بی بی سی: پاکستان سر کاٹ کر 'طوایفوں' کو سزا

Muhammad Naeem

محفلین
اوپر آپ نے اپنی ایک پوسٹ میں "اب تف ہے آپ کی مبارک سوچ پر جو۔۔۔۔۔۔" لکھا ہے۔ تف کا مطلب پتہ ہے ناں آپ کو یا میں بتاؤں۔

برائے مہربانی اپنی اُس پوسٹ کو مدون کر کے اس کو حذف کر دیں۔
لفظ وہاں سے تبدیل کردیا گیاہے۔ آگاہ کرنے کا شکریہ
 

Muhammad Naeem

محفلین
شمشاد بھائی ،
اگر بد زبانوں کے سر پہ سینگ ہوتے تو یہ صاحب بارہ سنگے ہوتے۔ ان کو میں نے بھی یہی احساس دلایا تھا کہ آپ نے بہت بے ہودہ الفاظ استعمال کئیے ہیں لیکن شاید ان کے دماغ میں وہ بات گھسی ہی نہیں اور یہ اس کے بعد بھی اپنی ڈھٹائی پر قائم رہے۔ ان کو تو یہ تک معلوم نہیں تھا کہ ملحمہ کے کیا معنی ہیں اور میرے بار بار ٹوکنے پہ انہوں نے نبی پاک علیہ صلوۃ و السلام کے نام کے ساتھ یہ لفظ لکھنا ترک کیا ۔ تو جو آدمی نبی کی شان کا خیال نہ کرے تو اس کی نظر میں آپ اور میں کیا چیز ہیں۔
بحث میں ، یہ حضرت ، اپنے ہی تضاداتِ بیانات کی وجہ سے ، بری طرح پٹ چکے ہیں۔ ان کا مقصد تھا کہ یہاں ایک مناظرہ شروع ہو جائے اور آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی سے کھلونوں کی طرح کھیلا جائے لیکن اللہ پاک نے ان کے ارادوں کو انہی کے اپنے تضادات کا شکار کر دیا۔ اب کھسیانی بلی کھمبا تو نوچے گی ہی۔ اور ان کی تحاریر میں بے ہودہ الفاظ کا استعمال ان کی شکست کا بین ثبوت ہے۔
اب یہ معذرت کریں یا نہ کریں مجھے اس سے غرض نہیں کیوں کہ ان سے میرا ذاتی اختلاف نہیں تھا بلکہ صرف ان کے غلط نظریات کا بطلان ثابت کرنا مقصود تھا جو الحمد للہ ہو چکا ہے۔
اب ان کی بے چین روح کے اندر جو خیالات متلاطم ہیں وہ کسی اور دھاگے پہ کسی نئے طوفان کا پیش خیمہ بنیں گے۔ بس انتظار کیجئیے گا۔
فی الحال ان کی آخری پوسٹ جو خرم کے نام ہے اس میں بھی آپ ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگائیے کہ انہوں نے اس کی آخری لائن میں ۔۔۔۔۔۔کیوں لکھا۔
یہ نیچے اقتباس میں دیکھئیے وہ شاہکار جو ابھی ابھی ان کے ہاتھوں ، خرم کے لئیے ، تخلیق ہوا۔
بارہ سنگھے کے نام سے یاد کرنے کا شکریہ۔
اپنی سختئ الفاظ پر میں معذرت کر چکا ہوں اور وہ الفاظ بدل دئے گئے ہیں۔
الحمدللہ مجھے نبی الملحمہ کے الفاظ کا معنی معلوم ہے اگر آپ کو معلوم نہیں تو کسی عالم کے پاس جاکر معلوم کیجیئے۔ عریبک ڈکشنری اس سلسلے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
"چور مچائے شور" اگر آپ اپنے بات میں سچے ہیں تو میرے تضاد بیانات کو سامنے لائیں۔ یہ میرا آپ سے لازمی سوال ہے۔ اتنی ہمت تو ضرور کیجیئےگا۔ ضرور بہ ضرور۔ اور۔ ۔ ۔ ۔

پچھلی ایک پوسٹ میں ،میں آپ لوگوں کے تضاد بیانات کو سامنے لاچکا ہوں۔ اگر کہیئے تو دوبارہ سامنے لادوں۔

جناب عالی میرا مقصد آیات قرآنی کے ساتھ کھیلنا نہیں تھا۔ سبحان اللہ آپ کے کیا ہی کہنے جو دلائل میں آیات قرآنی اور احادیث پیش کرنے کو "کھیلنا" فرما رہے ہیں۔
ویسے بندہ ناچیز آپ کی تمام پوسٹس کو بار بار پڑھ چکا ہے بلکہ یوں کہیے کہ خورد بین لگا کر بار بار پڑھنے کی سعادت حاصل کر چکا ہے لیکن اسے گوہر مقصود حاصٌ کرنے میں ناکامی ہی ہوئی۔یعنی آپ نے کہیں اپنے موقف کے حق میں کوئی آیت قرآنی یا احادیث نبویہ کا حوالہ دیا ہی نہیں دیا۔ بلکہ ایسا مطالبہ کرنے پر چمپت ہی ہو گئے اور آخرکار کہیں جاکر یہ ارشاد فرمایا کہ (جس کا مفہوم)یہ آپ میری طرح قرآن و احادیث میں ترمیم اور اسے اپنے موقف کے حق میں توڑ موڑ کر پیش کرنے سے ڈرتے ہیں۔اور آپ کے دل میں اس سلسلے میں خوف خدا ہے۔
یقین کیجیئے آپ کا یہ موقف جان کر مجھے وہ کہاوت یاد آگئی " ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا" کہ آپ کو اپنی دلیل کے طور پر کوئی آیت یا حدیث تو مل ہی نہیں رہی اور اوپر سے کہہ رہے ہیں کہ میں تاویل کرنے سے ڈرتا ہوں۔ میرے دل میں خدا کا خوف ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (بہت زبردست)
ارے بھائی تاویل نہ کرو ۔۔ کوئی سیدھی سادھی بات پیش کردو۔ جس میں واضح طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کو دیگر اقسام میں تقسیم فرما دیا ہو۔ تاکہ بحث ہی "مک" جائے۔ جہاں تک میری بات کا تعلق ہے میں نے تو اپنے موقف کے حق میں یہی دلیل پیش کردی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے بارے میں دریافت کرنے پر فرمایا:
" الجہاد ھواالقتال فی سبیل اللہ" جہاد تو اللہ کے راستے میں لڑنا ہے۔
اب آپ جناب ہیں کی کبھی ادھر کی کبھی ادھر کی چھوڑ رہے ہیں۔ کبھی عراق تو کبھی طالبان کو پکڑ رہے ہیں اور کبھی خود کش حملہ کرنے کی نصیحت کر رہے ہیں۔ اور مبلغ علم کا یہ حال ہے کہ اپنے موقف کے حق میں قرآن و حدیث کوئی دلیل آپ کے پاس ہے نہیں۔ اور بی بی سی کی طرح بے پرکیاں اڑا رہے ہیں۔
آپ کے اسی انداز بیان کی وجہ سے مجھے بھی (دلائل کو چھوڑ) کر اسی انداز میں بات کرنا پڑی جس میں آپ بات کر رہے تھے۔چنانچہ کچھ سخت باتیں بھی پوسٹ میں آگئیں۔
اورمیرا تلخ انداز بیان شاید ماڈریٹر صاحب کو پسند نہیں آیا۔ جس کی وجہ سے بعد میں نے آپ کے لب و لہجے میں جوابات نہیں دیے اور توقف کیااور اس پر آپ نے بغلیں بجائیں کہ جواب نہیں آیا۔

