سیاسی منظر نامہ

فرقان احمد

محفلین
جلد تو نہیں، بدیر ہی
اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پنجاب سے بھی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ یہ ملک کے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ہماری عسکری افواج کو سیاسی جوڑ توڑ سے پرہیز کرتے ہوئے خود کو غیر سیاسی بنانا ہو گا۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ اس ملک میں صرف خاکیان ہی محب وطن ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ دراصل ملک کو بے سمتی کا شکار کرنے میں سب سے بڑی قصوروار ملٹری اسٹیبلشمنٹ رہی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ میں زیادہ تر سوشل میڈیا پر غلبہ پانے کی تدابیر اختیار کرنے کا تذکرہ ملتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پہلے پہل ملٹری اسٹیبلشیہ اخبار اور ٹی وی مالکان کے ذریعے میڈیا ہاؤسز کو ڈرانے دھمکانے میں کامیاب ہو جایا کرتی تھیں تاہم ان کے لیے اس وقت سب سے بڑا ایشو سوشل میڈیا کے جنات پر قابو پانا ہے۔ شاید اب ایسا نہ ہو سکے گا۔ پورے ملک کے چپے چپے سے یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ فوج کو سیاست میں مداخلت سے گریز کرنا ہو گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اگر خاکیان نے اپنی روش برقرار رکھی تو عام انتخابات کے بعد ایک بڑی زوردار ملک گیر تحریک اٹھ کھڑی ہونے کا امکان ہے جو کہ ریاست کے وجود کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔ بہتر ہو گاکہ ریاستی ادارے سیاسی معاملات میں مداخلت سے گریز کریں۔ احتساب ضرور کریں تاہم بلاامتیاز احتساب اور بہتر ہو گا کہ احتساب کرنے والوں پر بھی چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے۔
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پنجاب سے بھی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ یہ ملک کے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ہماری عسکری افواج کو سیاسی جوڑ توڑ سے پرہیز کرتے ہوئے خود کو غیر سیاسی بنانا ہو گا۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ اس ملک میں صرف خاکیان ہی محب وطن ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ دراصل ملک کو بے سمتی کا شکار کرنے میں سب سے بڑی قصوروار ملٹری اسٹیبلشمنٹ رہی ہے۔
اس طرح کی باتیں گزشتہ چالیس سال سے ہو رہی ہیں۔ کوئی خاص فرق نہیں پڑا ان کو۔
 

فرقان احمد

محفلین
اس طرح کی باتیں گزشتہ چالیس سال سے ہو رہی ہیں۔ کوئی خاص فرق نہیں پڑا ان کو۔
اب زیادہ آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ میڈیا، خاص طور پر سوشل میڈیا آزاد ہے۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا۔ یہ بات اب وہاں تک پہنچ جانی چاہیے جہاں تک اسے پہنچائے جانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
 

یاز

محفلین
اب زیادہ آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ میڈیا، خاص طور پر سوشل میڈیا آزاد ہے۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا۔ یہ بات اب وہاں تک پہنچ جانی چاہیے جہاں تک اسے پہنچائے جانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
اور یہ اس وقت تک نہیں ہو گا، جب تک عمران خان وزیراعظم بن کر ان کا وکٹم نہیں بنے گا۔
 

