تابش دہلوی ::::: مِرے دِل کے بَست و کُشاد میں یہ نمُود کیسی نمُو کی ہے ::::: Tabish Dehlvi

فرحت کیانی

لائبریرین
مرے دل کے بست و کشاد میں یہ نمود کیسی نمو کی ہے
کبھی ایک دجلہ ہے خون کا کبھی ایک بوند لہو کی ہے

کبھی چاک خوں سے چپک گیا کبھی خار خار پرو لیا
مرے بخیہ گر نہ ہوں معترض کہ یہ شکل بھی تو رفو کی ہے

نہ بہار ان کی بہار ہے نہ وہ آشیاں کے نہ وہ باغ کے
جنہیں ذکر قیدوقفس کا ہے جنہیں فکر طوق و گلُو کی ہے

یہی راہگزر ہے بہار کی، یہی راستہ ہے بہار کا
یہ چمن سے تابدرِ قفس جو لکیر میرے لہو کی ہے

نہ جنوں نہ شورِ جنوں رہا ترے وحشیوں کو ہوا ہے کیا
یہ فضائے دہر تو منتظر فقط ایک نعرہءہُو کی ہے

ہمیں عمر بھر بھی نہ مل سکی کبھی اک گھڑی بھی سکون کی
دلِ زخم زخم میں چارہ گر کوئی اک جگہ بھی رفو کی ہے؟

تری چشمِ مست نے ساقیا وہ نظامِ کیف بدل دیا
مگر آج بھی سرِ میکدہ، وہی رسم جام و سبُو کی ہے

میں ہزار سوختہ جاں سہی، مرے لب پہ لاکھ فغاں سہی
ابھی ناامیدِ عشق نہ ہو ابھی دل میں بوند لہو کی ہے

ابھی رند ہے ابھی پارسا تجھے تابش آج ہوا ہے کیا
کبھی جستجو مےوجام کی کبھی فکر آب و وضو کی ہے


تابش دہلوی
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ واہ! بہت خوبصورت غزل ہے تابش دہلوی کی - بہت شکریہ فرحت صاحبہ! لیکن کیا آپ تابش دہلوی کا تھوڑا سا تعارف کروا سکتی ہیں‌؟ میں نے ان کی غزل پہلی بار پڑھی ہے اور بہت خوب کلام ہے-
 

فرحت کیانی

لائبریرین
واہ واہ! بہت خوبصورت غزل ہے تابش دہلوی کی - بہت شکریہ فرحت صاحبہ! لیکن کیا آپ تابش دہلوی کا تھوڑا سا تعارف کروا سکتی ہیں‌؟ میں نے ان کی غزل پہلی بار پڑھی ہے اور بہت خوب کلام ہے-

بہت شکریہ سخنور :)۔ پچھلے دنوں اردو ڈائجسٹ کا مارچ 1971 کا شمارہ ہاتھ لگا جس میں یہ غزل چھپی تھی۔ جہاں تک میں جانتی ہوں تابش دہلوی(نام سے ظاہر ہے:) ) دہلی سے تعلق رکھتے تھے اور قیامِ پاکستان سے پہلے آل انڈیا ریڈیو اور بعد میں ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ ان کا شمار اپنے وقت کے اہلِ زبان شعراء میں کیا جاتا تھا۔ نہ صرف شاعری بلکہ براڈ کاسٹنگ میں بھی اپنے منفرد لہجے اور آواز کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ اردو ادب کےلئے ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے 'تمغہء امتیاز' سے نوازا گیا۔ سنا ہے شعر اور خبریں دونوں میں ان کی آواز لوگوں کو مسحور کر دیتی تھی۔ 2004 میں انتقال ہوا۔ مزید کچھ معلومات ویکیپیڈیا پر بھی موجود ہیں (اگرچہ میں وکیپیڈیا کو زیادہ مستند حوالہ نہیں سمجھتی :) )
گوگل پر ایک مشاعرے کی ویڈیو موجود ہے۔

