تیرہویں سالگرہ اردو محفلینِ کراچی کی ملاقات کا آنکھوں دیکھا حال ، کچھ اپنی کچھ دیگر شرکا کی زبانی

سید عمران

محفلین
ہماری کل کی ملاقاتی ٹیم نے اجلاس میں یہ قرارداد پاس کی کہ ایک ملاقات ان شاء اللہ آپ کی کراچی آمد پر لازمی رکھی جائے گی ۔
جس کا عنوان ہوگا،
" کراچی محفلین کی ایک شام تابش بھیا کے نام " ۔:)
چاہے یہ ملاقات صبح کو ہی کیوں نہ ہو۔۔۔
عنوان ٹس سے مس نہیں ہوگا!!!
 

زیک

مسافر
سبھی بہت اچھے لگ رہے ہیں. اللہ تعالی ان چہروں کو اس سے بھی زیادہ تروتازہ اور ہنستا مسکراتا رکھے اور ان پر خوشیوں کی ایسی بہاریں آئیں کہ جن کی کوئی خزاں نہ ہو! (محترمی سید عمران بھی بنا تصویر کے اس دعا میں شامل ہیں، کیونکہ ہمارا سخاوت کا من ہو رہا ہے! :) )

ایک بات میں نے نوٹ کی کہ محترمی فاخر صاحب اور محترمی خلیل الرحمن صاحب کی اوور آل پرسنیلٹی ملتی جلتی محسوس ہوتی ہے. کیا یہ محض تصویروں میں ہے یا درحقیقت ایسا محسوس ہوا آپ سب کو؟ کیا کہتے ہیں عینی شاہدین؟ :)
 
سبھی بہت اچھے لگ رہے ہیں. اللہ تعالی ان چہروں کو اس سے بھی زیادہ تروتازہ اور ہنستا مسکراتا رکھے اور ان پر خوشیوں کی ایسی بہاریں آئیں کہ جن کی کوئی خزاں نہ ہو! (محترمی سید عمران بھی بنا تصویر کے اس دعا میں شامل ہیں، کیونکہ ہمارا سخاوت کا من ہو رہا ہے! :) )

ایک بات میں نے نوٹ کی کہ محترمی فاخر صاحب اور محترمی خلیل الرحمن صاحب کی اوور آل پرسنیلٹی ملتی جلتی محسوس ہوتی ہے. کیا یہ محض تصویروں میں ہے یا درحقیقت ایسا محسوس ہوا آپ سب کو؟ کیا کہتے ہیں عینی شاہدین؟ :)
میں نے شروع والی تصاویر جو محض چہروں کی تھیں، دیکھ کر یہ تبصرہ کیا تھا. فہیم بھائی کی شریک کردہ تصاویر دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ اتنی بھی مماثلت نہیں ہے. :)
 