فرقان احمد

محفلین
ایک مثال دیکھیے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ہوش ربا انکشافات کو ایک ایسا اخبار بھی توڑ مروڑ کر پیش کرنے پر مجبور ہے جس کی وجہء شہرت اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونا رہی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا ہے کہ تمام وکلاءکو دعوت دیتا ہوں کہ آ کر دیکھیں مجھ پر کرپشن کے الزام میں کتنی صداقت ہے، پاکستان کا موازنہ امریکہ یورپ کے ساتھ نہیں ہو سکتا، 2030میں بھارت دنیا کی ایک بڑی معیشت ہو گا اور ہم پیچھے کی طرف جا رہے ہیں، موجودہ ملکی حالات کی 50فیصد ذمہ داری عدلیہ اور باقی 50فیصد دیگر اداروں پر عائد ہوتی ہے، جج نوکری کرنے سے نہیں انصاف عدل اور دلیری کا مظاہرہ کرنے سے بنتا ہے۔ ہفتہ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا موازنہ امریکہ یا یورپ کے ساتھ نہیں ہو سکتا، پاکستان کا موازنہ بھارت، بنگلہ دیش یا سری لنکا کے ساتھ ہو سکتا ہے، تمام وکلاءکو دعوت دیتا ہوں کہ آ کر دیکھیں مجھ پر کرپشن کے الزام میں کتنی صداقت ہے، 2030میں بھارت دنیا کی ایک بڑی معیشت ہو گا اور ہم پیچھے کی طرف جا رہے ہیں، بھارت میں ایک دن کےلئے سیاسی عمل نہیں رکا، کبھی مارشل لاءنہیں لگا، مجھے نوکری کی پرواہ نہیں ہے، کہا گیا کہ یقین دہانی کرائیں کہ مرضی کے فیصلے کریں گے تو آپ کے ریفرنس ختم کرا دیں گے، ابھی تک قانون کے طلباءکو نہیں معلوم کے جسٹس منیر نے کیا کردار ادا کیا تھا؟ جسٹس منیر کا کردار ہر کچھ عرصے بعد سامنے آتا ہے، موجودہ ملکی حالاتکی 50فیصد ذمہ داری عدلیہ اور باقی پچاس فیصد دیگر اداروں پر عائد ہوتی ہے، مجھے نومبر تک نہیں ستمبر میں چیف جسٹس بنوانے کی بھی پیشکش کی گئی، آج آزاد میڈیا بھی اپنی آزادی کھو کر گھٹنے ٹیک چکا ہے، جج نوکری سے نہیں، انصاف عدل اور دلیری کا مظاہرہ کرنے سے بنتا ہے۔

اس خبر سے آئی ایس آئی کا ذکر سرے سے گول کر دیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا نام نکال دیا گیا ہے۔ اب اسے کون آزادیء صحافت کہے، یہ تو جبر ہے۔ اور یہ سب حب الوطنی اور ملکی سلامتی کی آڑ میں کیا جاتا ہے۔ شاید ہمارے ہاں حب الوطنی کے پیمانے کچھ اسی طرح کے ہی ہوا کرتے ہیں کہ عدلیہ اور فوج کو ہر قسم کی تنقید اور احتساب سے بالاتر تصور کیا جائے۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
لیکن اسی وقت یہ بحث زور پکڑے گی کہ ہر بار ایسا ہی کیوں ہوتا ہے۔
یہ نئی بات نہیں ہے۔ اس نتیجے پر سیاسی قوتیں پہنچ چکی تھیں۔ دراصل میثاقِ جمہوریت 2007ء میں ہو چکا تھا تاہم اسے ناکام بنانے میں بے نظیر صاحبہ، نواز شریف صاحب اور سب سے بڑھ کر زرداری صاحب نے کلیدی کردار ادا کیا۔ عمران خان میثاق جمہوریت کے خلاف بہت کچھ کہہ چکے اور انہیں لانچ ہی اس میثاق جمہوریت کے توڑ کے لیے کیا گیا تھا اس لیے شاید وہ کچھ نہ بولیں گے۔ اب جو کچھ ہو گا، وہ وفاق کی دیگر اکائیوں کے ساتھ مل کر ہو گا۔ ایک نیا عمرانی معاہدہ ہی پاکستان کے وجود کو لاحق خطرات سے نجات دلا سکتا ہے۔ اس ملک کو بس کچھ رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر درکار ہیں لیکن ان سے ذرا زیادہ جرات مند!
 

یاز

محفلین
یہ نئی بات نہیں ہے۔ اس نتیجے پر سیاسی قوتیں پہنچ چکی تھیں۔ دراصل میثاقِ جمہوریت 2007ء میں ہو چکا تھا تاہم اسے ناکام بنانے میں بے نظیر صاحبہ، نواز شریف صاحب اور سب سے بڑھ کر زرداری صاحب نے کلیدی کردار ادا کیا۔ عمران خان میثاق جمہوریت کے خلاف بہت کچھ کہہ چکے اور انہیں لانچ ہی اس میثاق جمہوریت کے توڑ کے لیے کیا گیا تھا اس لیے شاید وہ کچھ نہ بولیں گے۔ اب جو کچھ ہو گا، وہ وفاق کی دیگر اکائیوں کے ساتھ مل کر ہو گا۔ ایک نیا عمرانی معاہدہ ہی پاکستان کے وجود کو لاحق خطرات سے نجات دلا سکتا ہے۔ اس ملک کو بس کچھ رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر درکار ہیں لیکن ان سے ذرا زیادہ جرات مند!
سیاسی جماعتیں اس نتیجے پہ 1970 سے قبل ہی پہنچ چکی تھیں۔ تاہم میں عوامی سطح تک اس مائنڈ سیٹ کی رسائی کی بات کر رہا ہوں۔
امید ہے کہ دو سال تک صورتحال واضح ہو جائے گی۔
 

