اور شہباز احمد دونوں کے منہ سے ایک ساتھ نکلا:۔
وہ لڑکی کون تھی؟‘‘۔خوف ہی خوف ان کی آنکھوں میں نظر آنے لگا اور انہیں اپنے جسموں سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔


٭٭٭٭٭
باقی آئندہ
٭٭٭٭٭
 

شاہد بھائی

محفلین
وہ کون تھی؟
مصنف :۔ شاہد بھائی
قسط نمبر - 2
خوفناک لمحات
شہباز احمد اور شہزاد کو گاڑی سے نیچے اترئے کافی دیر ہوگئی تھی ۔ وہ سب بے چینی سے ان کا انتظار کر رہے تھے ۔ کافی دیر بعد بھی وہ دونوں واپس نہ آئے تو عرفان اور دوسرے فکرمند ہوگئے۔ ایسے میں سلطان جھلا کر کہنے لگا:۔
اباجان نے بھی عجیب فیصلہ سنا دیا ۔۔۔ ہمیں یہاں اکیلا چھوڑ کر وہ خود گاڑی سے نیچے اتر گئے ہیں ‘‘ سلطان نے جھلاہٹ کے انگارے چباتے ہوئے کہا۔
مجھے تو اباجان اور شہزاد بھائی کہیں نظر نہیں آرہے ہیں ۔۔۔آخر وہ کہاں چلے گئے ‘‘ سادیہ نے گاڑی کے آگلے شیشے سے اِدھر اُدھر جھانکتے ہوئے پریشانی کے عالم میں کہا۔
شہزاد بھائی بھی کمال کے ہیں ۔۔۔ اباجان کے ساتھ جا کر وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اب اباجان کو ہماری نہیں ان کی ضرورت ہے ۔۔۔ لہٰذا ب ہم اباجان کے کسی کام کے نہیں ہیں‘‘ سلطان نے جل بھن کر کہا۔
آخری جملے میں’ہم‘کے بجائے ’میں‘کہہ دیتے تو جملہ کس قدر خوبصورت معلوم ہوتا ۔۔۔یعنی میں اباجان کے کسی کام نہیں ہوں‘‘ عمران نے سلطان کی طرف مسکرا کر دیکھا۔
یہ جملہ تم پر فٹ ہوتا ہے ۔۔۔ مجھ پر نہیں ۔۔۔اور یہ بات کہہ کر تم نے اپنے بڑے بھائی کی بے عزتی ہے لہٰذا اب تم مجھ سے معافی مانگو‘‘ سلطان نے مطالبہ کیا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ آج جلدی سو جانا۔۔۔ خواب میں معافی مانگ لوں گا‘‘ عمران نے مذاق اُڑانے والے انداز میں کہا۔
میں کہتی ہوں یہ وقت مذاق کا نہیں ہے ۔۔۔ اباجان اور شہزاد بھائی کو گئے کافی وقت ہوگیا ہے ۔۔۔ اب ہمیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہنا چاہیے ‘‘ سادیہ فکرمند لہجے میں بولی۔
تم ٹھیک کہتی ہو۔۔۔ ان لوگوں کو یہاں باتیں بنانے دو۔۔۔ تم اور میں اباجان اور شہزاد بھائی کو دیکھتے ہیں کہ وہ اتنے دیرہونے کے بعد بھی واپس گاڑی میں کیوں نہیں آئے‘‘ عرفان نے جھنجھلا کرکہااور سادیہ کو ساتھ لے کر گاڑی سے نیچے اتر گیا۔ اس کے جانے کے بعد سلطان بھی غصیلے انداز میں کہنے لگا:۔
میں اس قدر بھی سست اور کام چور نہیں ہوں جتنا کہ تم سب خیال کرتے ہو ۔۔۔ میں بھی اباجان اور شہزاد بھائی کی تلاش میں جارہا ہوں ‘‘ یہ کہتے ہوئے سلطان نے گاڑی کادروازہ کھولا اور نیچے اترگیا۔ اس کے پیچھے عدنان اور عمران نے بھی نیچے اترنے میں دیر نہ لگائی۔باہر نکل کر انہوں نے دیکھا سادیہ اور عرفان پاگلوں کی طرح اِدھر اُدھر دیکھ رہے ہیں ۔ ان کو اس حالت میں دیکھ وہ تینوں حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے:۔
کیا ہوگیا ہے تم دونوں کو ۔۔۔ اباجان اور شہزاد بھائی کہاں ہیں ‘‘ سلطان نے حیرانگی کے عالم میں کہا۔
پتا نہیں ۔۔۔ وہ دونوں کہیں بھی نظر نہیں آرہے ۔۔۔ اس قدر جلدی وہ ہم لوگوں کو اس گھنے اور خطرناک جنگل کے درمیان چھوڑ کر کہاں جا سکتے ہیں ‘‘ سادیہ تقریباً روتے ہوئے بولی۔ سلطان کے ماتھے پر شکنیں ابھر آئیں۔اب اسے سمجھ آیا کہ معاملہ اتنا سلجھا ہوا نہیں ہے جتنا وہ سمجھ رہا ہے۔ اس جنگل کے درخت کے پتے کافی اوپر تک پھیلے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے سورج کی روشنی نیچے نہیں پڑ رہی اور نیچے کافی تاریکی ہے ۔ اس کے بعد اب جیسے جیسے سورج غروب ہونے کی طرف جائے گا تاریکی میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا اور ان حالات میں وہ کسی وحشی درندے یا زہریلے جانور کا بھی شکار بن سکتے ہیں۔ان سب باتوں کو سوچ کر وہ ایک لمحے کے لیے کانپ گیا۔ پھر اس نے اپنے آپ کو سنبھالا۔ اسے گھبرانے کے بجائے سادیہ کو تسلی دینی تھی جس کے آنسو اُن سب کو اور کمزور کر رہے تھے۔
اباجان !!!۔۔۔ شہزاد بھائی !!!‘‘ سلطان پوری قوت سے چلایا لیکن اس کی آواز دور کہیں جا کر ختم ہوگئی۔ اس کی آواز کے جواب میں صرف پرندوں کی چہچہانے کی آواز سنائی دی۔ ایل ایل بی شہباز احمد اور شہزاد کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا تھا۔ سلطان کا حلق خوف کی وجہ سے خشک ہونے لگا۔ اس نے بڑی مشکل سے تھوک نگلا اور ایک بار پھر آواز لگائی لیکن اس بار بھی کوئی جواب نہ ملا۔اب تو سلطان پاگلوں کی طرح چلانے لگا اور پھر اس کی آواز مدھم ہوتے گئی۔ اب اس کی حلق سے آواز کی بجائے گھٹی گھٹی چیخیں نکلنے لگیں۔اور پھر !!!۔۔۔ اس کا دم گھٹنے لگا۔ سانس لینے میں دشواری ہونے لگی۔ وہ منہ کھول کر سانس لینے لگا۔ دوسر ے اس کی یہ عجیب سی کیفیت دیکھ کر حیران رہ گئے۔یہاں سلطان کا سر چکرا رہا تھا۔ اچانک وہ لڑکھڑا گیا اور پھر سیدھا زمین کی طر ف آیا۔ عرفان نے فوراً آگے بڑھ کر اسے سنبھالنا چاہا لیکن وہ بھی منہ کے بل زمین پر گرا۔ باقیوں کے ساتھ بھی کچھ مختلف نہ ہوا۔ان سب کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔انہیں دنیا گھومتی ہوئی محسوس ہوئی اور پھر وہ تینوں بھی ایک ایک کر کے چکرکھاتے ہوئے زمین پر گرئے ۔تبھی ایک آواز ان کے کانوں میں گونجی :۔
اب ان کے والدانہیں زندگی بھر بھی تلاش کریں تب بھی وہ اپنے ہونہار اور فرماں بردار بچوں کا چہرہ کبھی نہیں دیکھ پائیں گے ‘‘ایک کھکھلا کر ہنستی ہوئی لڑکی کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی اور پھران سب کے ذہن تاریکی میں ڈوب گئے۔

٭٭٭٭٭
شیر سے لڑائی
سلطان کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے آپ کو جنگل کے ایک سنسان حصے میں پایا۔اس نے آس پاس نظریں دوڑائیں تو اسے کوئی بھی نظر نہ آیا۔ وہ اس وقت بالکل تنہا تھا۔اس نے اٹھنے کی کوشش کی اور آخر زمین کا سہارہ لے کر کافی مشکل سے اٹھ کھڑا ہوا۔اس نے گھڑی دیکھی تو اس کے جسم میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ شام کے پانچ بج چکے تھے۔ وہ صبح کے وقت ریسٹ ہاؤس کے لیے نکلے تھے اور اب شام ہوچکی ہے ۔ وہ پور ا دن بے ہوش رہا تھا۔ نہ جانے دوسروں کے ساتھ کیا حالات پیش آئے تھے۔ یہ سب سوچ کر سلطان کے چہرے پر خوف کے بادل اُمڈ آئے۔اسے ڈر تھا کہ جیسے جیسے رات کی سیاہی گہر ی ہوگئی سانپ اور دوسرے زہریلے جانور اسے ایک پل میں اپنا شکار بنا سکتے ہیں۔وہ اس وقت خود کو بالکل تنہا محسوس کر رہا تھا لیکن ان حالات میں بھی وہ شوخی سے باز نہ آیا۔
! سامان باندھ لیاہے میں نے اب بتاؤ غالب
کہاں رہتے ہیں وہ لوگ جو کہیں کے نہیں رہتے ‘‘سلطان نے خود کلامی کرتے ہوئے شوخ انداز میں شعر پڑھا۔پھر اس نے مسکرا کر خود کو جھٹکا اور آخر اللہ کا نام لے کر چند قدم چلنے کی ٹھانی۔اندھیرا بڑھتا جارہا تھا اور سلطان خود کو بڑی مشکل سے سنبھالتے ہوئے چل رہا تھا۔کچھ وقت میں ان کے حالات کس قدر پلٹی کھا گئے تھے۔ وہ تو آج صبح تفریح کی غرض سے ریسٹ ہاؤس کے لیے نکلے تھے لیکن راستے میں ہی ان کی یہ تفریح ایک سنسنی خیز حادثے کا رخ اختیار کر گئی تھی۔ اسے کچھ پتا نہیں تھا کہ اس کے بھائی اور اس کے اباجان کہاں ہیں ؟شہزاد بھی ایل ایل بی شہباز احمد کے ساتھ گاڑی سے اتر ا تھا اور پھر نہ جانے ان کے ساتھ کہاں چلا گیا تھا۔ان سوچوں کے سمندر کو ساتھ لیے سلطان کے لئے ایک ایک قدم اٹھانا بھار ی پڑ رہا تھا۔ کمزوری نے اسے اندر تک کھوکھلا کر دیا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اچانک بے ہوش کیسے ہوگیا تھا؟ بے ہوش ہونے سے پہلے اسے کسی لڑکی کے زہریلی ہنسی کے ساتھ ادا کیے گئے وہ جملے بھی یاد آگئے اور ان جملوں کا خیال آتے ہی سنسنی کی ایک لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی۔ ابھی وہ تھوڑا سا ہی فاصلہ طے کر پایا تھا کہ کمزوری نے اس سے قدم اٹھانے کی طاقت بھی چھین لی۔وہ قدم اٹھانے کی پوری کوشش کرنے لگا لیکن آخر کار کمزوری کی وجہ سے زیادہ دیر چل نہ سکا اور ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔یہ درخت کافی گھنا اور سایہ دار تھا۔ یہاں اس نے راحت محسوس کی۔ سورج غروب ہونے کے قریب تھا اور رات کی تاریکی آسمان پر چھا رہی تھی۔ ان حالات میں وہ بے بسی کے عالم میں درخت کے نیچے بیٹھا ہاتھ مل رہا تھا لیکن ابھی وہ کچھ دیر ہی آرام کر پایاتھا کہ اس نے ایک زبردست دھاڑ کی آواز سنی۔دھاڑ سن کر اس کا چہرہ فق ہوگیا۔ یہ دھاڑ شیر کے علاوہ اور کسی کی نہیں تھی۔ اب اسے اپنی موت چند قدم کے فاصلے پر نظر آئی کیونکہ شیر کی دھاڑ زیادہ دور سے نہیں آئی تھی۔ اس کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا۔ حلق خشک ہونے لگا۔ تبھی شیر کی ایک بار پھر زبردست دھاڑ سنائی دی لیکن اس بار شیر کی آواز کافی قریب سے آتی معلوم ہوئی تھی۔ دوسرے ہی لمحے اس کا رنگ اُڑ گیا۔ وہ فوراً اچھل کر کھڑا ہوگیا اورچھپنے کی جگہ ڈھونڈنے لگا۔ابھی وہ اِدھر اُدھر دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک چھے فٹ اونچے اور دو فٹ چوڑے جانور کی سانس لینے کی آواز نے اس کے رونگٹے کھڑ ے کر دئیے۔ سلطان نے ہمت کرکے سامنے دیکھا تو اس کا چہرہ دودھ کی طرں سفید پڑ گیا۔ایک لمحے میں اس کی سٹی گم ہو گئی۔ سامنے ایک بھورے بالوں والا زرد رنگ کا شیر اسے بری طرح گھور رہا تھا۔اس کی آنکھوں میں بھوک اور پنجوں میں شکار کی حسرت اسے صاف بتا رہی تھی کہ اب وہ اسے اپنا شکار بنانے کے لیے ایک لمحہ بھی دیر نہیں کرئے گا۔سلطان ابھی بدحواسی کے عالم میں اپنی بچاؤ کی تدابیر سوچ ہی رہا تھا کہ شیر نے ایک چست لگائی اور اس کے اوپر آ پڑا لیکن سلطان بھی اس کے لیے ترنوالہ ثابت نہ ہوا ۔ اس کے چھلانگ لگاتے ہی سلطان نے مخالف سمت چھلانگ لگا دی اور شیر سے صرف چند انچ کے فاصلے سے دوسری طرف نکل گیا۔ شیر واپس پلٹا اور غراتے ہوئے سلطان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال لیں۔ شاید وہ سمجھ گیا تھا کہ مقابلہ کسی عام لڑکے سے نہیں ہے بلکہ کافی چست اور پھرتیلے لڑکے سے ہے جو ایک لمحے میں اس کا شکار نہیں بنے گا۔شیر نے اس بار چھلانگ لگانے کی بجائے قد م اٹھانا شروع کیے اور ایک ایک قدم چلتا ہوا سلطان کے قریب آنے لگا۔ سلطان پیچھے ہٹتا چلا گیالیکن سلطان کی رفتار شیر کی ر فتار سے کافی کم تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شیر جلد ہی سلطان کے قریب پہنچ گیا۔ اس بار اس نے سلطان کی طرف پوری طرح احتیاط کے ساتھ حملہ کیا۔ آخری لمحے میں سلطان زمین پر لیٹ کر لوٹ لگا گیا اور قلابازی کھاتے ہوئے دوسری طرف نکل گیا۔ شیر اپنے ہی جھونک میں ایک درخت سے جا ٹکرایا اور اس کے منہ سے گھٹی گھٹی چیخ نکل گئی۔اب شیر دھاڑتے ہوئے دوبارہ سیدھا ہوا ۔ اس بار وہ زخمی دکھائی دے رہا تھا کیونکہ درخت سے چوٹ کھانے کے بعد اس کی دھاڑ میں لرزش آگئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں بے پناہ غصہ نظر آرہا تھا جیسے وہ سلطان کو کچا چپا جانا چاہتے ہو۔ دوسرے ہی لمحے شیر نے سلطان کو موقع نہ دے کر اسے پوری طرح اپنی گرفت میں لینے کے لیے تاک کر چھلانگ لگائی۔ اس بار سلطان شیر کے حملے سے نہ بچ سکا اور نتیجے کے طور پر سلطان شیر کے پنجوں میں تھا۔ شیر نے ایک زبردست دھاڑ لگائی اور اسکے سینے پر پاؤں رکھ کر اسے ایک نوالے کی طرح اپنی منہ کے سامنے لے لایا۔ سلطان کو اب اپنی موت یقینی معلوم ہوئی۔اس نے کلمہ طیبہ کاورد شروع کردیا۔تبھی اس کے منہ سے ایک گھٹی گھٹی چیخ نکلی۔ اسے شیر کے پنجے اپنے سینے میں گھستے ہوئے محسوس ہوئے تھے۔


٭٭٭٭٭
باقی آئندہ
٭٭٭٭٭
 

شاہد بھائی

محفلین
وہ کون تھی؟
مصنف :۔ شاہد بھائی
قسط نمبر - 3
لڑکی کا قیدی
سلطان اس وقت زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا۔ شیر کے پنجے اس کے سینے میں گھستے جا رہے تھے اور اس کے منہ سے گھٹی گھٹی چیخیں نکل رہی تھیں۔تبھی شیر نے ایک زبردست دھاڑ لگائی اور اسے چیر پھاڑنے کے لیے بڑھا لیکن اُسی وقت شیر کے منہ سے ایک دلدوزاور درد بھری غراہٹ نکلی۔ سلطان حیران ہو کر شیر کو دیکھنے لگا۔ شیر کی غراہٹ میں گہری لرزش تھی جیسے یہ اس کی غرانے کی آخری آواز ہو۔ دوسرے ہی لمحے شیر سلطان کے سینے پر سے لڑھک کر زمین پر گرگیا اور تڑپنے لگا۔ سلطان زمین پر لیٹاہوا یہ منظر ہکا بکا ہو کر دیکھ رہا تھااور تبھی شیر نے دم توڑ دیا۔اس کا جسم کچھ ہی دیر میں ٹھنڈا پڑ گیا۔ اُسی وقت ایک خوبصورت ہاتھ سلطان کی طرف بڑھا۔ سلطان نے چونک کر ہاتھ کی سمت دیکھا تو ایک لڑکی اسے مسکرا کردیکھ رہی تھی۔ اس کی ہاتھ میں خون سے سنسناتا ہوا خنجر تھا جو اس نے تھوڑی دیر پہلے شیر کے دل پر اتاردیا تھا۔ سلطان نے لڑکی کے ہاتھ کا سہارا لیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر اس کے چہرے پر شکرگزاری نظر آنے لگی:۔
آپ نے میری جان بچائی اس لیے میں آپ کو بہت مشکور ہوں‘‘ سلطان نے ممنونیت سے کہا۔
کوئی با ت نہیں۔۔۔ جنگل میں اس طرح کے حادثے تو ہوتے ہی رہتے ہیں اور کبھی کبھی یہ حادثے ہماری زندگی پلٹ کر رکھ دیتے ہیں‘‘ لڑکی نے عجیب سے لہجے میں کہا جس پر سلطان چونک کر اسے دیکھنے لگا۔
میں آپ کی بات کا مطلب نہیں سمجھا‘‘ سلطان نے حیرت زدہ لہجے میں کہا۔
چھوڑئیے۔۔۔ مطلب کی باتیں بعد میں کریں گے۔۔۔ پہلے تو آپ میرے ساتھ چلنے کی بات کریں گے‘‘ لڑکی کا لہجہ شوخ ہوگیا۔
آپ کے ساتھ چلنے کی بات۔۔۔ لیکن بھلا وہ کیوں۔۔۔ میں تو آپ کو جانتا تک نہیں‘‘ سلطان نے تعجب سے اس کی طر ف دیکھا۔
کوئی بات نہیں۔۔۔ اگر جانتے نہیں ہیں تو بہت جلد جان جائیں گے۔۔۔ میں آپ کو اپنے گھر لے کر جارہی ہوں۔۔۔آپ میرا گھر دیکھنا پسند نہیں کریں گے‘‘لڑکی کے لہجے میں ٹھہرا ؤ تھا۔نرمی تھی۔ سلطان نے اس لڑکی میں عجیب سے کشش محسوس کی۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ چلنے پر خود کو مجبور محسوس کررہا تھا۔دوسرے ہی لمحے وہ اس کے ساتھ چلنے لگا۔ اس وقت سلطان کے ذہن میں مختلف خیالات سر ابھار رہے تھے لیکن اُس کے قدم اس کے ساتھ کب کا چھوڑ چکے تھے۔ اُس کے قدم تو اس لڑکی کے ساتھ ساتھ چلنے میں اس قدر مصروف تھے کہ سلطان کی پوری کوشش بھی انہیں روکنے پر مجبور نہیں کر سکی تھی۔کافی دیر تک وہ اس لڑکی کے ساتھ ساتھ چلتا رہا یہاں تک کہ وہ دونوں جنگل کی حدود سے نکلتے چلے گئے اور پھر کچھ دیر بعد اسے ایک پرانے طرز کا بنا ہوا بنگلہ نظر آیا۔ سلطان نے اس لڑکی کو بنگلے کا دروازہ کھول کر اندر جاتے ہوئے دیکھا۔ وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے بنگلے کے صدر دروازے میں داخل ہوگیا۔ اندر ایک اجڑا ہوا باغ نظر آرہا تھا جہاں پر پھول و پودے نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ سلطان نے اس اجڑے ہوئے باغ کو حیرت سے دیکھا اور پھر اندرونی دروازے کے قریب پہنچ گیا۔ اس لڑکی نے اندرونی دروازے کو ایک جھٹکے سے کھولا اور اندر داخل ہوگئی۔ سلطان ایک لمحہ کے لیے الجھ گیا کہ اندر جائے یا یہاں سے ہی واپس لوٹ جائے لیکن پھر نہ جانے کیوں؟ اس کے قد م گھر کے اندرونی حصے میں داخل ہوگئے۔ دوسرے ہی لمحے سردی کی ایک لہر اس نے اپنی جسم کے جوڑ جوڑ میں سرایت کرتی محسوس کی۔اس کے پاؤں کی انگلیاں زمین پر لگتے ہی ٹھنڈک سے سکڑ گئی تھی۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو مَلتے ہوئے سردی کو کم کرنے کی کوشش کی۔ وہ حیران تھا کہ باہر تو گرمی کا موسم ہے پھر یہاں اندر اس قدر سردی کس طرح ہو گئی ہے؟ وہ لڑکی بھی کہیں نظر نہیں آرہی تھی جو اسے یہاں لے کر آئی تھی۔ابھی وہ پریشانی سے اِدھر اُدھر دیکھ ہی رہا تھا کہ اسے دوبارہ اس لڑکی کا مسکراتا ہوا چہرہ نظر آیا۔ اس کے ہاتھ میں بھانپ اُگلتی ہوئی کافی کا کپ تھا جو اس نے سلطان کی طرف بڑھا دیا۔ سلطان نے کچھ لمحے شش و پنج میں کاٹے اور پھر ہاتھ بڑھا کر کافی کا کپ پکڑ لیا۔لڑکی نے اسے سامنے بچھے ہوئے صوفے کی طرف بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود ایک بار پھر وہاں سے کھسک گئی۔ سلطان آگے بڑھ کر صوفے پر بیٹھ گیا اور کافی پینے لگے۔ خیالات کا ایک سمندروہ اپنے دماغ میں بہتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ آخر یہ لڑکی کون ہے؟ اُس لڑکی نے اس کی جان کیوں بچائی؟ پھر وہ اسے اپنے گھر کیوں لے کر آئی ہے؟ یہ تمام سوالات اس کے ذہن میں گونجنے لگے۔سوالات کو اپنے اندر دبائے وہ کافی پیتا گیا۔ یہاں تک کہ پورا کپ ختم ہوگیا۔تبھی اس کی نظریں ہال میں موجود کھڑکی کی طرف گئیں۔ وہ کھڑکی کے پاس چلا آیا اور باہر کی طرف جھانکا۔سورج غروب ہو چکا تھا۔رات کا اندھیرا آسمان کی سرخی کو جذب کرتا جارہا تھا۔ سلطان کچھ دیر کھڑکی کے پاس کھڑا رہا۔ پھر وہاں سے ہٹ آیا۔ اس نے ایک مرتبہ ہال کا مکمل جائزہ لیا۔ ہال میں کچھ کمرے ضرور تھے لیکن درمیان میں ایک زینہ بنا ہوا تھا جس کی سیڑھیاں اوپر کی طرف جارہی تھیں۔ سلطان نے کچھ دیر بغور ا ن سیڑھیوں کا جائزہ لیا اور پھر آگے بڑھ کر سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ مکمل سیڑھیاں چڑھ جانے کے بعد اسے راہ داری میں سامنے کی طرف چار قطار سے بنے ہوئے کمرے نظر آئے اور ایک پانچوں کمرہ راہ داری کے بالکل آخر میں تھا۔ سلطان نے ایک ساتھ بنے ہوئے چار کمروں میں سے پہلا کمرہ دیکھنا چاہا۔ ا س کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ اگر وہ لڑکی اسے چوروں کی طرح گھر کا جائزہ لیتے دیکھ لیتی تو ضرور اس پر برہم ہوتی لیکن سلطان کی دل میں یہ خواہش اُمڈ رہی تھی کہ وہ ایک بار پورا گھر دیکھ ہی لے۔ پہلے کمرے کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوا۔ یہ پرانے طرز کا بنا ہوا ایک صاف ستھرا کمرہ تھا۔ کمرے کے درمیان میں ایک پلنگ بچھا ہوا تھا جس پر سفید رنگ کی چادر بچھی ہوئی تھی۔سلطان ایک نظر پورا کمرے پر ڈال کر کمرے سے باہر نکل آیا۔اس کے بعد اس کا رخ دوسرے کمرے کی طرف ہوگیا۔ یہ کمرہ مہمان خانہ نظر آرہا تھا جہاں پر دو چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ا یک الماری بھی تھی جس پر تالا لگا ہوا تھا۔ سلطان اس کمرے کو بھی دیکھ کر باہر نکل آیا۔ اب اس نے تیسرے کمرے پر نگاہ ڈالی۔ یہ کمرہ اسٹور روم تھا جہاں پر کچھ ٹوٹی ہوئی کرسیاں اور میزپڑی ہوئی تھیں۔ چوتھے کمرے میں بھی کباڑ خانے کا ہی نقشہ تھا۔ ان چاروں کمروں کو دیکھ کر سلطان باہر نکل آیا۔ تبھی اس کی نظر برآمدے کے آخر میں بنے پانچویں کمرے کی طرف گئی۔ اس کے قدم اس پانچویں کمرے کو دیکھنے کے لیے بڑھے لیکن تبھی کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ بری طرح چونک کر پلٹا۔ سامنے وہ لڑکی کھڑی اسے دیکھ کر خوفناک انداز میں مسکرا رہی تھی۔اس کی دہشت ناک مسکراہٹ کو دیکھ کر سلطان کو اپنے رونگٹے کھڑے ہوتے محسوس ہوئے۔ اس کے جسم کا رواں رواں کانپ گیا۔ سلطان کا دل چاہا کہ ایک پل میں اس گھر سے بھاگ کھڑا ہولیکن وہ نہ چاہتے ہوئے بھی خود کو اس گھر کا بے بس قیدی محسوس کرنے لگا۔


٭٭٭٭٭
دھند کی دیوار
سادیہ کی آنکھ کھلی تو وہ درخت کے ایک کونے میں بے سد پڑی ہوئی تھی۔ اس نے حیران ہو کر اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں۔ اسے یاد آیا کہ بے ہوش ہونے سے پہلے وہ سب گاڑی سے نیچے اتر کر شہزاد اور ا ن کے اباجان شہباز احمد کو ڈھونڈ رہے تھے۔ اس نے آس پاس دیکھا تو وہ سمجھ گئی کہ اس وقت بھی وہ جنگل کے درمیان میں ہی ہے اور تنہا ایک کونے میں کافی دیر تک بے ہوش پڑی رہی ہے۔ گھڑی پر نظر ڈالنے پر اس کا چہرہ ست گیا۔ اس وقت شام ہو چکی تھی اور اندھیرا کافی بڑھ گیا تھا۔سادیہ نے ہمت سے کام لیتے ہوئے اپنی پوری طاقت جمع کی اور درخت کا سہارا لیتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔اس نے چند قدم چلنے کی ٹھانی اور ایک سمت میں بڑھتی چلی گئی۔اس کے لب پر یہی دعا تھی کہ یا تو اسے اس کے اباجان مل جائیں یا پھر اس کے بھائی اس کے پاس پہنچ جائیں۔ اس وقت وہ اس گھنے اورتاریک جنگل میں بالکل اکیلی تھی۔ کافی دیر تک چلنے کے بعد اس کا سانس پھولنے لگالیکن وہ اپنی پوری طاقت سمیٹے قدم بڑھارہی تھی۔تبھی اچانک!!!۔۔۔ وہ بری طرح چونک اُٹھی۔ خوف کی وجہ سے اس کے چہرے کی ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ ایک سانپ کی پھن کی آواز اس کے بالکل نزدیک سے آرہی تھی۔ اس نے خوف کے عالم میں زمین پر نظریں دوڑائیں۔ دوسرے ہی لمحے اس کے اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ ایک بہت لمبا اور چوڑا سانپ پھن پھیلائے اس کی طرف تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ سادیہ نے خوف کے عالم میں سانپ کی رفتار کا جائزہ لیا اور یہ اندازہ لگانے میں اسے دیر نہ لگی کہ سانپ کچھ ہی پل میں اس کے پاس پہنچ جائے گا۔اس نے ہمت سے کام لیتے ہوئے سانپ کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی اور فوراً کسی بڑے سے پتھر کی تلاش میں نظریں دوڑائیں لیکن یہ دیکھ کر اس کا رنگ بالکل زرد پڑگیا کہ آس پاس بڑا پتھر تو کیا چھوٹے چھوٹے کنکر بھی موجود نہ تھے اور سانپ بدستور اس کے طرف بڑھ رہا تھا۔ اب اس کے پاس بھاگنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔ دوسرے ہی لمحے وہ پوری قوت سے بھاگ کھڑی ہوئی۔ سانپ کے پھن کی آواز اسے بدستور سنائی دے رہی تھی اور وہ اپنی رفتار بڑھا رہی تھی لیکن کافی دیر تک بھاگنے کے بعد بھی جب اسے سانپ کے پھن کی آواز بدستور سنائی دیتی رہی تو وہ سمجھ گئی کہ سانپ جس قدر موٹا اور لمبا ہے اس کی رفتار اس سے بھی کئی گنازیادہ ہے۔ یہ حقیقت جان کر اسے اپنی موت بالکل سامنے نظر آنے لگی۔اب رک کر سانپ کا مقابلہ کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔آخر کار وہ ر ک کر پیچھے کی طرف پلٹی۔ سانپ ابھی کافی دور تھا لیکن اس کی رفتار یہ بتا رہی تھی کہ وہ بہت جلد اس کے پاس پہنچ کر اسے ڈس لے گا۔ ابھی وہ پریشانی کے عالم میں اس کا مقابلہ کرنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ سانپ اس کے بالکل قریب پہنچ گیا۔ دوسرے ہی لمحے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ سانپ کی جگہ اب وہ ایک اژدھابن چکا تھا۔سادیہ کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔اسے ایک بہت خوفناک خیال آیا تھا۔ اس نے فوراً اپنے خیال کی تصدیق کے لیے آیتہ الکرسی پڑھی اور پھر تین قل پڑھ کر اس اژدھے پر پھونک ماری۔ اگلے ہی لمحے اژدھا ایک دھواں میں تبدیل ہوگیا اور پھر ہوا میں تحلیل ہو کر کچھ ہی دیر میں وہاں سے غائب ہوگیا۔سادیہ کی آنکھوں میں خوف اور حیرت کے ملے جلے جذبات تھے۔وہ سہمے ہوئے انداز میں اس جگہ کو دیکھ رہی تھی جہاں ابھی کچھ دیر پہلے وہ سانپ نما اژدھا موجود تھا۔ اسے یقین ہوگیا کہ یہ سانپ یا اژدھا نہیں کوئی آسیبی مخلوق تھی۔اس وقت وہ خوف کی لہریں اپنی جسم میں دوڑتی ہوئی محسوس کر رہی تھی۔ تبھی ایک آواز نے اس کے لیے گرم صحرا میں پانی کا کام دیا۔ یہ آواز اس کے بھائی عرفان کی تھی۔ وہ آواز کی سمت پاگلوں کے سے انداز میں دوڑ پڑی۔ دوسرے ہی لمحے اسے اپنے تینوں بھائی عرفان عدنان اور عمران نظر آگئے۔ وہ تینوں باتیں کرتے ہوئے چل رہے تھے:۔
اباجان اور شہزاد بھائی کی تلاش میں نکلے تھے اور یہاں سادیہ اور سلطان بھی گم ہوگئے۔۔۔ اسے کہتے ہیں آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے‘‘ عمران کہہ رہا تھا۔
بلکہ اسے کہتے ہیں کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنہ‘‘ عدنان نے جلے کٹے انداز میں کہا۔ تبھی سادیہ دوڑتی ہوئے ان کے پاس آئی اور عرفان کے گلے لگ گئی۔عرفان کے چہرے پر خوشی اور بے قراری کے جذبات اُمڈ آئے۔ پھر اس نے سادیہ کو تھپکی دے کر دلا سا دیا اور کہنے لگا:۔
تم کہاں تھی۔۔۔ ہم تمہیں ہی ڈھونڈ رہے تھے۔۔۔ اور کیا سلطان تمہارے ساتھ نہیں ہے‘‘ عرفان نے بے تابانہ انداز میں کہا۔
میں تو تنہا ہی تھی۔۔۔اس خوفناک گھنے جنگل سے مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا۔۔۔ اچھا ہوا تم لوگ مل گئے‘‘ سادیہ ڈرے ڈرے انداز میں بولی۔
بھئی ہمیں نہیں معلوم تھا کہ تم اتنی ڈرپوک واقعے ہوئی ہو‘‘ عمران نے مذاق اُڑانے والے انداز میں کہا۔
سلطان بننے کی کوشش کر رہے ہو‘‘ سادیہ تلملا کر بولی۔
نہیں!۔۔۔ میں تو آج کل سلطان کی شاگردگی میں ہوں اس وجہ سے شوخ مزاج بن گیا ہوں‘‘ عمران نے مسکرا کر کہا۔تبھی وہ سب بری طرح اچھل پڑے۔انہیں لگا جیسے ان کے پیروں تلے زمین کھسک گئی ہو۔ ایک شیر کی دھاڑ کی آواز انہوں نے اپنے بالکل قریب محسوس کی تھی۔
شیر کی آواز سے پتا لگتا ہے کہ شیر ہمارے بالکل نزدیک ہی ہے۔۔۔ فوراً کسی جھاڑی میں چھپ جاؤ یا گھنے درخت پر چڑھ جاؤ۔۔۔ سادیہ تم میرے ساتھ آؤ‘‘ عرفان نے سخت لہجے میں انہیں حکم دیا۔ دوسرے ہی لمحے وہ سب بدحواسی کے عالم میں کسی جھاڑی یا درخت کی تلاش میں دوڑے لیکن ابھی ان کی نظریں گھنے درخت یا کسی جھاڑی کی تلاش میں ہی تھیں کہ انہیں نے شیر کی دل دوز دھاڑ کی آوازسنی۔ اس دھاڑ کی آواز میں گہری لرزش تھی جیسے وہ شیر کی آخری دھاڑ ہو۔ان سب نے حیرت کے عالم میں ایک دوسرے کو دیکھا۔ پھر تجسس سے وہ شیر کی آواز کی سمت بڑھے۔ ابھی انہوں نے کچھ ہی قدم طے کیے ہونگے کہ انہوں نے اپنے بالکل سامنے ایک شیر کو تڑپٹے ہوئے دیکھا اور پھران کی نظر شیر کے بالکل ساتھ لیٹے ایک لڑکے پر پڑی تو حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔یہ لڑکا ان کا بھائی سلطان تھا۔ دوسرے ہی لمحے وہ فوراً آگے بڑھے لیکن تبھی انہیں ایک زبردست جھٹکا لگا۔سلطان ہوا میں ہاتھ اٹھائے خلا میں باتیں کر رہا تھا اور پھر سلطان اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور باتیں کرتا ہوا ایک سمت کی طرف بڑھنے لگا۔ ان سب کی آنکھوں میں حیرت کا سمندر غوطے کھانے لگا۔ سلطان اکیلے ہی اکیلے کس سے باتیں کر رہا تھا؟ یہ سوال ان سب کے ذہنوں میں ہلچل مچانے لگا۔ پھر وہ سلطان کی طرف تیزی سے بڑھے لیکن تبھی سلطان اور ان کے درمیان گہری سفید دھند حائل ہوگئی۔ سلطان اس دھند میں چھپ کر رہ گیا لیکن ابھی بھی وہ انہیں نظر آرہا تھا۔ ان سب نے بیک وقت سلطان کو پکارا۔
سلطان۔۔۔ تنہا کہاں جارہے ہو۔۔۔ ہم لوگ یہاں ہیں‘‘ وہ سب حلق پھاڑ کر چلائے لیکن سلطان کے کان پر تو جوں تک نہ رینگی۔ وہ تو مستی کے عالم میں ایسے چل رہا تھا جیسے کوئی اس کے ساتھ موجود ہو لیکن وہاں تو کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ان سب نے پھر سلطان کو پکارا لیکن سلطان نے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ انہیں ایسا لگا جیسے سلطان کے اور ان کے درمیان یہ گہری دھند دیوار کا کام دے رہی ہو اور ان کی آواز اِس دھند سے ٹکرا کر واپس آجاتی ہوں اور سلطان تک پہنچتی ہی نہ ہوں۔ ان سب کی آنکھوں میں خوف کا سمندر موجھیں مارنے لگا۔ سلطان ان کے سامنے ان سے دور جا رہا تھا اور وہ پوری کوشش کے باوجود سلطان کو روک نہیں پارہے تھے۔ سادیہ اسے اس طرح دور جاتے دیکھ تڑپ اُٹھی لیکن بھلاسادیہ دور تک پھیلی ہوئی گہری دھند کی دیوار کے آگے کیاکر سکتی تھی۔تبھی انہوں نے سلطان کو اس سفید دھند میں پوری طرح غائب ہوتے دیکھا اور پھر آہستہ آہستہ دھند وہاں سے چھٹنے لگا۔ مکمل دھند چھٹ جانے کے بعد وہ پاگلوں کی طرح دوڑتے ہوئے اُس جگہ پر آئے۔انہیں نے حیرت سے اس جگہ کو دیکھا۔ وہاں اس وقت کوئی بھی نہیں تھا۔ سلطان وہاں سے اس طرح غائب ہوگیا تھا جیسے وہ سفید دھند اسے نگل گئی ہو۔ان سب کے جسموں میں خوف اورسنسنی کی ایک لہر دوڑ گئی اورپھر وہ سب پتھر کے بتوں کی مانند کھڑے، اُس جگہ کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگے جہاں ابھی کچھ دیر پہلے سلطان خلا میں باتیں کرتے ہوئے ان سب کی نظروں سے اوجھل ہوا تھا۔


