نظر لکھنوی غزل: گم ہوتے ہوئے عقلِ بشر دیکھ رہے ہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

گم ہوتے ہوئے عقلِ بشر دیکھ رہے ہیں
کم ہوتے ہوئے اہلِ نظر دیکھ رہے ہیں

اک عالمِ پنہاں وَ دگر دیکھ رہے ہیں
جو چیر کے ذرہ کا جگر دیکھ رہے ہیں

افسونِ شبِ تار سے مغلوب ہوا تُو
ہم چشمِ تصور سے سحر دیکھ رہے ہیں

دل خانۂ سرد اب تو ہوا جاتا ہے صد حیف
بجھتا ہوا ایماں کا شرر دیکھ رہے ہیں

سینچا ہے تجھے خون سے اے نخلِ تمنا
آتا ہی نہیں تجھ پہ ثمر دیکھ رہے ہیں

اللہ رے بدلی ہے نظرؔ ان کی ذرا جو
بدلے ہوئے ہم شام و سحر دیکھ رہے ہیں

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 

یونس

محفلین
"افسونِ شبِ تار سے مغلوب ہوا تُو
ہم چشمِ تصور سے سحر دیکھ رہے ہیں"
بہت اعلیٰ ۔۔۔ !
 
Top