جہاں تک آخری پوسٹ میں الفاظ کے خالی چھوڑنے کا مطلب ہے کہ آپ یہاں پر جو مناسب چاہیں کہہ سکتے ہیں۔ میں کچھ نہیں کہوں گا۔ (اور اسےآپ میری نامناسب گفتار پر محمول کر بیٹھے)۔
انہی باتوں کے ساتھ اجازت ۔
اللہ ہم سب کو ہدایت اور صراط مستقیم پرچلنا نصیب فرمائے۔

اگر آپ کے پاس دلائل ہیں تو بات کیجیئے۔ وگرنہ ہم اس بحث کو سمیٹ دیتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
قیصرانی بھائی میں آپ کے آخری فقرے سے متفق نہیں ہوں۔

بحث کریں لیکن دلائل کے ساتھ اور بس، اب یہ نہیں کہ لٹھ لے کر پیچھے ہی پڑ جائیں کہ میں نے یہ دلائل دیئے ہیں اور اب میری ہی بات مانو۔

میں نے احمد دیدات مرحوم کے مناظرے بھی دیکھے ہیں اور ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بھی، انہوں نے ہر قسم کے افراد سے مناظرے اور بحث مباحثے کیئے ہیں اور دلائل دیئے ہیں۔ اب یہ مخالف کی مرضی کہ مانے یا نہ مانے۔ انہوں نے کبھی بھی اخلاق کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ بحث مباحثے کے لیے بڑے صبر و تحمل کی ضرورت ہوتی ہے۔

میں فاروق بھائی کی بات سے متفق ہوں کہ کوئی بھی رکن دوسرے کو برا بھلا مت کہے، اگر کہے تو فوراً معذرت کرئے۔
بحث اچھی چیز ہے اگر صحتمندانہ ماحول میں ہو۔

میں ایک بات کرتا ہوں کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں اور زبانی اور عملی دلائل سے اس کو ثابت بھی کرتا ہوں۔ اب اگلے کی مرضی ہے اس کو مانے یا نہ مانے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی بھائی میں آپ کے آخری فقرے سے متفق نہیں ہوں۔

بحث کریں لیکن دلائل کے ساتھ اور بس، اب یہ نہیں کہ لٹھ لے کر پیچھے ہی پڑ جائیں کہ میں نے یہ دلائل دیئے ہیں اور اب میری ہی بات مانو۔

میں نے احمد دیدات مرحوم کے مناظرے بھی دیکھے ہیں اور ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بھی، انہوں نے ہر قسم کے افراد سے مناظرے اور بحث مباحثے کیئے ہیں اور دلائل دیئے ہیں۔ اب یہ مخالف کی مرضی کہ مانے یا نہ مانے۔ انہوں نے کبھی بھی اخلاق کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ بحث مباحثے کے لیے بڑے صبر و تحمل کی ضرورت ہوتی ہے۔

میں فاروق بھائی کی بات سے متفق ہوں کہ کوئی بھی رکن دوسرے کو برا بھلا مت کہے، اگر کہے تو فوراً معذرت کرئے۔
بحث اچھی چیز ہے اگر صحتمندانہ ماحول میں ہو۔

میں ایک بات کرتا ہوں کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں اور زبانی اور عملی دلائل سے اس کو ثابت بھی کرتا ہوں۔ اب اگلے کی مرضی ہے اس کو مانے یا نہ مانے۔

شمشاد بھائی، معذرت کہ میں‌نے کچھ اور سوچ کر پیغام لکھا تھا، لیکن غلط الفاظ‌کے چناؤ سے اس کا معنی بدل گیا۔ یہ میری ہی غلطی تھی، اس کے لئے تمام متعلقہ فریقین سے معذرت
 
جہاں تک میری بات کا تعلق ہے میں نے تو اپنے موقف کے حق میں یہی دلیل پیش کردی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے بارے میں دریافت کرنے پر فرمایا:
" الجہاد ھواالقتال فی سبیل اللہ" جہاد تو اللہ کے راستے میں لڑنا ہے۔
آپ کی مندرجہ بالا بات پر یہ عرض کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ مندرجہ بالاء الجہاد ھواالقتال فی سبیل اللہ، ایک آیت کا چھوٹا سا ٹکڑا ہے۔ قرآن کی مکمل آیت کو ٹکڑے کر کرکے میں اگر پیش کروں اور اپنے مطلب کے معانی نکالوں تو آپ کو پسند آئے گا؟ عرض‌یہ ہے کہ

1۔ قرآن کی مکمل آیت کو استعمال کیجئے۔
2۔ مندرجہ بالا اصول - الجہاد ھواالقتال فی سبیل اللہ - جہاد کی ایک تعریف ہے۔ جو کہ جہاد کی سینکڑوں تعریفوں میں سے ایک ہے۔ ایک تعریف یا ایک اصول، مکمل حکم نہیں‌ہوتا۔ آپ اس مد میں وہ آیات دیکھئے جو آپ کو بتاتی ہیں کہ کس کس صورت میں اپنا دفاع کیا جائے اور اس دفاع کی تیاری کے لئے کیا جہد ( کوشش) کی جائے۔ یہ جہد کی صورتحال ہی جہاد کہلائے گی اور جب وہ حالات ہوں تو ہی جہاد (قتال والا) شروع کیا جائیگا۔ ایسے ہی مارنے نکلنے کا نام جہاد کیسے ہوسکتا ہے؟

[AYAH]2:190[/AYAH][ARABIC] وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ [/ARABIC]
اور اﷲ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بیشک اﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا

کیا رسول اللہ صلعم نے اس آیت کی طرف اشارہ فرمایا تھا یا خود سے ایک مکمل آیت بنا لی تھی؟ نعوذ باللہ!

[AYAH]4:93[/AYAH] [ARABIC]وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا [/ARABIC]
اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لئے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے

[AYAH]60:8[/AYAH] [ARABIC]لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ[/ARABIC]
اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے
 

ساجد

محفلین
بارہ سنگھے کے نام سے یاد کرنے کا شکریہ۔
اپنی سختئ الفاظ پر میں معذرت کر چکا ہوں اور وہ الفاظ بدل دئے گئے ہیں۔
الحمدللہ مجھے نبی الملحمہ کے الفاظ کا معنی معلوم ہے اگر آپ کو معلوم نہیں تو کسی عالم کے پاس جاکر معلوم کیجیئے۔ عریبک ڈکشنری اس سلسلے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
"چور مچائے شور" اگر آپ اپنے بات میں سچے ہیں تو میرے تضاد بیانات کو سامنے لائیں۔ یہ میرا آپ سے لازمی سوال ہے۔ اتنی ہمت تو ضرور کیجیئےگا۔ ضرور بہ ضرور۔ اور۔ ۔ ۔ ۔

پچھلی ایک پوسٹ میں ،میں آپ لوگوں کے تضاد بیانات کو سامنے لاچکا ہوں۔ اگر کہیئے تو دوبارہ سامنے لادوں۔