٭٭٭٭٭
باقی آئندہ
٭٭٭٭٭
 

شاہد بھائی

محفلین
وہ کون تھی؟
مصنف :۔ شاہد بھائی
قسط نمبر - 4

لڑکی کی سختی
سلطان اس لڑکی کے گھر میں موجود کمروں کا جائزہ لے رہا تھا ۔ تبھی کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ بری طرح چونک کر پلٹا۔ سامنے وہ لڑکی کھڑی اسے دیکھ کر خوفناک انداز میں مسکرا رہی تھی۔اس کی دہشت ناک مسکراہٹ کو دیکھ کر سلطان کو اپنے رونگٹے کھڑے ہوتے محسوس ہوئے۔ اس کے جسم کا رواں رواں کانپ گیا۔ سلطان کا دل چاہا کہ ایک پل میں اس گھر سے بھاگ کھڑا ہولیکن وہ نہ چاہتے ہوئے بھی خود کو اس گھر کا بے بس قیدی محسوس کرنے لگا۔
اِدھر اُدھر گھو م پھر کر کیا تلاش کررہے ہیں....مجھے بھی بتائیے“لڑکی نے خوفنا ک انداز میں مسکرا کر کہا۔
کچھ نہیں ....میں تو بس آپ کو ڈھونڈ رہا تھا“ سلطان کی آواز میں کپکپا رہی تھی۔
میں تو آپ کے ساتھ ہی تھی .... بس ذرہ باورچی خانے میں گئی تھی “ لڑکی شریر انداز میں بولی جس پر سلطان اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔
آئیے .... میں آپ کو اپنا کمرہ دکھاتی ہوں جو اب آپ کا ہو جائے گا “ لڑکی نے عجیب بات کہی ۔ سلطان بری طرح چونکا۔
کیا مطلب !“ سلطان نے حیران ہو کر کہا۔
مطلب اب آپ اسے اپنا ہی کمرہ سمجھیں .... تکلف نہ کیجئے گا “ لڑکی نے ہنس کر وضاحت کی۔ اس کی ہنسی سلطان کو بہت خوف ناک لگی۔اس کے جسم میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی۔دوسرے ہی لمحے لڑکی نے سلطان کا ہاتھ پکڑلیا اور اسے پہلے والے کمرے میں لے آئی۔
یہ میرا کمرہ ہے “ لڑکی نے پلنگ پر بیٹھتے ہوئے کہااور سلطان کو بھی کھینچ کر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔
میں نماز پڑھنا چاہتا تھا“ سلطان نے ہچکچا کر کہا۔
نماز!“ اس لڑکی کے منہ سے حیرت کی زیادتی سے نکلا۔ پھر وہ سلطان کو ایسے بے یقینی کے انداز میں دیکھنے لگی جیسے اس نے کوئی بہت ہی قیمتی ہیرا مانگ لیا ہو ۔سلطان اس کے اس رد عمل پر ہکا بکا رہ گیا۔
جی ہاں ....میں نے نمازہی کہا ہے ....میں الحمداللہ مسلمان ہوں .... سورج غروب ہوگیا ہے اور اس وقت مغرب کی نماز کا وقت ہے “ سلطان کا لہجہ پختہ ہوگیا۔
نہیں .... وہ دراصل اکثر مسلمان باقاعدگی سے نماز نہیں پڑھنے لہٰذا مجھے لگا کہ آپ بھی نماز نہیں پڑھتے ہونگے “ لڑکی نے اپنے حواس پر قابو پا کر کہا۔
بالکل غلط لگا ہے آپ کو .... میں پانچ وقت کا نمازی ہوں .... اور پھر جب سے میں نے وہ حدیث سنی ہے کہ مومن اور کافر میں فرق ہی نماز ہے .... اور وہ قرآنی آیت جس میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ قیامت کے روز جنتی جہنمیوں سے پوچھیں گے کہ تمہیں کس چیز نے جہنم میں ڈال رکھا ہے تو وہ کہیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے .... ان آیات و حدیث کے بعد میں نے نمازکی پابندی شروع کر دی ہے “ سلطان کہتاچلا گیا۔
ٹھیک ہے مولوی صاحب .... آپ یہ اپنا بیان پھر کسی روز سنا دیجئے گا “لڑکی نے شوخ لہجے میں کہا۔
تو کیا اب میں نماز پڑھ لوں “ سلطان نے اجازت طلب کرتے ہوئے اٹھتے ہوئے کہا۔
نہیں !.... آپ اس گھر میں نماز نہیں پڑھ سکتے “ اس بار لڑکی کا لہجہ سرد ہوگیا۔سلطان حیران ہو کر اسے دیکھنے لگا جبکہ لڑکی کے چہرے پر سختی ہی سختی نظر آرہی تھی جیسے وہ سلطان کو نماز کسی صورت نہیں پڑھنے دے گی۔سلطان اس کے اس رویے پر شدید حیران تھا اور اس کا منہ مارے حیرت کے کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔

٭٭٭٭٭
شیطانوں کی رانی
مولوی عبدالرحمن کے ہاتھوں میں تسبیح تھی اور وہ تسبیح کے دانوں پر بلند آوا ز سے اللہ کا ذکر کر رہے تھے ۔ اس وقت وہ اپنے جھوپڑی نما گھر میں موجود تھے اور ان کے چہرے پر پریشانی کے گہرے آثار موجود تھے۔تبھی ان کی جھوپڑی کے دروازے پر دستک ہوئی ۔ مولوی عبدالرحمن اٹھے اور انہیں نے دروازہ کھولا۔ سامنے ان کا شاگرد محمودالحسن کھڑا پریشانی کے عالم میں ہاتھ مل رہا تھا۔
کیا بات ہے بیٹا .... تمہارے چہرے کے تاثرات بتارہے ہیں کہ تم کوئی اچھی خبر نہیں لائے “مولوی عبدالرحمن قدرے فکر مند لہجے میں بولے۔
”ہاں بابا .... پھر سے ایک دل دہلا دینے والے حادثہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آرہا ہوں .... ایک ٹرک ڈرائیور یہاں سے گزر رہا تھا کہ اسے جنگل میں کسی کے رونے کی آواز آئی .... اس نے ٹرک روکا اوررونے کی آواز کے بارے میں پتا کیا تو ایک آسیبی مخلوق اسے نظر آئی .... اور پھر!!! .... میری آنکھوں کے سامنے اس مخلوق نے اسے ختم کر دیا .... میں کچھ نہیں کر پایا بابا .... اس جنگل میں آسیبی واقعات اس قدر زیادہ ہوگئے ہیں کہ اب آپ کی تسبیحات کا بھی خاطر خواہ کوئی اثر نہیں ہو رہا “ محمودالحسن نے جذباتی لہجے میں کہا۔
مجھے معلوم ہے بیٹا .... آسیبی مخلوقات کے یہاں جمع ہونے کی کیا وجہ ہے .... وجہ ہے وہ شیطانی لڑکی .... تمام آسیبی اور جناتی گروہ کے لوگ اس لڑکی کے چیلے ہیں اور وہ ہی انہیں اس جنگل میں آنے کی دعوت دے رہی ہے کیونکہ وہ لڑکی خود بھی انسان نہیں ہے .... بلکہ وہ تمام شیطانوں کی رانی ہے .... وہ بھولے بھالے لڑکوں کو اپنی جال میں پھنسا کر انہیں اپنے گھر لے جاتی ہے .... اورپھراس کے بعداس کے گھر سے آج تک کوئی بھی لڑکا صحیح سلامت واپس نہیں آیا .... اب میرے یہاں بیٹھ کر کیے گئے اذکار بھی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا پارہے ہیں کیونکہ اس نے شیطانی طاقت بڑے شیطان سے لے رکھی ہے .... وہ میرے ہر کلام کا الٹا اثر کردیتی ہے “ مولوی عبدالرحمن پریشانی کے عالم میں بولتے چلے گئے۔
کیا آپ اُس لڑکی سے ہار مان چکے ہیں بابا“ محمودالحسن بوکھلائے ہوئے لہجے میں بولا۔
نہیں بیٹا.... اللہ کا کلام کبھی ہار نہیں مان سکتا.... وہ ایک نہ ایک دن ضرور میرے قبضے میں آئے گی“ مولوی عبدالرحمن نے سرد آہ بھری۔
وہ دن کب آئے گا بابا .... آخر اس جنگل میں کتنی اموات ہوگیں“ محمودالحسن بے چینی کے عالم میں بولا۔
وہ دن اس وقت ہی آئے گا جب کوئی اللہ کا ایسا نیک بندہ اِس جگہ کا رخ کرے گا جس کے پاس ایمانی طاقت ہوگی.... وہ اپنی ایمانی طاقت سے اُس لڑکی کے شر کو کچل کر رکھ دے گا .... مجھے بس کسی ایسے نیک بندے کی تلاش ہے .... پھر میرا ہر کلام اس لڑکی کے سر پر ہتھوڑے کی مانند پڑے گا اور اس کی ساری شیطانی طاقت کو تباہ کرکے رکھ دے گا“ مولوی عبدالرحمن پریقین لہجے میں بولے۔ ان کا شاگرد محمودالحسن انہیں ایسے دیکھنے لگا جیسے وہ اسے صرف دلاسا دے رہے ہوں اور ان کی بات میں کوئی سچائی نہ ہو لیکن مولوی عبدالرحمن کے چہرے پر یقین کی بجلیاں نظر آرہی تھیں۔

٭٭٭٭٭
سنسنی خیز لمحات
شہزاد اور شہباز احمد حیرت کے عالم میں گاڑی کے پاس کھڑے تھے ۔ان کے چہرے کی ہوائیاں اُڑی ہوئی تھیں۔اس وقت شہباز احمد کھوئے کھوئے انداز میں پچھلی سیٹ کو دیکھ رہے تھے جہاں ابھی کچھ دیر پہلے وہ اپنے بچوں کو چھوڑ کر گئے تھے۔ان کی آنکھوں میں ندامت اور حسرت صاف دیکھی جاسکتی تھی۔ شہزاد بھی پریشانی کے عالم میں انہیں دیکھ رہا تھا۔ تبھی ایک گاڑی پوری رفتارسے دوڑتی ہوئی ان کی طرف آئی۔ شہزاد نے اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے اس گاڑی کو ہاتھ دے کر روکنے کا اشارہ کیا اور مدد کے لیے پکارا۔
سنئے .... اِدھر .... گاڑی روکیے “ شہزاد یہ کہتے ہوئے سڑک کے درمیان آکھڑا ہوا۔ گاڑی کے ڈرائیور نے حیران ہوتے ہوئے گاڑی روک دی۔ شہباز احمد بھی حواس بحال کرتے ہوئے گاڑی کی طرف بڑھے۔ دونوں گاڑی کی کھڑکی سے اندر بیٹھے نوجوان شخص کو دیکھنے لگے:۔
ہماری مدد کیجئے .... ہم اس جنگل میں پھنس گئے ہیں .... ہم اپنے ریسٹ ہاؤس کے لیے نکلے تھے لیکن راستے میں ہماری گاڑی خراب ہوگئی.... ا ب ہم یہاں خوار ہو رہے ہیں “ شہباز احمد بولتے چلے گئے ۔ لڑکی سے ملنے والی بات وہ درمیان میں گول کر گئے تھے۔
ٹھیک ہے .... آپ میری گاڑی میں سوار ہو جائیے .... میں آپ کو آپ کی منزل تک پہنچا دوں گا “ نوجوان نے مسکرا کر کہا۔شہزاد اور شہباز احمد خوش ہوگئے ۔ شہباز احمد اگلی سیٹ کی طرف بڑھے اور شہزاد پچھلی سیٹ کی طرف لیکن تبھی نوجوان کی سرد آواز نے انہیں چونکا دیا۔ آپ دونوں پچھلی سیٹ پر ہی بیٹھیں .... اگلی والی سیٹ کسی اور کے لیے مخصوص ہے “ نوجوان نے نہایت سرد لہجے میں کہا۔ وہ دونوں ہکا بکا رہ گئے ۔ پھر شہزاد کے چہر ے پرمسکراہٹ پھیل گئی۔
اوہ ! .... کوئی بات نہیں .... آجائیے سر.... ہم پیچھے بیٹھ جاتے ہیں “ شہزاد نے پہلے اس نوجوان سے اور پھرشہباز احمد سے کہا اور پھر وہ دونوں اگلے ہی لمحے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے ۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا نوجوان، سڑک پر پوری رفتار سے گاڑی دوڑا رہا تھا۔ باہر سے ہوا کے گرم گرم تھپڑ ان کے چہرے پر پڑ رہے تھے۔ دوپہر ڈھل رہی تھی اور سورج کا رخ غروب ہونے کی سمت ہو چکا تھا البتہ اب بھی سورج کی تپش نے ان کا چہرہ پسینے سے بھر دیا تھا۔وہ صبح کے وقت اپنے گھر سے نکلے تھے اور اب دوپہر اور شام کے درمیان کا وقت ہوچلا تھا۔ انہیں اپنے بچوں کی کوئی خبر نہیں تھی۔ انہیں نے فیصلہ کیا تھا کہ ریسٹ ہاؤس پہنچ کر وہاں پاس میں ہی موجود پولیس اسٹیشن میں ان کی گمشدگی کی رپورٹ بھی درج کرائیں گے اورپولیس کے کچھ اہلکاروں کو ساتھ لے کر خود بھی اس سمت بچوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہونگے۔شہزاد اور شہباز احمد سوچوں میں گم خیالوں میں ڈوبے ہوئے تھے کہ تبھی!!! .... شہزاد کی نظر ریس کے پیڈل کی طرف گئی۔ دوسرے ہی لمحے اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ اس نوجوان شخص کا تو پاؤں ہی نہیں تھا اور ریس کا پیڈل خود بہ خود دبا ہوا تھا۔ شہزاد حیرت کے عالم میں یہ منظر دیکھنے لگا۔پھر اس نے شہباز احمد کو گاڑی کے پیڈل کی طرف دیکھنے کا اشارہ کیا ۔ انہیں نے حیران ہو کر نظریں اٹھائیں۔ اورپھر!!!.... ان کاچہرہ بھی دودھ کی طر ح سفید پڑ گیا۔
کیا ہوا آپ لوگوں کو .... یہی سوچ رہے ہیں نہ کہ میرے پاؤں نہیں ہیں پھر یہ گاڑی خود بہ خود کیسے چل رہی ہے “ نوجوان نے شیطانی مسکرا ہٹ کے ساتھ کہا۔ اس کی بات سن کر انہیں اپنے جسموں سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔
گاڑی روکو ورنہ میں تمہارا وہ حشر کروں گا کہ تمہاری روح بھی کانپ اٹھے گی “شہباز احمد گرج کر بولے۔
میں گاڑی کیسے روکوں .... میرے تو پیر ہی نہیں .... اور ویسے بھی آپ لوگ میرا کیا بگاڑ لو گے .... میری طرف ہاتھ تو بڑھا کر دکھاؤ“ نوجوان نے تمسخرانہ انداز میں کہا۔ دوسرے ہی لمحے شہزاد کو بھی تاؤ آگیا۔ اس نے نوجوان کی گردن کی طرف حملہ کیا۔ شہزاد کا ہاتھ پچھلی سیٹ سے ڈرائیونگ سیٹ کی سمت نوجوان کی گردن کی طرف آیا۔اور پھر !!! .... اس کا ہاتھ نوجوان کی گردن کو چھونے کے بجائے ڈرائیونگ سیٹ کی پشت سے ٹکرا گیا۔ شہزاد کو لگا کہ اس کا ہاتھ نوجوان کی گردن کی بجائے خلا میں سفر کرتا ہوا سیٹ کی پشت پر لگا ہے جبکہ درحقیقت شہزاد کا ہاتھ اس نوجوان کی گردن کے آر پار ہو کر سیٹ سے ٹکرایا تھا۔ شہزاد نے محسوس کرلیا کہ اس نوجوان شخص کا گاڑی میں کوئی وجود ہی نہیں ہے بلکہ یہاں صرف اس کی پرچھائی بیٹھی ہوئی گاڑی چلا رہی ہے ۔یہ حقیقت جان کر شہزاد کے چہرے کا رنگ زرد پڑنے لگا۔
کیا ہوا .... اس آدمی نے تمہارے ساتھ کیا کیا “ شہباز احمد حیران ہو کر بولے۔
کیا تم میں نے کچھ بھی نہیں .... بس آپ کے اس ملازم کو میرا اصلی روپ معلو م چل گیا ہے “ نوجوان نے ہنس کر کہا۔ اس کی ہنسی ان دونوں کے جسموں میں خوف کی لہر دوڑا گئی۔
بتاؤ شہزاد.... تم کچھ بولتے کیوں نہیں “ شہباز احمد نے شہزاد کو جھنجھوڑ تے ہوئے چلا کر کہا۔
سس ....سر .... یہ .... یہ شخص انسان نہیں ہے “ شہزاد کی آواز دور کسی کنویں سے آتی محسوس ہوئی۔دوسرے ہی لمحے شہباز احمدکے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ ان کی آنکھوں میں بے پناہ خوف دوڑ گیا۔ شہباز احمد اور شہزاد دونوں کے حلق مارے خوف کے خشک ہونے لگے۔ اس وقت ان کی زندگی ایک غیر انسانی آسیبی مخلوق کے ہاتھ میں تھی اور ان کی گاڑی جنگل کی سنسان سڑک پر پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی۔


٭٭٭٭٭
باقی آئندہ
٭٭٭٭٭
 

شاہد بھائی

محفلین
وہ کون تھی؟
مصنف :۔ شاہد بھائی
قسط نمبر - 5

غیر یقینی واقعات
سس۔۔۔سر ۔۔۔ یہ ۔۔۔ یہ شخص انسان نہیں ہے ‘‘ شہزادکی آواز نے شہباز احمد کے ہاتھوں کے طوطے اُڑا دئیے۔خوف کی ایک لہر ان کے جسم میں دوڑ گئی۔ خود شہزاد بھی پریشانی اور خوف کے پسینے میں ڈوبا ہوا تھا لیکن پسینے کے باوجود اس کے بدن کانپ رہا تھا۔ اس وقت ان کی زندگی ایک غیر انسانی آسیبی مخلوق کے ہاتھ میں تھی اور ان کی گاڑی جنگل کی سنسان سڑک پر پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی۔تبھی شہباز احمد چلا اُٹھے:۔
گاڑی کا دروازہ کھولو شہزاد ‘‘ شہباز احمد پوری قوت سے چلائے ۔ شہزاد کو جیسے ہوش آگیا۔ اس نے فوراً گاڑی کے دروازے کا لاک کھولا اور پھر وقت ضائع کیےبغیر گاڑی کا دروازہ کھول ڈالا۔ دوسرے ہی لمحے شہباز احمد اور شہزاد نے چلتی ہوئی گاڑی سے چھلانگ لگادی۔ وہ چھلانگ لگاتے ہی سڑک کی سخت زمین سے ٹکرائے۔ ان کے منہ سے گھٹی گھٹی چیخ نکلی۔ وہ سڑک پر گرتے ہی خودکو فوراً سنبھال نہ سکے کیونکہ جس گاڑی سے انہیں نے چھلانگ لگائی تھی اس کی رفتار بہت تیز تھی۔ وہ سڑک پر تیزی سے لڑھکنے لگے اور پھر !!!۔۔۔اچانک ان دونو ں کے حواس باساختہ ہوگئے ۔وہ ایک کھائی کی سمت تیزی سے بڑھ رہے تھے اور خود کو کسی طرح بھی کھائی کی طرف بڑھنے سے روک نہیں پارہے تھے۔ان کا جسم ان کے قابو میں نہیں تھا بلکہ پوری رفتار سے لوٹ لگاتا ہوا کھائی کی طرف جا رہا تھا ۔ اب ان کے حلق خشک ہونے لگے۔ موت انہیں اپنے بالکل قریب نظر آنے لگی۔تبھی ان دونوں نے بیک وقت کھائی کے بالکل قریب ایک دوسرے کے ہاتھ تھام لیے ۔ ہاتھ تھامتے ہی انہیں ایک زبردست جھٹکا لگا۔ جھٹکا لگتے ہی شہباز احمد اور شہزاد نے ایک پل میں اپنے جسموں پر اپنی گرفت برقرار کر لی۔ نتیجے کے طور پر وہ دونوں کھائی سے ایک انچ کے فاصلے پرخود کو روکنے میں کامیاب ہوگئے۔ اب وہ دونوں صحیح سلامت زمین پر پڑے تھے۔ان کے سانس پھول رہی تھے۔ پھر ان کے منہ سے یک زبان ہو کر نکلا:۔
اللہ تیرا شکر ہے ‘‘ ۔ واقعی یہ ایک غیبی مدد ہی تھی جس نے انہیں موت کے منہ سے نکال کر زندگی بخش دی تھی۔ کچھ وقت تک وہ یونہی زمین پر پڑے رہے ۔ پھر سب سے پہلے شہباز احمد اٹھے۔ انہیں نے شہزاد کو اپنے ہاتھ کے سہارے سے اٹھایا۔ اب وہ دونوں کھائی سے ہٹ کر دوبارہ سڑک کی طرف آئے۔ یہاں دور دور تک سناٹا چھایا ہوا تھا۔
اب ہماری مدد کون کرئے گا۔۔۔ اس جنگل میں تو ایک سے بڑھ کر ایک آسیبی مخلوقات سے سامنا ہورہا ہے ۔۔۔ پہلے وہ لڑکی اور اب یہ نوجوان آدمی جو درحقیقت ایک پرچھائی تھی۔۔۔مجھے یقین نہیں آرہا کہ ہم سب اس وقت اس خوفناک جنگل میں کتنی بری طرح پھنس چکے ہیں‘‘ شہزاد کی باتوں میں گہری مایوسی تھی۔
اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو شہزاد ۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ جس طرح ہم سب صحیح سلامت یہاں آئے تھے اس طرح صحیح سلامت یہاں سے نکل بھی جائیں گے ۔۔۔ مجھے اس خدا پر بھروسہ ہے جس کی رحمانی طاقت تمام شیطانی طاقتوں کو پل بھر میں ختم کر سکتی ہے ۔۔۔تمام شیطانی طاقتیں اس رب کے سامنے بے بس ہیں ۔۔۔ ہمیں اس وقت اس الرحیم و کریم اور رب العالمین سے دعا مانگنی چاہیے۔۔۔ میرا ایمان ہے کہ وہ ہمیں ان حالات میں تنہا نہیں چھوڑے گا ‘‘ شہباز احمد کا لہجہ پرامید تھا۔ ان کی باتوں میں جوش تھا۔ ہمت تھی۔ ان کے لہجے میں خدا پر یقین کا ایک ٹھاٹے مارتا ہوا سمندر نظر آرہا تھا۔پھر بے اختیارانہ طور پر ان کے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھ گئے۔شہزاد نے بھی انہیں دیکھ کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دئیے۔ابھی وہ دعا مانگ ہی رہے تھے کہ انہیں اچانک ایک زبردست جھٹکا لگا۔ ایک آواز نے جیسے ان کے افسردہ چہروں پر جوش کی ایک نئی روح پھونک دی۔ یہ آواز ان کے بچوں کی تھی جو کہ نزدیک سے ہی آرہی تھی۔ وہ دیوانے وار اس آواز کے تعاقب میں دوڑے۔ کچھ ہی پل میں انہیں نے عرفان ، عدنان ، عمران اور سادیہ کو جنگل کے دوسرے کنارے پر کھڑا پایا۔ وہ دونوں بے تابانہ انداز میں دوڑتے ہوئے ان کے پاس پہنچے لیکن ان سب کی حالت دیکھ شہزاد اور شہباز احمد کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ سب بتوں کے مانند ایسے کھڑے تھے جیسے ان کی زندگیاں کسی نے چھین لی ہوں اور ان کے جسم مردہ اور بے جان ہوچکے ہوں۔ شہباز احمد کی آواز نے انہیں گویا ہوش میں لایا۔
تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ۔۔۔ اور سلطان کہاں ہے ‘‘ شہباز احمد بے قراری کے عالم میں بولے۔
ابا جان !۔۔۔سلطان ہماری آنکھوں کے سامنے ۔۔۔‘‘ سادیہ بس اتنا ہی کہہ پائی اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس کی سسکیوں نے ماحول کو آبدیدہ کر دیا۔وہ اپنے بھائی کو اپنی آنکھوں کے سامنے جاتے دیکھ رہی تھی لیکن پھر بھی کچھ نہیں کر پائی تھی۔ اسی بات نے اس کے آنسوؤں سے چہرے کو تر کر دیا تھا۔ آنسوؤں کا ایک سمندر اس کے گالوں پر تیر رہا تھا اور اس کی آنکھیں مزید آنسو اُگلنے کو تیار تھیں۔
آخر کیا ہوا ہے سلطان کو ۔۔۔ تم سب خاموش کیوں ہو ‘‘ شہباز احمد بے تاب ہو کر بولے۔آخر ہمت کرکے عرفان نے انہیں ساری تفصیل کہہ سنائی کہ کس طرح سلطان کے اور ان کے درمیان دھندکی دیوار رکاوٹ بن گئی تھی اور کس طرح سلطان خلا میں باتیں کرتا ان سب کی نظروں کے سامنے سے غائب ہوگیا ۔ تفصیل سننے کے بعد شہباز احمد کے ماتھے پر گہری فکرمندی کی شکنیں نمودار ہوگئیں۔
اب ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ ہم ریسٹ ہاؤس پہنچ کر وہاں سے پولیس کی مدد حاصل کریں اور پھر دوبارہ سلطان کی تلاش میں یہاں آئیں‘‘ شہباز احمد نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ان سب نے سر ہلا دیا۔ دوسرے ہی لمحے وہ سب جنگل سے باہر نکلنے والے راستے کی طرف روانہ ہوگئے ۔ یہ وہی راستہ تھا جہاں سے شہباز احمد کچھ دیر پہلے عرفان اوردوسروں کی آواز سن کر ان کے پاس پہنچنے تھے۔ اسی راستے پر چلتے ہوئے وہ سب مرکزی سڑک پر آگئے ۔ یہاں دور دور تک سناٹا تھا۔ سورج غروب ہو رہا تھا اور تاریکی بڑھتی جارہی تھی۔ان حالات میں شہباز احمد چونک اٹھے۔ انہیں چونکتے دیکھ دوسرے حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے:۔
کیا ہوا ابا جان۔۔۔آپ کے چونکنے کی وجہ سمجھ نہیں آئی‘‘ عرفان الجھن کے عالم میں بولا۔
مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا ہے ۔۔۔ میرا خیال ہے ہمیں کسی گاڑی کو روک کر لفٹ لینے کی بجائے آس پاس کسی گھر کو تلاش کرنا چاہیے۔۔۔پھر اُس گھر کے مالک سے درخواست کرکے اُس گھر میں نماز پڑھ لیں گے ۔۔۔یہ زیادہ مناسب رہے گا ‘‘ شہباز احمدنے پرزور لہجے میں کہا جس پران سب نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ شہباز احمد اس نتیجے پرپہنچ کرمکان کی تلاش میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑانے لگے۔تبھی عرفان بری طرح اچھل پڑا۔ دوسرے اسے حیرت سے دیکھنے لگے:۔
’’کیا ہوا تمہیں ‘‘ شہباز احمد نے اسے گھور کر دیکھا۔
اباجان۔۔۔ سادیہ کہاں گئی ‘‘ عرفان نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔ دوسرے ہی لمحے وہ سب بھی بری طرح اچھلے۔ ان کی نگاہیں فوراً سادیہ کو ڈھونڈنے لگیں لیکن سادیہ تو کیا سادیہ کی پرچھائی بھی وہاں موجود نہیں تھی۔ سادیہ تو وہاں سے ایسے غائب ہوگئی تھی جیسے وہ یہاں کبھی تھی ہی نہیں۔ان سب کے چہرے کی ہوائیاں اُڑنے لگیں کیونکہ ابھی کچھ دیر پہلے وہ ان کے ساتھ ہی تھی لیکن اب وہاں سے غائب ہوچکی تھی ۔ اتنے کم وقت میں وہ کہاں جا سکتی تھی۔ یہ جنگل بھی آسیبی مخلوقات سے بھرا پڑا تھا۔ شہباز احمد اور شہزاد خود بھی ایک آسیبی شخص کا شکار ہوتے ہوتے بال بال بچے تھے۔ یہ سب سوچ کر انہیں سادیہ کی فکر ستانے لگی۔ اس جنگل میں غیر انسانی مخلوقات اور سادیہ کے اچانک غائب ہونے کا سوچ کر ان کے جسموں میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ گئی اور ان سب کے چہروں کا رنگ زرد پڑنے لگا۔

٭٭٭٭٭
شیطانی قہقہہ
سلطان حیران ہو کر اُس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جبکہ لڑکی کے چہرے پر سختی ہی سختی نظر آرہی تھی جیسے وہ سلطان کو نماز کسی صورت نہیں پڑھنے دے گی۔سلطان اس کے اس رویے پر شدید حیران تھا اور اس کا منہ مارے حیرت کے کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔
میں اس گھر میں نماز کیوں نہیں پڑھ سکتا۔۔۔آخر ایسی کیا بات ہے ‘‘ سلطان کے منہ سے حیرت کی زیادتی سے نکلا۔
وہ دراصل میں جب جب اس گھر میں نماز پڑھتی ہوں ۔۔۔ کچھ عجیب سے حادثے رونما ہو جاتے ہیں ۔۔۔ایک روز میں نماز پڑھ رہی تھی کہ گھر میں آگ لگ گئی۔۔۔ پھر بڑی مشکل سے اس آگ پر قابو پایا گیا۔۔۔پھر کچھ وقت تک میں نے نماز نہ پڑھی۔۔۔ آخر مجھے پھر یہ خیال آیا کہ نماز دوبارہ شروع کرنی چاہیے۔۔۔ میں نے پھر نماز شروع کی۔۔۔ ابھی میں نے اُس حادثے کے بعد پہلی نماز ہی شروع کی تھی کہ نماز کے دوران شدید زلزلے نے گھر کو ہلا کر رکھ دیا۔۔۔ میں نے فوراً نماز توڑ دی ۔۔۔ اسی وقت زلزلہ آنا بند ہوگیا۔۔۔ بس تب سے میں نے نماز پڑھنا چھوڑدی ہے اور میراآپ کو بھی یہ مشورہ ہے کہ اس گھر میں نماز نہ پڑھیں ۔۔۔ بلکہ یہ میرا مشورہ نہیں میری ضدہے ‘‘ لڑکی نے آخری الفاظ سلطان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شوخ لہجے میں کہے۔
میں نہیں مان سکتا کہ نماز پڑھنے سے حادثات رونما ہوتے ہوں ۔۔۔ بلکہ یہ میرا ایمان ہے کہ نماز مشکلیں دور کرتی ہے ۔۔۔ نہ کہ مشکلیں لاتی ہے ۔۔۔ جو آپ نے واقعات بتائے یہ تو اسی وقت ہو سکتے ہیں جب انسان رب العالمین سے دور ہو اور شیطان کے قریب ہو ۔۔۔ یا اس وقت ہوتے ہیں جب اللہ تعالی اپنے بندے سے اس قدر ناراض ہو کہ وہ نہ چاہے کہ بندہ اس کے حضور جھکے ۔۔۔آپ نے ایسے کون سے اعمال کیے ہیں جس کی وجہ سے اللہ آپ سے اس قدر شدید ناراض ہوگیا ہے ‘‘ سلطان نے لڑکی کو بری طرح گھور کر دیکھا۔
میں نے ایسے کوئی اعمال نہیں کیے ۔۔۔میں تو اللہ پر پورا ایمان رکھتی ہوں ‘‘ لڑکی بوکھلا کر بولی۔
مجھے نظر تو نہیں آرہا۔۔۔ جو شخص یہ کہتا ہو کہ نماز پڑھنے سے مشکلیں آتی ہیں اس کا اللہ پر بھلا کیا ایمان ہوگا۔۔۔ ا س کاایمان تو مکڑی کے جالے کی طر ح ہے جو پل بھر میں ختم ہوجاتا ہے ‘‘ سلطان نے سخت لہجے میں کہا۔
آپ اتنے نیک نمازی تو معلوم نہیں ہوتے ۔۔۔ آپ تو مجھے بہت شریر لگتے ہیں‘‘ لڑکی نے بات گھمانے کی کوشش کی۔
شریر تو میں بہت ہوں لیکن جہاں بات اللہ کی اور میرے ایمان کی ہو وہاں مجھے مذاق بالکل پسند نہیں ‘‘ سلطان نہایت سرد آواز میں بولا۔
آخر ایک وقت کی نماز قضا ہوجائے گی تو کون سی قیامت آجانی ہے ۔۔۔ آپ میرے ساتھ وقت گزاریے نہ ‘‘ لڑکی نے اب رومانوی انداز میں کہا۔
قطعاً نہیں ۔۔۔ میں نماز کے لیے جارہا ہوں ۔۔۔ آپ مجھے روک سکتی ہیں ۔۔۔ تو روک لیجئے ‘‘ یہ کہتے ہوئے سلطان نے کمرے سے باہر کی طرف قدم بڑھا دئیے۔ اس لڑکی کی آنکھوں میں الجھن دوڑ گئی۔ وہ پریشانی کے عالم میں سلطان کو جاتے ہوئے دیکھتی رہی لیکن اس کے ایمان کی قوت نے لڑکی کی ساری طاقت چھین لی تھی۔ سلطان کمرے سے باہر قدم اٹھا رہا تھا۔ تبھی سلطان کا سر بری طرح چکرایا۔ آس پاس کا منظر اسے دھندلا نظر آنے لگا۔ اس نے اپنے چہرہ کو ایک جھٹکا دیا اور آنکھیں ملیں لیکن اس کا سر بدستور چکرا تا رہا۔دوسرے ہی لمحے اسے دنیا گھومتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور وہ جھومتا ہوا زمین پر آگرا ۔ اگلے ہی پل اس نے بے ہوشی کی وادی میں قدم رکھ دیا۔
جو کافی میں نے تمہیں دی تھی اس نے اثر دکھا ہی دیا۔۔۔اب میری شیطانی طاقت تمہاری ایمانی قوت کو کچھ ہی وقت میں مٹا کر رکھ دے گی‘‘ لڑکی کا ایک شیطانی قہقہہ کمرے میں گونج اٹھا ۔اور پھر!!!۔۔۔ وہ خوفناک انداز میں سلطان کی طرف بڑھنے لگی۔

