محترم نایاب حسین سے گفتگو

سید عمران

محفلین
ہم اپنی نیت ارادے پر مبنی بھرپور کوشش کرتے قدرت سے اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کر سکتے ہیں ۔ ؟
و ان لیس للانسان الا ما سعی کا اطلاق کسی حد تک دنیا پر تو کرسکتے ہیں لیکن اس سے حقیقی مراد آخرت ہے۔۔۔
دنیا کی کامیابی کے لیے ضروری نہیں کہ ہر محنت سپھل ہوجائے!!!
 

نایاب

لائبریرین
و ان لیس للانسان الا ما سعی کا اطلاق کسی حد تک دنیا پر تو کرسکتے ہیں لیکن اس سے حقیقی مراد آخرت ہے۔۔۔
دنیا کی کامیابی کے لیے ضروری نہیں کہ ہر محنت سپھل ہوجائے!!!
میرے محترم بھائی میری ناقص سوچ سے قران پاک کی ہر آیت کا براہ راست اطلاق دنیاکی زندگی پر ہی ہے ۔ اور اس اطلاق پر قائم دنیا کا عمل آخرت میں بدلہ ہے ۔ لالچ اور زیادتی کا جذبہ شدید محنت اور کشٹ کے باوجود منزل تک نہیں پہنچنے دیتا ۔ قدرت کے فراہم کردہ اسباب بھی آپس میں لڑ جھگڑ فیل ہو جاتے ہیں ۔

میرے محترم بھائی ملحوظ رہے کہ میرا علم و عمل ناقص ہے ۔ میں تبلیغ نہیں صرف اپنی کہانی سنا رہا ہوں ۔ اور جو سچ ہے میری نگاہ میں وہی لکھ رہا ہوں ۔
میری کہانی میں آپ کو صرف میرے یقین کی بابت ذکرملے گا وہ یقین جو کہ وقت نے مجھے اپنی مرضی سے گزار تے مجھے مطالعے مشاہدے اور در در پھرا کر مجھے دیا ۔ بات صرف یقین کی ہے اس سادے یقین کی جو افضل ہوتا ہے عین الیقین اور حق القین سے ۔ اور میں نے یہی حقیقت پائی ہے کہ میرا یقین ہی مجھے کامیابی سے نوازتا ہے اگر میرا یقین میرے رب پر سچا ہے ۔ اور میں اپنے رب کو اپنے سے بلند ذات مان سچے دل سے اسکے سامنے جھکتا ہوں اس کی اطاعت کرتا ہوں تو پھر میرا یہ یقین کبھی غلط نہیں ہوتا میرا رب مجھے دنیا کے سامنے جھکنے سے بچاتا ہے میرے لیئے آسانی پیدا فرماتا ہے ۔ کوشش میری ہوتی ہے کامیابی سے وہ نوازتا ہے ۔
پھر وہی کہوں گا کہ مجبور کر دیتا ہوں کہ مجھ پر کرم ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔
قدرت بھی بعینہ یہی کرتی ہے وہ انسان کے عمل میں اس کی کوشش کے جوش سے مجبور ہوتے کچھ ایسے اسباب فراہم کرتی ہے جو کہ عمل کو کامیاب کر دیتے ہیں ۔
کوئی محنت کوشش کرتے ڈاکٹر انجیئر عالم بن جاتا ہے کو ئی اپنی محنت کوشش کے بل پر مہا چور بن جاتا ہے ۔ قدرت کبھی کسی کی محنت نہیں ضائع کرتی بشرطیکہ محنت کوشش پوری لگن سے ہو ۔
اور جب محنت کوشش کامیاب ہو جائے تو پھر اسے عطا ماننا پڑتا ہے کہ قدرت نے موافق اسباب پیدا کیئے اور کامیاب ہوئے ۔
عمل سے دور رہنا کر کے تقدیر کا بہانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دانائی ہے کیا ؟
جناب ابراہیم علیہ السلام پر کیسے عطا ہوئی ۔ جناب موسی علیہ السلام پر عطا کیسے ہوئی ۔ اک عبد پر کیسے یہ عطا ہوئی کہ رسول بن رحمت للعالمین کہلایا ۔۔۔؟
اور تو اور جناب اصحاب کہف کے کتے نے کس کسب کے بدلے میں جنت میں داخلے کا انعام پایا ۔ ؟
 

نایاب

لائبریرین
8۔ زندگی میں محبت کی ناکامی نے آپ کو کیا سبق دیا ؟
وہ عشق جو مجھ سے روٹھ گیا ۔ لڑکپن کا جوش میں اپنی آوارگی میں مست دو چار ڈھکوسلے سیکھ اپنی ہی فضاؤں میں اڑ رہا تھا ۔
صنف نازک کی کشش سے کیوں کر بچ پاتا ۔ سو اک ہستی پھول کی صورت میرے بھی دل میں کھل گئی ۔ بس دل میں ٹھان لیا کہ اس سے ہی شادی کرنا ہے ۔ میرے اپنے ہی خاندان میں تھی اور میری آوارگی کے چرچےبھی میرے خاندان کے سب افراد تک پہنچ چکے تھے ۔میں اپنی ہی محبت میں محو تھا یہ جانے بنا کہ جس سے محبت کرتا ہوں وہ تو میری آوارگی کے باعث مجھے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی ہے ۔ 15 سال کی عمر سے شروع یہ محبت 32 سال کی عمر میں شادی کی منزل پر پہنچی ۔ شادی کے لیے اپنے خاندان والوں کی ناک میں دم کیئے رکھا ۔ اپنے سیکھے ہر عمل کو کام میں لایا آخر اک دن میری محبت میرے گھر آن پہنچی ۔۔ اور سب خوابوں کے تاج محل ٹوٹ کر کچھ یوں مجھ پر برسے کہ بیان کی تاب ہی نہیں ۔
میں جو کہ خود کو تیس مار خان سمجھ کسی کو دیکھتا بھی نہ تھا اپنی ہی نگاہ میں گر گیا ۔ میرے سب ارادے راکھ ہو گئے ۔ اور یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے اللہ سوہنے کی ذات پاک نے اس آگہی سے نوازا کہ میں اپنی طاقت کوشش سے جسم تو پا سکتا ہوں مگر روح نہیں ۔ اور روح کا پیار نہ ملے تو زندگی عذاب ہے ۔ دنیا سے اپنی آوارگی سے دل اچاٹ ہو گیا ۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ نشے کی دنیا میں سرتاپا غرق کر لیا خود کو ۔۔۔۔ اللہ سوہنے نے کرم فرمایا ۔ بڑا بھائی مجھے سعودیہ لے آیا ۔ یہاں کچھ دن نشے سے دور رہنے پر اپنی گزری زندگی بارے سوچا ۔ کیسے کیسے بزرگ ملے کیسا کیسا سبق دیا انہوں نے مجھے مگر میں سمجھ نہ پایا ۔ کیسے کیسے جھوٹے سچے عملیات کر کر دنیا کو دھوکہ دیتے جھوٹی عزت پاتا رہا ۔ خود سے نفرت ہی محسوس ہوئی ۔ اپنی خود ساختہ محبت پر شرم آئی کیسے میں نے اک معصوم کو زبردستی اپنی شریک حیات بنا کیسا اس پہ ظلم کر دیا ۔ زندگی کے اس موڑ پر اس سبق کو پا کر میں بدل گیا ۔ خود سے عہد کر لیا اب جو رب چاہے اسی پر صابر و شاکر ۔۔۔۔ نہ نشہ نہ کوئی عملیات نہ ملنگی کا ڈھکوسلہ نہ درویشی کا نقاب ۔۔۔۔۔۔۔ سیدھے سبھاؤ زندگی گزارنی ہے ۔ دو سال سعودیہ گزار واپس پاکستان گیا ۔ اسے دو چار بار مل کر منت و سماجت کر کے پوچھا اگر میری نادانیوں کو معاف کر دے تو اس کا احسان مند رہتے سیدھی سادھی زندگی بسر کروں گا ۔ مگر اس نے جو پہلے دن کہا تھا وہ اپنی اسی بات پر قائم رہی سو اسے اس کی مرضی سے آزاد کر واپس سعودیہ آ گیا ۔ میرے لیئے یہی میری ناکام محبت کا سب سے بڑا سبق ہے ۔ آج 24 سال بعد بھی میں اس سبق سے ملے نتیجے پر چل رہا ہوں ۔
پاکستان جاتا ہوں دنیا میرے پیچھے آتی ہے اور میں وہی چار کلمے تھما انہیں اللہ کی حکمت پر یقین کا سبق پڑھا دیتا ہوں۔ نجانے اللہ سوہنے کو میراکونسا عمل پسند آیا کہ اس نے مجھے ایسی شریک حیات سے نواز دیا جو مجھ سے بڑھ کر اس کی حکمت پر راضی رہتی ہے ۔ اور میرے سیاہ ماضی کے بارے سب جانتے بوجھتے بنا کوئی شکوہ شکایت کیئے میری زندگی کو بلاشک جنت بنائے رکھتی ہے ۔
9 ۔ کس شاعر کے کلام سے متاثر ہیں؟ اور کیوں؟
کوئی اک شاعر تو نہیں ۔ سب شعراء کی وہ شاعری پسند ہے جس میں حسن جاناں کی تعریف ہو ۔ پیار کا پیغام ہو۔ محبت کی کسک ہو ۔ اور عشق کا سوز ہو ۔ مجھے شاعری یاد نہیں ہوتی ۔ بس کچھ ایسے شعر ہوتے جو براہ راست دل پر ضرب لگا حافظے میں محفوظ ہوجاتے ہیں ۔ اور دوران گفتگو میرے کام آ جاتے ہیں ۔
شاعری سچ بولتی ہے بھید دلوں کے کھولتی ہے ۔
10۔ا13۔ ویلے تایا جی کا کردار بہت ہی دلچسپ ہے ، انہوں نے آگہی کے عذاب پر پچھتاوا جھیلا تو آپ نے اس عذاب پر کیسے قدرت حاصل کی ؟ آگہی تو مسلسل عذاب ہے جبکہ نا تو آپ کے مزاج میں چڑاچڑاہٹ ہے ناہی آپ کو غصہ آتا ہے ، شاذ و نادر ہی کوئی ایسا شخص ملے گا جسکو غصہ نہ آئے مگر آپ سے بات کرتے محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو غصہ نہیں آتا
میری معصوم بٹیا خود کو بہت شاطر سمجھتا رہا ہوں ۔ بس اسی شاطری کو کام میں لایا نہ کبھی اپنے ہاتھ کی لکیروں کو دیکھا نہ کبھی اپنے پیاروں کے ہاتھ پر دھیان دیا ۔ جب بھی کسی نے ہاتھ آگے کیا اس کو مستقبل بارے دو چار خوشی کی خبر دے ٹال دیا ۔ اور اب تو کوئی میرا پیارا مجھے اپنا ہاتھ دکھانے کی خواہش کرے تو میں اس کا ہاتھ پکڑ آنکھ بند کر سبحانک لا علمنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا ورد کرتا ہوں اور جو سوچ آتی ہے اسے لفظوں میں بدل اسے بتا دیتا ہوں ۔ یہ آگہی تو گویا گھٹی میں پڑی ہے کہ غصہ کرتے چڑچڑا ہوتے کچھ فائدہ نہیں ہوتا ۔ انسان جتنا غصہ کرے گا اتنا چڑچڑا ہوگا ۔ اور اک تنگ دائرے میں قید میں جائے جہاں صرف اپنے ہی بال کھینچنے کی سہولت ہو گی ۔۔ یقین کریں یہ سب بالیقین درود شریف کے بابرکت ذکر کے سبب سے ہے ۔ یہ آپ ہی نہیں سب کہتے ہیں کہ مجھے غصہ نہیں آتا ۔ اک راز کی بات جب میں اپنے پیاروں سے بات کرتا ہوں تو میری آواز بلند اور لہجہ ایسا ہوتا ہے جیسے میں لیکچر دے رہا ہوں ۔
14۔ محفل پر آپ کی کون کون سی پسندیدہ شخصیات ہیں؟
بلا تفریق جنس کچھ ایسے رکن مجھے اردو محفل پر ملے ہیں جنہیں میں اللہ کے دوستوں کی صف میں رکھتا ہوں ۔
اس میں بھی کوئی جھوٹ نہیں کہ محفل اردو پر ہر وہ رکن میرا پسندیدہ ہے جس کے تحریر کردہ لفظوں سے انسان دوستی کی خوشبو بکھرتی ہے ۔
15۔ آپ خود کو اپنے آئنے میں کیسا پاتے ہیں؟ آپ میں کیا خوبیاں ہیں جو آپ کو ممتاز کرتی ہیں اور کیا خامیاں ہیں جن سے آپ دور رہنا چاہتے ہیں؟
خود سے شرم تو بہت آتی ہے اپنی ہی آنکھوں میں نہیں دیکھ پاتا ۔
میں گلیاں دا کوڑا محل چڑھایا سائیاں
نہ کوئی خوبی نہ کوئی خامی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس چرب زبانی
جے دیکھاں اپنے عملاں ولے تے کج نئیں میرے پلے
ایسی ہی صدائیں سنتا ہوں اور اپنے لیئے ہدایت کی دعا کرتا ہوں ۔
اللہ سوہنا ہم سب پر مہربان رہتے ہمیں اپنے کرم سے نوازے آمین
بہت دعائیں
 