فرقان احمد

محفلین
سیاسی جماعتیں اس نتیجے پہ 1970 سے قبل ہی پہنچ چکی تھیں۔ تاہم میں عوامی سطح تک اس مائنڈ سیٹ کی رسائی کی بات کر رہا ہوں۔
امید ہے کہ دو سال تک صورتحال واضح ہو جائے گی۔
مائنڈ سیٹ کی بات اہم ہے البتہ اس میں سیاسی رہنماؤں کا قصور زیادہ ہے۔ بھٹو کے گرنے سے سبق نہ سیکھا جا سکا۔ پنجاب کے سیاست دانوں نے خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ کی ہر پکار پر لبیک کہا۔ میاں نواز شریف اس وقت مکافاتِ عمل کا شکار ہیں۔ بے نظیر کو گرایا گیا۔ نواز شریف کو اٹھایا گیا۔ جب نواز شریف کو پہلی بار گرایا گیا تو بے نظیر صاحبہ اور عمران خان صاحب نے اسے خوش آئند پیش رفت قرار دیا تھا۔ یہی کھیل جاری رہا تو پھر میثاق جمہوریت ہوا۔ تاہم این آر او اور زرداری صاحب کی 'مہربانیوں'کے طفیل میثاق جمہوریت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ رہی سہی کسر خان صاحب نے اسے 'نورا کشتی' قرار دے کر پوری کر دی۔ اب رہنماؤں سے توقع کم کم ہے تاہم نواز شریف کے دیے گئے بیانیے (جو بظاہر اُن کے ساتھ جچتا کم ہے) اور میڈیا، خاص طور پر سوشل میڈیا کے کئی حلقوں کی جانب سے اٹھنے والی آوازوں کے باعث ایک موہوم سی امید ہے کہ کچھ نہ کچھ بہتری آئے گی۔
 
آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج عزت مآب شوکت عزیز صدیقی کے راولپنڈی بار ایسوسی ایشن سے خطاب نے ملک بھر میں ایک ہلچل سی مچا دی ہے۔ سچ کہیں تو ہمیں ذاتی طور پر جج صاحب کے بیان پر یقین نہیں آیا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ خفیہ اور غیر خفیہ طاقتور ادارے عدالت کے کام میں دخل اندازی کر رہے ہیں۔ وہ اپنی مرضی کے بینچ بنواتے ہیں اور کیسوں کی مارکنگ کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ بھی کیا جاتا ہے کہ کون سا بینچ کون سا کیس سنے گا اور مختلف اعلی عدالتوں میں پیغام آتے جاتے ہیں۔ وہ تو اس حد تک اثر و رسوخ بتا رہے تھے کہ کہنے لگے کہ انہیں آفر کی گئی کہ ’ہماری مرضی کے فیصلے دو تو تمہیں نہ صرف وقت سے پہلے چیف جسٹس بنا دیں گے بلکہ ریفرنس بھی ختم کروا دیں گے۔ ‘

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ 25 جولائی کو ملک میں ہونے والے انتخابات سے پہلے نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز جیل سے باہر نہ آئیں۔ جسٹس صدیقی کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے آئی ایس آئی کے نمائندوں سے کہا کہ ’جس بینچ سے آپ ایزی ہیں ہم وہ بینچ بنا دیتے ہیں۔ ‘

آپ نے جسٹس صدیقی کے الزامات پڑھے اور امید ہے کہ آپ کو بھی ہماری طرح ان کی بات پر یقین نہیں آیا ہو گا۔ ہماری عدلیہ کی ایک شاندار تاریخ ہے۔ وہ کسی بھی طاقت کے سامنے جھکنے سے ہمیشہ انکاری رہی ہے اور ہمیشہ قانون کے مطابق فیصلے کرتی رہی ہے۔ اس سلسلے میں پہلا بڑا معرکہ مولوی تمیز الدین کا کیس تھا۔