جناب عالی میرا مقصد آیات قرآنی کے ساتھ کھیلنا نہیں تھا۔ سبحان اللہ آپ کے کیا ہی کہنے جو دلائل میں آیات قرآنی اور احادیث پیش کرنے کو "کھیلنا" فرما رہے ہیں۔
ویسے بندہ ناچیز آپ کی تمام پوسٹس کو بار بار پڑھ چکا ہے بلکہ یوں کہیے کہ خورد بین لگا کر بار بار پڑھنے کی سعادت حاصل کر چکا ہے لیکن اسے گوہر مقصود حاصٌ کرنے میں ناکامی ہی ہوئی۔یعنی آپ نے کہیں اپنے موقف کے حق میں کوئی آیت قرآنی یا احادیث نبویہ کا حوالہ دیا ہی نہیں دیا۔ بلکہ ایسا مطالبہ کرنے پر چمپت ہی ہو گئے اور آخرکار کہیں جاکر یہ ارشاد فرمایا کہ (جس کا مفہوم)یہ آپ میری طرح قرآن و احادیث میں ترمیم اور اسے اپنے موقف کے حق میں توڑ موڑ کر پیش کرنے سے ڈرتے ہیں۔اور آپ کے دل میں اس سلسلے میں خوف خدا ہے۔
یقین کیجیئے آپ کا یہ موقف جان کر مجھے وہ کہاوت یاد آگئی " ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا" کہ آپ کو اپنی دلیل کے طور پر کوئی آیت یا حدیث تو مل ہی نہیں رہی اور اوپر سے کہہ رہے ہیں کہ میں تاویل کرنے سے ڈرتا ہوں۔ میرے دل میں خدا کا خوف ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (بہت زبردست)
ارے بھائی تاویل نہ کرو ۔۔ کوئی سیدھی سادھی بات پیش کردو۔ جس میں واضح طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کو دیگر اقسام میں تقسیم فرما دیا ہو۔ تاکہ بحث ہی "مک" جائے۔ جہاں تک میری بات کا تعلق ہے میں نے تو اپنے موقف کے حق میں یہی دلیل پیش کردی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے بارے میں دریافت کرنے پر فرمایا:
" الجہاد ھواالقتال فی سبیل اللہ" جہاد تو اللہ کے راستے میں لڑنا ہے۔
اب آپ جناب ہیں کی کبھی ادھر کی کبھی ادھر کی چھوڑ رہے ہیں۔ کبھی عراق تو کبھی طالبان کو پکڑ رہے ہیں اور کبھی خود کش حملہ کرنے کی نصیحت کر رہے ہیں۔ اور مبلغ علم کا یہ حال ہے کہ اپنے موقف کے حق میں قرآن و حدیث کوئی دلیل آپ کے پاس ہے نہیں۔ اور بی بی سی کی طرح بے پرکیاں اڑا رہے ہیں۔
آپ کے اسی انداز بیان کی وجہ سے مجھے بھی (دلائل کو چھوڑ) کر اسی انداز میں بات کرنا پڑی جس میں آپ بات کر رہے تھے۔چنانچہ کچھ سخت باتیں بھی پوسٹ میں آگئیں۔
اورمیرا تلخ انداز بیان شاید ماڈریٹر صاحب کو پسند نہیں آیا۔ جس کی وجہ سے بعد میں نے آپ کے لب و لہجے میں جوابات نہیں دیے اور توقف کیااور اس پر آپ نے بغلیں بجائیں کہ جواب نہیں آیا۔

جہاں تک آخری پوسٹ میں الفاظ کے خالی چھوڑنے کا مطلب ہے کہ آپ یہاں پر جو مناسب چاہیں کہہ سکتے ہیں۔ میں کچھ نہیں کہوں گا۔ (اور اسےآپ میری نامناسب گفتار پر محمول کر بیٹھے)۔
انہی باتوں کے ساتھ اجازت ۔
اللہ ہم سب کو ہدایت اور صراط مستقیم پرچلنا نصیب فرمائے۔

