پن چکی کی رات

با ادب

محفلین
پن چکی کی ایک رات
یہ آدھی رات کا وقت ہے ۔ چند چھوٹی بچیاں اونچے پتھروں پہ بیٹھی ایک دوسرے کو کہانیاں سنانے میں مصروف ہیں ۔ یہ بچیاں انجانے دیسوں کی سیر کر کے آئی ہیں ۔ ان کے والدین کسب معاش کے چکروں میں کئی کئی سال اپنی جنم بھومی کا رخ نہیں کرتے ۔
اور بہت سالوں بعد جب پردیس سب توانائیاں چھیننے لگتا ہے اور تھکن پور پور میں اتر جاتی یے تو ذرا دیر سستانے کو وہ لوٹ آتے ہیں ۔ اس دنیا میں رہنے کے لیے جو انکی ہوتی ہے جہاں وہ اجنبی نہیں ہوتے جہاں وہ کھل کے جیتے ہیں ۔

یہ بچیاں ایک دوسرے کو ان انجانے دیسوں کی کہانیاں سناتی جاتی ہیں جہاں وہ اپنے والدین کے ساتھ زندگی گزارتی رہی ہیں ۔
جھرنوں سے بہتے پانی کا شور ماحول پر حاوی ہے ۔ پانی پن چکی کو گھماتے ہوئے تیزی سے گزر کے ان پتھروں سے ٹکراتا ہے جن پہ وہ بیٹھی ہیں انکے پیروں کو گیلا کرتا گدگداتا کسی دور دیس کی جانب رواں ہوتا ہے شاید اُن دیسوں کو اِن کی کہانیاں سنانے جہاں سے وہ آئی تھیں ۔

پانی کی گدگداہٹ سے وہ کھلکھلاتی بے خود ہوتی ان پانیوں میں اتر جانا چاہتی ہیں لیکن انکی ماؤں کی سختی سےکی گئی ہدایات انکے قدم روک لیتی ہیں کہ اگر وہ رات کے اس پہر پانی میں اتریں تو جنات انھیں کوہ قاف لے جائیں گے جہاں سے وہ کبھی واپس نہیں آ پائیں گی ۔
وہ کوہ قاف دیکھنا تو ضرور چاہتی تھیں لیکن مائیں کہا کرتیں کوہ قاف میں صرف پریاں ہی نہیں ہوتیں خوفناک جنات بھی ہوتے ہیں ۔
اور جنات تو چاہے انکی دنیا کے ہوں یا کوہ قاف کے ایک خوفناک ڈروا ہوا کرتے ہیں ۔

"سونا سنتی ہو کیا ۔
بولو گی تو سنوں گی نا ۔ "

قہقہے فضا میں بلند ہوتے ہیں ۔ یہ ایسی ہی عمر تھی جہاں ہر بات پہ ہنسی آتی ہے ہر منظر پہ قہقہے ابلتے ہیں ۔

سونا ان ننھی بچیوں کے خوابوں کی شہزادی ہے جو لاڈلی ہے حسین ہے مغرور بھی ہے اور معصوم بھی ۔
وہ والدہ کی آنکھ کا وہ تارا ہے جس کا وہ فقط خواب دیکھ سکتی ہیں ۔

تبھی تو آج پن چکی کی رات جب وہ رات پن چکی میں گزارنا چاہتی تھی اسکی والدہ اسکا ہاتھ تھامے چلی آئی تھیں ۔
سنا تھا پن چکی کی راتیں بہت خوفناک ہوتی ہیں ۔ لوگ گاؤں سے اپنی فصل اٹھا کر پہاڑوں کے دامن سے اتر کر دور بہت دور ان گہری وادیوں میں اترتے ہیں جب جب ساون کی بارشیں ہوتی ہیں تو پن چکیاں رواں ہوتی ہیں پورے گاؤں کی فصل پیسی جاتی ہے ۔
گھرانوں کے حساب سے لوگوں کی باریاں لگتی ہیں ۔ جن کی باری دن میں آجاتی ہے وہ رات کا منظر دیکھنے سے محروم اپنا آٹا سروں پہ لادے گاؤں کا رخ کرتے ہیں اور جنھیں رات پن چکی میں گزارنی ہوتی ہے وہ اپنا سازوسامان اٹھائے وہیں رات گزارنے کا ساماں کرتے ہیں ۔
ایسی راتیں قسمت والوں کو دیکھنے کو ملتی ہیں ۔
اور ایسی راتیں سونا نے دیکھیں کہ وہ قسمت والوں میں سے ہونا چاہتی تھی ۔

