شہید غازی اور غازی شہید

فاتح

لائبریرین
اے قبائلیو!
ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو جرگہ کے فیصلوں کے نام پر سرِ عام ننگا کر کے نچاؤ کہ یہی اسلام ہے تمہارا۔
کسی ایک شخص کے گناہ کی سزا کے طور پر اس کے خاندان کی پاکباز عورتوں کی اجتماعی آبرو ریزی کرواؤ کہ یہی اسلام ہے تمہارا۔
ہر وہ شخص جس پر کوئی بھی چھوٹا بڑا الزام ہو اسے جمعہ کی نماز کے بعد ذبح کر دو کہ یہی اسلام ہے تہمارا۔
حکومت کو بلیک میل کرنے کے لیے ہر روز پاکستانیوں کو قتل کر کر کے پہاڑوں پر ان کی لاشیں پھینکتے چلے جاؤ کہ یہی اسلام ہے تمہارا۔
ہیروئن پیدا کر کے ملک بھر میں پھیلاتے رہو تا کہ ہماری نسلیں برباد ہو جائیں اور تمہاری معیشت پھلے پھولے کہ یہی اسلام ہے تہمارا۔
جہاد کے نام پر اسلحہ کی فیکٹریاں لگاتے چلے جاؤ، جو جہاد کی بجائے مسلمانوں کا خون کرنے میں کام آئے کہ یہی اسلام ہے تمہارا۔
حکومت کو تعلیمی ادارے مت کھولنے دو کہ تمہاری نئی نسل جہالت سے دور ہو کر اسلام کے نام پر تمہاری من مانیوں اور بالا دستی سے انکار نہ کر سکے کہ یہی تمہارا اسلام ہے۔

اور

چونکہ تم نے قائد اعظم کے کہنے پر کشمیر میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا لہٰذا تمہیں ہر من مانی، دادا گیری اور دھونس کا اختیار حاصل ہے۔
چونکہ تم مسلسل ساٹھ سالوں سے اسی بے غیرتی پر قائم ہو لہٰذا اب کسی کو حق نہیں کہ وہ تمہیں اس سے روک سکے۔
چونکہ تم یہ سب اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے اور نعرۂ تکبیر لگا کر کرتے ہو لہٰذا اسے درست قرار دیا جانا ہمارے لیے باعث خیر ہے۔
چونکہ ہمیں مشرف سے اختلاف ہے لہٰذا "دشمن کا دشمن دوست" کے قول پر عمل کرتے ہوئے ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کا ایک حصہ بھی ان بدکاریوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے تمہارا حامی بن چکا ہے۔

خدارا اب تو یہ ذلالت بند کر دو کہ اب تو پندرھویں صدی کا بھی ایک چوتھائی گزر گیا۔ خدارا اس کھلے ظلم سے ہاتھ کھینچ لو۔ خدا کے واسطے اپنے بچوں کو تعلیم سے روشناس کرواؤ۔ خدا کے لیے۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
سید ابرار صاحب اور ان احباب کو جنہوں نے حقیقت کو سمجھا اور بات کی مدینہ سے دعا ہے
راسخ صاحب! آپ مدینہ، ریاض، دبئی یا اسلام آباد سے دعا مانگنے کی بجائے اس واحد ہستی سے جسے قبولیت کا اختیار ہے یعنی خدا تعالیٰ سے مانگتے تو شاید قبولیت کا درجہ بھی پاتی۔:)
سید ابرار صاحب کو خصوصی سلام

انڈیا کے مسلمانوں کو سلام
جناب! پاکستان کے مسلمان کیا اتنے ہی برے ہیں کہ ان کو سلام بھی نہیں کیا جا سکتا؟:rolleyes:
 

ساجد

محفلین
اے قبائلیو!
ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو جرگہ کے فیصلوں کے نام پر سرِ عام ننگا کر کے نچاؤ کہ یہی اسلام ہے تمہارا۔
کسی ایک شخص کے گناہ کی سزا کے طور پر اس کے خاندان کی پاکباز عورتوں کی اجتماعی آبرو ریزی کرواؤ کہ یہی اسلام ہے تمہارا۔
ہر وہ شخص جس پر کوئی بھی چھوٹا بڑا الزام ہو اسے جمعہ کی نماز کے بعد ذبح کر دو کہ یہی اسلام ہے تہمارا۔
حکومت کو بلیک میل کرنے کے لیے ہر روز پاکستانیوں کو قتل کر کر کے پہاڑوں پر ان کی لاشیں پھینکتے چلے جاؤ کہ یہی اسلام ہے تمہارا۔
ہیروئن پیدا کر کے ملک بھر میں پھیلاتے رہو تا کہ ہماری نسلیں برباد ہو جائیں اور تمہاری معیشت پھلے پھولے کہ یہی اسلام ہے تہمارا۔
جہاد کے نام پر اسلحہ کی فیکٹریاں لگاتے چلے جاؤ، جو جہاد کی بجائے مسلمانوں کا خون کرنے میں کام آئے کہ یہی اسلام ہے تمہارا۔
حکومت کو تعلیمی ادارے مت کھولنے دو کہ تمہاری نئی نسل جہالت سے دور ہو کر اسلام کے نام پر تمہاری من مانیوں اور بالا دستی سے انکار نہ کر سکے کہ یہی تمہارا اسلام ہے۔

اور

چونکہ تم نے قائد اعظم کے کہنے پر کشمیر میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا لہٰذا تمہیں ہر من مانی، دادا گیری اور دھونس کا اختیار حاصل ہے۔
چونکہ تم مسلسل ساٹھ سالوں سے اسی بے غیرتی پر قائم ہو لہٰذا اب کسی کو حق نہیں کہ وہ تمہیں اس سے روک سکے۔
چونکہ تم یہ سب اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے اور نعرۂ تکبیر لگا کر کرتے ہو لہٰذا اسے درست قرار دیا جانا ہمارے لیے باعث خیر ہے۔
چونکہ ہمیں مشرف سے اختلاف ہے لہٰذا "دشمن کا دشمن دوست" کے قول پر عمل کرتے ہوئے ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کا ایک حصہ بھی ان بدکاریوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے تمہارا حامی بن چکا ہے۔

خدارا اب تو یہ ذلالت بند کر دو کہ اب تو پندرھویں صدی کا بھی ایک چوتھائی گزر گیا۔ خدارا اس کھلے ظلم سے ہاتھ کھینچ لو۔ خدا کے واسطے اپنے بچوں کو تعلیم سے روشناس کرواؤ۔ خدا کے لیے۔۔۔
فاتح بھائی ،
آپ نے بہت اچھا لکھا اور حقیقت کی تصویر کَشی کی ۔ بس ایک وضاحت کرنا چاہوں گا کہ ہر قبائلی ایسا نہیں ہے بلکہ ان کی غالب اکثریت ایسی نہیں ہے ۔یہ تو ان میں سے گمراہ ہو چکے کچھ جاہل ہیں جو ان کا نام بدنام کر رہے ہیں۔ آپ کبھی پشاور ، کوہاٹ ، بنوں اور درہ آدم خیل جائیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ خود قبائلی ان لوگوں کے ظلم سے کس قدر عاجز آ چکے ہیں۔ میران شاہ اور وزیرستان جانا ہو تو وہاں کے کسی آدمی کی معیت کے بغیر یہ خطرہ مول مت لیں۔اندرون علاقہ جات تو اس سے بھی برا حال ہے۔ ایک بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہر قبائلی ان جاہلوں کے ساتھ ہوتا تو پاک آرمی ایک دن بھی ان علاقوں میں نہ ٹھہر سکتی۔ آرمی کی وہاں موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ طالبان محض اسلحے کے زور پر وہاں مسلط ہیں ۔ عام آدمی کی حمایت ان کو حاصل نہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ عوام کو حقیقت کا ادراک کرنا چاہئیے اور ہمیں یہ بات ان (عوام) تک پہنچانا چاہئیے کہ یہ شرپسند خود اپنی قبائلی شناخت کو کس قدر مجروح کر چکے ہیں۔ اور ان کی وجہ سے سب قبائلیوں کی بدنامی ہوتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر شمالی وزیرستان میں اگلے چند دن میں حالات بہتر نہ ہوئے تو حکومت 18 اکتوبر کے بعد کسی وقت بھی وہاں بڑی کارروائی کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ کیوں کہ فوج اور اس کے ذیلی اداروں کے ابھی بھی قریب 300 جوان ان خونیوں کی قید میں ہیں اور لوگوں کو ذبح کرنے کا عمل ہنوز جاری ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
فاتح بھائی ،
آپ نے بہت اچھا لکھا اور حقیقت کی تصویر کَشی کی ۔ بس ایک وضاحت کرنا چاہوں گا کہ ہر قبائلی ایسا نہیں ہے بلکہ ان کی غالب اکثریت ایسی نہیں ہے ۔یہ تو ان میں سے گمراہ ہو چکے کچھ جاہل ہیں جو ان کا نام بدنام کر رہے ہیں۔ آپ کبھی پشاور ، کوہاٹ ، بنوں اور درہ آدم خیل جائیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ خود قبائلی ان لوگوں کے ظلم سے کس قدر عاجز آ چکے ہیں۔ میران شاہ اور وزیرستان جانا ہو تو وہاں کے کسی آدمی کی معیت کے بغیر یہ خطرہ مول مت لیں۔اندرون علاقہ جات تو اس سے بھی برا حال ہے۔ ایک بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہر قبائلی ان جاہلوں کے ساتھ ہوتا تو پاک آرمی ایک دن بھی ان علاقوں میں نہ ٹھہر سکتی۔ آرمی کی وہاں موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ طالبان محض اسلحے کے زور پر وہاں مسلط ہیں ۔ عام آدمی کی حمایت ان کو حاصل نہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ عوام کو حقیقت کا ادراک کرنا چاہئیے اور ہمیں یہ بات ان (عوام) تک پہنچانا چاہئیے کہ یہ شرپسند خود اپنی قبائلی شناخت کو کس قدر مجروح کر چکے ہیں۔ اور ان کی وجہ سے سب قبائلیوں کی بدنامی ہوتی ہے۔
ساجد بھائی، بہت شکریہ!
میں جانتا ہوں کہ عام قبائلی انتہائی مہمان نواز اور سادہ فطرت کے ہوتے ہیں لیکن میرا روئے سخن انہی خواص (گندی مچھلیوں) کی جانب ہے جنہوں نے سارا تالاب گندا کیا ہوا ہے اور جو تعلیم کو عام نہیں ہونے دیتے کہ ان کے سادہ لوح عوام کہیں ان کے اصل چہروں سے واقف ہو کر ان کے خلاف نہ اٹھ کھڑے ہوں۔
ورنہ یہ خواص اصل ظلم تو انہی قبائلی عوام پر ڈھاتے ہیں جن کی عورتوں کو سزاؤں کے طور پر۔۔۔
ساجد بھائی! کیا انسانیت اور اسلام کے رشتہ سے اس بہیمانہ ظلم کو دیکھ کر آپ اور میں کبھی نہیں روئے؟؟؟ تو کیا ان مظلوموں کا دل خون کے آنسو نہیں روتا ہو گا جن کی سگی ماؤں بہنوں پر یہ ظلم روا رکھا جاتا ہے؟:mad:

اپنے ان تعلیم یافتہ بھائیوں پر دکھ ہوتا ہے جو صرف "دشمن کا دشمن دوست" اور "جنگ میں سب جائز ہے" کے فرسودہ محاوروں‌کی تقلید کرتے ہوئے ان ظالموں کی حمایت میں بات کرتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر شمالی وزیرستان میں اگلے چند دن میں حالات بہتر نہ ہوئے تو حکومت 18 اکتوبر کے بعد کسی وقت بھی وہاں بڑی کارروائی کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ کیوں کہ فوج اور اس کے ذیلی اداروں کے ابھی بھی قریب 300 جوان ان خونیوں کی قید میں ہیں اور لوگوں کو ذبح کرنے کا عمل ہنوز جاری ہے۔

تین سو کہاں بچے اب؟ ان تین سو مغویان میں سے یہ جلاد صفت طالبان تین تین کر کے ہر دوسرے دن ذبح بھی تو کرتے جا رہے ہیں۔:mad:
اور آپ کی ہی بات کا اعادہ کروں گا کہ ان تین سو مغویان میں کافی تعداد انہی مظلوم اور سادہ قبائلیوں کی ہے۔ اور جن چھے افراد کو جمعہ کی نماز کے بعد سر عام مجمع میں ذبح کیا گیا وہ بھی یہی قبائلی ہی تھے۔ جن کی عورتوں کو عید کے روز باہر نکلنے پر بم سے اڑانے کی دھمکی دی گئی ہے وہ بھی یہی قبائلی ہی ہیں۔:mad:

اے اللہ یا تو ان ظالموں کو ہدایت دے دے اور یا ان کی رسی کھینچ لے۔ آمین!:(
 

خرم

محفلین
بہت سے لوگوں کو دن میں چراغ لےکر ایسی چیزیں تلاش کرنے کا مرض ہوتا ہے جو سامنے موجود ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ سانحہ لال مسجد کے محرک کے طور پر آنٹی شمیم کا نام لیا جاتا ہے۔ جبکہ آنٹی شمیم صرف ایک ضمنی حوالہ تو ہوسکتی ہیں محرک نہیں۔ اصل محرک لال مسجد کا وہ رویہ ہے جو اس نے “پاک فوج کی ملک دشمنی“ کیخلاف اپنایا۔ اور یہ سامنے کہ بات ہے اسے تلاشنے کے لیے کسی چراغ یا لالٹین کی ضرورت نہیں۔ قبائلی علاقوں میں پاک فوج کے ناپاک ہاتھوں سے سینکڑوں معصوم جانیں، کئی بستیاں اور مدرسے بربریت کا نشانہ بنے، جس کی مخالفت میں لال مسجد سرِ فہرست تھی۔ لال مسجد کو اس حرکت کا مزہ چکھانے کے لیے پاک فوج نے خاص انوائرمینٹ ترتیب دیا اور لال مسجد کو کرائسس کی جانب دھکیلا، لال مسجد والوں کی ناقص بصیرت اور ڈیڑھ ہشیاری نے ان کرائسس کو جواز فراہم کردیا یوں بھولو پہلوان نے اس کشتی میں تنکا پہلوان کو پچھاڑ دیا۔ تنکا پہلوان نے بالآخر شکست تسلیم کرلی لیکن بھولو پہلوان نے قومی مفاد میں اسے جان سے ماردیا۔ ہماری قوم نے اس کشتی کو خوب انجوائے کیا اس طرح لال مسجد انٹرٹینمنٹ اپنے اختتام کو پہنچا۔ اللہ اللہ خیر صلا

اب بھائی یہ تو خالصتا "حمامی" تھیوری آپ نے پیش کردی۔ پہلے آپ نے کہا کہ انہوں نے پاک فوج کے رویہ کے خلاف ہتھیار اٹھائے پھر یہ کہا کہ فوج نے یہ انوائرمنٹ ترتیب دیا پھر یہ کہ وہ ہتھیار ڈالنا چاہتے تھے اور انہوں نے ہار مان لی تھی مگر پھر بھی انہیں‌مار دیا گیا۔ اب ان باتوں میں‌خود ہی اتنے تضادات ہیں کہ میں‌کیا کہوں۔ جذباتیت کے لئے تو یہ باتیں بہت اچھی ہیں میرے بھائی لیکن حقائق کا جائزہ بھی لینا چاہئے۔ آپ مجھے صرف یہ بتا دیں کہ لال مسجد والوں‌کو بندوقیں رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ ایک مدرسہ میں، سکول میں اور ایک مسجد میں‌بندوقوں کی کیا ضرورت تھی؟ باقی باتیں معروضی ہیں۔ آپ صرف اس سوال کا جواب دے دیجئے۔

پاکستان وجود میں آیا ہی ہے کہ انڈیا نے آزاد کشمیر اور سرحدی علاقوں میں فوجیں اتاردیں۔ قائدِ اعظم رحمتہ اللہ پاک فوج کو حکم دیتے ہیں کہ بزورقوت اپنے علاقے آزاد کرائے جائیں۔ بجائے حکم کے تعمیل کرنے کے پاک فوج کے انگریز چیف صاف انکار کردیتے ہیں۔ قائدِ اعظم نحیف و کمزور ہیں۔ اپنی عمر کے آخری حصے میں پہنچ چکے ہیں، قدرت نے یہ غم بھی قائدِ اعظم کے حصے میں رکھا تھا۔ بانئ پاکستان کا حکم اور پاک فوج کا انکار۔۔۔ تھو تھو
تکنیکی طور پر اس وقت فوج کا غالب حصہ تاجِ برطانیہ کا وفادار تھا۔میں اس کے انکار کو صحیح نہیں‌کہہ رہا مگر اس موقع پر شاید ہی کوئی اور کچھ اور کرتا۔ جذباتیت اپنی جگہ لیکن اگر اس جنرل کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو یہی کرتا۔
ایسے میں پاکستان کے غیور قبائلی قائدِ اعظم کی پکار پر لبیک کہتے ہیں۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر کئی گنا بڑے دشمن سے ٹکراجاتے ہیں۔ سروں کی فصل کٹتی ہے، بہادری و شجاعت کی نئی مثال قائم ہوتی ہے۔ اعلیٰ اخلاق و کردار اور جانثاری کا یہ مظاہرہ انصارِ مدینہ کی یاد تازہ کردیتا ہے۔ اس طرح مقبوضہ علاقوں بڑا حصہ پاکستان کے حصے میں آجاتا ہے (یہ ٹارزن کی کہانی نہیں)۔ احسان مندی کا تقاضا یہ تھا کہ قبائلیوں کو عقیدت کے نذرانے دیے جاتے، ان کی قدر کی جاتی۔ ان کی حالت بدلی جاتی۔ ان کو پاکستانی معاشرے سے ہم آہنگ اور جدید تعلیم سے روشناس کرایا جاتا۔ جہالت کی رسمیں ختم کرنے میں کردار ادا کیا جاتا، ان کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا۔ کچھ نہیں کرسکتے تھے تو برے وقت میں ان کا ساتھ ہی دیا جاتا لیکن معلوم ہے ان وفا کے پیکروں کو پاک فوج نے کیا صلہ دیا؟ ۔۔۔۔ ہم کہ ٹھہرے اجنبی، اتنی مداراتوں کے بعد