اکمل زیدی

محفلین
محفل کی کہانی ۔۔۔۔ کچھ۔۔ ہماری زبانی
کل صبح نو بجے کا وقت تھا مقام ہمارے گھر سے تقریباؐ آدھے گھنٹے کی رائیڈ پر تھا اسی متوقع ملاقات کے تانے بانے میں تھے بیگم بار بار پوچھ رہیں تھی کیا ہوا کن سوچوں میں گم ہیں ہم انہیں بتا چکے تھے کے کل صبح ایک ناشتے کی دعوت پر جانا ہے اسی ادھیڑ بن میں ہیں تو فرمانے لگیں تو اس میں اتنا سوچ و بچار کی کیا ضرورت ہے، جایئے کھایئے اور آجایئے۔۔۔جتنا آسانی سے انہوں نے کہہ دیا اور ہم نے آسانی سے سن لیا مگر یہ ہمیں پتہ تھا کہ یہ سب اتنا آسان نہیں تھا بہرحال انہیں مناسب جواب دے کر ہم سونے لیٹ گئے۔۔مگر ہمارے صاحبزادے کو علم تھا کل ابو کی چھٹی ہے اس لیے وہ آسانی سے چھوڑنے والے نہیں تھے ہمیں اسطرح استراحت پر آمادہ دیکھ کر ہم پر سوار ہو چکے تھے اور کسی طرح ہمیں اتنی آسانی سے سونے نہیں دینا چاہتے تھے مختصر یہ کہ کچھ ان کو بہلانے اور بیگم کے حوالے کرنے کے بعد ہم خواب غفلت آغوش میں جلوہ افروز ہو چکے تھے۔
پھر ہم محفلیں کے درمیان تھے باقی سب سے تو صورت سے آشنا تھے پھر ،ایک کمزور مخنی سا لڑکے سے ملے جس نے خود کو عمران کہہ کر متعارف کروایا پھر ایک کھڑوس سا بندہ نظر آیا اور ہم پہچان گئے کے ہو نہ ہو یہ فاخر صاحب ہیں ان سے بھی ملے پھر ناشتہ آگیا نہاری حلوہ پوری بس پھر باقی محفلین سے بقیہ تعارف موقوف کرکے ہم ناشتے پر ٹوٹ پڑنے والے تھے کے ہمیں جننجھوڑ دیا گیا،" سنیں ۔۔آپ نے جانا نہین ہے کیا"۔ بیگم کی آواز آئی۔۔ہیں!! کیا!! ۔۔تو کیا ہم عالم خواب میں تھے؟۔۔
ٹائم دیکھا آٹھ بج کر پانچ منٹ ہو چکے تھے فوراؐ سے پیشتر اٹھے اور جانے کی تیاری شروع کردی اتنے میں فہیم بھائی کا میسج آیا کدھر؟ تو ہم نے جواب دیا بس ابھی آیا۔۔ہمارے حساب سے ہم دس پندرہ منٹ لیٹ ہو چکے تھے بائیک نکالی اور روانہ ہوئے متوقع ملاقات اور خواب میں ہوئی ملاقات کی سوچ بیچار کے بیچوں بیچ تھے کے احساس ہوا وہ چورنگی پیچھے رہ گئی جہاں سے مڑنا تھا خیر اگلی چورنگی سے ہوتے ہوے بلآخر بتائی ہوئی جگہ پہنچ چکے تھے بالکل مالک یا ملک ہوٹل کے سامنے بائیک وہیں پر کھڑی کر کے ہم اندر چلے گئے اندر کافی لوگ ناشتے میں مشغول تھے کسی نے بھی ہم پر توجہ نہ دی۔۔مگر ہم ہر کسی پر توجہ دینے میں مصروف تھے کے کوئی شناسا صورت نظر آجائے مگر سب کے منہ مصروٖف اور سر جھکے ہوئے تھے کہیں کوئی دعوتی یا کھوجتی نظر نہیں پڑی ناچار ہم باہر آگئے پھر سوچا بس بہت ہو گئ تلاش اب فون کر لیا جائے سوچا ہی تھا کے فہیم بھائی کی کال آگئ کہاں رہ گئے اکمل بھائی میں نے کہا ہم تو ملک ہوٹل میں ہی ہیں آپ کس ٹیبل پر ہیں کہنے لگے باہر آجائیں اور سیدھے سیدھے چلے آئیں ہم اسی رہنمائی میں بڑھتے گئے تو پھر شاید ہمیں دیکھ لیا گیا ہاتھ ہلا کر ہمیں بلا لیا گیا۔
۔۔کچھ دیر بعد ہم محفلین کے درمیان تھے سب سے پہلے ہم نے عدنان بھائی سے معانقہ کیا معاً احساس ہوا کے یہ نازک وجود ہماری گرم جوشی نہ سہار سکے گا پھر ہم دوسرے محفلین کی طرف متوجہ ہوئے عدنان بھائی کے برابر میں ایک باریش جاذب نظر شخصیت براجمان تھی ان سے ملے تو معلوم ہوا سید عمران صاحب ہیں ہمارے ذہن میں وہ خواب والا مخنی سا لڑکا گھوم کیا اس تصور کو جھٹک کر آگےبڑھے تو فہیم کی شکل کا ایک بندہ تھا تو انہوں نے تصدیق کی کے وہی فہیم ہیں تو ہم نے کہا اوہ اچھا آپ تو بڑے ہو گئے ۔۔۔پھر ایک صاحب جو مسلسل شاید ہمارے احترام میں کھڑے ہوے تھے (مگر واہ رے خوش فہمی) کیونکہ جب ہم ان تک پہنچے تو پتہ چلا وہ کھڑے ہوے نہیں تھے بلکے بیٹھے ہوئے ہی تھے مگر دراز قد کی وجہ سے ہم سمجھے کے کھڑے ہوئے ہیں پھر ہم سامنے والی قطار کی طرف دیہان کیا تو ایک کاؤ بوائے نظر آیا پرانی انگلش فلموں کے ہیرو ذہن میں آگئے ساتھ میں انتہائی مشفقانہ مسکراہٹ کے ساتھ خلیل بھائ بیٹھے ہوے تھے جن سے ملے برابر میں ایک بولتی آنکھوں والی ملیحانہ مسکراہٹ لیے شخصیت سے ملے نام سن کر ایک جھٹکا سا لگا جی وہ فاخر رضا تھے اس جھٹکے نے وہ کھڑوس تاثر زائل کر ڈالا ۔۔۔سب سے مل ملا کر ہم خالد بھائی کے قریب اور امین بھائی کے سامنے براجمان ہوے بیٹھتے ہی ہم نے پہلا سوال (ازراہ تفنن) امین بھائی سے ان کے حلیے کی وجہ سے داغا اور پوچھا کے آپ کا گھوڑا کہاں ہے؟ انہون نے بالکل غیر متوقع طور پر بالکل خالص اردو میں جواب دیا ۔۔ جس میں ہمیں صرف آہنی گھوڑا یاد رہ گیا جس سے ہم سمجھ پائے کے وہ بتا رہے تھے وہ بایئک پر آیے ہیں جو قریب ہی کہیں کھڑی کی ہے ۔۔ہم نے حیرت سے خلیل بھائی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، سر یہ تو بولتے بھی ایسے ہی ہیں بہت خوشگوار حیرات کا سامنا ہوا۔۔۔ پھر گفتتگو کا باقاعدہ آغاز ہوا جس میں مختلف موضوعات پر بات ہوتی رہی خالد بھائی حالات کے المیے اور زمانے کی بے دردی پر محو گفتگو تھے عمران بھائی فاخر بھائی عدنان بھائی ۔۔۔ خلیل بھائی کے مشاہدتی و تجزیاتی گفتگو سے فیض اٹھا رہے تھے جو بوجہ کوشش ہم سن پا رہے تھے (کچھ فاصلے پر موجود ہونے کی وجہ سے) اسی دوران فہیم صاحب با آواز بلند کراچی سٹائل میں بیرے کو ناشتہ لانے کا کہہ چکے تھے ، اس دوران ناشتہ لگنا شروع ہو گیا اور لگنے کے بعد ہر بندہ "شروع" ہو گیا چائے آرڈر کی گئی مگر دو صاحبان نے کولڈڈرنک کا آرڈر کیا ہم حیرت سے ان کو تکا کیے بعد میں وہ چائے بھی آرڈر کر کے ہماری حیرت کو دو چند کیے ناشتے کے آخری لمحات میں غالباؐ احمد بھائی کی کال آگئ جو کھانے سے زیادہ ملنے ملانے پر سیریس تھے انہیں جگہ سمجھائی گئ اور وہ پہنچ بھی گئے بل وغیرہ کا مرحلہ بخیر و خوبی انجام پا گیا یہاں صرف اتنا کہونگا بل کی مشترکہ ادائیگی کا صرف یہ مقصد تھا کہ آئندہ بھی کوئی پروگرام بنے تو سب کمفرٹیبل ہو کر شرکت کریں ورنہ اگر صرف ایک بار ہی کی بات ہوتی تو ہم اٹھ کر ادا کر چکے ہوتے :cool:(کیونکہ گھر کے سودے کے پیسے ہماری جیب ہنوز موجود تھے :whistle:)