" وہاں پانیوں کے اوپر یہ کیسی روشنیاں ہیں؟ ؟
ارے یہ تو جلنے والے کیڑے ہیں ۔
اچھا تو کیا یہ جگنو ہیں؟ ؟ ہماری کتاب میں انکی تصویریں موجود ہیں ۔
تمھیں کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے؟ ؟
ہاں مجھے کہانیاں اچھی لگتی ہیں وہ کہانیاں جو تم لوگوں کو سنائیں سب کتابوں میں پڑھی ہیں میں نے ۔
تم بہت خوش قسمت ہو نا ۔
آؤ جگنو پکڑتے ہیں ۔ وہ اونچے پتھر سے اٹھ کر پانی میں پاؤں ڈالتی ہے ۔
ارے ارے آگے مت جانا وہاں گہرے پانی ہیں ۔ اور جنات بھی
نہیں ہم جگنو گھر لے کر جانا چاہتے ہیں جب شہروں میں راتیں تاریک ہونگی تو یہ ہمارے ساتھی ہونگے ہم ان کے لیے گھر بنائیں گے ۔
دیکھو پیاری یہ انکا گھر ہے وہاں یہ مر جائیں گے اور دیکھو یہ پانی کا کنارہ ہے یہاں ہم نے آگ لگا رکھی ہے تبھی جانور اس سمت نہیں آتے ۔
یہاں شیر گیدڑ اور سانپ ہو سکتے ہیں ۔
وہ ڈر کر رک گئی ۔ کیا یہاں شیر ہوتے ہیں؟ ؟
ہاں اچھی لڑکی یہ شیروں کا مسکن ہے لیکن یہ اچھے شیر ہیں گاؤں کے لوگوں کو کچھ نہیں کہتے ۔ جب تک انکو چھیڑا نہ جائے ۔ "

اف اس نے خوف سے جھرجھری لی ۔ اور دور سے جگنوؤں کو دیکھنے لگی کہ آنے والی زندگی کی تاریک راتوں کے ساتھی تھے یہ جگنو ۔
آسمان پہ لاتعداد تارے موجود تھے جنھیں گننا نا ممکن تھا ۔
زمین پہ جنت موجود تھی ۔ لامبے اونچے چیڑھ کے درخت جنکی مہک فضا میں پھیلی ہوئی تھی ۔ اس خوشبو کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا تھا ۔
اونچے بلند و بالا پہاڑوں سے بہتے جھرنے جن کے گرنے کی سریلی اور مدھر آواز دل کی لے کو بدل ڈالتی تھی ۔ اونچے پتھروں سے ٹکراتے شفاف پانی جھاگ اڑاتے انھیں خوش ہوتا دیکھ کر گزر جاتے تھے ۔ اندر پن چکی میں ڈھیر ساری خالائیں باتوں میں مشغول اپنی کہانیاں سناتے کام کرتی جاتی تھیں ۔ پانی کے بہاؤ دیکھتیں گرم گرم پسا ہوا آٹا بوریوں میں ڈالتیں خوشی سے ہمکنار چہروں کے ساتھ بچیوں کو ڈانٹتی ڈپٹتی اپنی دنیا میں مگن تھیں ۔
پوری فضا پہ گندم کی سوندھی خوشبو نمایاں تھی ۔
یہ آدھی رات کا وقت تھا اور یہاں کوئی ڈر خوف کا شائبہ نہیں تھا ۔ لوگ آپس میں رشتوں احترام کی ڈوریوں میں بندھے ہوئے تھے ۔ شیر موجود تھے لیکن بھیڑئیے اور درندے نہیں تھے ۔
دور کہیں سے مؤذن نے آذان دینی شروع کی تو سب نے وضو کیا نماز پڑھی گئی اور جب لکڑیاں جلا کے چائے اور پراٹھے بنائے جاتے تو وہ لذت وہ خوشبو پوری دنیا کے پکوان کھانے سے بھی نہیں ملتی ۔
سونا کی ڈائری میں حسین یاد کا اضافہ کرتی پن چکی کی ایک رات گزر چکی تھی ۔

چند جگنو آج بھی مٹھی میں بند تھے ۔ اور وہ حقیقی سچی خوشی کے رنگ دیکھ آئی تھی ۔
یہ کہانی اسکی کتاب زیست کی ایک کہانی تھی ۔
کیا کبھی کتابیں پن چکی کی اس ایک رات کو بیان کریں گی؟ ؟

سمیرا امام
۱۸/۸/۲۰۱۸
 
Top