اگر آپ کے پاس دلائل ہیں تو بات کیجیئے۔ وگرنہ ہم اس بحث کو سمیٹ دیتے ہیں۔
محترم ،
میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ کی غلط فہمیاں دور کر ہی دوں کہ میں آیات قرآنی کا حوالہ کیوں نہیں دیتا ۔ لیکن یاد رکھئیے کہ میں مخاصمت بڑھانے کے لئیے ان کا حوالہ نہیں دوں گا میرا مقصد آپ کی اصلاح اور جہاد کی اصل روح سے آپ کو روشناس کروانا ہے ۔ اس لئیے تبصرہ کرتے ہوئے ٹھنڈے دماغ سے کام لیجئیے گا اور صبر کا دامن مت چھوڑئیے گا۔ یہ ایک سلسلہ ہے جو کہ تاریخی حقائق اور موجودہ حالات کو ساتھ ساتھ لے کر چلے گا۔
بال کی کھال اتارنے کا فائدہ نہیں ہے۔ آپ سے میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ جہاد کی بہت ساری اقسام ہیں اور قتال بھی جہاد ہی کی قسم ہے لیکن اس کے نفاذ کا طریقہ جو آپ ارشاد فرما رہے ہیں وہ بالکل غلط ہے۔ اور نہ ہی ایک مسلم معاشرے میں ایک دوسرے کو قتل کرنے کا نام جہاد ہے ۔ اگر آپ "قتال " کو لڑنے کے معانی میں سمجھیں تو لڑا صرف بندوق اٹھا کر ہی نہیں جاتا۔ آج کے وقت میں تو لڑائی کے معانی ہی بدل چکے ہیں اور اسلام کے ظابطہ حیات میں اتنا تنوع ہے کہ یہ زمان و مکاں کی تبدیلیوں کا ساتھ بخوبی دیتا ہے۔ یعنی ان کا نفاذ وقت کے تقاضوں کو نبھاہتے ہوئے بھی کیا جا سکتا ہے۔ جب تلواروں سے لڑائی ہوتی تھی تو تلوار ہی اس جہاد کا اہم حصہ قرار پائی ۔ پھر ٹینک ، توپ اور طیاروں تک بات پہنچی۔ اب آج کی لڑائی معیشت پر کنٹرول اور اعلی تعلیم اور ٹکنالوجی کی مرہون منت ہے ۔ محض معیشت پر کنٹرول حاصل کر کے ممالک کو سرنڈر کرنے پر مجبور کرتے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔کسی شعبے میں ماہرین پیدا کر کے بھی دوسرے ممالک پر اپنی گرفت رکھی جاتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے فلسفہ جہاد میں صرف گولی چلانے اور خود کش حملوں سے دوسروں کو قتل کرنے کا نام ہی جہاد ہے اور اس فلسفے کو ہی حرف آخر قرار دے رہے ہیں۔ جب کہ آپ کسی کی بات سننے کے لئیے تیار ہی نہیں ہیں اور اپنی ابتدائی تحاریر میں ہی لوگوں کے سرِ عام قتل کو جائز بلکہ مستحسن قرار دے چکے ہیں تو آپ کے ساتھ کیا متھا لگایا جائے۔ میں قرآنی آیات کے حوالے دوں گا اور آپ اس کا رد کرتے جائیں گے ۔ اس طرح سے ہم کیا ثابت کریں گے؟؟؟ کیا ہم آیات قرآنی کو مذاق سمجھتے ہیں ؟
تعلیم کی قتال ( جہاد ) پر فضیلت:
اللہ سبحانہ تعالی نے وحی کا آغاز اپنے پاک نبی پر فرمایا تو سب سے پہلی آیت نازل کی جو " فعل امر" ہے یعنی جس میں تحکمِ قطعی ہے۔ کیا ہے وہ حکم!!! وہ ہے ' اقرا ' یعنی پڑھ۔ اور بات یہیں ختم نہیں کر دی بلکہ یہاں سے تو آغاز کیا اس دین حنیف کی غرض و غایت اور شانِ نزول کا۔
اب دیکھئیے ! سورت العلق کا ترجمہ؛
پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا​
( آیت نمبر 1 سورۃ العلق )
اب غور فرمائیے کہ اس حکم میں کیا حکمت پوشیدہ ہے۔ جبکہ نبی پاک پڑھنا بھی نہیں جانتے تھے تو کیوں کہا گیا " پڑھ" ۔ یاد رہے ، اس وقت عرب میں تلوار زنی کا فن عروج پر تھا۔ قتل و غارت کے دھنی تھے وہ لوگ ۔ تو ان کو سدھارنے کی غرض سے ان کا مقابلہ کرنے کے لئیے اللہ نے اپنے نبی کو تلوار اٹھانے کی بجائے "پڑھنے" کا حکم دیا تو کیا اس وقت کے حالات میں یہ حکم ( ظاہری طور پہ ) عجیب نہ تھا؟؟؟ ( اپنے فلسفہ جہاد کو اس کسوٹی پر پرکھئیے )۔
کیا اس کا صاف مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کو وہ راستہ دکھلایا کہ جو تلوار کی کاٹ سے بھی زیادہ پر اثر اور طاقت ور تھا اور پھر آنے والے وقت نے اس کا ثبوت بھی تو فراہم کر دیا!!! افسوس کہ اغیار نے تو یہ بات سمجھ لی اور اس پر عمل کرتے ہوئے تعلیم کو اپنی ترقی کا زینہ بنایا اور ایک مشہور قول بھی لکھ دیا Pen is most powerfull than the sword ۔ لیکن ہم ایسے بدھو نکلے کہ آج تک وحی کی اس پہلی آیت پر ہی عمل نہ کر سکے۔///////( یہاں یہ بات مت بھو لئیے کہ پستول سے لے کر ہائیڈروجن بم تک کی ایجاد اور جراحت سے لے کر ویکسینیشن کی ترقی ، تعلیم ہی کی مرہون منت ہے )////////۔
تو اب آپ ہی فیصلہ کیجئیے کہ کیا ہم نے اپنی قوم و امت کو اس قابل بنا لیا ہے کہ وہ وحی کی اس پہلی ہی آیت کے کم سے کم معیار پر بھی پوری اترے؟؟؟ تا کہ ہم اس کے بعد کے احکام کو بہ خوبی پورا کر سکیں۔ کیا ہم نے اسلحہ سازی اور ضروریاتِ زندگی کی صنعت میں کوئی مقام حاصل کیا ہے کہ اس اسلحے سے " کافروں "پہ غلبہ پا سکیں۔؟ کیا ہم اپنی ہی زمیں میں موجود معدنیات سے استفادہ کرنے کے لئیے ان کی Purification کی استعداد رکھتے ہیں؟؟؟ کیا ہم اتنا بھی ہنر رکھتے ہیں کہ ایک بہترین قسم کا ریڈیو سیٹ یا موبائل فون بھی بنا سکیں؟؟؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہم قلم ( پین ) کی سیاہی کے لئیے بھی چین اور امریکہ کے محتاج ہیں؟؟؟
تو ، میرے دوست ، جب کہ ہم منتشر الخیال اور مفلوک الحال ہونے کے ساتھ ساتھ جاہلیت اور بے ہنری کا شکار ہیں تو کس بنیاد پہ دنیا ہم سے محبت کرے؟ کوئی ہمیں کیوں عزت کا مقام دے؟ اور اگر ہم اپنی ان غفلتوں اور کمزوریوں پر قابو پانے کی بجائے بندوق اٹھا کر سڑکوں اور بازاروں میں الجہاد الجہاد کے کھوکھلے نعرے لگا کر دنیا کو مزید اپنا مخالف بنائیں تو ہمارے جیسا بے وقوف کوئی کیا ہو گا ؟؟؟ آپ کو نہ تو کشمیر ملے گا نہ فلسطین۔ نہ افغانستان سے امریکہ نکلے گا نہ کوہ قاف سے روس جب تک کہ آپ وہ راستہ اختیار نہیں کرتے کہ جو وحی کی اس پہلی ہی آیت میں سمجھا دیا گیا ہے۔ بلکہ آپ کے فلسفہ جہاد سے یہ ملک پاکستان مزید انتشار اور ضعیفی کا شکار ہو رہا ہے اور آپ مسلم امہ کی تکالیف میں اضافے سے زیادہ اور کچھ نہیں کر رہے۔
سب سے پہلے ہمیں اپنی جھنجھلاہٹ کی وجہ اور کمزوریوں کے اسباب پر غور کرنا ہوگا ، تبھی ہم ایک بہترین فیصلہ کر کے اپنے مقصد کی طرف بڑھ سکیں گے ورنہ قتل و غارت کا عمل اور اس کی تبلیغ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور اس کو جہاد کا نام دے کر ہم اللہ کی قربت کی بجائے اس کی ناراضی کے مستحق ٹھہریں گے کہ اسلام میں جہاد کا مطلب صرف اور صرف قتال ہی نہیں ہے یہ بہت وسیع مفہوم رکھتا ہے۔
اگر آپ ایٹم بم کا حوالہ دیں تو آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ بھی ان " کافروں" سے حاصل کردہ ٹکنالوجی سے ہی بنا ہے جو آپ کی نظر میں واجب القتل ہیں۔اور اس ایٹم بم کا خالق کوئی مولانا صاحب یا فاتح فرقہ جات نہیں ہے بلکہ اسی " دار الکفر" کا تعلیم یافتہ ہے کہ جو آپ کے فلسفہ " جہاد " کے اولین نکتہ چینوں میں سے ہے۔ اس کی بیوی بھی اسی " دار الکفر " سے تعلق رکھتی ہے کہ جو مسلمانوں کا دشمن ہے۔ لیکن آپ ملاحظہ فرمائیے کہ " مل گئے کعبے کو صنم بت خانے سے"۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ پاکستان کی بقا کا انحصار اسی ایٹم بم پر ہی تھا ، اگرچہ اب حالات بدل چکے ہیں لیکن اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔
( جاری ہے)
(اگر منتظمین کرام مناسب سمجھیں تو اس سلسلے کے تبصروں کا دھاگہ علیحدہ کر دیں تا کہ مضامین کا تسلسل برقرار رہے )۔
 

Muhammad Naeem

محفلین
آپ کی مندرجہ بالا بات پر یہ عرض کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ مندرجہ بالاء الجہاد ھواالقتال فی سبیل اللہ، ایک آیت کا چھوٹا سا ٹکڑا ہے۔ قرآن کی مکمل آیت کو ٹکڑے کر کرکے میں اگر پیش کروں اور اپنے مطلب کے معانی نکالوں تو آپ کو پسند آئے گا؟ عرض‌یہ ہے کہ

