ہمارے انوکھے مہمان

ہمارے انوکھے مہمان
از محمد خلیل الرحمٰن​



ہمارا متوسط سائز کا فلیٹ ایک رہائشی عمارت کی دوسری منزل پر شرقاً غرباً پھیلا ہے۔ مغربی سمت میں دیوان خانے کے اختتام پر ایک بالکونی ہے اور اسی طرح مشرق میں رسوئی بھی ایک بالکونی میں کھلتی ہے۔ اس اہتمام کے باعث دیوانی ہوا سارا دن ہمارے فلیٹ میں اٹھکیلیاں کرتی پھرتی ہے۔ ہوا کے دوش پر اونچی اونچی اُڑانیں بھرنے والے بہت سے پنچھی ہمارے ساتھ اس فلیٹ میں سانجھی و ساتھی بننے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ بہت سی چڑیوں اور کبوتریوں کو انڈے سینے کے لیے گھونسلہ بنانے کی ضرورت پڑتی ہےتو ہمارے ہی فلیٹ کو تاکتے ہیں، یہ اور بات کہ ہماری نصف بہتر اپنا گھر کسی بھی قماش کی شخصیت کے ساتھ شریک کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ وہ لٹھ لیے ان کبوتروں کے پیچھے دوڑا کرتی ہیں جو ہر دوسرے روز غٹر غوں، غٹرغوں کرتے ہوئے رسوئی میں در آتے ہیں اور نعمت خانے کے اوپر گھونسلہ بنانے کی تگ و دو میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔ چڑیوں کا تو کہنا ہی کیا کہ وہ پُھر پُھر کرتی اِدھر سے داخل ہوتی ہیں تو اُدھر سے واپس دوڑ جاتی ہیں۔ ایک آدھ مرتبہ انہوں نے بھی گھونسلہ بنانے کی کوشش کی جسے محترمہ نے ناکام بنادیا۔


ایک دن ایک کبوتر کا بچہ دیوان خانے کے راستے اندر داخل ہوا اور سیدھا رسوئی پہنچ گیا۔ اسکے وہاں پہنچنے سے پہلے کسی نے بالکونی کا دروازہ بند کردیا تھالہٰذا وہ وہیں دبک کر بیٹھ رہا۔ ہم گھر پہنچے تو اس مہمان کی آمد کی اطلاع ملی۔ ایمان اسکے آنے سے بہت سخت پریشان تھیں اور انہوں نے خود کو اپنے کمرے میں بند کرلیا تھا کہ جب تک یہ پھڑپھڑاتا ہوا خوفناک پرندہ باہر نہیں جائے گا، میں بھی اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلوں گی۔ بیگم نے جو ان معاملات میں ہم سے زیادہ بہادر واقع ہوئی ہیں اور گھر کی چھپکلیوں کو خود مارا کرتی ہیں ، جانے کیا سوچ کر یہ کام ہمارے سپرد کردیا۔ ہم دبے پاؤں رسوئی میں پہنچے اور اس ناہنجار کبوتر کے بچے کو چھاپ بیٹھے۔اسے اپنے سینے سے لگائے ایمان کے کمرے میں پہنچے تو وہ چیخ مارکر دوسرے کمرے کی جانب لپکیں۔


اس ہنگامے کو فرو کرنے کی خاطر بیگم نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم اسے فوراً باہر چھوڑدیں۔ ہم نے اسے بالکونی میں چھوڑا تو وہ چھوٹی کھڑکی کے فریم کے اندر جاکر بیٹھ گیا ۔ بیگم اور ایمان کے مزید اصرار کے باوجود ہم نے اسے مزید تنگ کرنے سے انکار کردیا اور وہاں سے سیدھے اپنے کمرے میں پہنچ کر بستر پر دراز ہوگئے۔


کبوتر کے بچے نے موقع غنیمت جان کر خود ہی کہیں اور کے لیے اُڑان بھر لی اور یوں یہ ہنگامہ فرو ہوا۔ شنید ہے کہ اگلے روز تک وہ ناہنجار اسی بالکونی میں موجود تھا۔


گزشتہ سال موقع دیکھ کر ایک کم بخت چڑیل یعنی چیل نے بیٹھک کی اُس کھڑکی کے فریم میں اپنا گھونسلہ بنالیا جسے فلیٹ کے معمار نے ائرکنڈیشن کے لیے چھوڑا تھا۔ چیل نے اپنے انڈوں کو سینا شروع کیا تو اس وقت تک ہمیں کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ ہنگامہ تو اُس وقت شروع ہوا جب چیل صاحبہ ایک عدد بچے کی اماں بن گئیں۔ اب تو اس خدائی فوجدار نے ہر کس و ناکس کا بالکونی میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔ فلیٹ سے دور کسی درخت یا کسی دوسری عمارت پر بیٹھی اپنے گھونسلے کو تکا کرتی ۔ جوں ہی کوئی گھر والا بالکونی میں جاتا ، وہ لمبی اُڑان لے کر آتی اور جھپٹا مارکر ہمیں بالکونی کی جالی سے باہر جھانکنے اور ہاتھ باہر نکالنے سے باز رکھتی۔


ہم دن رات جل تو، جلال تو، آئی بلا کو ٹال تو کا ورد کرتے لیکن اس مصیبت سے اُسی وقت چھٹکارانصیب ہوا جب چیل کے فرزندِ ارجمند اُڑنے چُگنے کے قابل ہوگئے اور چیل نے اپنے گھونسلے کو خیر باد کہہ دیا۔ لمبے بانس کی مدد سے اس کے گھونسلے کا صفایا کرتے ہوئے ہم حیران تھے کہ یہ بھلی مانس اِن موٹے موٹے سخت تنکوں پر کیونکر اپنے نازک انڈوں کو رکھ پاتی ہے اور کیونکر سیتی ہے۔


ایک کوّے صاحب البتہ ہماری بیگم کے سخت دل کو موم کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور اُن سے دوستی گانٹھ لی ہے۔ ہر روز ایک مقررہ وقت پر رسوئی کی جالی پر آکر بیٹھ جاتے ہیں، بیگم کو پیار سے آواز لگاتے ہیں۔ بیگم صاحبہ دوڑی ہوئی جاتی ہیں اور پانی میں روٹی بھگوکر اُس کے سامنے رکھ دیتی ہیں۔ گرمی زیادہ ہوتو پانی کی کٹوری میں پانی بھرکر بھی اس کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ اِس دوران کوّا پھدک کر ایک قدم آگے بڑھ آتا ہےاور یوں دونوں میں بات چیت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔بیگم صاحبہ اِس کا حال دریافت کرتی ہیں تو وہ محلے کے دیگر کوّوں کا رونا لیکر بیٹھ جاتا ہے۔ لنچ سامنے رکھنے پر وہ اطمینان سے ماحضر تناول فرماتا ہے اور پانی وغیرہ نوش جان فرماکر اپنی راہ لیتا ہے۔ کبھی کبھار بیگم کی غیر مودگی میں ہم اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اور کوّے صاحب اپنا جائز حق سمجھتے ہوئے ہماری خدمات کو شرفِ قبولیت بخشتے ہیں۔ آخر کو اُن کی میزبان صاحبہ کے ہی تو شوہرِ نامدار ہیں۔