گورنر جنرل غلام محمد نے اسمبلی توڑ دی تو اس کے سپیکر مولوی تمیز الدین نے سندھ کے چیف (ہائی) کورٹ میں مقدمہ کر دیا۔ چیف کورٹ نے قانون کے مطابق یہ فیصلہ دیا کہ گورنر جنرل کو اسمبلی توڑنے کا اختیار نہیں تھا۔ گورنر جنرل نے فیصلہ فیڈرل (سپریم) کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس منیر پر اب پوری آئین ساز اسمبلی کے سینکڑوں ارکان کا بہت زیادہ دباؤ آ گیا تھا۔ لیکن اس دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے انہوں نے انصاف کا پرچم نہایت بلند لٹکا دیا اور حق کے مطابق فیصلہ کیا کہ گورنر جنرل درست ہیں اور حسب ضرورت جو چاہے توڑ سکتے ہیں۔

اس سے اگلا اہم کیس وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا تھا۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مولوی مشتاق نے کسی قسم کے دباؤ اور ثبوت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بھٹو کو سزائے موت دے دی۔ اگلی باری چیف جسٹس آف پاکستان انوار الحق کی تھی۔ وہ بھی کسی قسم کے دباؤ کو خاطر میں نہ لائے اور انصاف کا پرچم نہایت بلند لٹکا دیا۔ حالانکہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ضیا الحق نے عدلیہ پر کرنل قذافی اور شاہ خالد کے کہنے پر بہت دباؤ ڈالا تھا کہ بھٹو کو چھوڑ دیں مگر عدالت ثابت قدم رہی۔ کئی برس بعد اس بینچ کے ایک رکن نسیم حسن شاہ نے ذکر بھی کیا تھا کہ ان پر اس کیس میں شدید دباؤ تھا۔

جب جنرل مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو مارشل لا لگایا تو ظفر علی شاہ نے سپریم کورٹ میں مقدمہ کر دیا۔ خوش قسمتی سے اس وقت سپریم کورٹ کے بینچ میں چیف جسٹس ارشاد حسن خان اور ان سے بھی بڑھ کر دلیر اور بعد میں چیف جسٹس بننے والے افتخار محمد چوہدری تھے۔ سپریم کورٹ نے نہایت دلیری سے کام لیتے ہوئے نہ صرف ظفر علی شاہ کے خلاف فیصلہ دیا بلکہ ملکی ضروریات کے پیش نظر جنرل مشرف کو بن مانگے ہی یہ اجازت بھی دے دی کہ وہ تین برس تک آئین میں جو چاہے تبدیلی کر لیں۔ اس وقت عدالت پر عوام اور وکلا کا بے تحاشا دباؤ تھا مگر اس دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے انصاف کا پرچم نہایت بلند لٹکا دیا گیا۔

ان دلیر ججوں نے ہمیشہ بہادری سے کام لیا۔ عام دنوں کی تو بات ہی کیا ہے، جب بھی ملک میں مارشل لا لگا تو جو جج ڈر گئے انہوں نے استعفی دے کر اپنے گھروں کا رخ کیا مگر جو جی دار تھے انہوں نے ڈکٹیٹر کے پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر بھی انصاف کی آبپاشی جاری رکھی۔ یہ تحریر لکھتے ہوئے نہ جانے کیوں محترم الطاف حسن قریشی کے 1966ء میں مشرقی پاکستان کے بارے میں لکھے ہوئے کالم ”محبت کا زمزم بہ رہا ہے“ یاد آ رہے ہیں۔ اسی زمزم کی رو میں اپنے کالم کا بھی ایسا عنوان رکھ دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج عزت مآب شوکت عزیز صدیقی کی ہم تصدیق یا تردید نہیں کریں گے، مگر یہ ضرور کہیں گے کہ ہمیں اور ہمارے اندازے کے مطابق اکیس کروڑ دیگر پاکستانیوں کو ان کی بات پر یقین نہیں آ رہا ہے۔ ہماری رائے میں تو عدالتیں آزاد ہیں اور قانون کے مطابق انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پر پانی پلا رہی ہیں۔

ربط
 
Top