٭٭٭٭٭
خونخوار نگاہیں
سادیہ ان سب کو چھوڑ کر جنگل کی طرف نکل آئی تھی۔ جب اس نے اپنے ابا جان شہباز احمدکی یہ بات سنی کہ وہ پہلے ریسٹ ہاؤس جاکر پولیس کی مدد لیں گے پھر یہاں واپس آکر سلطان کو تلاش کر یں گے تو وہ پریشان ہوگئی تھی۔ اب اپنے بھائی سلطان کو خطرے میں چھوڑ کر خود ریسٹ ہاؤس جانا اس کے لئے ناممکن نہ تھا۔لہٰذا وہ دوسروں کے ساتھ جانے کی بجائے اپنے بھائی کی تلاش میں جنگل کی طرف آگئی تھی۔ اس نے یہ فیصلہ بڑی مشکل سے کیا کیونکہ اس طرح اپنے اباجان اور باقی بھائیوں کو بتائے بغیر آنا بھی اس کے لئے آسان نہیں تھا لیکن اگر وہ ان کو بتا دیتی تو وہ کبھی بھی اس کو دوبارہ جنگل کی طرف جانے کی اجازت نہ دیتے۔ لہٰذا وہ دل پر پتھر رکھ کر اپنے بھائی سلطان کی تلاش میں جنگل کے اس کنارے پر آگئی جہاں انہوں نے سلطان کو دھند میں غائب ہوتے دیکھا تھا۔ جہاں سلطان غائب ہوا تھا اس جگہ پہنچ کر وہ آس پاس کا جائزہ لینے لگی۔ یہاں سے جنگل تو ختم ہور ہا تھا لیکن ایک ویران پتھریلا راستہ شروع ہورہاتھا۔ سادیہ نے ایک پل بھی دیر نہ کی اور اس پتھریلے راستے پر قدم جما دئیے۔سورج غروب ہو چکا تھا اورسادیہ کافی تھکان محسوس کر رہی تھی۔ اس عالم میں اسے فکر تھی تو صرف اپنے بھائی سلطان کی! ۔ اپنے بھائیوں کے لیے وہ جان بھی دے سکتی تھی اور سلطان تو اس کا سب سے لاڈلا بھائی تھا۔ اگرچہ سلطان اس سے عمر میں ایک سال بڑا تھا لیکن وہ سلطان کو چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز رکھتی تھی کیونکہ سلطان بچپن سے ہی بچکانی حرکتیں کرتا آیا تھا اور اب بڑا ہونے کے بعد بھی اس کی حرکتیں نہیں بدلی تھیں۔یہی وجہ تھی کہ سادیہ سلطان کو تمام بھائیوں سے بڑھ کر پیارکرتی تھی۔ کافی دیر تک وہ پتھریلے راستے پر چلتی رہی ۔پتھریلے راستے پر گہری تاریکی میں چلنا بھی کافی دشوار تھا لیکن وہ بھی ہمت ہارنے والی نہ تھی۔ آخرخدا خدا کرکے پتھریلا راستہ ختم ہوا او رپھر اچانک!!!۔۔۔ اسے ایک بہت بڑا پرانے طرز کا بنا ہوا بنگلہ نظر آیا۔ بنگلے کو دیکھ اس کی ساری تھکاوٹ دور ہو گئی اور وہ جوش سے بھر گئی۔ اب اسے سلطان تک رسائی زیادہ دور نظر نہیں آرہی تھی۔اس نے بنگلے کے صدر دروازے کو کھلا ہوا پایا ۔ یہ دیکھ کر اسے یقین ہوگیا کہ خدا بھی اس کے ساتھ ہے ۔ اب اس نے دیر کرنا مناسب نہ سمجھی اور بنگلے کے صدر دروازے کے اندر داخل ہوگئی۔ اندر ایک اجڑا ہوا باغ تھا اور تھوڑے سے فاصلے پر بنگلے کا اندرونی دروازہ تھا جو اندر سے بند تھا۔ سادیہ نے وہ ویران باغ عبور کیا اور اندرونی دروازے کے پاس پہنچ گئی۔ دروازے کے ساتھ ہی گھنٹی کا بٹن لگا ہوا تھا۔ یہ بنگلہ جتنا پرانا تھا گھنٹی بھی اتنی ہی پرانی معلوم ہوتی تھی۔ سادیہ نے جیسے ہی گھنٹی کا بٹن دبایا دور کہیں بھاری گھنٹے کی آواز سنائی دی۔ سادیہ کے لئے ا ب ایک پل بھی کاٹنا مشکل ہورہا تھا۔ وہ بے چینی سے دروازے کھلنے کا انتظار کر رہی تھی۔ اور پھر !!!۔۔۔ دروازہ کھل گیا۔دروازے کی جھری سے ایک لڑکی کا چہرہ باہر آیا۔ اس لڑکی کے چہرے پر بھیانک مسکراہٹ نا چ رہی تھی۔ اس کی مسکراہٹ دیکھ کر سادیہ کو اپنے رونگٹے کھڑے ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔ مارے خوف کے اس کا حلق خشک ہونے لگا۔لڑکی نے اس کی حالت دیکھ کر بھنورے چڑھا لیں اور اسے خوفناک انداز میں دیکھا۔
کیا بات ہے ‘‘ لڑکی نے پھاڑ کھانے والے انداز میں کہا۔
میرا بھائی کہاں ہے ‘‘ سادیہ کے منہ سے پھنسی پھنسی آواز نکلی۔ اس کے چہرے کا رنگ اُڑتا جارہا تھا اور اس کی حالت ایسی ہوگئی تھی جیسے اس کے بدن کا سارا خون خشک ہوگیا ہو۔ یہاں وہ لڑکی اسے خونخوار نگاہوں سے گھور رہی تھی۔

٭٭٭٭٭
باقی آئندہ
٭٭٭٭٭
 

شاہد بھائی

محفلین
وہ کون تھی؟
مصنف :۔ شاہد بھائی
قسط نمبر - 6

خوف کی لہر
شہباز احمد ،شہزاد ، عرفان ، عمران او ر عدنان کے ساتھ سڑک پر کھڑے پریشانی کے عالم میں سادیہ کو ڈھونڈ رہے تھے۔کچھ وقت پہلے سادیہ ان کے ساتھ تھی لیکن اب اچانک نہ جانے کہاں غائب ہوگئی تھی۔ ایسے میں عمران کہنے لگا:۔
میں اس وقت کو کوس رہا ہوں جب ہم نے ریسٹ ہاؤس کے سفر کا فیصلہ کیا ۔۔۔سب سے پہلے سلطان اس جنگل میں ہماری آنکھوں کے سامنے سے غائب ہوگیا۔۔۔ اور اب سادیہ نہ جانے کہاں چلی گئی‘‘ عمران حسرت زدہ لہجے میں بولا۔
وقت کو کوسنے سے کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ یہ سب ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے ۔۔۔ ہم سے ضرور کوئی ایسی غلطی ہوگئی ہے جس سے اللہ ہم سے ناراض ہوگیا ہے ۔۔۔اب میں سوائے مغرب کی نماز پڑھنے کے اور کوئی کام نہیں کروں گا‘‘ شہباز احمد اٹل اور سخت لہجے میں بولے۔دوسرے ہی لمحے انہوں نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں۔ کچھ دور انہیں ایک جھوپڑی میں روشنی جلتی ہوئی نظر آئی۔ان کا چہرہ جذبۂ ایمانی سے بھر گیا اور پھر وہ اس جھوپڑی کی سمت قدم اٹھانے لگے۔ ان سب نے بھی شہباز احمد کا ساتھ دیا۔ کچھ دیر تک چلنے کے بعد وہ جھوپڑی کے دروازے کے پاس پہنچ گئے۔ شہباز احمد نے آگے بڑھ کر دروازے پر دستک دی۔کچھ لمحوں بعد دروازہ کھل گیا۔ دروازے پر ایک شریف و نیک صفت انسان کا نورانی چہرہ نظر آیا۔ اُن نیک صفت انسان کے چہرے پر سنت رسول ؐ کے مطابق داڑھی سجی ہوئی تھی اور سر پر انہوں نے اِمامہ باندھ رکھا تھا۔شہباز احمد، ان کے بچوں اور شہزاد کو دیکھ کر انہوں نے گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا جیسے وہ ان سب کو برسوں سے جانتے ہوں۔ شہباز احمد اور دوسرے اُن نیک صفت انسان کو حیران ہو کر دیکھنے لگے۔اُن سب کے حیران چہرے نیک صفت انسان سے چھپے نہ رہ سکے:۔
مجھے معلوم ہے کہ آپ سب کیو ں حیران ہورہے ہیں۔۔۔کہ نہ میں آپ سب کو جانتا ہوں نہ آپ میں سے کوئی مجھے جانتا ہے پھر میں آپ سے اس قدر گرم جوشی سے کیوں مل رہا ہوں ۔۔۔ اس بات کا جواب یہ ہے کہ یہ میرے نبیؐ کا طریقہ ہے ۔۔۔ وہ اپنے ہر مہمان کے ساتھ مجھ سے لاکھوں کروڑوں گنا زیادہ خوش اخلاقی سے ملتے تھے ۔۔۔چاہے اس مہمان کو جانتے ہو یا نہ جانتے ہو ۔۔۔اور نہ صرف اس مہمان سے اچھے طریقے سے ملتے تھے بلکہ اُس کی مہمان نوازی بھی کرتے تھے ۔۔۔ اپنے گھر مبارک میں آپؐ کے پاس دو وقت کا کھانابھی نہ ہوتا تھا لیکن مہمان کو کبھی بھوکا جانے نہیں دیتے تھے ۔۔۔ میں بھی اپنی نبی کریم رحمتہ اللعالمین ؐ کی سنت پر عمل کر رہا ہوں ‘‘ وہ نیک شخص بولتے چلے گئے ۔
اپنا تعارف بھی کرائیں ۔۔۔آپ کانام کیا ہے ‘‘ شہباز احمد کھوئے کھوئے لہجے میں بولے۔
مجھے مولوی عبدالرحمن کہتے ہیں‘‘ مولوی عبدالرحمن دھیمے انداز میں مسکرائے۔
میں شہباز احمد ہوں۔۔۔ یہ میرے بچے عرفان ، عدنان ، عمران اوریہ میرا اسسٹنٹ شہزاد ہے ‘‘ شہباز احمد نے اپنا اور ان سب کا تعارف کرایا۔پھر مولوی عبدالرحمن اُن سب کو اپنے جھوپڑی نما عبادت خانے کے اندر لے آئے۔گھر کے اندر صرف چھوٹا سا برآمدہ ہی تھا۔برآمدے میں ایک چارپائی بچھی ہوئی تھی اور ساتھ ہی غسل خانہ اور باورچی خانہ تھا۔ گویا یہ برآمدہ خواب گاہ یعنی سونے والے کمرے کا کام بھی دے رہا تھا۔مولوی عبدالرحمن نے اُنہیں چارپائی پر بیٹھا کر خود نیچے زمین پر بیٹھنا چاہا جس پر شہباز احمد بھی چارپائی پر بیٹھے نہ رہ سکے اور زمین پر آبیٹھے۔ ان کے دیکھا دیکھی بچے اور شہزاد بھی نیچے بیٹھ گئے۔ شہباز احمد نے مولوی عبدالرحمن کو مخاطب کیا:۔
مولوی صاحب ۔۔۔ہم مغرب کی نماز ادا کرنا چاہتے ہیں‘‘ شہباز احمد جھجک کر بولے۔
جی ضرور۔۔۔ میں نے بھی نماز اداکرنی ہی ہے ۔۔۔ ہم باجماعت نماز پڑھ لیتے ہیں‘‘ مولوی عبدالرحمن خوشی سے بھرے ہوئے لہجے میں بولے ۔اُن سب نے سر ہلادیا اور اٹھ کھڑے ہوئے ۔ مولوی عبدالرحمن نے اُنہیں غسل خانے کادروازہ دکھا دیا۔ وہ سب ایک ایک کرکے وضو کر آئے ۔ سب سے آخر میں مولوی عبدالرحمن وضوکرنے گئے اوروضو کرکے مقتدی کی صف میں آکھڑے ہوئے اور شہباز احمد کو امام کی جگہ کھڑا کرنا چاہا لیکن شہباز احمدنے یہ کسی صورت مناسب نہ سمجھا اور مولوی عبدالرحمن کو امام کی جائے نماز پر زبردستی لے آئے اور خود شہزاد ، عرفان، عدنان اور عمران کے ساتھ پیچھے صف میں کھڑے ہوگئے۔ شہباز احمد نے اقامت کہی اور پھر مولوی عبدالرحمن نے مغرب کی نماز پڑھانا شروع کی۔نماز مکمل ہوجانے کے بعد انہوں نے سنتیں ادا کیں ۔ پھر مولوی عبدالرحمن کے پاس شہبازاحمد جھولی پھیلا کر حسرت بھرے انداز میں بیٹھ گئے۔
یہ کیا شہباز صاحب۔۔۔جھولی اللہ کے سامنے پھیلائیے۔۔۔ مجھ جیسے گناہ گار بندے کے سامنے نہیں‘‘ مولوی عبدالرحمن نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔
مجھے آپ اللہ کے ولی لگتے ہیں۔۔۔میری پریشانیوں کی نجات کے لئے اللہ کے حضور دعا کیجئے ‘‘ شہباز احمد بھرائے ہوئے لہجے میں بولے۔
کیسی پریشانی۔۔۔ آپ مجھے تفصیل سے بتائیے‘‘ مولوی عبدالرحمن نرم لہجے میں بولے۔
مولوی صاحب ۔۔۔ ہم آج صبح اپنے ریسٹ ہاؤس کے لیے نکلے تھے۔۔۔ راستے میں ہماری گاڑ ی خراب ہوگئی اور ہم سب اِس جنگل میں پھنس گئے۔۔۔میں اور میرا اسسٹنٹ شہزاد گاڑی سے نیچے اترے تاکہ کسی سے مدد مانگ کر گاڑی ٹھیک کر ا سکیں ۔۔۔ابھی ہم نیچے اترے ہی تھے کہ ہمیں ایک لڑکی نظر آئی۔۔۔ اُس نے کہا کہ اُس کے والدین کھو گئے ہیں اور اُس نے ہم سے اُن کو تلاش کرنے کے لئے مدد مانگی۔۔۔ہم دونوں اُس کے پیچھے چل پڑے۔۔۔ ابھی کچھ ہی وقت ہوا تھا کہ وہ لڑکی رک گئی اور اس نے ہم سے کہا کہ اب اُسے ہماری مدد نہیں چاہیے۔۔۔ ہم واپس چلے جائیں۔۔۔ابھی ہم حیران ہی تھے کہ وہ لڑکی وہاں سے غائب ہوگئی‘‘ شہباز احمد نے اتنا ہی کہا تھا کہ مولوی عبدالرحمن بول اٹھے۔
اوہ !!!‘‘ مولوی عبدالرحمن کے منہ سے پریشانی کے عالم میں نکلا۔
پھر جب ہم واپس اپنی گاڑی کی طرف آئے تو میرے پانچوں بچے گاڑی کے اندر نہیں تھے۔۔۔ نہ جانے وہ کہاں چلے گئے تھے ۔۔۔ بعد میں مجھے عرفان نے بتایا کہ یہ لوگ گاڑی سے باہر نکل آئے تھے اور باہر نکلتے ہی بے ہوش ہوگئے تھے ۔۔۔ بے ہوش ہونے سے پہلے انہوں نے کسی لڑکی کی آواز سنی تھی‘‘ شہباز احمد یہاں تک کہہ کر سانس لینے کے لئے رکے۔
کیا !!!‘‘ مولوی عبدالرحمن نے بوکھلائے ہوئے انداز میں کہا۔
جی ہاں۔۔۔پھر اس کے بعد میں اور شہزاد ابھی گاڑی کے پاس ہی کھڑے تھے کہ ایک گاڑی ہمارے پاس آکر رکی ۔۔۔ ہم نے اس گاڑی میں بیٹھے شخص سے لفٹ مانگی۔۔۔ اس نے ہمیں لفٹ دے دی۔۔۔ اب ہم ریسٹ ہاؤس پہنچ کر پولیس کی مدد حاصل کرنے کا سوچ رہے تھے ۔۔۔ تبھی ہماری نظر اس گاڑی کے ڈرائیور کے پاؤں پر پڑی۔۔۔ اس کے تو پاؤں ہی نہیں تھے ۔۔۔ پھر شہزاد نے اس کی گردن پر ہاتھ رکھا تو اس کا ہاتھ خلا میں جھولتا ہوا سیٹ کی پشت سے ٹکرا گیا۔۔۔ یعنی اس شخص کا گاڑی میں کوئی وجود ہی نہیں تھا۔۔۔ ہم دونوں نے ہمت نہ ہاری اور گاڑی کا دروازہ کھول کر چلتی ہوئی گاڑی سے چھلانگ لگادی۔۔۔ لیکن ہم اللہ کے فضل سے بچ گئے ۔۔۔ پھر ہمیں ہمارے چاروں بچے عرفان ، عدنان، عمران اور سادیہ مل گئے ۔۔۔ سلطان ان کے ساتھ نہیں تھا ۔۔۔ جب میں نے سلطان کے بارے میں پوچھا ۔۔۔ تو انہوں نے بتایا کہ سلطان ان سب کی آنکھوں کے سامنے خلا میں باتیں کرتا ہوا اوجھل ہوا ہے ۔۔۔ وہ خلا میں ایسے باتیں کر رہا تھا جیسے اس کے ساتھ کوئی موجودہو اور پھر وہ دھند میں غائب ہوگیا۔۔۔ اِن لوگوں نے سلطان کو آواز بھی دی لیکن سلطان نے اِن کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا‘‘ شہباز احمد بغیر رکے بولے جارہے تھے۔
اوہ !۔۔۔ تو آپ کا بیٹا اُس کا اگلا شکار بنا‘‘ مولوی عبدالرحمن کی زبان سے کھوئے کھوئے انداز میں نکلا۔
کیا مطلب !‘‘ وہ سب بری طرح چونکے۔
کچھ نہیں ۔۔۔ آپ اپنی بات جاری رکھئے‘‘ مولوی عبدالرحمن کے ماتھے پر گہری شکنیں ابھر آئی تھیں۔
پھر ہم سب جنگل سے باہر نکل آئے ۔۔۔ تبھی ہمیں احساس ہوا کہ ہمارے ساتھ سادیہ تو ہے ہی نہیں۔۔۔ہم سب حیران و پریشان اسے تلاش کرنے لگے لیکن وہ اچانک نہ جانے کہاں چلی گئی تھی۔۔۔ پھر میں نے مغرب کی نماز ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور آپ کے گھر آگیا‘‘ یہاں تک کہہ کر شہباز احمد خاموش ہوگئے۔
اپنی بیٹی کی تصویر تو ہوگی آپ کے پاس‘‘ مولوی عبدالرحمن نے ساری بات سن کر عجیب سے انداز میں کہا۔
جی ہاں ۔۔۔ میرا موبائل میں ہے ۔۔۔ لیکن کیوں ۔۔۔ تصویر کی کیا ضرورت ہے‘‘ شہباز احمد نے تعجب سے پوچھا۔
ضرورت ہے ۔۔۔ آپ مجھے وہ تصویر دکھائیے‘‘ مولوی عبدالرحمن مستحکم لہجے میں بولے۔ شہباز احمدنے حیرانگی کے عالم میں موبائل نکالا اور موبائل میں سادیہ کی تصویر نکال کر مولوی عبدالرحمن کو تصویر دکھا دی۔ وہ کچھ وقت تک سادیہ کی تصویر غور سے دیکھتے رہے۔آخر کہنے لگے:۔
آپ کو اپنی بیٹی کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ وہ جہاں بھی ہوگی صحیح سلامت ہوگی۔۔۔ مجھے اس کے چہرے پر ایمانی قوت نظر آئی ہے جو شایدکہ کسی بھی لڑکی کے چہرے پر نظر نہیں آتی۔۔۔ آپ کی بیٹی ضرور رب العزت کو محبوب ہے ۔۔۔ اِس وجہ سے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ کی بیٹی جہاں بھی ہوگی رب کی حفاظت میں ہوگی۔۔۔اب آپ اپنے بیٹے سلطان کی تصویر دکھائیے‘‘ مولوی عبدالرحمن نے آخر میں تھوڑا سی پریشانی کے ساتھ کہا۔ شہباز احمد نے موبائل میں ہی سلطان کی تصویر بھی نکالی اور اُنہیں وہ تصویر دکھائی۔ تصویر میں بھی سلطان کی آنکھوں میں شرارت تھی اور اس کے ہونٹوں پر ایک شوخ مسکراہٹ نا چ رہی تھی۔ سلطان کی تصویر دیکھ کر مولوی عبدالرحمن نہایت فکر مند نظر آنے لگے۔
کیا ہوا مولوی صاحب۔۔۔ آپ کے چہرے کے تاثرات کیوں بدل گئے ‘‘ شہباز احمد بے چین ہو کر بولے۔
آپ کا بیٹا سلطان بہت بڑی مشکل میں ہے ۔۔۔ اُسے وہ لڑکی لے گئی ہے۔۔۔ کہ جس کے گھر آج تک جو بھی لڑکا گیا ہے اُس لڑکے کا چہرہ دنیا پھر کبھی نہیں دیکھ سکی ہے ۔۔۔ آپ بھی اپنے بیٹے کا چہرہ زندگی میں کبھی نہیں دیکھ سکیں گے‘‘اس بار مولوی عبدالرحمن کا لہجہ نہایت سرد ہوگیا۔اُن کی بات سن کر اُن سب کے جسموں میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی اور اُن سب کے چہرے دودھ کی طرح سفید پڑ گئے۔ اُنہیں لگا کہ واقعی وہ وقت جب سلطان دھندمیں غائب ہوا تھا وہ اُسے زندگی میں آخری بار دیکھ رہے تھے۔

٭٭٭٭٭
موت کا کمرہ
سلطان کی آنکھ کھلی تو وہ اُس لڑکی کے کمرے میں پلنگ پر لیٹا ہوا تھا۔ وہ بدحواسی کے عالم میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ دماغ پر زور دینے پر اُسے بے ہوش ہونے سے پہلے کے واقعات یاد آنے لگے کہ کس طرح اُس نے اُس لڑکی سے نماز پڑھنے کی اجاز ت مانگی تھی اور ابھی وہ نماز پڑھنے جاہی رہا تھا کہ اچانک وہ بے ہوش ہوگیا تھا۔
آخر میں بے ہوش کیسے ہوگیا۔۔۔ یہ لڑکی ضرور کوئی شاطر کھلاڑی ہے۔۔۔اِس نے مجھے اپنے جال میں پھنسا لیا اور میں بھی اس کی کشش کی وجہ سے اِس کے ساتھ آگیا۔۔۔ مجھے تو واپس جنگل میں جاکر اباجان اور اپنے بھائیوں اور سادیہ کو تلاش کرنا تھا ۔۔۔مجھے ابھی جانا ہوگا‘‘ سلطان بڑبڑایا اورپھر اُٹھ کھڑا ہوا۔ تبھی اسے یاد آیا کہ اُس نے تو مغرب کی نماز ادا کرنی تھی۔
اِس سے پہلے کہ وہ لڑکی مجھے دوبارہ آکر نماز سے روکے ۔۔۔ میں نماز پڑھ لیتا ہوں‘‘ یہ کہتے ہوئے سلطان واش بیسن کی طرف وضو کرنے چلا گیا۔ اچھی طرح وضو کرنے کے بعد اُس نے نماز ادا کی اور پھر نماز کے بعد دعا مانگنے لگا:۔
یا اللہ ۔۔۔ مجھے میرے والدسے۔۔۔میرے بھائیوں سے۔۔۔ اور میری بہن سے ملا دے۔۔۔ یا اللہ اگر اس لڑکی میں شر ہے تو مجھے اس کے شر سے بچا ۔۔۔ اور اگر یہ لڑکی خیر کے ارادہ رکھتی ہے تو پھر مجھے اِس لڑکی کے ذریعے میرے والد اور میرے بھائیوں تک پہنچا دے۔۔۔آمین‘‘ دعا مانگنے کے بعد سلطان نے چہرہ پر ہاتھ پھیرا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ اب وہ اُس لڑکی کو تلاش کرنا چاہتا تھا تاکہ یہ جان سکے کہ اُس کے ارادے کیا ہیں؟ وہ کس مقصد کے تحت اُسے اپنے گھرلے کر آئی ہے؟ ان سوالوں کے جواب جاننے کے لئے سلطان کمرے سے باہر نکل آیا۔ پھر وہ لڑکی کو پکارتا ہوا اِدھر اُدھر گھومنے لگا۔ تبھی اس کی نظریں اُس پانچویں کمرے کی طرف گئی جسے وہ اِس سے دیکھ نہیں سکا تھا کیونکہ اُسی وقت لڑکی وہاں آگئی تھی۔ اُس کمرے کو دیکھ کر وہ چونک اُٹھا۔
شاید کہ وہ لڑکی اِسی کمرے میں ہو ۔۔۔اور اگر نہ بھی ہوئی تب کوئی بات نہیں۔۔۔ اِس بہانے اِس کمرے کا بھی دیدار ہو جائے گا‘‘ سلطان نے شریر انداز میں کہا۔دوسرے ہی لمحے وہ کمرے کا دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوگیا۔اور پھر !!!۔۔۔ آگلا لمحہ اُس کی زندگی کا سب سے خوفناک ترین لمحہ تھا۔سلطان دھک سا رہ گیا ۔ اُس کے اوپر کا سانس اوپراور نیچے کا نیچے رہ گیا۔خوف سے اس منہ سے ایک بھیانک چیخ نکلی۔کمرے کے اندر لائن سے بارہ لاشیں رسی سے لٹکی ہوئی تھیں۔اُن لاشوں میں سارے کے سارے نو عمر لڑکے تھے جن کی عمر سلطان کی عمر کے برابر یعنی اٹھارہ سال ہی تھی۔ اُن لاشوں کو دیکھ کر سلطان خوف کے پسینے میں نہا گیا۔ اُس کی زبان ساکت ہو گئی اور سانس گلے میں اٹک کر رہ گئی۔جن رسیوں پروہ بارہ لاشیں لٹکی ہوئی تھیں اُن رسیوں کے ساتھ ایک رسی خالی بھی لٹکی تھی جو کہ یقیناً سلطان کا انتظار کررہی تھی۔ اُس رسی کو دیکھ کر سلطان کو اپنی موت بالکل سامنے نظر آنے لگی۔ اس کا چہرہ مارے خوف کے زرد پڑنے لگا۔

٭٭٭٭٭
باقی آئندہ
٭٭٭٭٭
 

شاہد بھائی

محفلین
وہ کون تھی؟
مصنف :۔ شاہد بھائی
قسط نمبر - 7
شیطانی طاقتیں
کیا ہوا مولوی صاحب۔۔۔ آپ کے چہرے کے تاثرات کیوں بدل گئے ‘‘ شہباز احمد بے چین ہو کر بولے۔
آپ کا بیٹا سلطان بہت بڑی مشکل میں ہے ۔۔۔ اُسے وہ لڑکی لے گئی ہے ۔۔۔ کہ جس کے گھر آج تک جو بھی لڑکا گیا ہے اس کا چہرہ دنیا پھر کبھی نہیں دیکھ سکی ہے ۔۔۔ آپ بھی اپنے بیٹے کا چہرہ زندگی میں کبھی نہیں دیکھ سکیں گے‘‘ اس بار مولوی عبدالرحمن کا لہجہ نہایت سرد ہوگیا۔ان کی بات سن کر ان کے جسموں میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی اور اُن سب کے چہرے دودھ کی طرح سفید پڑ گئے۔ اُنہیں لگا کہ واقعی وہ وقت جب سلطان دھند میں غائب ہوا تھا وہ اُسے زندگی میں آخری بار دیکھ رہے تھے۔
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں مولوی صاحب ۔۔۔آپ کی زبان سے مایوسی کی باتیں ہمیں اور مایوس کردیں گی ‘‘ شہباز احمد بوکھلا کر بولے۔
میں آپ کو مایوس نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔ بلکہ اللہ کی رحمت سے تو کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے ۔۔۔ مایوسی تو گناہ ہے ‘‘ مولوی عبدالرحمن نے ٹھنڈی سانس بھری۔
پھر اب ہم کیا کریں ۔۔۔ سلطان کو کیسے اُس لڑکی کے شر سے بچائیں ‘‘ اس بار شہزاد نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
قرآن پاک کے ذریعے ۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ لڑکی نوعمر لڑکوں کو کہاں لے کر جاتی ہے ۔۔۔ اُس کا گھر کہاں ہے ۔۔۔ میں آپ کو اُس کے گھر لے جا سکتا ہوں لیکن اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتا کہ ہم کامیاب ہو جائیں گے ۔۔۔ کیونکہ آج تک جو بھی عامل یا عالم وہاں گئے ہیں ان کو کسی نے واپس آتے نہیں دیکھا ۔۔۔ میں بھی اُس لڑکی کے گھر کے دروازے تک نہیں گیا۔۔۔ بس مجھے اُس گھر کا راستہ پتا ہے جہاں وہ نوعمر لڑکوں کو لے کر جاتی ہے ‘‘ مولوی عبدالرحمن نے صاف لہجے میں کہا۔
کیا اُس گھر کا راستہ جنگل کے دوسرے کنارے کی طرف سے جاتا ہے ’’ عرفان نے سوالیہ نظروں سے اُن کی طرف دیکھا۔
جی ہاں ۔۔۔بالکل ۔۔۔ لیکن تم کیسے جانتے ہوکہ اُس کا گھر کہاں ہے ‘‘ مولوی عبدالرحمن مارے حیرت کے بولے۔
ہم نے سلطان کو دھند میں وہیں سے غائب ہوتے دیکھا ہے ‘‘عرفان نے حسرت بھرے انداز میں کہا۔
ٹھیک ہے مولوی صاحب ۔۔۔ اب ہم دیر نہیں کریں گے ۔۔۔ میں فوراً اُس لڑکی کے گھر کی طرف جانا چاہتا ہوں ‘‘ شہباز احمد نے پختہ لہجے میں کہا۔
لیکن وہاں جانے سے پہلے آپ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ وہ لڑکی انسان نہیں ہے ۔۔۔ایک آسیبی مخلوق ہے ۔۔۔ یہ تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں جوڑے بنائے ہیں ۔۔۔یعنی مذکر و مونث ۔۔۔اس طرح جنات میں بھی جوڑے کی شکل میں مذکر و مونث بنائیں ہیں ۔۔۔ وہ لڑکی جنات میں جنس کے اعتبار سے مونث ہے ۔۔۔ جنات میں بھی کچھ جنّ شیطانی ذہنیت اور طاقت رکھتے ہیں ۔۔۔ اُس لڑکی نے بھی بڑے شیطان سے وہ ساری طاقتیں لے رکھی ہیں ۔۔۔لہٰذا اُس کا مقابلہ کرنا اور آپ کے بیٹے کو چھڑانا تقریباً ناممکن ہوگا ‘‘مولوی عبدالرحمن روانگی کے عالم میں کہتے چلے گئے۔اُن کی بات سن کر اُن سب کے چہرے برسوں کے بیمار نظرآنے لگے اور اُنہیں اپنی شکست یقینی معلوم ہوئی۔


٭٭٭٭٭
موت کے منہ میں
سادیہ اس وقت اُس لڑکی کے سامنے کھڑی تھی۔ وہ لڑکی اسے کھا جانے والے انداز میں گھور رہی تھی۔
میری بھائی کہاں ہے ‘‘ سادیہ کے منہ سے پھنسی پھنسی آواز نکلی۔ اس کے چہرے کا رنگ اُڑتا جارہا تھا اور اُس کی آنکھیں خوف کے مارے زرد پڑ گئی تھیں۔دوسری طرف وہ لڑکی اُسے خونخوار نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
تو تم اپنے بھائی سے ملنا چاہتی ہو ۔۔۔ آؤ میں تمہیں تمہارے بھائی سے ملواتی ہوں ‘‘ لڑکی کے چہرے پر بھیانک مسکراہٹ ناچنے لگی ۔ سادیہ یہ دیکھ کر کانپ گئی۔ دوسرے ہی لمحے اُس لڑکی نے سادیہ کا ہاتھ پکڑا اور اُسے بجلی کی سی تیزی سے دروازے کے اندر لے گئی۔ اور پھر !!!۔۔۔سادیہ کو شدید سردی کا احساس ہونے لگا لیکن وہ لڑکی سادیہ کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے اُسے گھر کے ہال میں ہوتے ہوئے اوپر سیڑھیوں کے پاس لے آئی اور سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ سادیہ نے محسوس کر لیا کہ اُس لڑکی کی گرفت ناقابل حد تک مضبوط ہے ۔ وہ کسی صورت بھی اس سے اپنا ہاتھ نہیں چھڑا سکتی لہٰذاُ س نے لڑکی کے ساتھ چلنے میں ہی عافیت جانی ۔ وہ لڑکی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اُسے برآمدے میں لے آئی اور پھر سب سے پہلے والے کمرے کا رخ کرنے لگی۔ تبھی!!!۔۔۔ وہ دونوں چونک اُٹھے۔اُنہیں سلطان کی چیخ سنائی دی تھی اور آواز جس کمرے سے آئی تھی اس کمرے پر نظر پڑتے ہی اس شیطانی لڑکی کی آنکھوں میں الجھن دوڑ گئی۔ پھر وہ بنا دیر کئے سادیہ کو ساتھ لیتی ہوئی اُس پانچویں کمرے میں داخل ہوگئی۔ یہ وہی کمرہ تھا جہاں سے سلطان کے چیخنے کی آوازسنائی دی تھی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی سادیہ کی بھی چیخ نکل گئی۔ کمرے میں موجود بارہ نوعمر لڑکوں کی لاشیں رسیوں سے لٹک رہی تھیں۔ اُن سب لاشوں کے چہرے دودھ کی طرح سفید پڑ چکے تھے ۔سلطان پر نظر پڑتے ہی سادیہ کے چہرے پر جوش کی بجلیاں نظر آنے لگیں۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکی تھی اور سلطان تک پہنچ گئی تھی۔سلطان بھی اُسے دیکھ کر خوشی میں نہا گیا۔
تو تم بھی یہاں پہنچ گئی۔۔۔ یہ لڑکی تمہیں لے کر آئی ہے؟ ‘‘ سلطان نے بچوں کی طرح خوش ہو کر کہا۔
نہیں !۔۔۔ میں تمہیں تلاش کرتے ہوئے خود یہاں آئی ہوں ‘‘ سادیہ نے مسکرا کر کہا۔
اب تم دونوں اوپر پہنچنے کی تیاری کرو۔۔۔ سمجھ گئے ‘‘ وہ لڑکی غراکر بولی۔اس کی غراہٹ سن کر وہ دونوں لرز اُٹھے۔ان کے چہروں پر خوف کے مارے سفیدی چھا گئی۔
اِس پروگرام میں کچھ تبدیلی نہیں ہو سکتی ‘‘ سلطان نے خود کو سنبھالتے ہوئے شریر لہجے میں کہا۔
کیا مطلب !‘‘ وہ لڑکی چونک اُٹھی۔
مطلب یہ کہ آپ ہمیں اپنے گھر مہمان بنا لیں ۔۔۔اورپھر کچھ وقت ہمارے ساتھ گزاریں ۔۔۔ ہمیں اچھے اچھے کھانیں پکاکر کھلائیں۔۔۔ ہمیں پیاری پیاری کہانیاں سنائیں ۔۔۔ اگر ایسا کوئی پروگرام بن جائے تو کیا ہی بات ہے ‘‘سلطان شرارت بھرے انداز میں کہتا چلا گیا۔
توبہ ہے سلطان۔۔۔ ان حالات میں بھی مذاق سے باز نہیں آتے ‘‘ سادیہ تلملا کر بولی۔
میں اب تم لوگوں کو مزید وقت نہیں دے سکتی۔۔۔ تم دونوں مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔۔۔ اور اے لڑکی! ۔۔۔سب سے پہلے موت تمہاری ہوگی ‘‘ اُس شیطانی لڑکی نے سادیہ کی طرف دیکھ کر کہا۔ دوسرے ہی لمحے اُس کے دونوں ہاتھ سادیہ کے گلے کی طرف بڑھے۔ سلطان اُس کی نیت سمجھ کر سٹپٹا گیا۔ سادیہ بھی مارے خوف کے پیچھے ہٹی۔ وہ لڑکی سادیہ کی طرف بے رحمی کے ساتھ بڑھی۔ سلطان اُس لڑکی کو ظالمانہ انداز میں سادیہ کی طرف بڑھتے دیکھ تڑپ اُٹھا۔ اپنی بہن کو وہ موت کے منہ میں کیسے جانے دے سکتا تھا؟ سلطان نے سادیہ کو بچانے کے لئے آگے بڑھنا چاہا لیکن تبھی !!!۔۔۔اُسے لگا جیسے اُس کے قدم زمین سے چپک کر رہ گئے ہوں۔اُس نے پوری طاقت لگا لی لیکن ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکا ۔ دوسری طرف وہ شیطانی لڑکی سادیہ کا گلا گھوٹنے کے لئے آگے بڑھ رہی تھی ۔اس وقت اُس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔دوسری طرف سادیہ کی حلق خوف کے مارے خشک ہوتا جا رہا تھا۔