1۔ قرآن کی مکمل آیت کو استعمال کیجئے۔
2۔ مندرجہ بالا اصول - الجہاد ھواالقتال فی سبیل اللہ - جہاد کی ایک تعریف ہے۔ جو کہ جہاد کی سینکڑوں تعریفوں میں سے ایک ہے۔ ایک تعریف یا ایک اصول، مکمل حکم نہیں‌ہوتا۔ آپ اس مد میں وہ آیات دیکھئے جو آپ کو بتاتی ہیں کہ کس کس صورت میں اپنا دفاع کیا جائے اور اس دفاع کی تیاری کے لئے کیا جہد ( کوشش) کی جائے۔ یہ جہد کی صورتحال ہی جہاد کہلائے گی اور جب وہ حالات ہوں تو ہی جہاد (قتال والا) شروع کیا جائیگا۔ ایسے ہی مارنے نکلنے کا نام جہاد کیسے ہوسکتا ہے؟
[ayah]2:190[/ayah][arabic] وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ [/arabic]
اور اﷲ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بیشک اﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا

کیا رسول اللہ صلعم نے اس آیت کی طرف اشارہ فرمایا تھا یا خود سے ایک مکمل آیت بنا لی تھی؟ نعوذ باللہ!

محترم فاروق سرور صاحب! میری طرف سے پیش کی گئی ایک دلیل کو آپ نے فرمایا کہ یہ آیت قرآنی ہے۔ جسے میں نے نامکمل پیش کیا ہے۔ واللہ مجھے پورے قرآن پاک میں یہ آیت کہیں سے نہیں مل سکی، جسے آپ آیت قرآنی قرار دے دیا۔
بلکہ میں نے اوپر بتلا بھی دیا تھا کہ یہ حدیث مبارکہ ہے۔ لیکن آپ نے باوجود اس کے اسے آیت قرآنی قرار دے دیا۔ اور ساتھ کہا کہ میں نے اس آیت کو نامکمل پیش کیا ہے۔ براہ کرم اگر یہ آیت قرآنی ہے تو مجھے قرآن کریم کے کس پارہ / سورۃ میں مل سکتی ہے۔۔ضرور بہ ضرور آگاہ کیجیئے۔ اور آپ نے جو آیت مبارکہ پیش کی ہے یہ تو اس حدیث کے ساتھ بالکل ہی تعلق نہیں رکھتی ۔
میری بیان کی گئی اس حدیث مبارکہ کے مضمون کی تائید ایک دوسری حدیث سے بھی ہو رہی ہے کہ دور نبوی میں اگر لفظ جہاد استعمال کیا جاتا تھا تو وہ صرف اور صرف بمعنی قتال ہی استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ پوری تاریخ نبوی اور عہد رسالت میں آپ اس لفظ کا دوسرا استعمال نہیں تلاش کر سکیں گے۔ چنانچہ حضرت عمرو بن عبسہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور اس نے اسلام کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے سوالات دریافت کئے۔ اس شخص نے جہاد کے بارے می آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے بایں الفاظ دریافت کیا
قال: یارسول الہ وماالجہاد؟
اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) جہاد کیا چیز ہے۔
قال : ان تقاتل الکفار اذا لقیتھم۔
جب تیرا کفار سے سامنا ہو تو ، تو ان کو قتل کرے۔
(مسند احمد 4/114)

ان واضح فرامین نبویہ کے باوجود مسلمانوں نے اس لفظ کے ساتھ وہ وہ ظلم ڈھائے کہ خدا کی پناہ۔ کہیں اسے غربت کے خلاف جدوجہد ، کہیں بیماریوں اور کہیں معاشرتی ناانصافیوں کے خلاف استعمال کرکے اس مقدس لفظ کی پوری تاریخ پر مٹی ڈال دی۔ اور اصلی جہاد کو اس جگہ تک جاگرایا کہ اسے دہشت گردی کے معنوں میں مستعمل کیا جانے لگا۔اور آج بھی اس لفظ کے ساتھ وہی رویہ روا رکھا جا رہا ہے۔
[ayah]2:190[/ayah][arabic] وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ [/arabic]
اور اﷲ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بیشک اﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا

[ayah]4:93[/ayah] [arabic]وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا [/arabic]
اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لئے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے

[ayah]60:8[/ayah] [arabic]لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ[/arabic]
اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے
اسلام مسلمانوں کے قتل پر سخت ترین وعید سنا تا ہے۔ چنانچہ کسی بھی مسلمان کے قتل کو جائز نہیں کہا جاسکتا ،ہاں مگرجب وہ قتل کی حد کو پہنچ جائے۔ مثلاً کسی مسلمان کو قتل کرے، بدکاری کا مرتکب ہو، اسلام کو چھوڑ دے۔ اور یا پھر اعلانیہ اسلام کی تعلیمات کوحشیانہ قرار دے۔ اور اسلامی معاشرے می فساد پھیلانے کا مرتکب ہو۔ اس کے علاوہ بھی قتل کی دیگر وجوہات احادیث سے ثابت ہیں مثلاً لوٹ مار اور ڈاکہ ڈالنے والا یو پھر بار بار چوری کے جرم کا مرتکب ہونے والا۔
چنانچہ اگر کوئی ایسا جرم کرتا ہے تو اس کے قتل پر کوئی مواخذہ نہیں کیا جا سکتا۔ بشرطیکہ مجرم کاجرم معاشرے میں معروف ہو۔ مثلاً راجپال کا علم الدین کے ہاتھوں قتل۔اس کی واضح مثال ہیں۔
اور جہاں تک تیسری آیت مبارکہ کا تعلق ہے تو یقین کیجیئے ! یہ آیت مبارک تو ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو جہاد کو دہشت گردی اور انتہا پسندی قرار دیتے دیتے ہلکان ہوجاتے ہیں۔
اب اور اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ جہاد فی سبیل اللہ دہشت گردی نہیں ہے بلکہ یہ اسلام کی بقا کا ضامن ہے ۔ اور نہ صرف دین اسلام کی بقا کا بلکہ دنیا بھر کی امن و سلامتی اور تحفظ بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ کیونکہ اسلام صرف ظالم و جابر کے خلاف ہی ہتھیار اٹھانے کا حکم دیتا ہے۔ مظلوم کے خلاف نہیں ۔ اور موجودہ دور کے غاصبین و ظالمین ( امریکہ، برطانیہ، اسرائیل، روس، فرانس (جو کہ الجزائر میں مسلمانوں کے خلاف صف آراء ہے)، فلپائن،اورانڈیاوغیرہ) کے خلاف ہتھیار اٹھانا دہشت گردی نہیں بلکہ خالصتاً جہاد ہے۔ اور اسے دہشت گردی سے منسوب کرنے والے خود انہی دہشت گرد غاصبین سے تعلق رکھتے ہیں یا پھران کے نمک خوارہیں، جو اپنے آقاؤں کے نمک کا حق ادا کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی جہادکو سمجھنے اور اس پر عمل پیراہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
 

نبیل

تکنیکی معاون
یہاں آپ اپنے آئیڈیل مولوی سرور کی مثال دینا غالباً بھول گئے۔ کوئی مذہبی جنونی عورتوں کو قتل کرتا پھرے تو وہ بھی جہاد کر رہا ہے۔ اور شاید عبادت گاہوں میں خودکش دھماکے بھی جہاد ہیں۔ اور کوئی اسے دہشت گردی سمجھے تو اس کے منہ پر ان آیات کا طمانچہ رسید کرنا چاہیے۔
 

خرم

محفلین
وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اور اﷲ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بیشک اﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا

کیا رسول اللہ صلعم نے اس آیت کی طرف اشارہ فرمایا تھا یا خود سے ایک مکمل آیت بنا لی تھی؟ نعوذ باللہ!

