اپنی پسند

سادگی پر اس کی، مر جانے کی حسرت دل میں ہے
بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے
دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے با ایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
بس ہجومِ نا امیدی خاک میں مل جائے گی
یہ جو اک لذّت ہماری سعئِ بے حاصل میں ہے
رنجِ رہ کیوں کھینچیے؟ واماندگی کو عشق ہے
اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے
جلوہ زارِ آتشِ دوزخ ہمارا دل سہی
فتنۂ شورِ قیامت کس کی آب و گِل میں ہے
ہے دلِ شوریدۂ غالبؔ طلسمِ پیچ و تاب
رحم کر اپنی تمنّا پر کہ کس مشکل میں ہے
 
یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو بہ رو کرتے

ہم اور بلبل بیتاب گفتگو کرتے



پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا

زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے



مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ

کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے



ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے

سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مو کرتے



لٹاتے دولت دنیا کو میکدے میں ہم

طلائی ساغر مے نقرئی سبو کرتے



ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا

تمام عمر رفوگر رہے رفو کرتے



جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم

اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے



بیاض گردن جاناں کو صبح کہتے جو ہم

ستارۂ سحری تکمۂ گلو کرتے

یہ کعبے سے نہیں بے وجہ نسبت رخ یار

یہ بے سبب نہیں مردے کو قبلہ رو کرتے

سکھاتے نالۂ شبگیر کو در اندازی

غم فراق کا اس چرخ کو عدو کرتے

وہ جان جاں نہیں آتا تو موت ہی آتی

دل و جگر کو کہاں تک بھلا لہو کرتے

نہ پوچھ عالم برگشتہ طالعی آتشؔ

برستی آگ جو باراں کی آرزو کرت
حیدر علی آتش
 
تنہائی کے لمحات کا احساس ہوا ہے

جب تاروں بھری رات کا احساس ہوا ہے

کچھ خود بھی ہوں میں عشق میں افسردہ و غمگیں

کچھ تلخئ حالات کا احساس ہوا ہے

کیا دیکھیے ان تیرہ نصیبوں کا ہو انجام

دن میں بھی جنہیں رات کا احساس ہوا ہے

وہ ظلم بھی اب ظلم کی حد تک نہیں کرتے

آخر انہیں کس بات کا احساس ہوا ہے

بازی گہہ عالم میں تو اک کھیل ہے جینا

اس کھیل میں کب مات کا احساس ہوا ہے

رخ پر ترے بکھری ہوئی زلفوں کا یہ عالم

دن کا تو کبھی رات کا احساس ہوا ہے

کچھ خود بھی وہ نادم ہیں نسیمؔ اپنی جفا پر

کچھ میری شکایات کا احساس ہوا ہے
 
تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی

تجھ کو اس وادیٔ رنگیں سے عقیدت ہی سہی

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی

ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں

اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی

میری محبوب پس پردہ تشہیر وفا

تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا

مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی

اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے

کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے

لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں

کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے

یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار

مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں

سینۂ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور

جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں

میری محبوب انہیں بھی تو محبت ہوگی

جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکل جمیل

ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود

آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل

یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل

یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
 
Top