٭٭٭٭٭
قرآنی دائرہ
اس لڑکی نے بھی بڑے شیطان سے وہ ساری طاقتیں لے رکھی ہیں ۔۔۔لہٰذا اس کا مقابلہ کرنا اور آپ کے بیٹے کو چھڑانا تقریباً ناممکن ہوگا ‘‘مولوی عبدالرحمن روانگی کے عالم میں کہہ رہے تھے۔ اُن کی بات سن کر اُن سب کے چہرے برسوں کے بیمار نظرآنے لگے اور اُنہیں اپنی شکست یقینی معلوم ہوئی۔ ایسے میں بھی شہباز احمد کے چہرے پر ایمانی جذبہ دیکھنے لائق تھا۔
مولوی صاحب ۔۔۔ شاید آپ مجھے نہیں جانتے ۔۔۔ میرا یہ ایمان ہے کہ دنیا کی ہر شیطانی مخلوق اُس رب العالمین کے سامنے بے بس ہے ۔۔۔ اُس اللہ رب العزت کے لئے ہر چیز ممکن ہے ۔۔۔اور قرآن ایسی شیطانی مخلوقات پر ہتھوڑے کی طرح برستا ہے اور اُنہیں کچھ پل میں خاک میں ملا کر رکھ دیتا ہے ۔۔۔ لہٰذا اب آپ صرف چلنے کی تیاری کریں ‘‘ شہباز احمد فیصلہ کن انداز میں بولے۔ دوسرے ہی لمحے وہ اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ مولوی عبدالرحمن بھی اُٹھے۔ انہیں نے اپنی جھوپڑی میں موجود الماری میں سے تقریباً چھے قرآن مجید نکالے اور اُن سب کے ہاتھوں میں ایک ایک قرآن مجید تھما دئیے۔ خود بھی مولوی عبدالرحمن نے ایک قرآن اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا۔پھرانہیں نے اپنی تسبیح اپنی جیب میں ڈالی اور اُن کے ساتھ جھوپڑی سے باہر نکل گئے۔اور پھر!!!۔۔۔ مولوی عبدالرحمن ایک سمت کی طرف تیز قدموں کے ساتھ بڑھنے لگے۔ وہ سب اُن کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ یہاں تک کہ وہ اس جگہ پہنچ گئے جہاں سلطان دھند میں اُن سب کی نظرو ں کے سامنے سے غائب ہوا تھا۔ وہاں پہنچ کر بھی مولوی عبدالرحمن نہ رکے اور چلتے رہے ۔آخر پتھریلا راستہ شروع ہوگیا۔ وہ سب حیرانگی کے عالم میں ان کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ اُن کے دل دھک دھک کر رہے تھے اور سانس تیز رفتاری سے چل رہی تھی۔ تبھی وہ سب چونک اُٹھے۔ وہ اپنی منزل تک پہنچ چکے تھے ۔ان سب کی نظروں کے سامنے ایک پرانے طرز کا بنا ہوا بنگلہ تھا جس کا صدر دروازہ مکمل طور پر کھلا ہوا تھا۔ اندر ایک اجڑا ہوا باغ تھا جس سے سبزہ اِس طرح غائب تھا جیسے بلی کے سامنے سے چوہا غائب ہو جاتا ہے۔ مولوی عبدالرحمن صدر دروازے سے اندر داخل ہوئے اور اُجڑے ہوئے باغ کی زمین پر غور سے دیکھتے ہوئے رک گئے۔ انہیں رکتے ہوئے دیکھ کر وہ بھی حیرت کے عالم میں وہاں ٹھہر گئے اور مولوی عبدالرحمن کو دیکھنے لگے:۔
کیا دیکھ رہے ہیں مولوی صاحب۔۔۔اس زمین پر کیا ہے ‘‘ شہباز احمد بے چین ہو کر بولے۔
کچھ نہیں ۔۔۔ بس دیکھتے جائیے ‘‘ مولوی عبدالرحمن دھیمے انداز میں مسکرائے اور پھر اس زمین پر گھٹنے کے بل بیٹھ کر اپنی انگلی سے زمین پر گول دائرہ بنانے لگے۔ دائرہ بنانے کے ساتھ ساتھ وہ کچھ پڑھ بھی رہے تھے ۔ اپنا قرآن انہیں نے شہزاد کے ہاتھ میں دے دیا تھا۔ دائرہ بنا کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس طرح انہوں نے چھے دائرے بنائے۔ ہر دائرہ کے بنانے کے بعد وہ اس دائرہ پر کچھ پڑھ کر پھوکتے بھی تھے۔ اپنے کام سے فارغ ہو کر وہ اُن کی طرف مڑے:۔
آپ سب اِن دائروں میں کھڑے ہوجائیں اور قرآن پاک سے سورۃ البقرہ کا پہلا رکوع اور آخری رکوع تلاوت کرتے جائیں ‘‘ مولوی عبدالرحمن نے حکم دیتے ہوئے کہا۔ ان سب نے ان کی ہدایت پر عمل کیا اور دائرے میں کھڑے ہوگئے۔ شہباز احمد نے مولوی عبدالرحمن کی آنکھوں میں دیکھا۔ اس وقت ان کی آنکھوں میں روحانیت کا غلبہ تھا۔مولوی عبدالرحمن خود بھی دائرہ میں آکھڑے ہوئے اور پھر دھیمی آواز سے سورۃ البقرہ کی تلاوت کرنے لگے۔ اُن سب نے بھی تلاوت شروع کر دی۔ کچھ دیر تک تلاوت کرنے کے بعد مولوی عبدالرحمن کی سخت آواز اُن کے کانوں سے ٹکرائی:۔
اب آپ سب چپ رہیں گے ۔۔۔ صرف میں تلاوت کروں گا۔۔۔ آپ سب میری تلاوت کو غور سے سنیں گے ‘‘ مولوی عبدالرحمن نے نہایت سرد لہجے میں کہا۔ وہ سب یک لخت چپ ہوگئے۔ مولوی عبدالرحمن نے باآواز بلند تلاوت شروع کردی۔ دوسرے ہی لمحے ان سب کو دل دوز چیخوں کی آواز سنائی دینے لگیں۔ ان چیخوں کو سن کر ان سب کے رونگٹے کھڑے ہوگئے جبکہ مولوی عبدالرحمن بدستور بلند آواز سے سورۃ البقرہ کی تلاوت کر رہے تھے۔

٭٭٭٭٭
لڑکی کا آخری وار
وہ شیطانی لڑکی سادیہ کا گلا دبا کر اُسے موت کے گھاٹ اتارنے کے لئے تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔دوسری طرف سادیہ کی آنکھوں میں خوف کا سمندر تھا۔ وہ بے پناہ خوف کے ساتھ پیچھے ہٹتی جا رہی تھی ۔ یہاں تک کہ وہ دیوار سے جا ٹکرائی۔ یہ دیکھ کر شیطانی لڑکی کے چہرے پرمسکراہٹ دوڑگئی۔ دوسری طرف سلطان بے چین ہوگیا۔ وہ اس وقت خود کو بالکل بے بس محسوس کررہا تھا۔ پوری کوشش کے باوجود اس کے قدم زمین پر چسپاں ہو کر رہ گئے تھے۔ تبھی شیطانی لڑکی کے دونوں ہاتھ سادیہ کے گلے کی طرف گئے لیکن اسی وقت اس کے منہ سے ایک گھٹی گھٹی چیخ نکلی۔ سادیہ اور سلطان حیران ہو کر اُسے دیکھنے لگے۔ یہاں وہ لڑکی سادیہ کو چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئی اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں میں ڈال کر چلانے لگی۔
میر ے گھر کے باغ میں قرآن پڑھا جا رہا ہے ۔۔۔ یہ کون شخص ہے جس نے اتنی جرأت کی ہے ‘‘ لڑکی نے دھاڑ کر کہا۔ دوسرے ہی لمحے انہیں نے بھی کان لگا دئیے۔ اور پھر وہ بھی سورۃ بقرہ کی دھیمی دھیمی آواز سننے لگے۔ لیکن تبھی !!!۔۔۔ کسی ایک شخص نے با آواز بلند سورۃ البقرہ پڑھنا شروع کر دی۔ دوسرے ہی لمحے اُس لڑکی کے چہرے پر گھبراہٹ نظر آنے لگی۔ وہ بری طرح چلا نے لگی اور اپنی دونوں انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھوسنے لگی۔ سادیہ اور سلطان نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر ان دونوں نے سورۃا لفلق اور سورۃ الناس کی تلاوت بلند آواز سے شروع کر دی۔ اب تو وہ شیطانی لڑکی اس حد تک پریشان اور بے چین ہوگئی کہ اپنا سر دیوار پر مارنے لگی۔ یہاں تک کہ اس کے سر سے خون جاری ہوگیا۔ پھر وہ بدحواسی کے عالم میں کمرے سے نکلی اور نیچے کی طرف بھاگی۔ سادیہ اور سلطان بھی اُس کے پیچھے دوڑے۔ سلطان کے قدم اب با آسانی زمین سے اٹھ رہے تھے۔ کچھ دیر پہلے اس کے قدم زمین سے چپک گئے تھے لیکن اب وہ زمین پر بے حد آسانی سے دوڑ رہا تھا۔ آگے پیچھے دوڑتے ہوئے وہ دونوں لڑکی کی طرف بڑھے۔ یہاں وہ لڑکی سیڑھیاں اترتے ہوئے گھر کے دروازے پر پہنچی اور دروازہ کھول دیا۔ سلطان اور سادیہ بھی اُس کے پیچھے آئے ۔اور پھر !!!۔۔۔ سلطان ،سادیہ اور وہ لڑکی تینوں چونک اُٹھے۔ سامنے مولوی عبدالرحمن ،شہباز احمد، شہزاد، عرفان، عمران اور عدنان کے ساتھ کھڑے سورۃ البقرہ کی تلاوت کر رہے تھے۔ سلطان سادیہ اور وہ لڑکی تینوں گھر سے باہر نکل آئے۔ شہباز احمد اور شہزاد اس لڑکی کو دیکھ کر فوراً پہچان گئے کہ یہ وہی لڑکی ہے جو اُنہیں جنگل میں ملی تھی جب ان کی گاڑی خراب ہوگئی تھی۔ لڑکی نے خونخوار نگاہوں سے مولوی عبدالرحمن کی طرف دیکھا اور پھر آگے بڑھ کر ان پر حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ منہ کے بل زمین پر گری۔ وہ اس دائرہ کے اندر داخل ہی نہ ہو سکی جو مولوی عبدالرحمن نے بنایا تھا۔وہ اُٹھ کراس حسرت کے ساتھ مولوی عبدالرحمن کو دیکھنے لگی کہ وہ تلاوت روک دیں کیونکہ قرآن کا ایک ایک لفظ اس پر ہتھوڑے کی طرح برس رہا تھا لیکن مولوی عبدالرحمن بدستور سورۃ البقرہ کی تلاوت کئے جارہے تھے۔آخر اس لڑکی کے اوسان خطا ہوگئے ۔ اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں اور چہرہ بھیانک ہوگیا۔اس لڑکی نے اپنے بال کھول دئیے اور شیرنی کی طرح غرانے لگی۔ اس کی یہ حالت دیکھ وہ سب کانپ اُٹھے۔لڑکی کے چہرے پر جنونیت چھا گئی۔ اس نے سلطان کی طرف پلٹ کر دیکھا اور پھر بجلی کی سی تیزی سے آگے بڑھ کر اس کے گلے پر دونوں ہاتھ جما دئیے اور خونخوار انداز میں دھاڑی۔
اگر قرآن کی تلاوت بند نہ کی تو میں اس لڑکے کو ختم کردوں گی‘‘ اس لڑکی نے گرج کر کہا۔ اُس کے اس اقدام پر ان سب کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔بازی ایک بار پھر اس کی طرف پلٹ گئی تھی۔ انہیں نے بے بس نگاہوں سے مولوی عبدالرحمن کی طرف دیکھا ۔ مولوی عبدالرحمن نے نفی میں سر ہلایا لیکن شہباز احمد اپنے بیٹے کو اس طرح موت کے منہ میں جاتے دیکھ کر تڑپ اُٹھے ۔
تلاوت روک دیجئے مولوی صاحب‘‘ شہباز احمد چلائے۔مولوی عبدالرحمن نے بے چارگی کے عالم میں شہباز احمد کو، پھراس لڑکی کو اور اس کے ہاتھوں میں جکڑے سلطان کو دیکھا ۔ اب انہیں اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آیا کہ قرآن کی تلاوت بند کردیں ۔ اس وقت یہ لمحے اُن سب پر قیامت کی طرح تھے اور ان کی آنکھوں میں بے چینی اور بے قراری صاف دیکھی جاسکتی تھی۔

٭٭٭٭٭
باقی آئندہ
٭٭٭٭٭
 

شاہد بھائی

محفلین
وہ کون تھی؟
مصنف :۔شاہد بھائی
قسط نمبر :-8

لڑکی کی واپسی
شہباز احمد اپنے بیٹے سلطان کو اس طرح موت کے منہ میں جاتے دیکھ کر تڑپ اُٹھے۔
تلاوت روک دیجئے مولوی صاحب‘‘ شہباز احمدنے پوری قوت سے چلاکر کہا ۔مولوی عبدالرحمن نے بے چارگی کے عالم میں شہباز احمد کو دیکھا۔ پھراُس لڑکی کو اور اُس کے ہاتھوں میں جکڑے سلطان کو دیکھا۔ اب اُنہیں اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آیا کہ قرآن کی تلاوت بند کردیں۔ اس وقت یہ لمحے ان سب کا دل دہلا رہے تھے اور سب کی آنکھوں میں بے بسی اور بے قراری صاف دیکھی جاسکتی تھی۔ آخر مولوی عبدالرحمن تلاوت روکنے لگے لیکن تبھی اچانک اُس شیطانی لڑکی کے منہ سے گھٹی گھٹی چیخ نکلی۔ وہ سب حیرت زدہ رہ گئے۔ سادیہ نے پیچھے سے اُس کی ٹانگ پر اپنا گھٹنا پوری قوت سے مارا تھا۔ لڑکی ابھی سنبھل بھی نہ سکی تھی کہ سادیہ کا ایک بھرپور مکا اُس کی گدی پر لگا۔ اُس کے منہ سے کراہ نکلی۔ سلطان کے لئے اتنا موقع کافی تھا۔ وہ بھڑک کر بھاگا اور لڑکی کی پہنچ سے دور نکل گیا۔ یہاں مولوی عبدالرحمن اب تک تلاوت جاری رکھے ہوئے تھے۔ لڑکی کے منہ سے اب مسلسل کراہیں اور درد بھری آوازیں نکل رہی تھیں۔ آخر اُس کے منہ سے ایک آخری دل دہلا دینے والی چیخ نکلی اور پھر وہ دوسرے ہی لمحے زمین پر گری۔ زمین پر گرتے ہی اُس کی زبان سے نکلا:۔
شیطان سلامت رہے ‘‘لڑکی نے کراہتے ہوئے آخری جملہ کہا اور پھروہ ، ان سب کی آنکھوں کے سامنے ، اچانک وہاں سے غائب ہوگئی۔ وہ سب دھک سے رہ گئے۔ اور پھر مارے حیرت کے اُس جگہ کو دیکھنے لگے جہاں کچھ دیر پہلے وہ لڑکی گری تھی لیکن اب وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ مولوی عبدالرحمن احتیاطاً سورۃ البقرہ پڑھتے رہے۔ کافی دیر کے بعد انہوں نے تلاوت روک دی۔ اب ان سب کی آنکھیں آسمان کی طرف شکرانے کے طور پر اُٹھیں۔
یااللہ ۔۔۔ تیرا شکر ہے ‘‘ اُن سب کے منہ سے یک زبان ہو کر نکلا۔ پھر وہ سب اس بنگلے کے صدر دروازے سے ہوتے ہوئے باہر نکل گئے۔ اس وقت اُن سب کی زبانیں کنگ ہو کر رہ گئی تھیں جیسے اُن کے پاس بات کرنے کے لئے کچھ بھی نہ ہو۔ اسی عالم میں وہ مولوی عبدالرحمن کی جھوپڑی تک پہنچ گئے۔ جھوپڑی کے اندر داخل ہوتے ہی سلطان بول پڑا:۔
میں بھی عجب شے ہوں ۔۔۔ اُس لڑکی کے بنگلے سے نکل کر۔۔۔ مولوی صاحب کی اِس جھوپڑی میں بھی کس قدر خوشی محسوس کررہا ہوں‘‘ سلطان نے چہک کر کہا۔
پہلا جملہ واقعی خوب تھا ۔۔۔ تم عجب شے ہی ہو‘‘ سادیہ مسکرائی۔
اور نہیں تو کیا ۔۔۔ کوئی کسی اجنبی لڑکی کے ساتھ بنا چوں چرا کیے اُس کے گھر جاتا ہے ‘‘ عرفان جلے کٹے انداز میں بولا۔
ہاں! ۔۔۔ اور اس کے ساتھ جاکر اپنے گھر والوں کو بھی بھول جاتا ہے ۔۔۔ جو جنگل میں بھٹکتے پھر رہے ہیں۔۔۔ یہ تو حد ہی ہوگئی‘‘ عدنان نے بھی عرفان کا ساتھ دیا۔
سوری ۔۔۔ آپ سب تو جانتے ہی ہیں ۔۔۔ غلطی عرفان سے ہی ہوتی ہے ‘‘ سلطان معذرت بھرے لہجے میں بولا۔
ہیں!!!‘‘ عرفان بھڑک کر پلٹا۔ دوسرے مسکرادئیے۔
مم۔۔۔ میرا مطلب ہے ۔۔۔ غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے ‘‘ سلطان نے بوکھلا کر کہا جس پر ان سب کی مسکراہٹیں گہری ہوگئیں۔ پھر شہباز احمد مولوی عبدالرحمن کی طرف مڑے۔
میرا خیال ہے اب ہمیں رخصت لینی چاہیے ۔۔۔ آپ نے ہماری اتنی مدد کی ہے اس کے عوض میں صرف جزاک اللہ ہی کہہ سکتا ہوں۔۔۔ یااگر آپ چاہیں تو ۔۔۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے شہباز احمد نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔
نہیں ۔۔۔ آپ نے جزاک اللہ کہہ دیا ۔۔۔ بس کافی ہے ‘‘ مولوی عبدالرحمن نے ان کا ہاتھ جیب میں سے نکال کر مسکرا کر کہا۔
اچھا آپ یہاں کسی گاڑی ٹھیک کرنے والے کو جانتے ہیں ۔۔۔ ہماری گاڑی جنگل میں یونہی خراب پڑی ہے ‘‘شہزاد نے سوالیہ نظریں اُن کی طرف اٹھائیں۔
آپ ایک کام کریں۔۔۔ فلحال یہاں سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بس اسٹاپ ہے ۔۔۔ وہاں سے بس آپ کو آپ کے ریسٹ ہاؤس تک پہنچا دے گی۔۔۔گاڑی پھر بعد میں منگوا لیجئے گا‘‘ مولوی عبدالرحمن نے مشورہ دیا۔
بہت بہت شکریہ‘‘ شہزاد خوش ہو کر بولا۔ اور پھر وہ سب وہاں سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ مولوی عبدالرحمن نے جھوپڑی سے باہر آکر انہیں الودعا کہا ۔ وہ سب بھی گرم جوشی کے ساتھ مولوی عبدالرحمن کو گلے لگا کر رخصت ہوئے۔ جب وہ یہاں آئے تھے تو مولوی عبدالرحمن نے اُن کا استقبال گرم جوشی سے کیا تھا اور اب جاتے ہوئے وہ سب ان سے گرم جوشی سے رخصت لے رہے تھے۔ کچھ ہی وقت میں مولوی عبدالرحمن ان کے دل میں گھر کر گئے تھے۔ آخر وہ سب پیدل بس اسٹاپ کی طرف روانہ ہوگئے۔ یہاں مولوی عبدالرحمن جھوپڑی کے اندر داخل ہوگئے اور پھر آنکھوں میں آنسو کے ساتھ مسکراتے ہوئے بیرونی دروازہ بند کر دیا۔ انہیں کچھ ہی وقت میں وہ سب اپنے لگنے لگے تھے۔اُن کے جانے کا دکھ انہیں لازمی تھا لیکن ساتھ میں یہ خوشی بھی تھی کہ اب وہ ہر شیطانی جال سے نجات پا چکے تھے۔ لیکن !!!۔۔۔تقدیر کچھ اور ہی فیصلہ کر چکی تھی۔ جھوپڑی سے تھوڑے فاصلے پر ایک درخت کے پیچھے وہی لڑکی کھڑی شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ بڑبڑا رہی تھی۔
توتم لوگوں کو کیا لگا کہ تم اتنی آسانی سے مجھے شکست دے کر یہاں سے نکل جاؤ گے ۔۔۔ نہیں !۔۔۔ یہ تم سب کی سب سے بڑی بھول ہے ۔۔۔میں یعنی شیطانوں کی رانی اتنی آسانی سے تمہارا پیچھا نہیں چھوڑ دے گی۔۔۔ آج تو اُس لڑکی نے اپنے بھائی سلطان کو بچا لیا لیکن کل وہ خود کو بھی نہیں بچا پائے گی۔۔۔ اور آپ مولوی صاحب!۔۔۔آپ بھی اب اپنی خیر منائیں کیونکہ مجھ سے لڑائی لڑکے آپ نے خود اپنی موت کو دعوت دے دی ہے ۔۔۔ اب تک بازی کی چالیں تم سب لوگوں نے چلیں۔۔۔ لیکن اب پلٹ کر وار کرنے کی باری میری ہے ۔۔۔ہاں!۔۔۔ صرف میری‘‘ یہ کہتے ہوئے لڑکی نے ایک ہولناک قہقہہ لگایا اور پھر اس کے پورے چہرے پر شیطانیت ہی شیطانیت نظر آنے لگی۔


٭٭٭٭٭
درد ناک انجام
مولوی عبدالرحمن اپنے گھر میں تسبیح ہاتھ میں پکڑے اذکار کرنے میں مصروف تھے۔ تبھی دروازے کی گھنٹی بجی۔ وہ چونک اُٹھے اور پھر دروازے کھولنے کے لئے آگے بڑھے۔ دروازہ پر ان کا شاگرد محمود الحسن ان کے لئے کھانا لیے کھڑا تھا۔
آؤ بیٹا۔۔۔ اندر آجاؤ‘‘ مولوی عبدالرحمن شفقت بھرے لہجے میں بولے جس پر محمود الحسن مسکراتا ہوا اندر داخل ہوگیا۔ اس نے چٹائی پر دستر خوان بچھایا اور بھنا ہوا گوشت مولوی عبدالرحمن کے سامنے رکھ دیا۔
یہ کیا ۔۔۔تم تو جانتے ہو میں گوشت کا شوقین نہیں ہوں۔۔۔ ہم جیسے اللہ سے لو لگانے والے لوگ دال سبزی پر ہی گزارا کرتے ہیں ‘‘ مولوی عبدالرحمن نے بھنا ہوا گوشت دیکھا تو چونک کر بولے۔
کوئی بات نہیں بابا۔۔۔ یہ بکری کا گوشت ہے ۔۔۔ نبی کریم ؐ بھی کبھی کبھار بکری کا گوشت تناول فرما لیا کرتے تھے ۔۔۔ آج آپ بھی سنت رسول ؐ پر عمل کرنے کی خاطر کھا لیجئے ‘‘ محمود الحسن نے نیک مشورہ دیا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ جب بات میرے نبی ؐ کی ہو تو پھر میں ضرور اسے کھاؤں گا‘‘ یہ کہتے ہوئے مولوی عبدالرحمن نے گوشت کا ٹکڑا اٹھایا اور اسے کھانے لگے۔
تم بھی میرے ساتھ شامل ہو جاؤ‘‘ مولوی عبدالرحمن نے محمود الحسن کو اشارہ کیا۔
نہیں بابا ! ۔۔۔ مجھے کسی کام سے جانا تھا لہٰذا میں آپ کے لئے کھانا لے آیا اور اب اُس کام کو ختم کرنے کے لئے جارہا ہوں ‘‘ محمود الحسن نے اجازت طلب نظروں سے مولوی عبدالرحمن کی طرف دیکھا جس پر انہوں نے مسکرا کر دھیمے انداز میں سر ہلا دیا۔ اور پھر محمود الحسن گھر سے باہر نکل گیا۔ کھانا کھانے کے بعد مولوی عبدالرحمن نے دسترخوان سمیٹا اور دوبارہ اپنی چھوٹی سی مسند پر اذکار کرنے کے لئے بیٹھ گئے۔تبھی اچانک وہ بری طرح چونکے۔ کسی لڑکی کے قہقہہ کی آواز نے جھوپڑی کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ مولوی عبدالرحمن گھبراہٹ کے عالم میں اُٹھ کھڑے ہوئے اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگے لیکن وہاں اُنہیں کوئی بھی نظر نہ آیا۔ تبھی کسی نے ان کی کمر پر پوری قوت سے لات ماری۔ وہ منہ کے بل زمین پر گرے۔ اُن کے منہ سے ایک گھٹی گھٹی چیخ نکلی۔ جب وہ ہمت کرکے دوبارہ اُٹھ کر کھڑے ہوئے تو ان کے ہونٹ سے خون جاری تھا۔
کون ہو تم ۔۔۔اور کیا چاہتی ہو ‘‘ مولوی عبدالرحمن سخت لہجے میں بولے۔
آپ کی موت ‘‘ لڑکی کی سفاک آواز گونج اُٹھی۔
اوہ !۔۔۔ تو تم وہی لڑکی ہو جو اُن بھولے بھالے معصوم لوگوں کو اپنے شکار بنانے چاہتی تھی ‘‘ مولوی عبدالرحمن چونکنے ہوگئے۔
ہاں ! ۔۔۔ آپ نے اُن لوگوں کو بچانے میں اہم کردار ادا کیا ۔۔۔ اب آپ نہیں بچیں گے ‘‘ لڑکی کی نہایت سرد آواز سنائی دی۔
مجھ سے کیا چاہتی ہو ‘‘ مولوی عبدالرحمن نے پرسکون لہجے میں کہا۔
آپ نے بہت نیک کام کر لیے ۔۔۔اب اس سے پہلے کے آپ سے گناہ ہو جائے میں آپ کو جنت میں پہنچانا چاہتی ہوں‘‘ لڑکی کی زہریلی ہنسی گونجی۔مولوی عبدالرحمن نے کوئی جواب نہ دیا اور قرآن شریف کی تلاوت کرنے لگے لیکن ابھی وہ تلاوت کر ہی رہے تھے کہ ایک بھرپور مکا ان کے چہرے پر لگا۔ وہ بوکھلا کر پیچھے ہٹے اور آیت الکر سی پڑھنے لگے لیکن !!!۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گئے کہ آیت الکرسی پڑھنے کے باوجود اس لڑکی کے قہقہے جھوپڑی میں بدستور گونج رہے تھے ۔ اور پھر !!!۔۔۔ وہ شیطانی لڑکی اُن کے سامنے آگئی۔ اس وقت اُس لڑکی کے چہرے پر ایک بھیانک مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔
آپ کو کیا لگا ۔۔۔ میں نے آپ کے کلام کا کوئی بندوبست نہیں کیا ہوگا۔۔۔ میں جانتی ہوں کہ قرآن کا اثر کبھی بھی ختم نہیں ہوتا لیکن اُس بندے کا اثر توختم ہو سکتا ہے نہ جوقرآن پڑھ رہا ہو‘‘ لڑکی عجیب سے انداز میں مسکرا کر بولی۔
کیا مطلب !!!‘‘ مولوی عبدالرحمن اُچھل پڑے۔
مطلب یہ کہ جو بھنا ہوا گوشت آپ نے کھایا ہے وہ کسی بکری کا نہیں بلکہ ایک درندے کا ہے ۔۔۔ جو کہ اسلام میں حرام ہے ۔۔۔ آپ کے معدے میں اس وقت حرام گوشت موجود ہے لہٰذا آپ کے کسی بھی کلام کا اب مجھ پر کوئی اثر نہیں ہو گا‘‘ لڑکی نے شوخ انداز میں کہا۔مولوی عبدالرحمن کے چہرے کا رنگ اُڑنے لگا۔ ان کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔
میں نہیں مان سکتا ۔۔۔ میرا شاگرد میرے ساتھ کبھی بھی خیانت نہیں کرے گا ‘‘ مولوی عبدالرحمن بدحواسی کے عالم میں بولے۔
بالکل ٹھیک کہا آپ نے ۔۔۔ لیکن شاید آپ نہیں جانتے کہ آپ کا شاگرد کچھ گھنٹوں پہلے میرے ہاتھوں ہلاک ہو چکا ہے ۔۔۔ اور جو شخص اِس وقت آپ کے پاس آیاتھا وہ میں ہی تھی ۔۔۔ میں نے آپ کے شاگرد کو مار کراس کے جسم پر قبضہ کیا اور پھر اس کے بھیس میں آپ کے لئے درندے کا حرام گوشت کھانے کے لئے لائی۔۔۔اب آپ پوری طرح بے بس ہیں مولوی صاحب‘‘ لڑکی تمسخرانہ انداز میں کہتی چلی گئی۔تبھی اچانک وہ لڑکی مولوی عبدالرحمن کی آنکھوں کے سامنے سے غائب ہوگئی اور پھر مولوی عبدالرحمن کی گردن پر کسی نے پوری طاقت سے ٹھوکر ماری۔ ان کے منہ سے ایک دل دوز چیخ نکلی اور دوسرے ہی لمحے اُن کے منہ سے خون کی اُلٹی نکلنے لگی۔ اِس وقت اُن کے چہرے پر زلزلے کے آثار تھے اور وہ مسلسل خون کی قے کئے جارہے تھے ۔لڑکی ایک بار پھر ان کے سامنے آکھڑی ہوئی اور اُنہیں اس حالت میں دیکھ کر اس کے چہرے پر ایک ظالمانہ مسکراہٹ ناچنے لگی:۔
مولوی صاحب ۔۔۔اگر آپ اپنے کام سے کام رکھتے ۔۔۔ ذکر خدا میں مشغول رہتے اور میرے راستے میں نہ آتے۔۔۔تو آج آپ کی یہ حالت نہ ہوتی ‘‘ لڑکی سفاک انداز میں مسکرائی۔دوسرے ہی لمحے اس نے مولوی عبدالرحمن کا گریبان پکڑ لیا اورپھر اس کے پاؤں فضا میں اوپر اٹھنے لگے۔ کچھ دیر بعد وہ انہیں ساتھ لے کر ہوا میں سفر کرنے لگی۔ مولوی عبدالرحمن کی آنکھوں میں خوف ہی خوف نظر آرہا تھا ۔وہ اس لڑکی کے ساتھ ساتھ ہوا میں جھول رہے تھے۔ تبھی اس لڑکی نے انہیں چھت کے قریب سے نیچے پٹخ دیا۔ مولوی عبدالرحمن چلاتے ہوئے زمین کی طرف آئے اورآگلے ہی پل زمین سے پوری قوت سے ٹکرائے۔ ایک دل دہلا دینے والی چیخ ان کے منہ سے نکلی اور پھر کچھ لمحوں بعد وہ بے بسی سے زمین پر پڑے ہوئے تھے۔ اب ان میں تھوڑی سی جان باقی رہ گئی تھی اور ان کی سانس اکھڑ رہی تھی۔
مجھے چھو ڑ دو ۔۔۔ میں آج کے بعد تمہارے راستے میں نہیں آؤں گا ‘‘ آخر مولوی عبدالرحمن نے گڑگڑا کر کہا۔
کیا بات ہے مولوی صاحب ۔۔۔ جو شخص دوسروں کو یہ کہتا ہے کہ اللہ کے سامنے گڑگڑاؤ ۔۔۔ وہ آج میرے سامنے گڑگڑا رہا ہے ۔۔۔ لیکن میں !۔۔۔ میرے سامنے آپ بھیک بھی مانگنے لگیں ۔۔۔ میں تب بھی آپ کو آج زندہ نہیں چھوڑوں گی ۔۔۔ اپنی زندگی کی فکر تھی تو اس طرح مجھ سے مقابلے کے لئے نہ آتے ۔۔۔ اب آپ کا وقت ختم ہوتا ہے مولوی صاحب ۔۔۔ آپ جیسے نیک بندے کو مار کر میں شیطان کے سامنے اور اونچی ہوجاؤں گی ۔۔۔ وہ مجھ سے بہت خوش ہو گا اور مجھے انعام واکرام سے نوازے گا ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ میرا بدلہ بھی پورا ہو جائے گا۔۔۔ خداحافظ مولوی صاحب‘‘ یہ کہتے ہوئے لڑکی نے ایک بھیانک قہقہہ لگایا۔اور پھر!!!۔۔۔ وہ وہاں سے غائب ہوگئی ۔ مولوی عبدالرحمن بڑی مشکل سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور بوکھلا کراِدھراُدھر دیکھنے لگے لیکن تبھی !!!۔۔۔ ان کی جھوپڑی کی دیوار میں لگی اینٹ دیوار سے نکل کر ہوا میں سفر کرتی ان کی طرف بڑھنے لگی۔ مارے خوف کے مولوی عبدالرحمن کا حلق خشک ہونے لگا۔ ان کے زبان پر کلمہ طیبہ جاری ہوگیا اور پھر وہ اینٹ بجلی کی سی تیزی سے پوری قوت سے مولوی عبدالرحمن کے ماتھے سے ٹکرائی۔ دوسرے ہی لمحے ان کے منہ سے ایک لرزا خیز چیخ نکلی اورساتھ ہی خون کا ایک فوارہ بلند ہوا ۔ اُن کی آخری چیخ اس قدر بھیانک تھی کہ آس پاس موجود جانور بھی کانپ اُٹھے۔تبھی وہ لڑکی دوبار نمودار ہوگئی۔ اِس وقت اس لڑکی کے چہرے پر ایک بے رحم مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔دوسری طرف مولوی عبدالرحمن لاش کی صورت میں جھوپڑی کے ایک کونے میں حسرت زدہ پڑے تھے۔