کل سہہ پہر ایک عجیب واقعہ ہوا ۔ ایک چیل کا بچہ کہیں سے آکر ہماری رسوئی کی جالی پر بیٹھ گیا۔ ایمان کو دور سے اُسے دیکھنا بہت اچھا لگا۔ کچھ دیر تو وہ اپنی اماں جان کے ہمراہ ایک محتاط فاصلے سے اُسے دیکھتی رہیں ، پھر ہمیں اِس معاملے میں الجھانے کی خاطر آواز دے ڈالی۔ ہم نے طوعاً و کرھاً محفل کے صفحے کو بند کیا اور رسوئی کی جانب لپکے۔ وہاں یہ ماجرا دیکھا تو حیران رہ گئے۔ کچھ دیر اِس خوبصورت بچے کو تکتے رہےپھر دبے پاؤں آگے بڑھے۔ بالکونی میں داخل ہوئے ہی تھے کہ چیل کے بچے نے اپنا ننھا سا سر گھماکر ہماری جانب گھورکر دیکھا۔ اُس کی بڑی بڑی زرد آنکھیں اور بڑی ہوکر چمکنے لگیںگویا کہہ رہا ہو ، ’’ میاں خبردار جو ایک قدم بھی آگے بڑھایا ہو! میں اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر نیچے کود جاؤں گا۔ رہے نام اللہ کا۔‘‘


ہم ٹھٹھک گئے۔ یوں بھی بڑا خطرہ یہ تھا کہ اسکے زیادہ قریب گئے تو کہیں سے اُس کی خونخوار والدہ محترمہ نہ جھپٹ پڑیں۔ بہت احتیاط کے ساتھ ہاتھ لمبا کرکے ڈبل روٹی ایک ٹکڑا اسکے قریب منڈیر پر رکھا اور اپنا موبائل سنبھال کر وہیں سے تصویریں بنانے لگے۔


کئی زاویوں سے تصویر کے لیے اپنے آپ کو پوز کرتے کرتے چیل کا بچہ اُکتا گیا، لیکن زبان سے کچھ نہ بولا۔


ہم نے بھی اُسے زیادہ تنگ کرنا مناسب نہ جانا اور وہاں سے ہٹ گئے۔ اِدھر محلے کے کوّوں کو یہ بات سخت ناگوار گزر رہی تھی کہ کوئی اجنبی کیوں ان کے گھر کی دہلیز پر یوں دھرنا دئیے بیٹھا رہے، لہٰذا وہ بار بار قریب آکر اُسے اپنے کھانے اور پانی سے دور رکھنے کا جتن کررہے تھے۔ شام تک ہمارا ننھا مہمان جاچکا تھا۔ ذیل میں اس مہمان کی تصاویر محفلین کی تفریحِ طبع کے لیے پیش ہیں کہ کسی چیل کی تصویر اس قدر نزدیک سے کھینچنا ممکن نہہیں، لیکن شاید یہ بچہ ابھی اُڑنا سیکھ رہا تھا اور اُڑان بھرتے ڈرتا تھالہٰذا گھنٹہ بھر کو ہماری منڈیر پر بیٹھا رہ گیا، اور ہم نے کئی زاویوں سے اُس کی تصاویر بنالیں اور محظوظ ہوتے رہے۔
 
آخری تدوین:
4_DFF0115-14_EB-48_E0-_A81_F-_DEC52_D17_CBFF.jpg
 
بہت خوب خلیل بھائی۔
ایک چیل سے تو ہمارا واسطہ بھی پڑا تھا۔
پچھلے دسمبر میں کزن کی شادی کے سلسلہ میں کراچی جانا ہوا، تو چھوٹے بھائی کے گھر رہائش تھی۔ ایک دن بھتیجے ٹیرس پر کھیل رہے تھے تو سامنے والے گھر کی ٹینکی سے ایک چیل نے اڑ کر ایک بھتیجے پر جھپٹا مارا۔
چھوٹے بھائی نے بتایا کہ اس پر بھی دو دفعہ جھپٹا مارا ہے۔ اس کے بعد ایک دفعہ بڑے بھائی بھی اس کا شکار بنے۔ میں کئی دفعہ جان بوجھ کر کوشش کرنے کے باوجود اس کے جھپٹے کا حقدار نہ بن سکا۔
وہ چیل سامنے والے گھر کی ٹینکی کے اوپر ہی بیٹھی رہتی تھی۔
اب آپ کی بات پڑھ کر یہ خیال آ رہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بھائی کے ٹیرس کے ساتھ ہی درخت کی ٹہنیوں پر اس کا گھونسلہ ہو۔ :)
 
-2-​

تین جانور انسان کے بہت اچھے دوست ہوتے ہیں۔ ان تینوں میں گھوڑے ا ور کتے کی تو انسان سے وفاداری ضرب المثل ہے۔ بلی البتہ انسان دوست تو ہے لیکن اس گھر سے زیادہ پیار کرتی ہے جہاں وہ رہتی ہے۔ گھوڑا پالنے کی سکت ہم میں کبھی نہیں رہی، کتے کو نجس سمجھ کر نہیں پالا، بلی البتہ بچپن سے ہمارے گھر میں رہی۔


بچپن میں ہمارا پالتو بلا ہم سے اس قدر مانوس تھا کہ وہ ہمارے ساتھ بستر میں گھس کر سوتا تھا۔ کھانا کھاتے وقت دستر خوان پر ہم سب گھر والوں کے ساتھ بیٹھتا اور ہمارے نوالوں پر نظر رکھتا۔ ہمارے حصے میں گوشت کی ایک دو ہی بوٹیاں آتیں اور وہ ہماری لاپرواہی اور بلے کی تیز نظر کا شکار ہوجاتیں۔ جوں ہی ہم نوالے میں بوٹی اُٹھاتے، بلے کا ہاتھ چل جاتا اور اس صفائی کے ساتھ ہمارے ہاتھ سے بوٹی اُڑاتا کہ ہم دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ جاتے۔ اباجا ن البتہ بہت ہنستے اور ہم شرمندہ سے ہوکر رہ جاتے۔


بچپن جس گھر میں گزرا اس میں ایک عدد دالان اور ایک صحن بھی تھا ۔ اس کے علاوہ گھر کے باہر کچھ جگہ باڑ لگا کر گھیری گئی تھی۔ گھر میں کچھ مرغیاں بھی پالی ہوئی تھیں۔ اکثر ان کے ڈربے میں گھس کر انڈا لے آنے کی ذمہ داری ہمیں سونپی جاتی۔ کبھی یہ انڈا ہمارے اپنے حصے میں آتا تو کھانے کا لطف دوبالا ہوجاتا۔


ان مرغیوں کے ساتھ ہمارے گھر کی شان ایک بلہاری نام کا ایک شاندار مرغا بھی تھا۔ جسے دیگر اشیا کے ساتھ لہسن بھی کھلائی جاتی تھی تاکہ لڑنے میں طاق ہو۔ محلے بھر میں ہمارے اس مرغے کی دھاک تھی۔ گردن اکڑا کر اور کلغی پھلا کر بانگ دیتا تو سننے والوں کو مزہ آجاتا۔کبھی دوسرے مرغوں کے ساتھ اس کی لڑائی ہوجاتی تو تمام محلے والوں کی بن آتی۔ ایسی شاندار لڑائی دیکھنے کو ملتی کہ سب کی طبیعت بحال ہوجاتی۔