اب بھائی آپ نے تو سماں باندھ دیا۔ یہی نعرہ بازی تو لے ڈوبی ہم سب کو۔ پہلی بات تو یہ کہ مقبوضہ علاقوں کا بڑا حصہ ابھی بھی ہندوستان کے پاس ہے۔ دوسری بات یہ کہ قبائلیوں‌کو جو انہوں نے مانگا وہ دیا گیا۔ انہوں‌نے کہا کہ ہمارے علاقے میں آپکا قانون نہیں‌ہوگا۔ ہم نے کہا نہیں ہوگا۔ انہوں‌نے کہا کہ ہمارا اپنا نظام رہے گا ہم آپکے نظام کے ماتحت نہیں ہوں گے ہم نے کہا جی نہیں‌ہوں گے۔ اب اس کے بعد کیا ہوا۔ اسمگلنگ ہوئی، ہیروئن آئی، کلاشنکوف آئی، جو بھی مجرم پہنچ رکھتا ہو وہ اگر قبائلی علاقہ پہنچ جائے تو اپنے جرم کی نوعیت سے قطع نظر "قبائلی مہمان نوازی" کے تحت کسی بھی قسم کے قانون سے مبراء ہو جاتا تھا۔ اس سب کے باوجود ایک قبائلی کے پاس اتنے ہی مواقع تھے پاکستان کی سوسائٹی میں جتنے ایک عام پاکستانی کو۔ کئی قبائلی کور کمانڈر بنے اور دیگر اعلٰی عہدوں پر فائز رہے۔ اب آپ نجانے کس طرح آنکھوں‌پر بٹھانا چاہتے ہیں؟
قبائلیوں میں بہت سی غلط رسومات اور خامیاں سہی لیکن یاد رہے قبائلی بلا کے مہمان نواز ہوتے ہیں۔ اسلحے سے محبت کرتے ہیں اور ان کی روایت دشمن کو بھی گھر میں پنادہ دیتی ہے۔ تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اپنے محسنوں کو بھول جاتے۔ امریکہ نے پاکستان کے کندھوں پر چڑھ کر افغانستان پر حملہ کردیا، بچے کھچے افغان و عرب مجاہدین نے گوریلا وار کی اسٹریٹیجی بنائی اور قبائلی علاقوں کو بیس کیمپ کے لیے چنا۔ قبائلی ان کو چشم ماروشن دلِ ماشاد کہتے ہیں اور اپنی پناہ میں لے لیتے ہیں۔ افغانستان کی دفاعی جنگ میں قبائلی امریکا کے مقابلے میں مجاہدین کے مددگار ہیں اور اپنی روایتی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ان سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ جان کی قیمت پر بھی مہمان مجاہدین کو پاکستان یا امریکا کے حوالے کر دیں۔ انہیں اپنے انجام کی پروا ہوتی تو کبھی قائدِ اعظم کی اپیل پر پاکستان کی خاطر جان کی بازی نہ لگاتے۔
کون محسن بھائی جان؟ کیا ان کی وفاداری اس مملکت سے ہونی چاہئے جس کے وہ باشندہ ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں یا دوسرے لوگوں سے؟ یہ جو عرب، تاجک اور ازبک لوگ ہیں یہ اپنے ملکوں میں‌کیوں جہاد نہیں کرتے؟ صرف ہم لوگ ہی ملے ہیں اس کام کیلئے؟ جائیں پہلے اپنے ملکوں کو آزاد کروائیں اور پھر دوسروں کی طرف دیکھیں۔ اتنا بڑا منافقانہ تضاد اور ہم اتنے عقلمند کہ جو ہمارے گھر میں گھس کر ہمیں‌ہی جوتے ماریں ان پر واری صدقہ جاتے ہیں۔ مجاہدین، کون سے مجاہدین؟ جو راتوں رات غیر افغانیوں کو میدان جنگ میں چھوڑ کر فرار ہو گئے؟ جو پوست کی رقم سے "جہاد"‌کر رہے ہیں؟ جو کل بھی امریکہ کے دئے ہوئے اسلحہ پر جہاد کرتے تھے اور آج بھی ان کے ڈالروں پر پل رہے ہیں؟ جس چین نے انہیں سب سے پہلے سوویت یونین سے لڑنے کے لئے اسلحہ دیا، اسی چین میں دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والے؟ جس پاکستان نے انہیں‌بیسیوں سال اپنے پاس رکھا اسے کلاشنکوف، ہیروئن اور اب دہشت گردی کا تحفہ دینے والے؟ ریاض بسرا اور اس جیسے کئی اور لوگوں کو پناہ دینے والے؟ اس سب کچھ کے باوجود کبھی بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کا تعین نہ کرنے والے؟ مہمان مجاہدین۔ کیسی مہمان نوازی کی بات کرتے ہیں بھائی آپ۔ اگر کوئی شخص خدانخواستہ آپ کے خاندان کے چند افراد کو قتل کرکے میرے پاس آجائے اور میں‌بجائے اسے آپ کے حوالے کرنے کے آپ پر ہی بندوقیں تان لوں تو کیا آپ اسے میری مہمان نوازی اور عین انصاف گردانیں گے؟ اور باقی رہ گئی غیرت کی بات تو ایک بات کہوں، اگر صلح حدیبیہ کے وقت یہ لوگ ہوتے نا، تو نعوذ باللہ اللہ کے رسول صلعم سے بھی "جہاد" شروع کر دیتے۔ میں حکومت پاکستان کی افغان پالیسی سے متفق نہیں ہوں مگر اپنے گھر کی پالیسیوں کو گھر میں بدلنا چاہئے۔ اس کے لئے اور لوگوں کو باہر سے بُلا کر اپنے گھر میں قتل و غارت نہیں شروع کر دینی چاہئے۔

امن کی بھولی بھالی فاختائیں حیرت سے پوچھتی ہیں کہ یہ قبائلی پاکستان کے دشمن کیوں ہوگئے؟ انہیں کون بتائے کہ جب امریکا نے پاکستان کے کندھوں پر چڑھ کر افغانستان پر چڑھائی کی تو یہ بہترین وقت تھا کہ حکمران اس بات کا ادراک کرتے کہ بات کہاں تک جائیگی۔ افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کی تاریخ ساز تحریک برپا ہوئی اور ہم مجاہدین بالخصوص حکمت یار کے پشت پناہ بن کر کھڑے ہوگئے۔ گلبدین حکمت یار پاکستانیوں سے زیادہ پاکستانی تھے، مگر پھر ہم نے مجاہدین اور حکمت یار کوترک کردیا اور ایک وقت آیا کہ حکمت یار پاکستان میں داخل نہیں ہوسکتے تھے۔ مجاہدین کی جگہ ہم نے طالبان برپا کیے اور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے انہیں ایک دن میں تسلیم کرایا۔ نصیر اللہ بابر نے سعودی ذمہ داروں سے کہا؛ طالبان افغانی نہیں ہیں، یہ تو ہمارے بچے ہیں۔ اور پھر ہم نے ایک ٹیلی فون کال پر اپنے ہی بچوں کو خود ذبح کرڈالا۔ سوال یہ ہے کہ امن پسند ہونے کا مطلب کیا stupid ہونا ہے۔ بھولی بھالی معصوم فاختاؤں کو امن کی راگنی ہمیشہ ظالموں کے حق میں ہی کیوں سوجھتی ہے۔ اگر معصومیت کا یہی مفہوم ہے تو اس تناسب سے اپنے جنرل پرویز مشرف تو سرتاپا انتہائی معصوم ہیں۔ وہ شمالی اور جنوبی وزیرستان اور بلوچستان میں معصوموں کا بہت اچھا بندوبست کررہے ہیں۔ اس سے قبل وہ افغانستان میں معصوم لوگوں کے بندوبست میں امریکا کے ساتھ بھرپور تعاون کرچکے ہیں۔ ظاہر ہے معصوم لوگوں کی پرواہ کرنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ کتنے معصوم ہیں نا یہ لوگ۔ چوں چوں کرتے چوزے بھی ان کی معصومیت کو شرماتے ہیں۔ کتنی معصومیت سے افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو امریکا کے حوالے کردیا تھا۔ ان معصوموں نے گذشتہ پانچ سال میں امت کے تصور کے پرخچے اڑادیے۔ امت کے ہزاروں بے گناہ فرزندوں کو پکڑ پکڑ کر کافروں اور مشرکوں کے حوالے کیا، چنانچہ پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ان معصوموں کی مہربانی ہے۔ یہ معصوم جواز میں کہتے ہیں کہ ہم یہ نہ کرتے تو امریکا ہمیں پتھر کے زمانے میں پہنچادیتا۔ حیرت ہے ان کی معصومیت پر، یہ چغد کے لڈو اتنی معمولی بات نہیں سمجھتے کہ زلزلے کا ایک معمولی جھٹکا آپ کو پتھر کے دور میں پہنچا سکتا ہے۔
تو جن کی خاطر اتنا کچھ کیا گیا، کیا ان کا کوئی فرض‌نہ بنتا تھا؟ کوئی بات ہی سُنتے، کوئی مشورہ ہی مانتے۔ اس وقت تو انہیں اپنی روایات، اپنا سب کچھ یاد آگیا۔ اس وقت ہم محسن نہ تھے کیا؟ ان کی مجبوریوں کی تو ہم نے پاسداری کی، ہماری مجبوریوں‌کی پاسداری ان پر فرض نہ تھی؟ کیا کریں‌جب ہم خود ہی اپنے آپ کو بے قیمت کریں تو دوسرا کوئی کیوں ہماری قدر کرے؟ امت کا تصور۔ کونسی امت؟ کہاں‌ہے امت؟ کاش کہ ہوتی کہیں امت۔ ایک ایسے شخص کے لئے یہ سب کیا گیا جس نے پہلے تو کہا کہ میرا کوئی ہاتھ نہیں 9/11 میں‌اور پھر ان کی تصویریں لگا لگا کر ویڈیو بنواتا پھرتا ہے۔ جس کی اپنی بھتیجی تو نیم عریاں ماڈلنگ کرتی ہے، جس کے بھائی بہن تو امریکی اسلحہ ساز کارخانوں میں بڑے حصہ دار ہیں جن کا اسلحہ مسلمانوں‌پر ہی استعمال ہو رہا ہے اور اس کی جنگ ہے امریکہ سے۔ یہ صاحب پہلے اپنا گھر تو ٹھیک کر لیتے پھر اوروں کو درست کرتے۔ اور ہم اتنے معذرت خواہانہ ہیں، اتنے ذہنی غلام کہ دین ہو یا دنیا، ہر چیز کا معیار کوئی بیرونی آقا ہی ہے۔ اس قدر پستی۔ الامان۔ جو دنیا دار ہیں وہ امریکہ کے غلام، جو بزعم خود دین دار ہیں وہ اسامہ کے غلام۔ اوروں کی خود داری اور حمیت کے قصیدے لہک لہک کر پڑھے جاتے ہیں اور اپنی خودداری یہی کہ جو جتنی اُلٹی بات کرے ہم اس کے اتنے ہی بڑے غلام۔ زلزلہ کا طعنہ تو سب دیتے ہیں جیسے زلزلہ آیا ہی ہمارے مشورہ سے تھا۔ اس زلزلہ سے متاثرہ لوگوں کی بحالی میں ہمارا کیا کردار ہے اس پر کبھی سوچا؟ جان قربان کرنے کے دعویداروں نے مجھ سمیت یہ کیا کہ اپنی ماہوار کمائی میں سے صرف ایک خاندان یا ایک فرد کا ذمہ اٹھا لیتے؟ انصار کے ایثار کی بڑی باتیں ہوئیں، کیا ہم نے ایثار کیا جب ہمیں موقع دیا گیا؟ احسان کی بات کرتے ہیں امریکہ سے لڑائی کی بات کرتے ہیں اس وقت بھی ان امریکی ہیلی کاپٹروں کو باہر نکال دینا تھاجو متاثرہ علاقوں میں امداد بھیج رہے تھے۔ اس وقت بھی اس امریکی مشینری کو انکار کر دینا تھا۔ کیا وہ احسان نہ تھا؟ جنرل پرویز مشرف انتہائی خبیث انسان ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر کوئی اور خبیث اُٹھ کر اس کی مخالفت شروع کرے تو میں اس کی حمایت کرنے لگ پڑوں۔ سچ صرف سچ اور درست اصول صرف درست اصول ہوتا ہے۔ باقی سب جھوٹ اور گمراہی کا پھندہ۔

امن کی بھولی بھولی، شرمیلی شرمیلی، چھیل چھبیلی چاند سی فاختائیں سبق پڑھا رہی ہیں کہ اسٹیٹ کیخلاف بندوق اٹھانا جرم ہے۔ ہمیں یقین ہے جب اسٹیٹ کی خاطر جان کی بازی لگانے کا وقت آئیگا تو یہ امن کی فاختائیں چارپائیوں کے نیچے چھپتی پھر رہی ہوں گی۔ منہ کے پکوڑوں کی معرکہ آرائی ہوتی ہے تو امن کے شیدائی آگے آگے رہتے ہیں۔ خاص کر آنٹی شمیم جیسوں کا معاملہ ہوتو ان کی انسانیت کا درد جاگ اٹھتا ہے اور دل، جگر، گردے، پتے، کیلجے غرض ہر جگہ درد شروع ہوجاتا ہے اور یہ نچڑی ہوئی گنڈیری کی طرح مریض الموت نظر آتے ہیں
کسی شرعی، قانونی نقطہ سے ثابت کردیں کہ اسٹیٹ کے خلاف بندوق اٹھانا جرم نہیں ہے۔ اور جہاں تک بات ہے نا اسٹیٹ کی خاطر جان کی بازی لگانے کی تو جو آج اسٹیٹ کے نہیں‌وہ اس وقت کیا ہوں گے؟ اور جب وقت آئے گا تو اللہ کی مرضی سے فاختائیں ہی کافی ہوں گی۔ آنٹی شمیم کا نام آپ اتنی کراہت سے لیتے ہیں چلیں آپ ہی شرعی ثبوت فراہم کر دیجئے۔ دین کے نام پر اتنی دیدہ دلیری تو نہ کیجئے۔ قیامت کے روز اس خاتون کے کردار سے قطع نظر جب اس کا ہاتھ آپ کے گریبان پر ہوگا تو حاکمِ اعلٰی کے سامنے کیا جواب دیں گے کہ کس بِرتے پر آپ نے اس پر الزام دھرا؟ کبھی اس پر بھی سوچا؟

ظاہر ہے ہذیانی انداز میں امن امن پکارنے سے امن قائم نہیں ہوتا۔ امن ظلم سے نجات کے بغیر ممکن نہیں اور ظلم سے نجات کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور قربانیوں کے نام سے امن کے متوالوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے، سکتے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم۔ امن کے یہ شیدائی امن کا ہذیان بکتے بکتے اتنے مردہ ہوچکے ہیں کہ کوئی ان کے باپ کی پگڑی اچھال دے تو یہ فوراً اللہ والے بن جاتے ہیں، عفوودرگزر کی اسلامی تعلیمات یاد آجاتی ہیں۔ توبہ توبہ ، ایسے اللہ والوں سے اللہ بچائے۔ ایسوں کو یہی مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ جائیں اور جاکر بازارِ حسن کی زینت بنیں۔
اللہ تعالٰی ہم سب کی مغفرت کرے۔ اب ان الفاظ پر تو صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ بھائی آپ کا اور آپکے مشورہ کا شکریہ۔