٭٭٭٭٭
باقی آئندہ

٭٭٭٭٭
 

شاہد بھائی

محفلین
وہ کون تھی؟
مصنف :۔شاہد بھائی
قسط نمبر :-9

خوف کی آمد
ایل ایل بی شہباز احمد ، شہزاد اور اپنے پانچوں بچوں کے ساتھ ریسٹ ہاوس پہنچ چکے تھے۔ انہیں نے گاڑی اُٹھانے والی کمپنی کو فون کرکے خراب گاڑی ٹھیک کرانے کے لیے بھیج دی تھی۔ اس وقت رات ہوچکی تھی اور وہ ریسٹ ہاؤس کے ہال میں بیٹھے باتیں کرنے میں مصروف تھے:۔
خدا شکر ہے کہ ہم صحیح سلامت یہاں پہنچ گئے ہیں‘‘ عرفان کہہ رہا تھا۔
ہاں!۔۔۔ ورنہ تو اُس آسیبی لڑکی نے ہمیں اپنا شکار بنا ہی لیا تھا۔۔۔اگر مولوی عبدالرحمن ہماری مدد نہ کرتے تو یقیناً آج ہم یہاں نہ ہوتے‘‘ شہزاد کانپ کر بولا۔
شہزاد بھائی ۔۔۔ آپ تو ایسے کانپ رہے ہیں جیسے وہ لڑکی اب بھی زندہ ہے ۔۔۔ اور آدھی رات کے وقت آپ کو اپنے ساتھ لے جائے گی‘‘ سلطان ہنس کر بولا۔
نہیں!۔۔۔ہوسکتا ہے وہ شہزاد بھائی کی بجائے تمہیں اپنے ساتھ لے جائے ‘‘ عمران نے مسکرا کر سلطان کی طرف دیکھا۔
اچھا۔۔۔ پھر تو میں تمہیں چھوڑ کر کسی صورت اُس کے ساتھ جانا پسند نہیں کروں گا‘‘ سلطان شوخ انداز میں مسکرایا۔
اوہ !۔۔۔تو یہ بات ہے ۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔ ہم دونوں آپس میں مقابلہ کرلیں گے ۔۔۔جو ہار جائے گا ۔۔۔وہی اُس لڑکی کے ساتھ جائے گا‘‘ عمران نے نئی کہی۔
تو یہ مقابلہ ابھی ہی کیوں نہ ہو جائے‘‘ سلطان مکا لہراتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا۔
ارے بھئی۔۔۔ اب اس گھر کو لڑائی کا میدان نہ بنا دینا‘‘ شہباز احمد گھبرا کر بولے۔ انہیں گھبراتے دیکھ کر دونوں شرمندہ نظر آنے لگے۔
اوہ!۔۔۔ مجھے افسوس ہے اباجان۔۔۔ میں نے اپنے بڑے بھائی سے لڑائی کرنے کاسوچا‘‘ عمران ندامت سے بولا۔
ہاں !۔۔۔ ہمیں یہ بات کسی صورت نہیں بھولنی چاہیے کہ ۔۔۔ عرفان ہمارا کھلا دشمن ہے‘‘ سلطان نظریں جھکا کر بولا جس پر عرفان چونک کر اسے پھاڑ کھانے والے انداز میں دیکھنے لگا۔ دوسرے ہنس پڑے۔
مم۔۔۔ میرامطلب ہے ۔۔۔ شیطان ہمارا کھلا دشمن ہے ‘‘ سلطان نے مصنوعی بوکھلاہٹ ظاہرکی۔اتنے میں سادیہ اکتا کر ان کے پاس سے اُٹھ کھڑی ہوئی اور ریسٹ ہاؤس کے ایک کمرے میں چلی گئی۔ اسے جاتے دیکھ کر سلطان کا منہ بن گیا :۔
ہمارے ساتھ بیٹھ جاتی تو ہم اسے کھا نہیں جاتے ‘‘ سلطان تلملا کر بولا۔
یہ چھوڑو۔۔۔ اس بات پر غور کرو کہ اُس مہارانی نے اپنا کمرہ پہلے ہی منتخب کر لیا۔۔۔ اب ہمیں باقی بچے ہوئے کمرے میں گزارا کرنا پڑے گا‘‘ عدنان جل بھن کر بولا۔
میں ہاری ہوئی بازی جیت جانے میں ماہر ہوں‘‘ یہ کہتے ہوئے سلطان نے شرار ت بھرے انداز میں سادیہ کے کمرے کی جانب دوڑا۔ باقی بھی اُس کے پیچھے پیچھے بھاگے البتہ شہزاد اور شہباز احمد مسکرا کر وہیں بیٹھے رہ گئے ۔ وہ چاروں آگے پیچھے بھاگتے ہوئے سادیہ کے کمرے میں داخل ہوئے۔ دوسرے ہی لمحے اُن سب کے منہ ایک زبردست چیخ نکل گئی۔ مارے حیرت کے ان کا برا حال ہوگیا۔ سادیہ زخمی حالت میں کمرے کے فرش پر بے ہوش پڑی تھی اوراس کے ماتھے سے بہتا ہوا خون اس کے گالوں کو سرخ کر رہا تھا۔

٭٭٭٭٭
حیرت انگیز واقعات
ان چاروں کی چیخ سن کر شہباز احمد اور شہزاد بدحواسی کے عالم میں دوڑتے ہوئے سادیہ کے کمرے میں آئے۔ اگلے ہی پل ان کا بھی منہ حیرت اور خوف سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ شہباز احمد نے آگے بڑھ کر سادیہ کو گود میں اُٹھایا اور پلنگ پر ڈال دیا۔ شہزاد ڈاکٹر کو فون کرنے چلا گیا۔ ڈاکٹر کو آنے میں آدھا گھنٹہ لگ گیا کیونکہ وہ شہر سے یہاں آیا تھا۔ ڈاکٹر نے فوراً سادیہ کا علاج شروع کر دیا۔ اپنے میڈیکل سوٹ کیس سے اُس نے مرہم پٹی کا سامان نکالا اور ماتھے پر موجود گہرہ زخم صاف کر کے اُس پر پٹی باندھ دی۔ سادیہ اس وقت مکمل طور پر بے ہوش تھی۔ ڈاکٹر اپنے کام سے فارغ ہو کر اُٹھ کھڑا ہوا۔
ڈاکٹر صاحب ۔۔۔ دوائیاں بھی بتا دیں جس سے اس کا زخم جلدی بھر جائے ‘‘ شہباز احمد فکرمندی کے عالم میں بولے۔
جی ہاں ۔۔۔ میں دوائی ساتھ ہی لے آیا ہوں۔۔۔ آپ کے اسسٹنٹ کے فون سے مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ کس قسم کی دوائی کی ضرورت ہوگی۔۔۔ میں فلحال کچھ درد کم کرنے کی اور زخم بھرنے کی دوائیاں دے رہا ہوں۔۔۔ باقی اگر کوئی اور مسئلہ ہو تو مجھے فوراً فون کر لیجئے گا‘‘ ڈاکٹر دوائیاں دیتے ہوئے بولا ۔شہباز احمد نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور پانچ سو روپے کا نوٹ ڈاکٹر کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ ڈاکٹر نے تین سو رکھ کر دو سو واپس کر دئیے۔ پھر عرفان ڈاکٹر کو باہر چھوڑنے کے لیے کمرے سے نکل گیا۔ ابھی وہ کمرے سے گیا ہی تھا کہ سادیہ نے آنکھیں کھول دیں۔ وہ سب پریشانی کے عالم میں سادیہ کی طرف بڑھے:۔
آہ!!! ۔۔۔ ‘‘ سادیہ کراہتے ہوئے صرف اتنا ہی کہہ سکی۔
تمہیں ہوا کیا تھا۔۔۔آخر تم بے ہوش کیسے ہوگئی تھی‘‘ سلطان نے پر زور لہجے میں پوچھا۔تبھی عرفان بھی کمرے میں داخل ہوگیا اور سادیہ کی طرف دیکھنے لگا:۔
مم۔۔۔ میں بے ہوش کیسے ہوئی تھی ۔۔۔ مجھے کچھ یاد نہیں‘‘ سادیہ نے پریشانی سے دماغ پر زور ڈالتے ہوئے کہا۔ اُن سب نے حیرت سے سادیہ کی طرف دیکھا۔ پھر شہباز احمد شفقت بھرے لہجے میں آگے بڑھے:۔
کوئی بات نہیں بیٹی ۔۔۔ تم ابھی آرام کرو۔۔۔ جب کچھ یاد آجائے تو ہمیں بتا دینا۔۔۔ چلو بھئی!۔۔۔سادیہ کو آرام کرنے دو‘‘ شہباز احمد سادیہ کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہتے چلے گئے اور پھر کمرے سے باہر کا رخ کیا۔ دوسرے بھی اس کی طرف ہمدردی کے ساتھ دیکھتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔ سادیہ کھوئے کھوئے انداز میں لیٹی سوچنے لگی کہ آخر وہ بے ہوش کیسے ہوگئی تھی؟ اسے یہ گہرا زخم کس طرح لگا؟لی کن اپناپورا زور دماغ پر ڈالنے کے باوجود اسے کچھ بھی یاد نہ آیا۔ اسے لگا جیسے اُس کی کچھ دیر پہلے کی یاداشت کی پلیٹ کسی نے مکمل طور پر صاف کر دی ہو۔اسے صرف اتنا یاد تھا کہ وہ باہر ہال میں بیٹھی ہوئی تھی۔ پھر اُن سب کی باتوں سے اکتا کر کمرے میں آگئی تھی۔ کمرے میں آنے کے بعد اس کے ساتھ کیا ہوا ؟ اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا۔ اس لمحے سادیہ نے خود کو بالکل بے بس محسوس کیا اور وہ سسک کر سرد آہیں بھرنے لگی۔ پھر وہ لیٹ کر کچھ دیر تک کروٹیں بدلتی رہی۔ رات کے گیارہ بج چکے تھے لیکن نیند اُس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ کچھ دیر تک سونے کی کوشش کرنے پر بھی جب اسے نیند نہ آئی تو وہ جھلا گئی۔
ایک کام کرتی ہوں ۔۔۔ امی جان کو فون کرتی ہوں ۔۔۔ وہ بھی اس وقت جاگ ہی رہی ہونگی۔۔۔ ان سے بات کرلوں گی تو کچھ تسلی بھی ہو جائے گی اور نیند بھی آجائے گی‘‘ سادیہ نے سوچ کر فیصلہ کیا اور پھر سراہنے رکھے اپنے موبائل فون کو اُٹھایا اورپھر اپنی امی جان کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔ دوسرے ہی لمحے سلسلہ مل گیا۔
السلام علیکم امی جان‘‘ سادیہ نے کراہتے ہوئے کہا لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب نہ ملا ۔سادیہ نے پھر سلام کیا لیکن اب بھی دوسری طرف سے کوئی آواز سنائی نہ دی۔ سادیہ بلند آواز سے کہنے لگی:۔
امی جان !۔۔۔ آپ کو میری آواز تو آرہی ہے۔۔۔امی جان ۔۔۔ آپ لائن پر ہیں ‘‘ سادیہ اونچی آواز میں بولی۔ تبھی سلسلہ منقطع ہوگیا۔ سادیہ بے چینی کے عالم میں دوبارہ کال ملانے لگی لیکن تبھی کمزوری کی وجہ سے اس کا فون اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے فرش پر گر گیا۔ وہ فون اُٹھانے کے لیے جھکی۔ اُسی وقت موبائل فون کی گھنٹی بج اُٹھی۔ اس نے موبائل کی سکرین پر دیکھا۔ کال اُس کی آمی جان کی ہی تھی۔ اس نے خوشی کے عالم میں فون اُٹھا لیا لیکن دوسری طرف سے سوائے گڑ گڑ کی آواز کے اور کچھ سنائی نہ دیا۔ سادیہ زور زور سے ہیلوہیلو کرتی رہی۔ یہاں تک کہ اُس کی آواز کمرے سے باہر جانے لگی۔تبھی سلطان حیرانگی کے عالم میں کمرے میں داخل ہوا۔ سادیہ کو فون پر بات کرتے دیکھ کر چونک کراُسے دیکھنے لگا:۔
کس سے بات کر رہی ہو۔۔۔ اورگلا پھاڑنے کی کیا ضرورت ہے ۔۔۔ میں اچھا بھلا سو گیا تھا‘‘ سلطان جھنجھلا کر بولا۔
امی جان سے بات کر رہی ہوں۔۔۔ دیکھو نہ ۔۔۔ امی جان آگے سے کوئی جواب ہی نہیں دے رہیں‘‘ سادیہ نے معصومیت سے کہا۔ اس کی معصوم آنکھیں دیکھ سلطان کو اپنی بھولی بھالی بہن پر بہت پیار آیا۔
اچھا۔۔۔ دکھاؤ۔۔۔ میں دیکھتا ہوں‘‘ یہ کہتے ہوئے سلطان اس کی طرف بڑھا۔ تبھی سلطان کے پاؤں میں کوئی چیز آئی۔ وہ چونک اُٹھا ۔ پھرپاؤں میں موجود چیز کو دیکھنے کے لئے نیچے جھکا تو اس پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔سادیہ کے فون کی بیٹری تو نیچے پڑی ہوئی تھی اور اس کا ڈھکنا یعنی کور بھی ایک طرف پڑا ہوا تھا۔ اس نے بیٹری اُٹھا کر سادیہ کو دکھائی۔ دوسرے ہی لمحے سادیہ بھی ہڑبڑا گئی۔اس نے بوکھلا کرموبائل کی سکرین پر دیکھا۔ موبائل کی سکرین کالی تھی اور وہ مکمل طور پر بند پڑا تھا۔ اسے یاد آیا کہ اس کا فون اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر گیا تھا اس وقت ہی فون کی بیٹری فو ن سے نکل گئی ہوگی اور موبائل فون بند ہوگیا ہو گا۔ یہ بات ذہن میں آتے ہی سادیہ کے چہرے پر خوف ہی خوف دوڑ گیا۔ وہ مارے خوف کے کانپنے لگی کیونکہ بند موبائل فون سے اسے اپنی امی جان کی کال کیسے آسکتی تھی ؟ کال اُٹھانے پر دوسری طرف سے گڑگڑ کی آواز بھی آرہی تھی۔ یہ سب باتیں کسی صورت ممکن نہیں تھیں۔ یہ سب سوچ کر سادیہ کے چہرے کا رنگ خوف کے مارے زرد پڑنے لگا۔
تمہارے فون کی بیٹری تو نیچے پڑی ہے ۔۔۔ پھر تم فون پر کون سی امی جان سے بات کر رہی تھی‘‘ سلطان مذاق اُڑانے والے انداز میں بولا۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے‘‘ سادیہ کی خوف سے ڈوبی ہوئی آواز سنائی دی۔ سلطان اس کا چہرہ دیکھ کر سمجھ گیا کہ وہ مذاق نہیں کررہی ہے۔ سلطان کے چہرے پر بھی سنجیدگی نظر آنے لگی۔وہ حیران تھا کہ سادیہ بندموبائل میں امی جان سے کیسے بات کررہی تھی اور اس کی بیٹری کا ڈھکنا نیچے گر گیا تب بھی اسے پتا کیوں نہ چلا؟ یہ سوال اس کے ذہن میں کھلبلی مچانے لگااور اسے اپنا دماغ سُن ہوتا محسوس ہوا۔

٭٭٭٭٭
چھپکلیوں کا حملہ
رات کا ایک بج چکا تھا۔ سادیہ اپنے کمرے میں آرام سے سو رہی تھی۔ بند موبائل سے کال آنے والے حادثے کے بارے میں سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔ سلطان بھی آخر میں بنا کچھ کہے حیرت میں ڈوبا ہوا اس کے کمرے سے نکل گیا تھا۔ اس وقت وہ سب اپنے اپنے کمروں میں نیند کے مزے لے رہے تھے ۔ عرفان ، عدنان ،سلطان اور عمران کو ایک کمرہ ملا تھا اور سادیہ نے اپنا علیحدہ کمرہ خود ہی منتخب کر لیا تھا۔ شہزاد مہمان خانے والے کمرے میں سو گیا تھا جبکہ شہباز احمد سامنے والے چھوٹے سے کمرے میں آرام کر رہے تھے۔ اس طرح انہوں نے رات بسر کرنے کی ٹھانی تھی۔ تبھی اچانک سادیہ کی آنکھ کھل گئی۔ جاگنے کے بعد کچھ دیر تک وہ سوچتی رہی کہ اس کی آنکھ کس وجہ سے کھلی ہے کیونکہ آس پاس تو بالکل پرسکون ماحول تھا۔ کسی قسم کا کوئی شور بھی سنائی نہیں دیا تھا۔ آخر سوچنے سے تنگ آکر سادیہ نے اپنے دماغ کو آرام دینے کا فیصلہ کیا۔ پھر اسے پیاس لگی تو وہ اُٹھ کر بیٹھی ۔سراہنے رکھی میز پر پانی کے جگ سے پانی کا گلاس بھرا اور گلاس ابھی ہونٹوں کے قریب لائی ہی تھی کہ تبھی اس کے منہ سے ایک خوفناک چیخ نکلی ۔ اس نے فوراً سوئچ بورڈ سے لائٹ جلائی۔ آگلا لمحہ اس کی زندگی کا سب سے خوفناک ترین لمحہ تھا۔ اس کے چہرے کا رنگ خوف کے مارے سفید پڑ گیا۔ ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے اور آنکھیں خوف کے عالم میں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ پورے کمرے کی دیوار پر چھپکلیاں ہی چھپکلیاں تھیں۔ وہ ان گنت تعداد میں دیوار پر رینگ رہی تھیں۔ سادیہ وحشت زدہ انہیں دیکھنے لگی۔ تبھی اسے اپنے پاؤں پر کوئی چیز رینگتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے اپنے اوپر لی ہوئی چادر ہٹائی۔ ایک بار پھر اس کے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکلی۔ اس کے پورے بستر پر بھی چھپکلیاں ہی نظر آرہی تھیں۔ یہاں تک کہ اس کی چادر بھی چھپکلی سے بھر گئی تھیں۔ یہ چھپکلیاں لاتعداد تھیں اور پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھیں۔ سادیہ نے ہڑبڑاہٹ کے عالم میں چادر ایک طرف پھینکی اور چلاتی ہوئی کمرے سے باہر بھاگی۔ کمرے کے باہر دوسری طرف سے اس کے بھائی بوکھلائے ہوئے اس کی طرف دوڑے چلے آرہے تھے۔ اپنے بھائیوں کے پاس پہنچ کر سادیہ گہری گہری سانسیں لینے لگی:۔
کیا ہوا ہے ۔۔۔ اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہو‘‘ عرفان نے حیران ہو کر کہا۔
مم۔۔۔ میرے کمرے میں‘‘ سادیہ بس اتنا ہی کہہ پائی اور پھر عرفان کا ہاتھ پکڑکر اسے اپنے کمرے کی طرف لے جانے لگی۔ باقی تینوں بھی ہکا بکا اس کے پیچھے آئے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی سادیہ دھک سی رہ گئی۔ اب وہاں ایک بھی چھپکلی نہیں تھی۔ وہ تو ایسے غائب ہوگئی تھی جیسے کبھی وہاں موجود ہی نہ ہوں۔ اس کے بھائیوں نے اسے حیرانگی کے عالم میں دیکھا:۔
کچھ بھی تو نہیں ہے یہاں ۔۔۔ پھرتم اتنی خوف زدہ کیوں ہو‘‘ سلطان نے حیرت زدہ ہو کر کہا۔
اس کمرے میں۔۔۔ اس کمرے میں چھپکلیاں ہی چھپکلیاں تھیں ۔۔۔ دیوار پر ۔۔۔میرے بستر پر ۔۔۔میری چادر پر ۔۔۔ ہر جگہ ۔۔۔ میں سچ کہہ رہی ہوں ‘‘ سادیہ خوف کے عالم میں بولی۔
اوہ ! ۔۔۔تم نے ضرور کوئی خواب دیکھا ہوگا۔۔۔ شیطانی خواب تھا۔۔۔ تعوذ پڑھ کر تین بار بائیں طرف تھوک دو۔۔۔ شیطانی خواب کا اثر ذائل ہو جائے گا‘‘ عرفان نے نصیحت اموز لہجے میں کہا۔
نہیں وہ کوئی خواب نہیں تھا ۔۔۔ میں نے خود یہاں چھپکلیاں دیکھی ہیں ‘‘ سادیہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
کیا!۔۔۔ اوہ ہو!۔۔۔ تمہیں منع بھی کیا تھا کہ سلطان کے چہرے کو اس قدر غور سے نہ دیکھاکرو۔۔۔ لیکن تم نے میری باتنہیں مانی ۔۔۔ اب دیکھ لیا نہ نتیجہ ۔۔۔ رات کو خواب میں چھپکلیاں نظر آرہی ہیں‘‘ عمران مذاق اُڑانے والے لہجے میں کہتا چلا گیا جس پر سلطان اسے کھا جانے والے انداز میں دیکھنے لگا۔
تم لوگ میرا مذاق اُڑا لو ۔۔۔ لیکن میں سچ کہہ رہی ہوں ۔۔۔ میں نے یہاں چھپکلیاں دیکھی ہیں ‘‘ یہ کہتے ہوئے سادیہ کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس کے آنسو آنکھوں میں اٹک کر رہ گئے ۔
اب کسی نے مذاق کیا نہ تو میں اس کا وہ حشر کروں گا کہ یاد کرے گا‘‘ عرفا ن نے سخت لہجے میں کہا۔
سادیہ ۔۔۔ ہم تمہارا مذاق نہیں اُڑا رہے ۔۔۔ ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ تمہیں ضرور وہم ہوا ہے ۔۔۔ کیونکہ دیکھو نہ ۔۔۔ کمرے میں تو ایک چھپکلی بھی نہیں ہے ۔۔۔ تم اللہ کا نام لو اور سو جاؤ۔۔۔ٹھیک ہے ‘‘ عدنان نے نرم انداز میں اُسے سمجھایا۔ سادیہ پریشانی کے عالم میں انہیں دیکھتی رہی اور وہ سب اسے دلاسا دیتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔ ان کے باہر جانے کے بعد سادیہ سوچ میں ڈوب گئی۔ ایک رات میں اس کے ساتھ کتنے واقعات ہوگئے تھے۔ سب سے پہلا اس کی پراسرار بے ہوشی جس کے بارے میں اسے خود بھی کچھ یاد نہیں تھا اور پھر اس کا بند موبائل فون میں کال آتے دیکھنا اور کال اُٹھانا تو دوسری طرف سے گڑ گڑ کی آواز آنا اور اب تیسرا واقعہ یہ چھپکلی والا۔ جہاں اسے کمرے میں ہر جگہ چھپکلیاں نظر آرہی تھیں لیکن جب وہ اپنے بھائیوں کو اپنے کمرے میں لے کر آئی تو کمرے میں کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ سب سوچتے ہوئے وہ واپس اپنے بستر کی طرف مڑی۔ وہ پریشانی کے عالم سوچ رہی تھی کہ آخر اس کے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے ؟ تبھی ایک بار پھر وہ دھک سی رہ گئی۔ اس بار اس کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی ۔ آنکھیں خوف کے مارے باہر کو اُبل آئیں۔ اس کے بستر پر وہی آسیبی وشیطانی لڑکی آرام سے پاؤں پھیلائے لیٹی ہوئی تھی۔ اس لڑکی کو وہ اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے ہوئے دیکھ چکی تھی۔ اس لڑکی کے آخری چیخ بھی ان سب نے سنی تھے لیکن اب وہی لڑکی زندہ سلامت اس کے بستر پر آرام سے لیٹی ہوئی تھی۔ اس لڑکی کے چہرے پر ایک بھیانک مسکراہٹ تھی جسے دیکھ کر سادیہ کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔اس کے چہرے کا رنگ اُڑنے لگا ۔دوسری طرف اس شیطانی لڑکی کے چہرے کی مسکراہٹ گہری ہوتی جارہی تھی۔

٭٭٭٭٭
باقی آئندہ
٭٭٭٭٭
 

شاہد بھائی

محفلین
وہ کون تھی؟
مصنف :۔شاہد بھائی
قسط نمبر :-10

مولوی عبدالرحمن کی آمد
سادیہ کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی تھی۔ آنکھیں خوف کے مارے باہر کو اُبل آئیں۔ اس کے بستر پر وہی آسیبی وشیطانی لڑکی آرام سے پاؤں پھیلائے لیٹی ہوئی تھی جسے وہ اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے ہوئے دیکھ چکی تھی۔ اس لڑکی کے آخری چیخ بھی اُن سب نے سنی تھے لیکن اب وہی لڑکی زندہ سلامت اس کے بستر پر آرام سے لیٹی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے پر ایک بھیانک مسکراہٹ تھی جسے دیکھ کر سادیہ کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اس کے چہرے کا رنگ اُڑنے لگا۔ دوسری طرف اس شیطانی لڑکی کے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہوتی جارہی تھی۔
تت۔۔۔ تم ۔۔۔تم یہاں کیسے ؟۔۔۔ تم تو مر چکی تھی ‘‘ سادیہ خوف کے عالم میں ہکلانے لگی۔
تم لوگوں کو کیا لگا ۔۔۔ اتنی آسانی سے مجھ سے پیچھا چھڑا لو گے ۔۔۔ میری نظر جس پر پڑ جائے وہ کبھی بھی زندہ نہیں بچتا۔۔۔ اپنے بھائی سلطان کو میرے چنگل سے بچا کر تم نے بہت بڑی غلطی کی ہے ۔۔۔اب اس کی سزا تو تمہیں ملے گی ۔۔۔ تم تڑپ تڑپ کر مرو گی لیکن تمہارے گھر والے تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکیں گے ‘‘ لڑکی سانپ کی طرح پھنکاری۔ اس لمحے سادیہ کو اپنی جان نکلتی محسوس ہوئی۔ وہ وہشت ناک انداز میں چلاتی ہوئی کمرے سے باہر بھاگی۔ ایک بار پھر اس کے چاروں بھائی جھنجھلائے ہوئے انداز میں اس کی طرف آرہے تھے۔ نزدیک پہنچ کر سلطان شرارت بھرے انداز میں کہنے لگا:۔
اب تم نے ضرور کمرے میں کوئی ڈریکولا دیکھی ہوگی۔۔۔ وہ تمہاراخون تو نہیں چوسنے لگی تھی ‘‘ سلطان کا لہجہ تمسخرانہ ہوگیا۔
نہیں !۔۔۔ میں نے کمرے میں وہی آسیبی لڑکی دیکھی ہے جس سے ہم لڑکر یہاں پہنچے ہیں ‘‘ سادیہ ڈرے ڈرے انداز میں بولی۔وہ سب چونک اُٹھے۔
لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔ اس لڑکی کی آخری چیخ تو ہم سب نے اپنے کانوں سے سنی تھی ‘‘ عرفان سوچ کر بولا۔
تم یہ سب باتیں چھوڑو ۔۔۔ اور میرے ساتھ کمرے میں چلو‘‘ سادیہ نے یہ کہتے ہوئے عرفان کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ ااور اسے اپنے ساتھ لے کر کمرے میں داخل ہوگئی۔ دوسروں نے بھی ان کے ساتھ کمرے کی چوکھٹ پر قدم رکھ دیا۔ دوسرے ہی لمحے ایک بار پھر سادیہ کو منہ کی کھانی پڑی کیونکہ اب وہ لڑکی اس کے پلنگ پر نہیں تھی۔ اُس کے بھائی اسے کھا جانے والے انداز میں دیکھنے لگے۔ سادیہ چکراتی ہوئی پلنگ پر جابیٹھی۔ وہ اس وقت اپنے دماغ کو خالی ہوتا محسوس کر رہی تھی۔
اب تو مجھے یقین ہوگیا ہے کہ تمہارا دماغ چل گیا ہے ۔۔۔ بلکہ نہیں ۔۔۔ان حالات میں یہ کہنا ٹھیک ہے کہ۔۔۔ تمہارا دماغ کافی تیز رفتار میں دوڑ گیا ہے ۔۔۔ یار عمران !۔۔۔ اب یہ لڑکی ہمارے ہاتھ میں نہیں رہی ‘‘ سلطان شوخ انداز میں کہتا چلا گیا۔
تو کیا پہلے ہمارے ہاتھ میں تھی‘‘ عمران نے مصنوعی حیرت سے کہا۔
نہیں !۔۔۔ یہ پہلے ہمارے سر پر تھی۔۔۔ کیونکہ ہمارا سر کھاتی تھی۔۔۔ اب سر پر بھی نہیں رہی‘‘سلطان نے شریر لہجے میں کہا۔
اس وقت تویہ پلنگ پر ہے اور ہم اس سے بات کر رہے ہیں‘‘عدنان نے جھلا کر کہا۔
تم لوگ میری بات کا یقین کیوں نہیں کرتے ۔۔۔ آخر مجھے جھوٹ بول کر کیا ملے گا‘‘ یہ کہتے ہوئے سادیہ کے آنسولڑھک کر رخساروں پر بہنے لگے۔ وہ سب ایک لمحے کے لیے سوچ میں پڑ گئے۔ اپنی بہن کو انہوں نے ساری زندگی سچ بولتے دیکھا تھا۔ حالات چاہے جیسے بھی ہوں سادیہ نے سچ کا دامن کبھی نہیں چھوڑا تھا۔ وہ مذاق میں بھی جھوٹ بولنا پسند نہیں کرتی تھی۔ یہ سب سوچ کر اُنہیں لگا کہ اُن کی بہن اُن سب سے اس طرح کا بے معنی مذاق نہیں کر سکتی۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ ہم تمہاری بات پریقین کر لیتے ہیں ۔۔۔ کل صبح ہم اباجان سے اس بارے میں بات کریں گے ۔۔۔ اب وہی اس مسئلے کا حل بتا سکتے ہیں ‘‘ عرفان نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ دوسروں نے اس کی تائید میں سر ہلا دیا۔ سادیہ کچھ لمحے پریشانی کے عالم میں انہیں دیکھتی رہی۔ عرفان نے آگے بڑھ کر پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے دلاسا دیتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔ باقی بھی اس کی طرف شفقت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے باہر نکل گئے ۔ سادیہ ان سب سے چھوٹی تھی اور ان سب کی لاڈلی بہن تھی۔ وہ بھلا اپنی بہن کو پریشان کیسے دیکھ سکتے تھے۔ ان سب کے اپنے کمرے میں چلے جانے کے بعد سادیہ بھی ڈرتے ڈرتے اپنے کمرے میں داخل ہوگئی۔ اس نے ایک مرتبہ آیت الکرسی پڑھی اور اپنے اوپر پھونک کر اپنے بستر پر بھی پھونک دی۔ اب اُسے قدرے اطمینان محسوس ہوا۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ اللہ کے کلام میں ہر مرض کی دوا اور شفا موجود ہے ۔لہٰذا اپنی ہر پریشانی کا حل قرآن پاک سے تلاش کیا جاسکتاہے۔ یہ سب سوچتے ہوئے نہ جانے کب اُس کی آنکھ لگ گئی۔ صبح اس کی آنکھ کھلی تو وہ حیران رہ گئی۔ سادیہ کے بستر کے آس پاس اُس کے اباجان شہباز احمد، شہزاد اور اُس کے چاروں بھائی فکر مندکھڑے تھے۔
کیا ہوا آپ سب کو ۔۔۔ سب ٹھیک تو ہے نہ ‘‘ سادیہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھی۔
ہاں!۔۔۔ہمارے ساتھ توسب ٹھیک ہے لیکن تمہارے ساتھ کچھ بھی ٹھیک نہیں لگ رہا۔۔۔ گھڑ ی پر بھی نظر ڈال لو۔۔۔ صبح کے ساڑھے دس بج چکے ہیں اور تم اب تک سو رہی ہو‘‘ سلطان طنزیہ انداز میں بولا۔ سادیہ نے فوراً گھڑی کی طرف دیکھا۔ دوسرے ہی لمحے اسے حیرت کے ایک زبردست جھٹکا لگا کیونکہ وہ تو گھر میں سب سے پہلے اُٹھنے کی عادی تھی۔ زیادہ سے زیادہ آٹھ بجے تک وہ ہر حال میں جاگ جاتی تھی لیکن آج ساڑھے دس بجے تک بھی اُس کی آنکھ نہیں کھلی تھی۔
ہم جانتے ہیں تم اتنی دیر تک کیوں سوتی رہی ہو ۔۔۔ ہم نے رات والا سارا واقعہ اباجان کو بتا دیا ہے کہ پہلے تم نے اپنے کمرے میں چھپکلیاں دیکھیں اور پھر وہ شیطانی لڑکی دیکھی ۔۔۔ میں نے اس میں وہ موبائل والا واقعہ بھی شامل کر کے سنا دیا تھا ‘‘ سلطان روانگی کے عالم میں کہتا چلا گیا۔
اوہ!!!‘‘ سادیہ کھوئے کھوئے انداز میں بولی۔
تم منہ ہاتھ دھو لو بیٹی ۔۔۔ پھر ہم ا س بارے میں کوئی فیصلہ کریں گے ۔۔۔ ہم تمہیں اس طرح پریشان نہیں ہونے دیں گے ‘‘ شہباز احمد نے دلاسا دیتے ہوئے کہا اور پھر وہ سب کمرے سے باہر نکل گئے۔ سادیہ نے جلدی جلدی منہ ہاتھ دھویا۔ آج اس کی فجرکی نماز بھی قضا ہوگئی تھی۔ وضو کرکے اس نے فوراً قضا نماز ادا کی اور ناشتے کی میز پر جابیٹھی۔ وہ سب تو پہلے ہی ناشتہ کر چکے تھے۔ سادیہ کو تنہا ہی ناشتہ کرنا پڑا۔
میں نے سوچا ہے کہ مولوی عبدالرحمن صاحب کو بلا کر یہ ساری تفصیل سنائی جائے ۔۔۔ اب وہی ہماری مدد کر سکتے ہیں ۔۔۔ لیکن اس میں مشکل یہ ہے کہ میرے پاس ا ن کا نمبر نہیں ہے ۔۔۔ تم میں سے کسی کو وہاں جا کر انہیں لے کر آنا پڑے گا ‘‘ شہباز احمد کے ماتھے پر شکنیں ابھر آئیں۔تبھی ایک آواز نے انہیں اچھل پڑنے پر مجبورکر دیا۔
میں آگیاہوں شہباز صاحب ‘‘ یہ آواز مولوی عبدالرحمن کی تھی۔ ان سب نے حیرانگی کے عالم میں آواز کی سمت نظریں اُٹھائیں۔ دروازے پر مولوی عبدالرحمن کھڑے مسکرا رہے تھے۔ شہباز احمد نے انہیں ابھی بلانے کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے اور وہ خود ہی ان کے پاس پہنچ گئے تھے۔ اس بات کی توقع بھلا وہ سب کیسے کر سکتے تھے ؟ لہٰذا مارے حیرت کے ان کا برا حال تھا۔
حیران ہونے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ آپ لوگ مجھے کس سلسلے میں بلانا چاہتے تھے ۔۔۔ میں یہ بات بھی جانتا تھا کہ آپ مجھے آج صبح یہاں بلائیں گے ۔۔۔ لہٰذا میں خودہی آپ کی طرف نکل پڑا‘‘ مولوی عبدالرحمن کے چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ تھی۔
بیٹھئے مولوی صاحب ‘‘ شہباز احمد نے حیرت میں ڈوبے ہوئے انداز میں انہیں صوفے پر بیٹھایا۔
میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔۔۔ آپ جو سوال مجھ سے کرنا چاہتے تھے میں اس سوال کا جواب خودہی لے کر آیا ہوں۔۔۔ وہ شیطانی لڑکی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مر چکی ہے ۔۔۔اب آپ کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔۔۔ کل والے سارے واقعات سادیہ بیٹی کو وہم کی بنا پر ہوئے ہیں‘‘ مولوی عبدالرحمن بتاتے چلے گئے۔
اوہ !۔۔۔ یعنی اِس گھر پر اب کوئی شیطانی سایہ نہیں ہے ‘‘ شہزاد نے تصدیق کے لیے پوچھا۔
جی ہاں !۔۔۔ اب یہ گھر ہر طرح کی شیطانی اور آسیبی مخلوق سے محفوظ ہے ۔۔۔اب آپ سب کو نماز پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں‘‘ مولوی عبدالرحمن نے عجیب بات کہی۔ وہ سب چونک کر انہیں دیکھنے لگے:۔
مم۔۔۔ میرا مطلب ہے نفل عبادات کرنے کی اب زیادہ ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ نفلی نماز بھی اب آپ سب چھوڑ سکتے ہیں ۔۔۔ فرض نماز تو بہر حال ہر مسلمان پر فرض ہے ‘‘ مولوی عبدالرحمن نے اپنے حواس پر قابو پا کر بات کو سمیٹا۔
ٹھیک ہے مولوی صاحب ۔۔۔ آپ کا بہت بہت شکریہ ‘‘ شہباز احمد کی آنکھوں میں ممنوعیت جاگ اُٹھی۔ مولوی عبدالرحمن مسکراتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔
اب میں چلتا ہوں ۔۔۔ مجھے کسی ضروری کام سے کہیں اور بھی جانا تھا۔۔۔ سادیہ بیٹی !۔۔۔آپ کے ذہن میں اس لڑکی کا خیال اس حد تک گھر کر گیا ہے کہ آپ کو ہر وقت بس وہی لڑکی نظر آرہی ہے ۔۔۔اُس لڑکی کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیجئے ۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ آپ بہت جلد دوبارہ نارمل ہو جائیں گی‘‘ مولوی عبدالرحمن نصیحت اموز لہجے میں کہتے چلے گئے اور پھر صوفے سے اُٹھ کر گرم جوشی سے شہباز احمد اور باقیوں سے ہاتھ ملایا۔ دوسرے ہی لمحے وہ ریسٹ ہاؤس کے دروازے سے باہر نکل گئے۔ ان کے جانے کے بعد سب کے چہروں پر اطمینان اور سکون نظر آنے لگا۔ سادیہ بھی خود کو قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اب تک ہونے والے سارے واقعات اُس کے وہم کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ دوسری طرف مولوی عبدالرحمن گھر کے صدر دروازے سے باہر نکل رہے تھے۔ اِس وقت مولوی عبدالرحمن کے چہرے پر ایک بھیانک مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔


٭٭٭٭٭

خنجر کی سنسناہٹ
مولوی عبدالرحمن کے جانے کے بعد سادیہ ریسٹ ہاؤس کے باغ میں جا بیٹھی تھی۔ باغ میں موسم کافی خوشگوار تھا اور وہ کرسی پر بیٹھے اس موسم کالطف اُٹھا رہی تھی۔ تبھی اس کے موبائل کی گھنٹی بج اُٹھی۔ اس نے دیکھا۔ کال اس کی سہیلی کائنات کی تھی۔
السلام علیکم کائنات ۔۔۔ کیسی ہو‘‘ سادیہ چہک کر بولی۔
سادیہ تم اِسی وقت میرے پاس پہنچو۔۔۔ میں ایک حادثے کا شکار ہوگئی ہوں ۔۔۔ میں اس وقت شہر سے باہر والے جنگل کے کنارے پر زخمی پڑی ہوں ۔۔۔ میرے ساتھ میرے والدین بھی نہیں ہیں ۔۔۔تم فوراً یہاں پہنچ جاؤ‘‘ دوسری طرف سے کائنات کی کپکپاتی ہوئی آواز سنائی دی اور پھر لائن منقطع ہوگئی ۔ فون سن کر سادیہ کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔ وہ فوراً صدر دروازے سے باہر کی طرف بھاگی۔ صدر دراوازے پر کھڑا سیکورٹی گارڈ اسے دیکھ کر بوکھلا گیا۔
کہاں جارہی ہیں میڈم‘‘ سیکورٹی گارڈ گلاپھاڑ کر چیخا۔
کائنات کے ساتھ حادثے ہوگیا ہے ۔۔۔ اسے دیکھنے جنگل کے کنارے کی طرف جارہی ہوں ‘‘سادیہ بھاگتے بھاگتے چلائی اور پھر ایک ٹیکسی روک کر اُس میں سوار ہوگئی۔ دوسرے ہی لمحے ٹیکسی پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی ۔ جنگل کے کنارے پہنچ کر سادیہ نے کرایہ ادا کیا اورٹیکسی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔ سادیہ نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائیں لیکن وہاں تو کائنا ت کا نام و نشان تک موجود نہیں تھا۔ وہ حیرانگی کے عالم میں آس پاس دیکھنے لگی۔ پھر اس نے چند قدم جنگل کی طرف طے کئے۔ چند قدم چلنے کے بعد وہ خود کلامی کرنے لگی:۔
کمال ہے ۔۔۔ یہاں تو کائنات کہیں بھی نہیں ہے ‘‘سادیہ کھوئے کھوئے انداز میں بڑبڑائی۔ پھر اس نے اپنا موبائل نکالا تاکہ کائنات کو فون کرے۔ موبائل میں وہ پچھلی آنے والی کال کی فہرست کی طرف گئی۔ تبھی اسے ایک زبردست جھٹکا لگا۔ اُس کے موبائل میں گزشتہ آنے والی کال میں کائنات کا کہیں بھی نام نہیں تھا۔ مارے حیرت کے اُ س کے منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔ میں نے خود کائنات کی کال اُٹھائی تھی لیکن میرے موبائل کی گزشتہ کال کی فہرست میں اس کانام ہی نہیں ہے ‘‘سادیہ کی آواز میں تھرتھری تھی۔ خوف کے مارے اس کا حلق خشک ہونے لگا۔ تبھی اسے خنجر کھلنے کی سنسناہٹ سنائی دی۔ وہ سنسناہٹ سن کر کانپ اُٹھی۔ دوسرے ہی لمحے اسے اپنے پیچھے کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دینے لگی۔ وہ ہڑبڑا کر پیچھے کی طرف پلٹی۔ اور پھر !!!۔۔۔ وہ دھک سی رہ گئی۔ سامنے سلطان خنجر ہاتھ میں لیے اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ سلطان کا انداز صاف بتا رہا تھا کہ وہ خنجر سادیہ کے پیٹ میں اتار دینا چاہتا ہے۔ اس وقت سلطان کے ہونٹوں پر سفاک مسکراہٹ کھیل رہی تھی اور وہ خوفناک انداز میں خنجر لے کر سادیہ کی طرف قدم بڑھا رہا تھا۔ سادیہ کے دل و دماغ میں سنسنی خیز لہریں دوڑ گئیں۔ اس کی آنکھیں خوف کے مارے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس وقت سادیہ کے قدم اس کا وزن برداشت نہیں کر پا رہے تھے۔ دوسری طرف سلطان بے رحم مسکراہٹ کے ساتھ خنجر لے کر اس کی طرف تیزی سے بڑھ رہا تھا۔

٭٭٭٭٭
باقی آئندہ
٭٭٭٭٭
 

شاہد بھائی

محفلین
وہ کون تھی؟
مصنف :۔ شاہد بھائی
قسط نمبر:۔ 11

سلطان + سلطان
سلطان خنجر ہاتھ میں لیے سادیہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس کا انداز صاف بتا رہا تھا کہ وہ خنجر سادیہ کے پیٹ میں اتار دینا چاہتا ہے۔ اس وقت سلطان کے ہونٹوں پر سفاک مسکراہٹ نظر آرہی تھی اور وہ خوفناک انداز میں خنجر لے کر سادیہ کی طرف قدم بڑھا رہا تھا۔ سادیہ کے دل و دماغ میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔ اس کی آنکھیں خوف کے مارے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس وقت سادیہ کے قدم اس کا وزن برداشت نہیں کر پارہے تھے۔ دوسری طرف سلطان بے رحم مسکراہٹ کے ساتھ خنجر لے کر اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ سادیہ کے پاس اب بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ آگلے ہی لمحے وہ موت کے خوف سے جنگل کے کنارے کی جانب تیز رفتاری کے ساتھ دوڑ پڑی۔ یہ دیکھ کر سلطان نے ایک قہقہہ لگایا۔ اور پھر !!! ۔۔۔ وہ بھی تمسخرانہ انداز میں سادیہ کی طرف دوڑا۔ کچھ دیر تک سادیہ بھاگتی رہی۔ آخر اس کی سانس پھول گئی۔ قدم تھکنے لگے۔ حلق خشک ہونے لگا۔ کچھ ہی پل میں اسے کمزوری نے آگھیرا۔ اب اس کے لئے ایک قدم بھی چلنا ممکن نہ رہا۔ نتیجہ کے طور پر وہ رک گئی اور گہری گہری سانسیں لینے لگی۔ تبھی سلطان بھی اُس کے پاس پہنچ گیا۔ سلطان کے چہرے پر ایک ظالمانہ مسکراہٹ ناچ رہی تھی اور اس کے ہاتھ میں موجود خنجر کی چمک تیزہوتی جارہی تھی۔ سادیہ کو اِس لمحے اپنے جسم سے جان نکلتی محسوس ہوئی۔ تبھی اچانک وہ اچھل پڑی۔اُس کے جسم میں تھرتھری دوڑ گئی۔ دل کانپ اُٹھا۔ دوسری طرف سے ایک اور سلطان اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ دوسرے والے سلطان کے چہرے پر بوکھلاہٹ نظرآرہی تھی اوروہ فکرمندی کے عالم میں اس کی طرف تیز تیز قدم بڑھا رہا تھا۔
کیا ہوا سادیہ ۔۔۔ تم اس جنگل میں کیا کر رہی ہو‘‘ دوسرے سلطان نے پریشانی کے عالم میں تیز آواز میں کہا۔تبھی پہلا سلطان شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگا:۔
اب تمہیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے ‘‘ پہلے سلطان نے خوفناک انداز میں مسکرا کر خنجر لہرایا۔ سادیہ کبھی خنجر ہاتھ میں پکڑے، بھیانک مسکراہٹ کے ساتھ ایک طرف کھڑے سلطان کو دیکھنے لگی تو کبھی چہرے پر فکرمندی کے آثا ر لیے دوسری طرف سے آتے ہوئے سلطان کو دیکھنے لگی۔ اس لمحے اس نے اپنا دماغ خالی ہوتے محسوس کیا۔ اُسے ایک زبردست چکر آیااور پھر آگلے ہی پل وہ کٹے ہوئے تنے کی مانند زمین پر گری۔ پھر کچھ ہی لمحوں میں اُس کی آنکھوں کے آگے آندھیرا چھا گیا اور اس کا ذہن گہری تاریکی میں ڈوب گیا۔

٭٭٭٭٭
دماغ پر دباؤ
سادیہ کی آنکھ کھلی تو وہ اپنے کمرے میں بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔ اُس کے آس پاس شہباز احمد اور دوسرے جمع تھے ۔وہ سب اُسے پریشانی کے عالم میں دیکھ رہے تھے۔
مم۔۔۔ مجھے کیا ہوا ہے ‘‘ سادیہ کھوئے کھوئے انداز میں بولی۔
یہ کہو کہ مجھے کیا نہیں ہوا ۔۔۔تم مجھے جنگل میں خوف زدہ حالت میں ملی ہو ۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی تم بے ہوش ہو گئی تھی ۔۔۔اب میں پوچھ سکتا ہوں کہ تم جنگل کے اندر کیا کر رہی تھی‘‘ سلطان طنزیہ لہجے میں کہتا چلا گیا۔
مجھے تو کائنات کا فون آیا تھا۔۔۔ وہ کسی حادثے کا شکار ہوگئی تھی‘‘ سادیہ بوکھلا کر بولی۔
ایک اور جھوٹ ۔۔۔ کیونکہ میں نے کائنات کو خود فون کیا ہے ۔۔۔ وہ بالکل صحیح سلامت گھر میں آرام کر رہی ہے ‘‘ سلطان نے اُسے بری طرح گھور کر دیکھا۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔ فون پر تو کائنات کی ہی آواز تھی ‘‘ سادیہ نے ڈرے ڈرے انداز میں کہا۔
یار کتنے جھوٹ بولو گی ۔۔۔ میں نے تمہارے موبائل کی تمام آنے والے کال کی فہرست بھی دیکھی ہے ۔۔۔ اُس میں کائنات کا نام تک نہیں ہے ‘‘ سلطان نے جھنجھلا کر کہا۔
اوہ !۔۔۔میں نے بھی موبائل کی فہرست دیکھی تھی ۔۔۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کائنات نے مجھے کال کی ہو لیکن کال کا کوئی ریکارڈ ہی نہ ہو‘‘ سادیہ کا لہجہ خوف میں ڈوبا ہوا تھا۔
ہاں !۔۔۔میں بھی یہی کہہ رہا ہوں۔۔۔ میں تھوڑی دیر پہلے تمہیں کھانے کے میز پر بلانا آیا تھا۔۔۔تم مجھے اپنے کمرے میں نہ ملی۔۔۔ میں نے پورا گھر تلاش کیا ۔۔۔آخر سیکورٹی گارڈ کے پاس پہنچا تو اس نے بتایا کہ تم کائنات سے ملنے جنگل کے کنارے گئی ہو۔۔۔ اس کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آگیا ہے ۔۔۔ میں نے فوراً کائنات کو فون کیا لیکن وہ تو بالکل ٹھیک ٹھاک گھر میں آرام کر رہی تھی ۔۔۔ میں فوراً جنگل کی طرف نکل کھڑا ہوا۔۔۔ وہاں پہنچا تو تم مجھے دیکھ کر بے ہوش ہوگئی۔۔۔ تمہیں گود میں اُٹھا کر یہاں ریسٹ ہاؤس تک پہنچایا ۔۔۔ جب تم بے ہوش تھی تو میں نے تمہارا موبائل بھی چیک کیالیکن اس میں کائنات کی کال فہرست میں موجود ہی نہیں تھی ۔۔۔ اب تم بتاؤ۔۔۔ جھوٹ کیوں بول رہی ہو‘‘ یہ کہتے ہوئے سلطان نے اُسے تیز نظروں سے دیکھا۔
میں جھوٹ نہیں کہہ رہی ہوں ۔۔۔ مجھے واقعی کائنات کا فون آیا تھا‘‘ سادیہ تقریباً رو کر بولی۔
کائنات ۔۔۔ کائنات ۔۔۔ کائنات۔۔۔ ایک ہی نام کی رٹ لگانے سے جھوٹ سچ میں نہیں بدل جائے گا۔۔۔ آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے ‘‘ عرفان گرج کر بولا۔
عرفان اور سلطان !۔۔۔ تم دونوں ٹھنڈے ہو جاؤ ۔۔۔ غصے سے مسئلے کا حل نہیں ہوگا۔۔۔ میرا خیال ہے ہمارے ساتھ گزشتہ جو حالات جنگل میں پیش آئے تھے اُن حالات نے سادیہ کے دماغ پر گہرا اثر ڈالا ہے ۔۔۔ میں یہاں سے کچھ فاصلے پرموجود ایک مشہور ڈاکٹر کو جانتا ہوں ۔۔۔اُن کے کلینک کا بھی بہت نام سنا ہے کہ وہاں ہر بیماری کا علاج ہو جاتا ہے۔۔۔اُس کلینک میں ڈاکٹر رخسانہ پروین بیٹھتی ہیں ۔۔۔ میں سادیہ کو ان کے پاس چیک اپ کے لیے لے جاؤں گا ‘‘ شہبازاحمدپختہ لہجے میں بولے۔
ٹھیک ہے اباجان !۔۔۔ ہم تیار ہو جاتے ہیں ۔۔۔ پھر ان ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں ‘‘ عرفان نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔ پھر وہ سب ایک ایک کر کے سادیہ کے کمرے سے باہر نکل گئے۔ سادیہ اُن کے جانے کے بعد خالی خالی نظروں سے چھت کودیکھنے لگی۔ اس کی آنکھوں کے آنسو رخساروں سے بہنے کے بعد تکیے کو تر کر رہے تھے۔تھوڑی دیر بعد وہ سب تیار ہو چکے تھے۔ سادیہ نے بھی کپڑے بدل لیے تھے۔ اب وہ سب کلینک کے لیے نکلنے کو تیار تھے۔ شہباز احمد نے سیکورٹی گارڈ کو ٹیکسی لانے کے لئے بھیجا۔ ٹیکسی کے آنے کے بعد وہ سب اُس میں سوار ہوئے اور پھر ڈاکٹر رخسانہ پروین کے کلینک کی طرف روانہ ہوگئے۔ کلینک کے باہر پہنچ کر ان سب کی نظریں کلینک کے ٹھیک اوپر لگے بڑے سے بورڈ پر پڑی جہاں بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا ۔’’ ہر بیماری کا علاج سو فیصد ممکن ہے‘‘ ۔ اُنہیں نے ٹیکسی ڈرائیورکو انتظار کرنے کا کہا اور خود کلینک میں داخل ہوگئے۔ یہاں کچھ اور بھی مریض بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ دیر بعد ہی ان کی باری آگئی۔ ڈاکٹر رخسانہ پروین نے خود اُٹھ کر گرم جوشی سے اُن کا استقبال کیا۔ ٹی وی پر وہ کئی بار ایل ایل بی شہباز احمد کو انٹرویہ دیتے دیکھ چکی تھیں اور اُن کے بچوں کو بھی وہ جانتی تھیں لہٰذا وہ ان سب کو اچھی طرح پہچان گئی تھیں۔ ڈاکٹر رخسانہ نے ان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کہنے لگیں:۔
بتائیے ۔۔۔ میرے چھوٹے سے کلینک میں آپ کا کیسے آنا ہوا‘‘ ڈاکٹر رخسانہ پروین اُن کے آگے بچھی جارہی تھیں۔ شہباز احمد نے وقت ضائع کیے بغیر ساری تفصیل کہہ سنائی۔ انہیں نے تفصیل وہاں سے شروع کی جب وہ گھرسے ریسٹ ہاؤس کیلئے نکلے تھے اور پھر راستے میں ہونے والے سارے واقعات بھی وہ بتاتے چلے گئے کہ کس طرح وہ اس لڑکی کے جال میں پھنس گئے تھے اورپھر آخر میں انہیں کس طرح اُس لڑکی سے نجات ملی۔ پھر انہوں نے ریسٹ ہاؤس پہنچ کر ہونے والے سارے واقعات بھی بتا دئیے کہ سادیہ کس طرح سر پر چوٹ کھا کر بے ہوش ہوئی اور پھر بند موبائل سے فون ،کمرے میں چھپکلیاں اور اب جنگل میں کائنات کے فون کا وہم ہونے والا قصہ بھی کہہ سنایا۔ ساری بات سن کر ڈاکٹر رخسانہ سوچ میں پڑ گئیں۔
میرا خیال ہے کہ سادیہ نے جنگل میں ہونے والے واقعات کا بہت زیادہ دباؤ لے لیا ہے ۔۔۔ لیکن میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتی ۔۔۔ ہمیں سادیہ کے دماغ کا مکمل ٹیسٹ کرنا ہوگا۔۔۔ ٹیسٹ کی رپورٹ آنے کے بعد ہی ہم کسی نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں‘‘ ڈاکٹر رخسانہ نے پر خیال انداز میں کہا۔ ان سب نے صر ف سر ہلا دیا۔ ڈاکٹر رخسانہ اُٹھیں اور سادیہ کو ساتھ لے کر پردے کے پیچھے چلی گئیں۔ کچھ دیر تک وہ سب بے صبری سے انتظا ر کرتے رہے۔ آخر ڈاکٹر رخسانہ اور سادیہ کی واپسی ہوئی۔ڈاکٹر دوبارہ اپنی کرسی پر بیٹھ کر کہنے لگیں:۔
میں نے سادیہ کے دماغ کا مکمل ٹیسٹ کر لیا ہے ۔۔۔ کل صبح تک رپورٹ آپ کو مل جائے گی ۔۔۔ کل صبح آپ میرے پاس آجائیں ۔۔۔ پھر ہم رپورٹ کے نتائج دیکھ کر ہی علاج کرنا شروع کریں گے ‘‘ ڈاکٹر رخسانہ نے پرسکون انداز میں کہا۔ شہباز احمد نے فکرمندی کے عالم میں ان کی طرف دیکھا اور پھر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ جلد ہی وہ سب کلینک سے باہر نکل گئے۔ باہر اُن کی ٹیکسی ان کا انتظار کر رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ دوبارہ اپنے ریسٹ ہاؤس میں داخل ہورہے تھے۔ اب انہیں انتظار تھا تو صرف کل کی رپورٹ آنے کا جس سے ساری بات واضح ہو جانی تھی۔

٭٭٭٭٭
لڑکی کا وار
رات کے دس بج رہے تھے۔ ڈاکٹر رخسانہ کے کلینک کے تمام مریض رخصت ہو چکے تھے اور وہ خود بھی بس کلینک بند کر کے نکلنے ہی والی تھیں۔تبھی اُن کا اسسٹنٹ کلینک میں داخل ہوا:۔
میڈم ۔۔۔ وہ جو لڑکی آج شام کوآئی تھی ۔۔۔ اُس کی ٹیسٹ کی رپورٹ آگئی ہے ۔۔۔یہ رہی ‘‘ ان کے اسسٹنٹ نے سادیہ کی رپورٹ اُن کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ڈاکٹر رخسانہ نے رپورٹ ہاتھ میں پکڑی اور کہنے لگیں:۔
تم اپنے گھر جاؤ۔۔۔ میں رپورٹ دیکھ کر خود ہی کلینک بند کر دوں گی ‘‘ ڈاکٹر رخسانہ نے لاپروائی سے کہا۔ ان کا اسسٹنٹ سر ہلاتا ہوا کلینک سے باہر نکل گیا۔ ڈاکٹر رخسانہ نے رپورٹ کے اوپری کاغذ کو ہٹایا اور پھر رپورٹ کولفافہ میں سے نکال کر دیکھا۔ دوسرے ہی لمحے وہ حیران رہ گئیں۔ رپورٹ بالکل نارمل تھی۔ سادیہ کا ذہن بالکل ٹھیک کام کر رہا تھا۔ وہ حیران رہ گئیں۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔ اگر سادیہ کا دماغ بالکل ٹھیک ہے تو اس کے ساتھ وہ سارے عجیب وغریب واقعات کیسے پیش آسکتے ہیں‘‘ ڈاکٹر الجھ کر بولیں۔تبھی وہ بری طرح اچھل پڑیں۔ ان کے کلینک کا بلب خود بخود جلنے اور بجھنے لگا۔ وہ خوف کے مارے اپنی کرسی سے اُٹھ کھڑی ہوئیں ۔ تبھی کلینک میں ایک قہقہہ کی آواز گونج اُٹھی۔ ڈاکٹر قہقہہ سن کر کانپ گئیں۔اور پھر !!!۔۔۔ انہیں لگا جیسے کسی کے ہاتھ نے ان کی گردن کو پکڑ لیا ہے اور اب وہ ہاتھ ان کی گردن پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ وہ بوکھلا گئیں کیونکہ کلینک میں کوئی بھی موجود نہیں تھا لیکن ان کے گردن پر دباؤ بدستور بڑھتا جارہا تھا۔ ان کا دم گھٹنے لگا۔ سانس گلے میں اٹک کر رہ گئی۔ چہرہ سرخ ہونے لگا۔تبھی کسی کی ہنسی کی آواز گونج اُٹھی:۔
ہی ہی ہی ۔۔۔ کیسا لگ رہا ہے میڈم‘‘ لڑکی کی زہریلی ہنسی کی آواز سنائی دی لیکن وہ اب بھی نظر نہیں آرہی تھی۔
مجھے چھوڑ دو۔۔۔ میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے ‘‘ ڈاکٹر کے منہ سے پھنسی پھنسی آواز نکلی۔اُنہیں اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی ۔
آپ کو صرف ایک کام کرنا ہے ۔۔۔ اگر آپ نے میرا کام نہ کیا تو پھر میں آپ کے ساتھ وہ حشر کروں گی کہ ساری انسانیت کانپ اُٹھے گی‘‘ اس بار لڑکی کی پھنکار گونجی۔
کیسا کام‘‘ ڈاکٹرجلدی سے بولیں کیونکہ انہیں سانس لینے میں مشکل پیش آرہی تھی اور گلے کا دباؤ مسلسل بڑ ھ رہا تھا۔
کل صبح شہباز احمد اور ان کے گھر والے آپ کے پاس سادیہ کی رپورٹ لینے آئیں گے ۔۔۔ آپ اُن سے کہے گیں کہ رپورٹ آپ سے گم ہوگئی ہے لیکن !۔۔۔ رپورٹ کے مطابق سادیہ کا دماغ نارمل نہیں ہے ۔۔۔ سمجھ گئیں ‘‘لڑکی نے سرد لہجے میں کہا۔
سمجھ گئی۔۔۔ اب میرا گلاچھوڑ دو‘‘ ڈاکٹر کی گھٹی گھٹی آواز نکلی۔ دوسرے ہی لمحے ڈاکٹر کی گردن سے ہاتھ ہٹ گیا۔ پھر بلب بھی معمول کے مطابق جلنے لگا۔اِس وقت ڈاکٹر کے چہرے پر گھبراہٹ اور خوف کا سایہ منڈلارہا تھا ۔وہ سہمے ہوئے انداز میں کھڑی تھیں۔پھر وہ کافی دیر تک گہری گہری سانسیں لیتی رہیں۔ اور پھر ڈاکٹر کل صبح کا انتظار کرنے لگیں۔
آگلے دن صبح شہباز احمد اپنے بچوں اور اپنے اسسٹنٹ کے ساتھ ڈاکٹر رخسانہ پروین کے کلینک میں موجودتھے اور بے چینی کے عالم میں ڈاکٹر رخسانہ کو دیکھ رہے تھے۔
دیکھیں ۔۔۔ اب جو میں آپ کو بات بتانے والی ہوں اسے تحمل و برداشت سے سننی ہے ۔۔۔ گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے ‘‘ ڈاکٹر نے تمہید کے طورپر دلاسادیا۔
معما میں باتیں مت کریں ڈاکٹر۔۔۔ صاف صاف کہیے ۔۔۔ بات کیا ہے ‘‘ شہباز احمدنے بے قراری کے عالم میں کہا۔
اصل میں کل رات کو ہی سادیہ کی رپورٹ آگئی تھی۔۔۔لیکن وہ مجھ سے کہیں گم ہوگئی ہے۔۔۔میں اس وجہ سے آپ کو رپورٹ نہیں دیکھا سکتی۔۔۔لیکن میں نے اس رپورٹ کا غور سے مطالعہ کیا ہے ۔۔۔ اُس رپورٹ میں لکھا تھا کہ ۔۔۔‘‘ یہاں تک کہہ کر ڈاکٹر رک گئیں۔ وہ سب بے چین ہو کر انہیں دیکھنے لگے۔ آخر ڈاکٹر نے دوبارہ کہنا شروع کیا :۔
اس رپورٹ کے مطابق سادیہ کے دماغ پر گہرا اثر پڑا ہے ۔۔۔ جس وقت اسے سر پر چوٹ لگی تھی اور وہ چوٹ لگنے والے واقعہ کو بھول گئی تھی اس وقت سے ہی سادیہ کا دماغ اس کے قابو میں نہیں رہ گیا تھا ۔۔۔اُس چوٹ نے سادیہ کے دماغ پر گہرا زخم ڈال دیا ہے ۔۔۔ وہ اِس وقت ایسے واقعات سننے اور دیکھنے لگی ہے جو حقیقت میں ہوتے ہی نہیں ہیں ۔۔۔ وہ خود سے ایک فرضی کہانی بنا کر آپ کو سنا دیتی ہے ۔۔۔ میں یہ نہیں کہتی کہ سادیہ جھوٹ بول رہی ہے بلکہ حقیقتاً وہ سارے واقعات اسے پیش آتے ہیں لیکن! ۔۔۔ اصل زندگی میں ایسا کچھ نہیں ہوا ہوتا ۔۔۔ وہ صرف اس کے دماغ کی اپنی کہانی ہوتی ہے جو سادیہ کے سامنے آجاتی ہے ۔۔۔ اِسے میڈیکل کی زبان میں نیورولوجیکل ڈِس آوڈر کہتے ہیں ۔۔۔مختصراً یہ کہ سادیہ کی رپورٹ آب نارمل آئی ہے ۔۔۔اُس کا دماغ پاگل پن کا شکار ہوگیاہے‘‘ ڈاکٹر کے ایک ایک الفاظ اُن سب پر بم کی طرح پڑ رہے تھے۔ اس وقت شہباز احمد کے چہرے پر زلزلے کے آثار تھے۔ ان کا چہرہ پیلا پڑ گیا تھا۔ دوسروں کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں تھی۔ ان سب کے رنگ اُڑ چکے تھے۔ سادیہ ڈاکٹر کی بات سن کر خود کو پاگل محسوس کررہی تھی اور اُس کا جسم لرز رہا تھا۔ پریشانی کا سمندر ان سب کو اپنے ساتھ بہا لے گیا تھا اور وہ سب کسی طرح بھی خود کو سنبھال نہیں پارہے تھے۔ دوسری طرف کلینک کے باہر وہ شیطانی لڑکی زہریلے انداز میں مسکرا رہی تھی۔

٭٭٭٭٭
باقی آئندہ
٭٭٭٭٭
 

شاہد بھائی

محفلین
وہ کون تھی؟
مصنف:۔ شاہد بھائی
قسط نمبر:۔ 12

چاقو سے حملہ
سادیہ ڈاکٹر کی بات سن کر خود کو پاگل محسوس کررہی تھی ۔ اُس کا جسم لرز رہا تھا ۔ دوسروں کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں تھی ۔ پریشانی کا سمندر اُن سب کو اپنے ساتھ بہا لے گیا تھا اور وہ سب کسی طرح بھی خود کو سنبھال نہیں پارہے تھے ۔ دوسری طرف کلینک کے باہر وہ لڑکی زہریلے انداز میں مسکرا رہی تھی۔
یہ۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔ سادیہ کا دماغ آب نارمل نہیں ہو سکتا ‘‘ شہباز احمد تھرتھرا اُٹھے۔
ڈاکٹر۔۔۔ کیا اس بیماری کا کوئی علاج نہیں ہے ‘‘ عرفان پریشان ہو کر بولا۔
علاج تو ضرور ہے لیکن کافی سست روی سے علاج کیا جاسکے گا۔۔۔جو بھی دوائی دی جائے گی اس کا دماغ پر کیا اثرہوتا ہے ۔۔۔ بہتری آتی ہے یا خدانخوستہ حالت اور بگڑ جاتی ہے ۔۔۔ یہ دیکھ کر ہی آگلی دوائی منتخب کی جائے گی ۔۔۔ علاج کے ان عوامل میں کافی وقت درپیش ہوگا۔۔۔مجھے امید ہے کہ آپ میری بات سمجھ رہے ہیں‘‘ ڈاکٹر نے وضاحت کی۔
جی ڈاکٹر۔۔۔ ہم سمجھ گئے ‘‘ سلطان نے مریل انداز میں کہا۔
آپ سب ہمت مت ہارئیے ۔۔۔ خاص طور پرتم سادیہ ۔۔۔ تم اپنے اندر اس بیماری سے لڑنے کا جذبہ پیدا کرو۔۔۔ جب تک تم اس لڑائی کے لئے پرعزم نہ ہوگی دوائیاں کچھ نہیں کر سکیں گی ۔۔۔ فلحال میں کچھ دوائیاں دے رہی ہوں ۔۔۔ یہ میرے کلینک میں ہی رکھی ہوئی تھیں ۔۔۔ باقی ان دوائیوں کے اثرات دیکھ کر آگلی بارکے چیک اپ کے بعد آگے کی دوائیاں دی جائیں گی‘‘ ڈاکٹر نے اپنی میز کی دراز سے کچھ دوائیاں نکالتے ہوئے کہا۔ شہباز احمد نے وہ دوائیاں پکڑی۔ ڈاکٹر نے اپنا کارڈ بھی شہباز احمد کو تھما دیا۔ کارڈ جیب میں ڈال کرشہباز احمد ان سب کے ساتھ کھوئے کھوئے انداز میں کلینک سے باہر نکل گئے ۔ اس وقت سادیہ بالکل خاموش تھی۔ دوسروں کو بھی جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ ریسٹ ہاؤس پہنچ کر وہ سب باہر ہال میں آکر بیٹھ گئے۔ آخر سلطان نے ہی زبان کھولی:۔
سادیہ کے دماغ کی حالت اِس طرح کیسے بگڑ سکتی ہے۔۔۔شاید میں خواب دیکھ رہا ہوں۔۔۔ بس اب عمران مجھے آکر جگا ہی دو۔۔۔اگر نہ جاگوں تو بے شک پانی چھڑک دینا ‘‘ سلطان نے کھلے دل سے اجازت دے دی۔
لیکن تم تو پانی چھڑک کر بھی نہیں اُٹھتے ۔۔۔ تمہاری نیند بہت پکی ہے یار‘‘ عمران منہ بنا کر بولا۔
جس طرح پودوں پر پانی چھڑکتے ہیں اس طرح پانی چھڑکوگے تو کیا خاک اُٹھوں گا‘‘ سلطان جھلا کر بولا۔
تو کیا پانی کی پوری بالٹی چہرے پر ڈال دوں‘‘ عمران مسکرایا۔
یہ تم لوگوں نے کیا شروع کر دیا۔۔۔ تھوڑی دیر خاموش بیٹھنے سے زبان بے کار نہیں ہو جاتی‘‘ عرفان جھنجھلا کر بولا۔
اچھا۔۔۔ مجھے تو پتا ہی نہیں تھا۔۔۔ بہت مفید معلومات ہے ‘‘ سلطان نے مذاق اُڑانے والے انداز میں کہا۔
میں پانی پی کر آتی ہوں‘‘ سادیہ اُٹھتے ہوئے بولی۔ اس وقت سادیہ کا چہرہ اُس کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ وہاں موجود ہر انسان کی حالت سادیہ کی حالت سے کچھ مختلف نہ تھی۔ اس سنجیدہ ماحول کو خوشگوار کرنے کے لئے ہی سلطان اور عمران نے مذاق شروع کیا تھا لیکن ان کی مسکراہٹیں بھی ماحول کی پراسراریت کو کچھ کم نہیں کرپائی تھیں۔تبھی وہ سب اُچھل پڑے اور پھر ہڑبڑا کر اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ باورچی خانے سے سادیہ کی ایک لرزادینے والی چیخ سنائی دی تھی۔ سادیہ کی چیخ نے ان سب کے اوسان خطا کر دئیے۔ وہ تیزی سے باورچی خانے میں داخل ہوئے ۔ دوسرے ہی لمحے وہ سب دنگ رہ گئے ۔ سادیہ باورچی خانے کے ایک کونے میں خوف زدہ ہوئی کھڑی تھی۔ اس کے چہرے پر خوف کا سمندر موجھیں مار رہا تھا۔ وہ سب حیرانگی کے عالم میں اس کے قریب آئے ۔سادیہ نے بنا کچھ کہے سامنے کی طرف اشارہ کیا ۔ اُن سب کی نگاہیں سادیہ کے اشارے کی سمت گئی لیکن پھر خالی واپس لوٹیں اور سادیہ کو ایک مرتبہ پھر سوالیہ انداز میں دیکھنے لگیں کیونکہ سادیہ نے جس سمت اشارہ کیا تھا وہاں تو کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ سب تعجب سے سادیہ کو دیکھنے لگے:۔
کیا ہوا ۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں ہے وہاں‘‘ عرفان نے حیرت زدہ ہو کر کہا۔
نہیں !۔۔۔ وہ لڑکی مجھے مارنے کے لئے میر ی طرف بڑھ رہی ہے ‘‘ سادیہ خوف سے کانپ کر بولی۔ وہ سب ہکا بکا رہ گئے ۔ پھر شہباز احمد نے ان سب کو اشارہ کیا اور سادیہ کو تسلی دینے کے لئے آگے بڑھے:۔
سادیہ اپنے دماغ پر زیادہ دباؤ نہ ڈالو۔۔۔ آرام کرو۔۔۔ کیونکہ تمہیں آرام کی بہت زیادہ ضرورت ہے ‘‘ شہباز احمد نے شفقت بھرے انداز میں کہا۔ یہاں وہ شیطانی لڑکی سادیہ کے پاس کھڑی تمسخرانہ انداز میں ان سب کو دیکھ رہی تھی۔
نہیں ابا جان ۔۔۔ میں سچ کہہ رہی ہوں۔۔۔ وہ آسیبی لڑکی مجھے مارنے والی ہے ۔۔۔ مجھے بچا لیجئے اباجان ‘‘ سادیہ سسک کر بولی۔ وہ سب پریشانی کے عالم میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ سادیہ دماغی بیماری کی وجہ سے یہ سب کچھ کہہ رہی ہے۔ اب وہ پریشان تھے کہ سادیہ کو کس طرح سنبھالیں اور اُسے اس صورت حال سے باہر لے کر آئیں۔ دوسری طرف سادیہ ڈرے ڈرے انداز میں باورچی خانے کی دیوار کی طرف ہٹنے لگی۔ اس وقت اس کے چہرے پر زلزلے کے آثار تھے۔ تبھی سادیہ کو ایسا لگا جیسے کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیاہو۔ وہ خوف کے مارے چلا اُٹھی۔ وہ سب فوراً سادیہ کی طرف بڑھے۔لیکن تبھی !!!۔۔۔ سادیہ باورچی خانے کے ایک طرف رکھے پھل کاٹنے کے چاقو کی طرف تیزی سے بڑھی اور پھر اُس نے چاقو اُٹھا لیا۔ یہ سب کچھ صرف چند لمحات میں ہوا تھا۔ وہ سب کھڑے کے کھڑے رہ گئے تھے۔
اباجان ۔۔۔ یہ چاقو میں نے نہیں اُٹھایا۔۔۔ اس لڑکی نے میرا ہاتھ پکڑ کر زبردستی مجھے چاقوتھما دیا ہے ‘‘ سادیہ کی آواز میں کپکپی تھی۔ وہ سب بتوں کی مانند سادیہ کو دیکھ رہے تھے ۔ پھر !!!۔۔۔آگلے لمحے نے ان سب کے دل دہلا کر رکھ دئیے۔ سادیہ کا چاقو والا ہاتھ اس کے پیٹ کی طرف آرہا تھا۔ سادیہ اپنی پوری طاقت صرف کر رہی تھی کہ اپنے ہاتھ کو پیٹ کی طرف جانے سے روک سکے لیکن اس کی ساری طاقت بھی اس کے ہاتھ میں پکڑے چاقو کو پیٹ کی طرف بڑھنے سے نہیں روک پا رہی تھی۔ سادیہ کے چہرے سے صاف نظر آرہا تھا کہ اب اس کا ہاتھ اس کے قابو میں نہیں ہے۔ اور پھر!!!۔۔۔چاقو تیز رفتاری کے ساتھ سادیہ کے پیٹ کی طرف گیا۔ سادیہ نے آنکھیں بند کرلیں اورخوف سے پوری قوت سے چلائی لیکن اُسی وقت سلطان بجلی کی تیزی سے آگے بڑھا اور سادیہ کے چاقو والے ہاتھ کو پیٹ سے چند انچ کے فاصلے پر مضبوطی سے پکڑ لیا۔ سادیہ کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔سلطان نے چاقو سادیہ کے ہاتھ سے نکالا اور ایک طرف پھینک دیا۔ سادیہ نے آنکھیں کھولیں۔ آنکھ کھول کر اس نے یہ سارا منظردیکھا۔ وہ چکر ا گئی۔ پھر اس کی آنکھوں کے مناظر دھندلے ہونے لگے۔ دوسرے ہی لمحے وہ زمین کی طرف آئی۔ سلطان نے فوراً آگے بڑھ کر اُسے تھام لیا۔ سادیہ اس وقت مکمل طور پر بے ہوش ہو چکی تھی۔