دادی اماں برابر ہی گھر میں رہتی تھیں۔ ایک دن دادی اماں نے ہمیں انڈا لانے کے لیے کہا، ہم گئے اور ڈربے میں گھس کر انڈا لے آئے۔ دادی اماں نے اسی وقت اس انڈے کو توڑ کر پھینٹا ، اس میں چینی ڈال کر ہمارے لیے میٹھا انڈا تلا جسے کھاکر ہم شاداں و فرحان ان کے گھر سے نکلے۔ وہ دن اور آج کا دن ، وہ میٹھا انڈا ہمیں یاد آتا ہے ۔ بیگم کو بہت قائل کرنے کی کوشش کی کہ میٹھا انڈا بھی بڑا مزیدار ہوتا ہے ۔ دیکھو تو! تم فریچ ٹوسٹ یا ڈبل کا میٹھا بناتی ہی ہو اور اس میں میٹھے کے ساتھ چینی بھی ڈالی جاتی ہے، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ اتوار کو کبھی انڈا آملیٹ تو ہم بھی بنا ہی لیتے ہیں، اب دیکھیے کس دن ذہنی رو پھرتی ہے اور ہم میٹھا انڈا بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ سب سے بڑی رُکاوٹ اس میٹھے انڈے میں ایمان ہیں جو کہتی ہیں کہ میں تو ہرگز ایسا میٹھا انڈا نہ کھاؤں گی۔ یہ البتہ خوب ہے کہ ایمان جب کیک بنانے کے لیے کھڑی ہوتی ہیں تو ان کے کیک کی ایشائے ترکیبی میں انڈے اور چینی دونوں شامل ہوتے ہیں۔


لیجیے بات بلہاری مرغے کی ہورہی تھی، میٹھے انڈے تک پہنچ گئی۔ ایک دن گھر میں کچھ مہمان وارد ہوئے۔ یادش بخیر وہ زمانہ برائیلر فارمی مرغیوں کا نہ تھا۔ اباجان کے حکم سے بلہاری کو ذبح کیا گیا اور اسے کھولتے ہوئے گرم پانی میں ڈال کر اماں نے اس کے پر صاف کیے۔ بعد میں بگھارے چاول کے ساتھ اس مرغ کا سالن مہمانوں کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ ہم بھی وہیں موجود تھے۔ ہمارے حصے میں بھی ایک دوبوٹیاں آہی گئیں ۔ ہم زار و قطار روتے جاتے تھے اور اپنے بلہاری کی بوٹیاں کھاتے جاتے تھے۔ بہت بعد میں پی آئی اے نے والوں نے برائیلر مرغی ایجاد کی اور ہمیں گھر کی مرغیوں سے نجات ملی۔گھر کی پلی ہوئی دیسی مرغیوں کا گوشت یوں تو بہت لذیذ ہوتا تھا لیکن اپنے ساتھ کھیلی ہوئی مرغیوں کو یوں نوچ نوچ کر کھانا کھل جاتا تھا۔


اب سے کچھ سال اُدھر، ہم اپنے گھر سے باہر نکلے تو ایک بطخ صاحبہ کو گھر کے سامنے ٹہلتا پایا، جانے کہاں سے مٹکتی مٹکاتی، چل کر ہمارے گھر تک آئی تھیں۔ ہم انہیں اپنے گھر کے اندر لے گئے، کچھ دانا وغیرہ کھلایا ، پانی پلایا تو خوش ہوگئیں۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ ان صاحبہ کو کہاں رکھا جائے۔ بچے ابھی چھوٹے تھے اور ہمارے گھر کی چھت فارغ تھی لہٰذا بطخ بیگم کو جھٹ پٹ چھت پر منتقل کردیا۔


اب روز صبح شام انہیں ہاتھ میں دانے لے کر کھلاتے اور اس کے بعد کچھ دیر ان کی گردن کو سہلاتے۔ کچھ دیر اپنے جسم کو سہلوانے کے بعد وہ مٹکتی ہوئی اپنی سہانی چال کے ساتھ ایک طرف کو چل پڑتیں۔


کچھ ہفتے گزرے تو ہمیں خیال آیا کہ ہم اگر ان کے لیے ایک عدد ساتھی کا بندوبست کردیں تو بہت اچھا ہوگا۔ بازار گئے اور ایک نر بطخ خرید کر گھر لے آئے۔ ایک دو دن تک تو بی بطخ نے ان صاحب کو کچھ لفٹ نہ کروائی۔ پھر اس کے بعد کی صورتحال کچھ یوں تھی کہ جب بھی ہم چھت پر پہنچتے دونوں میاں بی بی کو ایک ساتھ ٹہلتے پاتے ۔ ادھر بی بی نے ہمیں لفٹ کروانی بھی چھوڑدی۔ نہ ہمارے پاس آتیں ،نہ اپنی گردن سہلواتیں، نہ ہمارے ہاتھوں سے دانہ کھاتیں۔ ہمارے لیے اجنبی بن گئیں۔ یہی نہیں بلکہ ہمارے چھوٹے بچوں کا پیچھا کرکے انہیں تنگ بھی کرتیں۔ ہم نے ان کا یہ ڈھنگ دیکھا تو کھیل کا نیا طریقہ نکالا۔ ان کے آگے آکر بھاگنا شروع کردیتے۔ اب تو ہم آگے آگے اور وہ پیچھے پیچھے۔ خوب رونق لگتی۔ بچے یہ تماشا دیکھ کر ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوجاتے۔

بعد میں جب ہم گھر شفٹ کرنے لگے تو اس خوبصورت جوڑے کو اپنے پڑوسیوں کے حوالے کردیا ، اس ہدایت کے ساتھ کہ وہ ان دونوں کا خاص خیال رکھیں گے، اور وہاں سے چلے آئے۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
زبردست!
پرندوں سے محبت و خیال کی خوبصورت کہانیاں۔
بہت اچھا لگا انہیں پڑھنا اور محسوس کرنا۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

عرفان سعید

محفلین
ہمارے انوکھے مہمان
از محمد خلیل الرحمٰن​



ہمارا متوسط سائز کا فلیٹ ایک رہائشی عمارت کی دوسری منزل پر شرقاً غرباً پھیلا ہے۔ مغربی سمت میں دیوان خانے کے اختتام پر ایک بالکونی ہے اور اسی طرح مشرق میں رسوئی بھی ایک بالکونی میں کھلتی ہے۔ اس اہتمام کے باعث دیوانی ہوا سارا دن ہمارے فلیٹ میں اٹھکیلیاں کرتی پھرتی ہے۔ ہوا کے دوش پر اونچی اونچی اُڑانیں بھرنے والے بہت سے پنچھی ہمارے ساتھ اس فلیٹ میں سانجھی و ساتھی بننے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ بہت سی چڑیوں اور کبوتریوں کو انڈے سینے کے لیے گھونسلہ بنانے کی ضرورت پڑتی ہےتو ہمارے ہی فلیٹ کو تاکتے ہیں، یہ اور بات کہ ہماری نصف بہتر اپنا گھر کسی بھی قماش کی شخصیت کے ساتھ شریک کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ وہ لٹھ لیے ان کبوتروں کے پیچھے دوڑا کرتی ہیں جو ہر دوسرے روز غٹر غوں، غٹرغوں کرتے ہوئے رسوئی میں در آتے ہیں اور نعمت خانے کے اوپر گھونسلہ بنانے کی تگ و دو میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔ چڑیوں کا تو کہنا ہی کیا کہ وہ پُھر پُھر کرتی اِدھر سے داخل ہوتی ہیں تو اُدھر سے واپس دوڑ جاتی ہیں۔ ایک آدھ مرتبہ انہوں نے بھی گھونسلہ بنانے کی کوشش کی جسے محترمہ نے ناکام بنادیا۔


