مشتاق احمد یوسفی پیدل کیوں چلتے تھے؟ ۔۔۔ فاضلی جمیلی

عرفان سعید

محفلین
مشتاق احمد یوسفی پیدل کیوں چلتے تھے؟
تحریر: فاضلی جمیلی

مشتاق احمد یوسفی 1950ء میں جب ہندوستان سے پاکستان آئے توان کا پہلا ٹھکانہ کراچی میں پیرالہی بخش کالونی(پی آئی بی ) میں واقع ایک چھوٹا سا مکان تھا۔ کراچی میں پہلی ملازمت ایک بینک کی کلرکی سے شروع کی۔ شہر میں اُس وقت ٹرام چلتی تھی لیکن اُس کا خرام پی آئی بی جیسے دُوردراز علاقوں تک نہیں تھا، لہذا یوسفی صاحب کواپنے گھر سے میکلوڈ روڈ ( آئی آئی چندریگر روڈ)پر واقع بینک تک پیدل آنا جانا پڑتا تھا۔ میلوں پیدل چلنے کی وجہ سے اُن کے پائوں پھول جاتے تھے۔ ادریس بھابھی (یوسفی صاحب کی اہلیہ) روزانہ گرم پانی میں نمک ڈال کر پائوں دُھلواتیں تو کچھ افاقہ ہوتا۔

پاکستان آنے سے پہلے یوسفی صاحب کو البتہ اس قسم کی صورتحال کا سامنا نہیں تھا۔ انہوں نے فلاسفی میں ماسٹر کرنے کے بعد ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کررکھی تھی۔ اُن کے والد ریاست ٹونک کے پولیٹیکل سیکرٹری تھے۔ یوسفی صاحب بھی سی ایس ایس کرنے کے بعدڈپٹی کمشنر اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر مقرر ہو گئے۔ انہیں قائداعظم محمد علی جناح، گاندھی اور نہرو سے دوبدوملاقاتوں کا شرف بھی حاصل تھا۔ یوسفی صاحب بتایا کرتے تھے کہ انہوں نے قائداعظم کو ایک مقدمے کی پیروی کے دوران کمرہ ء عدالت میں دلائل دیتے ہوئے بھی سنا ہے۔

پاکستان میں اپنے کیریئر کا آغاز یوسفی صاحب نے ایک کلرک کی حیثیت سے کیا اور ترقی کرتے کرتے بینک کے صدر کی مسند تک پہنچ گئے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جب وہ ایک بینک میں اعلیٰ منصب پر فائزتھے تو جنرل ضیاء نے ان کے ساتھ دیگر دو بینکوں کے صدور کو بھی ایوانِ صدر طلب کرکے اپنی شان میں کچھ مداح سرائی کی تحکمانہ درخواست کی۔ جس کے جواب میں یوسفی صاحب نے اپنی جیب سے استعفیٰ نکالا اور یہ کہتے ہوئے حاکمِ وقت کو پیش کر دیا کہ اتنے قلیل وقت میں تو مذمت بھی نہیں کی جا سکتی۔

بینک کی ملازمت کے دوران انہوں نے ہرممکن کوشش کی کہ دفتری مصروفیات میں اُن کا ادبی حوالہ آڑے نہ آئے۔ وہ آفس میں یوسفی کے بجائے مشتاق احمد خان کہلوانا پسند کرتے تھے۔ وجہ اس کی یہ بتاتے کہ ملازمت کے ساتھ ادب کی آمیزش آپ کی اہلیت کے بجائے نااہلیت کا سبب بن سکتی ہے۔ حالانکہ ان کے ہم عصروں میں سے بہت سوں نے ادب کی بیساکھیوں کے سہارے اعلیٰ منصب حاصل کیے۔ یوسفی صاحب ایسی ترقی کے قائل نہ تھے۔ کاغذات میں ان کی تاریخ ِ پیدائش 1923ء لکھی ہے لیکن یوسفی صاحب کہا کرتے تھے کہ ان کی اصل تاریخ ِ ولادت 1921ء کی ہے۔

یوسفی صاحب کی چارکتابوں چراغ تلے، زرگزشت ، آبِ گم اور خاکم بہ دہن کے بعداُن کی پانچویں کتاب ’شام ِشعریاراں‘لگ بھگ 20سال کے بعد منصہ شہود پر آئی۔ پانچوں کتابیں اپنی اپنی جگہ اعلیٰ ترین نثر پاروں کی حیثیت رکھتی ہیں لیکن جو شہرت اور مقبولیت آبِ گم کے حصے میں آئی اُس سے یوسفی صاحب کے نام کو ایسا دوام حاصل ہو اہے جو اُردو کے کسی اور نثرنگار کو نصیب نہیں ہوا۔ آبِ گم میں پائی جانی والی دُنیائوں میں گم ہونے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ محض مزاح نگاری نہیں بلکہ فلسفہ ء حیات ہےجسے یوسفی صاحب کے جادوئی قلم نے اتنی شگفتگی اور سہولت کے ساتھ بیان کردیا ہے کہ غالب کی مشکل پسندی اور اقبال کی قادرالکلامی کی ساری گتھیاں خودبہ خود کھلتی چلی جاتی ہیں۔