٭٭٭٭٭

سچ کا خلاصہ
سادیہ اس وقت اپنے کمرے میں بستر پر بے ہوش پڑی تھی۔ اُس کے آس پاس گھر والے اُسے پریشان نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔تین دن میں سادیہ کی حالت بہت زیادہ بگڑ گئی تھی۔وہ کئی مرتبہ خوف سے بے ہوش ہو چکی تھی۔
مجھے تو یقین نہیں آرہا کہ سادیہ نے آج خودکشی کرنے کی کوشش کی ہے ‘‘ شہباز احمد کانپ اُٹھے۔
لیکن ابا جان!۔۔۔سادیہ تو کہہ رہی تھی کہ وہ لڑکی اس کے ہاتھ میں زبردستی چاقو تھما کر اسے مارنے کی کوشش کررہی ہے ‘‘ سلطان الجھن میں مبتلا تھا۔
تم نے ڈاکٹر کی بات نہیں سنی۔۔۔ ڈاکٹر نے صاف کہا تھا کہ اِس دماغی بیماری میں سادیہ مختلف فرضی کہانیاں سنائی گی۔۔۔وہ جھوٹ نہیں بول رہی ہوگی لیکن اصل میں اُس کے دماغ کی من گھڑت کہانی اس کے سامنے آجائے گی ۔۔۔اور وہ اُسے سچ سمجھ کر ہمیں سنائے گی۔۔۔ آج باورچی خانے میں بھی یہی ہوا ہے ‘‘ عرفان کہتا چلا گیا۔
اور ویسے بھی ۔۔۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اس لڑکی نے آخری سانسیں لی تھیں۔۔۔ وہ بھلا واپس کیسے آسکتی ہے ۔۔۔ اور پھر مولوی صاحب نے بھی کہا تھا کہ اب اس گھر میں کوئی شیطانی سایہ نہیں ہے ۔۔۔اس کے بعد اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ سادیہ نے گزشتہ دنوں کا دباؤ اپنے ذہن پر لے لیا ہے ۔۔۔ اور اُس کے سر پر لگی چوٹ نے اس کے دماغ پر گہرا اثر ڈالا ہے ۔۔۔ ہمیں یہ باتیں ذہن میں رکھ کر سادیہ کی دیکھ بھال کرنی ہے ‘‘ شہباز احمد روانگی کے عالم میں بولے۔تبھی سادیہ نے کروٹ بدلی اور پھر گنودنگی کے عالم میں چلی گئی۔
میرا خیال ہے ہمیں سادیہ کے پاس بیٹھ کر باتیں نہیں کرنی چاہیے ۔۔۔ اس طرح وہ آرام نہیں کر پائے گی ‘‘ سلطان نے فکرمندی کے عالم میں سادیہ کی طرف دیکھ کر کہا۔ ان سب نے اثبات میں سر ہلا دیا اور کمرے سے باہر نکل گئے ۔ سلطان بھی باہر ہال میں آکر صوفے پر بیٹھ گیا۔ دوسری طرف کمرے میں، سادیہ اب ہوش میں آ چکی تھی۔ اس نے کمزوری سے اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر بستر سے اُٹھنے کی کوشش کرنے لگی۔ تبھی اُسے باہر ہال سے شہزاد کی آواز سنائی دینے لگی:۔
سر۔۔۔ میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتا تھا۔۔۔ سادیہ کو اب گھر میں رکھنے میں بہت خطرہ ہے ۔۔۔ آج اُس نے اپنی جان لینے کی کوشش کی ہے ۔۔۔ کل کو ہمیں بھی نقصان پہنچا سکتی ہے ۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ اُسے پاگل خانے بھیج دینا چاہیے ‘‘ شہزاد تجویز پیش کر رہا تھا۔ یہ سن کر شہباز احمد غضب ناک انداز میں اُٹھے اور شہزاد کے چہرے پر ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا۔تھپڑ کی زور دار آواز وہاں گونج اُٹھی اور پھر موت کا سا سناٹا چھا گیا۔وہ سب شہزاد کو غصیلے انداز میں دیکھ رہے تھے۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بیٹی کے بارے میں ایسی گھٹیا بات بولنے کی ‘‘ شہباز احمد گرج کر بولے۔
لل۔۔۔ لیکن مم۔۔۔ میں تو ‘‘ شہزاد ہکلا کر کہنے لگا لیکن سلطان نے اس کی بات کاٹ دی۔
آج آپ نے ثابت کر دیا ہے کہ آپ ہمارے بھائی نہیں بلکہ صرف ابا جان کے اسسٹنٹ ہیں۔۔۔ آپ نے اس گھر کو کبھی اپنا سمجھا ہی نہیں ‘‘ سلطان کرخت لہجے میں بولا۔
اب آپ اس گھر میں صرف اباجان کے اسسٹنٹ کے طور پر ہی رہ سکتے ہیں ۔۔۔ اس گھرکا حصہ کبھی نہیں بن سکتے ‘‘ عرفان کے لہجے میں شدید کاٹ تھی۔
سادیہ ہمارے گھر میں رہے گی یا نہیں ۔۔۔ یہ فیصلہ کرنے والے آپ کون ہوتے ہیں ۔۔۔ وہ ہماری بہن ہے ۔۔۔ ہم مرتے دم تک اسے تنہا نہیں چھوڑیں گے‘‘ عمران سخت لہجے میں بولا۔ شہزاد بنا کچھ بولے وہاں سے اُٹھ کھڑا ہوا اورپھر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ یہاں سادیہ اپنے کمرے کے دروازے کے پاس کھڑی یہ سب کچھ سن رہی تھی ۔ اس وقت اس کی آنکھوں سے آنسو کی لڑیاں بہ رہی تھیں۔
شہزاد بھائی نے کچھ غلط نہیں کہا ۔۔۔ میں واقعی اس گھر میں رہنے کے لائق نہیں ہوں ‘‘ سادیہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی اور پھر اپنے بستر پر لیٹ کر زور وقطار رونے لگی۔ کافی دیر تک اُس کی سسکیاں کمرے میں گونجتی رہیں۔ دوسری طرف وہ شیطانی لڑکی سادیہ کے کمرے کے باہر کھڑی اسے طنزیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
تم روتے ہوئے کس قدر خوبصورت لگتی ہو سادیہ ۔۔۔ بس اِسی طرح روتی رہا کرو۔۔۔ اور اب تو صرف تم نہیں یہ پورا گھرانہ روئے گا۔۔۔ مجھ سے دشمنی لے کر تم لوگوں نے خود کو بہت بڑی مشکل میں ڈال لیا ہے ۔۔۔ تمہارے گھروالے تمہیں چھوڑنے کو کسی صورت تیار نہیں ہیں ۔۔۔وہ تمہیں خود سے جدا کر کے پاگل خانے نہیں بھیجنا چاہتے ۔۔۔ لیکن !!۔۔۔ بہت جلد تم اس دنیا کو ہی چھوڑ نے والی ہو پھر تمہارے گھر والے کیا کریں گے ۔۔۔ پھر تو اُنہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تمہیں چھوڑنا ہی پڑے گا‘‘ یہ کہتے ہوئے اس لڑکی ایک زبردست قہقہہ لگایا۔ اس وقت اس کے چہرے پر بدلے کی نہ بجھنے والی آگ تھی۔ ا س وقت وہ واقعی شیطانوں کی رانی لگ رہی تھی۔کچھ دیر تک رونے کے بعد سادیہ آنسو صاف کرتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کے چہرے پر ہمت اور عزم کی بجلیاں نظر آنے لگیں:۔
نہیں !۔۔۔ میں اتنی آسانی سے ہار نہیں مانگ سکتی ۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ میں کسی بھی بیماری میں مبتلا نہیں ہوں ۔۔۔و ہ لڑکی مجھے صاف طور پر نظر آئی تھی اور مجھے زبردستی چاقو پکڑنے پر مجبور کر رہی تھی ۔۔۔ وہ لڑکی واپس آگئی ہے ۔۔۔ میں اسے اتنی آسانی سے جیتنے نہیں دوں گی ۔۔۔ میں خود کو اور اپنے گھر والوں کو اس کے شیطانی جال سے نجات دلا کر رہوں گی ۔۔۔ چاہے اس سب میں میری خود کی جان کیوں نہ چلی جائے ‘‘ سادیہ کا لہجہ مضبوط تھا۔ اس کے آنکھوں میں جوش کا سمندر نظر آرہا تھا۔ پھر وہ اُٹھی اور اپنے کمر ے سے باہر نکل گئی۔ باہر ہال میں اس وقت کوئی بھی نہیں تھا۔دوپہر کا وقت تھا اور سب اپنے اپنے کمروں میں آرام کرنے چلے گئے تھے ۔ سادیہ ہال عبور کرتے ہوئے ریسٹ ہاؤس سے نکلتی چلی گئی۔ کچھ دیر بعد وہ ڈاکٹر رخسانہ پروین کے کلینک کے باہر کھڑی تھی۔ سادیہ جیسے ہی کلینک میں داخل ہوئی ڈاکٹر رخسانہ بری طرح چونکیں۔ سادیہ کو یہاں دیکھنے کی امید اُنہیں قطعاً نہیں تھی۔ سادیہ ان کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی۔ پھر انہیں تیز نظروں سے دیکھنے لگی۔
کیا بات ہے ۔۔۔ آپ یہاں کیسے ۔۔۔ سب ٹھیک تو ہے نہ ‘‘ ڈاکٹر بوکھلا کربولیں۔
آپ تو ٹھیک ہے نہ ڈاکٹر۔۔۔ کیونکہ میں تو بالکل ٹھیک ہوں لیکن آپ کا کہنا ہے کہ میں ٹھیک نہیں ہوں ۔۔۔ اس لیے آپ مجھے ٹھیک نہیں لگ رہیں‘‘ سادیہ ایک ہی سانس میں کہتی چلی گئی۔ پھر وہ چونک اُٹھی۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی سلطان کی طرح بات کرنے لگی تھی۔ ڈاکٹر اُسے حیران ہو کر دیکھ رہی تھیں۔سادیہ نے انہیں چاقو والا سارا واقعہ کہہ سنایا۔ پھر کہنے لگی:۔
مجھے یقین ہے کہ مجھے کوئی دماغی بیماری نہیں ۔۔۔ مجھ سے زبردستی چاقو اُٹھوایا گیا تھا ۔۔۔ اور پھر میرے ہی ہاتھ سے مجھے مارنے کی کوشش کی گئی تھی۔۔۔ وہ لڑکی میرے آنکھوں کے سامنے باورچی خانے میں تھی ۔۔۔ اس کی ایک ایک حرکت میں نے دیکھی ہے کہ وہ کس طرح مجھے مجبور کر کے چاقو زبردستی تھما رہی تھی۔۔۔اب آپ کو کیا لگتا ہے ۔۔۔ میں آپ کی اس بات پر یقین کروں گی کہ یہ سب میرے دماغ کی من گھڑت کہانی ہے ۔۔۔ جبکہ میں خود اپنی آنکھوں کے سامنے سب کچھ دیکھ چکی ہوں ۔۔۔ اگر آپ سچی ہیں تو مجھے وہ رپورٹ دکھائیں جس میں میری بیماری لکھی ہوئی ہے ‘‘ سادیہ سرد لہجے میں کہتی چلی گئی۔ ڈاکٹر نے ایک پل کے لئے اُسے دیکھا اورپھر ایک کاغذ لیا۔ قلم سنبھالا اور کچھ لکھنے لگیں۔ سادیہ حیرت سے اُنہیں دیکھ رہی تھی۔ اپنی تحریر مکمل کرنے کے بعد انہوں نے میز کی دراز سے کچھ اور کاغذات نکالے اور پھر اس تحریر والے صفحے کو کاغذات کے اوپر رکھ کر کاغذات سمیت وہ صفحہ سادیہ کو دے دیا۔ سادیہ کی نظریں صفحہ پر لکھی تحریر پر اٹک کر رہ گئیں۔ لکھا تھا:۔
میں جانتی ہوں کہ تم بالکل ٹھیک ہو ۔۔۔ تمہیں کوئی دماغی مسئلہ نہیں ہے ۔۔۔ لیکن میں مجبور ہوں ۔۔۔ یہ بات کسی کو نہیں کہہ سکتی کیونکہ مجھے اس لڑکی نے موت کی دھمکی دی ہے ۔۔۔مجھے معاف کر دینا سادیہ۔۔۔ میں نے سنا ہے کہ جناتی مخلوقات پڑھنا لکھنا نہیں جانتی۔۔۔ اس لئے تمہیں یہ سب کچھ لکھ کر دے رہی ہوں ۔۔۔ اور ساتھ میں یہ رپورٹ بھی دیکھ لو جو اس تحریر سے دو صفحہ چھوڑ کر رکھی ہوئی ہے‘‘ ۔
پوری تحریر پڑھ کر سادیہ دنگ رہ گئی۔ اُس نے فوراً تحریر والے صفحے کو پیچھا کیا اور ساتھ میں دو صفحے اور پیچھے ہٹائے ۔ دوسرے ہی لمحے وہ دھک سی رہ گئی۔ رپورٹ اُس کے سامنے تھی جس میں صاف لکھا ہوا تھا کہ سادیہ کا دماغ بالکل نارمل ہے۔ اسے کوئی بھی بیماری نہیں ہے۔ ڈاکٹر نے بے بسی سے وہ رپورٹ واپس مانگنے کا اشارہ کیا کیونکہ اگر سادیہ گھر والوں کو رپورٹ دکھا دیتی تو ڈاکٹر کی جان خطرے میں پڑ جاتی۔ سادیہ نے بے چارگی کے عالم میں وہ تحریر اورساتھ میں رپورٹ بھی ڈاکٹر کے حوالے کر دی۔پھر وہ چپ چاپ اُٹھی اور کلینک سے باہر نکل گئی۔ کلینک میں ڈاکٹر اب اپنے سر سے بھاری بوجھ ہٹتا محسوس کررہی تھیں۔ انہوں نے سچ سادیہ کو بتا دیا تھا۔ اس وقت دوپہر کے چڑچڑاتی ہوئی دھوپ تھی ۔گرمی کی وجہ سے کلینک بالکل خالی پڑا تھا۔ ڈاکٹر نے اپنا سر کرسی سے ٹکا دیا اور ٹھنڈی سانس لی لیکن تبھی !!!۔۔۔ ایک رسی دیوار سے نکل کر ڈاکٹر کے گلے کی طرف آئی اور پھر گلے میں پھندے کی طرح پھنس گر رہی گئی۔ ڈاکٹر کے منہ سے گھٹی گھٹی آواز نکلی۔ دوسری طرف اس رسی کا دباؤ بڑھتا چلا گیا۔ وہ ہاتھ پاؤں چلانے لگیں۔ کافی دیر تک وہ تڑپتی رہیں اور پھر ان کا دم گھنٹے لگا۔ سانس اکھڑنے لگا۔ ان کا چہرہ سرخ ہوگیا۔رسی نے ان کے گلے کو دبوچ رکھا تھا اور وہ اپنی پوری کوشش کے باوجود رسی گلے سے نکال نہیں پارہی تھیں۔ آخر ڈاکٹر کے منہ سے ایک خراش زدہ چیخ نکلی اور پھر انہوں نے دم توڑ دیا۔کچھ دیر بعد وہ آنکھوں میں زندگی کی حسرت لیے کرسی پر بے سد پڑی تھیں۔ اُس شیطانی لڑکی کے ہاتھوں سے مرنے والوں کی فہرست میں مولوی عبدالرحمن کے بعد اب وہ بھی شامل ہو چکی تھیں۔

٭٭٭٭٭
باقی آئندہ
٭٭٭٭٭
 

شاہد بھائی

محفلین
وہ کون تھی؟
مصنف:۔ شاہد بھائی
قسط نمبر:۔13

خوفناک سفر
سادیہ اپنے کمرے میں داخل ہوئی تو بری طرح چونک اُٹھی۔ سلطان اُس کے بستر پر بیٹھا اُسے تیز نظروں سے گھور رہا تھا۔
میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کہاں گئی تھیں میڈم‘‘ سلطان کے لہجے میں شدید طنز تھا۔
میں کلینک گئی تھی ڈاکٹر رخسانہ پروین کے پاس ۔۔۔ میں ان سے اپنی بیماری کے بارے میں پوچھنے گئی تھی کہ واقعی مجھے کوئی بیماری ہے یا نہیں۔۔۔ کیونکہ مجھے نہیں لگتاکہ مجھے کوئی بیماری ہے ۔۔۔مجھے یہی لگتا ہے کہ وہ لڑکی ہی میرے پیچھے پڑی ہے ۔۔۔ بلکہ اس کے ارادے تو ہم سب کو نقصان پہنچانے کے ہیں ۔۔۔ اس سے پہلے کہ اُس کا نشانہ میرے گھر والوں کی طرف جائے ۔۔۔ میں اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دوں گی۔۔۔ میں تم کو کچھ نہیں ہونے دوں گی ‘‘ سادیہ روانگی کے عالم میں کہتی چلی گئی۔ دوسری طرف سلطان کی آنکھو ں میں بے یقینی نظر آنے لگی۔ اسے سادیہ کی بات پر بالکل بھروسہ نہیں تھا۔
سلطان کیا تم بھی میرے بات کا یقین نہیں کرو گے؟‘‘ سادیہ کی آواز بھرا گئی۔
اگر تم کہو کہ پوری دنیا جھوٹی ہے اور صرف تم سچی ہو میں تب بھی یقین کر لوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میری بہن جھوٹ نہیں بول سکتی لیکن اگر تم یہ کہو کہ وہ آسیبی لڑکی جو ہماری آنکھوں کے سامنے مری تھی وہ زندہ ہو گئی ہے ۔۔۔ یا تمہاری دماغی رپورٹ سب غلط ہیں اور تمہیں کوئی دھوکا نہیں ہو رہا ۔۔۔ تم بالکل ٹھیک ہو ۔۔۔ تو اس بات پر بھلا میں کیسے یقین کر سکتا ہوں کیونکہ جو کچھ میری آنکھوں نے دیکھا اور جو کچھ میرے کانوں سے سنا اسے میں کیسے جھٹلا سکتا ہوں ۔۔۔میری آنکھوں نے اس لڑکی کو مرتے ہوئے دیکھا۔۔۔میرے کانوں نے اس کی آخری چیخیں سنی ۔۔۔اورڈاکٹر نے بھی صاف صاف کہا کہ ا ب تمہارا دماغ تمہارا قابو میں نہیں ہے ۔۔۔ میں جانتا ہوں تم یہ سب جان بوجھ کر نہیں کر رہی ۔۔۔ تم سچ میں وہ سب کچھ دیکھ رہی ہو۔۔۔وہ سب کچھ محسوس کر رہی ہو جس کا کوئی وجود درحقیقت ہے ہی نہیں ۔۔۔ میں تمہارے ساتھ صرف ہمدردی ہی کر سکتا ہوں سادیہ۔۔۔ اور کچھ نہیں‘‘سلطان ہمدردانہ انداز میں کہتا چلا گیا اور پھر کمرے کے درواز ے سے باہر نکل گیا۔ سادیہ بت کی طرح اُسے کمرے سے باہر جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔پھر اُس کے لب ہلے:۔
میں جانتی ہوں سلطان ۔۔۔ جو واقعات میرے ساتھ پیش آرہے ہیں اس کے بعد کوئی بھی میری بات پر یقین نہیں کرئے گا ۔۔۔ تمہارا اس میں کوئی قصور نہیں ۔۔۔ میں ا س وقت جتنی بے بس ہوں شاید ہی کوئی اس قدر بے بس ہوا ہو۔۔۔ میں اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ جن حالات سے اس وقت میں گزر رہی ہوں وہ کسی دشمن کے ساتھ بھی پیش نہ آئیں ‘‘ یہ کہتے ہوئے سادیہ کی آواز جذبات کے گہرے بوجھ تلے دب گئی اور پھر اُس کی سسکیاں کمرے میں گونجنے لگیں۔کافی دیر تک وہ روتے رہی۔پھر کچھ دیر بعد اُس کے موبائل کی گھنٹی بج اُٹھی۔ اس نے چونک کر موبائل سکرین پر دیکھا۔ نمبر انجان تھا۔ سادیہ نے کال اُٹھائی:۔
السلام علیکم !‘‘ سادیہ جلدی سے بولی۔
وعلیکم السلام سادیہ بیٹی ۔۔۔ میں مولوی عبدالرحمن بول رہا ہوں ۔۔۔ تم اسی وقت مجھ سے ریسٹ ہاؤس کے باہر ملنے آجاؤ۔۔۔ میں صدر دروازے کے ٹھیک باہر کھڑا تمہارا انتظارکر رہا ہوں ‘‘ دوسری طرف سے مولوی عبدالرحمن کی آواز سنائی دی اور پھر سلسلہ منقطع ہوگیا۔ سادیہ ان سے کچھ نہ پوچھ سکی ۔آخر الجھن کے عالم میں سادیہ اپنے کمرے سے باہر نکلی اورپھر ریسٹ ہاؤس کے اندرونی دروازے سے نکل کر باغ عبور کیا۔ پھر صدر درواز ے سے باہر نکل گئی۔ صدر دروازے کے بائیں طرف مولوی عبدالرحمن پریشانی کے عالم میں ٹہلتے نظر آئے ۔ انہیں پریشان دیکھ کر سادیہ بھی فکر مند ہوگئی۔
کیا بات ہے مولوی صاحب ۔۔۔ آپ کے چہرے پر پریشانی کیسی ہے ‘‘ سادیہ بوکھلا کر بولی۔
بیٹی ۔۔۔ میں تمہیں زیادہ تو کچھ نہیں بتا سکتا ۔۔۔ صرف اتنا کہوں گا کہ ہمیں فوراً مسجد ابراہیم کے لئے نکلنا ہوگا۔۔۔ اب وہاں پہنچ کر ہی ہم اس لڑکی کو قابو کرسکتے ہیں ۔۔۔ وہ لڑکی ایک مرتبہ پھر واپس آگئی ہے ۔۔۔ وہ میرے وار سے بچ گئی تھی لیکن اس نے اداکاری کرتے ہوئے چیخ ماری اور ہماری آنکھوں کے سامنے سے غائب ہوگئی ۔۔۔ ہمیں یہی لگا کہ وہ مر چکی ہے لیکن حقیقت میں ایسانہیں تھا۔۔۔وہ ہم سب کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو گئی تھی۔۔۔ اب اس کی طاقت کئی گنا بڑھ گئی ہے کیونکہ اس وقت وہ زخمی شیرنی کے روپ میں نظر آرہی ہے ۔۔۔ زخمی شیطان اور بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو تا ہے ۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ تمہیں یا تمہارے گھر والوں کو کوئی بھاری نقصان پہنچائے ہمیں فوراً اُس کا بندوبست کرنا ہوگا ۔۔۔ اِس کے لیے ہمیں یہاں سے پچاس میل دور مسجد ابراہیم جانا ہوگا ۔۔۔ وہاں بڑے بڑے جنات بھی اپنی طاقت کھو دیتے ہیں ۔۔۔ تمہیں اِسی وقت میرے ساتھ وہاں چلنا ہوگا ‘‘ مولوی عبدالرحمن تفصیل سے کہتے چلے گئے۔
لیکن مولوی صاحب ۔۔۔میں فوراً کیسے چل سکتی ہوں ‘‘ سادیہ پریشان ہو کر بولی۔
ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے ۔۔۔میں زیادہ سے زیادہ تمہیں پندرہ منٹ دے سکتا ہوں ۔۔۔اس سے زیادہ ہرگز نہیں دے سکتا ورنہ ہم پھر سوائے پچھتانے کے اور کچھ نہیں کر سکیں گے ۔۔۔ اس لڑکی کا منصوبہ بہت بھیانک ہے ۔۔۔ وہ آج رات کو سلطان کو ختم کرنے کا پروگرام بنا چکی ہے ۔۔۔ اس وقت دوپہر ڈھل رہی ہے اور سورج غروب ہوتا جا رہا ہے ۔۔۔ ایسا نہ ہو کہ یہ سورج سلطان کی زندگی کے سورج کو بھی غروب کر دے ‘‘ مولوی عبدالرحمن کرخت لہجے میں بولے۔ یہ سن کر سادیہ سٹپٹا گئی۔
نہیں!۔۔۔ میں ابھی آپ کے ساتھ چلتی ہوں ۔۔۔ بس میں ابھی آئی ‘‘ یہ کہتے ہوئے سادیہ جانے کے لیے مڑی ۔
لیکن یاد رہے ۔۔۔ اپنے گھر والوں کو اصل بات نہ بتانا ورنہ وہ تمہاری بات پر یقین نہیں کریں گے اور تمہیں جانے بھی نہیں دیں گے ۔۔۔میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ میں انہیں ساری بات بتاؤں‘‘ مولوی عبدالرحمن نے پیچھے سے بلند آواز میں کہا جس پر سادیہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے صد ر دروازے سے اندر داخل ہوگئی۔ سادیہ کے جانے کے بعد مولوی عبدالرحمن کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ نظر آنے لگی۔ سادیہ جلدی سے ریسٹ ہاؤس کے ہال میں آئی اور گھر والوں کو پکارنے لگی۔ وہ سب اِس وقت اپنے اپنے کمروں میں تھے۔ شہزاد کی سادیہ کو پاگل خانے بھیجنے والی بات نے ان سب کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔ سادیہ کی آواز سن کر وہ سب کمرے سے باہر نکل آئے۔
کیا بات ہے بیٹی ۔۔۔ تمہارے چہرے کا رنگ کیوں اُڑا ہوا ہے ‘‘ شہباز احمد گھبرا کر بولے۔
نہیں اباجان! ۔۔۔ بس ذرہ پریشان ہوگئی ہوں ۔۔۔ میں ابھی کچھ دیر پہلے ڈاکٹر صاحبہ کے پاس گئی تھی ۔۔۔ اُن سے میں نے رپورٹ کا مطالبہ کیا تھا لیکن انہیں نے یہی کہا کہ وہ رپورٹ ان سے کھو گئی ہے ۔۔۔ ابھی ان کا فون آیا تو انہیں نے بتایا کہ رپورٹ مل گئی ہے ۔۔۔ میں وہ رپورٹ دیکھنے جارہی ہوں ‘‘ سادیہ حواس پر قابو پا کر بولی۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ ہم بھی تمہارے ساتھ چلتے ہیں ‘‘ شہباز احمد نے فوراً کہا۔
نہیں ابا جان ! ۔۔۔ میں ایک بار تنہائی میں ڈاکٹر صاحبہ سے تفصیل سے ساری بات کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔آپ مجھے ایک موقع دے دیں پلیز‘‘ سادیہ درخواست کرتے ہوئے بولی ۔ ان سب نے سر ہلا دیا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ تم اکیلی چلی جاؤ لیکن جلد ہی واپس آجانا ‘‘عرفان نے فکر مند ہو کرکہا۔
پریشان نہ ہو ۔۔۔ میں بس ابھی آجاؤں گی ‘‘ سادیہ نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔پھر وہ بھرائے ہوئے انداز میں ان سب کی طرف دیکھنے لگی۔
اباجان ۔۔۔ میں آپ کی سب سے اچھی بیٹی ہوں نہ ‘‘ یہ کہتے ہوئے سادیہ کے آنسو پلکوں پر اٹک کر رہ گئے ۔
ہاں بیٹی ۔۔۔ بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ۔۔۔ میری سب سے لاڈلی بیٹی تمہارے سوا اور کون ہے‘‘ شہباز احمد پیار بھرے انداز میں بولے۔ پھر سادیہ اپنے بھائیوں کی طرف مڑی۔
میں نے زندگی میں کبھی بھی تم سب سے لڑائی کی ہو ۔۔۔ تمہیں پریشان کیا ہو تو مجھے معاف کر دینا ‘‘ سادیہ کی آواز بھرآئی۔
تم اس طرح کی باتیں کیوں کر رہی ہو۔۔۔چپ چاپ فوراً رپورٹ لے کر واپس آؤ ‘‘ سلطان اس کے کان کھینچتے ہوئے بولا۔
بس میں چاہتی ہوں آپ سب خوش رہو۔۔۔میں آپ لوگوں کے ساتھ رہوں یا نہ رہوں ۔۔۔ آپ سب کے چہرے پر مسکراہٹ بنی رہے ‘‘ سادیہ جذبات میں بہتے ہوئے بولی اور پھر ریسٹ ہاؤس کے دروازے سے باہر نکل گئی۔ وہ سب کھوئے کھوئے انداز میں اسے باہر نکلتے ہوئے دیکھتے رہے۔ انہیں ایک پل کے لئے لگا جیسے سادیہ ان سب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر جارہی ہے۔ بے اختیار ان سب کی آنکھوں بھیگ گئیں۔ دوسری طرف سادیہ ریسٹ ہاؤس کے باہر مولوی عبدالرحمن کے ساتھ اب تک کے سب سے خوفناک سفر پر روانہ ہو رہی تھی۔

٭٭٭٭٭
دہشت ناک چیخیں
سادیہ کے جانے کے بعد وہ سب ہال میں ہی بیٹھ گئے اور بے صبری سے اس کا انتظار کرنے لگے۔ انتظار کرتے کرتے آدھا گھنٹا گزر گیا۔ آخر شہباز احمد بے چینی محسوس کرنے لگے۔ انہوں نے موبائل سے سادیہ کا نمبر ڈائل کیا اور کال لگائی۔ گھنٹی کی آواز سادیہ کے کمرے میں بجتی ہوئی سنائی دی۔ وہ سب چونک کر سادیہ کے کمرے کی طرف بڑھے۔ کمرے کے بستر پر سادیہ کا موبائل پڑا تھا۔ وہ سب فکرمند ہوگئے۔ سادیہ اپنا موبائل گھر پر ہی چھوڑ گئی تھی۔
نہ جانے کیوں مجھے لگ رہا ہے کہ سادیہ کسی بہت بڑی مصیبت میں پھنس گئی ہے ۔۔۔ میں بہت گھبراہٹ محسوس کررہاہوں ۔۔۔ میں ابھی ڈاکٹر کو فون کرتا ہوں اورسادیہ کی خیریت پوچھتا ہوں‘‘ شہباز احمد کی آواز لرز رہی تھی۔ دوسرے ہی لمحے انہوں نے اپنے جیب سے ڈاکٹر کا دیا ہوا کارڈ نکالا اور کارڈ پر لکھے ہوا نمبر موبائل پر ڈائل کیا۔پھر انہوں نے کال لگائی۔ آگلے سیکنڈ سلسلہ مل گیا۔
السلام علیکم !۔۔۔ ڈاکٹر رخسانہ پروین بات کر رہی ہیں ‘‘ شہباز احمد نے سوالیہ لہجے میں کہا۔
میں میڈم کا اسسٹنٹ بول رہا ہوں ۔۔۔کچھ دیر پہلے کسی نے ڈاکٹر صاحبہ کا قتل کر دیا ہے ۔۔۔ان کی لاش کلینک میں ملی ہے ‘‘ دوسری طرف سے ڈاکٹر کے اسسٹنٹ کی دکھ بھری آواز سنائی دی۔ اس کی بات سن کر شہباز احمد سکتے میں آگئے۔ ان کے ہاتھ سے موبائل فون گرگیا۔ عرفان اور دوسرے حیرت زدہ ان کی طرف بڑھے:۔
کیا بات ہے اباجان ۔۔۔ کیا کہا ڈاکٹر نے ‘‘ عرفان پریشان ہو کر بولا۔
تھوڑی دیر پہلے کسی نے ڈاکٹر کا قتل کر دیا ہے ‘‘ شہبازاحمد کپکپاتی ہوئی آواز میں بولے۔
کیا!!!‘‘ وہ سب چلا اُٹھے۔ خوف کے مارے ان سب کے رنگ زرد پڑ گئے۔
اگر کچھ دیر پہلے ڈاکٹر صاحبہ کا قتل ہوگیا ہے تو پھر ابھی سادیہ کس کے پاس گئی ہے ‘‘ سلطان کے چہرے پر زمانے بھر کی حیرت تھی۔ وہ سب بھی اس کی بات سن کر بری طرح چونک اُٹھے۔ پھر شہباز احمد نے فوراً سادیہ کے بستر سے اس کا موبائل اُٹھایا۔ موبائل میں آخری کال کی فہرست دیکھی۔ اور پھر شہباز احمد نے بجلی کی سی تیزی سے ریسٹ ہاؤس کے دروازے کا رخ کیا اور پھر دروازے سے باہر نکل گئے ۔ وہ سب بھی ان کے پیچھے پیچھے دوڑے۔ شہباز احمد اس وقت تک صدر دروازے کے باہر ایک ٹیکسی روک چکے تھے ۔ وہ ٹیکسی میں سوارہوگئے ۔ باقی سب نے بھی ٹیکسی تک پہنچنے میں اور پھر اس میں بیٹھے میں دیر نہ لگائی۔ دوسرے ہی لمحے ٹیکسی فراٹے بھرتی سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ اس وقت شہباز احمد کے چہرے پر زلزلے کے آثار تھے۔ ان سب میں کسی کی بھی شہباز احمد سے یہ پوچھنے کی ہمت نہ ہو سکی کہ وہ کہاں جارہے ہیں ؟ ان سب کے ٹیکسی تک پہنچنے سے پہلے ہی شہباز احمد ٹیکسی والے کو منزل کا پتا بتا چکے تھے۔ تھوڑی دیر بعد ٹیکسی ایک جھوپڑی کے پاس رک گئی۔جھوپڑی کو دیکھ کر وہ سمجھ گئے کہ شہباز احمد مولوی عبدالرحمن کے پاس آئے ہیں۔ اس کا مطلب تھا کہ سادیہ کے موبائل میں آخری کال مولوی عبدالرحمن کی تھی۔ شہباز احمد نے ٹیکسی سے اُتر کر ٹیکسی والے کو کرایہ ادا کیا۔ وہ سب بھی نیچے اُتر آئے اور پھر شہباز احمد اور دوسرے جھوپڑی میں داخل ہوگئے۔ آگلالمحے نے ان کے جسم کے رواں رواں کو لرزا کر رکھ دیا۔ ان کے منہ سے دہشت ناک چیخیں نکلی۔ مولوی عبدالرحمن کی لاش بہت بری حالت میں جھوپڑی کے ایک کونے میں پڑی تھی۔