ایک دن ایک کبوتر کا بچہ دیوان خانے کے راستے اندر داخل ہوا اور سیدھا رسوئی پہنچ گیا۔ اسکے وہاں پہنچنے سے پہلے کسی نے بالکونی کا دروازہ بند کردیا تھالہٰذا وہ وہیں دبک کر بیٹھ رہا۔ ہم گھر پہنچے تو اس مہمان کی آمد کی اطلاع ملی۔ ایمان اسکے آنے سے بہت سخت پریشان تھیں اور انہوں نے خود کو اپنے کمرے میں بند کرلیا تھا کہ جب تک یہ پھڑپھڑاتا ہوا خوفناک پرندہ باہر نہیں جائے گا، میں بھی اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلوں گی۔ بیگم نے جو ان معاملات میں ہم سے زیادہ بہادر واقع ہوئی ہیں اور گھر کی چھپکلیوں کو خود مارا کرتی ہیں ، جانے کیا سوچ کر یہ کام ہمارے سپرد کردیا۔ ہم دبے پاؤں رسوئی میں پہنچے اور اس ناہنجار کبوتر کے بچے کو چھاپ بیٹھے۔اسے اپنے سینے سے لگائے ایمان کے کمرے میں پہنچے تو وہ چیخ مارکر دوسرے کمرے کی جانب لپکیں۔


اس ہنگامے کو فرو کرنے کی خاطر بیگم نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم اسے فوراً باہر چھوڑدیں۔ ہم نے اسے بالکونی میں چھوڑا تو وہ چھوٹی کھڑکی کے فریم کے اندر جاکر بیٹھ گیا ۔ بیگم اور ایمان کے مزید اصرار کے باوجود ہم نے اسے مزید تنگ کرنے سے انکار کردیا اور وہاں سے سیدھے اپنے کمرے میں پہنچ کر بستر پر دراز ہوگئے۔


کبوتر کے بچے نے موقع غنیمت جان کر خود ہی کہیں اور کے لیے اُڑان بھر لی اور یوں یہ ہنگامہ فرو ہوا۔ شنید ہے کہ اگلے روز تک وہ ناہنجار اسی بالکونی میں موجود تھا۔


گزشتہ سال موقع دیکھ کر ایک کم بخت چڑیل یعنی چیل نے بیٹھک کی اُس کھڑکی کے فریم میں اپنا گھونسلہ بنالیا جسے فلیٹ کے معمار نے ائرکنڈیشن کے لیے چھوڑا تھا۔ چیل نے اپنے انڈوں کو سینا شروع کیا تو اس وقت تک ہمیں کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ ہنگامہ تو اُس وقت شروع ہوا جب چیل صاحبہ ایک عدد بچے کی اماں بن گئیں۔ اب تو اس خدائی فوجدار نے ہر کس و ناکس کا بالکونی میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔ فلیٹ سے دور کسی درخت یا کسی دوسری عمارت پر بیٹھی اپنے گھونسلے کو تکا کرتی ۔ جوں ہی کوئی گھر والا بالکونی میں جاتا ، وہ لمبی اُڑان لے کر آتی اور جھپٹا مارکر ہمیں بالکونی کی جالی سے باہر جھانکنے اور ہاتھ باہر نکالنے سے باز رکھتی۔


ہم دن رات جل تو، جلال تو، آئی بلا کو ٹال تو کا ورد کرتے لیکن اس مصیبت سے اُسی وقت چھٹکارانصیب ہوا جب چیل کے فرزندِ ارجمند اُڑنے چُگنے کے قابل ہوگئے اور چیل نے اپنے گھونسلے کو خیر باد کہہ دیا۔ لمبے بانس کی مدد سے اس کے گھونسلے کا صفایا کرتے ہوئے ہم حیران تھے کہ یہ بھلی مانس اِن موٹے موٹے سخت تنکوں پر کیونکر اپنے نازک انڈوں کو رکھ پاتی ہے اور کیونکر سیتی ہے۔


ایک کوّے صاحب البتہ ہماری بیگم کے سخت دل کو موم کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور اُن سے دوستی گانٹھ لی ہے۔ ہر روز ایک مقررہ وقت پر رسوئی کی جالی پر آکر بیٹھ جاتے ہیں، بیگم کو پیار سے آواز لگاتے ہیں۔ بیگم صاحبہ دوڑی ہوئی جاتی ہیں اور پانی میں روٹی بھگوکر اُس کے سامنے رکھ دیتی ہیں۔ گرمی زیادہ ہوتو پانی کی کٹوری میں پانی بھرکر بھی اس کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ اِس دوران کوّا پھدک کر ایک قدم آگے بڑھ آتا ہےاور یوں دونوں میں بات چیت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔بیگم صاحبہ اِس کا حال دریافت کرتی ہیں تو وہ محلے کے دیگر کوّوں کا رونا لیکر بیٹھ جاتا ہے۔ لنچ سامنے رکھنے پر وہ اطمینان سے ماحضر تناول فرماتا ہے اور پانی وغیرہ نوش جان فرماکر اپنی راہ لیتا ہے۔ کبھی کبھار بیگم کی غیر مودگی میں ہم اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اور کوّے صاحب اپنا جائز حق سمجھتے ہوئے ہماری خدمات کو شرفِ قبولیت بخشتے ہیں۔ آخر کو اُن کی میزبان صاحبہ کے ہی تو شوہرِ نامدار ہیں۔


کل سہہ پہر ایک عجیب واقعہ ہوا ۔ ایک چیل کا بچہ کہیں سے آکر ہماری رسوئی کی جالی پر بیٹھ گیا۔ ایمان کو دور سے اُسے دیکھنا بہت اچھا لگا۔ کچھ دیر تو وہ اپنی اماں جان کے ہمراہ ایک محتاط فاصلے سے اُسے دیکھتی رہیں ، پھر ہمیں اِس معاملے میں الجھانے کی خاطر آواز دے ڈالی۔ ہم نے طوعاً و کرھاً محفل کے صفحے کو بند کیا اور رسوئی کی جانب لپکے۔ وہاں یہ ماجرا دیکھا تو حیران رہ گئے۔ کچھ دیر اِس خوبصورت بچے کو تکتے رہےپھر دبے پاؤں آگے بڑھے۔ بالکونی میں داخل ہوئے ہی تھے کہ چیل کے بچے نے اپنا ننھا سا سر گھماکر ہماری جانب گھورکر دیکھا۔ اُس کی بڑی بڑی زرد آنکھیں اور بڑی ہوکر چمکنے لگیںگویا کہہ رہا ہو ، ’’ میاں خبردار جو ایک قدم بھی آگے بڑھایا ہو! میں اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر نیچے کود جاؤں گا۔ رہے نام اللہ کا۔‘‘


ہم ٹھٹھک گئے۔ یوں بھی بڑا خطرہ یہ تھا کہ اسکے زیادہ قریب گئے تو کہیں سے اُس کی خونخوار والدہ محترمہ نہ جھپٹ پڑیں۔ بہت احتیاط کے ساتھ ہاتھ لمبا کرکے ڈبل روٹی ایک ٹکڑا اسکے قریب منڈیر پر رکھا اور اپنا موبائل سنبھال کر وہیں سے تصویریں بنانے لگے۔


