برائے اصلاح و تنقید (غزل 59)

امان زرگر

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔
تیز ناوک ہے مژہ اور یہ ابرو ہیں کماں
آج بدلے ہوئے لگتے ہیں کچھ اندازِ شہاں

میری تشکیل کے لمحے یہ ہوا حکم رواں
ہو جگر قیس کا منصور کی دو اس کو زباں

باز آئیں وہ ستم سے جو کبھی دم بھر کو
کھول کر سینہ میں دکھلاؤں دلِ سنگِ گراں

آشیاں برقِ تپاں روز جلاتی ہے مرا
اور بھی آباد ہیں لاکھوں خس و خاشاک و جہاں


بند مٹھی میں رکھو تتلی کے جیسے ہی مجھے
کھو دیا مجھ کو جو اک بار تو ڈھونڈو گے نشاں

مجھ سے اے دنیا! مری ذات سنبھلتی ہی نہیں
ناتواں کندھوں پہ بھاری ہے یہی بارِ گراں

معترض پھر تو نہ ہو گا یہ زمانہ زرگر
ڈھونڈ لائیں جو یہ مے خار الگ ایک جہاں
 
آخری تدوین:
حکم رواں ہونا شاید خلافِ محاورہ ہے۔
اور بھی آباد ہیں لاکھوں خس و خاشاک و جہاں
"اور" جب دیگر کے معنوں میں استعمال کیا جائے تو اسے دو حرفی باندھنا جائز نہیں رہتا۔
میخوار کہنا چاہ رہے تھے آپ غالباً۔
 

امان زرگر

محفلین
۔۔۔۔
تیز ناوک ہے مژہ اور یہ ابرو ہیں کماں
آج بدلے ہوئے لگتے ہیں کچھ اندازِ شہاں

میری تشکیل پہ فرماں یہ فرشتوں کو ملا
ہو جگر قیس کا منصور کی دو اس کو زباں

باز آئیں وہ ستم سے جو کبھی دم بھر کو
کھول کر سینہ میں دکھلاؤں دلِ سنگِ گراں

آشیاں برقِ تپاں روز جلاتی ہے مرا
اور آباد ہیں لاکھوں خس و خاشاک و جہاں

بند مٹھی میں رکھو تتلی کے جیسے ہی مجھے
کھو دیا مجھ کو جو اک بار تو ڈھونڈو گے نشاں

مجھ سے اے دنیا! مری ذات سنبھلتی ہی نہیں
ناتواں کندھوں پہ بھاری ہے یہی بارِ گراں

معترض پھر تو نہ ہو گا یہ زمانہ زرگر
ڈھونڈ لائیں جو یہ میخوار الگ ایک جہاں
 

امان زرگر

محفلین
خس و خاشاکِ جہاں کہیں تو بہتر رہے۔ ویسے خس و خاشاک کا آباد ہونا عجیب سا لگ رہا ہے۔
تنکوں کے آشیانوں کے اظہار کو کہ مصرع اولٰی میں اپنے آشیانے اور مصرع آخر میں دیگر آشیانوں، دونوں کا احاطہ کرنے کو لفظ کم پڑ رہے ہیں۔۔ کوشش کرتا ہوں متبادل کی اگر مل سکا۔
ایک کوشش آباد کا متبادل ڈھونڈنا بھی ہو سکتی ہے۔۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
تیز ناوک ہے مژہ اور یہ ابرو ہیں کماں
آج بدلے ہوئے لگتے ہیں کچھ اندازِ شہاں
۔۔۔شہاں؟ کن بادشاہوں کا ذکر ہے یہاں، پہلا مصرع تو صرف محبوب کے غصے کی بات کر رہا ہے۔

میری تشکیل پہ فرماں یہ فرشتوں کو ملا
ہو جگر قیس کا منصور کی دو اس کو زباں
۔۔ٹھیک ہے

باز آئیں وہ ستم سے جو کبھی دم بھر کو
کھول کر سینہ میں دکھلاؤں دلِ سنگِ گراں
۔۔۔اپنا اور پتھر دل؟

آشیاں برقِ تپاں روز جلاتی ہے مرا
اور آباد ہیں لاکھوں خس و خاشاک و جہاں
۔۔, خس و خاشاک کا آباد ہونا؟

بند مٹھی میں رکھو تتلی کے جیسے ہی مجھے
کھو دیا مجھ کو جو اک بار تو ڈھونڈو گے نشاں
۔۔ محل تو 'ڈھونڈتے پھرو گے' کا ہے۔ پہلے مصرع میں بھی "تتلی کی مانند" بہتر ہو گا۔ خیال پسند آیا۔