٭٭٭٭٭
پہاڑ کی چوٹی
سادیہ مولوی عبدالرحمن کے ساتھ ریسٹ ہاؤس سے نکل کر پیدل ہی روانہ ہوگئی تھی۔ اُنہیں دور دور تک کوئی ٹیکسی نظر نہیں آئی تھی اور اُن کے پاس ٹیکسی کے انتظار کا وقت نہیں تھا۔ مولوی عبدالرحمن بالکل خاموش تھے جبکہ سادیہ کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔
کیا آپ کویقین ہے مولوی صاحب کہ آج ہم اس لڑکی پر قابو پا لیں گے ‘‘ سادیہ بے چین ہو کر بولی۔
نہیں!۔۔۔ مجھے تو اس بات کا یقین ہے کہ آج وہ لڑکی اپنا مقصد پورا کرلے گی ‘‘ مولوی عبدالرحمن مسکرا کر بولے۔ ان کی مسکراہٹ نے سادیہ کے رونگٹے کھڑے کر دئیے۔
مذاق کر رہا ہوں ۔۔۔ آج میں اُس لڑکی کو قابو کر کے رہوں گا ۔۔۔ مسجد ابراہیم میں لڑکی اپنی ساری طاقت کھو دے گی اور پھر ہم اللہ کے کلام کے ذریعے اُسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں گے ‘‘ مولوی عبدالرحمن کہتے چلے گئے۔تبھی اُنہیں نے مرکزی سڑک سے موڑ کاٹا اور پہاڑی راستے کی طرف چلنے لگے۔ سادیہ یہ دیکھ کر چونک اُٹھی۔
مولوی صاحب ۔۔۔ہم پہاڑی راستہ پر کیوں جارہے ہیں ‘‘ سادیہ حیران ہوکر بولی۔
کیونکہ مسجد ابراہیم سب سے اوپر والے پہاڑ کے ٹھیک درمیان میں ہے ۔۔۔ ہمیں وہاں تک پہنچنے کے لیے پہاڑی راستہ عبور کرنا ہوگا‘‘ یہ کہتے ہوئے مولوی عبدالرحمن شیطانی انداز میں مسکرانے لگے لیکن ان کی یہ مسکراہٹ سادیہ دیکھ نہ سکی۔ کافی دیر تک وہ پہاڑی راستے پر پیش قدمی کرتے رہے۔ آخر وہ سب سے اوپر والی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے لیکن وہاں پہنچ کر سادیہ کی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ وہاں تو مسجد نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ اس سے پہلے کہ سادیہ مولوی عبدالرحمن سے کچھ پوچھ پاتی وہاں گہری دھند چھا گئی اور مولوی عبدالرحمن اُس دھند میں چھپ کر رہ گئے۔ سادیہ کو بھی دھند نے پوری طرح ڈھانپ لیا۔ سادیہ کو اس وقت اپنے آس پاس کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ پریشانی کے عالم میں اِدھر اُدھر دیکھنے کی کوشش کررہی تھی۔ تبھی سادیہ کو مولوی عبدالرحمن کی سخت آواز سنائی دی۔ اس کے چہرے کا رنگ سفید پڑ گیا۔ مولوی عبدالرحمن کہہ رہے تھے :۔
کیوں سادیہ ۔۔۔آخر تم میرے جال میں پھنس ہی گئی ۔۔۔ مولوی عبدالرحمن کو تو میں نے بہت پہلے ختم کر دیا تھا ۔۔۔ اب مرنے کی باری تمہاری ہے ‘‘ لڑکی کی زہریلی ہنسی سنائی دی۔ وہ اس وقت مولوی عبدالرحمن کے جسم میں موجود تھی۔تبھی سادیہ کے آگے سے دھند چھٹ گئی۔ دھند چھٹتے ہی سادیہ کے اوسان خطا ہوگئے۔ وہ اس وقت پہاڑ کے چوٹی کے بالکل کنارے پر کھڑی تھی اور اس کے آگے گہری کھائی موجود تھی۔ اور پھر!!! ۔۔۔ سادیہ کو اُس لڑکی نے ایک زبردست دھکا دیا۔ دھکا لگتے ہی سادیہ کے منہ سے خوفناک چیخ نکلی۔ وہ اپنا وزن سنبھال نہ سکی اور دوسرے ہی لمحے وہ کھائی میں گر گئی۔

٭٭٭٭٭
باقی آئندہ
٭٭٭٭٭
 

شاہد بھائی

محفلین
وہ کون تھی؟
مصنف:۔شاہد بھائی
آخری قسط

آخری معرکہ
سادیہ کے اوسان خطا ہوگئے۔ وہ اس وقت پہاڑ کے چوٹی کے بالکل کنارے پر کھڑی تھی اور اس کے آگے گہری کھائی موجود تھی۔ اور پھر!!! ۔۔۔ سادیہ کو اُس لڑکی نے ایک زبردست دھکا دیا۔ دھکا لگتے ہی سادیہ کے منہ خوفناک چیخ نکلی۔ وہ اپنا وزن سنبھال نہ سکی اور دوسرے ہی لمحے وہ کھائی میں گرگئی۔ سادیہ کھائی کی گہرائی میں گرتی چلی گئی۔ اِس وقت اُس کے چہرے پر وہشت طاری تھی۔ ہاتھ پاؤں بالکل ٹھنڈے پڑ گئے تھے۔ وہ لڑھکیاں کھاتے ڈھلوان نما کھائی میں گرتی جا رہی تھی۔ اور پھر !!!۔۔۔ اُس نے دیکھا کہ اب آگے کھائی ختم ہورہی ہے اورکھائی کے کنارے پرکئی فٹ گہری خلا موجود ہے۔ یہاں سے وہ لڑھکیاں نہیں کھاتی بلکہ سیدھا پہاڑ سے نیچے گر جاتی اور پھراُس کی ہڈیوں کا سرمہ بن جاتا۔ اس لمحے سادیہ کو اپنی موت بالکل سامنے نظر آئی۔ اُس نے کلمہ طیبہ پڑھنا شروع کر دیا۔ وہ اللہ کو زاروقطار پکارنے لگی۔ آگلے ہی لمحے معجزانہ طور پر اُس کے ہاتھ میں ایک جھاڑ آگئی۔ وہ ایک زبردست جھٹکے کے ساتھ لڑھکتے ہوئے رک گئی۔ جھاڑ کی جڑیں زمین کے اندر کافی مضبوط معلوم ہوتی تھی۔ سادیہ نے رک کر اپنا سانس درست کیا ۔ پھر اُس نے نیچے دیکھا۔ وہ اس وقت کھائی کے کنارے سے صرف چند انچ کے فاصلے پرتھی۔ اگر وہ جھاڑ اُس کے ہاتھ سے نکل جاتی تو وہ فوراً پہاڑ سے نیچے جاگرتی اور پھر اُس کی ہڈیاں بھی لوگوں کو نہ ملتی۔ اللہ کا نام لے کر اُس نے جھاڑ کو آہستہ آہستہ چھوڑا اور اوپر کی طرف کھسکنے لگی۔ ڈھلوان نما کھائی میں اوپر کی کھسکنا اُس کے لئے کافی مشکل ثابت ہوا لیکن وہ بھی ہمت سے کام لینے کا عزم کر چکی تھی۔ آج اُس نے اُس شیطانی لڑکی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ لڑکی سادیہ کی وجہ سے پھر کسی کی جان لے لیتی یا سادیہ کے گھر والوں کو نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچتی، سادیہ اُس کا نام و نشان مٹا دینا چاہتی تھی۔ سادیہ نے اللہ کا ذکر شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ کھسکتی رہی۔ کافی محنت و مشقت کے بعد آخر وہ پہاڑ کے کنارے تک پہنچ گئی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں اُس لڑکی نے سادیہ کو دھکا دیا تھا۔ سادیہ نے آگے بڑھ کر اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں۔ یہاں اس وقت کوئی بھی نہیں تھا۔ سادیہ کو اُس لڑکی کے آخری الفاظ یاد آگئے ۔ اُس نے کہا تھا کہ اب تم میرے جال میں پھنس ہی گئی۔ اب مرنے کی باری تمہاری ہے۔لڑکی کے یہ جملے سادیہ کے ذہن میں آتے ہی اُس کے چہرے کا رنگ سفید پڑنے لگا۔ پھر اُسے مولوی عبدالرحمن کے روپ میں لڑکی کی وہ بات بھی یاد آئی کہ آج شام کو اُس نے سلطان کو ختم کرنے کا پروگرام بنا لیا ہے۔ سادیہ اچھی طرح جانتی تھی کہ لڑکی کو یہ خبر بھی ہوگئی ہوگی کہ وہ کھائی میں گرنے کے باوجود بچ گئی ہے۔ اب وہ لڑکی پھر سے اُسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرئے گی۔ دوبارہ ریسٹ ہاؤس جانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ وہ لڑکی وہاں بھی با آسانی پہنچ سکتی تھی۔ یہ سب سوچ کر سادیہ کے ماتھے پر گہری شکنیں نظر آنے لگیں۔ وہ الجھن کا شکار تھی کہ اُس شیطانی لڑکی کو ختم کرنے کے لئے کیا کرئے ؟ کوئی بھی راستہ اُسے سجھائی نہیں دے رہا تھا۔تبھی اُس کے ذہن میں بجلی سی کوندی۔اُسے اپنے مرحوم دادا جان کے جملے یاد آنے لگے:۔
سادیہ بیٹی ۔۔۔ آج میں تمہیں ایک ایسی بات بتانے لگا ہوں جو تمہیں زندگی میں ہمیشہ درست راستہ دکھا دے گی۔۔۔ وہ بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ میں تمہاری دادی کے ساتھ سیرو تفریح کی غرض سے ایک سنسنا ن گھر پر گیا۔۔۔ وہ گھر کئی سالوں سے بند پڑا تھا اور اس گھر کے بارے مشہور تھا کہ یہ آسیبی جنات کی رہائش گاہ ہے ۔۔۔ میں ان باتوں پر یقین نہیں کرتا تھا لیکن پھر کچھ ایسا ہوا کہ مجھے یقین کرنا پڑ گیا۔۔۔ وہاں پر ہماری آنکھوں کے سامنے کچھ سفید داڑھی والے بزرگ مٹرگشتی کرنے لگے۔۔۔ چیزیں خودبخود ایک جگہ سے دوسری جگہ سرکنے لگیں۔۔۔ کئی دفعہ نل بغیر کھولے کھل جاتے تھے اور پھر بند بھی خودبخود ہو جاتے ہیں ۔۔۔ ہمیں اس گھر میں بہت ستایا گیا۔۔۔ اُن دنوں میں جوان تھا اور میرے اندر ایمانی طاقت کا سمندر تھا ۔۔۔ میں جانتا تھا کہ وہ جنات مجھے اس گھر سے بھگانا چاہتے ہیں ۔۔۔ میں نے صرف یہ کیا کہ اُس گھر میں سورۃ البقرہ کی تلاوت شروع کر دی۔۔۔ جو جنات اب تک چھپ کر وار کررہے تھے بلبلاتے ہوئے سامنے آگئے اور مجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔ میں نے اُسی وقت آیتہ الکرسی پڑھی اور اپنے اورتمہاری دادی کے گردایک حصار کھینچ لیا ۔۔۔ وہ سب تڑپتے رہے لیکن اُس حصار میں داخل نہ ہوسکے ۔۔۔ آخر اُنہیں وہ گھر چھوڑ کر بھاگنا ہی پڑا۔۔۔ میں بھی تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کبھی بھی تمہارا مقابلہ کسی غیر انسانی آسیبی مخلوق سے ہو تو اُس سے ڈرے بغیر کلام اللہ اور آیتہ الکرسی سے اُس کامقابلہ کرنا ۔۔۔ دیکھنا انشا اللہ جیت تمہاری ہوگی‘‘ سادیہ کو دادا جان کے ایک ایک الفاظ یاد آگئے۔ دوسرے ہی لمحے اُس نے فوراً آیتہ الکرسی پڑھنا شروع کر دی اور ایک پتھر سے اپنے گرد حصار بنا لیا۔ حصار مکمل ہونے کے بعد وہ حصار میں داخل ہوگئی اور پھر مسلسل تلاوت کرتی رہی۔ یہاں تک اُسے اُس شیطانی لڑکی کے غرانے کی آواز سنائی دینے لگی:۔
بند کرو یہ تلاوت ورنہ تمہار ے ساتھ بہت برا ہوگا‘‘ شیطانی لڑکی گرج کر بولی۔اور پھر وہ سادیہ کے سامنے آ گئی۔ اِس وقت اُس کے چہرے پر جلال تھا اور اُس کا انداز وحشیانہ تھا۔ سادیہ نے کوئی اُسے کوئی جواب دئیے بغیر تلاوت جاری رکھی۔ تبھی سادیہ کو سامنے سے اپنے والدشہباز احمد اور اپنے بھائی آتے نظر آئے۔ اُن کے ساتھ شہزاد بھی تھا۔ وہ سب گھبرائے ہوئے نظر آرہے تھے۔ اُن سب کو دیکھ کر سادیہ کو حیرت کا ایک زبردست جھٹکا لگا۔ دوسری طرف شیطانی لڑکی اُنہیں دیکھ کر مسکرانے لگی:۔
سادیہ ۔۔۔ ہم مولوی عبدالرحمن کے گھر پر تھے کہ ہمیں پہاڑ کے اوپر سے تمہاری چیخنے کی آواز سنائی دی ۔۔۔ ہم فوراً یہاں چلے آئے ۔۔۔ تم ٹھیک تو ہو نہ ۔۔۔ تمہاری چیخنے کی وجہ کیا تھی‘‘ سلطان کا لہجہ بے چین تھا۔
کچھ نہیں !۔۔۔بس سادیہ کو میں نے پہاڑ سے دھکا دے دیا تھا ‘‘ سادیہ کی بجائے شیطانی لڑکی کی آواز سنائی دینے لگی۔ اُس کی بات سن کر وہ سب دھک سے رہ گئے۔ اس وقت وہ لڑکی صرف سادیہ کو نظر آرہی تھی۔ باقی کوئی بھی اُسے دیکھ نہیں پا رہا تھا البتہ اُس کی آواز اُن سب نے سنی۔ اور پھر !!!۔۔۔ شیطانی لڑکی اُن سب کے سامنے آ گئی۔ اس وقت اُس کے چہرے پر ایک بھیانک مسکراہٹ ناچ رہی تھی ۔
سادیہ آج میرے ہاتھوں سے مرنے والی ہے ۔۔۔ اگر اُسے تم سب مل کر بچا سکتے ہو تو بچا لو‘‘ شیطانی لڑکی نے مذاق اُڑانے والے انداز میں کہا۔ اُن سب نے غصے کے عالم میں آگے بڑھ کر اُس لڑکی کو دبوچنا چاہا لیکن کوئی بھی اپنی جگہ سے حرکت نہ کر سکا۔ اُن سب کے قدم زمین پر چسپاں ہو کر رہ گئے تھے۔ یہ دیکھ کر شیطانی لڑکی نے ایک تہلکہ انگیز قہقہہ لگایا۔
تم لوگ میرے سامنے بالکل بے بس ہو ۔۔۔ سادیہ !۔۔۔ میں جانتی ہوں کہ جب تک تم اس حصار میں ہو میں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی لیکن ایک بات تم بھی جان لو۔۔۔ اگر تم ایک سیکنڈ کے اندر اندر اس حصار سے باہر نہ نکلی تو تمہارے سارے گھر والے اس دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکل جائیں گے ‘‘ شیطانی لڑکی نے دھمکی امیز لہجے میں کہا۔ سادیہ کے چہرے کا رنگ اُڑنے لگا۔ اگر وہ حصار سے باہر نکل آتی تو خود کو اُس لڑکی کے حملے سے کسی صورت نہ بچا سکتی اور اگر وہ حصار کے اندر ہی رہتی تو اُس کے گھر والوں کی جان خطرے میں پڑ جاتی۔
اب کس کو چنو گی سادیہ ۔۔۔ اپنی زندگی کو یا اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کی زندگی کو ۔۔۔فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے‘‘ لڑکی نے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ سادیہ نے اس لمحے خود کو دو راہے پر محسوس کیا۔ اُس نے اُن سب کی طرف دیکھا۔ اس وقت شہباز احمد اور اُس کے بھائیوں کے حواس باساختہ ہو چکے تھے اور اُن سب کی حالت ایسی تھی جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہ ہو۔
میں اپنے ابا جان اور بھائیوں کی زندگی کو چنو گی‘‘ آخر سادیہ نے اٹل لہجے میں کہا اور حصار سے باہر نکلنے لگی۔
نہیں سادیہ !۔۔۔ خدا کے لئے حصار سے باہر نہ نکلنا۔۔۔ ہماری فکر نہ کرو‘‘ سلطان بے تابانہ انداز میں چلایا۔
سلطان صحیح کہہ رہا ہے سادیہ ۔۔۔ جہاں کھڑی ہو وہی کھڑی رہو‘‘ شہباز احمد تڑپ کر بولے۔سادیہ نے اُن کی طرف درد بھری نگاہوں سے دیکھا۔ اُس کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو گرئے۔ وہ بے بس نگاہوں سے اُن سب کی طرف دیکھ رہی تھی جیسے کہہ رہی ہو کہ آج میں پہلی بار آپ لوگوں کی بات نہیں مان سکتی کیونکہ مجھے آپ لوگوں کی زندگی اپنی زندگی سے بھی زیادہ پیاری ہے۔ دوسرے ہی لمحے سادیہ حصار سے باہر نکل گئی۔لڑکی یہ دیکھ کر وحشیانہ انداز میں ہنسی۔اور پھر !!!۔۔۔ وہ ہوا میں اُڑتی ہوئی سادیہ سے ٹکرا گئی۔ سادیہ کو کچھ سوچنے کا موقع ہی نہ ملا ۔ وہ اُس لڑکی سے ٹکراتے ہی زمین پر اوندھے منہ سے گری۔ اُس کے منہ سے ایک گھٹی گھٹی چیخ نکلی۔ لڑکی نے اُسی وقت سادیہ کے سر پر اپنا گھنٹا مارا۔ ایک بار پھر سادیہ کے منہ سے چیخ نکلی۔ شہباز احمد ،شہزاد اور اُس کے بھائی اُسے اس حالت میں دیکھ کر بے چین ہوگئے لیکن وہ خود بھی بے چارگی کے عالم میں کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے ۔ اُن سب کے قدم زمین پر چپک کررہ گئے تھے ۔ یہاں لڑکی نے سادیہ کو گردن سے پکڑ کر زمین سے اُٹھایا اور ایک مکا اُس کے منہ پر مارا۔ سادیہ کی زبان سے کراہ نکلی اور پھر اُس کے ہونٹ سے خون جاری ہوگیا۔عرفان سلطان عدنان اور عمران کی چہروں پر بے قراری نظر آرہی تھی۔ شہباز احمد بھی بے تاب ہوچکے تھے ۔دوسری طر ف شیطانی لڑکی پر جیسے جنونیت طاری ہوگئی تھی۔ وہ لگاتار ایک کے بعد ایک ٹھوکریں اور تابڑ توڑ مکے سادیہ کے چہرے پر اور پیٹ پر رسید کی جارہی تھی۔ سادیہ کے منہ سے اب چیخیں نکلنے کی بجائے سسکیاں نکل رہی تھیں۔ دوسر ی طرف شہباز احمد اور دوسرے بے بسی سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔تبھی اچانک اُس شیطانی لڑکی کے ہاتھوں میں خنجر نظر آنے لگا۔ وہ سب حیرت زدہ رہ گئے ۔ سادیہ خود بھی حیران رہ گئی کیونکہ ابھی تھوڑی دیر بعد اُس شیطانی لڑکی کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا لیکن اب وہاں ایک چمک دار اور نوکیلا خنجر نظر آرہا تھا۔ یہ ضرور اُس لڑکی کے شیطانی علم کا نتیجہ تھا۔ لڑکی نے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ طاری کی اور پھر دوسرے ہی لمحے پوری قوت سے خنجر سادیہ کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ سادیہ کے منہ سے ایک دل دہلا دینے والی چیخ نکلی۔ اُس کے چیخ سن کر وہ سبھی سکتے میں آگئے ۔ دوسری طرف خون کا ایک فوارہ سادیہ کے پیٹ سے نکل کر زمین پر گرتا نظر آیا۔ لڑکی نے بے رحمی سے سادیہ کو دھکا دے دیا اور سادیہ زمین پر گر کر تڑپنے لگی۔ اُن سب کو اپنے جسموں سے جان نکلتی محسوس ہوئی۔ خوف اور سنسنی کی لہریں اُن کے جسموں میں خون کی طرح دوڑنے لگیں ۔ دوسری طرف سادیہ کئی لمحوں تک تڑپتی رہی اور پھر کراہتے ہوئے اُس کی آنکھیں بند ہوگئیں۔ وہ بالکل بے سد ہو چکی تھی۔ یہ دیکھ کر وہ سب چلا اُٹھے:۔
سادیہ !۔۔۔ سادیہ آنکھیں کھولو۔۔۔ تم بالکل ٹھیک ہو ‘‘ وہاں موجود ہر شخص بے قرار ہو کر چیخ اُٹھا۔ لڑکی اُن کے اِس انداز پر اُنہیں تمسخرانہ انداز میں دیکھنے لگی۔
سادیہ اب کبھی نہیں اُٹھے گی۔۔۔ وہ اب قیامت والے دن ہی اُٹھائی جائے گی‘‘ لڑکی نے شوخ انداز میں کہا۔اُس کی آواز اُن سب کے کانوں میں شدید حد تک چبھتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اُن سب نے خونخوار نگاہوں سے اُسے دیکھا۔
میں تمہیں کسی صورت زندہ نہیں چھوڑوں گا‘‘ سلطان اور عرفان نے ایک ساتھ دھاڑ کر کہا۔
زندہ تو اب تم میں سے کوئی بھی نہیں بچے گا۔۔۔ میرے ساتھ دشمنی تم لوگوں کے لئے بہت مہنگی ثابت ہو گی‘‘ لڑکی نے دھمکی دی۔
آخر ہم نے تمہارے ساتھ کیا کیا ہے؟ ۔۔۔ کیوں ہمارے پیچھے پڑ گئی ہو ؟۔۔۔ کیا بگاڑا ہے ہم نے تمہارا؟‘‘ یہ کہتے ہوئے شہباز احمد کی آواز بھرا گئی۔ اُن سب نے حیران ہو کرشہباز احمد کو دیکھا اور پھر اُن سب کو حیرت کا ایک زبردست جھٹکا لگا۔ زندگی میں پہلی بار شہباز احمد کی آنکھوں میں آنسو نظر آرہے تھے۔ وہ سب ہکا بکا رہ گئے۔
جب سلطان میرے گھر پر میرے پاس آ گیا تھا تو پھر تمہیں اُسے تلاش کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔۔۔تم لوگ نہیں جانتے کہ میرے گھر میں جو ایک بار قدم رکھ دے وہ پھر واپس زندگی میں قدم نہیں رکھ سکتا۔۔۔ تم لوگوں نے ہار ماننے کی بجائے میرے ساتھ مقابلے کرنے کی ٹھانی اور مجھے شکست دے کر وہاں سے چلتے بنے۔۔۔ تم لوگوں کو کیا لگا ۔۔۔ میں اتنی آسانی سے تمہاری جیت اور اپنی ہار تسلیم کر لوں گی۔۔۔ میں نے ریسٹ ہاؤس میں تم لوگوں کو ایک پل بھی سکون سے رہنے نہیں دیا۔۔۔ سادیہ کے ساتھ ایک کے بعدایک جو سارے حادثے ہوئے اُن سب کے پیچھے میں ہی تھی اورتم بے قوف لوگ سادیہ کو پاگل سمجھنے لگے ۔۔۔مولوی عبدالرحمن کو تو میں نے بہت پہلے ختم کر دیا تھا لیکن اُس کے بعد جو شخص مولوی عبدالرحمن کے روپ میں تمہارے گھر آیا وہ میں ہی تھی ۔۔۔ میں نے تم لوگوں کو یہ یقین دلایا کہ سادیہ کے ساتھ کوئی آسیبی واقعہ نہیں ہو رہا بلکہ اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے ۔۔۔ آج بھی مولوی عبدالرحمن کے فون سے سادیہ کو کال کرنے والی میں ہی تھی ۔۔۔ میں سادیہ کو بھلا پھسلا کر پہاڑ کے کنارے لے کر آئی اور یہاں سے اُسے دھکا دے دیا۔۔۔ یہ تو سادیہ کی قسمت اچھی تھی کہ وہ مرئی نہیں بلکہ بچ گئی ۔۔۔ ڈاکٹر رخسانہ پروین کو بھی میں نے ختم کیا ۔۔۔ سادیہ کی رپورٹ کبھی خراب تھی ہی نہیں ۔۔۔ اُس ڈاکٹر کو بھی میں نے ہی مجبور کیا تھا کہ وہ تم سب سے یہ جھوٹ کہے کہ سادیہ پاگل پن کا شکار ہوگئی ہے ۔۔۔آج ڈاکٹر نے سادیہ کو سچ بتا دیا اس لئے میں نے اُسے بھی ختم کر دیا۔۔۔ اور اب سادیہ کو بھی میں نے ختم کر دیا ہے ۔۔۔ اب میرے آخری شکار تم لوگ ہو ۔۔۔ آج تم سب کی کہانی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی‘‘ آخری جملے کہتے ہوئے لڑکی نے ایک قہقہہ لگایا اور پھر اُن سب کو ختم کرنے کے لئے آگے بڑھی۔ شہباز احمد اوردوسرے اپنی پوری طاقت لگا رہے تھے لیکن اِس کے باوجود اُن کے قدم اُن کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ لڑکی نے سب سے پہلے سلطان کی طرف پیش قدمی کی اور اس کا گلا دبانے کے لئے آگے بڑھی۔ سلطان خوف زدہ ہو کر اُسے آگے بڑھتا ہوا دیکھنے لگے لیکن تبھی اُس شیطانی لڑکی کے منہ ایک لرزا دینے والی چیخ نکلی۔ وہ سب حیران رہ گئے۔ اُنہیں نے دیکھا خون میں لت پت سادیہ لڑکی کے ٹھیک کمر کے پیچھے کھڑی ہے اور اُس نے خنجر اپنے پیٹ سے نکال کر اُس شیطانی لڑکی کی کمر میں گاڑ دیا ہے۔ ساتھ ہی سادیہ کی زبان پر یہ کلمات جاری ہیں :۔
میں تمام انسانوں کے رب کی پناہ مانگتی ہوں۔۔۔جو سب لوگوں کا بادشاہ ہے ۔۔۔جو ساری انسانیت کا معبود ہے۔۔۔میں اُس وسوسے ڈالنے والے شیطان کے شر سے پناہ مانگتی ہوں جو بار بار پلٹ کر آتا ہے ۔۔۔جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے خواہ وہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے ہو‘‘ سادیہ کا ایک ایک لفظ اُس لڑکی کے دماغ میں ہتھوڑے کی طرح برس رہا تھا۔ دوسری طرف خنجر نے اُس کی ساری طاقت ختم کر دی تھی اور اُس کی کمر میں سوراخ کر دیا تھا جہاں سے مسلسل خون کی ایک بھاری مقدار نکل کرزمین کو سرخ کررہی تھی۔ اور پھر !۔۔۔ آگلے لمحے میں وہ شیطانی لڑکی کراہتے ہوئے زمین پر گری۔ زمین پر گرتے ہی وہ پانی سے نکلی مچھلی کی طرح تڑپنے لگی۔ وہ سب حقارت بھرے انداز میں اُسے دیکھ رہے تھے۔ تھوڑی دیرتک وہ لڑکی درد سے کراہتی رہی۔ آخر اُس کے منہ سے ایک آخری کراہٹ نکلی اور پھر!!!۔۔۔ اُس شیطانی لڑکی نے ان سب کی آنکھوں کے سامنے دم توڑ دیا۔ یہ دیکھ کر اُن سب کی نگاہیں آسمان کی طرف شکرانہ کے طور پر اُٹھ گئیں۔ آج اُن کی زندگی کا ایک تلخ باب بند ہورہا تھا۔ وہ شیطانی لڑکی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی تھی۔ پھر وہ سب سادیہ کو شفقت بھرے انداز میں دیکھنے لگے جبکہ سادیہ اُن سب کو مسکرا کر دیکھ رہی تھی ۔دوسرے ہی لمحے سادیہ بھی زمین پر گری۔ سادیہ کوزمین پر گرتا دیکھ وہ سب بوکھلائے ہوئے انداز میں اُس کی طرف بڑھے۔ اب اُن کے قدم زمین سے چسپاں نہیں تھے بلکہ آسانی سے حرکت کر رہے تھے۔ اِس وقت سادیہ کا سارا جسم خون میں نہایا ہوا تھا اور وہ درد کے مارے سسک رہی تھی۔
مم۔۔۔میں جا رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔اپپ۔۔۔ اپنے اُن تمام فرائض کو پورا کرکے جو میرے ذمے تھے ۔۔۔ مم۔۔۔میں اب اللہ کے حضور سرخرو ہو چکی ہوں ۔۔۔ میں نے اپنے گھروالوں کو اُس جناتی مخلوق سے نجات دلا دی ہے ۔۔۔ اب مجھے اپنے مرنے کا کوئی غم نہیں ہے ۔۔۔اور۔۔۔ اور آ پ سب بھی میرے مرنے کا غم نہ کرنا اور اپنی زندگیوں میں آگے بڑھ جانا۔۔۔ ابا جان! ۔۔۔ آپ اپنی وکالت میں اور آگے بڑھئے گا ۔۔۔شش۔۔۔ شہزاد بھائی۔۔۔ آپ یونہی اباجان کا ساتھ دیتے رہیے گا۔۔۔ اور میرے بھائیوں !۔۔۔ تم سب اپنے پرائیوٹ جاسوسی کے ادارے کو مزید بہترکرنا۔۔۔ اسی طرح لوگوں کی مدد کرتے رہنا۔۔۔مم ۔۔۔میں تم سب کو اس ملک کے سب سے مشہور پرائیوٹ جاسوسوں کے روپ میں دیکھنا چاہتی تھی ۔۔۔ میرے مرنے کے بعد میری یہ خواہش ضرور پوری کرنا ۔۔۔ مم۔۔۔مم۔۔۔میں آپ سب سے جنت میں پوچھوں گی کہ آپ لوگوں نے میرے مرنے کے بعدکتنی ترقی کی ۔۔۔ مجھے مایوس نہ کرئیے گا۔۔۔اب۔۔۔ اب میرے جانے کا وقت ہو گیاہے ۔۔۔ مم۔۔۔میں مرنے کے بعد بھی آپ سب کو بہت یاد کروں گی لیکن آپ لوگ مجھے یاد کرنے میں وقت ضائع نہ کرنا۔۔۔ بلکہ اس دنیا کے ساتھ چل کر مجھے جلد ہی بھول جانا۔۔۔ مجھے بھولنے کے بعد ہی تو آپ سب ترقی کی مزید راہیں طے کریں گے۔۔۔اورسلطان !۔۔۔میرے بھائی۔۔۔ میں نے تمام بھائیوں سے بڑھ کر تم سے محبت کی ہے ۔۔۔تت۔۔۔ تم میرے سب سے لاڈلے بھائی ہو نہ۔۔۔تم میرے مرنے کے بعد بھی غمگین نہ ہونا بلکہ شوخ مزاجی برقرار رکھنا۔۔۔میں آخری بار آپ سب کو الودعا کہتی ہوں ۔۔۔ لل۔۔۔لا۔۔۔الہ۔۔۔الااللہ۔۔ ۔محمدرسول۔۔۔اللہ‘‘ سادیہ کے منہ سے آخری الفاظ نکلے اور پھر اُس کی آنکھیں نیلی پڑنے لگیں۔ سانس تھمنے لگی۔ اُس کی جان نکلنے لگی۔ موت کا فرشتہ سادیہ کی پاکیزہ روح کو جنت میں منتقل کرنے آگیا تھا۔ ایک طرف شام کا سورج غروب ہورہا تھا تو دوسری طرف سادیہ کی زندگی کا سورج بھی غروب ہو رہا تھا۔ تبھی اُس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری جیسے کئی دنوں کی تھکن کے بعد اب وہ آرا م کرنے جارہی ہو۔ اور پھر!!!۔۔۔ سادیہ کی آخری ہچکی کے ساتھ ہی سادیہ کی آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگئیں۔
نہیں !۔۔۔سادیہ تم ہمیں چھوڑ کر نہیں جاسکتی ‘‘ وہ سب درد بھرے اور حسرت بھرے انداز میں ایک ساتھ چلائے لیکن اُنکے اس جملے کو سننے والی سادیہ اب دنیا میں موجود نہیں تھی۔ وہ اس جملے سے پہلے ہی اللہ کے پاس پہنچ چکی تھی۔ وہ سب بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگے۔ سادیہ نے اُن سب کے لئے اپنی زندگی قربان کر دی تھی۔ دوسروں کی مدد کرنے والے عرفان برادرز آج اپنی بہن کی بھی مدد نہیں کر سکے تھے۔ اُن کی بہن آخر تک اُنہیں یہ احساس دلاتی رہی کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہی بلکہ سچ میں وہ لڑکی واپس آگئی ہے لیکن اُس وقت کسی نے بھی سادیہ کی بات کا یقین نہ کیا۔ یہاں تک کہ سلطان بھی اُسے بے یقینی کے عالم میں دیکھتا رہا۔ آج اُنہیں وہ ساری باتیں یاد آرہی تھیں لیکن وہ بچھتانے کے سوا اورکیا کر سکتے تھے۔ بے گناہوں کو بچانے والے ایل ایل بی شہباز احمد آج اپنی خود کی بیٹی کو موت سے نہیں بچا پائے تھے۔ اس بار ان سب کو زبردست شکست کھانی پڑی تھی۔ وہ شیطانی لڑکی اپنا بدلہ پورا کر کے اس دنیا سے رخصت ہوئی تھی۔ سادیہ ان سب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ آج پہلی بار کیس کا اختتام ان کی مسکراہٹوں یا قہقہوں پر نہیں بلکہ ان کی سسکیوں پر ہو رہا تھا۔

٭٭٭٭٭
ختم شدہ
٭٭٭٭٭
 
Top