ناشتے سے فراغت اور احمد بھائی کی شاندار انٹری کے بعد طے پایا کے قریبی پارک میں محفل سجائی جائے پھر ہم قریبی مشہور کراچی ہل پارک میں پہنچے اور پہنچتے ہی سب سے پہلے سیلفی لی گئی اور ۔۔پھر تو صاحبو. . . وہ محفل جمی کہ بس خوب ہی لطف آیا خلیل بھائی کا پر مزاح کلام اور احمد بھائی کی سنجیدہ اور خوبصورت شاعری نے خوب رنگ جمایا اس پر کیا ہی بات رہی امین بھائی کی انہوں نے کیا سر لگایا ۔۔۔سچی میں مہدی حسن اور محمد رفیع یاد آگئے اور ہم نے سوچا بھی اور اس کا برملا اظہار بھی کیا کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو ۔۔۔ پھر انہیں زندہ رہنے کا مقصد سمجھ نہیں آتا۔۔۔وہ جیلسی میں ہی کوچ کر جاتے امین بھائی ہمیں مشکوک نظروں سے دیکھتیے ہوئے پوچھنے لگے یہ آپ واقعی تعریف کر رہے ہیں نا؟ ہم نے بادل نخواستہ یقین دلای۔۔رہی سہی کثر فاخر بھائی کے بلند و بانگ قہقہوں نے پوری کردی ( مگر آپس کی بات ہے ظالم نے خوب گایا)

یہاں عمران بھائی کے چست اور ذو معنی فقروں کا بھی ذکر کردوں( جو ادا کیے تھے وہ نہیں لکھ رہا ) بس یہی کہنا ہے کے محفل کو کشت زعفراں بنانے میں ان کا بھی کافی عمل دخل رہا مگر ایک بات جو میں نے نوٹ کی اور میری سمجھ میں ابھی تک نہیں آئ شاید اب یہاں صاحبان سمجھا سکیں کہ ہم تو بڑے اشتیاق میں عمران بھائی اور عدنان بھائی کی نوک جھونک بھی دیکھنے میں گئے تھے مگر وہاں بالترتیب صرف نوک نظر آئی عمران بھائی کی طرف سے مگر باقی عدنان صاحب کی طرف سے جھونک جسے ہم یہان جھونکے بھی کہہ سکتے ہیں نطر آئے کچھ سمجھ نہیں آیا عدنان بھائی ڈرے سہمے ہوے تھے احترام میں تھے کیا تھا ان کی خاموشی اور کم گوئی کس خانے میں فٹ کی جائے شاید سہمے ہوے تھے جو اس بات سے کنفرم ہوا۔
بھئی ہم زندہ سلامت آ گئے عمران بھائی کے ہاتھ سے بچ کر ۔
شکر منائیں...
یم نے بھی صرف سونگھ کر چھوڑ دیا!!!