جن حکمرانوں کی اطاعت کی باتیں ہورہی ہیں ہم انہیں اچھی طرح جانتے ہیں ان کی اسلام سے وابستگی اسی سے ظاہر ہوتی ہے کہ ساری امت سے لاتعلق ہوکر انہوں نے “سب سے پہلے پاکستان“ کی تھیوری ایجاد کی اور اس کو قوم پر مسلط کردیا۔ قوم کے روشن خیال اس تھیوری کو کورس کے انداز میں دہرانے لگے۔ جس طرح پکے راگ میں ایک ہی آواز کو الگ الگ سروں میں باربار دھرایا جاتا ہے یہاں تک کہ سامعین ہاتھ جوڑ کر معافی نہ مانگ لیں اسی طرح ہماری قوم کے روشن خیال ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر “سب سے پہلے پاکستان“ کا راگ الاپنے لگے۔ سب سے پہلے پاکستان ۔ ۔ سب سے پہلے پاکستان ۔ ۔ سب سے پہلے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قوم کو اٹھتے بیٹھے “سب سے پہلے پاکستان کی“ جماہیاں آیا کرتی تھیں۔ کھانسی سے پہلے “سب سے پہلے پاکستان“ ، کھانسی کے بعد “سب سے پہلے پاکستان“ یہاں تک کہ کھانے کے بعد ڈکار کی ادائیگی بھی اس طرح ہونے لگی کہ سب سے پہلے پاکستان کے سُر نمایاں ہوتے تھے۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے حکمران وہ لوگ ہیں جو دنیا کے جانے مانے دہشت گردوں، قاتلوں، غنڈوں، بھتہ خوروں، لچوں لفنگوں اور قوم پرستوں کے سردار ہزہائی نیس الطاف حسین کو گود میں لیے بیٹھے ہیں۔ یہ طاقت کے نشے میں چور امریکہ کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں اور امت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ، ان کے ہاتھ مظلوموں کے خون سے آلودہ ہیں۔ ناموسِ دینِ ہاشمی سے ان کو کوئی نسبت نہیں۔ یہ جرنیل خود کو پاکستان کا مائی باپ سمجھتے ہیں۔ پاکستان کی رہی سہی ہڈیاں بھنبھوڑنے والے، قارون کے انڈے بچے تو مفاہمتی آرڈیننس کے ذریعے بخشش پاسکتے ہیں لیکن لال مسجد والوں کے لیے لال بتی؟ سوال یہ ہے کہ یہ انسانوں کا معاشرہ ہے یا نیم حیوانی سطح پر بسر کرنے والے وحشی جنگلیوں کا قبیلہ؟
تو اُٹھیں اپنے لوگوں کو جگائیں انہیں‌بتائیں۔ محنت کریں۔ بندوق سے نہیں کردار سے۔ گھائل نہیں‌قائل کریں۔ اور ہاں سب سے پہلے پاکستان کہ پہلے اپنا گھر ٹھیک کریں پھر اوروں کی فکر کریں۔ اسے طعنہ نہیں نصب العین بنائیں کہ حدیث پاک ہے کہ جسے اپنے وطن سے محبت نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔

لال مسجد والے دودھ کے دھلے نہیں ہیں، ان سے ہر طرح کا اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن یہ کیا کہ امن کے تمام راستے مسدود کردیے جائیں اور وحشت و درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سینکڑوں انسانوں پر جنگ مسلط کرکے ان کو چھلنی کردیا جائے۔ یہ کوئی کرکٹ میچ تھا کہ بیس اوورز میں کھیل ختم پیسہ ہضم۔ اتنی تمیز تو خلائی مخلوق میں بھی ہوگی کہ حریف بے بس ہوجائے تو اس سے زندگی کا حق نہیں چھینا جاتا۔ لال مسجد کی دھمکی سن کر تو اچھے خاصے مرغے انڈہ دینے پر تیار ہوجاتے ہیں۔
اب کیا کہوں بھائی۔ اگر ایک ایسا شخص جو ازروئے قرآن جھوٹا اور تا عمر جس کی گواہی ساقط تھی اس کو آپ اسلام کا رہنما مانتے ہیں تو آپ کی مرضی۔ ہمارے لئے تو قرآن کی گواہی معتبر اور بس۔

راسخ بھائی

اگرچہ آپ کے سلام میں میں شامل نہ تھا پھر بھی عرض‌کروں گا کہ مدینہ کی بات کرتے وقت مدینہ والے آقا کی سیرت و سُنت بھی یاد کر لیا کیجئے۔

اللہ ہم سب پر رحم فرمائے آمین۔

محب بھائی آپ کی باتوں پر انشاء اللہ پھر بات کریں گے۔
 

زیک

مسافر
قبائلی اور کشمیر میں 1947 میں جنگ کے بارے میں شاید آپ لوگوں کو کچھ علم نہیں ہے اس لئے اسے قبائلیوں کی عظیم خدمت کا نام دے رہے ہیں۔
 
اے قبائلیو!
ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو جرگہ کے فیصلوں کے نام پر سرِ عام ننگا کر کے نچاؤ کہ یہی اسلام ہے تمہارا۔
کسی ایک شخص کے گناہ کی سزا کے طور پر اس کے خاندان کی پاکباز عورتوں کی اجتماعی آبرو ریزی کرواؤ کہ یہی اسلام ہے تمہارا۔
ہر وہ شخص جس پر کوئی بھی چھوٹا بڑا الزام ہو اسے جمعہ کی نماز کے بعد ذبح کر دو کہ یہی اسلام ہے تہمارا۔
حکومت کو بلیک میل کرنے کے لیے ہر روز پاکستانیوں کو قتل کر کر کے پہاڑوں پر ان کی لاشیں پھینکتے چلے جاؤ کہ یہی اسلام ہے تمہارا۔
ہیروئن پیدا کر کے ملک بھر میں پھیلاتے رہو تا کہ ہماری نسلیں برباد ہو جائیں اور تمہاری معیشت پھلے پھولے کہ یہی اسلام ہے تہمارا۔
جہاد کے نام پر اسلحہ کی فیکٹریاں لگاتے چلے جاؤ، جو جہاد کی بجائے مسلمانوں کا خون کرنے میں کام آئے کہ یہی اسلام ہے تمہارا۔
حکومت کو تعلیمی ادارے مت کھولنے دو کہ تمہاری نئی نسل جہالت سے دور ہو کر اسلام کے نام پر تمہاری من مانیوں اور بالا دستی سے انکار نہ کر سکے کہ یہی تمہارا اسلام ہے۔

اور

چونکہ تم نے قائد اعظم کے کہنے پر کشمیر میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا لہٰذا تمہیں ہر من مانی، دادا گیری اور دھونس کا اختیار حاصل ہے۔
چونکہ تم مسلسل ساٹھ سالوں سے اسی بے غیرتی پر قائم ہو لہٰذا اب کسی کو حق نہیں کہ وہ تمہیں اس سے روک سکے۔
چونکہ تم یہ سب اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے اور نعرۂ تکبیر لگا کر کرتے ہو لہٰذا اسے درست قرار دیا جانا ہمارے لیے باعث خیر ہے۔
چونکہ ہمیں مشرف سے اختلاف ہے لہٰذا "دشمن کا دشمن دوست" کے قول پر عمل کرتے ہوئے ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کا ایک حصہ بھی ان بدکاریوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے تمہارا حامی بن چکا ہے۔

خدارا اب تو یہ ذلالت بند کر دو کہ اب تو پندرھویں صدی کا بھی ایک چوتھائی گزر گیا۔ خدارا اس کھلے ظلم سے ہاتھ کھینچ لو۔ خدا کے واسطے اپنے بچوں کو تعلیم سے روشناس کرواؤ۔ خدا کے لیے۔۔۔


السلام علیکم،

بھائی جو الزامات آپ نے قبائلی لوگوں پر لگائے ہیں، بخدا ان سے میں واقف نہیں ہوں، لیکن ہاں کسی کو عورت کی اس طرح تزلیل کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ اور کوئی زی شعور انسان ان اقدامات کی حمائت نہیں کر سکتا۔ اور میں دل سے ان تمام اقدامات کی مزمت کرتا ہوں۔ لیکن میں جس بات کی جانب اشارہ کرنا چاہتا ہوں وہ شائد آپ سمجھ نہیں پا رہے۔

بھائی چلیں مانا میں آپ سے متفق ہوں کہ قبائلی علاقوں میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے جس کو روکنا بہت ضروری ہے۔ کیا آپ یہ مجھے بتانا پسند کرو گے کیا یہ کام 2007 میں شروع ہوا یا یہ کام 1947 سے ہوتا آ رہا ہے۔ اگر یہ 1947 یا چلیں 1988 کے بعد سے ہو رہا ہے، تو آخر کیا وجہ ہے ہماری حکومت کی غیرت 2007 میں جاگی اور انھوں نے اس پر کاروائی کی۔ آخر کیوں 11-9 کے بعد ہی قبائلیوں کی برائیاں کھل کر سامنے آئیں۔ اس سے پہلے 1999 -2006 تک کیوں آرمی خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہی۔ اور کیا آپریشن ہی مسائل کا حل تھا۔ فرض کریں اگر آپ کا کوئی بھائی لا علمی میں بری سوسائٹی میں شامل ہو جائے تو کیا آپ اس کو گولی مار دو گے یا اس کو سمجھا بجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرو گے۔

چلیں مانا کہ یہ آپریشں ضروری ہے، کہ ہم غیرت کے نام پر آخلاقیات کا جنازہ نہیں نکلنے دے سکتے، تو پنجاب میں ہونے والا مختاراں مائی کیس، اس طرح خاندانی دشمنی کے چکر میں مخالفیں کی گھر کی عزتوں کو برہنہ کر کے گلیوں کے چکر لگانے کے واقعات آئے دن اخبارات کی ذینت بنتے ہیں، سندھ میں ونی کی قبیح رسم جاری ہے۔ بلوچستاں میں جرگے آج بھی اسی قسم کے فیصلے صادر کر رہے ہیں،کیا یہ اقدامات انسانیت کے منہ پر طمانچہ نہیں۔

اب آپکا انصاف کا ترازو کیا تولتا ہے، دیکھنا یہ ہے کیا آپ جس طرح وانا وزیرستان میں آپریشن کی حمائت میں اپنے گلے خشک کر رہے ہو کیا اسی طرح آپ آرمی کو مظفر گڑھ پر حملے کی ترغیب دو گے، کیا تم ہزار خان کی سلطنت کو اسی طرح تاراج کرنے کی حمائت کرو گے، جس نے ونی جیسے قبیح فیصلے دئیے۔

شائد نہیں کیونکہ یہاں یہ سب تعلیم یافتہ افراد کے ہاتھوں علم کے خوبصورت غلاف میں ہو رہا ہے، یہ کوئی قبائلیوں کی طرح ان پڑھ اور گنوار تو نہیں ہیں۔

بھائی معزرت کے ساتھ میں ابھ اس دھاگے مین مزید پوسٹ نہین کروں گا کیوں کہ میں نہی چاہتا کی ہلاکو خان بغداد پہنچ جائے اور ہم صرف انھی باتوں سے ایک دوسرے کے گریبان چاک کر رہے ہوں۔

میں فاتح بھائی اور ان سب دوستوں سے معذرت طلب کرتا ہوں۔ جن کو میری پھلی پوسٹ میں کوئی بات ناگوار گزری۔ لیکن بخدا میں کسی مولوی کو نہیں بچا رہا تھا اور نہ ہی میری مشرف سے کوئی زاتی خار ہے، میں صرف وہ باتیں کر رہ تھا جن کو میں نے بحیثیت پاکستانی محسوس کیا اور کہہ دیا۔ میں اس محفل پر دوست بنانے آیا تھا میں نہیں چاہتا میری باتوں سے کوئی مجھ سے ناراض ہو۔

جانے سے پہلے زیک بھائی میں یہ ضرور چاہوں گا آپ مجھے قبائلیوں کے کردار کے بارے جو آپ جانتے ہیں وہ ضرور بتائیں تآکہ میں تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکوں۔

اللہ حافظ

والسلام
 

فاتح

لائبریرین
محمد کاشف مجید بھائی،
وعلیکم السلام!
جناب یہ گفتگو کسی دشمنی کو ہر گز ہر گز جنم نہیں دے رہی بلکہ میری نظر میں محض تبادلۂ خیالات ہے اور انتہائی دوستانہ انداز میں ہم سب اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ آپ کی رائے میرے لیے محترم ہے لیکن میں بھی وہی لکھ رہا ہوں جو میری ناقص عقل کے مطابق درست ہے۔ جہاں تک آپ کے اس سوال کا تعلق ہے کہ:
بھائی چلیں مانا میں آپ سے متفق ہوں کہ قبائلی علاقوں میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے جس کو روکنا بہت ضروری ہے۔ کیا آپ یہ مجھے بتانا پسند کرو گے کیا یہ کام 2007 میں شروع ہوا یا یہ کام 1947 سے ہوتا آ رہا ہے۔ اگر یہ 1947 یا چلیں 1988 کے بعد سے ہو رہا ہے، تو آخر کیا وجہ ہے ہماری حکومت کی غیرت 2007 میں جاگی اور انھوں نے اس پر کاروائی کی۔ آخر کیوں 11-9 کے بعد ہی قبائلیوں کی برائیاں کھل کر سامنے آئیں۔ اس سے پہلے 1999 -2006 تک کیوں آرمی خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہی۔ اور کیا آپریشن ہی مسائل کا حل تھا۔ فرض کریں اگر آپ کا کوئی بھائی لا علمی میں بری سوسائٹی میں شامل ہو جائے تو کیا آپ اس کو گولی مار دو گے یا اس کو سمجھا بجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرو گے۔
تو میں اپنی سابقہ پوسٹ میں انہی نام نہاد طالبان کے نام لکھ چکا ہوں کہ:
چونکہ تم مسلسل ساٹھ سالوں سے اسی بے غیرتی پر قائم ہو لہٰذا اب کسی کو حق نہیں کہ وہ تمہیں اس سے روک سکے۔
قبائلی علاقوں میں ہونے والے گذشتہ واقعات کی خبروں کی جانب ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں تو بآسانی علم ہو جاتا ہے کہ سمجھانے بجھانے کی کوششیں کی گئی تھیں لیکن نتیجہ ٹائیں ٹائیں فش۔۔۔

چلیں مانا کہ یہ آپریشں ضروری ہے، کہ ہم غیرت کے نام پر آخلاقیات کا جنازہ نہیں نکلنے دے سکتے، تو پنجاب میں ہونے والا مختاراں مائی کیس، اس طرح خاندانی دشمنی کے چکر میں مخالفیں کی گھر کی عزتوں کو برہنہ کر کے گلیوں کے چکر لگانے کے واقعات آئے دن اخبارات کی ذینت بنتے ہیں، سندھ میں ونی کی قبیح رسم جاری ہے۔ بلوچستاں میں جرگے آج بھی اسی قسم کے فیصلے صادر کر رہے ہیں،کیا یہ اقدامات انسانیت کے منہ پر طمانچہ نہیں۔

اب آپکا انصاف کا ترازو کیا تولتا ہے، دیکھنا یہ ہے کیا آپ جس طرح وانا وزیرستان میں آپریشن کی حمائت میں اپنے گلے خشک کر رہے ہو کیا اسی طرح آپ آرمی کو مظفر گڑھ پر حملے کی ترغیب دو گے، کیا تم ہزار خان کی سلطنت کو اسی طرح تاراج کرنے کی حمائت کرو گے، جس نے ونی جیسے قبیح فیصلے دئیے۔

شائد نہیں کیونکہ یہاں یہ سب تعلیم یافتہ افراد کے ہاتھوں علم کے خوبصورت غلاف میں ہو رہا ہے، یہ کوئی قبائلیوں کی طرح ان پڑھ اور گنوار تو نہیں ہیں۔
بھائی یہ آپ سے کس نے کہا کہ میں ان ظالموں کا حامی ہوں؟ آپ سے اس سلسلے میں کبھی بات نہیں ہوئی لیکن محب صاحب سے اکثر سندھ اور پنجاب کے ان ظالم چوہدری اور وڈیروں کے ظلم پر بات ہوتی ہے اور وہ اس معاملے میں میرا موقف بخوبی جانتے ہیں۔ ہر وہ شخص جو کمزور کا استحصال کرتا ہے ظالم ہے اور ہر وہ شخص جو قرآن کی تعلیم کے خلاف حکم دیتا ہے ہر گز عالم دین نہیں بلکہ ایک مکروہ ہستی ہے۔

بھائی معزرت کے ساتھ میں ابھ اس دھاگے مین مزید پوسٹ نہین کروں گا کیوں کہ میں نہی چاہتا کی ہلاکو خان بغداد پہنچ جائے اور ہم صرف انھی باتوں سے ایک دوسرے کے گریبان چاک کر رہے ہوں۔

میں فاتح بھائی اور ان سب دوستوں سے معذرت طلب کرتا ہوں۔ جن کو میری پھلی پوسٹ میں کوئی بات ناگوار گزری۔ لیکن بخدا میں کسی مولوی کو نہیں بچا رہا تھا اور نہ ہی میری مشرف سے کوئی زاتی خار ہے، میں صرف وہ باتیں کر رہ تھا جن کو میں نے بحیثیت پاکستانی محسوس کیا اور کہہ دیا۔ میں اس محفل پر دوست بنانے آیا تھا میں نہیں چاہتا میری باتوں سے کوئی مجھ سے ناراض ہو۔
ہماری گفتگو کا مقصد کسی دشمنی کی بنیاد رکھنا نہیں بلکہ اصل حقائق کو بے نقاب کرنا ہے۔ اور محفل پر میری اپنی مثال سب کے سامنے ہے کہ ایک جگہ میری فاروق سرور خان صاحب سے ایک موضوع پر بحث کے کچھ عرصہ بعد میں نے خود کو غلطی پر محسوس کر کے وہ پوسٹ تلاش کر کے وہاں ان سے بر سر محفل معافی مانگی اور ان کے نقطہ نظر کی تائید کی۔ اس لیے آپ ہر گز یہ خیال دل میں نہ لائیں کہ آپ سے تعلقات کشیدہ ہو رہے ہیں۔ نظریاتی اختلافات کا مطلب رنجشیں ہر گز نہیں۔

جانے سے پہلے زیک بھائی میں یہ ضرور چاہوں گا آپ مجھے قبائلیوں کے کردار کے بارے جو آپ جانتے ہیں وہ ضرور بتائیں تآکہ میں تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکوں۔
بھائی! میں نے جان بوجھ کر ان حقائق پر کچھ نہیں لکھا تھا۔

اور آپ بھی یہ بات نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے کہ "اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں";) اور یقیناً جب "بات نکلے گی تو پھر دووووووور تلک جائے گی"
"لوگ ظالم ہیں ہر اک بات کا طعنہ دیں گے"، "یہ بھی پوچھیں گے کہ۔۔۔" قیام پاکستان سے قبل جب تحریکِ پاکستان جاری تھی، تب انتخابات میں مسلم لیگ جسے تمام مسلم اکثریت والے علاقوں میں فتح حاصل ہوئی، کو کس واحد علاقے میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا؟ اور بعد میں اسی علاقے کا اپنی سیاسی مجبوریوں کے باعث پاکستان سے اپنی من مانی شرائط پر الحاق۔۔۔