سید عمران

محفلین
میرے محترم بھائی میری ناقص سوچ سے قران پاک کی ہر آیت کا براہ راست اطلاق دنیاکی زندگی پر ہی ہے ۔ اور اس اطلاق پر قائم دنیا کا عمل آخرت میں بدلہ ہے ۔ لالچ اور زیادتی کا جذبہ شدید محنت اور کشٹ کے باوجود منزل تک نہیں پہنچنے دیتا ۔ قدرت کے فراہم کردہ اسباب بھی آپس میں لڑ جھگڑ فیل ہو جاتے ہیں ۔

میرے محترم بھائی ملحوظ رہے کہ میرا علم و عمل ناقص ہے ۔ میں تبلیغ نہیں صرف اپنی کہانی سنا رہا ہوں ۔ اور جو سچ ہے میری نگاہ میں وہی لکھ رہا ہوں ۔
میری کہانی میں آپ کو صرف میرے یقین کی بابت ذکرملے گا وہ یقین جو کہ وقت نے مجھے اپنی مرضی سے گزار تے مجھے مطالعے مشاہدے اور در در پھرا کر مجھے دیا ۔ بات صرف یقین کی ہے اس سادے یقین کی جو افضل ہوتا ہے عین الیقین اور حق القین سے ۔ اور میں نے یہی حقیقت پائی ہے کہ میرا یقین ہی مجھے کامیابی سے نوازتا ہے اگر میرا یقین میرے رب پر سچا ہے ۔ اور میں اپنے رب کو اپنے سے بلند ذات مان سچے دل سے اسکے سامنے جھکتا ہوں اس کی اطاعت کرتا ہوں تو پھر میرا یہ یقین کبھی غلط نہیں ہوتا میرا رب مجھے دنیا کے سامنے جھکنے سے بچاتا ہے میرے لیئے آسانی پیدا فرماتا ہے ۔ کوشش میری ہوتی ہے کامیابی سے وہ نوازتا ہے ۔
پھر وہی کہوں گا کہ مجبور کر دیتا ہوں کہ مجھ پر کرم ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔
قدرت بھی بعینہ یہی کرتی ہے وہ انسان کے عمل میں اس کی کوشش کے جوش سے مجبور ہوتے کچھ ایسے اسباب فراہم کرتی ہے جو کہ عمل کو کامیاب کر دیتے ہیں ۔
کوئی محنت کوشش کرتے ڈاکٹر انجیئر عالم بن جاتا ہے کو ئی اپنی محنت کوشش کے بل پر مہا چور بن جاتا ہے ۔ قدرت کبھی کسی کی محنت نہیں ضائع کرتی بشرطیکہ محنت کوشش پوری لگن سے ہو ۔
اور جب محنت کوشش کامیاب ہو جائے تو پھر اسے عطا ماننا پڑتا ہے کہ قدرت نے موافق اسباب پیدا کیئے اور کامیاب ہوئے ۔
عمل سے دور رہنا کر کے تقدیر کا بہانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دانائی ہے کیا ؟
جناب ابراہیم علیہ السلام پر کیسے عطا ہوئی ۔ جناب موسی علیہ السلام پر عطا کیسے ہوئی ۔ اک عبد پر کیسے یہ عطا ہوئی کہ رسول بن رحمت للعالمین کہلایا ۔۔۔؟
اور تو اور جناب اصحاب کہف کے کتے نے کس کسب کے بدلے میں جنت میں داخلے کا انعام پایا ۔ ؟
بات تو صحیح ہے۔۔۔
قرآن میں بھی ہے کہ جب تک کوئی خود اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہیں کرے گا ، خدا بھی اس کی حالت نہیں بدلے گا۔۔۔
اور جو نیکی کی راہ پر چلنے کی محنت کرے گا، اس کے لیے وہ راستہ آسان کردیا جائے گا۔۔۔
اور جو بدی و شر کا راستہ اختیار کرے گا اس کے لیے بھی وہ آسان کردیا جائے گا۔۔۔
اس کے باوجود قدرت کو کوئی مجبور نہیں کرسکتا۔۔۔
اس پر جبر کا ڈنڈا لے کر نہیں کھڑا ہوسکتا۔۔۔
ورنہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم قدرت سے زیادہ مہان ہیں۔۔۔
اور قدرت ہماری دست نگر!!!
 

نایاب

لائبریرین
ورنہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم قدرت سے زیادہ مہان ہیں۔۔۔
اور قدرت ہماری دست نگر!!!
میرے محترم بھائی
اس موضوع پر بہت لمبی بحث ہو سکتی ہے ۔ ایسی بحث جس کا کچھ نتیجہ نہیں نکل سکتا ۔ اس بحث کے دونوں فریق دلائل کے طومار لیئے ہوئے ہیں ۔ اور اوپن فورم پر یہ بحث فساد کا سبب بھی بن جاتی ہے ۔ وقت نے اجازت دی تو کہیں گروپ بنا گفتگو کرتے اک دوجے کے لیئے علم کی راہ آسان کریں گے ۔ ان شاء اللہ

قرآن میں بھی ہے کہ جب تک کوئی خود اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہیں کرے گا ، خدا بھی اس کی حالت نہیں بدلے گا۔۔۔
اور جو نیکی کی راہ پر چلنے کی محنت کرے گا، اس کے لیے وہ راستہ آسان کردیا جائے گا۔۔۔
اور جو بدی و شر کا راستہ اختیار کرے گا اس کے لیے بھی وہ آسان کردیا جائے گا۔۔۔
بلا شک حق کہا
بہت دعائیں
 

نایاب

لائبریرین
16۔
پاکستان میں 1990 تک رہا ہوں ۔
آپ کی زندگی کی کہانی ویسی ہی ہے جیسے میں کوئی افسانہ یا ناول پڑھ رہی ہوں ، مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آپ نے زندگی افسانوں والی جی ہے تو کچھ نہ کچھ زیاں کا احساس بھی ستاتا ہوگا تو کہیں کوئی کامیابی خوشی بھی دے جاتی ہوگی ۔۔ آپ نے سیاحت میں زندگی گزاری ہے ۔۔ ابھی تو آپ ان جئے شاہ نوارنی اور پیر بابا کے بارے میں ہمیں آگا ہ کردیں اور ساتھ میں ہوسکے تو کچھ چیدہ چیدہ واقعات بھی سنادیں جن سے ہمیں کوئی آگہی حاصل ہو ۔ کیونکہ آپ کی زندگی تو مکمل داستان ہی ہے
17۔آپ دو ایسے واقعات سنادیں جن سے آپ کو لگے کہ یہاں اپنی زندگی بتانے والے میرے آس پاس ہیں اور مجھے اپنی کہانیاں سنا رہے ہیں ۔
18۔ اگر آپ مولانا شمس تبریزی سے ملتے تو کیا ان سے خواہش کرتے ؟
میری محترم بٹیا ہم سب ہی حقیقت پر مبنی وہ سب داستانیں اپنے ساتھ اٹھائے پھر رہے ہیں ۔ زندگی نے جن حقیقتوں کو ہم پر کھولا ہے ۔ ہم سب اپنی زندگی کو لکھیں تو اسے پڑھ کر کوئی دلچسپ افسانہ کہے گا کوئی مزےدار کہانی کوئی مسحورکن داستان ۔ یہ جو نطق کی نعمت ہے نا یہ ہے ہی اپنی کہانی کہنے کے لیئے ۔ خود پر بیتی حقیقت سنانے کے لیئے ۔ بلا شک زندگی نام ہے کسی نہ کسی کہانی کے کردار بنے رہنے کا ۔ زندگی جو خوشی بھی دیتی ہے دکھ بھی ۔
سیاحت کم آوارگی زیادہ کی ہے میں نے ۔ اور کیا سناؤں جو کچھ بیتا مجھ پر ۔۔۔۔۔۔۔
اے ہنجو اسی آپ خریدے ۔۔۔۔
” بولو بولو بولو جئے شاہ”
” جبل میں شاہ”
” نورانی نور ہے ہر بلا دور ہے”
بلوچستان کے ضلع خضدار میں پہاڑیوں سے گھرا اک پانچ سو سالہ مزار ہے ۔ جہاں ہو وقت یہی صدائیں گونجتی ہیں ۔ یہ مزار حضرت بلاول شاہ نورانی کا ہے ۔ جو مجذوب و مست ہوتے ہوئے بھی اللہ کے ولی کہلائے ۔ اک زمانہ ان کا عقیدت مند ہے ۔ بہت سی کہاوتیں بھی منسوب ہیں ان کی ہستی سے ۔ وقت کا عجب کھیل کہ وہ جو اپنے وقت میں اللہ کے ولی کہلائے ۔ دور دور سے جن کے پاس آکر ان کی تعلیمات پر عمل کرتے دکھی انسانیت سکون پاتی رہی ۔ ۔ ان کے بعد آنے والوں نے اس سکون کو نشے سے منسلک کر دیا ۔ شیر کا کیا شکار اکثر گیڈروں کی ملکیت بن جاتا ہے ۔ چرس گانجا اور بھنگ سچ یہی ہے کہ انسان سکون کے لئے استعمال کرتا ہے لیکن بد قسمتی سے اس کا رہا سہا سکون بھی غارت ہو جاتا ہے۔
میں جب اس مزار پر گیا دو ہی سبب ہوتے تھے ۔ اک تو نشہ اور منشیات فروشوں سے تعلقات ۔۔۔ اور دوسرے فجر سے کچھ پہلے کچھ مخصوص ذکر کرتے صاحب مزار سے فیض پانے کی کوشش کرنا ۔ اب نشہ میری پہلی ترجیع ہوتی تھی ۔ سو فیض کہاں سے ملتا ؟
اک بات ضرور ہے اس مزار پر بیٹھے اک سوچ بار بار ذہن میں آتی تھی ۔ کہ اگر انسان پیغمبروں کی بتائی راہ پر اوکھے سوکھے چلتا رہے تو منزل پر پہنچ سکون ملتا ہے ۔ اگر شیطان کی سجھائی راہ چلے تو منزل پر پہنچ بے سکونی ہی ملتی ہے ۔ یہ اک مجذوب ہستی اپنے جنوں میں مجنون ہوتے بھی آخر کیسے اتنی عقیدت کا مرکز بنی ۔ ؟
میرے ذاتی احساس سے صاحب مزار واقعی اک انسان دوست سچے انسان تھے۔
گلاب کہاں کھلنا ہے کس موسم میں کھلنا ہے ۔ کیسا ماحول درکار ہے اسے ۔ اس کی خوشبو نے کس کس کی روح کو مہکانا ہے۔ کس کی قبر کو اس سے سجانا ہے ۔ یہ سب صرف رب سچا ہی جانے ۔ گلاب گلاب ہوتا اپنی خوشبو فضاؤں میں بکھیر فنا کی راہ لیتا ہے ۔ باقی رہ جاتی ہے خوشبو ۔ سو اس مزار پر بھی مہکتی ہے انسان دوستی کی خوشبو ۔
۔ لاہوت و لامکاں کے مقام پر رات جب پہاڑوں پر پھیل جاتی ہے تویہاں جن اور انسان دونوں ہی وہم و گمان کے اندھیروں میں بھٹکتے ہیں ۔کہنے والے کہتے ہیں کہ انسان اُور جنات سبھی کو اک ہی خالق نے بنایا ہے۔ جیسے انسان اللہ تعالی کی مخلوق ہیں ویسے ہی جِنات بھی تُو اُسی پروردیگار کے بنائے ہُوئے ہیں۔ اِن دونوں کے درمیاں دُوری کی خلیج نے اِن دونوں کو ایک دوسرے سے خُوفزدہ کردیا ہے۔ انسان جنات سے ڈرتے ہیں۔ اُور جنات انسانوں سے عاجِز رِہتے ہیں۔
کوشش کی کہ کچھ جنات سے گفتگو کا شرف حاصل ہو مگر نہ تھی ہماری قسمت ۔۔ کہ ہم تو مست تھے ۔۔۔۔۔۔۔ پیو چرساں بھنگاں تے سووو باگی ۔ پچھلے جیون اپنے بھاگی ۔۔۔ ہم ایسے خود غرضوں کو کون گھاس ڈالتا بھلا ۔۔۔۔؟
محترم پیر بابا " سید علی ترمذی جن کا مزار بونیر ضلع سوات میں ہے ۔ آپ اک عالم با عمل ہستی گزرے ہیں ۔ آپ کے مزار پر حاضری دو اک عجب سکون ملتا ہے ۔ یہاں بھی نشے کی دنیا ہے مگر زیادہ آزادی سے نہیں ۔ آپ کی صدا بہت مشہور ہے کہ
”میرے دوست اور مرید وہ ہیں جو مجھ سے روحانی فائدہ حاصل کرتے اور میرے احوال پر نظر رکھتے ہیں“۔
یہ میرا اپنا یقین ہے کہ میں نے ان دونوں مزاروں پر ہی نہیں بلکہ جس بھی مزار پر حاضری ۔ وہاں کے صاحب مزار نے مجھے اپنی کہانی خود ہی سنائی ۔ اب میں کیسے کسی اور کو سناؤں جب کہ یہ صرف میری سوچ و وجدان کے درمیان کی بات ہے ۔ اک بات جس پر پوری شدت سے یقین ہے کہ " جنہاں کیتیاں نیک کمائیاں دیوے اونہاں دے سدا ای بلدے "
میں ابھی اس سوچ میں تھا کہ
اگر مجھے یہ شرف حاصل ہوتا کہ میں جناب شمس تبریزی کی محفل پاتا تو کیا خواہش کرتا ۔ ہزار سوچنے پر بھی جب کوئی خواہش یاد نہ آئی ۔
تواسی سوچ میں مصروف اچانک ہی جیسے کچھ لفظ مجھ پر اترنے لگے ۔ صدا دینے لگے ۔۔
""جو علم تجھے تجھ سے نا لے لے اس علم سے جہل بہتر ہے ""