ابھی محفل عروج پر ہی تھی اور کسی کا برخاست کرنے کا موڈ نظر نہیں آرہا تھا کہ کچھ دیر بعد اذان ظہر کی آوازیں آنے لگیں تو سب نے بادل نخواستہ و بوعدہ اگلی نشست یہ پر رونق محفل برخاست کی اور سب ایکدوسرے سے معانقہ کر کے روانہ ہوئے۔
 
آخری تدوین:
محفل کی کہانی ۔۔۔۔ کچھ۔۔ ہماری زبانی
کل صبح نو بجے کا وقت تھا مقام ہمارے گھر سے تقریباؐ آدھے گھنٹے کی رائیڈ پر تھا اسی متوقع ملاقات کے تانے بانے میں تھے بیگم بار بار پوچھ رہیں تھی کیا ہوا کن سوچوں میں گم ہیں ہم انہیں بتا چکے تھے کے کل صبح ایک ناشتے کی دعوت پر جانا ہے اسی ادھیڑ بن میں ہیں تو فرمانے لگیں تو اس میں اتنا سوچ و بچار کی کیا ضرورت ہے، جایئے کھایئے اور آجایئے۔۔۔جتنا آسانی سے انہوں نے کہہ دیا اور ہم نے آسانی سے سن لیا مگر یہ ہمیں پتہ تھا کہ یہ سب اتنا آسان نہیں تھا بہرحال انہیں مناسب جواب دے کر ہم سونے لیٹ گئے۔۔مگر ہمارے صاحبزادے کو علم تھا کل ابو کی چھٹی ہے اس لیے وہ آسانی سے چھوڑنے والے نہیں تھے ہمیں اسطرح استراحت پر آمادہ دیکھ کر ہم پر سوار ہو چکے تھے اور کسی طرح ہمیں اتنی آسانی سے سونے نہیں دینا چاہتے تھے مختصر یہ کہ کچھ ان کو بہلانے اور بیگم کے حوالے کرنے کے بعد ہم خواب غفلت آغوش میں جلوہ افروز ہو چکے تھے۔
پھر ہم محفلیں کے درمیان تھے باقی سب سے تو صورت سے آشنا تھے پھر ،ایک کمزور مخنی سا لڑکے سے ملے جس نے خود کو عمران کہہ کر متعارف کروایا پھر ایک کھڑوس سا بندہ نظر آیا اور ہم پہچان گئے کے ہو نہ ہو یہ فاخر صاحب ہیں ان سے بھی ملے پھر ناشتہ آگیا نہاری حلوہ پوری بس پھر باقی محفلین سے بقیہ تعارف موقوف کرکے ہم ناشتے پر ٹوٹ پڑنے والے تھے کے ہمیں جننجھوڑ دیا گیا،" سنیں ۔۔آپ نے جانا نہین ہے کیا"۔ بیگم کی آواز آئی۔۔ہیں!! کیا!! ۔۔تو کیا ہم عالم خواب میں تھے؟۔۔
ٹائم دیکھا آٹھ بج کر پانچ منٹ ہو چکے تھے فوراؐ سے پیشتر اٹھے اور جانے کی تیاری شروع کردی اتنے میں فہیم بھائی کا میسج آیا کدھر؟ تو ہم نے جواب دیا بس ابھی آیا۔۔ہمارے حساب سے ہم دس پندرہ منٹ لیٹ ہو چکے تھے بائیک نکالی اور روانہ ہوئے متوقع ملاقات اور خواب میں ہوئی ملاقات کی سوچ بیچار کے بیچوں بیچ تھے کے احساس ہوا وہ چورنگی پیچھے رہ گئی جہاں سے مڑنا تھا خیر اگلی چورنگی سے ہوتے ہوے بلآخر بتائی ہوئی جگہ پہنچ چکے تھے بالکل مالک یا ملک ہوٹل کے سامنے بائیک وہیں پر کھڑی کر کے ہم اندر چلے گئے اندر کافی لوگ ناشتے میں مشغول تھے کسی نے بھی ہم پر توجہ نہ دی۔۔مگر ہم ہر کسی پر توجہ دینے میں مصروف تھے کے کوئی شناسا صورت نظر آجائے مگر سب کے منہ مصروٖف اور سر جھکے ہوئے تھے کہیں کوئی دعوتی یا کھوجتی نظر نہیں پڑی ناچار ہم باہر آگئے پھر سوچا بس بہت ہو گئ تلاش اب فون کر لیا جائے سوچا ہی تھا کے فہیم بھائی کی کال آگئ کہاں رہ گئے اکمل بھائی میں نے کہا ہم تو ملک ہوٹل میں ہی ہیں آپ کس ٹیبل پر ہیں کہنے لگے باہر آجائیں اور سیدھے سیدھے چلے آئیں ہم اسی رہنمائی میں بڑھتے گئے تو پھر شاید ہمیں دیکھ لیا گیا ہاتھ ہلا کر ہمیں بلا لیا گیا۔
۔۔کچھ دیر بعد ہم محفلین کے درمیان تھے سب سے پہلے ہم نے عدنان بھائی سے معانقہ کیا معاً احساس ہوا کے یہ نازک وجود ہماری گرم جوشی نہ سہار سکے گا پھر ہم دوسرے محفلین کی طرف متوجہ ہوئے عدنان بھائی کے برابر میں ایک باریش جاذب نظر شخصیت براجمان تھی ان سے ملے تو معلوم ہوا سید عمران صاحب ہیں ہمارے ذہن میں وہ خواب والا مخنی سا لڑکا گھوم کیا اس تصور کو جھٹک کر آگےبڑھے تو فہیم کی شکل کا ایک بندہ تھا تو انہوں نے تصدیق کی کے وہی فہیم ہیں تو ہم نے کہا اوہ اچھا آپ تو بڑے ہو گئے ۔۔۔پھر ایک صاحب جو مسلسل شاید ہمارے احترام میں کھڑے ہوے تھے (مگر واہ رے خوش فہمی) کیونکہ جب ہم ان تک پہنچے تو پتہ چلا وہ کھڑے ہوے نہیں تھے بلکے بیٹھے ہوئے ہی تھے مگر دراز قد کی وجہ سے ہم سمجھے کے کھڑے ہوئے ہیں پھر ہم سامنے والی قطار کی طرف دیہان کیا تو ایک کاؤ بوائے نظر آیا پرانی انگلش فلموں کے ہیرو ذہن میں آگئے ساتھ میں انتہائی مشفقانہ مسکراہٹ کے ساتھ خلیل بھائ بیٹھے ہوے تھے جن سے ملے برابر میں ایک بولتی آنکھوں والی ملیحانہ مسکراہٹ لیے شخصیت سے ملے نام سن کر ایک جھٹکا سا لگا جی وہ فاخر رضا تھے اس جھٹکے نے وہ کھڑوس تاثر زائل کر ڈالا ۔۔۔سب سے مل ملا کر ہم خالد بھائی کے قریب اور امین بھائی کے سامنے براجمان ہوے بیٹھتے ہی ہم نے پہلا سوال (ازراہ تفنن) امین بھائی سے ان کے حلیے کی وجہ سے داغا اور پوچھا کے آپ کا گھوڑا کہاں ہے؟ انہون نے بالکل غیر متوقع طور پر بالکل خالص اردو میں جواب دیا ۔۔ جس میں ہمیں صرف آہنی گھوڑا یاد رہ گیا جس سے ہم سمجھ پائے کے وہ بتا رہے تھے وہ بایئک پر آیے ہیں جو قریب ہی کہیں کھڑی کی ہے ۔۔ہم نے حیرت سے خلیل بھائی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، سر یہ تو بولتے بھی ایسے ہی ہیں بہت خوشگوار حیرات کا سامنا ہوا۔۔۔ پھر گفتتگو کا باقاعدہ آغاز ہوا جس میں مختلف موضوعات پر بات ہوتی رہی خالد بھائی حالات کے المیے اور زمانے کی بے دردی پر محو گفتگو تھے عمران بھائی فاخر بھائی عدنان بھائی ۔۔۔ خلیل بھائی کے مشاہدتی و تجزیاتی گفتگو سے فیض اٹھا رہے تھے جو بوجہ کوشش ہم سن پا رہے تھے (کچھ فاصلے پر موجود ہونے کی وجہ سے) اسی دوران فہیم صاحب با آواز بلند کراچی سٹائل میں بیرے کو ناشتہ لانے کا کہہ چکے تھے ، اس دوران ناشتہ لگنا شروع ہو گیا اور لگنے کے بعد ہر بندہ "شروع" ہو گیا چائے آرڈر کی گئی مگر دو صاحبان نے کولڈڈرنک کا آرڈر کیا ہم حیرت سے ان کو تکا کیے بعد میں وہ چائے بھی آرڈر کر کے ہماری حیرت کو دو چند کیے ناشتے کے آخری لمحات میں غالباؐ احمد بھائی کی کال آگئ جو کھانے سے زیادہ ملنے ملانے پر سیریس تھے انہیں جگہ سمجھائی گئ اور وہ پہنچ بھی گئے بل وغیرہ کا مرحلہ بخیر و خوبی انجام پا گیا یہاں صرف اتنا کہونگا بل کی مشترکہ ادائیگی کا صرف یہ مقصد تھا کہ آئندہ بھی کوئی پروگرام بنے تو سب کمفرٹیبل ہو کر شرکت کریں ورنہ اگر صرف ایک بار ہی کی بات ہوتی تو ہم اٹھ کر ادا کر چکے ہوتے :cool:(کیونکہ گھر کے سودے کے پیسے ہماری جیب ہنوز موجود تھے :whistle:)