"یہ بھی پوچھیں گے کہ۔۔۔" وہ لوگ کون تھے جو قیام پاکستان کے ہی مخالف تھے؟ وہ کون تھے جنہوں نے اسے "پلیدستان" کا نام دیا؟ وہ کون تھے جنہوں نے قائد اعظم کو "کافر اعظم" کا خطاب دیا؟ اور وہ کون تھے جنہوں نے فرمایا کہ "کسی ماں نے وہ بچہ ہی پیدا نہیں کیا جو پاکستان کی پ بھی بنا سکے"۔
ان سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے ان قبائلی علاقوں کے چند رہنماؤں ڈاکٹر قیوم اور باچا خان کے ساتھ ساتھ کچھ بڑی بڑی اسلامی جماعتوں اور ان کے بڑے بڑے علماء مثلاً مودودی صاحب کے نام بھی آئیں گے۔ لہٰذا اس ذکر کو چھپائے رکھنے میں ہی ہم سب کی عزت ہے۔ ششششششش
 

زینب

محفلین
اپنی جان بچانے کے لئے اپنی ”والدہ “ کو یرغمال ؟
محترم کچھ ”سوچ“ بھی لیا کریں ، مخالفت کا آپ کو پورا ”حق“ ہے ، مگر اپنی باتیں ثابت کرنے لئے ایسی باتیں تو مت کہیں جسے پڑھ کر سب ہنس پڑیں،

اور ایدھی صاحب کی بیگم کا پکارنا تو آپ نے سن لیا بلکہ اسے ”یاد“ بھی رکھا ، کتنا اچھا ہوتا کہ یھی بیگم صاحبہ قاتل فوجیوں کے پیر پکڑ لیتیں ، کہ خدارا گولیاں مت چلاؤ، یا یہ کہ یزید وقت پرویز مشرف ہی سے التجائیں کرتیں کہ خدارا اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے ، ایک مدرسہ کے اندر خون کے دریا مت بھاؤ،
حیرت ہے بلکہ ،،،،،،،،،،،،،،،،،،صد حیرت ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،اگر یہ آپریشن نہ کیا جاتا تو کیا ملک تباہ ہوجاتا کہ اس کے بغیر ”چارہ“ ہی نہیں تھا ،
اور کیا ”ضروری “ تھا کہ بقول آپکے ”یرغمال بچوں“ کی موجودگی اور ممکنہ آپریشن کے نتیجہ میں ان کو پھونچنے والی ”گزند“ کے امکان کے باوجود ، ”چڑھائی “ کی جاتی ،
یہ صرف ایک پروپیگنڈہ ہے اور کچھ نھیں، مولانا نے کسی کو ”یرغمال“ نہیں بنایا تھا ، اور
اگر بنایا بھی تھا تو کسی کو ”ان “ سے ”ہمدردی “نھیں تھی ،
نہ میڈیا کو ، نہ ایدھی ٹرسٹ کو اور نہ یزید وقت پرویز مشرف کو ،
اگر ”ہمدردی “ ہوتی تو یہ ”قاتلوں “ کو گولیاں چلانے ہی نھیں دیتے ،
اور نہ بم پھینکنے ،
”انصاف“ سے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیںً
اگر ان کی بجائے واقعتا پرویز مشرف کی اپنی اولاد یرغمال ہوتی
یا کوئی امریکی سفیر
یا کوئی وزیر
تو کیا مولانا عبد الرشید غازی شہید علیہ الرحمۃ کے ”مطالبات“ مانے جاتے
یا اپنی ”طاقت“ کا ناجائز فائدہ اٹھاکر ایک مسجد پر اس طرح ”چڑھائی“ کی جاتی ، جس کو دیکھ کر ”انسانیت“ بھی لرز اٹھے


جناب آپ کے اس "ہیرو"کی والدہ کہ گولیاں لگی ہوئی تھیں وہ آخری سانسیں لے رہی تھیں اور آپ کے ہیرو صاحب میڈیا کو انٹرویو دینے میں مصروف تھے اور بتا رہے تھے کہ میری والدہ آخری سانسیں لے رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔آسے صرف ہیرو بننے کا شوق تھا اور کچھ نہیں۔۔۔۔اسلام آباد میں بدکاری کے آڈے نظرے آئے پر لاہور کی سالہسال سے چلتے"شاہی محلے"پے نظر نہیں پڑی موصوف کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔جہاں تک انسانیت کے لر زاٹھنے کی بات ہے تو انسانیت تب بھی لرزی تھی جب ظالم ہندوں نے 100 پاکستانی مسلمانوں کو سمجھوتہ ایکسپریس میں زندہ جلا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا تب شاید آپ کی انسانیت "کچھ پی"کے سکون کی نیند سو رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ساجد

محفلین
محمد کاشف مجید بھائی،
وعلیکم السلام!
جناب یہ گفتگو کسی دشمنی کو ہر گز ہر گز جنم نہیں دے رہی بلکہ میری نظر میں محض تبادلۂ خیالات ہے اور انتہائی دوستانہ انداز میں ہم سب اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ آپ کی رائے میرے لیے محترم ہے لیکن میں بھی وہی لکھ رہا ہوں جو میری ناقص عقل کے مطابق درست ہے۔ جہاں تک آپ کے اس سوال کا تعلق ہے کہ:

تو میں اپنی سابقہ پوسٹ میں انہی نام نہاد طالبان کے نام لکھ چکا ہوں کہ:

قبائلی علاقوں میں ہونے والے گذشتہ واقعات کی خبروں کی جانب ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں تو بآسانی علم ہو جاتا ہے کہ سمجھانے بجھانے کی کوششیں کی گئی تھیں لیکن نتیجہ ٹائیں ٹائیں فش۔۔۔


بھائی یہ آپ سے کس نے کہا کہ میں ان ظالموں کا حامی ہوں؟ آپ سے اس سلسلے میں کبھی بات نہیں ہوئی لیکن محب صاحب سے اکثر سندھ اور پنجاب کے ان ظالم چوہدری اور وڈیروں کے ظلم پر بات ہوتی ہے اور وہ اس معاملے میں میرا موقف بخوبی جانتے ہیں۔ ہر وہ شخص جو کمزور کا استحصال کرتا ہے ظالم ہے اور ہر وہ شخص جو قرآن کی تعلیم کے خلاف حکم دیتا ہے ہر گز عالم دین نہیں بلکہ ایک مکروہ ہستی ہے۔


ہماری گفتگو کا مقصد کسی دشمنی کی بنیاد رکھنا نہیں بلکہ اصل حقائق کو بے نقاب کرنا ہے۔ اور محفل پر میری اپنی مثال سب کے سامنے ہے کہ ایک جگہ میری فاروق سرور خان صاحب سے ایک موضوع پر بحث کے کچھ عرصہ بعد میں نے خود کو غلطی پر محسوس کر کے وہ پوسٹ تلاش کر کے وہاں ان سے بر سر محفل معافی مانگی اور ان کے نقطہ نظر کی تائید کی۔ اس لیے آپ ہر گز یہ خیال دل میں نہ لائیں کہ آپ سے تعلقات کشیدہ ہو رہے ہیں۔ نظریاتی اختلافات کا مطلب رنجشیں ہر گز نہیں۔


بھائی! میں نے جان بوجھ کر ان حقائق پر کچھ نہیں لکھا تھا۔

اور آپ بھی یہ بات نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے کہ "اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں";) اور یقیناً جب "بات نکلے گی تو پھر دووووووور تلک جائے گی"
"لوگ ظالم ہیں ہر اک بات کا طعنہ دیں گے"، "یہ بھی پوچھیں گے کہ۔۔۔" قیام پاکستان سے قبل جب تحریکِ پاکستان جاری تھی، تب انتخابات میں مسلم لیگ جسے تمام مسلم اکثریت والے علاقوں میں فتح حاصل ہوئی، کو کس واحد علاقے میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا؟ اور بعد میں اسی علاقے کا اپنی سیاسی مجبوریوں کے باعث پاکستان سے اپنی من مانی شرائط پر الحاق۔۔۔

"یہ بھی پوچھیں گے کہ۔۔۔" وہ لوگ کون تھے جو قیام پاکستان کے ہی مخالف تھے؟ وہ کون تھے جنہوں نے اسے "پلیدستان" کا نام دیا؟ وہ کون تھے جنہوں نے قائد اعظم کو "کافر اعظم" کا خطاب دیا؟ اور وہ کون تھے جنہوں نے فرمایا کہ "کسی ماں نے وہ بچہ ہی پیدا نہیں کیا جو پاکستان کی پ بھی بنا سکے"۔
ان سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے ان قبائلی علاقوں کے چند رہنماؤں ڈاکٹر قیوم اور باچا خان کے ساتھ ساتھ کچھ بڑی بڑی اسلامی جماعتوں اور ان کے بڑے بڑے علماء مثلاً مودودی صاحب کے نام بھی آئیں گے۔ لہٰذا اس ذکر کو چھپائے رکھنے میں ہی ہم سب کی عزت ہے۔ ششششششش
فاتح بھائی ،
عقلمند کو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ یہی باتیں تھیں جن کو میں خواہش کے باوجود زیرِ بحث نہیں لا رہا تھا کہ خوامخواہ کی جگ ہنسائی نہ ہو لیکن حالات کی گرمی نے یہ سب میرے نہ سہی آپ کے ہاتھوں ممکن کروا دیا۔ اب اس کو مزید مت کریدیں ۔ پھر وہی بات کہ "اشارہ ہی کافی ہوتا ہے"۔
 

خرم

محفلین
خرم بھائی شاید آپ نے بھی صرف حکومتی موقف ہی پڑھا اور سنا ہے اور حقائق کی تہہ میں جانے کی کوشش نہیں کی۔
بھائی اپنی سے کوشش تو کی ہے مگر پھر بھی اس علام الخبیر کی بارگاہ میں التجا ہے کہ وہ میرے جہالت کے اندھیروں‌کو دور فرما دے۔ آمین
لال مسجد کے پولیس کو اغوا کرنے سے پہلے ہماری اعلی پولیس نے جامعہ حفصہ کی دو معلمات کو اغوا کیا تھا اور ہماری ایجنسیوں نے بیس کے قریب طلبا کو اٹھا لیا تھا جو ان بہت سے لوگوں کی طرح آج بھی لا پتہ ہیں جن کا کیس سپریم کورٹ میں چل رہا ہے۔ پولیس اور فوج پر فائرنگ فوج کی طرف سے اندھا دھند فائرنگ کے نیتجے میں مزاحمت کے طور پر کی گئی تھی اور فوج اور پولیس کا اعلی کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ، اسی پولیس اور فوج نے رات دو بجے کرفیو نافذ کرکے صبح دو نمازیوں کو سیدھی فائرنگ کرکے ہلاک کر ڈالا، اب یہ خبر آپ تک نہیں پہنچی ہوگی کیونکہ یہ خبر وہاں رہنے والے مکینوں نے تو دیکھی مگر کوئی بھی ٹی وی چینل پانچ سو میٹر دور رہے بغیر صرف اور صرف حکومت کی طرف سے آنے والی خبروں پر انحصار کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اس کا اعتراف طلعت ، حامد میر ، ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے پروگراموں میں بھی کیا کہ اس دفعہ ہم صحیح رپورٹنگ نہ کرسکے اور حکومتی پروپیگنڈے کا شکار رہے کیونکہ ہمیں آگے جانے کی اجازت نہ تھی۔
بھائی میں یہ سب باتیں درست تسلیم کر لیتا ہوں۔ مجھے آپ صرف یہ بتا دیجئے کہ لال مسجد والوں کو کونسا قانون لائبریری پر قبضہ کرنے کی اور دیگر تمام کام کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ وہ تو ایک دینی درس گاہ تھی نا (کم از کم ہونی چاہئے تھی)؟ ایک درس گاہ کے طالبعلموں‌کا کیا کام کہ وہ ایک لائبریری کو یرغمال بنائیں۔ پھر اگر طلباء اٹھائے گئے تھے، استانیاں‌پوچھ گچھ کے لئے لیجائی گئی تھیں‌تو اس کے لئے قانونی راستہ نہ تھا کیا؟ کیا جواز تھا کہ آپ قانون اپنے ہاتھ میں‌لے لیں؟ پولیس کا نمازیوں‌پر فائرنگ کرنا انتہائی غلط ہے مگر یہ سوچئے کہ ایسے حالا ت ہی کیوں‌پیدا ہوئے کہ پولیس تعینات کرنی پڑی ایک مسجد کے اردگرد؟ باقی سب تو بعد کی باتیں ہیں۔ میں قطعا حکومت کی سائیڈ‌نہیں‌لے رہا مگر غلط کام جس نے بھی کیا ہو، وہ غلط ہی ہوتا ہے اور ہر عمل خوہ درست ہو یا غلط اپنے نتائج پیدا کرتا ہے۔