کئی زاویوں سے تصویر کے لیے اپنے آپ کو پوز کرتے کرتے چیل کا بچہ اُکتا گیا، لیکن زبان سے کچھ نہ بولا۔


ہم نے بھی اُسے زیادہ تنگ کرنا مناسب نہ جانا اور وہاں سے ہٹ گئے۔ اِدھر محلے کے کوّوں کو یہ بات سخت ناگوار گزر رہی تھی کہ کوئی اجنبی کیوں ان کے گھر کی دہلیز پر یوں دھرنا دئیے بیٹھا رہے، لہٰذا وہ بار بار قریب آکر اُسے اپنے کھانے اور پانی سے دور رکھنے کا جتن کررہے تھے۔ شام تک ہمارا ننھا مہمان جاچکا تھا۔ ذیل میں اس مہمان کی تصاویر محفلین کی تفریحِ طبع کے لیے پیش ہیں کہ کسی چیل کی تصویر اس قدر نزدیک سے کھینچنا ممکن نہہیں، لیکن شاید یہ بچہ ابھی اُڑنا سیکھ رہا تھا اور اُڑان بھرتے ڈرتا تھالہٰذا گھنٹہ بھر کو ہماری منڈیر پر بیٹھا رہ گیا، اور ہم نے کئی زاویوں سے اُس کی تصاویر بنالیں اور محظوظ ہوتے رہے۔
پرلطف تحریر! بہت خوب!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہمارے انوکھے مہمان
از محمد خلیل الرحمٰن​



ہمارا متوسط سائز کا فلیٹ ایک رہائشی عمارت کی دوسری منزل پر شرقاً غرباً پھیلا ہے۔ مغربی سمت میں دیوان خانے کے اختتام پر ایک بالکونی ہے اور اسی طرح مشرق میں رسوئی بھی ایک بالکونی میں کھلتی ہے۔ اس اہتمام کے باعث دیوانی ہوا سارا دن ہمارے فلیٹ میں اٹھکیلیاں کرتی پھرتی ہے۔ ہوا کے دوش پر اونچی اونچی اُڑانیں بھرنے والے بہت سے پنچھی ہمارے ساتھ اس فلیٹ میں سانجھی و ساتھی بننے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ بہت سی چڑیوں اور کبوتریوں کو انڈے سینے کے لیے گھونسلہ بنانے کی ضرورت پڑتی ہےتو ہمارے ہی فلیٹ کو تاکتے ہیں، یہ اور بات کہ ہماری نصف بہتر اپنا گھر کسی بھی قماش کی شخصیت کے ساتھ شریک کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ وہ لٹھ لیے ان کبوتروں کے پیچھے دوڑا کرتی ہیں جو ہر دوسرے روز غٹر غوں، غٹرغوں کرتے ہوئے رسوئی میں در آتے ہیں اور نعمت خانے کے اوپر گھونسلہ بنانے کی تگ و دو میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔ چڑیوں کا تو کہنا ہی کیا کہ وہ پُھر پُھر کرتی اِدھر سے داخل ہوتی ہیں تو اُدھر سے واپس دوڑ جاتی ہیں۔ ایک آدھ مرتبہ انہوں نے بھی گھونسلہ بنانے کی کوشش کی جسے محترمہ نے ناکام بنادیا۔


ایک دن ایک کبوتر کا بچہ دیوان خانے کے راستے اندر داخل ہوا اور سیدھا رسوئی پہنچ گیا۔ اسکے وہاں پہنچنے سے پہلے کسی نے بالکونی کا دروازہ بند کردیا تھالہٰذا وہ وہیں دبک کر بیٹھ رہا۔ ہم گھر پہنچے تو اس مہمان کی آمد کی اطلاع ملی۔ ایمان اسکے آنے سے بہت سخت پریشان تھیں اور انہوں نے خود کو اپنے کمرے میں بند کرلیا تھا کہ جب تک یہ پھڑپھڑاتا ہوا خوفناک پرندہ باہر نہیں جائے گا، میں بھی اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلوں گی۔ بیگم نے جو ان معاملات میں ہم سے زیادہ بہادر واقع ہوئی ہیں اور گھر کی چھپکلیوں کو خود مارا کرتی ہیں ، جانے کیا سوچ کر یہ کام ہمارے سپرد کردیا۔ ہم دبے پاؤں رسوئی میں پہنچے اور اس ناہنجار کبوتر کے بچے کو چھاپ بیٹھے۔اسے اپنے سینے سے لگائے ایمان کے کمرے میں پہنچے تو وہ چیخ مارکر دوسرے کمرے کی جانب لپکیں۔


اس ہنگامے کو فرو کرنے کی خاطر بیگم نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم اسے فوراً باہر چھوڑدیں۔ ہم نے اسے بالکونی میں چھوڑا تو وہ چھوٹی کھڑکی کے فریم کے اندر جاکر بیٹھ گیا ۔ بیگم اور ایمان کے مزید اصرار کے باوجود ہم نے اسے مزید تنگ کرنے سے انکار کردیا اور وہاں سے سیدھے اپنے کمرے میں پہنچ کر بستر پر دراز ہوگئے۔


کبوتر کے بچے نے موقع غنیمت جان کر خود ہی کہیں اور کے لیے اُڑان بھر لی اور یوں یہ ہنگامہ فرو ہوا۔ شنید ہے کہ اگلے روز تک وہ ناہنجار اسی بالکونی میں موجود تھا۔


گزشتہ سال موقع دیکھ کر ایک کم بخت چڑیل یعنی چیل نے بیٹھک کی اُس کھڑکی کے فریم میں اپنا گھونسلہ بنالیا جسے فلیٹ کے معمار نے ائرکنڈیشن کے لیے چھوڑا تھا۔ چیل نے اپنے انڈوں کو سینا شروع کیا تو اس وقت تک ہمیں کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ ہنگامہ تو اُس وقت شروع ہوا جب چیل صاحبہ ایک عدد بچے کی اماں بن گئیں۔ اب تو اس خدائی فوجدار نے ہر کس و ناکس کا بالکونی میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔ فلیٹ سے دور کسی درخت یا کسی دوسری عمارت پر بیٹھی اپنے گھونسلے کو تکا کرتی ۔ جوں ہی کوئی گھر والا بالکونی میں جاتا ، وہ لمبی اُڑان لے کر آتی اور جھپٹا مارکر ہمیں بالکونی کی جالی سے باہر جھانکنے اور ہاتھ باہر نکالنے سے باز رکھتی۔


ہم دن رات جل تو، جلال تو، آئی بلا کو ٹال تو کا ورد کرتے لیکن اس مصیبت سے اُسی وقت چھٹکارانصیب ہوا جب چیل کے فرزندِ ارجمند اُڑنے چُگنے کے قابل ہوگئے اور چیل نے اپنے گھونسلے کو خیر باد کہہ دیا۔ لمبے بانس کی مدد سے اس کے گھونسلے کا صفایا کرتے ہوئے ہم حیران تھے کہ یہ بھلی مانس اِن موٹے موٹے سخت تنکوں پر کیونکر اپنے نازک انڈوں کو رکھ پاتی ہے اور کیونکر سیتی ہے۔