19۔ کبھی زندگی میں آپ کے بولے گئے سچ نے آپ کو تکلیف دی ؟
20 ۔ آپ کو سعودی عرب کے علاوہ کسی اور ملک کی سیر کا شوق ہے

سچ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ سوہنا مجھے سدا ہی اپنی توفیق سے نوازے ۔آمین
اپنے علامہ اقبال صاحب فرما گئے اور کیا ہی خوب سچ کہہ گئے ۔۔
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی نا خوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہ نہ سکا قندد
بس جب سے یہ شعر سنا ہے اب پروا نہیں ہوتی کہ میرا سچ میری راہ کو کتنا مشکل کرے گا ۔۔۔
اب تو بس یہی خواہش ہے کہ زندگی کی رات اپنے ملک میں گزارنے کو ملے ۔ سیر سے دل بھر چکا اب ۔
محترم نور سعدیہ بٹیا آپ کا اور سب پڑھنے والوں کا دلی دعاؤں بھرا شکریہ ۔
بہت دعائیں
 
السلام علیکم !
نایاب بھائی کچھ سوالات کے جوابات آپ سے مطلوب ہیں ۔اگر آپ کسی سوال کا جواب نا دینا چاہیں تو آپ اس فیصلے کے لیے آزاد ہیں ۔

۱۔ کیا علم روحانیت تکمیل ایمان کے لیے ضروری ہے آپ کا علمی مشاہدہ اس بارے میں کیا ہے ؟

۲- آپ کس روحانی سلسلے سے بیعت ہیں اور کون سے روحانی بزرگ شخصیت سے لگاؤ رکھتے ہیں ؟

۳۔ سوچ و خیال اور وجدان کیا یہ ایک ہی تکون کے تین کونے ہیں یا یہ حالتیں ایک دوسرے کی متضاد ہیں ؟

۴۔ کیا علم تصوف کے بغیر آگاہی کی منزلوں کی پہچان ممکن ہے ,آپ کی اس علم پر کیا رائے ہے ؟

۵۔ انسانی سوچ لامحدود ہے یا اس کی بھی حد مقرر ہے , اس کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے ؟

۶۔ کون سا ذکر اللہ کریم کا قرب نصیب کرتا ہے ؟

۷۔ آپ کے نزدیک صوفی کی کیا تعریف ہے ؟

۸۔ لڑکپن میں والدین میں سے آپ سب سے زیادہ کس ہستی سے مانوس تھے ؟

۹۔ نماز قائم کرنا اور نماز پڑھنا ,کیا یہ دو مختلف حالتیں ہیں ؟

۱۰۔ کیا شاعری احساسات اور جذبات کی بہترین ترجمان ہے ؟
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
حاضرین و محفلین !

انٹرویو کا سلسلہ چل رہا ہے ، دلچسپی ، تجسس بڑھتا جارہا ہے بقول شاعر

ع: مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

آپ میں سے کئی لوگ حیرت میں ڈوب گئے تو کئی تعجب کا شکار ہوگئے تو کچھ کو یہ داستان سمجھ ہی نہیں آرہی ہے ۔ ہر انٹرویو اپنے ساتھ لفظ کچھ لفظ ، احساسات کی خوشبو ، اور روشنی لاتا ہے اور کچھ سبق جو سیکھا جاسکے ۔۔ ہر شخص کے لیےاپنے احساسات کسنانا بھی مشکل ہیں اور اظہار بھی مگر یہاں تو احساس کی بارش بھی ہے ۔۔اس انٹرویو میں ہے وقت کی لمبی کروٹ بھی ، ماضی کی جھلکیاں بھی اور ان میں چھپی اک ہستی ہے۔ جن کے بارے میں اپنے احساسات کچھ یوں میں اظہار کروں گی

زندگی ان کی چاہ میں گزری
مستقل درد و آہ میں گزری
رحمتوں سے نباہ میں گزری
عمر ساری گناہ میں گزری
ہائے وہ زندگی کی اک ساعت
جو تیری بارگاہ میں گزری
سب کی نظروں میں سر بلند رہے
جب تک ان کی نگاہ میں گزری
میں وہ اک رہرو محبت ہوں
جس کی منزل بھی راہ میں گزری
اک خوشی ہم نے دل سے چاہی تھی
وہ بھی غم کی پناہ میں گزری
زندگی اپنی اے شکیل اب تک
تلخی رسم و راہ میں گزری



اس انٹرویو کے سے مقتبس سوالات
محترم نایاب کے چند سوالات ابھی باقی ہیں ، جن کے جواب ابھی تشنہ ہیں ، خیر ہم بھی آگے بڑھتے ہیں اور تشنگی مٹاتے ہیں ۔ ان کے نزدیک لفظ زندہ ہیں اور روح رکھتے ہیں
جب تک ہے آباد یہ اردو محفل ،
لفظوں کی صورت ہم بھی زندہ رہیں گے ۔۔۔۔۔
جسم فنا ہوجاتے ہیں ۔ صدا باقی رہ جاتی ہے
ہماری بھی بس صدا ہی رہ جائے گی
دعا یہی کہ سدا سجی رہے یہ اردو محفل
یہ امر دلچسپی لیے ہوئے ہے کہ ان کی رائے الفاظ کی بارے کسی ادیب کی مانند ہے کہ لفظ ساز ہستی سے نکلتے نغمہ بکھیرتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی ان کی تعبیر ہے ، جس کے بارے میں ان کے خواب صفحہ ہستی سے ابھر رہے ہیں اور وقت تراش رہا ہے ایک ہیرے کو ۔۔ :) وہ لاتی رہے یونہی انعامات :)

چلے بھی کرتا تھا حاضریاں بھی بلاتا تھا ۔ اور آیت الکرسی اور درود شریف بھی دل میں چلتا رہتا تھا ۔ چاند کی آخری راتوں میں کبھی پیپل و برگد کے نیچے بیٹھ ویران پرانے قبرستان میں کسی قبر کے سرہانے کبھی پائینتی بیٹھ کسی سے ملے کچھ الفاظ و جملے جو کہ کسی حد تک شرکیہ بھی ہوتے پڑھتے رہنا ۔ زبان پر ان کا ذکر اور دل میں آیت الکرسی کا ورد ۔ اس دوران بہت سے ایسے مناظر اپنے ارد گرد واقع ہوتے دیکھتا تھا جو کہ کبھی ڈراتے کبھی حیرانگی میں مبتلا کرتے تھے ۔ (یہ تو بہت بعد میں راز کھلا کہ میری سوچ ہی میرے خیال کو بنتے میرے تصور پر مجسم ہو جاتی تھی ۔اور میں وہم کو اصل جان حیرانگی میں مبتلا ہو جاتا تھا )

کسی ایک حاضری کا واقعہ سنائیے !
پیپل اور برگد کا درخت ہی کیوں؟
کیسے مناظر دکھے ؟ کس سے خوف اور کس سے ڈر محسوس ہوا
راز کیسے کھلا؟
جنات اور وہم میں فرق کیا رہا پھر؟
آپ ضد اور حق کو ساتھ ملاتے رہے تو نقصانات کیا ہوئے؟
پچھل پیریاں دیکھیں شتونگڑوں سے ملاقات رہی چھلاوے نے بہ بھگا بھگا تھکا کر اپنی صحبت سے نوازا ۔ روحوں بد روحوں سے ملاقات ہوئی ۔ ان سب سے گزر خود کو عامل کامل جان لیا مان لیا ۔ مجھ بے وقوف کو اس حقیقت کا کہاں علم تھا کہ آیت الکرسی اور درود شریف کا ذکر مسلسل مجھے پناہ میں لیئے ہوئے ہے ۔اور اس ذکر پاک کی یہ رحمت ہے کہ جنات بھی ملاقات کو آ جاتے ہیں ۔

تو چھلاوا ، پچھل پیری ، شتونگڑے کی کوئی تصویر ہوتی ہے ، اگر گوگل پر اس جیسی کوئی مل جائے تو ذرا دکھائیں ، نہیں تو بتا دیں کہ وہ کیسے ہوتے ہیں ؟
روحی فیض کس کس کا نصیب ہوا؟
بدروحوں کو کیسے بلایا؟
کن ارواح کو مادیت کے حصول کے لیے بلایا
جنات سے کیا ملاقاتیں کیں ؟ جنات کی شکل کیسے ہوتی ہے؟ ذکر پاک کی رحمت سے جب جنات آتے تو آپ کی جسمانی اور روحی کیفیت کیا ہوتی تھی ؟ کبھی جنات سے کوئی کام بھی لیا ؟
(اس عمر میں پہنچ یہ کہنے میں کوئی ڈر جھجھک نہیں کہ گمراہی میں ڈوب گیا تھا ۔ اپنے یقین کو چھوڑ واہموں میں الجھ گیا تھا ۔ کیسے یہ حقیقت کھلی ۔ اس کہانی کے کسی موڑ پر یہ بات بھی کھلے گی ۔ )

یقین اور واہمے میں فرق کیسے کیا جائے؟ واہمہ بھی یقین اور یقین بھی واہمہ لگے :)

یہ میرا اپنا یقین ہے کہ میں نے ان دونوں مزاروں پر ہی نہیں بلکہ جس بھی مزار پر حاضری ۔ وہاں کے صاحب مزار نے مجھے اپنی کہانی خود ہی سنائی ۔ اب میں کیسے کسی اور کو سناؤں جب کہ یہ صرف میری سوچ و وجدان کے درمیان کی بات ہے ۔ اک بات جس پر پوری شدت سے یقین ہے کہ " جنہاں کیتیاں نیک کمائیاں دیوے اونہاں دے سدا ای بلدے "

کیا ہم بھی ایسی کہانی سن سکتے ہیں؟ وجدان کی بات پر سب یہ کیوں کہے دیتے کہ کسی اور کو کیا سناؤں ، جب تجربات سنادئیے تو وجدان کی بات کیوں نہیں ؟ تو انہوں نے آپ کو سنائی اور ہم تو جائیں ،ہمیں کوئی کچھ نہیں سناتا ہے


ک وہم و خیال جو صفت تغیر کا حامل اور حادثے کے سبب اپنی صورت بدلنے پر مجبور اس کو ہم قدرت کہہ سکتے ہیں اور قدرت اس کائنات میں اپنی صفت تغیر کے حادثاتی دکھائی دینے والے جلوے بکھیرتی رہتی ہے ۔
وہم و خیال کیسے کیسے بھیس بدلتا ہے اور حادثات اسکی شکل بدل دیتے ۔۔۔۔ ان حادثات کو جان کے قدرت بدلی بھی تو جاسکتی ہے ؟


کچھ سیاسی سوالات:
  • آپ کو ذوالفقار علی بھٹو کیوں پسند ہے؟
  • نواز شریف اور مریم نواز کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں ؟
  • عمران خان کیوں پسند ہے ؟ کیا تبدیلی آئی ہے عمران خان کی وجہ سے
  • آپ کس پارٹی کوووٹ دینا چاہیں گے؟
درج ذیل بالا اشعار پر آپ کے تاثرات : کچھ ادبی سوالات

اتنا سچا ایسا جھوٹا اور ملے گا کون تجھے
تو مٹی کا ایک بدن ہے میں تجھ کو گلفام کہوں

جو مرا دل بھی سجا دے مرے چہرے پہ قتیلؔ
وہ مصور مری تصویر بنانے آئے


مری روشنی ترے خد ّو خال سے مختلف تو نہیں مگر
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے


پیتا کہاں تھا صبح ازل میں بھلا عدمؔ
ساقی کے اعتبار پہ لہرا کے پی گیا

میں خیال ہوں کسی اور کا ، مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سرِ آئینہ میرا عکس ہے ، پسِ آئینہ کوئ اور ہے


مجھ کو اوہام بخشنے والے
تجھ پہ ایمان لا رہا ہوں میں
  • آپ نے کون کون سی انگریزی کتب کا اردو ترجمے کے ساتھ پڑھ رکھی ہیں اور کس سے متاثر ہیں ؟
    • کونسے ادیب پسند ہیں اور اپنی کس سوچ کے باعث پسند ہیں؟
    • کس شاعر کے کلام نے آپ کے وجدان کو بار بار حرکت دی ؟
گزشتہ انٹرویو سے سوالات
  • تلاش میں ہیں " آب حیات " کی
    [*]وہ رب سچا چاہے گا تو حیات جاودانی پا ہی لیں گے ۔

  • آبِ حیات سے کیا مراد ہے؟ اس کی سعی کی ، آپ نے پیچھے کہا کہ ہم اپنی سعیِ مسلسل سے قدرت کو مجبور کردیتے ہیں کہ وہ ہمیں نوازے
  • ہماری پیشانی پر ایسے کون سے خطوط ہیں جو ہمیں سامنے والے کے مستقبل کا پتا دیتے ہیں ، تل کے بارے میں بتائیے کیا حقیقت ہے ؟
  • بابا رمضان اور ویلے تایا جی مجذوب تھے ، لوگ ان کو پتھر مارتے تھے ، یعنی کہ عقل و فہم سے ماوراء ، تو آپ کی ان سے بات زبان سے ہوتی تھی یا ٹیلی پیتھی سے ، کیونکہ آپ ٹیلی پیتھی پر بھی دسترس رکھتے ہیں ۔۔مجھے لگتا ہے کہ بابا رمضان اور ویلے تایا جی نے آپ کو کچھ نہ کچھ ایسا ضرور دیا ہے ، جس کے باعث ان کا نام یہاں تحریر ہوا ہے ، آپ نے ان سے کیا فیض پایا؟

  • آپکا پسندیدہ اقتباس یا اقوال؟
  • انشاء جی کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں
  • آپ قدرت اللہ شہاب کی کس بات سے متاثر ہیں
کچھ سوال محفل کے جانب سے ۔
  • محفل میں ان صاحب علم ہستیوں کے نام لیں جن سے آپ نے استفادہ حاصل کیا
  • آپ کا پسندیدہ زمرہ ؟
  • کونسا محفلی شاعر پسند ہے ؟
  • کس مدیر کی کاوشوں کو سراہیں گے
  • الف عین محترم کے نام کوئی پیغام ؟
  • کس محفلی ہستی سے گفتگو کرنے میں لطف آتا ہے
  • محفل کے پسندیدہ مزاح نگار اور کیوں؟
  • کن محفلین سے جلدی مانوس ہوئے
  • آج کی نسل کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
کچھ سوال روزمرہ کے حوالے سے

  • بیٹی ناراض ہوجائے تو کیسے مناتے ہیں
  • دیارِ غیر میں رہتے ہوئے بچوں کے حوالے سے کیا کمی کوئی محسوس کی کہ آپ سوچتے اگر میں پاکستان میں مقیم ہوتا تو ایسا ہوتا
  • روزمرہ کھانے میں کیا پسند ہے
  • صحت مند رہنے کے لیے کیا ضروری اقدامات کرنے چاہیے
نوٹ: درج ذیل ہائی لائٹڈ کو مدنظر رکھتے تسلسل سے جواب دیجئے ، تاکہ سوالات کا سلسلہ برقرار رہے ، سوالات کہیں سے بھی شروع کیے جاسکتے ہیں
 
آخری تدوین:

باباجی

محفلین
” بولو بولو بولو جئے شاہ”
” جبل میں شاہ”
” نورانی نور ہے ہر بلا دور ہے”
بلوچستان کے ضلع خضدار میں پہاڑیوں سے گھرا اک پانچ سو سالہ مزار ہے ۔ جہاں ہو وقت یہی صدائیں گونجتی ہیں ۔ یہ مزار حضرت بلاول شاہ نورانی کا ہے ۔ جو مجذوب و مست ہوتے ہوئے بھی اللہ کے ولی کہلائے ۔ اک زمانہ ان کا عقیدت مند ہے ۔ بہت سی کہاوتیں بھی منسوب ہیں ان کی ہستی سے ۔ وقت کا عجب کھیل کہ وہ جو اپنے وقت میں اللہ کے ولی کہلائے ۔ دور دور سے جن کے پاس آکر ان کی تعلیمات پر عمل کرتے دکھی انسانیت سکون پاتی رہی ۔ ۔ ان کے بعد آنے والوں نے اس سکون کو نشے سے منسلک کر دیا ۔ شیر کا کیا شکار اکثر گیڈروں کی ملکیت بن جاتا ہے ۔ چرس گانجا اور بھنگ سچ یہی ہے کہ انسان سکون کے لئے استعمال کرتا ہے لیکن بد قسمتی سے اس کا رہا سہا سکون بھی غارت ہو جاتا ہے۔
میں جب اس مزار پر گیا دو ہی سبب ہوتے تھے ۔ اک تو نشہ اور منشیات فروشوں سے تعلقات ۔۔۔ اور دوسرے فجر سے کچھ پہلے کچھ مخصوص ذکر کرتے صاحب مزار سے فیض پانے کی کوشش کرنا ۔ اب نشہ میری پہلی ترجیع ہوتی تھی ۔ سو فیض کہاں سے ملتا ؟
اک بات ضرور ہے اس مزار پر بیٹھے اک سوچ بار بار ذہن میں آتی تھی ۔ کہ اگر انسان پیغمبروں کی بتائی راہ پر اوکھے سوکھے چلتا رہے تو منزل پر پہنچ سکون ملتا ہے ۔ اگر شیطان کی سجھائی راہ چلے تو منزل پر پہنچ بے سکونی ہی ملتی ہے ۔ یہ اک مجذوب ہستی اپنے جنوں میں مجنون ہوتے بھی آخر کیسے اتنی عقیدت کا مرکز بنی ۔ ؟
میرے ذاتی احساس سے صاحب مزار واقعی اک انسان دوست سچے انسان تھے۔
سخی سید بلاول شاہ نورانی المعروف جئے شاہ
شاہ جی آپ نے ان کا ذکر خیر کرہی دیا تو میں بھی بتاتا چلوں کچھ ، گوکہ اب میں مادیت پر زیادہ رکھتا ہوں حتیٰ کہ یقین بھی مادی شکل میں ہی آئے تو مانتا ہوں پر جوانی کے چند تجربات شیئر کرتا ہوں آپ سے ۔۔
میری پیدائش تو پنجاب کی ہے پر پلا بڑھا میں کراچی میں ، میرے کچھ سیانا ہونے پر ( 22،23) سال کی عمر تھی میری جب والد صاحب نے نوکری کے ساتھ ساتھ کاروبار کرنے کا ارادہ کیا اور اندرون سندھ چند ایکڑ پر بنا پان کے پتے کا فارم ٹھیکے پر لیا ۔
اہلیان کراچی جانتے ہوں گے کہ پان کی منڈی کراچی میں لیمارکیٹ اور مراد میمن گوٹھ میں ہے ، تو میں اپنے فارم کا مال مہینے میں ایک بار لیمارکیٹ دیتا تھا ورنہ میمن گوٹھ دیتا تھا کیوں کہ وہ مجھے قریب پڑتا تھا ۔
ہوا یوں کہ ایک دن میں کچھ پیسوں کی ریکوری کرکے گھر واپس جانے کیلئے بس کے انتظار میں تھا تو وہاں ایک بندہ لمبی سی بس کے پاس کھڑا شاہ نورانی شاہ نورانی کی آوازیں لگا رہا تھا ، میں جیب تھپ تھپائی تو پیسوں کی گرمی نے کہا کہ چل پر سیر ہوجائے ۔ موبائل اس زمانے میں امراء پاس ہوتا تھا سو قریبی پی سی او سے گھر فون کرکے چھوٹے بھائی کو اطلاع دی کہ امی کو تب بتانا جب وہ پوچھیں اور بس میں بیٹھ گیا اوائل نومبر تھا تو ایک گرم چادر خریدلی تین چار پیکٹ سگریٹ کے لیئے پانی کی بوتل لی اور سوار ہوگیا بس میں ۔
بس یہ ایکسائٹمنٹ تھی کہ نئی جگہ دیکھی جائے اور ہمارے ننھیال میں اکثر چکر لگانے والے ایک درویش بابا اللہ رکھا سے ملا جائے ۔ خیر جی بس چلی اور منگھوپیر دربار کے پاس سے ہوتی ہوئی پکی سڑک پر آگے جاکر اچانک ہی کچے راستے پر مڑگئی ۔ یوں ایک دم راستہ نیا ہوگیا ۔
خیر بس میں سیٹوں پر اناج اور سبزی کی بوریاں تھی اور ان بوریوں پہ ہم بیٹھے تھے ۔ چرس دھڑادھڑ پی جارہی تھی اور ہر تھوڑی دیر کوئی نہ کوئی نعرہ مار دیتا تھا کہ بولو بولو بولو جئے شاہ ، اور سب مرد و زن ہم آواز جواب دیتے تھےکہ جبل بہ شاہ ۔
کراچی سے اس وقت تقریباً چھہ گھنٹے لگتے تھے شاہ نورانی پہنچنے پر راستے میں ناگن چڑھائی نامی بدنام زمانہ سڑک کا حصہ بھی دیکھا جہاں اکثر و بیشتر جان لیوا حادثات ہوتے رہتے ہیں ۔۔ خیر اللہ اللہ کرکے شاہ نورانی پہنچے جہاں بس سے اتارے وہاں سامنے کسی محبت فقیر نامی ہستی کا مرقد تھا ۔ معلوم پڑا کہ پہلے یہاں حاضری اور پھر کیکڑے (پرانے زمانے کی ٹرک نما سواری جو ریگستان و پہاڑی علاقوں یکساں کارآمد ہے) میں سوار ہوکر شاہ نورانی کے مرقد پر جانا ہوگا ۔ مرتے کیا نہ کرتے حاضری دی کیکڑے میں سوار ہوئے اور چند لمحوں میں وہاں پہنچ گئے ۔
شاہ نورانی کا علاقہ بنجر بیاباں خشک سیاہ پہاڑی سلسلے پر مشتمل ہے جہاں دن کو سورج آگ برساتا ہے اور رات کو پہاڑ گرمی خارج کرتے ہیں پر میں چونکہ نومبر میں گیا تھا تو کافی زیادہ ٹھنڈ ہوگئی تھی ۔
خیر جی وہاں رونق ہی الگ تھی بجلی وہاں ہے نہیں تو ڈیزل جنریٹرز کی ڈھگ ڈھگ نے شور مچایا ہوا تھا ۔ ساتھ میں ہوٹلوں پر لکڑی کی آگ پر بنتے کھانوں کی مہک اور گیلی لکڑی کے دھوئیں نے آنکھوں کو خوب سزا دی پر شہر سے دور یہ ماحول بہت اچھا لگا ۔ اتنے میں ایک بندے نے آکر اعلیٰ کوالٹی کی چرس کی آفر کی تو میں نے کہا کہ بھائی میں مکہ سے تو آیا نہیں پر اتنا بھی بے عقل و شعور نہیں کہ جگہ جن سے منسوب ہے ان کا احترام نہ کروں تو وہ مجھے پاگل سمجھنے والی نظر سے دیکھتا ہوا چلا گیا ۔ خیر سب سے پہلے پیٹ پوجا کی پھر لکڑی کی آگ پہ بنی چائے کے دو تین کپ پیئے پھر صاحب کے مرقد پہ حاضری دی فاتحہ پڑھی اور ملحقہ مسجد کے صحن میں آکر چاروں طرف دیکھنے لگا ۔
مجھے دراصل قدرت کی آواز سننے کا اسے محسوس کرنے کا شوق تھا اور مجھے لگتا بھی تھا میں ایسا کرسکتا ہوں ۔
اور وہاں قدرت وافر میسر تھی اونچے اونچے کالے ہیبت ناک پہاڑ ان سے اوپر انتہائی صاف شفاف تاروں بھرا آسمان ایسا لگتا تھا جیسے یہ تارے آپ کے اوپر چھارہے ہوں نزدیک آتے جارہے ہوں ۔ خیر اتنے میں ٹھنڈ چادر کی برداشت سے بھی باہر ہوگئی اور نیند نے بھی کہا میں آگئی ہوں مجھ سے ملو ۔
سوچا کسی سے مدد لی جائے کیوں کہ وہاں بہت لوگ تھے فیملیز تھیں ان سے کوئی بستر چادر مانگنے کا ارادہ کیا تھا کہ ایک بندے نے کہا بھائی سردی اور بڑھ جائے گی جاؤ ہوٹل سے بستر کرائے پر لو اور کہیں بچھاکر سوجاؤ یہ سنتے ہی ہوٹل کی جانب بھاگا پہلے بستر کرائے پر لیا جو مختلف اقسام کی بدبوؤں اور خوشبوؤں کے امتزاج کامرکز تھا اسے قبضہ میں کرکے پھر چائے پی اور پھر جگہ کی تلاش میں نکلا کوشش تھی کہ کسی ہوٹل کے چھپر تلے جگہ مل جائے تاکہ سردی سے بچ سکوں پر وہاں پہلے ہی نشئی حضرات کا قبضہ ہوچکا تھا ۔
پھر مسجد کی طرف نکلا تو وہاں اندر کیا باہر صحن میں بھی جگہ نہ تھی اتنے میں مسجد کے صحن سے ملحق چھوٹے سے قبرستان پر نظر پڑی تو دیکھا وہاں قبروں کے درمیان جگہوں پر بھی لوگ بستر بچھا سوئے ہوئے تھے لہذا ڈرتے ڈرتے میں نے بھی دو قبور کے درمیان جگہ ڈھونڈی اور جو منہ میں آیا پڑھتے ہوئے سونے کیلئے لیٹ گیا اور یقین کیجیئے بہت سکون کی نیند آئے مردے بالکل تنگ نہیں کرتے نا خراٹے لیتے ہیں نا کروٹ لیتے ہیں بالکل خاموشی اور سکون سے سونے دیتے ہیں ۔
اب آتا ہوں اس بات کی طرف جو مجھے آج بھی Fantasies کرتی ہے ۔وہ یہ کہ صبح صادق کا وقت تھا اندھیرا اجالا آپس میں باہم پیوست تھے اور ایک دوسرے سے الوداعی معانقہ کررہے تھے ۔ بڑا افسانوی سا ماحول تھا اچانک ہی میری آنکھ کھل گئی جیسے انتہائی خاموشی نے مجھے سرگوشی کرکے جگادیا ایک بار تو مجھے لگا جیسے خواب سا ہے کیونکہ میں کبھی کھلے آسمان تلے نہیں سویا اور یہاں تو کھلے آسمان تلے دو قبور کے درمیان تیسرا مردہ میں تھا جو کہ قبر سے باہر تھا ۔
خیر میں چت لیٹا آسمان کو گھور رہا تھا کہ اچانک ہی قریب کہیں کوئی جنگلی مور بولنا شروع ہوا اور اس قدر گہری خاموشی میں اس آواز نے سب کچھ ڈھانپ لیا اور صرف قدرت کی آواز پہاڑوں میں گونجتی رہی کچھ دیر تک بولنے کے بعد وہ پھڑپھڑاتا ہوا کہیں پہاڑوں میں غائب ہوگیا اور پھر سکوت طاری ہوگیا ۔
اتنے میں مسجد کے اسپیکر میں پہلے کھڑکھڑاہٹ ہوئی اور چند لمحوں بعد پہلے مؤذن نے درود سلام پڑھا پھر اذان دی ، سچی بات یہ ہے کہ اس اذان کا فسوں بھی نہیں بھولنے والا خیر میں لیٹا رہا قدرت کو محسوس کرتا رہا ۔ وہ صوفی حضرات کیا کہتے ہیں کہ ایک نماز مسجد میں ہورہی تھی وہیں ایک اور نماز کہیں اندر باطن میں ہورہی تھی
اور پھر جب کسی نعت خواں نے سندھی میں بہت خوبصورت طرز پہ نعت پڑھی تو میں بے اختیار اٹھ کر بیٹھ گیا اور جیسے نشئی حالت نشے میں ڈوبتا ابھرتا ہے ویسی حالت ہوگئی ۔
کچھ دیر بعد تیز چبھنے والی دھوپ نکلی تو اٹھنا پڑا ۔
بستر سمیٹا ہوٹل والے کو واپس کیا پھر مسجد جاکر وضوخانے سے منہ ہاتھ دھویا یخ ٹھنڈے پانی سے اور ہوٹل آکر انڈہ پراٹھا اور چائے کا ناشتہ کیا پھر سگریٹ سلگاکر سوچا کہ واپسی کی جائے اتنے میں یاد آیا کہ بابا اللہ رکھا سے ملنا ہے جو لاہوت لامکاں نامی مقام پر جاتے ہوئے کہیں مل جائیں گے جن کے ذمے وہاں سیمنٹ کی سیڑھیاں بنوانا تھا کیونکہ لاہوت لامکاں جاتے ہوئے سات پہاڑ کراس کرنے ہوتے ہیں اور راستہ بلاشبہ کافی خطرناک تھا خیر جی اٹھا اور ہولیا لاہوتیوں کے راستے پر اور دن کی روشنی میں وہاں کا قدرتی حسن دیکھا ۔
اونچے کالے پہاڑوں کے بیچ ایک چھوٹی بستی ، کسی ہستی کا مزار ، مسجد ، چھوٹے بڑے چھپر ہوٹل ، مزار کے پیچھے کی طرف ایک احاطہ جہاں بڑا سا الاؤ روشن ہوتا ہے وہیں پر جو عجیب بات مجھے لگی وہ یہ سیڑھیاں اوپر کی طرف جارہی تھیں اور ایسی سیڑھیاں بنانا کوئی انسانی کام نہیں لگ رہا تھا اور اگر انسانی تھا بھی تو کام نہیں کارنامہ ہی تھا خیر وہاں سے کچھ اوپر ایک غار تھا جہاں بقول بیان کردہ قصے کے مطابق کسی گوکل نامی دیو کو صاحب مزار نے پریوں کو تنگ کرنے کی پاداش میں بند کیا ہوا تھا میں وہاں گیا اور غار کے سامنے موجود پتھر پہ کان رکھا تو رونگھٹے کھڑے ہوگئے اور تمام حسیات ایک جگہ سمٹ آئیں ( یہ دراصل اس بارے سنے ہوئے قصے کی وجہ سے ہوا تھا )
واپس آتا ہوں بابا اللہ رکھا سے ملاقات پہ تو لاہوتیوں کے رستے پہ ہولیا پہلے پہاڑ پر موجود راستے پہ قدم رکھا اور کچھ دیر چلنے کے بعد پتہ چلا کہ بھائی یہ لاہوتی راستہ تو ہرگز نہیں کوئی چھوٹا موٹا پل صراط قسم کا ہے اور وہاں بلوچی کھیڑی پہننے کا فائدہ بھی پتہ چلا کہ ٹائر سول کی بھاری چپل کتنی کارآمد ہے پہاڑوں پہ ۔ تو میں چلتا رہا پسینہ نکلتا رہا حتیٰ کہ کندھوں پہ موجود چادر ، تن کے کپڑے اور خود اپنا آپ بوجھ محسوس ہونے لگا تھکن سے اور راستہ تھا کہ ختم نہیں ہورہا تھا اور بابا اللہ رکھا مل نہیں رہا تھا کہ خیال آیا کسی درویش یا مست سے ہی پوچھ لوں شاید پتہ مل جائے تو کافی دیر بعد ایک ملنگ ملا اس سے ڈرتے ڈرتے پوچھا تو فوراً کہنے کہ وہ لمبا سا پنجابی ہرے کپڑے پہنتا ہے ننگے پاؤں پھرتا ہے ، یہ سن جو خوشی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے کہ چلو بابا اللہ رکھا کے پاس بیٹھ کر چائے پیوں گا کھانا کھاؤں گا اور پھر واپس ۔
میں نے فوراً اقرار میں سر ہلا دیا تو اس نے کہا کہ بس تھوڑا آگے ہی بیٹھا ہوا ہوگا (وہ تھوڑا آگے آدھے سے کچھ ہی کم تھا) خیر جی میں پہنچ بابا اللہ رکھا کے پاس پہلے تو وہ مجھے دیکھ کر ایک دم حیران ہوا بہت زیادہ (اس کے آگے بیان کرنا معیوب لگ رہا ہے کہ اس نے احترام میں کیا حرکات کیں کیونکہ وہ میرے نانا ابو کا معتقد تھا)