ناشتے سے فراغت اور احمد بھائی کی شاندار انٹری کے بعد طے پایا کے قریبی پارک میں محفل سجائی جائے پھر ہم قریبی مشہور کراچی ہل پارک میں پہنچے اور پہنچتے ہی سب سے پہلے سیلفی لی گئی اور ۔۔پھر تو صاحبو. . . وہ محفل جمی کہ بس خوب ہی لطف آیا خلیل بھائی کا پر مزاح کلام اور احمد بھائی کی سنجیدہ اور خوبصورت شاعری نے خوب رنگ جمایا اس پر کیا ہی بات رہی امین بھائی کی انہوں نے کیا سر لگایا ۔۔۔سچی میں مہدی حسن اور محمد رفیع یاد آگئے اور ہم نے سوچا بھی اور اس کا برملا اظہار بھی کیا کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو ۔۔۔ پھر انہیں زندہ رہنے کا مقصد سمجھ نہیں آتا۔۔۔وہ جیلسی میں ہی کوچ کر جاتے امین بھائی ہمیں مشکوک نظروں سے دیکھتیے ہوئے پوچھنے لگے یہ آپ واقعی تعریف کر رہے ہیں نا؟ ہم نے بادل نخواستہ یقین دلای۔۔رہی سہی کثر فاخر بھائی کے بلند و بانگ قہقہوںا ( مگر آپس کی بات ہے ظالم نے خوب گایا)