سورۃ النسآء:4 , آیت:93 وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا
اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لئے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے

سورۃ الممتحنۃ:60 , آیت:8 لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
اللہ آپ کو جزا دے فاروق بھائی۔ تعجب ہے لوگ ان واضح آیات کی موجودی میں بھی مسلمانوں پر بم پھاڑنے اور معصوم لوگوں پر ظلم کرنے کے جواز پیدا کرلیتے ہیں اور اسے عین اسلام قرار دیتے ہیں۔ بے شک اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ "یضل بہ کثیرا و یھدی بہ کثیرا"۔ جن لوگوں کے دلوں‌میں انسان اور انسانیت کا احترام ہی نہیں، جن کے اخلاق ہی اخلاق نبوی صل اللہ علیہ وسلم کے مثل نہیں جن کی زندگیوں میں عشقِ رسول صل اللہ علیہ وسلم اور آپ صل اللہ علیہ وسلم کے اصحاب و اہل بیت کا ادب ہی نہیں انہیں رحمتہ اللعالمین سے کیا نسبت؟ خیر جہاد کی یہ تعریفیں کوئی آج کی پیداوار نہیں۔ لوگوں نے حضرت عثمان و علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف بھی "جہاد" کیا اور انہیں شہید کرکے اپنی عاقبت خراب کی۔ لوگ تو حضرت عائشہ صدیقہ و حضرات عثمان و علی کو بھی نعوذ باللہ کافر قرار دیتے تھے اور ان کے خلاف "جہاد" کو لازم گردانتے تھے۔ اگر آج بھی یہ چلن ہے تو کیا عجب کہ شیطان بھی وہی ہے اور لوگ بھی۔ اللہ نے تو فرمادیا کہ اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اس چیز کو نہیں بدل دیتے جو ان کے دلوں میں ہے۔ یعنی قلب کی اصلاح سے ہی اللہ کی نصرت و مدد آتی ہے۔ آج ہم دلوں کو چھوڑ کر جسموں کو فتح کرنے نکل پڑے ہیں۔ ایک جہاد کی مثال سب کے سامنے ہے۔ دل درست نہ تھے تو سوویت یونین کے جانے کے بعد بھی "مجاہدین" ایک دوسرے کا خون بہا کر جہاد کرتے رہے۔ اور جب تک کنویں میں سے کُتا نہ نکلے گا تب تک پانی تو پاک نہیں ہوگا چاہے جتنے مرضی ڈول نکالیں۔
لوگ نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی احادیث‌کے حوالے دیتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم نے کتنی دفعہ جنگوں کی ابتداء کی؟ کتنی دفعہ بغیر سفارت بھیجے جنگ کی؟ اور پھر یہ کہ جنگ کے لئے لشکروں کو کیا ہدایات فرمائیں؟ جس نبی رحمت نے درختوں تک کو کاٹنے سے منع کیا اس کا پاک نام استعمال کرکے لوگ بچوں سے بھری بسوں، عام غریب لوگوں سے بھری ویگنوں اور بازاروں میں بم پھاڑتے ہیں اور اپنے آپ کو مبتدیانِ رحمت اللعالمین گردانتے ہیں۔ نسبت کی واحد کسوٹی تو عمل ہی ہے۔ پہلے اپنے دل میں اللہ کی مخلوق کا اتنا پیار بھرا جائے جو نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کے صدر مبارک میں موجزن ہے اور پھر کسی فیصلے کے غلط یا صحیح ہونے کا تعین کیا جائے۔ شہاب صاحب مرحوم کی یہ بات مجھے بہت اچھی لگتی ہے کہ کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے یہ سوچ لو کہ اگر نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم تمہاری جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟ اور آقا صل اللہ علیہ وسلم نے زندگی صرف ایک حاکم کے طور پر ہی نہیں ایک محکوم کے طور پر بھی گزاری ہے یہ الگ بات کہ ہم سب کو صرف حاکم بننے کا شوق ہے اور سُنت کے باقی گوشوں سے ہم بڑی آسانی کے ساتھ صرفِ نظر کر جاتے ہیں۔ اس نبی کے پیروکار جو جاہلوں کے پتھر کھا کر بھی دعا فرماتے کہ "اے اللہ انہیں ہدایت دے کہ یہ نہیں جانتے" آج مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کو ہی مارنے کی ترغیب دیتے ہیں اور اسے عین دین قرار دیتے ہیں۔ امت کو کسی بات پر اکٹھا کرنے کی بجائے اس میں تفرقہ ڈالتے ہیں اور آپس میں قتل و غارت کی ترغیب و تحریص دیتے ہیں۔
حضرت موسٰی علیہ السلام جب کوہِ طور سے واپس آئے تو قوم کو بچھڑے کی پوجا میں مصروف دیکھا۔ غضبناک ہوکر حضرت ہارون علیہ السلام کی ڈاڑھی مبارک کو پکڑ کر پوچھا کہ تو نے انہیں روکا کیوں نہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ اس وجہ سے کہ کہیں قوم تقسیم نہ ہو جائے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے یہ سُن کہ ان کی ڈاڑھی چھوڑ دی اور تعرض نہیں کیا۔ ہمارے پاس تو آقا صل اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میرے امت کی اکثریت کبھی بھی ناحق بات پر اکٹھی نہیں ہوگی پھر بھی ہم اکثریت کی رائے ماننے کی بجائے ایک اقلیت کی رائے مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ احادیث کی دُہائی دینے والے شاید ادھر نہیں دیکھ سکتے یا پھر جان بوجھ کر صرفِ نظر کرتے ہیں۔
 