ہتھیار ڈال کر باہر آ جانے میں جو امر مانع تھا وہ سب نے دیکھ لیا، ان تمام طلبا کو جیل بھیج دیا گیا اور کچھ ابھی تک جیل میں ہیں حالانکہ یہ رضاکار طور پر باہر آئے جو ہتھیار کے ساتھ ہوتے ان پر حکومت کس کس طرح کے فرضی مقدمات نہ بناتی اس کے لیے تخیل کی بہت بلند پرواز چاہیے۔ انتہا درجے کی سادگی کہوں اسے یا صرف حکومت کی حمایت کہ جانے بچانے کی ذمہ آپ حکومت سے لے کر ایک گروہ پر ڈال رہے ہیں اور جان لے کون رہا تھا ، لال مسجد والے کہ حکومت۔ کیا لوگوں نے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری کا معاہدہ حکومت کے ساتھ کر رکھا ہے یا باقی گروہان کے ساتھ۔ سراسر حکومت کے ظلم اور جبر کو لال مسجد کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں لوگ اور اس ظلم کی حمایت کرتے ہوئے ذرا برابر بھی نہیں لرزتے۔ لال مسجد میں وحشیانہ قتل و غارت کے بعد اب کونسا پاکستان کا شہر اور قصبہ ہے جو محفوظ ہے ، اس دن کے بعد ایک بھی دن گنوا دیں جب فوج پر حملہ نہ ہوا جب پولیس اور فوج کے لوگ ہلاک نہ ہوئے ہوں اور لوگوں کی نفرت میں بے پناہ اضافہ نہ ہوا ہو۔ دوسری بات یہ کہ چند لوگوں کے جانے سے جن میں اکثریت انہی طلبا کی ہے جنہیں حکومت نے جانے بھی دیا ہے کیا قیامت آنی تھی ، کیا ملک کی سیکوریٹی فورسز کام کرنا بند کر دیتی کیا ان لوگوں پر نظر نہیں رکھی جا سکتی تھی جو حکومتی نام نہاد دعووں کے مطابق دہشت گرد تھے ، کیا تمام ایجنسیوں کا کام صرف سیاستدانوں ، ججوں کے فون ٹیپ کرنا اور ان کے ساتھ ڈیل کرنا ہی ہے اور امن امان انہوں نے امریکہ کے حوالے کر دیا ہے۔
اب پھر میں مان لیتا ہوں کہ انہیں‌گرفتار کر لیا جاتا۔ تو کیا یہ مر جانے سے اور جو کچھ ہوا اس سے بُرا ہوتا؟ صرف شوق شہرت اور بلے بلے کی وجہ سے اتنا سب کچھ کروالیا؟ حکومت فرضی مقدمات بناتی مگر ان میں‌کوئی قتل کا مقدمہ تو نہ ہوتا۔ دیکھئے میں‌پھر عرض‌کرتا ہوں کہ بھائی وہ لوگ ابتداء سے ہی غلط تھے۔ غلط طریقہ کار پر چلے اور ایک ایسے بندہ کے پیچھے جو ازروئے قرآن جھوٹا تھا اور جس کی گواہی دین میں‌معتبر نہ تھی۔ افسوس یہ کہ ان تمام بچوں‌کو یہ سب بتانے کی بجائے اس شخص کے رحم و کرم پر چھوڑ‌دیا گیا اور ہم لوگوں‌نے حسبِ معمول نعرہ بازی اور قصیدہ خوانی سے اس آگ پر پٹرول چھڑکا۔ بھائی پہلے بھی عرض کیا کہ جب آپ نے ہتھیار اٹھا لئے، مقابلہ شروع ہو گیا تو آپ طالبعلم تو نہ رہ گئے۔ اگر یہی اصول بنانا ہے کہ اگر کوئی طالبعلم ہتھیار اٹھا لے تو اسے جانے دیا جائے گا تو پاکستان میں‌کتنے طالبعلم ہیں؟ کروڑوں میں‌تو ہوں گے۔ معاشرہ کا تصور کر سکتے ہیں آپ اس طرح کی روایت کے بعد؟
سب سے پہلے تو آپ کی یہ بات انتہائی طور پر غلط ہے کہ بندوقیں پکڑ کر شرعی احکام نافذ ہو رہے تھے ، یہ کام اسلام آباد کے وسط میں ہو رہا تھا اور یہاں اسلحہ کا استعمال پاکستان کے کسی بھی شہر سے سب سے کم ہے، لال مسجد روڈ پر ہی آئی ایس آئی کا ہیڈ کوارٹر ہے اور چند کلومیٹر پر حکومت کی پوری مشینری ۔ حکومت جان بوجھ کر لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے یہ ایشو بنا رہی تھی اور جب جب حکومت کہیں ذلیل ہوتی تو وہ لال مسجد ایشو کو اجاگر کر دیتی تھی تاکہ لوگوں کی توجہ اس طرف آ جائے اور لال مسجد آپریشن بھی سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کیس میں حکومت کی زبردست ہزیمت کے اگلے دن ہی شروع کر دیا گیا تھا اور اسے سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔
نہیں بھیا میں نے یہ نہیں کہا کہ بندوق پکڑ کے احکام نافذ ہو رہے تھے۔ میرا سوال تو صرف یہ تھا کہ انہیں‌مسجد میں‌اسلحہ رکھنے کی ضرورت کیا تھی؟ اور اس سے بھی پہلے کہ انہیں اس باغیانہ روش پر چلنے کی کیا ضرورت تھی جس پر وہ چلے؟ ایک مدرسہ تھا، وہاں‌قانون کی اطاعت کا سبق دیا جانا چاہئے تھا نا کہ قانون شکنی کا۔ لال مسجد کا مسئلہ تو چیف جسٹس سے بھی پہلے کا چل رہا تھا۔ آپریشن تو بہت بعد میں‌ہوا۔ اس سے پہلے جو ہوا وہ کس طرح جائز تھا؟ حکومت نے بے انتہا ڈھیل نہیں دی تھی لال مسجد والوں‌کو؟ میرے تئیں‌تو یہی سب سے بڑی غلطی تھی مگر یہ کہنا میرے نزدیک تو غلط ہے کہ لال مسجد کا قضیہ ہی چیف جسٹس کے مسئلہ کو دبانے کے لئے چھیڑا گیا تھا۔
سرحد اور اس کے قبائلی علاقوں کا معاملہ بالکل مختلف ہے اور اس کے لیے بھی کچھ لوگ صرف حکومتی اور حکومتی سوچ رکھنے والے ‘روشن خیال‘ دانشوروں کو سن کر ہی ذہن بنا رہے ہیں بغیر معاملہ کی حقیقت کو دیکھے بغیر۔ یہ مہمند ایجنسی کیا پچھلے چند سال قبل ہی معرض وجود میں آئی ہے اور ساٹھ سال بعد انہیں خیال آیا کہ عید کے دن لوگوں کو اپنے گھر والوں کے ساتھ سیر کے لیے باہر نہ نکلنے دیا جائے وگرنہ انہیں بم مار دیا جائے، سوات ، ٹانک ، باجوڑ ، وزیرستان ، وانا کیا یہ مشرف کے دور میں تازہ تازہ پاکستان میں داخل ہوئے ہیں اور انہوں نے پاکستان کو اپنے اسلام سے مشرف کرنے کا فریضہ اٹھا لیا۔ انتہائی حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ جب طالبان کی باقاعدہ حکومت تھی افغانستان میں اور طالبان کی پرزور حمایت بلکہ انہیں بھرپور طاقت نہ صرف پیپلز پارٹی پہنچایا کرتی تھی بلکہ حکومتی ایجنڈے میں شامل تھا یہ نکتہ۔ ( جو اب دوبارہ یو ٹرن لے کر مخالفت کر رہی ہے ) اس وقت ان علاقوں میں ایسی کوئی کاروائی سننے تک میں نہیں آئی اور نہ کوئی خود کش حملہ ہوا نہ اتنی بڑی تعداد میں طالبان کی حمایت میں ہوتے ہوئے بھی صوبہ سرحد میں ایسی کوئی تحریک چلی مگر امریکہ کے حملے اور مشرف کی حمایت کے بعد خود کش حملوں اور انتہا پسندی کا شور ہی اٹھ گیا اور ہر دوسرا شخص دہشت گرد نظر آنے لگا ہے یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ دہشت گرد آسمان سے ٹپک پڑے ہیں اور ساٹھ سال سے اس سنہری موقع کی تلاش میں تھے۔
بھائی طالبان کی تخلیق یقینا ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ ایک انتہائی تنگ ذہن کے افراد کو کسی بھی قوم پر مسلط کر دینا یقینا ظلم تھا اور تمام پاکستانیوں‌کو من حیث القوم افغانیوں‌سے اس بات کی معافی مانگنا چاہئے۔ ہم نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو امریکہ ہمارے ساتھ کرتا ہے۔ قبائلی علاقوں میں حالیہ دہشت گردی کی لہر کا تعلق طالبان سے ہے جنہیں بااثر قبائلیوں کی حمایت حاصل ہے۔ اور یہاں یہ غلط خیال ہے کہ یہ سب امریکہ کا ردعمل ہے۔ اگر امریکہ حملہ نہ کرتا افغانستان پر تو بھی میرے خیال میں طالبان کے افغانستان کے زیر اثر پاکستان پر آج یہی اثرات مرتب ہو رہے ہوتے۔ آخر چین نے تو افغانستان پر حملہ نہیں کیا تھا نا۔ وہ تو ان کا پہلا محسن تھا، وہاں طالبان کیوں علٰیحدگی پسندوں‌کی مدد کر رہے تھے؟ امریکہ کے حملہ سے یہ ہوا ہے کہ تمام طالبان کا ارتکاز قبائلی علاقہ میں‌ہوگیا ہے اور اسی لئے یہاں‌پر اس کے اثرات سب سے نمایاں ہیں۔ ویسے بھی ہمارے "مجاہدین" اپنی جنگ اوروں‌کی سرزمین پر لڑنے کے عادی ہیں۔ افغانستان سے تو بھاگ آتے ہیں، یہاں آکر خوب پھُدکتے ہیں۔

اب دوسری وجہ پر ذرا غور کر لیں جس پر بہت کم غور کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ افغانستان میں پچھلے سات سال سے امریکہ کی بے رحم کاروائیوں سے لاکھوں لوگ ہلاک اور بے گھر ہو چکے ہیں ، پورے ملک کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور پھر بھی کنٹرول حاصل نہیں کیا جا سکا ملک پر۔ اب اپنی اس ہزیمت کو چھپانے کے لیے پاکستان پر مسلسل الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری رکھا گیا اور ایک میڈیا وار کے ذریعے اسامہ کو ہر دوسرے دن پاکستان کے کسی شہر میں دکھایا جاتا ہے اور پاکستان کے علاقوں پر کئی بار بمباری کرکے پاکستان کی خودمختاری کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں اور اب پاکستان سے مسلسل ان علاقوں میں وہی سفاکانہ بمباری اور آپریشن کروایا جا رہا ہے جو وہ خود افغانستان میں برسوں سے کر رہے ہیں۔ مشرف اور بینظیر کے ذریعے انتہا پسندی کا نعرہ بلند کیا ہوا ہے اور صرف اسے ہی مسئلہ بتایا جا رہا ہے تاکہ لوگ بھوک ، تعلیم ، افلاس اور محرومیوں پر آواز نہ اٹھا سکیں اور جسے دل چاہے اسے دہشت گرد قرار دے کر اس کا منہ بند کر دیا جائے۔
امریکہ کا کوئی بھی حملہ ہو پاکستانی سرزمین کے اندر وہ ہماری خود مختاری پر حملہ ہے اور اس کا منہ توڑ جواب دینا چاہئے۔ کم از کم میرا تو یہی خیال ہے۔ باقی رہ گئی بات افغانستان کی تو کیا امریکہ کی آمد سے پہلے وہاں زبردست ترقی ہو رہی تھی؟ کھنڈر تو وہ بیچارہ پہلے سے ہی تھا اور نجانے کب تک رہے۔ باقی تمام باتوں‌کی ایک بات کہ آپ کو اور مجھے وہ دن تو یاد ہی ہوگا جب کابل کے شہری والہانہ شمالی اتحاد والوں کا استقبال کر رہے تھے۔میرا ایک پرانا کولیگ آجکل کابل میں ہے (یو ایس ایڈ کے کسی پروگرام پر کنسلٹنٹ ہے) وہ مجھے کہتا ہے کہ کابل میں ہندوستانیوں‌کو لوگ پسند کرتے ہیں اور پاکستانیوں‌سے نفرت کرتے ہیں۔ اور پاکستانی ہیں‌کہ ان لوگوں‌کے بزعم خود پیار میں اپنے آپ کو آگ لگانے میں‌مصروف ہیں۔ آپ صرف یہ بتائیں کہ اگر آپ کے بیان کردہ تمام اعدادوشمار درست بھی ہیں‌تو ان سب کا یہ نتیجہ کہاں‌نکلتا ہے کہ پاکستان کے ہر شہر میں اپنے آپ کو پھاڑنے لگ پڑو یا پاکستان میں "جہاد" شروع کر دو؟ اگر امریکیوں‌کو بھی مارنا ہے تو افغانستان کے اندر مارو انہیں۔ پاکستان میں‌تو نہیں‌ہیں‌نا امریکی؟ پھر یہاں کیوں‌آتے ہیں؟

قبیلہ محسود جسے ہم نے آج دہشت گرد بنا دیا ہے وہی قبیلہ ہے جس نے قائد اعظم کے احکامات کی تعمیل میں قربانیاں دیتے ہوئے آزاد کشمیر تک رسائی حاصل کی تھی اور آج جو کشمیر آزاد ہے وہ اسی قبیلے کی جرات کی وجہ سے ہے مگر افسوس ہم نے آج انہیں انسان سمجھنا بھی چھوڑ دیا ہے اور ان کو تعلیم ، فراست اور سیاسی عمل سے اپنے ساتھ شامل کرنے کی بجائے گولی اور بارود سے انہیں درست کرنے کا عزم کر لیا ہے ۔ یہ خام خیالی دل سے نکال دیں کہ طاقت کے ذریعے ہم انہیں سیدھا کر لیں گے ، تاج برطانیہ نے بھی ان سے صلح ہی کی تھی اور امریکہ بھی ان سے جیت نہیں سکا اور ہمیں بھی ان سے صلح ہی کرنی ہوگی چاہے کتنی ہی انسانی جانوں کی قیمت پر ہو۔
بھائی اگر کوئی اچھا کام کرے تو اس کی تعریف ہونی چاہئے اور اگر کوئی برا کام کرے تو اس کی مذمت ہونی چاہئے۔ بیت اللہ مسحود ہی نہیں سردار عالم جان مسحود بھی مسحود تھے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ قانون کی پاسداری ہر ایک پر فرض ہے۔ مسحود قبیلہ کی اتنی ہی عزت ہے جتنی کسی بھی غیر مسحود کی (قانون کی نظر میں)۔ جہاں‌تک بات ہے سیدھا کرنے کی تو سیدھا کرنے کی نہ ضرورت ہے نہ کوشش کرنی چاہئے۔ کوشش صرف یہ ہونی چاہئے کہ قانون سب کے لئے ایک ہو اور سب پر نافذ ہو۔ کوئی بھی اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے اس کے ساتھ اس وقت تک لڑائی ہونی چاہئے جب تک وہ اپنی روش سے باز نہ آجائے۔

خدارا انسانوں کو انسان بھی سمجھیے ، انہیں صرف دہشت گرد ، انتہا پسند اور مولوی سمجھنا چھوڑ کر ورنہ وہ اس رویے میں آپ سے کہیں زیادہ متشدد ہیں اور اس عمل سے وہ یہی سمجھیں گے کہ یہ کلیہ قابل عمل ہے کہ طاقت سے منوایا جائے اپنے آپ کو ، آپ بھی طاقت استعمال کر رہے ہیں وہ بھی کریں گے جبکہ ہم تو خود کو تعلیم یافتہ ، بردبار ، تحمل مزاج اور معاملہ فہم بھی سمجھتے ہیں مگر افسوس کہ طرز عمل ہمارا انہی جیسا ہے ۔۔۔۔۔طاقت کا اندھا استعمال۔

ًًبجا ارشاد ہے۔ مگر اگر فریق ثانی بات سُنے ہی نہ تو پھر کیا کیجئے۔ اور چلیں بات اپنے گھر تک ہو تو چند برس انتظار بھی کیا جاسکتا ہے۔ گھر سے باہر جا کر تو شرارت نہ کریں نا۔
 
محمد کاشف مجید بھائی،
وعلیکم السلام!
جناب یہ گفتگو کسی دشمنی کو ہر گز ہر گز جنم نہیں دے رہی بلکہ میری نظر میں محض تبادلۂ خیالات ہے اور انتہائی دوستانہ انداز میں ہم سب اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ آپ کی رائے میرے لیے محترم ہے لیکن میں بھی وہی لکھ رہا ہوں جو میری ناقص عقل کے مطابق درست ہے۔ جہاں تک آپ کے اس سوال کا تعلق ہے کہ:

تو میں اپنی سابقہ پوسٹ میں انہی نام نہاد طالبان کے نام لکھ چکا ہوں کہ:

قبائلی علاقوں میں ہونے والے گذشتہ واقعات کی خبروں کی جانب ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں تو بآسانی علم ہو جاتا ہے کہ سمجھانے بجھانے کی کوششیں کی گئی تھیں لیکن نتیجہ ٹائیں ٹائیں فش۔۔۔


بھائی یہ آپ سے کس نے کہا کہ میں ان ظالموں کا حامی ہوں؟ آپ سے اس سلسلے میں کبھی بات نہیں ہوئی لیکن محب صاحب سے اکثر سندھ اور پنجاب کے ان ظالم چوہدری اور وڈیروں کے ظلم پر بات ہوتی ہے اور وہ اس معاملے میں میرا موقف بخوبی جانتے ہیں۔ ہر وہ شخص جو کمزور کا استحصال کرتا ہے ظالم ہے اور ہر وہ شخص جو قرآن کی تعلیم کے خلاف حکم دیتا ہے ہر گز عالم دین نہیں بلکہ ایک مکروہ ہستی ہے۔


ہماری گفتگو کا مقصد کسی دشمنی کی بنیاد رکھنا نہیں بلکہ اصل حقائق کو بے نقاب کرنا ہے۔ اور محفل پر میری اپنی مثال سب کے سامنے ہے کہ ایک جگہ میری فاروق سرور خان صاحب سے ایک موضوع پر بحث کے کچھ عرصہ بعد میں نے خود کو غلطی پر محسوس کر کے وہ پوسٹ تلاش کر کے وہاں ان سے بر سر محفل معافی مانگی اور ان کے نقطہ نظر کی تائید کی۔ اس لیے آپ ہر گز یہ خیال دل میں نہ لائیں کہ آپ سے تعلقات کشیدہ ہو رہے ہیں۔ نظریاتی اختلافات کا مطلب رنجشیں ہر گز نہیں۔


بھائی! میں نے جان بوجھ کر ان حقائق پر کچھ نہیں لکھا تھا۔ ششششششش

السلام علیکم،
بھائی دشمنی کا تذکرہ تو میں نے بھی نہیں کیا تھا، میں تو صرف اتنا کہہ رہا تھا یہ بحث سیر لا حاصل ہے، آپ اپنے موقف پر اس طرح ڈٹے ہو آپ تصویر کا دوسرا رخ نہیں دیکھ رہے، اور میں اس معاملے کو انسانیت کے ناطے سے بھی دیکھ رہا ہوں۔

بھائی اگر کوئی شخص بہت ظالم ہے تو پھر بھی دنیا کا کوئی مذہب، دنیا کا کوئی قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا، کہ آپ اس شخص کے خلاف کاروائی کے لئے ہزاروں بیگناہ افراد کو موت دے دو۔ انفرادی غلطیوں کی سزا معاشرے کو دینا کہاں کی دانش مندی ہے۔ آپ مجھے بتائو وہ بچے جو اس وحشیانہ بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں، وہ خواتین جو پہلے سے پس رہی ہیں، ابھی بھی ان کی ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، وہ اپنا لہو کس کے ہاتھ پر تلاش کریں، ان مٹھی بھر افراد کی ہتھیلیوں پر جو باقی سب کو اپنی بنائی ہوئی لاٹھی سے ہانکنا چاہتے ہیں، یا ان نجات دہندوں کے ہاتھ پر جو ان کو ظالموں سے نجات دلانے آئے، اور انکو غم دنیا سے نجات دلا دی۔
بھائی کیا آپ کسی بچے کو اس بنا پر مار سکتے ہو کہ وہ بڑا ہو کر جہادی ( یا حکومت کے مطابق عسکریت پسند/دہشت گرد) نہ بن جائے۔ کیا آپ کسی عورت کو اس لئے مار سکتے ہو وہ آئندہ اس طرح مزید عسکریت پسند نہ جنم دے دے۔
بھائی آپ کو یہ بات سمجھنی ہو گی، کہ آپ اس طرح نفرتوں کی فصل قائم کر رہے ہو، وہ بچہ جو اپنی ماں کو افواج کی بمباری سے مرتے دیکھے گا، جو اپنی بہن کو تڑپتے موت کی آغوش میں جاتے دیکھے گا، جو اپنے باپ کا سینہ مشین گنوں سے چھلنی ہوتا دیکھے گا (اور باپ بھی وہ جو چھریاں تیز کرتا تھا، جو راج کا کام کرتا تھا، جو کوڑے کے ڈھیر سے کاغذ چن چن کر انکے پیٹ کا ایندھن ڈھونڈتا تھا) وہ کیا ہم کو بعد میں پھول بھیجے گا؟
اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اسکا جواب سوچئیے گا۔۔۔ جواب وہی پر ملے گا۔ اور اگر نہ مل سکے تو خود کو اس کی جگہ پر لے جا کہ سوچو، پھر تم بھی خود کو بنوں وزیرستان میں پائو گے۔
بھائی مجھے ان نام نہاد رہنمائوں سے کوئی ہمدردی نہیں، مجھے ہمدردی ہے ان بچیوں سے، ان بچوں سے جو اتنا بھی نہیں جانتے کس لئے ان پر آسمان سے موت برس رہی ہے، کس لئے ان کا گھر توپخانے کی زد پر ہے۔ کس لئے انکا مدرسہ ملبہ کا ڈھیر بن گیا۔