یہاں عمران بھائی کے چست اور ذو معنی فقروں کا بھی ذکر کردوں( جو ادا کیے تھے وہ نہیں لکھ رہا ) بس یہی کہنا ہے کے محفل کو کشت زعفراں بنانے میں ان کا بھی کافی عمل دخل رہا مگر ایک بات جو میں نے نوٹ کی اور میری سمجھ میں ابھی تک نہیں آئ شاید اب یہاں صاحبان سمجھا سکیں کہ ہم تو بڑے اشتیاق میں عمران بھائی اور عدنان بھائی کی نوک جھونک بھی دیکھنے میں گئے تھے مگر وہاں بالترتیب صرف نوک نظر آئی عمران بھائی کی طرف سے مگر باقی عدنان صاحب کی طرف سے جھونک جسے ہم یہان جھونکے بھی کہہ سکتے ہیں نطر آئے کچھ سمجھ نہیں آیا عدنان بھائی ڈرے سہمے ہوے تھے احترام میں تھے کیا تھا ان کی خاموشی اور کم گوئی کس خانے میں فٹ کی جائے شاید سہمے ہوے تھے جو اس بات سے کنفرم ہوا۔




ابھی محفل عروج پر ہی تھی اور کسی کا برخاست کرنے کا موڈ نظر نہیں آرہا تھا کہ کچھ دیر بعد اذان ظہر کی آوازیں آنے لگیں تو سب نے بادل نخواستہ و بوعدہ اگلی نشست یہ پر رونق محفل برخاست کی اور سب ایکدوسرے سے معانقہ کر کے روانہ ہوئے۔
مزیدار مزیدار۔ کیا خوب لکھا ہے۔ لیکن زیدی بھائی اپنی مزیدار شرارتوں کا حال نہیں لکھا!!!
 