خیر میں نے کہا کہ بابا بھوکا مررہاہوں استقبال ہوگیا ہو تو کچھ کھلاؤ جلدی سے اسنے فوراً کسی مزدور کو آواز دی اور کھانے کاکہا اور بے حد لذیذ سبزی اور روٹیاں پانچ منٹ میں آگئیں اتنے میں اسنے جھونپڑی کے کونے میں موجود چولہے پر چائے بنائی پھر یہاں وہاں کی باتیں کرتے کافی وقت ہوگیا تو میں نے کہا بابا اب میں واپس جاتا ہوں تو اس نے کہا کہ یہاں تک آگئے ہو تو لاہوت بھی دیکھ لیتے بلکہ وہاں رات گزارتے ہیں اور نایاب شاہ جی آپ کو پتہ ہوگا کہ وہاں شام کو پانچ بجے کے بعد کسی کو رکنے نہیں دیتے ۔۔
وہاں کیا ہوا کیسی رات گزری کیا تجربہ رہا اسے رہنے دیتے ہیں کیوں کہ میں لکھ لکھ کر تھک گیا ہوں یہ اتنی لمبی کہانی بھی نایاب شاہ جی نے جب شاہ نورانی کا ذکر کیا تو دل کیا کہ بیان کروں ۔۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
سخی سید بلاول شاہ نورانی المعروف جئے شاہ
شاہ جی آپ نے ان کا ذکر خیر کرہی دیا تو میں بھی بتاتا چلوں کچھ ، گوکہ اب میں مادیت پر زیادہ رکھتا ہوں حتیٰ کہ یقین بھی مادی شکل میں ہی آئے تو مانتا ہوں پر جوانی کے چند تجربات شیئر کرتا ہوں آپ سے ۔۔
میری پیدائش تو پنجاب کی ہے پر پلا بڑھا میں کراچی میں ، میرے کچھ سیانا ہونے پر ( 22،23) سال کی عمر تھی میری جب والد صاحب نے نوکری کے ساتھ ساتھ کاروبار کرنے کا ارادہ کیا اور اندرون سندھ چند ایکڑ پر بنا پان کے پتے کا فارم ٹھیکے پر لیا ۔
اہلیان کراچی جانتے ہوں گے کہ پان کی منڈی کراچی میں لیمارکیٹ اور مراد میمن گوٹھ میں ہے ، تو میں اپنے فارم کا مال مہینے میں ایک بار لیمارکیٹ دیتا تھا ورنہ میمن گوٹھ دیتا تھا کیوں کہ وہ مجھے قریب پڑتا تھا ۔
ہوا یوں کہ ایک دن میں کچھ پیسوں کی ریکوری کرکے گھر واپس جانے کیلئے بس کے انتظار میں تھا تو وہاں ایک بندہ لمبی سی بس کے پاس کھڑا شاہ نورانی شاہ نورانی کی آوازیں لگا رہا تھا ، میں جیب تھپ تھپائی تو پیسوں کی گرمی نے کہا کہ چل پر سیر ہوجائے ۔ موبائل اس زمانے میں امراء پاس ہوتا تھا سو قریبی پی سی او سے گھر فون کرکے چھوٹے بھائی کو اطلاع دی کہ امی کو تب بتانا جب وہ پوچھیں اور بس میں بیٹھ گیا اوائل نومبر تھا تو ایک گرم چادر خریدلی تین چار پیکٹ سگریٹ کے لیئے پانی کی بوتل لی اور سوار ہوگیا بس میں ۔
بس یہ ایکسائٹمنٹ تھی کہ نئی جگہ دیکھی جائے اور ہمارے ننھیال میں اکثر چکر لگانے والے ایک درویش بابا اللہ رکھا سے ملا جائے ۔ خیر جی بس چلی اور منگھوپیر دربار کے پاس سے ہوتی ہوئی پکی سڑک پر آگے جاکر اچانک ہی کچے راستے پر مڑگئی ۔ یوں ایک دم راستہ نیا ہوگیا ۔
خیر بس میں سیٹوں پر اناج اور سبزی کی بوریاں تھی اور ان بوریوں پہ ہم بیٹھے تھے ۔ چرس دھڑادھڑ پی جارہی تھی اور ہر تھوڑی دیر کوئی نہ کوئی نعرہ مار دیتا تھا کہ بولو بولو بولو جئے شاہ ، اور سب مرد و زن ہم آواز جواب دیتے تھےکہ جبل بہ شاہ ۔
کراچی سے اس وقت تقریباً چھہ گھنٹے لگتے تھے شاہ نورانی پہنچنے پر راستے میں ناگن چڑھائی نامی بدنام زمانہ سڑک کا حصہ بھی دیکھا جہاں اکثر و بیشتر جان لیوا حادثات ہوتے رہتے ہیں ۔۔ خیر اللہ اللہ کرکے شاہ نورانی پہنچے جہاں بس سے اتارے وہاں سامنے کسی محبت فقیر نامی ہستی کا مرقد تھا ۔ معلوم پڑا کہ پہلے یہاں حاضری اور پھر کیکڑے (پرانے زمانے کی ٹرک نما سواری جو ریگستان و پہاڑی علاقوں یکساں کارآمد ہے) میں سوار ہوکر شاہ نورانی کے مرقد پر جانا ہوگا ۔ مرتے کیا نہ کرتے حاضری دی کیکڑے میں سوار ہوئے اور چند لمحوں میں وہاں پہنچ گئے ۔
شاہ نورانی کا علاقہ بنجر بیاباں خشک سیاہ پہاڑی سلسلے پر مشتمل ہے جہاں دن کو سورج آگ برساتا ہے اور رات کو پہاڑ گرمی خارج کرتے ہیں پر میں چونکہ نومبر میں گیا تھا تو کافی زیادہ ٹھنڈ ہوگئی تھی ۔
خیر جی وہاں رونق ہی الگ تھی بجلی وہاں ہے نہیں تو ڈیزل جنریٹرز کی ڈھگ ڈھگ نے شور مچایا ہوا تھا ۔ ساتھ میں ہوٹلوں پر لکڑی کی آگ پر بنتے کھانوں کی مہک اور گیلی لکڑی کے دھوئیں نے آنکھوں کو خوب سزا دی پر شہر سے دور یہ ماحول بہت اچھا لگا ۔ اتنے میں ایک بندے نے آکر اعلیٰ کوالٹی کی چرس کی آفر کی تو میں نے کہا کہ بھائی میں مکہ سے تو آیا نہیں پر اتنا بھی بے عقل و شعور نہیں کہ جگہ جن سے منسوب ہے ان کا احترام نہ کروں تو وہ مجھے پاگل سمجھنے والی نظر سے دیکھتا ہوا چلا گیا ۔ خیر سب سے پہلے پیٹ پوجا کی پھر لکڑی کی آگ پہ بنی چائے کے دو تین کپ پیئے پھر صاحب کے مرقد پہ حاضری دی فاتحہ پڑھی اور ملحقہ مسجد کے صحن میں آکر چاروں طرف دیکھنے لگا ۔
مجھے دراصل قدرت کی آواز سننے کا اسے محسوس کرنے کا شوق تھا اور مجھے لگتا بھی تھا میں ایسا کرسکتا ہوں ۔
اور وہاں قدرت وافر میسر تھی اونچے اونچے کالے ہیبت ناک پہاڑ ان سے اوپر انتہائی صاف شفاف تاروں بھرا آسمان ایسا لگتا تھا جیسے یہ تارے آپ کے اوپر چھارہے ہوں نزدیک آتے جارہے ہوں ۔ خیر اتنے میں ٹھنڈ چادر کی برداشت سے بھی باہر ہوگئی اور نیند نے بھی کہا میں آگئی ہوں مجھ سے ملو ۔
سوچا کسی سے مدد لی جائے کیوں کہ وہاں بہت لوگ تھے فیملیز تھیں ان سے کوئی بستر چادر مانگنے کا ارادہ کیا تھا کہ ایک بندے نے کہا بھائی سردی اور بڑھ جائے گی جاؤ ہوٹل سے بستر کرائے پر لو اور کہیں بچھاکر سوجاؤ یہ سنتے ہی ہوٹل کی جانب بھاگا پہلے بستر کرائے پر لیا جو مختلف اقسام کی بدبوؤں اور خوشبوؤں کے امتزاج کامرکز تھا اسے قبضہ میں کرکے پھر چائے پی اور پھر جگہ کی تلاش میں نکلا کوشش تھی کہ کسی ہوٹل کے چھپر تلے جگہ مل جائے تاکہ سردی سے بچ سکوں پر وہاں پہلے ہی نشئی حضرات کا قبضہ ہوچکا تھا ۔
پھر مسجد کی طرف نکلا تو وہاں اندر کیا باہر صحن میں بھی جگہ نہ تھی اتنے میں مسجد کے صحن سے ملحق چھوٹے سے قبرستان پر نظر پڑی تو دیکھا وہاں قبروں کے درمیان جگہوں پر بھی لوگ بستر بچھا سوئے ہوئے تھے لہذا ڈرتے ڈرتے میں نے بھی دو قبور کے درمیان جگہ ڈھونڈی اور جو منہ میں آیا پڑھتے ہوئے سونے کیلئے لیٹ گیا اور یقین کیجیئے بہت سکون کی نیند آئے مردے بالکل تنگ نہیں کرتے نا خراٹے لیتے ہیں نا کروٹ لیتے ہیں بالکل خاموشی اور سکون سے سونے دیتے ہیں ۔
اب آتا ہوں اس بات کی طرف جو مجھے آج بھی Fantasies کرتی ہے ۔وہ یہ کہ صبح صادق کا وقت تھا اندھیرا اجالا آپس میں باہم پیوست تھے اور ایک دوسرے سے الوداعی معانقہ کررہے تھے ۔ بڑا افسانوی سا ماحول تھا اچانک ہی میری آنکھ کھل گئی جیسے انتہائی خاموشی نے مجھے سرگوشی کرکے جگادیا ایک بار تو مجھے لگا جیسے خواب سا ہے کیونکہ میں کبھی کھلے آسمان تلے نہیں سویا اور یہاں تو کھلے آسمان تلے دو قبور کے درمیان تیسرا مردہ میں تھا جو کہ قبر سے باہر تھا ۔
خیر میں چت لیٹا آسمان کو گھور رہا تھا کہ اچانک ہی قریب کہیں کوئی جنگلی مور بولنا شروع ہوا اور اس قدر گہری خاموشی میں اس آواز نے سب کچھ ڈھانپ لیا اور صرف قدرت کی آواز پہاڑوں میں گونجتی رہی کچھ دیر تک بولنے کے بعد وہ پھڑپھڑاتا ہوا کہیں پہاڑوں میں غائب ہوگیا اور پھر سکوت طاری ہوگیا ۔
اتنے میں مسجد کے اسپیکر میں پہلے کھڑکھڑاہٹ ہوئی اور چند لمحوں بعد پہلے مؤذن نے درود سلام پڑھا پھر اذان دی ، سچی بات یہ ہے کہ اس اذان کا فسوں بھی نہیں بھولنے والا خیر میں لیٹا رہا قدرت کو محسوس کرتا رہا ۔ وہ صوفی حضرات کیا کہتے ہیں کہ ایک نماز مسجد میں ہورہی تھی وہیں ایک اور نماز کہیں اندر باطن میں ہورہی تھی
اور پھر جب کسی نعت خواں نے سندھی میں بہت خوبصورت طرز پہ نعت پڑھی تو میں بے اختیار اٹھ کر بیٹھ گیا اور جیسے نشئی حالت نشے میں ڈوبتا ابھرتا ہے ویسی حالت ہوگئی ۔
کچھ دیر بعد تیز چبھنے والی دھوپ نکلی تو اٹھنا پڑا ۔
بستر سمیٹا ہوٹل والے کو واپس کیا پھر مسجد جاکر وضوخانے سے منہ ہاتھ دھویا یخ ٹھنڈے پانی سے اور ہوٹل آکر انڈہ پراٹھا اور چائے کا ناشتہ کیا پھر سگریٹ سلگاکر سوچا کہ واپسی کی جائے اتنے میں یاد آیا کہ بابا اللہ رکھا سے ملنا ہے جو لاہوت لامکاں نامی مقام پر جاتے ہوئے کہیں مل جائیں گے جن کے ذمے وہاں سیمنٹ کی سیڑھیاں بنوانا تھا کیونکہ لاہوت لامکاں جاتے ہوئے سات پہاڑ کراس کرنے ہوتے ہیں اور راستہ بلاشبہ کافی خطرناک تھا خیر جی اٹھا اور ہولیا لاہوتیوں کے راستے پر اور دن کی روشنی میں وہاں کا قدرتی حسن دیکھا ۔
اونچے کالے پہاڑوں کے بیچ ایک چھوٹی بستی ، کسی ہستی کا مزار ، مسجد ، چھوٹے بڑے چھپر ہوٹل ، مزار کے پیچھے کی طرف ایک احاطہ جہاں بڑا سا الاؤ روشن ہوتا ہے وہیں پر جو عجیب بات مجھے لگی وہ یہ سیڑھیاں اوپر کی طرف جارہی تھیں اور ایسی سیڑھیاں بنانا کوئی انسانی کام نہیں لگ رہا تھا اور اگر انسانی تھا بھی تو کام نہیں کارنامہ ہی تھا خیر وہاں سے کچھ اوپر ایک غار تھا جہاں بقول بیان کردہ قصے کے مطابق کسی گوکل نامی دیو کو صاحب مزار نے پریوں کو تنگ کرنے کی پاداش میں بند کیا ہوا تھا میں وہاں گیا اور غار کے سامنے موجود پتھر پہ کان رکھا تو رونگھٹے کھڑے ہوگئے اور تمام حسیات ایک جگہ سمٹ آئیں ( یہ دراصل اس بارے سنے ہوئے قصے کی وجہ سے ہوا تھا )
واپس آتا ہوں بابا اللہ رکھا سے ملاقات پہ تو لاہوتیوں کے رستے پہ ہولیا پہلے پہاڑ پر موجود راستے پہ قدم رکھا اور کچھ دیر چلنے کے بعد پتہ چلا کہ بھائی یہ لاہوتی راستہ تو ہرگز نہیں کوئی چھوٹا موٹا پل صراط قسم کا ہے اور وہاں بلوچی کھیڑی پہننے کا فائدہ بھی پتہ چلا کہ ٹائر سول کی بھاری چپل کتنی کارآمد ہے پہاڑوں پہ ۔ تو میں چلتا رہا پسینہ نکلتا رہا حتیٰ کہ کندھوں پہ موجود چادر ، تن کے کپڑے اور خود اپنا آپ بوجھ محسوس ہونے لگا تھکن سے اور راستہ تھا کہ ختم نہیں ہورہا تھا اور بابا اللہ رکھا مل نہیں رہا تھا کہ خیال آیا کسی درویش یا مست سے ہی پوچھ لوں شاید پتہ مل جائے تو کافی دیر بعد ایک ملنگ ملا اس سے ڈرتے ڈرتے پوچھا تو فوراً کہنے کہ وہ لمبا سا پنجابی ہرے کپڑے پہنتا ہے ننگے پاؤں پھرتا ہے ، یہ سن جو خوشی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے کہ چلو بابا اللہ رکھا کے پاس بیٹھ کر چائے پیوں گا کھانا کھاؤں گا اور پھر واپس ۔
میں نے فوراً اقرار میں سر ہلا دیا تو اس نے کہا کہ بس تھوڑا آگے ہی بیٹھا ہوا ہوگا (وہ تھوڑا آگے آدھے سے کچھ ہی کم تھا) خیر جی میں پہنچ بابا اللہ رکھا کے پاس پہلے تو وہ مجھے دیکھ کر ایک دم حیران ہوا بہت زیادہ (اس کے آگے بیان کرنا معیوب لگ رہا ہے کہ اس نے احترام میں کیا حرکات کیں کیونکہ وہ میرے نانا ابو کا معتقد تھا)
خیر میں نے کہا کہ بابا بھوکا مررہاہوں استقبال ہوگیا ہو تو کچھ کھلاؤ جلدی سے اسنے فوراً کسی مزدور کو آواز دی اور کھانے کاکہا اور بے حد لذیذ سبزی اور روٹیاں پانچ منٹ میں آگئیں اتنے میں اسنے جھونپڑی کے کونے میں موجود چولہے پر چائے بنائی پھر یہاں وہاں کی باتیں کرتے کافی وقت ہوگیا تو میں نے کہا بابا اب میں واپس جاتا ہوں تو اس نے کہا کہ یہاں تک آگئے ہو تو لاہوت بھی دیکھ لیتے بلکہ وہاں رات گزارتے ہیں اور نایاب شاہ جی آپ کو پتہ ہوگا کہ وہاں شام کو پانچ بجے کے بعد کسی کو رکنے نہیں دیتے ۔۔
وہاں کیا ہوا کیسی رات گزری کیا تجربہ رہا اسے رہنے دیتے ہیں کیوں کہ میں لکھ لکھ کر تھک گیا ہوں یہ اتنی لمبی کہانی بھی نایاب شاہ جی نے جب شاہ نورانی کا ذکر کیا تو دل کیا کہ بیان کروں ۔۔
مبہوت ہوگئی ہوں، ایسے لگا کہ یہ داستان، کہانی کسی ناول کی ہے مگر اس میں تجسس کا قصہ مزید سننے کو ملے گا؟ صاحب انٹرویو نے تو حسرت رکھی تھی. .. اس دھاگے میں کیا خوب شرکت کی .. مزید قصہ بھی سنادیجیے .. کیا پتا کس کو آپ کے لفظوں سے منزل مل جائے اور بھلا ہو جائے
 