کیا ان طالب علموں کے جسموں کے ٹکرے ملبے سے برآمد ہوئے تو کیا آپ کا دل اس پر غمناک نہیں ہوتا۔

ہوتا ہے بھائی مگر کیا ان طالب علموں کو، ان کے ماں باپ کو اس بات کی سمجھ نہیں‌تھی کہ یہ کس راستہ پر چل رہے ہیں؟

بھائی ان کے ماں باپ کو پتہ تھا یا نہیں اس موضوع پر ایک لمبی گفتگو ہو سکتی ہے، لیکن ایک بات اس میں جاں بحق ہونے والے بچوں میں بڑی تعداد کشمیر زلزلہ کے متاثرین کی تھی، جن کے سر سے انکے ماں باپ کا سا یہ اٹھ چکا تھا وہ بچے تو اس جگہ کو اپنی پناہ سمجھ رہے تھے۔ لیکن وہی پناہ گاہ انکی جائے مقتل ثابت ہوئی، جس پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے وہ اس پناہ گاہ میں آئے، اس پناہ گاہ میں وہ بھوکے پیاسے دنیا سے کوچ کر گئے۔ بھائی دوسری بات اس مدرسہ میں بڑی تعداد قبائلی لوگوں اور سرحد کے طلبا کی تھی، اور انکے والدین، اپنے بچوں کا خرچ اُٹھا نہ سکنے کی وجہ سے مدرسوں میں بھیج دیتے ہیں، اسکی وجہ وہاں معیار زندگی بہتر نہیں ہونا ہے۔ آپ مجھو صرف اتنا بتائو، ان غریب والدین نے یہ سوچا کہ مدرسہ میں ان کا بچہ آرام سے رہ لے گا اور دینی تعلیم حاصل کر کے کسی مسجد کا امام بن جائے گا اور ان کے لیے بھی رزق کا سلسلہ چل جائے گا، تو کیا وہ غلط تھے۔
کیا اگر کوئی باپ سارا دن کاغذ چننے کے باوجود اپنے بچوں کے لئے دو وقت کا کھانہ نہ لا سکے تو وہ کیا کرے، اس کے پاس دو راستے بچتے ہیں، ایک وہ اپنے خاندان سمیت خود کشی کر لے(جو اس ملک خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہو رہی ہیں) یا وہ اپنے چند بچوں کو مدرسہ میں بھیج کر اپنے سر سے اخراجات کا کچھ بوجھ کم کر لے تآکہ وہ باقی بچوں کا خیال آسانی سے رکھ سکے۔ اور اگر وہ اس حرام موت کا رستہ چننے کی بجائے دوسرا رستہ چنتا ہے، تو کیا وہ ماں باپ غلط ہیں۔
بھائی ہمیں لوگوں کو مارنے کی بجائے ان مجبوریوں کو مارنا ہو گا جو ان کو اس رستے پر چلنے پر مجبور کرتی ہیں۔ کیونکہ آپ انسان تو مار دیتے ہو لیکن وہ سوچ جس کی وجہ سے انکی جان جاتی ہے وہ تقویت پکڑتی جاتی ہے۔ پھر یہی سوچ کبھی بنوں ، تو کبھی میر علی، کبھی سوات تو کبھی وزیرستان کبھی وانا تو کبھی اسلام آباد میں اپنا رنگ دکھاتی ہے۔
اور جس تاریخ کی آپ بات کہنی چاہ رہے ہو، وہ تاریخ تو اپنی موت آپ مر چکی ہے۔ جن لوگوں نے وہ الفاظ ادا کیے وہ خود عوام کے ہاتھوں مسترد ہو چکے تھی۔ انکے پیروکاروں کی جماعتیں اس سوچ کی بنیاد پر کبھی بھی اکثریت نہیں حاصل کر سکیں۔ ان میں سے ایک نے اگر کسی حد تک حاصل بھی کی تو اسلام کا نام لے کر اور دیگر مزہبی جماعتوں کے اتحاد میں جا کر۔ بھائی ان لوگوں نے ان افراد کو عزت نہیں بخشی جن کا آپ نے زکر کیا، بلکہ وہ لوگ اسلام کہ نام پر آگے آئے۔ لیکن اب جو حالات بن رہے ہیں، اس میں کہیں وہ شحصیات دوبارہ زندہ نہ ہو جائیں۔ آپ کسی کو دیوار سے لگا کر اپنی بات نہیں منوا سکتے، آپ کو ان کے سامنے رستے چھوڑنے ہوں گے۔۔۔ ورنہ ہم کو تیار رہنا چاہئے ہر اس حالات کے لئے جوپیش آ سکتے ہیں یا جو پیش آ رہے ہیں۔ اور پھر اسوقت زمہ داروں کا تعین کرنے کا بھی شائد موقع نہ ملے

والسلام
 

خرم

محفلین
بھائی اگر کوئی شخص بہت ظالم ہے تو پھر بھی دنیا کا کوئی مذہب، دنیا کا کوئی قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا، کہ آپ اس شخص کے خلاف کاروائی کے لئے ہزاروں بیگناہ افراد کو موت دے دو۔ انفرادی غلطیوں کی سزا معاشرے کو دینا کہاں کی دانش مندی ہے۔ آپ مجھے بتائو وہ بچے جو اس وحشیانہ بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں، وہ خواتین جو پہلے سے پس رہی ہیں، ابھی بھی ان کی ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، وہ اپنا لہو کس کے ہاتھ پر تلاش کریں، ان مٹھی بھر افراد کی ہتھیلیوں پر جو باقی سب کو اپنی بنائی ہوئی لاٹھی سے ہانکنا چاہتے ہیں، یا ان نجات دہندوں کے ہاتھ پر جو ان کو ظالموں سے نجات دلانے آئے، اور انکو غم دنیا سے نجات دلا دی۔
کاشف بھائی آپ کی بات درست ہے مگر یہ بتائیے کہ اس کا کیا حل ہے؟ کیا اس چلن کو مان لیا جائے کہ اگر کسی نے چند افراد کو یرغمال بنا لیا تو اسے من مانی آزادی حاصل ہوگی؟ اگر ہم یہ رواج بنا دیتے ہیں تو پھر کون اور کیا بچے گا؟ حد درجہ احتیاط کی جانی چاہئے کہ کوئی بھی معصوم جان دکھی نہ ہو، ضائع ہونا تو دور کی بات ہے۔ مگر بھائی اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم سب، میں اور آپ بھی ان ظالموں کا راستہ روکیں، انہیں اپنے آپ میں گھلنے ملنے نہ دیں۔ احتیاط دونوں جانب سے ضروری ہے۔ اگر ہم خود تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے اور چپ چاپ بیٹھے رہیں‌تو بتائیے کس طرح اس معاملہ کو حل کیا جائے؟

بھائی کیا آپ کسی بچے کو اس بنا پر مار سکتے ہو کہ وہ بڑا ہو کر جہادی ( یا حکومت کے مطابق عسکریت پسند/دہشت گرد) نہ بن جائے۔ کیا آپ کسی عورت کو اس لئے مار سکتے ہو وہ آئندہ اس طرح مزید عسکریت پسند نہ جنم دے دے۔
بالکل نہیں۔ یہ سراسر ظلم ہے۔
بھائی آپ کو یہ بات سمجھنی ہو گی، کہ آپ اس طرح نفرتوں کی فصل قائم کر رہے ہو، وہ بچہ جو اپنی ماں کو افواج کی بمباری سے مرتے دیکھے گا، جو اپنی بہن کو تڑپتے موت کی آغوش میں جاتے دیکھے گا، جو اپنے باپ کا سینہ مشین گنوں سے چھلنی ہوتا دیکھے گا (اور باپ بھی وہ جو چھریاں تیز کرتا تھا، جو راج کا کام کرتا تھا، جو کوڑے کے ڈھیر سے کاغذ چن چن کر انکے پیٹ کا ایندھن ڈھونڈتا تھا) وہ کیا ہم کو بعد میں پھول بھیجے گا؟
بھائی اس بچے کو ادراک دیں۔ اسے بتائیں۔ اس کی محرومیوں‌کا ازالہ کریں۔ پھر وہ پھول ہی بیچے گا۔ اسے سڑکوں پر گلیوں میں نہ پھینک دیں، اسے جاہلوں‌کے مدرسوں‌میں‌نہ ڈال دیں اور سب سے بڑی بات، ایسے حالات نہ پیدا ہونے دیں‌کہ اس کے باپ کا سینہ چھلنی ہو اور اس کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ نعرے نہیں‌کام۔ جذباتیت نہیں معقولیت۔ اسلام کا نام نہیں‌اسلام پر عمل کرنا ہوگا۔
اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اسکا جواب سوچئیے گا۔۔۔ جواب وہی پر ملے گا۔ اور اگر نہ مل سکے تو خود کو اس کی جگہ پر لے جا کہ سوچو، پھر تم بھی خود کو بنوں وزیرستان میں پائو گے۔
یہاں مجھے اختلاف ہے جو میں اوپر بیان کر چکا۔
بھائی مجھے ان نام نہاد رہنمائوں سے کوئی ہمدردی نہیں، مجھے ہمدردی ہے ان بچیوں سے، ان بچوں سے جو اتنا بھی نہیں جانتے کس لئے ان پر آسمان سے موت برس رہی ہے، کس لئے ان کا گھر توپخانے کی زد پر ہے۔ کس لئے انکا مدرسہ ملبہ کا ڈھیر بن گیا۔
ہم سب کو ہے بھائی اور ان کے ساتھ سب سے بڑی بھلائی یہی ہو سکتی ہے کہ جہالت کے ان اندھیروں‌کو دور کیا جائے جو ان کی جان لے رہے ہیں۔ ہر وہ نعرہ جو سستی جذباتیت سے لگایا جاتا ہے ان بچوں سے ان کی زندگی چھینتا ہے۔ اسلام کی غلط تصویر کشی، زمانہ جاہلیت کی روایات پر اصرار، قانون شکنی پر فخر اور اصرار یہ سب عوامل ہیں‌جو ان بچوں‌کے دشمن ہیں۔ ان کا مقابلہ کریں، ان کو بڑھاوا نہ دیں۔ شعور پھیلائیں خدا کے لئے، علم پھیلائیں۔ انہیں جہالت کے اندھیروں‌سے نکالیں، انہیں یہ سبق نہ دیں‌کہ تم بڑے خوددار ہو تم نے اگر بات مان لی تو تمہارے خودداری ختم ہو جائے گی۔ انہیں بتائیں‌کہ عظمت درست بات کرنے اور ماننے میں ہے، سیدھے راستہ پر چلنے میں‌ہے کسی قبائلی رسم اور رواج میں نہیں۔ علم کے آگے جھکنا، قانون کے آگے جھکنا برائی نہیں اچھائی ہے۔ علم زیور ہے شیطانی نہیں۔ زندگی متحرک ہے جامد نہیں۔ اسلام میدان علم و عمل میں سب سے آگے ہونے کا نام ہے سب سے پیچھے ہونے کا نہیں۔ یہ بتائیں انہیں، انہیں‌ایندھن نہ بنائیں ان مدرسوں‌والوں کا جنہیں خود اسلام کی الف بے نہیں پتا، بس اپنی زبان سے آگ لگانا جانتے ہیں۔
بھائی ان کے ماں باپ کو پتہ تھا یا نہیں اس موضوع پر ایک لمبی گفتگو ہو سکتی ہے، لیکن ایک بات اس میں جاں بحق ہونے والے بچوں میں بڑی تعداد کشمیر زلزلہ کے متاثرین کی تھی، جن کے سر سے انکے ماں باپ کا سا یہ اٹھ چکا تھا وہ بچے تو اس جگہ کو اپنی پناہ سمجھ رہے تھے۔ لیکن وہی پناہ گاہ انکی جائے مقتل ثابت ہوئی، جس پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے وہ اس پناہ گاہ میں آئے، اس پناہ گاہ میں وہ بھوکے پیاسے دنیا سے کوچ کر گئے۔ بھائی دوسری بات اس مدرسہ میں بڑی تعداد قبائلی لوگوں اور سرحد کے طلبا کی تھی، اور انکے والدین، اپنے بچوں کا خرچ اُٹھا نہ سکنے کی وجہ سے مدرسوں میں بھیج دیتے ہیں، اسکی وجہ وہاں معیار زندگی بہتر نہیں ہونا ہے۔ آپ مجھو صرف اتنا بتائو، ان غریب والدین نے یہ سوچا کہ مدرسہ میں ان کا بچہ آرام سے رہ لے گا اور دینی تعلیم حاصل کر کے کسی مسجد کا امام بن جائے گا اور ان کے لیے بھی رزق کا سلسلہ چل جائے گا، تو کیا وہ غلط تھے۔
کیا اگر کوئی باپ سارا دن کاغذ چننے کے باوجود اپنے بچوں کے لئے دو وقت کا کھانہ نہ لا سکے تو وہ کیا کرے، اس کے پاس دو راستے بچتے ہیں، ایک وہ اپنے خاندان سمیت خود کشی کر لے(جو اس ملک خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہو رہی ہیں) یا وہ اپنے چند بچوں کو مدرسہ میں بھیج کر اپنے سر سے اخراجات کا کچھ بوجھ کم کر لے تآکہ وہ باقی بچوں کا خیال آسانی سے رکھ سکے۔ اور اگر وہ اس حرام موت کا رستہ چننے کی بجائے دوسرا رستہ چنتا ہے، تو کیا وہ ماں باپ غلط ہیں۔
بھیا یہی تو قصور ہے ہماری سول سوسائٹی کا۔ ہم کیوں لاتعلق ہو جاتے ہیں؟ جب آپ چندہ دیتے ہو ایک مدرسہ کو تو کیوں‌نہیں دیکھتے کہ وہاں‌سکھایا کیا جا رہا ہے؟ پڑھایا کیا جا رہا ہے؟ اگر ہمارا چندہ کسی اچھے مدرسہ کو جا رہا ہوتا تو نہ جامعہ حفصہ بنتی اور نہ یہ بچے ان کے پاس آتے۔ بھائی اللہ معاف فرمائے مگر ہم سب مجرم ہیں۔ ہم باتیں بہت کرتے ہیں مگر عمل ہمیشہ اوروں‌پر چھوڑ‌دیتے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ اس مدرسہ میں بڑی تعداد قبائلی لوگوں کی تھی اور یہ حکومت کی، میری، آپکی ہم سب کی ذمہ داری تھی کہ ہم سب دیکھتے کہ اس مدرسہ میں کیا پڑھایا جا رہا ہے۔ اس وقت ہم سب سوئے رہے اور اب ہم بیانات داغ‌رہے ہیں۔ چلیں اب بھی ہم سبق سیکھ لیں، اب بھی ہم ان معاملات میں دخیل ہو جائیں۔ اب بھی ہم یہ نہ کریں کہ ایک مدرسہ کو اس کے مولوی صاحب کے رحم و کرم پر چھوڑ‌دیں بلکہ اس محلہ کے لوگ اس کے معاملات میں دخیل ہو جائیں۔ ان بچوں کو اجنبی نہیں‌اپنے بچے سمجھیں۔ ان کے مستقبل کے متعلق اپنے بچوں‌کی طرح سوچیں۔ پھر انشاء اللہ کوئی لال مسجد نہیں ہوگی۔ مگر کیا ہم ایسا کر پائیں گے؟
بھائی ہمیں لوگوں کو مارنے کی بجائے ان مجبوریوں کو مارنا ہو گا جو ان کو اس رستے پر چلنے پر مجبور کرتی ہیں۔ کیونکہ آپ انسان تو مار دیتے ہو لیکن وہ سوچ جس کی وجہ سے انکی جان جاتی ہے وہ تقویت پکڑتی جاتی ہے۔ پھر یہی سوچ کبھی بنوں ، تو کبھی میر علی، کبھی سوات تو کبھی وزیرستان کبھی وانا تو کبھی اسلام آباد میں اپنا رنگ دکھاتی ہے۔
بالکل درست فرمایا آپ نے اور یہ کام ایک منظم جدوجہد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ایک اسلامی فلاحی معاشرہ کا قیام کئے بغیر ہم ان دائروں کے سفر سے کبھی بھی باہر نہیں نکل سکتے۔ مگر اس کی شروعات کرنی ہیں آپکو اور مجھے۔ ہم سب کو اور اس شروعات سے پہلے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ صرف سچ کا ساتھ دینا ہے اس بات سے قطع نظر کہ اس سے کس کو فائدہ ہوتا ہے۔

اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین
والسلام
 

زیک

مسافر
جانے سے پہلے زیک بھائی میں یہ ضرور چاہوں گا آپ مجھے قبائلیوں کے کردار کے بارے جو آپ جانتے ہیں وہ ضرور بتائیں تآکہ میں تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکوں۔

قبائلیوں کے کردار کے بارے میں میں کیا کہہ سکتا ہوں میرا اشارہ صرف ایک بات کی طرف تھا کہ کئی ارکان نے کشمیر میں قبائلی لشکر کی بات کی ہے تو یہ بھی یاد رکھیں کہ اس لشکر نے کشمیر میں کافی لوٹ مار بھی کی تھی۔
 