یوسفی صاحب نے طنزومزاح کے ساتھ ساتھ کچھ سنجیدہ مضمون بھی تحریر کیے۔ سنجیدہ مضامین میں سے ایک ’اجرک‘ کے نام سے تھا۔ انہوں نے ایک سفرنامہ بھی لکھا تھا لیکن سات سو صفحے لکھنے کے بعد پھینک دیا کہ لطف نہیں آرہا۔ ایک ناول بھی لکھ رہے تھے۔ چار سو صفحات لکھنے کے بعد کہنے لگے ناول کا ہیرو تو اب جا کرپیدا ہوا ہے۔ پھر اسے بھی کہیں رکھ کر بھول گئے۔ انہیں تھیٹرسے بھی خاصا لگائو تھا۔ تقسیم سے پہلے کے پارسی تھیٹر کے حوالے سے اُن کی ایک نایاب اور دلچسپ تحریر موجود ہے جو ضیاء محی الدین اپنے مخصوص انداز میں پڑھ کر سناتے ہیں تو پارسی تھیٹر کا ایک ایک منظر پوری جزئیات کے ساتھ حاضرین کی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔


یوسفی صاحب کو فوٹو گرافی کا بھی بے حد شوق تھا۔ اپنے گھرمیں ہونے والی تقریبات کی تصویریں خود کھینچا کرتے تھے۔ انہیں آڈیوریکارڈنگ کا بھی جنون تھا۔ مختلف شخصیات کے انٹرویوز پر مبنی سیکڑوں آڈیو کیسٹس آج بھی ان کی ذاتی لائبریری میں موجود ہیں۔ مشفق خواجہ، احمد مقصود حمیدی، زہرہ نگاہ، انورمقصود، جون ایلیا اور احمد فراز ایسے بے تکلف دوستوں پر مشتمل اُن کا ایک حلقہ بھی تھا جس کی موجودگی میں ہاکس بے کے ساحل پر محفلیں جمتیں تو یوسفی صاحب کے بے ساختہ جملوں پر سمندر بھی مسکرانے لگتا تھا۔ یوسفی صاحب کی بعض شہرہ آفاق ’ون لائنرز‘ انہی محفلوں کی دین ہیں۔

اسی طرح کی ایک محفل میں جون ایلیا کہنےلگے یوسفی صاحب میرے پاس اب پینتیس کُرتےاورایک پاجامہ رہ گیا ہے۔ یوسفی صاحب نے برجستہ کہا، اسےبھی کسی کو بخش دیجئے تاکہ ایک طرف سے تو یکسوئی ہو۔ ایک باریوسفی صاحب اور جون ایلیا میں کسی بات پر شکررنجی پیدا ہوگئی تو جون ایلیا نے عالمِ اشتعال میں انہیں سود خور کہہ دیا جس کے جواب میں یوسفی صاحب شاہد رسام سے صرف اتنا کہہ سکے کہ آپ جون کی بے پناہ حوصلہ شکنی کیجیے۔

ایک بار میں اور شاہد رسام یوسفی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئےتو ناسازی طبع کے باوجود ان کی گفتگو میں وہی شگفتگی تھی۔ جون ایلیا کے ذکر پر بستر سے اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ جون بھائی پر جن دنوں موروثی حویلی کی فروخت سے ملنے والی حصے کی رقم کے بعد نئی شادی کا بھوت سوار تھا اور وہ لڑکی کی تلاش کا کام تمام دوستوں کے سپرد کیے پھرتے تھے۔ انور مقصود نے پوچھ لیا کہ لڑکی کیسی ہونی چاہیے۔ جس پر جون بھائی نے ’’سینہ ء شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا‘‘ مخروطی خاکہ کچھ اس انداز میں کھینچا کہ کوٹ ٹانگا جا سکے۔ یوسفی صاحب یہ بات سن کر زیرِ لب مسکرائے اور کہا ’’ گویا جو وصف خود موصوف میں ہونا چاہیے تھا، وہ لڑکی میں تلاش کر رہے تھے‘‘۔