ایک کوّے صاحب البتہ ہماری بیگم کے سخت دل کو موم کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور اُن سے دوستی گانٹھ لی ہے۔ ہر روز ایک مقررہ وقت پر رسوئی کی جالی پر آکر بیٹھ جاتے ہیں، بیگم کو پیار سے آواز لگاتے ہیں۔ بیگم صاحبہ دوڑی ہوئی جاتی ہیں اور پانی میں روٹی بھگوکر اُس کے سامنے رکھ دیتی ہیں۔ گرمی زیادہ ہوتو پانی کی کٹوری میں پانی بھرکر بھی اس کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ اِس دوران کوّا پھدک کر ایک قدم آگے بڑھ آتا ہےاور یوں دونوں میں بات چیت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔بیگم صاحبہ اِس کا حال دریافت کرتی ہیں تو وہ محلے کے دیگر کوّوں کا رونا لیکر بیٹھ جاتا ہے۔ لنچ سامنے رکھنے پر وہ اطمینان سے ماحضر تناول فرماتا ہے اور پانی وغیرہ نوش جان فرماکر اپنی راہ لیتا ہے۔ کبھی کبھار بیگم کی غیر مودگی میں ہم اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اور کوّے صاحب اپنا جائز حق سمجھتے ہوئے ہماری خدمات کو شرفِ قبولیت بخشتے ہیں۔ آخر کو اُن کی میزبان صاحبہ کے ہی تو شوہرِ نامدار ہیں۔


کل سہہ پہر ایک عجیب واقعہ ہوا ۔ ایک چیل کا بچہ کہیں سے آکر ہماری رسوئی کی جالی پر بیٹھ گیا۔ ایمان کو دور سے اُسے دیکھنا بہت اچھا لگا۔ کچھ دیر تو وہ اپنی اماں جان کے ہمراہ ایک محتاط فاصلے سے اُسے دیکھتی رہیں ، پھر ہمیں اِس معاملے میں الجھانے کی خاطر آواز دے ڈالی۔ ہم نے طوعاً و کرھاً محفل کے صفحے کو بند کیا اور رسوئی کی جانب لپکے۔ وہاں یہ ماجرا دیکھا تو حیران رہ گئے۔ کچھ دیر اِس خوبصورت بچے کو تکتے رہےپھر دبے پاؤں آگے بڑھے۔ بالکونی میں داخل ہوئے ہی تھے کہ چیل کے بچے نے اپنا ننھا سا سر گھماکر ہماری جانب گھورکر دیکھا۔ اُس کی بڑی بڑی زرد آنکھیں اور بڑی ہوکر چمکنے لگیںگویا کہہ رہا ہو ، ’’ میاں خبردار جو ایک قدم بھی آگے بڑھایا ہو! میں اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر نیچے کود جاؤں گا۔ رہے نام اللہ کا۔‘‘


ہم ٹھٹھک گئے۔ یوں بھی بڑا خطرہ یہ تھا کہ اسکے زیادہ قریب گئے تو کہیں سے اُس کی خونخوار والدہ محترمہ نہ جھپٹ پڑیں۔ بہت احتیاط کے ساتھ ہاتھ لمبا کرکے ڈبل روٹی ایک ٹکڑا اسکے قریب منڈیر پر رکھا اور اپنا موبائل سنبھال کر وہیں سے تصویریں بنانے لگے۔


کئی زاویوں سے تصویر کے لیے اپنے آپ کو پوز کرتے کرتے چیل کا بچہ اُکتا گیا، لیکن زبان سے کچھ نہ بولا۔


ہم نے بھی اُسے زیادہ تنگ کرنا مناسب نہ جانا اور وہاں سے ہٹ گئے۔ اِدھر محلے کے کوّوں کو یہ بات سخت ناگوار گزر رہی تھی کہ کوئی اجنبی کیوں ان کے گھر کی دہلیز پر یوں دھرنا دئیے بیٹھا رہے، لہٰذا وہ بار بار قریب آکر اُسے اپنے کھانے اور پانی سے دور رکھنے کا جتن کررہے تھے۔ شام تک ہمارا ننھا مہمان جاچکا تھا۔ ذیل میں اس مہمان کی تصاویر محفلین کی تفریحِ طبع کے لیے پیش ہیں کہ کسی چیل کی تصویر اس قدر نزدیک سے کھینچنا ممکن نہہیں، لیکن شاید یہ بچہ ابھی اُڑنا سیکھ رہا تھا اور اُڑان بھرتے ڈرتا تھالہٰذا گھنٹہ بھر کو ہماری منڈیر پر بیٹھا رہ گیا، اور ہم نے کئی زاویوں سے اُس کی تصاویر بنالیں اور محظوظ ہوتے رہے۔

بہت ہی خوبصورت تحریر !! اب ایسے موضوعات پر کون لکھتا ہے ۔ ساری قوم فلسفے اور تصوف میں مصروف ہے ۔ بقول شخصے یا تو بات آسمان سے اوپر کی ہوتی ہے یا زمین کے نیچے کی ۔ زمین کے اوپر کی بات کوئی نہیں کرتا ۔
پڑھتے ہوئے بہت اچھا احساس ہوا ۔ طوطے اور بلیاں ہم نے بھی بچپن میں بہت پالیں ۔ ایک طوطے کا نقشِ دہن تو اب بھی ایک نقشِ کہن کی صورت انگشتِ شہادت پر باقی ہے اور آئے دن مرحوم کی یاد دلاتا رہتا ہے ۔ ( یہ میرا گمان ہے کہ اب تک جنابِ طوطا مرحوم ہوچکے ہونگے ۔ لیکن عین ممکن ہے کہ طوطوں کی عمر ہم انسانوں سے زیادہ ہوتی ہو اور آنجناب کسی ڈال پر بیٹھے ہماری کم فہمی پر ٹیں ٹیں کررہے ہوں ) ۔ :):):)
 

عرفان سعید

محفلین
اب ایسے موضوعات پر کون لکھتا ہے ۔ ساری قوم فلسفے اور تصوف میں مصروف ہے ۔ بقول شخصے یا تو بات آسمان سے اوپر کی ہوتی ہے یا زمین کے نیچے کی ۔ زمین کے اوپر کی بات کوئی نہیں کرتا ۔
سو فیصد متفق! کتنی درست اور اہم بات کی نشاندہی فرمائی ہے۔
ایک طوطے کا نقشِ دہن تو اب بھی ایک نقشِ کہن کی صورت انگشتِ شہادت پر باقی ہے
واہ واہ! مزہ آگیا یہ فقرہ پڑھ کر۔
 
ہمارے انوکھے مہمان
( ۳ )​



اِدھر کچھ دنوں سے ہمارے سر میں شتر مرغ کا گوشت کھانے کا سودا سمایا ہے۔کچھ سال اُدھر جب ہم کراچی کے نمائش مرکز پر مویشی میلے کی سیر کرنے پہنچے تو عمارت کےدروازے کے باہر ایک احاطے میں چند شتر مرغ دیکھ کر چونک اٹھے تھے۔ یا الٰہی یہ مویشیوں کی نمائش میں شتر مرغ کیا کررہے ہیں؟ ہم کشاں کشاں اس عارضی احاطے کے سامنے پہنچے اور نہایت انہماک کے ساتھ ان عجیب و غریب پرندوں کو دیکھنے لگے۔ بچوں کی تو عید ہوگئی۔ انہوں نے آگے بڑھ بڑھ کر ان پرندوں کو دیکھا۔



