تھکن کو اوڑھ کے بستر میں جاکے لیٹ گئے

تھکن کو اوڑھ کے بستر میں جا کے لیٹ گئے
ہم اپنی قبر مقرر میں جا کے لیٹ گئے

تمام عمر ہم اک دوسرے سے لڑتے رہے
مگر مرے تو برابر میں جا کے لیٹ گئے

ہماری تشنہ نصیبی کا حال مت پوچھو
وہ پیاس تھی کہ سمندر میں جا کے لیٹ گئے

نہ جانے کیسی تھکن تھی کبھی نہیں اتری
چلے جو گھر سے تو دفتر میں جا کے لیٹ گئے

یہ بے وقوف انہیں موت سے ڈراتے ہیں
جو خود ہی سایۂ خنجر میں جا کے لیٹ گئے

تمام عمر جو نکلے نہ تھے حویلی سے
وہ ایک گنبد بے در میں جا کے لیٹ گئے

سجائے پھرتے تھے جھوٹی انا جو چہروں پر
وہ لوگ قصر سکندر میں جا کے لیٹ گئے

سزا ہماری بھی کاٹی ہے بال بچوں نے
کہ ہم اداس ہوئے گھر میں جا کے لیٹ گئے​
 
مدیر کی آخری تدوین:
اس پر ایک اور !!!
یوسف نا تھے مگر سرِ بازار آگئے
خوش فہمیاں یہ تھیں کہ خریدار آگئے

یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آ گئے
ہم خواب بیچنے سرِ بازار آ گئے
آواز دے کے چُھپ گئی ہر بار زندگی
ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آ گئے
 

الف عین

لائبریرین
منور رانا کی مشہور غزل پر ان کا نام تو دے دینا تھا، اور زمرہ بھی غلط منتخب کیا ہے۔ اسے پسندیدہ کلام میں ہونا تھا
 
Top