یوسفی صاحب کی کچھ پنچ لائنز کو ملا کر پڑھا جائے تو جو عبارت بنتی ہے وہ حالاتِ حاضرہ کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔ کہتے تھے ’مسلمان کسی ایسے جانور کو محبت سے نہیں پالتے جسے ذبح کرکے کھا نہ سکیں۔ بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکیداری میں ذرا فرق نہیں، سوتے میں بھی ایک آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے۔ امریکا کی ترقی کا سبب یہی ہے کہ اس کا کوئی ماضی نہیں۔ پاکستان کی افواہوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ سچ نکلتی ہیں۔ بدصورت انگریز عورت نایاب ہے، بڑی مشکل سے نظر آتی ہے، یعنی ہزار میں ایک۔ پاکستانی اور ہندوستانی اسی سے شادی کرتا ہے۔ ادب اور صحافت میں ضمیر فروش سے بھی زیادہ مفید طلب ایک اور قبیلہ ہوتا ہے جسے مافی الضمیر فروش کہنا چاہیے۔ بہت سارے شاعر ایسے ہوتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں- شاعر مرجاتا ہے مگر کلام باقی رہ جاتا ہے۔ اُردو شاعری کو یہی چیز لے ڈُوبی ہے‘۔

یوسفی صاحب کی حاضرجوابی بلکہ حسن ِ طلب کا ایک واقعہ ہمارے دوست رحمٰن فارس بھی بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک بار یوسفی صاحب لاہور جمخانہ میں ہونے والی کسی تقریب موجود تھے کہ رحمٰن کی جاننے والی ایک خاتون نے یوسفی صاحب سے کہا ’’آپ تو ہمارے قبلہ و کعبہ ہیں‘‘۔ یوسفی صاحب نے برجستہ جواب دیا۔ ’’مادام! وہاں حجرِ اسود بھی تو ہے‘‘۔

صاحب ِ فراش ہونے کے بعد یوسفی صاحب اکثر کہا کرتے کہ ہمارے ہاں سب سے زیادہ شکایت بزرگوں کو یہی رہتی ہے کہ ان کی بات نہیں سنی جا رہی۔ حالانکہ انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ ازکارِ رفتہ ہو چکے ہیں۔ اور انہیں بڑھاپے میں چار قلتوں یعنی قلتِ طعام، قلتِ کلام، قلتِ نوم اور قلت العوام کا خود کوعادی بنا لینا چاہیے۔

یوسفی صاحب نے اپنے آپ کو ان چاروں قلتوں کا اسیرکر لیا تھا۔ اکبر الہ ٰ آبادی کی طرح اپنی ہی ذات کے حجرے میں پڑے ، سونے سے پہلے اپنے آپ سے سوال کرتے کہ آج میں نے کون سی نئی بات سیکھی ہے۔ جواب اگر نفی میں ملتا تو ڈکشنری اُٹھا کر کوئی نیا لفظ ہجے اور معنی کے ساتھ یاد کر کے سو جاتے۔ آج منوں مٹی کے نیچے ابدی نیند سوئے ہیں تو سوچ رہا ہوں کیسی میٹھی نیند میں ہوں گے ہمارے یوسفی صاحب۔
 

محمداحمد

لائبریرین
صاحب ِ فراش ہونے کے بعد یوسفی صاحب اکثر کہا کرتے کہ ہمارے ہاں سب سے زیادہ شکایت بزرگوں کو یہی رہتی ہے کہ ان کی بات نہیں سنی جا رہی۔ حالانکہ انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ ازکارِ رفتہ ہو چکے ہیں۔ اور انہیں بڑھاپے میں چار قلتوں یعنی قلتِ طعام، قلتِ کلام، قلتِ نوم اور قلت العوام کا خود کوعادی بنا لینا چاہیے۔

کیسی تلخ اور کیسی مشکل باتیں بھی یوسفی صاحب کتنی آسانی سے کر جاتے تھے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
عمدہ مضمون ہے لیکن عنوان کیسا رکھا ہے، اسی روش پر جو آج کل کی سوشل میڈیا صحافت کی ہے، افسوس۔

کیا کیجے کہ آج کل کی میڈیا ٹیکٹکس ہیں۔

آج کل لوگوں کو اتنا زیادہ کونٹینٹ ملتا ہے کہ اس بات کی ترجیح مشکل ہو جاتی ہے کہ کون سی تحریر پڑھی جائے یا کون سی ویڈیو دیکھی جائے۔

ایسے میں چونکا دینے والا ٹائٹل صارف کو مطلوبہ صفحے پر لانے میں مدد کرتا ہے۔

تاہم بہت سے ٹائٹل اتنے بیہودہ ہوتے ہیں کہ پڑھ کر غصہ آتا ہے اور میں احتجاجاً وہاں وقت نہ دینے کو ہی بہتر سمجھتا ہوں۔ :)
 
Top