اسی دوران ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ ایک شتر مرغ اس رسی کے حلقے سے جان چھڑا کر بھاگ نکلا۔لینا ،لینا ، جانے نہ پائےکا شور مچ گیا ۔ ایک ہجوم اس بیچارے جانور کے پیچھے بھاگا تو وہ بدک کر اور تیز ہوگیا۔ آخر ِ کار ایک تیز رفتار ہرکارے نے دوڑ کر بھاگتے ہوئے شتر مرغ کی گردن میں ہاتھ ڈال دیا ۔ گردن میں دوبارہ طوقِ غلامی پڑا تو بے چارہ شتر مرغ سست پڑ گیا۔ شکاری اسے لے کر پنجرے تک پہنچا اور یوں یہ ہنگامہ فرو ہوا۔



ہم ٹھہرے شاعر آدمی، لطافت اور ذکاوتِ حس گویا کوٹ کوٹ کر بھری ہے ہم میں، بس بیٹھ گئے اور ایک عدد نظم لکھ ماری ۔ امید ہے آپ نے پڑھ کر داد ضرور دی ہوگی۔ اگر نہیں پڑھی تو لنک دوبارہ پیش خدمت کیے دیتے ہیں ۔





ہال کے اندر پہنچے توبھانت بھانت کی دکانیں سجی پائیں۔ ایک دکان پر شتر مرغ کا گوشت بکتے ہوئے دیکھا تو ہم خوشی سے نہال ہوگئے۔ ارے واہ! گویا اب ہم مچھلی ، مرغی، بکری اور گائے کے ساتھ ساتھ شترمرغ کا گوشت بھی کھا سکیں گے۔ جیب میں جھانکا تو حالات دگرگوں پائے۔’’چلو اب ملنا شروع ہوا ہے تو یقیناً ملتا رہے گا ‘‘، یہ سب سوچ کر ہم مطمئین ہوگئے اور بادلِ ناخواستہ گھر آگئے۔



اب اتنے سال بعد ایک دن ایک بڑے ڈیپارٹمنٹ اسٹور میں گھومتے ہوئے اچانک شتر مرغ کا خیال آگیا۔ گوشت مچھلی کا ہر اسٹال چھان مارا لیکن تازہ یا جمے ہوئے گوشت کے فریزوں میں کہیں یہ نام نہ پاکر ہم نے اس نعمت کو گوگل کرنے کا قطعی فیصلہ کرلیا ، گھر واپس پہنچے اور فوراً اپنے کمپئیوٹر پر گوگل کھول لیا



اس دن گوگل کیا تو پتا چلا کہ گو پاکستان میں شتر مرغ کی ’کاشت‘ شروع ہوچکی ہے لیکن گوشت شاید غیر ممالک کو برآمد کردیا جاتا ہے۔ شاید لاہور میں بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز پر دستیاب بھی ہو ، لیکن کراچی کے چند بڑے اسٹورز ،جن میں کارفور، میٹرو اور امتیاز وغیرہ شامل ہیں ، پر میسر نہیں۔ کلفٹن میں آغاز پر ہم نے نہیں دیکھا، شاید وہاں ملتا ہو، وللہ اعلم۔



انہی دنوں ہم خیر سگالی کے دورے پر اپنے سسرال پہنچے تو سالے صاحب اور ان کے بیٹے سے باتوں باتوں میں شترمرغ، خرگوش اور کالاماری کے گوشت کا تذکرہ نکلا اور سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ ہم نے بتایا کہ کالاماری مچھلی تو ایک مقامی اسٹور پر دستیاب ہے، بس انتظار میں ہیں کہ کوئی مولوی صاحب ہمیں یہ بتادیں کہ یہ مچھلی جھینگے کے حکم میں آتی ہے یا نہیں۔ اگر جواب ہاں میں ہو تو اس کو بھی جھینگا سمجھ کر کھا جائیں گے۔ بھتیجے خود مولوی ہیں، حامی بھرلی کہ اس بارے میں ساتھیوں سے پوچھ گچھ کریں گے تب ہی وہ ہمیں اس سوال کا جواب دے پائیں گے۔



ہم نےسالے صاحب سے شکوہ کیا کہ ہمیں شترمرغ کا گوشت درکار ہے جو باوجود تلاش کے ہمیں نہیں مل رہا ہے۔ کہنے لگے کہ ’’ آپ کے علاقے میں کبوتروں کی بہتات ہے، آپ ہمیں کبوتر پکڑدیں ہم آپ کو شتر مرغ کا گوشت مہیا کردیں گے۔‘‘



تجویز معقول تھی لہٰذا ہم نے اس پر عمل کرنے کی ٹھان لی۔ کبوتروں نے تو ہمارے گھر کو تاکا ہوا ہے اور آئے دن اندر گھس کر گھونسلہ بنانے کی ترکیبیں کرتے رہتے ہیں۔ کیوں نہ انہیں ہی تاک لیا جائے؟ پکڑ پکڑ کر سالے صاحب کے حوالے کرتے رہیں گے ، ادھر سے جواب میں وہ ہمیں شتر مرغ کا گوشت مہیا کرتے رہیں گے۔ خوب گزرے گی جو مل بیٹھے ہیں مستانے دو۔



گھر پہنچے تو مصمم ارادہ کرچکے تھے کہ اب ان بد بخت کبوتروں کو نہیں چھوڑنا ہے جنہوں نے پھڑپھڑا، پھڑ پھڑا کر ہماری نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔اب تو انہیں پکڑنے کا ایک بہانا بھی ہاتھ آچکا تھا۔ اس ہاتھ (کبوتر) دے ، اُس ہاتھ ( شترمرغ کا گوشت) لے۔کبوتروں کو پکڑنے کا آسان ترین نسخہ تو یہ ہے کہ آپ خود کبوتر باز بن جائیں ، لیکن بقول شخصے ’وہ دن گئے جب خلیل خاں فاختہ اُڑایا کرتے تھے‘، لہٰذا اِس نسخے پر علمدرآمد موقوف کردیا اور کبوتر پکڑنے کی مزید ترکیبیں ذہن میں لڑانے لگے۔



ایک دن ہم یونہی فکروں میں غلطاں و پیچاں اپنے بستر پر دراز تھے اور ہاتھ میں کھلی کتاب ہمارا مذاق اُڑارہی تھی کہ ایمان صاحبہ کی چیخوں سے پورا فلیٹ لرز گیا۔ ہم ہڑبڑا کر اٹھّے اور ان کی آوازوں کی جانب بھاگے۔ بٹیا رسوئی سے خوف زدہ انداز میں برآمد ہورہی تھیں۔ ان کے آدھے آدھے جملوں پر غور کرتے رسوئی میں داخل ہوئے تو نہ صرف ساری صورتِ حال ہماری سمجھ میں آگئی بلکہ ہم نے اسی اُثنا میں ایک لائحہ عمل بھی ترتیب دے ڈالا۔



چولہے کے عین اوپر الماری پر ایک معصوم کبوتر بیٹھا اپنے روایتی احمقانہ انداز میں ہمیں گھور رہا تھا۔ ہم نے جھٹ رسوئی کا وہ دروازہ بند کردیا جو بالکونی کی جانب کھلتا ہے اور دبے پاؤں کبوتر کی جانب بڑھے۔ اعصاب کی اس جنگ میں جہاں ہم جیسا آہنی اعصاب والا ایک جانب ہاتھ بڑھائے اپنے شکار کی جانب بڑھ رہا تھا وہیں دوسری جانب شکار صیاد کے آہنی ہاتھوں کے جال میں پھنسنے کے لیے تقریباً تیار تھا۔ عام طور پر پرندے موت کو یوں آنکھوں کے سامنے دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں لیکن اس احمق نے اپنی جان کی بازی لگادینے کو بہتر خیال کیا، پھڑ پھڑا کر جو اُڑا تو سیدھا رسوئی کی کھلی کھڑکی سے یہ جا وہ جا، ایک لمحے کو بالکوئی کی منڈیر پر بیٹھا اور پلک جھپکتے نظروں سے اوجھل ہوگیا۔