باباجی

محفلین
مبہوت ہوگئی ہوں، ایسے لگا کہ یہ داستان، کہانی کسی ناول کی ہے مگر اس میں تجسس کا قصہ مزید سننے کو ملے گا؟ صاحب انٹرویو نے تو حسرت رکھی تھی. .. اس دھاگے میں کیا خوب شرکت کی .. مزید قصہ بھی سنادیجیے .. کیا پتا کس کو آپ کے لفظوں سے منزل مل جائے اور بھلا ہو جائے
محترمہ نور سعدیہ
میں کہانی باز ہوں اور کہانیاں پڑھ پڑھ مرچ مسالہ ڈالنے کی تراکیب خوب آتی ہیں ۔۔ میں تو اپنے دفتر میں گزرے کسی ایک دن کی روداد ایسے لکھ دوں گا آپ کا دل غم سے پھٹنے والا ہوجائے گا :D
یہ جو کچھ لکھا اسے آپ فکشن سمجھ لیں بس
 
آپ سے بہت دلچسپ گفتگو چل رہی ہے. کچھ سوالات میں بھی کرنا چاہوں گی. :)

1) وطن سے دوری انسان پر روحانی اور ذہنی طور پر کیا اثرات مرتب کرتی ہے؟

2) اگر انسان مطمئن ہو جائے تو وہ ستاروں سے آگے کے جہانوں کو کھوج نہیں سکتا، لیکن اگر وہ مطمئن نہ ہو اور اسے سکون نصیب نہ ہو تو اس کی ساری فتوحات اور کامیابیاں بھی تو لاحاصل ہیں. آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں کہ انسان کا رویہ کیسا ہونا چاہئیے؟

3) جس انسان نے زندگی میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہوں اور کئی کردار جئیے ہوں کیا وہ ہر شے مزید باریکی سے دیکھنے کا عادی ہو جاتا ہے یا اس کے لیے سب کچھ بے معنی سا ہو جاتا ہے؟

4) انسان کو دنیاوی علم کے لیے استاد کی ضرورت ہے لیکن دینی علم کے لیے اور خصوصی طور پر قرآن پاک سمجھنے کے لیے اسے استاد کے سہارے کے بغیر خود اپنی سمجھ استعمال کرنی چاہئیے. کیا واقعی ایسا ہے؟ اور اگر ہے تو اس کی کیا وجہ ہے؟

5) جب مافوق الفطرت عناصر ہمارے سامنے ہوں تو اس وقت انسان کی کیا کیفیت ہوتی ہے اور کیا مافوق الفطرت عناصر واقعی اس قسم کے ہوتے ہیں جیسا کہ فلموں میں بنا کر دکھائے جاتے ہیں یا ان کا اصل روپ کوئی اور ہی ہے؟

6) جب تعارف کی لڑی میں آپ مشکل سے مشکل سوالات پوچھتے ہیں تو اس وقت کیا بات پیشِ نظر ہوتی ہے؟

7) زندگی خاصی مشکل چیز ہے. انسان کو نیند کو غنیمت سمجھ کر جتنا حصہ کٹتا ہو کاٹ لینا چاہئیے یا کم سے کم سونا چاہئیے اور کام میں مصروف رہنا چاہئیے؟

8) عمومی طور پر زیادہ بولنا ہمارے حق میں اچھا ہوتا ہے یا اکثر نقصان پہنچاتا ہے؟ اس کا روحانی طور پر کیا اثر ہوتا ہے؟

9) آپ اردو محفل میں نہ ہوتے تو کس چیز سے محروم رہ جاتے؟

10) کیا دنیا میں انسان کے لیے کوئی منزل ہے اور کیا منزل پر پہنچ کر انسان کی نظر میں اس کی قدر کم ہو جاتی ہے؟ یا دنیا محض سفر ہی سفر ہے اور اسے سفر ہی سمجھا جانا چاہئیے؟ اگر ایسا ہے تو ہمارے سارے دنیاوی ٹارگٹس ہمیں کس طرف لے کر جاتے ہیں؟

:)
 

نایاب

لائبریرین
کچھ مافوق الفطرت تجربات اور مشاہدات کے متعلق بھی بتائیے۔


میرے محترم بھائی
جب بھی کوئی عامل کسی خاص مقصد کے لئے یا پھر کسی بھٹکتی روح موکل اور ہندوانہ کالی طاقتوں کو بس میں کرنے کے لیئے اپنے بہترین علم کے مطابق کسی رہنما سےملنے والی معلومات کےبل پر اپنے ارد گرد کوئی مخصوص حصار بناتےکچھ خاص الفاظ کے جاپ یا ذکر میں میں مصروف ہوتے ناری چلہ کر رہا ہوتا ہے تو اس کی تمام حسیات اک نارمل انسان سے کہیں زیادہ بیدار ہوتی ہیں ۔ چونکہ وہ اپنا عمل اپنے پورے یقین سے انجام دے رہا ہوتا ہے تو اس عمل کے دوران پیش آنے والے حالات و واقعات بھی چونکہ اس کے علم میں ہوتے ہیں اس لیئے اس کا وہم گمان خیال ممکنہ پیش آنے والے واقعات بارے اپنے جال بن رہا ہوتا ہے ۔ مجھے بھی ایسے اعمال کا شوق رہا ہے ۔ میں نے بھی کچھ راتیں قبرستانوں شمشان گھاٹوں میں گزاری ہیں ۔ میں نے انتہائی خوبصورت مسحور کر دینے والے حسن کی مالک عورت بھی دیکھی ہے جس کے پاؤں کی ایڑی سامنے اور پنجہ پچھلی جانب ہوتا ہے ۔ میں نے بھیانک آوازیں سنی ہیں ۔ میں نے ہوا میں آگ کو جلتے اڑتے دیکھا ہے ۔ میں نے بونوں کو زمین سے نکلتے انسان کا کچا گوشت کھاتے دیکھا ہے ۔ میں نے عجیب الخلقت جثے کی حامل ہیولے دیکھے ہیں ۔ میں نے لوگوں کو اپنے کٹے سر اپنے ہاتھوں میں اٹھائے دیکھا ہے ۔ میں نےجنات کے ہاں دعوت کھائی ہے ۔ بن موسم کے پھل بھی عام رہے ۔ یہ صرف اور صرف میرا مشاہدہ ہے ۔ میری حد تک یہ سچ ہے ۔ لیکن کسی دوسرے کو سنانا صرف اک مذاق ہے ۔میں انہیں کبھی بھی ثابت نہیں کر سکتا ۔ کیونکہ سننے والا اسے صرف میری حسیات کا دھوکہ مانے گا ۔ میں ان اعمال میں کامیاب کیوں نہ ہوا ؟ میں کوئی پراسرار طاقت کیوں نہ حاصل کر سکا ؟ اس کی صرف اک ہی وجہ ہے کہ آیت الکرسی کا ذکر ہر پل میرے ساتھ رہا زبان پر کوئی بھی لفظ رہا مگر دل اسی میں مصروف رہا ۔سو اللہ سوہنے نے مہربانی فرمائی اور مجھے اس گندگی سے نکالتا رہا ۔ اور بلاشک یہ میرے رب کی مہربانی کہ مجھ سے بڑی میری بہن نے مجھ میں اس کی قوت و طاقت بارے بچپن میں جو بتاتے مجھ میں یقین بھرا وہ گویا پتھر کی لکیر جیسا یقین جو کبھی بھی نہ مٹ پایا ۔
اب چونکہ مافوق فطرت یا فوق الفطرت یا فوق طبعی مشاہدہ وہ ہوتا ہے جو کہ علت اور معلول کے قانون سے آزاد ہوتا ہے ۔ اور عامل کی حسیات ہوا کے باعث کسی پتے کی ہلنے کی آواز کو بھی اسے ممکنہ پیش آنے والے واقعے سے جوڑ دیتی ہیں ۔اب جتنا گندا اور پیچیدہ عمل اور جاپ ہو گا جیسے کہ ہنومان ۔کھیترپال ۔بھیرو۔ ناگ دیوتا ۔ لوناچماڑی ۔ لکشمی دیوی ۔ کالا کلوا ، پاروتی دیوی ۔ ہر بھنگ آکھپا جیسی ہندو مذہب سے منسوب بلاؤں کو قابو کرنا ۔یاد رہے ہندو مذہب میں بھوت پریت اور ان جیسی 80ہزار سے زائد مخلوق کا ذکر پایا جاتا ہے ۔ اتنے ہی اس عمل کے دوران پیش آنے والے ممکنہ واقعات اور مشاہدات ہو سکتے ہیں ۔ اور عامل کو اس کی رہنما کی جانب سے یہ تاکید ہوتی ہے کہ جو بھی جیسا بھی دکھائی سنائی دے اسے فراموش کرتے اپنی توجہ صرف جاپ پر رکھنا ہے ۔ اگر جاپ سے توجہ ہٹی یا ڈر کر بھاگے تو جان یا عقل یا حواس گنوا بیٹھو گے ۔ صبح کاذب سے پہلے حصار سے نکلے تو نقصان ہوگا ۔
اب ذرا سوچیں چاند کے بنا کالی تاریک رات ہو کوئی پرانا قبرستان ہو جس میں مردوں کی ہڈیاں اپنی چمک سے جھلملا رہی ہوں ۔ یا پھر کوئی شمشان گھاٹ ہو جہاں کی فضاء مردوں کے جلائے جانے کی ناگوار بو سے بھیانک تاثر پیدا کر رہی ہو ۔ وہاں کوئی عامل اپنی حسیات کے انتہائی بیدار ہونے پر کیا کچھ نہ دیکھے گا ۔ اس کی فریب حس کیا کیا مناظر اسے نہ دکھائے گی ۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ چاہے یہ تمام مخلوق ماننے والوں کے یقین پر مبنی اپنی جگہ اک سچ ہے ۔ اور اس کے عامل ہونے کے دعویدار بھی مل جاتے ہیں ۔ لیکن میرے نزدیک یہ صرف عامل کی انتہائی بیدار حسیات کے باعث صرف اک دھوکہ ہوتا ہے جو اس کے وہم گمان پر مبنی ہوتا ہے ۔ قدرت بہت عجیب طرح کام کرتی ہے ۔ جسے جو چاہت ہوتی ہے اسے ویسا ہی بنا دکھاتی ہے ۔ جس کا جس پر جتنا پختہ یقین اتنا اسے مل ہیجاتا ہے ۔ کوئی ہوا میں اڑ لیتا ہے ۔ کوئی اپنی جوتیاں ہوا میں اڑا دیتا ہے ۔
مافوق الفطرت تجربات اور مشاہدات کے دو ذرائع پائے جاتے ہیں اک کو نوری وظیفہ کہتے ہیں اک کو ناری چلہ ۔
نوری وظیفے کی پہلی شرط پاک صاف خوشبودار مقام کا انتخاب ہے ۔ جہاں کا ماحول سفیدی کا حامل ہو ۔ اور ناری چلے کے لیئے پہلی شرط ایسا مقام ہے جو گندا تاریک ویران بدبودار ہو ۔ اب جو بھی عامل نوری وظیفہ کرے گا اس کو جو مشاہدات تجربات ہوں گے وہ انتہائی سکون بخش اور طبیعت کو شاداں و فرحاں کرنے والے ہوں گے ۔ جبکہ ناری چلہ کرنے والے کے مشاہدات و تجربات ان کے بالکل بر عکس ہوں گے ۔ دونوں کے مشاہدات و تجربات میں اک شئے مشترک ہو گی ۔ دوران عمل پیش آنے والے ممکنہ حالات و واقعات جو کہ رہنما جہاں سے عمل کا طریقہ ملا ہوتا ہے ۔ نوری وظائف میں ایسے اعمال جو کہ قضاء و قدر میں دخل دینے کی خواہش سے کیئے جاتے ہیں ان کی شرائط اور مشاہدات و تجربات ناری چلے جیسے ہی ہوتے ہیں ۔ اور کیا شک کہ نور کے متلاشی کو نور ہی ملتا ہے ۔
انسان کی فطرت میں اک تجسس اک کھوج کا مادہ شامل ہےاسی تجسس اور جستجو کا نتیجہ ہے کہ وہ ایک جگہ نہیں بیٹھنا چاہتا ہے۔ قدرت کے ہر راز کو خود پر افشا کرنا خود کو ہر بھیدکی تہہ تک پہنچانا خواہ جنت میں کھائے جانے والے پھل کا ذائقہ محسوس کرنا یا پھر پوٹاشیم سائنایڈ کا مزہ چکھنا ۔ اب اس عمل کے دوران اسے کیا مشاہدہ ہوا ؟ کس تجربے سے کیسے گزرا ؟ اس کے لیئے بس نطق کے سہارے یہ کوشش کی جا سکتی ہے کہ کسی دوسرے کو اپنے احساس میں شریک کیا جائے ۔ مگر یہ ناممکن ہے کہ اس کو اپنی کیفیت یا مشاہدے کی سچائی پر ویسا ہی یقین دلا یا جاسکے جیسا کہ خود کا ہوتا ہے ۔
کیسی عجب بات کہ یہ سب مخلوق اک ہی خالق کی خلق کردہ ہے لیکن اس سب مخلوق کے درمیان کی قدرتی دوری نے ان کو اک دوسرے سے خوفزدگی میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ جن انسان سے عاجز رہتے ہیں اور انساں جنوں سے ڈرتے ۔
محترم قارئین میں کوئی عامل نہیں ہوں ۔ میں نے کوئی بھی عمل پورا نہیں کیا ۔ ہمزاد کے چکر میں قریب چھ رات گزاری ہوں گی ۔باقی کبھی اک دن کبھی تین دن اور پھر دل اچاٹ اور رخ کسی اور جانب ۔ آپ مجھے ان بھٹکے ہوئے غیر مستقل مزاج مسافروں کی صف میں رکھ سکتے ہیں ۔ جو کسی سراب کو منزل جان دوچار قدم اس کی جانب چلتا ہے اور پھر کسی دوسرے سراب کو منزل بنااپنا رخ بدل لیتا ہے اور اس طرح کبھی منزل پر پہنچ ہی نہیں پاتا بچپن سے لیکر پختہ ہوتی جوانی تک میں ایسے ہی بھٹکا کبھی نوری کبھی ناری ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کچھ بھی نہ پایا سوا اس سچ کے ۔۔۔۔۔۔
اللہ نور السماوات والارض
دعاؤں کی التجا کے ہمراہ بہت دعائیں
 