محمداحمد

لائبریرین
محفل کی کہانی ۔۔۔۔ کچھ۔۔ ہماری زبانی
کل صبح نو بجے کا وقت تھا مقام ہمارے گھر سے تقریباؐ آدھے گھنٹے کی رائیڈ پر تھا اسی متوقع ملاقات کے تانے بانے میں تھے بیگم بار بار پوچھ رہیں تھی کیا ہوا کن سوچوں میں گم ہیں ہم انہیں بتا چکے تھے کے کل صبح ایک ناشتے کی دعوت پر جانا ہے اسی ادھیڑ بن میں ہیں تو فرمانے لگیں تو اس میں اتنا سوچ و بچار کی کیا ضرورت ہے، جایئے کھایئے اور آجایئے۔۔۔جتنا آسانی سے انہوں نے کہہ دیا اور ہم نے آسانی سے سن لیا مگر یہ ہمیں پتہ تھا کہ یہ سب اتنا آسان نہیں تھا بہرحال انہیں مناسب جواب دے کر ہم سونے لیٹ گئے۔۔مگر ہمارے صاحبزادے کو علم تھا کل ابو کی چھٹی ہے اس لیے وہ آسانی سے چھوڑنے والے نہیں تھے ہمیں اسطرح استراحت پر آمادہ دیکھ کر ہم پر سوار ہو چکے تھے اور کسی طرح ہمیں اتنی آسانی سے سونے نہیں دینا چاہتے تھے مختصر یہ کہ کچھ ان کو بہلانے اور بیگم کے حوالے کرنے کے بعد ہم خواب غفلت آغوش میں جلوہ افروز ہو چکے تھے۔
پھر ہم محفلیں کے درمیان تھے باقی سب سے تو صورت سے آشنا تھے پھر ،ایک کمزور مخنی سا لڑکے سے ملے جس نے خود کو عمران کہہ کر متعارف کروایا پھر ایک کھڑوس سا بندہ نظر آیا اور ہم پہچان گئے کے ہو نہ ہو یہ فاخر صاحب ہیں ان سے بھی ملے پھر ناشتہ آگیا نہاری حلوہ پوری بس پھر باقی محفلین سے بقیہ تعارف موقوف کرکے ہم ناشتے پر ٹوٹ پڑنے والے تھے کے ہمیں جننجھوڑ دیا گیا،" سنیں ۔۔آپ نے جانا نہین ہے کیا"۔ بیگم کی آواز آئی۔۔ہیں!! کیا!! ۔۔تو کیا ہم عالم خواب میں تھے؟۔۔
ٹائم دیکھا آٹھ بج کر پانچ منٹ ہو چکے تھے فوراؐ سے پیشتر اٹھے اور جانے کی تیاری شروع کردی اتنے میں فہیم بھائی کا میسج آیا کدھر؟ تو ہم نے جواب دیا بس ابھی آیا۔۔ہمارے حساب سے ہم دس پندرہ منٹ لیٹ ہو چکے تھے بائیک نکالی اور روانہ ہوئے متوقع ملاقات اور خواب میں ہوئی ملاقات کی سوچ بیچار کے بیچوں بیچ تھے کے احساس ہوا وہ چورنگی پیچھے رہ گئی جہاں سے مڑنا تھا خیر اگلی چورنگی سے ہوتے ہوے بلآخر بتائی ہوئی جگہ پہنچ چکے تھے بالکل مالک یا ملک ہوٹل کے سامنے بائیک وہیں پر کھڑی کر کے ہم اندر چلے گئے اندر کافی لوگ ناشتے میں مشغول تھے کسی نے بھی ہم پر توجہ نہ دی۔۔مگر ہم ہر کسی پر توجہ دینے میں مصروف تھے کے کوئی شناسا صورت نظر آجائے مگر سب کے منہ مصروٖف اور سر جھکے ہوئے تھے کہیں کوئی دعوتی یا کھوجتی نظر نہیں پڑی ناچار ہم باہر آگئے پھر سوچا بس بہت ہو گئ تلاش اب فون کر لیا جائے سوچا ہی تھا کے فہیم بھائی کی کال آگئ کہاں رہ گئے اکمل بھائی میں نے کہا ہم تو ملک ہوٹل میں ہی ہیں آپ کس ٹیبل پر ہیں کہنے لگے باہر آجائیں اور سیدھے سیدھے چلے آئیں ہم اسی رہنمائی میں بڑھتے گئے تو پھر شاید ہمیں دیکھ لیا گیا ہاتھ ہلا کر ہمیں بلا لیا گیا۔
۔۔کچھ دیر بعد ہم محفلین کے درمیان تھے سب سے پہلے ہم نے عدنان بھائی سے معانقہ کیا معاً احساس ہوا کے یہ نازک وجود ہماری گرم جوشی نہ سہار سکے گا پھر ہم دوسرے محفلین کی طرف متوجہ ہوئے عدنان بھائی کے برابر میں ایک باریش جاذب نظر شخصیت براجمان تھی ان سے ملے تو معلوم ہوا سید عمران صاحب ہیں ہمارے ذہن میں وہ خواب والا مخنی سا لڑکا گھوم کیا اس تصور کو جھٹک کر آگےبڑھے تو فہیم کی شکل کا ایک بندہ تھا تو انہوں نے تصدیق کی کے وہی فہیم ہیں تو ہم نے کہا اوہ اچھا آپ تو بڑے ہو گئے ۔۔۔پھر ایک صاحب جو مسلسل شاید ہمارے احترام میں کھڑے ہوے تھے (مگر واہ رے خوش فہمی) کیونکہ جب ہم ان تک پہنچے تو پتہ چلا وہ کھڑے ہوے نہیں تھے بلکے بیٹھے ہوئے ہی تھے مگر دراز قد کی وجہ سے ہم سمجھے کے کھڑے ہوئے ہیں پھر ہم سامنے والی قطار کی طرف دیہان کیا تو ایک کاؤ بوائے نظر آیا پرانی انگلش فلموں کے ہیرو ذہن میں آگئے ساتھ میں انتہائی مشفقانہ مسکراہٹ کے ساتھ خلیل بھائ بیٹھے ہوے تھے جن سے ملے برابر میں ایک بولتی آنکھوں والی ملیحانہ مسکراہٹ لیے شخصیت سے ملے نام سن کر ایک جھٹکا سا لگا جی وہ فاخر رضا تھے اس جھٹکے نے وہ کھڑوس تاثر زائل کر ڈالا ۔۔۔سب سے مل ملا کر ہم خالد بھائی کے قریب اور امین بھائی کے سامنے براجمان ہوے بیٹھتے ہی ہم نے پہلا سوال (ازراہ تفنن) امین بھائی سے ان کے حلیے کی وجہ سے داغا اور پوچھا کے آپ کا گھوڑا کہاں ہے؟ انہون نے بالکل غیر متوقع طور پر بالکل خالص اردو میں جواب دیا ۔۔ جس میں ہمیں صرف آہنی گھوڑا یاد رہ گیا جس سے ہم سمجھ پائے کے وہ بتا رہے تھے وہ بایئک پر آیے ہیں جو قریب ہی کہیں کھڑی کی ہے ۔۔ہم نے حیرت سے خلیل بھائی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، سر یہ تو بولتے بھی ایسے ہی ہیں بہت خوشگوار حیرات کا سامنا ہوا۔۔۔ پھر گفتتگو کا باقاعدہ آغاز ہوا جس میں مختلف موضوعات پر بات ہوتی رہی خالد بھائی حالات کے المیے اور زمانے کی بے دردی پر محو گفتگو تھے عمران بھائی فاخر بھائی عدنان بھائی ۔۔۔ خلیل بھائی کے مشاہدتی و تجزیاتی گفتگو سے فیض اٹھا رہے تھے جو بوجہ کوشش ہم سن پا رہے تھے (کچھ فاصلے پر موجود ہونے کی وجہ سے) اسی دوران فہیم صاحب با آواز بلند کراچی سٹائل میں بیرے کو ناشتہ لانے کا کہہ چکے تھے ، اس دوران ناشتہ لگنا شروع ہو گیا اور لگنے کے بعد ہر بندہ "شروع" ہو گیا چائے آرڈر کی گئی مگر دو صاحبان نے کولڈڈرنک کا آرڈر کیا ہم حیرت سے ان کو تکا کیے بعد میں وہ چائے بھی آرڈر کر کے ہماری حیرت کو دو چند کیے ناشتے کے آخری لمحات میں غالباؐ احمد بھائی کی کال آگئ جو کھانے سے زیادہ ملنے ملانے پر سیریس تھے انہیں جگہ سمجھائی گئ اور وہ پہنچ بھی گئے بل وغیرہ کا مرحلہ بخیر و خوبی انجام پا گیا یہاں صرف اتنا کہونگا بل کی مشترکہ ادائیگی کا صرف یہ مقصد تھا کہ آئندہ بھی کوئی پروگرام بنے تو سب کمفرٹیبل ہو کر شرکت کریں ورنہ اگر صرف ایک بار ہی کی بات ہوتی تو ہم اٹھ کر ادا کر چکے ہوتے :cool:(کیونکہ گھر کے سودے کے پیسے ہماری جیب ہنوز موجود تھے :whistle:)