خاور بلال

محفلین
حکیم دانا کا مشہور واقعہ ہے کہ انہیں ایک سفر درپیش تھا لیکن راستے میں ایک دریا ایسا پڑتا تھا جسے پار کرنے کی اجازت نہ تھی۔ حکیم دانا دریا تک پہنچے تو پہرے داروں نے انہیں لوٹا دیا اور کہا کہ جب تک بادشاہ سلامت اجازت نہ دیں دریا پار نہیں کیا جاسکتا۔ حکیم دانا بادشاہ کے حضور پیش ہوئے، ادب سے عرض کیا حضور کچھ لوگ دریا پار کرنا چاہتے ہیں پہرے دار انہیں روکتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ بادشاہ کا تحریری حکم نامہ ہوگا تو ہم مانیں گے۔ سو آپ ایک چٹھی پر یہ مضمون لکھ دیجئے “روکو، مت جانے دو“۔ اس وقت کے بادشاہ سلامت بھی چوہدری شجاعت کی طرح سادے ہوتے تھے سو یہ بے ضرر سی چٹھی لکھوا کر حکیم دانا کو تھمادیتے ہیں۔ حکیم دانا دوبارہ دریا پر پہنچتے ہیں اور پہرے دار کو بادشاہ کا حکم نامہ دکھاتے ہیں جس پر لکھا تھا “روکومت، جانے دو“۔ اس طرح حکیم دانا کو دریا پار کرنے کی اجازت مل جاتی ہے اور وہ ہنسی خوشی اپنی منزل مقصود کی طرف چل پڑتے ہیں۔ صرف ایک قومے کےفرق سے مضمون کا عنوان تبدیل ہوگیا۔لیکن قربان جائیے آج کل کے حکیم داناؤں پر جو مضمون کا غلط تاثر پیدا کرنے کے لیے کسی قومے کے محتاج بھی نہیں۔ خدا کی پناہ

میں نے صریح الفاظ میں کہا تھا کہ لال مسجد والوں سے اختلاف کے باوجود اگر اس کا کوئی انسانی پہلو نکلتا ہے تو اس پر بھی بات ہونی چاہئیے۔ لیکن لگتا ہے کہ بھینس کے آگے بین بجانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ظاہر ہے اس میں بھینس کی کوئی غلطی نہیں، غلطی ہماری ہے کہ ہم نے بھینس کی زبان میں بات کیوں نہ کی۔ روشن خیالی کے ٹیکے مقررہ مقدار سے زیادہ لگ جائیں تو انسان کی یہی کیفیت ہوتی ہے وہ ہر بات کے جواب میں خوش الحانی کے ساتھ وہی تقریر دہرانے لگ جاتا ہے جو اسے یاد کرائی جاتی ہے۔ میں نے چڑیا کے دو ننھے منھے بچوں کی مثال دے کر احباب کو یہ یاد دلانے کی کوشش کی کہ انسانیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ لیکن حضرات نے اس ایک پہلو کو چھوڑ کر باقی ہر پہلو پر بات کرنا ضروری سمجھا اور رٹے رٹائے جملے دہرانے کی مشق کی گئی۔ غالب کے الفاظ میں خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو۔

انسانی قدروں پر معاملات کو جانچنے والے پانڈوں کی طرح کمیاب ہوتے جارہے ہیں۔ لوگ انسانی حقوق اور مساوات کی باتیں بڑی بڑی کرتے ہیں لیکن حقیقت میں جو کچھ کرتے ہیں وہ ان تصورات کی ضد ہوتی ہے۔ جسے دیکھو کہتا کچھ ہے، سوچتا کچھ۔ دل و دماغ حسد، کدورت، سازش، بغض، کینہ اور تعصبات سے سڑ رہے ہیں مگر ہونٹوں پر پاکی کے پھول کھلے ہوئے ہیں۔ گفتگو کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کے لیے جھٹ سے مخصوص طبقے کی غلط رسومات کو قبائلیوں کے اتنے بڑے کینوس پر فٹ کردیا۔ پوری گفتگو لپیٹ کر قبائلیوں کی غلط رسومات کے متھے ماردی گئی۔ مثل مشہور ہے جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا؟

جس ملک کو پورے عالم اسلام کیا پوری مسلم دنیا کے لیے ماڈل بننا تھا اسے حکمرانوں نے ایک بڑے نفسیاتی اسپتال میں تبدیل کردیا۔ ایسا اسپتال جہاں کمانڈر ڈاکٹر بن بیٹھے ہیں۔ ڈاکٹر بھی ایک سے بڑھ کر ایک، ہر ڈاکٹر دوسرے ڈاکٹر کی ضد۔ ڈارون کو اپنی تھیوری کا عملی ثبوت دیکھنا ہوتو ہمارے حکمرانوں کو دیکھ لے۔ صحت مند نشونما کے لیے ضروری ہے کہ شخصیت کو ایک اصول کے تابع ہونا چاہیے۔ قول میں اسلام، عمل میں مغرب۔ آدھی زندگی ایک اصول کے تحت، مزید آدھی زندگی دوسرے اصول کے تحت۔ قوم کوبرداشت، صبر اور تحمل کا درس اور خود “فوجی ذہن“ سے سوچنے کے عادی۔ پہلی بات تو یہ کہ فوجی ذہن سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتا، بالفرض محال اگر سوچنے پر آمادہ بھی ہوجائے تو اسکی سوچ سے ایک عدد گرنیڈ، گولی لاٹھی اور (۔۔۔۔۔قابلِ سنسر۔۔۔۔۔) کے علاوہ کچھ بھی برآمد نہیں ہوتا۔ جبر اور طاقت کی سرپرستی اسے دیوانہ کردیتی ہے۔ بالخصوص اگر اس کا مقابلہ مذہبی تناظر سے ہو۔ پھر مقامی سطح ہو یا قومی و بین الاقوامی ۔۔۔ اسے قانون یاد رہتا ہے نہ ضابطہ۔ اسے انسانی حقوق یاد آتے ہیں نہ انصاف کے تقاضے۔ پھر یہ لاشیں گراتا ہے اور جشن مناتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ آج جو کچھ کیا جارہا کل پلٹ کر ہماری طرف ضرور آئے گا۔

امریکا جہاد کی حمایت کرے اور ڈالز بھی دے تو ہمارے حکمران نہ صرف یہ کہ خود جہاد کرنے لگتے ہیں بلکہ پوری دنیا سے جہادی جمع کرلیتے ہیں۔ امریکا جہاد کا دشمن ہو جائے اور جہاد کی دشمنی کے لیے ڈالر بھی دے تو ہمارے حکمران انہی کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کرنے لگتے ہیں۔ جہاد کی تعریف بدل جاتی ہے، تعلیم کے معنی تبدیل ہوجاتے ہیں، دوقومی نظریے کا مفہوم کچھ سے کچھ ہوجاتا ہے۔ ہماری تاریخ محمد بن قاسم سے شروع ہونے کے بجائے اشوکا سے شروع ہونے لگتی ہے۔ افغان پالیسی اور کشمیر پالیسی میں کوئی فرق ہی نہیں رہتا۔ ملک کا واحد ہیرو مجرموں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ قوم کی طرف سےاس ظلم و زیادتی کا ردِ عمل سامنے آئے تو دھول جھونکنے کے لیے فٹ سے “مذہب“ پر الزام رکھ دیتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے لیے مذہب ایک حربہ ہے جسے بوقتِ ضرورت کام لایا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف مذہب کی مظلومیت دیکھے کہ پاکستان مذہب کےنام پر بنا جبکہ قیام پاکستان کے بعد کی تاریخ مذہب کی نہیں بلکہ مذہب سے انحراف کی تاریخ ہے۔ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ سیکولر اور لبرل فکر کے پاس ہمارے مسائل کا حل تو دور کی بات ان مسائل کا درست تجزیہ تک نہیں ہے۔ ہوتا تو وہ اب تک سامنے آچکا ہوتا اور اس کی بنیاد پر ہمارے کچھ نہ کچھ مسائل حل ہوچکے ہوتے۔ پاکستان کے حالات اچھے ہیں یا برے۔ جو کچھ بھی ہیں سیکولر اور لبرل عناصر کی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ ایک ایسی قوم جس کی تاریخ ساٹھ سال پرانی ہے۔ ایک ایسی ملت جو ہزار سال سے اس سرزمین میں جڑیں پھیلارہی ہے آج خود کو گملے میں لگے ہوئے پودے سے بھی کمزور محسوس کررہی ہے۔

طالبان کو الزام دینا ضروری ہے تو یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ یہ طالبان آخر کہاں سے آٹپکے۔ کیا آسمان سے گھسیٹیاں کھاتے ہوئے اچانک افغانستان میں وارد ہوئے اور افغانیوں پر مسلط ہوگئے؟ جو طالبان کو مجرم کہتے ہیں وہ اس سے بڑھ کر مسلم حکمرانوں اور فوج کو مجرم کیوں نہیں کہتے جنہوں نے طالبان کی سرپرستی کی؟ طالبان کے موجد ہی طالبان کے خون کے پیاسے ہوگئے اور غیروں کی ڈانگ میں ڈانگ ڈال کر اپنے ہی بچوں کو ہڑپ کرنا شروع کردیا۔ ہمارے حکمرانوں کو اپنی ہی قوم فتح کرنے کا جنون لاحق ہوگیا، ہم رفتہ رفتہ دشمن کی ضرورت سے بے نیاز ہوتے گئے۔ پھر بھی کہنے والے کہتے ہیں کہ طالبان کو ہم سے دشمنی کیوں ہوگئی؟ اس کے جواب میں ہم یہی کہیں گے کہ خدا کے لیے گھٹنوں سے سوچنا بند کردو۔ بس کردو بس!
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ

وہ لوگ کون تھے جو قیام پاکستان کے ہی مخالف تھے؟ وہ کون تھے جنہوں نے اسے "پلیدستان" کا نام دیا؟ وہ کون تھے جنہوں نے قائد اعظم کو "کافر اعظم" کا خطاب دیا؟ اور وہ کون تھے جنہوں نے فرمایا کہ "کسی ماں نے وہ بچہ ہی پیدا نہیں کیا جو پاکستان کی پ بھی بنا سکے"۔
ان سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے ان قبائلی علاقوں کے چند رہنماؤں ڈاکٹر قیوم اور باچا خان کے ساتھ ساتھ کچھ بڑی بڑی اسلامی جماعتوں اور ان کے بڑے بڑے علماء مثلاً مودودی صاحب کے نام بھی آئیں گے۔ لہٰذا اس ذکر کو چھپائے رکھنے میں ہی ہم سب کی عزت ہے۔ ششششششش

تو لیجیے خواتین و حضرات! تشریف لاتا ہے ایک عدد اعتراض۔ اس ذکر کو چھپاتے چھپاتے بھی موصوف سے سید مودودی کا نام نکل ہی پڑا۔ یعنی اب کاغذ کے پھول موتیے اور گلاب کو شرمندہ کررہے ہیں۔ روشن خیالی کے نام پر جیسی مجروح نفسیات کا مظاہرہ ہمارے حکمران کررہے ہیں ویسی ہی یا اس سے کچھ کم نفسیات ان کے حامیوں میں بھی در آئی ہے۔ کہاوت مشہور ہے “باپ پہ پوت پتا پر گھوڑا، زیادہ نہیں تو تھوڑا تھوڑا“۔ وسوسے پھیلانا کبھی صرف شیطانوں کا کام تھا مگر اب یہ کام انسانوں نے بھی سنبھال لیا ہے۔
اعتراض کیونکہ سید ابوالاعلیٰ پر کیا گیا ہے تو ضروری ہے کہ اس کا جواب بھی انہیں سے معلوم کیا جائے؛
“مطالبہ پاکستان کی بنیاد یہ ہے کہ جس علاقہ میں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے وہ بالفعل مسلمانوں کا قومی وطن ہے۔ مسلمانوں کا کہنا صرف یہ ہے کہ موجودہ جمہوری نظام میں ہندوستان کے دوسرے حصوں کے ساتھ لگے رہنے سے ان کے قومی وطن کی سیاسی حیثیت کو جو نقصان پہنچتا ہے اس سے اس کو محفوظ رکھا جائے اور متحدہ ہندوستان کی ایک آزاد حکومت کے بجائے ہندو ہندوستان اور مسلم ہندوستان کی دو آزاد حکومتیں قائم ہوں۔ یہ چیز وہی ہے جو آج کل دنیا کی ہر قوم چاہتی ہے اور اگر مسلمانوں کے مسلمان ہونے کی حیثیت کو نظر انداز کرکے انہیں صرف ایک قوم کی حیثیت سے دیکھا جائے تو ان کے اس مطالبہ کے حق بجانب ہونے میں کوئی کلام نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اصولاً اس بات کے مخالف ہیں کہ دنیا کی کوئی قوم کسی دوسری قوم پر سیاسی و معاشی حیثیت سے مسلط ہو۔ اس لئے ایک قوم ہونے کی حیثیت سے اگر مسلمان یہ مطالبہ کریں تو جس طرح دوسری قوموں کے معاملہ میں یہ مطالبہ صحیح ہے اسی طرح ان کے معاملہ میں بھی صحیح ہے۔ ہمیں اس چیز کو نصب العین بنانے پر جو اعتراض ہے وہ صرف یہ ہے کہ مسلمانوں نے ایک اصولی جماعت اور ایک نظام کی داعی اور علمبردار جماعت ہونے کی حیثیت کو نظر انداز کرکے صرف ایک قوم ہونے کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ اگر وہ اپنی اصلیت کو قائم رکھتے تو ان کے لیے قومی وطن اور اس کی آزادی کا سوال ایک نہایت حقیر سوال ہوتا۔ بلکہ حقیقاً سرے سے وہ ان کے لیے پیدا ہی نہ ہوتا۔ اب وہ کروڑوں ہوکر ایک ذرا سے خطہ میں اپنی حکومت حاصل کرلینے کو ایک انتہائی نصب العین سمجھ رہے ہیں۔ لیکن اگر وہ نظام اسلامی کے داعی ہونے کی حیثیت اختیار کریں تو تنہا ایک مسلمان ساری دنیا پر اپنے اس نظام کی جس کا وہ داعی ہے، حکومت کا مدعی ہوسکتا ہے اور صحیح طور پر سعی کرے تو اسے قائم بھی کرسکتا ہے۔ (ترجمان القرآن۔ رجب، شوال ٦٣ھ، جولائی، اکتوبر ٤٤ء)

اس اقتباس کو پڑھ کر ہی اندازہ لگا لیں کہ ہمارے بعض لوگ خطِ اطلاع سے کتنے نیچے رہتے ہیں اور خطِ اطلاع سے نیچے کی زندگی خطِ اخلاق اور خطِ تہذیب سے بہت نیچے کی زندگی ہے۔ اسی لیے انکے قلوب، نفوس اور اذہان کی جو حالت ہے اس کی وجہ سے سیدھی باتیں ان کی سمجھ میں مشکل سے ہی آتی ہیں۔ البتہ تمام ٹیڑھی باتیں یہ فوراً سمجھ لیتے ہیں۔

جذباتیت کے لئے تو یہ باتیں بہت اچھی ہیں میرے بھائی لیکن حقائق کا جائزہ بھی لینا چاہئے۔ آپ مجھے صرف یہ بتا دیں کہ لال مسجد والوں‌کو بندوقیں رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ ایک مدرسہ میں، سکول میں اور ایک مسجد میں‌بندوقوں کی کیا ضرورت تھی؟ باقی باتیں معروضی ہیں۔ آپ صرف اس سوال کا جواب دے دیجئے۔
عزیزم یہاں یہی تو بات ہورہی ہے کہ لال مسجد والوں کا رویہ صحیح نہیں تھا۔ یقیناً ان کے پاس بندوقیں نہیں ہونی چاہئیے تھیں۔ کیا میں اعوذ با اللہ ، بسم اللہ سے دوبارہ تمہید باندھوں کہ میں لال مسجد کی تعریف نہیں کررہا بلکہ اس المیے کے انسانی پہلو پر بات کررہا ہوں۔ بندوقیں رکھنے کے جرم کی یہ سزا صحیح ہے تو آدھا پاکستان اس سزا کا مستحق ضرور ہے۔ ماردیں ان پاکستانیوں کو؟ جلادیں انکو؟ خدا کے لیے کبھی گفتگو کو اس کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کیا کریں۔ اور “فوجی ذہنیت“ سے پیچھا چھڑائیں۔ خدا کے لیے ۔۔۔ جیو اور جینے دو!