نایاب

لائبریرین
۱۔ کیا علم روحانیت تکمیل ایمان کے لیے ضروری ہے آپ کا علمی مشاہدہ اس بارے میں کیا ہے ؟
میرے محترم بھائی
میں کون ہوں کیا ہوں ؟ مجھے کس نے اس جہان رنگ و بو میں بھیجا ہے ؟ میں کہاں سے آیا ہوں ؟ مجھے یہاں سے آگے کہاں جانا ہے ؟ میرے یہاں آنے اور وہاں جانے کے درمیان سفر کا مقصد کیا ہے ؟
میرے ناقص علم کے مطابق یہی پانچ سوال اور ان کے جوابات کی تلاش میں قدرت کی جانب سے سامنے آنے والے مظاہر سے مدد لیتے ان کا جوابات کا پانا اور یقین حاصل کرنا ہے کہ ہم نے درست جواب پا لیئے ۔ جو علم ہم نے پایا ہے اسے اپنا عمل بناتے اپنے سفر کو آسان و کامیاب کرنا ہے ۔ یہی علم ہے روحانیت کا ۔ اور یہ براہ راست روح کی کھوج سے ربط رکھتا ہے ۔ تکمیل ایمان جب ہی ہوگی جب ہماری سوچ و فکر عقل اس یقین کو پا لے گی کہ جو ہم نے جانا ہے وہی سچ ہے ۔ اور ہمیں اس سچ پر ہی چلتے فلاح پانی ہے ۔
میرا علمی مشاہدہ ؟ میرے پاس علم ہی کہاں میرے بھائی ۔ میں نے تو بس یہ جانا ہے کہ راہ چلتے رستے میں پڑا کوئی پتھر اٹھا رستے کی اک جانب رکھ دینا اپنے لیئے ہی آسانی پیدا کرنا ہے مستقبل میں کسی بھی حادثے سے بچنا ہے ۔
بحیثیت مسلمان ہمارے پاس اک سچی کتاب موجود ہے جو ہمیں بنا کسی زیادہ مشقت کے ان تمام سوالات کے کافی و شافی جواب فراہم کرتی ہے ۔ اگر ہم قران پاک کے ساتھ ساتھ اسوہ حسنہ بارے اپنا مطالعہ بڑھا لیں اور پانے والے علم کو اپنے عمل میں بدل لیں تو تکمیل ایمان کا درجہ مل جاتا ہے ۔
روحانیت کا علم اس کے سوا اور ہے کیا کہ انساں اور انسانیت سے پیار کیا جائے نفرتوں کو مٹایا جائے سچے خالق کی مخلوق کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں ۔
ایمان کی تکمیل اس کے سوا کیا ہے کہ " اپنے کیئے کی سزا و جزا پانے کا مکمل یقین حاصل کیا جائے "


۲- آپ کس روحانی سلسلے سے بیعت ہیں اور کون سے روحانی بزرگ شخصیت سے لگاؤ رکھتے ہیں ؟
یہاں یہ نعرہ لگانا کیسا رہے گا ۔۔۔؟
پدرم سلطان بود
نسب ہی کچھ ایسا ہے کہ کسی بھی روحانی سلسلے کے کسی بھی بزرگ نے مجھے اپنی بیعت میں لینے سے معذوری ظاہر کی اور مجھ ٹھگ کو عزت و احترام سے نوازا ۔ ویسے میں اپنے گمان پر مبنی یقین کے بل پر خود کو اویسیت میں پاتا ہوں ۔
پی شراب کھا کباب تے بال ہڈاں دی اگ
بھن سٹھ گھر رب دا اوس ٹھگاں دے ٹھگ نوں ٹھگ
محترم جناب بابا بلھے شاہ سرکار سے غیر اختیاری لگاؤ ہے ۔ جب پنجابی زبان سے اتنا واقف بھی نہیں تھا اس وقت بھی آپ کے کلام میں انجانی کشش محسوس کرتا تھا ۔
ملامتی اور غیر ملامتی ہر دو روحانی بزرگوں میں سے ان سے زیادہ لگاؤ ہے جو انسان اور انسانیت کو مقدم رکھتے ہیں ۔

۳۔ سوچ و خیال اور وجدان کیا یہ ایک ہی تکون کے تین کونے ہیں یا یہ حالتیں ایک دوسرے کی متضاد ہیں ؟

میرے ناقص علم کے مطابق ۔۔۔۔۔۔
میرے بھائی آپ یہاں اس حقیقت کو شاید بھول گئے جو کہ آپ کی اس تکون کی بنیاد ہے ۔ وہ ہے " وہم " جو کہ سوال پیدا کرتا ہے ۔ کب کیوں کیسےبارے یاد دلاتا ہے ۔ مجبور کرتا ہے کھوج پر ۔۔ پھر سوچ حرکت کرتی ہے شعور لاشعور کو چھاننے لگتا ہے ۔ لا شعور تحت الشعور سے ربط قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو تحت الشعور اور لاشعور کے اس رابطے سے ملنے والی بے ترتیب معلومات غوروفکر کی بھٹی سے گزر اک ترتیب سے نتائج کی صورت وجدان پر اترتی ہیں ۔ شعور تک پہنچ نطق میں ڈھلتی ہیں
میرے ناقص علم میں یہ سب متضاد نہیں بلکہ یہ تمام آپس میں اک دوسرے کی لازم مددگار ہیں ۔ اگر اک بھی اپنا کام درست نہ کرے تو نتائج ہمیشہ مجہول ہوں گے ۔


۴۔ کیا علم تصوف کے بغیر آگاہی کی منزلوں کی پہچان ممکن ہے ,آپ کی اس علم پر کیا رائے ہے ؟

میرے ناقص علم کے مطابق ۔۔۔۔۔
تصوف نام ہے اپنی حقیقت کو جان لینے کا ۔ اپنے ہونے کے مقصد کو پا لینے کا ۔ جب کوئی حقیقت جان لیتاہے ۔ اپنے ہونے کے مقصد کو پا لیتا ہے تو قدرت اس پر وہ تمام راز کھول دیتی ہے جو کہ انسان اور انسانیت کی بقا کے لیئے لازم ہیں ۔ تصوف خانقاہوں میں قیل و قال کی محفلیں سجانے کا ہی علم نہیں ہے ۔ یہ علم ہے انسانیت کی خدمت کا ۔ زندگی کی جنگ میں مصروف انسان کے لیئے آسانی پیدا کرنے کا ۔ خدا کے بندوں سے پیار کرنے کا ۔ جسے خدا کے بندوں سے ہی پیار نہ ہو وہ خدا سے پیار کرنے کی آگہی کیسے پا سکتا ہے ۔؟

بہت دعائیں
 

نایاب

لائبریرین
۵۔ انسانی سوچ لامحدود ہے یا اس کی بھی حد مقرر ہے , اس کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے ؟
میرا ناقص علم تو یہی یقین کرتا ہے کہ انسانی سوچ لا محدود کی صفت رکھتی ہے ۔ سوچ چونکہ روح سے براہ راست ربط رکھتی ہے ۔ سو نفخ کی نسبت سے اسے لا محدود ہونا ہی چاہیئے ۔

۶۔ کون سا ذکر اللہ کریم کا قرب نصیب کرتا ہے ؟
تمام اچھے نام اسی کے ہیں ۔ جس سے چاہو اس کا ذکر کرو اس کا شکر ادا کرو وہ اپنی نعمت بڑھاتے تمھیں اپنے دوستوں میں شامل کر لے گا ۔ اور اس کا شکر ادا کرنے کی بہترین صورت اس کی مخلوق سے پیار کرنا ہے ۔ اس کے حبیب کے اسوہ حسنہ کو اپنا نا ہے ۔ دکھ درد اذیت برداشت کرتے دوسروں کے لیئے آسانیوں کا سبب بننا ہے ۔
باقی قران پاک کی تمام آیات سراسر ہدایت اور قرب حق کا وسیلہ ہیں ۔
روح کا ذکر قلبی ہے دل سے ہے ۔ اور جسم کا ذکر عملی ہے ۔ عمل سے ہے

۷۔ آپ کے نزدیک صوفی کی کیا تعریف ہے ؟
ایسا انسان جس کی موجودگی میں دوسرے انسان سکون محسوس کریں ۔ جس کا وجود ہمیشہ دوسروں کے لیئے آسانی کا سبب ہو ۔ جس کے وجود سے ہمیشہ دوسرے انسانوں اور انسانیت کے لیئے بھلائی کا صدور ہو ۔ گویا جس کا وجود کلمہ طیبہ کی چلتی پھرتی تفسیر ہو ۔ بقول شاعر " قاری خود نظر آئے قران "

۸۔ لڑکپن میں والدین میں سے آپ سب سے زیادہ کس ہستی سے مانوس تھے ؟

اللہ سوہنا مغفرت فرمائے میرے والد محترم کی
میں ان سے بہت مانوس تھا ۔ اپنے سب اشکال بلا جھجھک ان سے کہہ دیتا تھا ۔وہ میرے اک بہت اچھے دوست رہے ہیں ۔

۹۔ نماز قائم کرنا اور نماز پڑھنا ,کیا یہ دو مختلف حالتیں ہیں ؟
جہاں تک میرا ناقص مطالعہ ہے نماز پڑھنا الگ حالت ہے اور نماز قائم کرنا الگ ۔ سورت الماعون واضح کر دیتی ہے کہ نماز پڑھنا کیا ہے اور قائم کرنا کیا ۔
نادان گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا ۔۔۔۔ والی نماز لپیٹ کر منہ پر مار دینے کی وعید ہے
اللہ سوہنا ہم سب کو نماز پڑھنے اور قائم کرنے کی توفیق سے نوازے آمین
۱۰۔ کیا شاعری احساسات اور جذبات کی بہترین ترجمان ہے ؟
بلاشک شاعری سچ بولتی ہے بھید اندر کا کھولتی ہے ۔ احساس کو لفظوں میں پروتی ہے ۔ جذبات کو موتی سا دمکا دیتی ہے ۔
میرے محترم نقیبی بھائی علم و عمل ناقص ہے میرا کچھ غلط برا لگے تو رہنمائی کی التجا ہے ۔
بہت دعائیں
 

م حمزہ

محفلین
میرے ناقص علم کے مطابق ۔۔۔۔۔
تصوف نام ہے اپنی حقیقت کو جان لینے کا ۔ اپنے ہونے کے مقصد کو پا لینے کا ۔ جب کوئی حقیقت جان لیتاہے ۔ اپنے ہونے کے مقصد کو پا لیتا ہے تو قدرت اس پر وہ تمام راز کھول دیتی ہے جو کہ انسان اور انسانیت کی بقا کے لیئے لازم ہیں ۔ تصوف خانقاہوں میں قیل و قال کی محفلیں سجانے کا ہی علم نہیں ہے ۔ یہ علم ہے انسانیت کی خدمت کا ۔ زندگی کی جنگ میں مصروف انسان کے لیئے آسانی پیدا کرنے کا ۔ خدا کے بندوں سے پیار کرنے کا ۔ جسے خدا کے بندوں سے ہی پیار نہ ہو وہ خدا سے پیار کرنے کی آگہی کیسے پا سکتا ہے ۔؟

متفق۔ زبردست۔
 
Top