’خیر بیٹا کبوتر!،

تو نہیں اور سہی، اور نہیں اور سہی

یہ سوچ کر ہم نے اپنے دِل کو تسلی دی اور یوں قہقہہ مارکر ہنسے گویا کبوتر کو یوں خوف زدہ کرکے رسوئی گھر سے بھگانا ہی ہمارا اصل مقصد تھا، اور بات آئی گئی ہوگئی۔

کچھ دن یوں ہی گزر گئے۔

اسی کشمکش میں گزریں مری اُن دِنوں کی راتیں

کبھی ہاتھ میں کبوتر، کبھی شتر مرغ منہ میں



ایک دن پھر یونہی ہمارے مطالعے میں خلل پڑا۔ بیگم صاحبہ کسی بے قصور کو نہایت تُندہی سے ڈانٹ رہی تھیں۔اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر یہ فیصلہ کرنے میں وقت نہیں لگا کہ جو کوئی بھی بیگم کے غیض و غضب کا نشانہ بن رہا ہے، یقیناً بے قصور ہے۔ چار و ناچار اٹھے کہ بیچ بچاؤ کرادیں ۔ بے چارہ بے قصور جو کوئی بھی تھا ، مغربی بالکونی والے کمرے میں تھا۔ قریب پہنچے تو دیکھا کہ بیگم کے قہر کا نشانہ ایک بے زبان کبوتر ہے جو بالکونی سے کمرے میں در آیا ہے اور ہماری کتابوں کی الماری پر بیٹھا بے شرمی کے ساتھ غٹر غوں کیے جارہا ہے۔ ’ارے نالائق! فوراً معافی مانگ!‘ ہم نے دل ہی دل میں کہا اور ہائیں ہا ئیں کہتے ہوئے اس جانب لپکے۔



اُدھر بیگم صاحبہ نے اُس ڈھیٹ کبوتر پر اپنی ڈانٹ کا کوئی اثر نہ دیکھ کر فوری ایکشن لینے کا ارادہ کرلیا اور ہاتھ میں پکڑی ہوئی جھاڑن لہراتے ہوئے اس کی جانب لپکیں۔ا ِدھر ہم چاہتے تھے کہ فوراً وہاں پہنچ کر حالات پر قابوپالیں ، یعنی بالکونی کا دروازہ بند کردیں ۔ گویا ایک جانب بیگم صاحبہ کو خوش کریں اور ان سے بدتمیزی کرنے والے اس ناہنجار کبوتر کو رنگے ہاتھوں پکڑکر اُن کی خدمت میں پیش کردیں کہ جو حکم عالی جاہ! اور دوسری جانب اس کبوتر کو کسی کپڑے کے تھیلے میں بند کرکے سسرال برآمد کرنے کا انتظام کریں۔ شتر مرغ کے گوشت کی سرخ سرخ بوٹیاں ہمارے منہ میں گردش کرنے لگیں۔



ہم لیٹ ہوگئے اور ہمارے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی اس پرندے نے ایک زقند بھری اور بالکونی سے باہر ہوا ہوگیا۔اس ناہنجار کو کمرے بھگا کر بیگم فاتحانہ انداز میں مڑیں تو ہم نے اپنے مقدمے کی پیروی کرنی چاہی۔ ’ ارے بیگم! اس کبوتر کو بھگا نانہیں بلکہ پکڑنا تھا‘ ، لیکن صاحب اس طوطی کی اس نقار خانے میں کون سنتا ہے۔ بات آئی گئی ہوگئی اور کبوتر ہمارے ہاتھ نہ آیا۔



ہمیں یقین ہے کہ ایک دن ضرور ہم ہوں گے کامیاب، اور سالے صاحب کی خدمت میں کبوتر پیش کرکے کہیں گے، ’’ لیجیے جناب! ہم نے اپنا وعدہ پورا کردیا، اب آپ بھی اپنا وعدہ وفا کیجیے اور ہمیں شتر مرغ کا گوشت مہیا کردیجیے۔ ‘‘ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ یوں کرتے ہیں، نویں جماعت کی جیومیٹری کی کتاب کھول لیتے ہیں جس میں تھیورمز کا حل لکھا ہوا تھا۔ شاید کوئی تگڈم یہاں بھی چل جائے۔



آپ کے ذہن میں کبوتر پکڑنے کی کوئی آسان ترکیب ہوتو ضرور ہمیں خط لکھیے۔ موڈرن لوگ ہمارا ٹوئیٹر ہینڈل لے کر وہاں ہمیں اپنے مفید مشوروں سے نواز سکتے ہیں۔

ہم کھائیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی کھائیں گے
جو انٹرنیٹ پر بکتا ہے
صحت کے لیے بھی اچھا ہے
اپنے ہی دیش کے کھیتوں میں
افزائش جس کی ہوتی ہے
ہم اس کو کھانا چاہیں بھی
پر ہم کو نہیں مل سکتا ہے
پردیس برآمد ہوتا ہے
ہم کھائیں گے
لازم ہے کہ اِک دن کھائیں گے
کہتے ہیں شتر مرغ اِس کو ہی
جو ایک عجیب پرندہ ہے
جو اپنے ملک میں اگتا ہے
شاید کہ یہی وہ سلویٰ ہے
جو رب نے ہم پہ اتارا ہے
ہم کھائیں گے
لازم ہے کہ اِک دِن کھائیں گے!
 
پرلطف تحریر! بہت خوب!

پرلطف تحریر محمد خلیل الرحمٰن بھائی۔
اچھا ہوا کہ کبوتر ہاتھ نہیں آیا اور اتنی عمدہ تحریر پڑھنے کو ملی۔ ہمارا تو دل ہے کہ یہ کبوتر کبھی ہاتھ نہ آئے اور ہم ایسی تحریروں سے لطف اندوز ہوتے رہیں! :)
آداب عرفان سعید بھائی آپ جیسے قدردان قاری تو لکھاری کا خواب ہوتے ہیں۔ جزاک اللہ
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
زبردست!
ہم جن واقعات کو غیر اہم جان کے نظر انداز کر دیتے ہیں، آپ ایسے کسی واقعہ کو پکڑ کے جو پھول بوٹے پروتے ہیں تو حسین ترین بنا دیتے ہیں۔
اب ہم انتظار میں ہیں کہ کب کوئی کبوتر آپ کے ہاتھ آئے اور آپ کو شتر مرغ کا گوشت ملے۔:)
بہت خوبصورت تحریر۔
 

فلسفی

محفلین
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب، شتر مرغ والی نظم تو ابھی رہتی ہے لیکن آپ کے مضامین کی داد دیے بغیر اس لڑی سے باہر جانا انتہائی بدذوقی اور ناانصافی کہلائے گی۔ ہلکی پھلکی تحریر بہت ہی پیارے انداز میں لکھی ہے۔ اللہ تعالی آپ کی شترمرغ کا گوشت کھانے کی خواہش کو جلد پورا فرمائے۔ آمین۔
 
Top