Muhammad Naeem

محفلین
یہ کون ہاتھ ہیں ؟؟؟

یہاں آپ اپنے آئیڈیل مولوی سرور کی مثال دینا غالباً بھول گئے۔ کوئی مذہبی جنونی عورتوں کو قتل کرتا پھرے تو وہ بھی جہاد کر رہا ہے۔ اور شاید عبادت گاہوں میں خودکش دھماکے بھی جہاد ہیں۔ اور کوئی اسے دہشت گردی سمجھے تو اس کے منہ پر ان آیات کا طمانچہ رسید کرنا چاہیے۔
محترم بھائی! کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ جب اسی محمد سرو نے بدکار عورتوں( جنہیں گوجرانوالہ کی پولیس بھی جانتی تھی اور عوام بھی) کو قتل کیا تو اس پر محمد سرور کی رہائی کے وقت گوجرانوالہ پولیس کے ایک ذمہ دار افسر نے آف دی ریکارڈ بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کال گرلز کا یہی علاج تھا جو محمد سرور مغل نے کیا۔ اور پھر محمد سرور کی رہائی پر عوام نے اسے کندھوں پر بٹھا یا اور گوجرانولہ میں جشن منایا گیا۔ لیکن جب اسی محمد سرور نے تعلیمات قرآنی سے کھلواڑ کرنے اور عورتوں کی میرا تھون کروانے والی وزیر کو نشانہ بنایا تو پولیس کو سانپ سونگھ گیا۔
وجہ یہی تھی کہ اس مرتبہ حکومتی وزیر نشانہ بنی تھی۔ جس کے جرائم کم نوعیت کے نہ تھے۔
یہ فیصلہ اب وقت پر چھوڑئیے۔ وقت اپنا فیصلہ خود سناتا ہے۔ جب کبھی پاکستان میں حدود آرڈیننس ( بلکہ میں تواسے بدکاری آرڈیننس کہنا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں) کی مخالفت کی بات ہوگی تو محمد سرور کا نام اس وقت یادگار بن جائے گا۔
کبھی حسرت موہانی، فضل حق خیرآ بادی، قاسم نانوتوی، محمد علی قصوری، محمود الحسن، اور جعفر تھانسیری کے نام غداروں، شرپسندوں اور دہشت گردوں کے طور پر لیئے جاتے تھے۔ لیکن ان کے بارے میں وقت نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ اور آج وہ لوگ اسلامیان پاک و ہند کے ہیرو تصور کئے جاتے ہیں۔
محمد سرور کے بارے میں بھی وقت اپنا فیصلہ سنائے گا۔ اور اگر ہماری زندگی ہوئی تو ہم بھی وہ فیصلہ سن لیں گے۔ پھر آپ اس کے بارے میں فیصلہ کیجیئے گا۔
جہاں تک نمازیوں اور مساجد میں بم دھماکوں کا تعلق ہے۔ تو ایسے لوگ وہی ہیں جوننگ ناموس دین وملت ہیں۔ اور کفار کے ایجنٹ ہیں ۔ وگرنہ کوئی باکردارمسلمان ایسا نہیں کرتا۔ اور اس سلسلے کی کڑیاں ان مجرموں تک ملتی ہیں جنہیں نے 12ربیع الاول نشتر پارک کے بم دھماکے کو تین منٹ بعد ہی اسلام آباد میں بیٹھے بیٹھے" خود کش حملہ ہوگا "کہہ دیا تھا۔ اور آج تک اس افسوسناک حادثے کی تحقیقات کا دروازہ بند ہے۔ ان لوگوں کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے۔
"خود ہی قاتل ،خود ہی مخبر، خود ہی منصف ٹھہرے
اقربا میرے کریں خون کا دعویٰ کس پر "
نیز اس سلسے میں اگر آپ امریکہ کی "بلیک واٹر سکیورٹی ایجنسی" کے کارناموں کا جائزہ لینے کی ہمت کریں تو منظر مزید نکھر جائے گا۔
 

Muhammad Naeem

محفلین
محترم ،
میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ کی غلط فہمیاں دور کر ہی دوں کہ میں آیات قرآنی کا حوالہ کیوں نہیں دیتا ۔ لیکن یاد رکھئیے کہ میں مخاصمت بڑھانے کے لئیے ان کا حوالہ نہیں دوں گا میرا مقصد آپ کی اصلاح اور جہاد کی اصل روح سے آپ کو روشناس کروانا ہے ۔
میرے بھائی آپ کی بات جان کر سخت افسوس ہوا۔ کون بد بخت ایسا ہوگا جو قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کا انکار کرے۔
اور میرے خیال میں اب اس بحث کو جاری رکھنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ۔کیونکہ جہاد پر بحث کوئی ایسا کھلواڑ نہیں ہے کہ ہر کوئی اسے اپنے مقرر کردہ پیمانوں پر اس سے مذاق کرتا پھرے۔ وگرنہ تو ہر شخص اپنے الگ الگ پیمانے رکھے گا۔ اس لئے اس پر صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں بحث کرنے کا کہا گیا تھا۔ اور آپ نے کوئی بھی بات قرآن و سنت کی روشنی میں نہیں کہی۔ بلکہ الگ سےکہانی شروع کردی۔
اب میری طرف سے اس موضوع پر تہہ دل سے بحث سے معذرت۔ کیونکہ اب بحث اسلام کے اصولوں سے ہٹ کر ذاتی اناء کے مسئلے میں بدل جائے گی۔
والسلام۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
اب یہ عبادت گاہوں میں خود کش دھماکے کرنے والوں کی مذمت کر رہے ہیں۔ شاید انجان بن رہے ہیں۔ یہ طالبان ہی تھے جن کے زیر سرپرستی ٹرینیگ کیمپوں میں لشکر جھنگوی والے تربیت حاصل کرکے پاکستان میں خونریزی پھیلانے آتے تھے۔ مجھے پتا ہے کہ یہ صاحب ناچنا شروع کر دیں گے کہ نکالو نکالو کہاں ہے ثبوت۔ مجھے تو نعیم اور ابرار جیسے لوگ جان بوجھ کر جہاد کو بدنام کرنے کی مہم کا حصہ لگتے ہیں۔ یہ لوگ خاص طور پر مولوی سرور جیسے مذہبی جنونیوں کو ہیرو بناتے ہیں تاکہ لوگوں کے دل میں دین کی جانب سے نفرت پیدا ہو۔ ابرار کے متعلق تو مجھے فاروق بھائی کی بات درست لگتی ہے کہ اس کی اصلیت کچھ اور ہے۔ یہی کچھ مجھے نعیم پر بھی صادق آتا نظر آتا ہے۔
 

ساجد

محفلین
محمد نعیم لکھتے ہیں:
میرے بھائی آپ کی بات جان کر سخت افسوس ہوا۔ کون بد بخت ایسا ہوگا جو قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کا انکار کرے۔

میرے دوست ،
میں نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ ہم میں سے کوئی آیاتِ قرآنی یا احادیثِ مبارکہ سے انکار کر رہا ہے۔ آپ غور فرمائیے میں نے عرض کیا تھا کہ لوگ ان کے معانی کو اپنی غلط باتوں کو سچا ثابت کرنے کے لئیے توڑ مروڑ دیتے ہیں اور اس کا مشاہدہ ہم سب کو ہے۔

محمد نعیم لکھتے ہیں:
میرے خیال میں اب اس بحث کو جاری رکھنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ۔کیونکہ جہاد پر بحث کوئی ایسا کھلواڑ نہیں ہے کہ ہر کوئی اسے اپنے مقرر کردہ پیمانوں پر اس سے مذاق کرتا پھرے۔
حضور والا ! جب میں نے یہی بات کہی تھی ،جو اب آپ کہہ رہے ہیں ، تو آپ نے بڑا جارحانہ لہجہ اختیار کیا تھا۔ اور اپنے خود ساختہ فلسفہ جہاد پر لکھتے ہوئے آپ نے کسی کی بات سننا اور سمجھنا تک گوارہ نہ کیا تھا۔ اب اچانک ہی آپ کو یہ خیال کیسے آ گیا؟