ناشتے سے فراغت اور احمد بھائی کی شاندار انٹری کے بعد طے پایا کے قریبی پارک میں محفل سجائی جائے پھر ہم قریبی مشہور کراچی ہل پارک میں پہنچے اور پہنچتے ہی سب سے پہلے سیلفی لی گئی اور ۔۔پھر تو صاحبو. . . وہ محفل جمی کہ بس خوب ہی لطف آیا خلیل بھائی کا پر مزاح کلام اور احمد بھائی کی سنجیدہ اور خوبصورت شاعری نے خوب رنگ جمایا اس پر کیا ہی بات رہی امین بھائی کی انہوں نے کیا سر لگایا ۔۔۔سچی میں مہدی حسن اور محمد رفیع یاد آگئے اور ہم نے سوچا بھی اور اس کا برملا اظہار بھی کیا کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو ۔۔۔ پھر انہیں زندہ رہنے کا مقصد سمجھ نہیں آتا۔۔۔وہ جیلسی میں ہی کوچ کر جاتے امین بھائی ہمیں مشکوک نظروں سے دیکھتیے ہوئے پوچھنے لگے یہ آپ واقعی تعریف کر رہے ہیں نا؟ ہم نے بادل نخواستہ یقین دلای۔۔رہی سہی کثر فاخر بھائی کے بلند و بانگ قہقہوںا ( مگر آپس کی بات ہے ظالم نے خوب گایا)

یہاں عمران بھائی کے چست اور ذو معنی فقروں کا بھی ذکر کردوں( جو ادا کیے تھے وہ نہیں لکھ رہا ) بس یہی کہنا ہے کے محفل کو کشت زعفراں بنانے میں ان کا بھی کافی عمل دخل رہا مگر ایک بات جو میں نے نوٹ کی اور میری سمجھ میں ابھی تک نہیں آئ شاید اب یہاں صاحبان سمجھا سکیں کہ ہم تو بڑے اشتیاق میں عمران بھائی اور عدنان بھائی کی نوک جھونک بھی دیکھنے میں گئے تھے مگر وہاں بالترتیب صرف نوک نظر آئی عمران بھائی کی طرف سے مگر باقی عدنان صاحب کی طرف سے جھونک جسے ہم یہان جھونکے بھی کہہ سکتے ہیں نطر آئے کچھ سمجھ نہیں آیا عدنان بھائی ڈرے سہمے ہوے تھے احترام میں تھے کیا تھا ان کی خاموشی اور کم گوئی کس خانے میں فٹ کی جائے شاید سہمے ہوے تھے جو اس بات سے کنفرم ہوا۔




ابھی محفل عروج پر ہی تھی اور کسی کا برخاست کرنے کا موڈ نظر نہیں آرہا تھا کہ کچھ دیر بعد اذان ظہر کی آوازیں آنے لگیں تو سب نے بادل نخواستہ و بوعدہ اگلی نشست یہ پر رونق محفل برخاست کی اور سب ایکدوسرے سے معانقہ کر کے روانہ ہوئے۔

بہت اعلیٰ اکمل بھائی !

بہت لاجواب روداد لکھی ہے۔

مزیدار مزیدار۔ کیا خوب لکھا ہے۔ لیکن زیدی بھائی اپنی مزیدار شرارتوں کا حال نہیں لکھا!!!

واقعی!

کل ہم کافی دیر اکمل بھائی کے ساتھ بیٹھے رہے اور اس وقت ان کی جولانئ طبع اپنے عروج پر تھی اور یہ حضرت سب سے عام طور پر امین صدیق بھائی سے خاص طور پر چھیڑ چھاڑ میں لگے ہوئے تھے۔ جس سے ہم ہمہ وقت محظوظ ہوتے رہے۔
 
اسی دوران فہیم صاحب با آواز بلند کراچی سٹائل میں بیرے کو ناشتہ لانے کا کہہ چکے تھے
ذرا تفصیل سے ہو جائے تاکہ احباب کو ’کراچی سٹائل‘ کا اندازہ ہو۔:)
مگر دو صاحبان نے کولڈڈرنک کا آرڈر کیا
؟
بل وغیرہ کا مرحلہ بخیر و خوبی انجام پا گیا
بل کا ذکر متعدد مراسلات میں آیا ہے۔ کتنا تھا ؟:)
 
Top