مجھ سے اے دنیا! مری ذات سنبھلتی ہی نہیں
ناتواں کندھوں پہ بھاری ہے یہی بارِ گراں
۔۔درست

معترض پھر تو نہ ہو گا یہ زمانہ زرگر
ڈھونڈ لائیں جو یہ میخوار الگ ایک جہاں
۔۔۔ ابھی زمانہ کیا اعتراض کر رہا ہے، میری تو سمجھ میں نہیں آیا
 

امان زرگر

محفلین
تیز ناوک ہے مژہ اور یہ ابرو ہیں کماں
آج بدلے ہوئے لگتے ہیں کچھ اندازِ شہاں
۔۔۔شہاں؟ کن بادشاہوں کا ذکر ہے یہاں، پہلا مصرع تو صرف محبوب کے غصے کی بات کر رہا ہے۔

میری تشکیل پہ فرماں یہ فرشتوں کو ملا
ہو جگر قیس کا منصور کی دو اس کو زباں
۔۔ٹھیک ہے

باز آئیں وہ ستم سے جو کبھی دم بھر کو
کھول کر سینہ میں دکھلاؤں دلِ سنگِ گراں
۔۔۔اپنا اور پتھر دل؟

آشیاں برقِ تپاں روز جلاتی ہے مرا
اور آباد ہیں لاکھوں خس و خاشاک و جہاں
۔۔, خس و خاشاک کا آباد ہونا؟

بند مٹھی میں رکھو تتلی کے جیسے ہی مجھے
کھو دیا مجھ کو جو اک بار تو ڈھونڈو گے نشاں
۔۔ محل تو 'ڈھونڈتے پھرو گے' کا ہے۔ پہلے مصرع میں بھی "تتلی کی مانند" بہتر ہو گا۔ خیال پسند آیا۔

مجھ سے اے دنیا! مری ذات سنبھلتی ہی نہیں
ناتواں کندھوں پہ بھاری ہے یہی بارِ گراں
۔۔درست

معترض پھر تو نہ ہو گا یہ زمانہ زرگر
ڈھونڈ لائیں جو یہ میخوار الگ ایک جہاں
۔۔۔ ابھی زمانہ کیا اعتراض کر رہا ہے، میری تو سمجھ میں نہیں آیا
اف اللہ! سر بہتر کرتا ہوں۔۔۔۔
 

امان زرگر

محفلین
۔۔۔۔
تیز ناوک ہے مژہ اور یہ ابرو ہیں کماں
در پئے جان ہیں کیوں آج شہِ سیم تناں

میری تشکیل پہ فرماں یہ فرشتوں کو ملا
ہو جگر قیس کا منصور کی دو اس کو زباں

باز آئے وہ ستم سے جو کبھی دم بھر کو
کھول کر سینہ میں دکھلاؤں اسے داغِ نہاں

آشیاں برقِ تپاں روز جلاتی ہے مرا
اور موجود ہیں لاکھوں خس و خاشاکِ جہاں

بند مٹھی میں رکھو تتلی کے مانند مجھے
کھو نہ جاؤں کہ پھرو ڈھونڈتے پھر میرا نشاں

مجھ سے اے دنیا! مری ذات سنبھلتی ہی نہیں
ناتواں کندھوں پہ بھاری ہے یہی بارِ گراں

معترض حالِ پریشاں پہ ہے دنیا زرگر
ڈھونڈ لائیں گے یہ میخوار الگ ایک جہاں
 
آخری تدوین:

امان زرگر

محفلین
تیز ناوک ہے مژہ اور یہ ابرو ہیں کماں
آج بدلے ہوئے لگتے ہیں کچھ اندازِ شہاں
۔۔۔شہاں؟ کن بادشاہوں کا ذکر ہے یہاں، پہلا مصرع تو صرف محبوب کے غصے کی بات کر رہا ہے۔
شہاں بھی میں نے محبوب کے لئے ہی استعمال کرنے کی کوشش کی ہے کہ آج غصے میں ہیں آج کچھ انداز بدلے ہوئے ہیں لگ رہے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
ملکہ سیم تناں ہوتا تو جنس کا معلوم ہو جاتا کہ محترمہ ہیں، ورنہ شہ سے تو محترم ہی نظر آتے ہیں؟
غزل میرے حساب سے درست ہو گئی ہے
 
Top