آنٹی شمیم کا نام آپ اتنی کراہت سے لیتے ہیں چلیں آپ ہی شرعی ثبوت فراہم کر دیجئے۔ دین کے نام پر اتنی دیدہ دلیری تو نہ کیجئے۔ قیامت کے روز اس خاتون کے کردار سے قطع نظر جب اس کا ہاتھ آپ کے گریبان پر ہوگا تو حاکمِ اعلٰی کے سامنے کیا جواب دیں گے کہ کس بِرتے پر آپ نے اس پر الزام دھرا؟ کبھی اس پر بھی سوچا؟

پہلی بات تو یہ کہ آنٹی شمیم کو شرعی سزا دینے کے لیے ہی شرعی ثبوت چاہئیے ہوگا۔ صرف ڈانٹے اور باز رہنے کی نصیحت کرنے کے لیے اہلِ محلہ کی گواہی کافی ہے۔ دوسی بات یہ کہ میں تو یہی سوچ رہا ہوں کہ میں نے آنٹی شمیم پر الزام کب دھرا۔ البتہ ان کا نام نفرت سے لینے کی وجہ یہ ہے کہ ان پر الزامات کی تائید بہت سے حوالوں سے ہوچکی ہے۔آنٹی شمیم کی سرگرمیوں سے اہلِ محلہ مطمئن نہیں تھے اور اس پر کاروائی کرنے کا حق لال مسجد کو نہیں تھا۔یہی میرا موقف ہے۔ ۔ آپ نہیں مانتے تو نہ مانیے۔ لیکن میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ آنٹی شمیم کا معاملہ اتنا اہم کب سے ہوگیا کہ اس کی بنا پر سینکڑوں افراد کی ہلاکت کے انسانی پہلو کو بھلادیا جائے۔ بہر حال کوٹھے کی محبت میں کچھ آشفتہ سراؤں نے انسانیت کی وہ دھجیاں بکھیری ہیں کہ دل لرز کر رہ جاتا ہے۔
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آنٹیاں اور بھی ہیں

اب کیا کہوں بھائی۔ اگر ایک ایسا شخص جو ازروئے قرآن جھوٹا اور تا عمر جس کی گواہی ساقط تھی اس کو آپ اسلام کا رہنما مانتے ہیں تو آپ کی مرضی۔ ہمارے لئے تو قرآن کی گواہی معتبر اور بس۔

کیا اس کے جواب میں مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ آپ از سرِ نو میری پوسٹس ملاحظہ فرمائیں تاکہ میں جان سکوں کہ میں نے کب ایسے شخص کو اسلام کا رہنما قرار دیا۔ لال مسجد آپریشن کے دنوں میں ایک دھاگے پر مذہبی جنونیت پر گفتگو کرچکا ہوں ملاحظہ کیجیے۔اس سب کے باوجود اگر آپ کی اجازت ہوتو میں ایک بار پھر انسانیت کا وظیفہ پڑھ لوں۔ بعض لوگ اس طرح کی باتوں کو جذباتی باتیں کہتے ہیں۔ آدمی بیمار ہوتو کیا صحت کی آرزو کو جذباتی کہہ کر سنسنی پھیلانا شریفوں کا کام ہوسکتا ہے؟
 

خرم

محفلین
طالبان کو الزام دینا ضروری ہے تو یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ یہ طالبان آخر کہاں سے آٹپکے۔ کیا آسمان سے گھسیٹیاں کھاتے ہوئے اچانک افغانستان میں وارد ہوئے اور افغانیوں پر مسلط ہوگئے؟ جو طالبان کو مجرم کہتے ہیں وہ اس سے بڑھ کر مسلم حکمرانوں اور فوج کو مجرم کیوں نہیں کہتے جنہوں نے طالبان کی سرپرستی کی؟ طالبان کے موجد ہی طالبان کے خون کے پیاسے ہوگئے اور غیروں کی ڈانگ میں ڈانگ ڈال کر اپنے ہی بچوں کو ہڑپ کرنا شروع کردیا۔ ہمارے حکمرانوں کو اپنی ہی قوم فتح کرنے کا جنون لاحق ہوگیا، ہم رفتہ رفتہ دشمن کی ضرورت سے بے نیاز ہوتے گئے۔ پھر بھی کہنے والے کہتے ہیں کہ طالبان کو ہم سے دشمنی کیوں ہوگئی؟ اس کے جواب میں ہم یہی کہیں گے کہ خدا کے لیے گھٹنوں سے سوچنا بند کردو۔ بس کردو بس!
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
بھائی اس بات پر میں محب بھائی کی پوسٹ کے جواب میں بات کر چکا ہوں۔

تو لیجیے خواتین و حضرات! تشریف لاتا ہے ایک عدد اعتراض۔ اس ذکر کو چھپاتے چھپاتے بھی موصوف سے سید مودودی کا نام نکل ہی پڑا۔ یعنی اب کاغذ کے پھول موتیے اور گلاب کو شرمندہ کررہے ہیں۔ روشن خیالی کے نام پر جیسی مجروح نفسیات کا مظاہرہ ہمارے حکمران کررہے ہیں ویسی ہی یا اس سے کچھ کم نفسیات ان کے حامیوں میں بھی در آئی ہے۔ کہاوت مشہور ہے “باپ پہ پوت پتا پر گھوڑا، زیادہ نہیں تو تھوڑا تھوڑا“۔ وسوسے پھیلانا کبھی صرف شیطانوں کا کام تھا مگر اب یہ کام انسانوں نے بھی سنبھال لیا ہے۔
اعتراض کیونکہ سید ابوالاعلیٰ پر کیا گیا ہے تو ضروری ہے کہ اس کا جواب بھی انہیں سے معلوم کیا جائے؛
“مطالبہ پاکستان کی بنیاد یہ ہے کہ جس علاقہ میں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے وہ بالفعل مسلمانوں کا قومی وطن ہے۔ مسلمانوں کا کہنا صرف یہ ہے کہ موجودہ جمہوری نظام میں ہندوستان کے دوسرے حصوں کے ساتھ لگے رہنے سے ان کے قومی وطن کی سیاسی حیثیت کو جو نقصان پہنچتا ہے اس سے اس کو محفوظ رکھا جائے اور متحدہ ہندوستان کی ایک آزاد حکومت کے بجائے ہندو ہندوستان اور مسلم ہندوستان کی دو آزاد حکومتیں قائم ہوں۔ یہ چیز وہی ہے جو آج کل دنیا کی ہر قوم چاہتی ہے اور اگر مسلمانوں کے مسلمان ہونے کی حیثیت کو نظر انداز کرکے انہیں صرف ایک قوم کی حیثیت سے دیکھا جائے تو ان کے اس مطالبہ کے حق بجانب ہونے میں کوئی کلام نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اصولاً اس بات کے مخالف ہیں کہ دنیا کی کوئی قوم کسی دوسری قوم پر سیاسی و معاشی حیثیت سے مسلط ہو۔ اس لئے ایک قوم ہونے کی حیثیت سے اگر مسلمان یہ مطالبہ کریں تو جس طرح دوسری قوموں کے معاملہ میں یہ مطالبہ صحیح ہے اسی طرح ان کے معاملہ میں بھی صحیح ہے۔ ہمیں اس چیز کو نصب العین بنانے پر جو اعتراض ہے وہ صرف یہ ہے کہ مسلمانوں نے ایک اصولی جماعت اور ایک نظام کی داعی اور علمبردار جماعت ہونے کی حیثیت کو نظر انداز کرکے صرف ایک قوم ہونے کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ اگر وہ اپنی اصلیت کو قائم رکھتے تو ان کے لیے قومی وطن اور اس کی آزادی کا سوال ایک نہایت حقیر سوال ہوتا۔ بلکہ حقیقاً سرے سے وہ ان کے لیے پیدا ہی نہ ہوتا۔ اب وہ کروڑوں ہوکر ایک ذرا سے خطہ میں اپنی حکومت حاصل کرلینے کو ایک انتہائی نصب العین سمجھ رہے ہیں۔ لیکن اگر وہ نظام اسلامی کے داعی ہونے کی حیثیت اختیار کریں تو تنہا ایک مسلمان ساری دنیا پر اپنے اس نظام کی جس کا وہ داعی ہے، حکومت کا مدعی ہوسکتا ہے اور صحیح طور پر سعی کرے تو اسے قائم بھی کرسکتا ہے۔ (ترجمان القرآن۔ رجب، شوال ٦٣ھ، جولائی، اکتوبر ٤٤ء)
بھائی خطرہ ہے کہ یہ بحث‌اب کہیں سیاسی نہ بن جائے۔ سید مودودی کے افکار و نظریات اور کردار و عمل پر ایک علٰیحدہ دھاگہ ہوسکتا ہے۔ باقی قیامِ پاکستان کی مخالفت کی بات ہے تو میرے علم کے مطابق جماعتِ اسلامی نے کسی ایک وجہ سے یا دوسری وجہ سے قیامِ پاکستان کے حق میں کبھی بھی ووٹ نہیں‌دیا تھا۔ بہرحال یہ بات اس موضوع سے بالکل لگا نہیں‌کھاتی ہے لہٰذا اگر اس پر مزید بات کرنی ہو تو میں تو ایک الگ دھاگہ ہی تجویز کروں گا۔

اس اقتباس کو پڑھ کر ہی اندازہ لگا لیں کہ ہمارے بعض لوگ خطِ اطلاع سے کتنے نیچے رہتے ہیں اور خطِ اطلاع سے نیچے کی زندگی خطِ اخلاق اور خطِ تہذیب سے بہت نیچے کی زندگی ہے۔ اسی لیے انکے قلوب، نفوس اور اذہان کی جو حالت ہے اس کی وجہ سے سیدھی باتیں ان کی سمجھ میں مشکل سے ہی آتی ہیں۔ البتہ تمام ٹیڑھی باتیں یہ فوراً سمجھ لیتے ہیں۔
اللہ اکبر

عزیزم یہاں یہی تو بات ہورہی ہے کہ لال مسجد والوں کا رویہ صحیح نہیں تھا۔ یقیناً ان کے پاس بندوقیں نہیں ہونی چاہئیے تھیں۔ کیا میں اعوذ با اللہ ، بسم اللہ سے دوبارہ تمہید باندھوں کہ میں لال مسجد کی تعریف نہیں کررہا بلکہ اس المیے کے انسانی پہلو پر بات کررہا ہوں۔ بندوقیں رکھنے کے جرم کی یہ سزا صحیح ہے تو آدھا پاکستان اس سزا کا مستحق ضرور ہے۔ ماردیں ان پاکستانیوں کو؟ جلادیں انکو؟ خدا کے لیے کبھی گفتگو کو اس کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کیا کریں۔ اور “فوجی ذہنیت“ سے پیچھا چھڑائیں۔ خدا کے لیے ۔۔۔ جیو اور جینے دو!
اچھا بھائی آپ ہی بتا دیں اگر ایک جگہ دس پندرہ افراد اسلحہ لیکر قلعہ بند ہو کر بیٹھ جائیں اور مقابلہ شروع کردیں‌تو ان کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کیا جائے؟ بھائی اعتراض بندوقیں رکھنے پر نہیں، بندوقیں‌استعمال کرنے پر ہے۔ ہم جاہل تو یہ سمجھتے ہیں کہ بندوقیں پکڑ کر پولیس مقابلہ جرم ہے اور اگر تمام معاشرہ ایک جرم کرنے لگ پڑے تو بھی وہ جرم ہی رہتا ہے، آپ ہی سمجھا دیجئے کہ انسانیت کے حوالے سے یہ کس طرح عین جائز ہے؟

پہلی بات تو یہ کہ آنٹی شمیم کو شرعی سزا دینے کے لیے ہی شرعی ثبوت چاہئیے ہوگا۔ صرف ڈانٹے اور باز رہنے کی نصیحت کرنے کے لیے اہلِ محلہ کی گواہی کافی ہے۔ دوسی بات یہ کہ میں تو یہی سوچ رہا ہوں کہ میں نے آنٹی شمیم پر الزام کب دھرا۔ البتہ ان کا نام نفرت سے لینے کی وجہ یہ ہے کہ ان پر الزامات کی تائید بہت سے حوالوں سے ہوچکی ہے۔آنٹی شمیم کی سرگرمیوں سے اہلِ محلہ مطمئن نہیں تھے اور اس پر کاروائی کرنے کا حق لال مسجد کو نہیں تھا۔یہی میرا موقف ہے۔ ۔ آپ نہیں مانتے تو نہ مانیے۔ لیکن میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ آنٹی شمیم کا معاملہ اتنا اہم کب سے ہوگیا کہ اس کی بنا پر سینکڑوں افراد کی ہلاکت کے انسانی پہلو کو بھلادیا جائے۔ بہر حال کوٹھے کی محبت میں کچھ آشفتہ سراؤں نے انسانیت کی وہ دھجیاں بکھیری ہیں کہ دل لرز کر رہ جاتا ہے۔
قرآن کی آیت پڑھئے گا دوبارہ۔ اس میں الزام کی بات ہے۔ ڈانٹنا اور باز رہنے کو کہنا بھی الزام لگانا ہے۔ نہیں کیا؟ باقی رہ گئی بات دل کے لرزنے کی تو بھائی اسے تو آپ رہنے ہی دیں۔

کیا اس کے جواب میں مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ آپ از سرِ نو میری پوسٹس ملاحظہ فرمائیں تاکہ میں جان سکوں کہ میں نے کب ایسے شخص کو اسلام کا رہنما قرار دیا۔ لال مسجد آپریشن کے دنوں میں ایک دھاگے پر مذہبی جنونیت پر گفتگو کرچکا ہوں ملاحظہ کیجیے۔اس سب کے باوجود اگر آپ کی اجازت ہوتو میں ایک بار پھر انسانیت کا وظیفہ پڑھ لوں۔ بعض لوگ اس طرح کی باتوں کو جذباتی باتیں کہتے ہیں۔ آدمی بیمار ہوتو کیا صحت کی آرزو کو جذباتی کہہ کر سنسنی پھیلانا شریفوں کا کام ہوسکتا ہے؟
اب تک تو یہی پتہ لگا بھائی کہ ہم جاہل ہیں، بدتہذیب ہیں اور شریف بھی نہیں۔ اور کوئی گوشہ اگر ہماری ذات کا ہم سے اوجھل ہو تو وہ بھی بیان فرما دیجئے۔ اللہ آپ کا بھلا کرے۔
 

فاتح

لائبریرین
اب تک تو یہی پتہ لگا بھائی کہ ہم جاہل ہیں، بدتہذیب ہیں اور شریف بھی نہیں۔ اور کوئی گوشہ اگر ہماری ذات کا ہم سے اوجھل ہو تو وہ بھی بیان فرما دیجئے۔ اللہ آپ کا بھلا کرے۔

خرم بھائی! ان حضرت کی انہی بد زبانیوں کے باعث مجھ سمیت کئی احباب نے ان کی کسی پوسٹ کا جواب دینا ہی چھوڑ دیا ہے۔ سر دست مجھے وہ دھاگا ملا نہیں جہاں ان کی گالیوں اور طعن و تشنیع سے تنگ آ کر ہم نے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔
آپ کو بھی میں یہی مشورہ دوں گا کہ ؂
جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں

میں گیا بھی واں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب
یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہو گئیں
 

Muhammad Naeem

محفلین
قبائلیوں کے کردار کے بارے میں میں کیا کہہ سکتا ہوں میرا اشارہ صرف ایک بات کی طرف تھا کہ کئی ارکان نے کشمیر میں قبائلی لشکر کی بات کی ہے تو یہ بھی یاد رکھیں کہ اس لشکر نے کشمیر میں کافی لوٹ مار بھی کی تھی۔

براہ کرم کہیں سے کوئی حوالہ یا لنک مل سکتا ہے۔ جس سے مطلوبہ موضوع پر تفصیل سے معلومات مل سکیں۔
 

Muhammad Naeem

محفلین
جناب آپ کے اس "ہیرو"کی والدہ کہ گولیاں لگی ہوئی تھیں وہ آخری سانسیں لے رہی تھیں اور آپ کے ہیرو صاحب میڈیا کو انٹرویو دینے میں مصروف تھے اور بتا رہے تھے کہ میری والدہ آخری سانسیں لے رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔آسے صرف ہیرو بننے کا شوق تھا اور کچھ نہیں۔۔۔۔اسلام آباد میں بدکاری کے آڈے نظرے آئے پر لاہور کی سالہسال سے چلتے"شاہی محلے"پے نظر نہیں پڑی موصوف کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔جہاں تک انسانیت کے لر زاٹھنے کی بات ہے تو انسانیت تب بھی لرزی تھی جب ظالم ہندوں نے 100 پاکستانی مسلمانوں کو سمجھوتہ ایکسپریس میں زندہ جلا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا تب شاید آپ کی انسانیت "کچھ پی"کے سکون کی نیند سو رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترمہ !
یہ بات تو کسی جاہل کو بھی معلوم پر سکتی ہے کی عبدالرشید غازی آخری وقت تک اپنے اوپر برپا کئے جانے والے ظلم و ستم کی داستان میڈیا تک پہنچا رہے تھے تا کہ کل کو کہیں آپ جیسی محترمہ لال مسجد کے مظالم پر درس سکوت دینا شروع نہ کردیں۔ ان کی نظر تو جہان تک پڑی انہوں نے اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش کی۔ مگرکچھ نام نہاد ایسے مسلمانوں کو شرم نہ آئی کہ برائی ختم کرنے کیلئے حکومت پر زور ڈالا جائے۔
سمجھوتہ ایسپریس میں 100افراد کے جلنے پر ہماری غیرت ضرور جاگی تھی اور الحمدللہ کشمیر میں اس کا بدلہ چکانے کی بھر پور کوشش بھی کی گئی۔ مگر آپ بتائیے کہ آپ نے اس سلسلے میں زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ کیاہے۔ معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ اس سانحے کے وقت ننگ ناموس و ملت لوگ گھوڑے بیچ کر سو رہے تھے۔ جو بعد میں ہڑ بڑا کر اٹھے اور سانحے پر سیاست شروع کردی۔
 

سیفی

محفلین
جس کی اپنی بھتیجی تو نیم عریاں ماڈلنگ کرتی ہے، جس کے بھائی بہن تو امریکی اسلحہ ساز کارخانوں میں بڑے حصہ دار ہیں جن کا اسلحہ مسلمانوں‌پر ہی استعمال ہو رہا ہے اور اس کی جنگ ہے امریکہ سے۔ یہ صاحب پہلے اپنا گھر تو ٹھیک کر لیتے پھر

پھر تو معاذ اللہ نوح علیہ السلام اور لوط علیہ السلام کو بھی الزام دے ڈالئے کہ ایک کا بیٹا اور دوسرے کی بیوی کافروں کے ساتھ تھیں۔۔۔۔۔

بھائی کسی شخص کے اہل وعیال کا دشمنوں کے ساتھ ہونا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس شخص کی نیت پر شک کرنے کی گنجائش نہیں دیتا۔۔۔۔۔۔۔ہر شخص اپنے انفرادی اعمال کیلئے جوابدہ ہے۔
 
Top