محمد نعیم لکھتے ہیں:
وگرنہ تو ہر شخص اپنے الگ الگ پیمانے رکھے گا۔ اس لئے اس پر صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں بحث کرنے کا کہا گیا تھا۔اور آپ نے کوئی بھی بات قرآن و سنت کی روشنی میں نہیں کہی۔
ہاں میرے محترم دوست ، آپ نے یہی کہا تھا لیکن عجیب بات ہے کہ اب جبکہ میں نے ابھی صرف ایک آیت ہی آپ کے مؤقف کے رد میں پیش کی ہے تو آپ پینترا بدل رہے ہیں ۔ حالانکہ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ اب میں قرآن پاک کی آیات کے حوالوں سے آپ کے خیالات کے رد میں جو مضامین لکھوں گا وہ مخاصمت بڑھانے کے لئیے نہیں بلکہ آپ کی اصلاح کے لئیے ہوں گے۔
آپ نے تو طعنہ بازی تک شروع کر دی تھی کہ شاید میں خالی فائر کر رہا تھا او قرآنی آیات کے حوالے پیش نہیں کر سکتا۔
میرے محترم ، میں ابھی بھی اس مؤقف پر قائم ہوں کہ ہمیں ہر چھوٹی چھوٹی بات پر الجھ کر قرآنی آیات کو دلیل بنانے سے گریز کرنا چاہئیے لیکن آپ کے روئیے نے مجھے مجبور کیا کہ اب آپ کی یہ غلط فہمی دور کر دوں کہ میں شاید آپ کی لفاظی سے مرعوب ہوں۔
آپ نہیں کہہ سکتے کہ میں نے کوئی بات قرآن و سنت کی روشنی میں نہیں کہی۔ ابھی تو میں نے سورۃالعلق کی صرف پہلی آیت کا ترجمہ اور اس کی تشریح بیان کی ہے اور آپ ابھی بھی فرما رہے ہیں کہ قرآن سے دلیل لاؤ۔ کیا یہ سورت قرآن سے باہر ہے؟؟؟ میں نے کہا تھا نا کہ صبر سے کام لیجئیے اور ٹھنڈے دماغ سے ان مضامین کا مطالعہ کرتے رہئیے۔
محترم ، بات یہ ہے کہ " میں نہ مانوں " کی ضد کا حل کسی کے پاس نہیں اور مدرسے کی زندگی سے ہی مجھے تجربہ ہے کہ خطابت و بلاغت پر عبور رکھنے کی وجہ سے زیادہ تر لوگ اس فن کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسروں کو مرعوب کرتے ہیں اور جب ان کو معلوم ہو کہ سامنے والا ان کی بات کا رد کرنے کی اہلیت رکھتا ہے تو پھر فرار کے راستے تلاش کرتے ہوئے بھی لفاظی ہی کا سہارا لیتے ہیں ۔
آپ حوصلہ رکھئیے میں آپ پر کوئی الزام نہیں دے رہا۔ میں نے بحث میں پڑنے سے حتی الامکان پہلو تہی کی لیکن آپ نے اس کا غلط مطلب اخذ کیا۔

محمد نعیم نے لکھا ہے:
اب میری طرف سے اس موضوع پر تہہ دل سے بحث سے معذرت۔
مجھے اسی بات کی توقع تھی۔

محمد نعیم نے لکھا ہے:
کیونکہ اب بحث اسلام کے اصولوں سے ہٹ کر ذاتی اناء کے مسئلے میں بدل جائے گی۔
ذاتی انا پر نہ پہلے بحث ہوئی ہے نہ اب ہونے کا امکان ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ذاتیات پر حملے آپ نے کئیے تھے کبھی گرگٹ لکھ کر تو کبھی کفار کے مددگار لکھ کر اور پھر آخر میں بات تُف لکھنے تک پہنچی تبھی میں نے آپ کو مناسب سا جواب دیا تھا۔ ورنہ میں آپ کو دلیل سے ہی قائل کر رہا تھا اور آپ فرما رہے تھے کہ قرآن سے حوالے لاؤ ۔ اب قرآن سے حوالے دے رہا ہوں تو آپ مان کے ہی نہیں دے رہے۔
بہر حال اگر آپ یک طرفہ طور پر اس بحث سے نکل بھی جائیں تو بھی میرے مضامین کا سلسلہ جاری رہے گا کیوں کہ یہ آپ کی ذات کو نشانہ بنا کر نہیں لکھے جائیں گے بلکہ ان کا مقصد اصلاحی ہو گا۔ اگرچہ میں آج کل بے حد مصروف ہوں اور اس کی وجہ سے خیالات کے ارتکاز میں کمی رہتی ہے لیکن پھر بھی کوشش کروں گا کہ اپنی بات احسن طریقے سے آپ سب تک پہنچا سکوں۔
 

فرخ

محفلین
السلام و علیکم و رحمتہ اللہ
بھائی لوگ، بات یہ ہے کہ، جہاد کے موضوع پر تو مباحثے آجکل بہت عام ہوتے جا رہے ہیں۔ اور اسکی ایک وجہ میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے جو ہمارے گھروں‌میں‌ٹی وی، انٹرنیٹ ، اخبارات، ریڈیو سٹیشنز وغیرہ کے ذریعے مواد پھیلاتا رہتا ہے۔
اور میں نے شدت سے یہ محسوس کیاہے، کہ لوگوں کے ذھن میڈیا کی کروٹ کے مطابق موڑ کھاتے نظر آتے ہیں۔

جہاد کی اپنی ایک بہت زبردست اہمیت ہے۔ لیکن اس کو استعمال کرتے ہوئے جو غلطیاں کی گئیں، ان سے اس کی اصلیت پر داغ لگ گئے۔

اس بحث کے شروع میں کسی جہاد بالنفس کو جہاد اکبر اور جہاد بالسیف کو جہادِاصغر کہنے کے متعلق بات کی۔ تھوڑی سی تلاش سے اس کے یہ الفاظ ملے

رَجَعنَا مِنَ الجِھَادِ الاَصغَرِ اِلَی الجِھَادِ الاَکبَرِ قَالُو ا وَمَا الجِھَادِ الاَکبر؟ قالَ جہادِ القلب

یعنی حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف آگئے "۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا "یا رسول اللہ جہاداكبر كونسا جہاد ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "دل (جان)کا جہاد "(گویا کفار سے لڑنا چھوٹا جہاد ہے اور دل کی ریاضت بڑا جہادہے)

میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں، کسی کے پاس اس حدیث کا مناسب حوالہ موجود ہے؟ مقصد اس کی اصلیت جاننا ہے، کیونکہ تلاش کے باوجود مجھے اس کا حوالہ نہیں مل رہا کہ یہ کس حدیث کی کتاب میں ہے یا کسی عالم، محدث یا مفسر نے اسے صحیح بھی کہا ہے کہ نہیں۔

جزاک اللہ خیرا
 

طالوت

محفلین
لیجیے باعزت قتل کی ایک اور مثال : جنگ اخبار کے مطابق سینیٹ میں ایک خاتوں سینیٹر نے بلوچستان میں 5 خواتین کو زندہ درگور کرنے کے واقعے پر تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے ۔۔۔ جس پر بلوچستان سے سینیٹر اسراراللہ زہری غصے میں آ گئے اور فرمانے لگے کہ بلوچ روایات کو یہاں ڈسکس نہ کیا جائے ۔۔۔۔

اللہ کی لعنت ہو اایسی روایات پر اور ایسے علماء و مشایخ پر جو غیر ضروری کاموں میں تو کانوں کے پردے پھاڑ دیتے ہیں لیکن حق بات کہنے کی ان کو توفیق نہیں ہوتی ۔۔۔ اصل خبر کی ابھی تلاش ہے لیکن چونکہ معاملہ سینیٹ میں اٹھایا گیا ہے اور فریق مخالف کے غصے سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سچ ہے ۔۔۔ اور امید ہے کہ اس بدکاری کی سزا صرف خواتین تک محدود رہی ہو گی ۔۔۔۔

وسلام
 
Top