اندوہِ جاں ہو یا غمِ جاناں کوئی تو ہو
کوئی حریفِ شوق تو ہو ہاں کوئی تو ہو


[ame]http://video.google.com/videoplay?docid=-617515380984529714[/ame]


کسی مزدور کا گھر کُھلتا ہے یا کوئی زخمِ نطر کُھلتا ہے
دیکھنا ہے کہ طلسمِ ہستی کس سے کُھلتا ہے اگر کُھلتا ہے


چھوٹی پڑتی ہے انا کی چادر
پاؤں ڈھکتا ہوں تو سر کُھلتا ہے
 

طارق شاہ

محفلین

غزلِ

مِرے دِل کے بَست و کُشاد میں یہ نمُود کیسی نمُو کی ہے
کبھی ایک دجلہ ہے خُون کا، کبھی ایک بُوند لہُو کی ہے

کبھی چاکِ خوُں سے چِپک گیا، کبھی خار خار پُرو لِیا
مِرے بخیہ گر نہ ہُوں مُعترض، کہ یہ شکل بھی تو رفوُ کی ہے

نہ بہار اُن کی بہار ہے، نہ وہ آشیاں کے، نہ وہ باغ کے !
جنھیں ذکر، قید و قفس کا ہے، جنھیں فکر، طوق و گلُو کی ہے

یہی رہگُزر ہے بہار کی، یہی راستہ ہے بہار کا
یہ چمن سے تا بہ دَرِ قفَس، جو لکِیر میرے لہُو کی ہے

نہ جنوُں، نہ شورِ جنوُں رہا، تِرے وحشیوں کو ہُوا ہے کیا ؟
یہ فِضائے دہر تو مُنتظر، فقط ایک نعرۂ ہُو کی ہے

ہمیں عُمر بھر بھی نہ مِل سکی، کبھی اِک گھڑی بھی سُکون کی
دلِ زخم زخم میں چارہ گر! کوئی اِک جگہ بھی رفو کی ہے ؟

تِری چشمِ مَست نے ساقیا! وہ نظامِ کیف بَدل دِیا
مگر آج بھی سَرِمیکدہ، وہی رسم جام و سبُو کی ہے

میں ہزار سوختہ جاں سہی، مِرے لب پہ لاکھ فُغاں سہی
نہ ہو نااُمید ابھی عِشق سے، ابھی دِل میں بوند لہُو کی ہے

ابھی رِند ہے، ابھی پارسا، تجھے تابش آج ہُوا ہے کیا ؟
کبھی جستجُو مے و جام کی، کبھی فکر آب و وضُو کی ہے

تابش دہلوی
 
مرے دل کے بست و کشاد میں یہ نمود کیسی نمو کی ہے
کبھی ایک دجلہ ہے خون کا کبھی ایک بوند لہو کی ہے

کبھی چاک خوں سے چپک گیا کبھی خار خار پرو لیا
مرے بخیہ گر نہ ہوں معترض کہ یہ شکل بھی تو رفو کی ہے

نہ بہار ان کی بہار ہے نہ وہ آشیاں کے نہ وہ باغ کے
جنہیں ذکر قیدوقفس کا ہے جنہیں فکر طوق و گلُو کی ہے

یہی راہگزر ہے بہار کی، یہی راستہ ہے بہار کا
یہ چمن سے تابدرِ قفس جو لکیر میرے لہو کی ہے

نہ جنوں نہ شورِ جنوں رہا ترے وحشیوں کو ہوا ہے کیا
یہ فضائے دہر تو منتظر فقط ایک نعرہءہُو کی ہے

ہمیں عمر بھر بھی نہ مل سکی کبھی اک گھڑی بھی سکون کی
دلِ زخم زخم میں چارہ گر کوئی اک جگہ بھی رفو کی ہے؟

تری چشمِ مست نے ساقیا وہ نظامِ کیف بدل دیا
مگر آج بھی سرِ میکدہ، وہی رسم جام و سبُو کی ہے

میں ہزار سوختہ جاں سہی، مرے لب پہ لاکھ فغاں سہی
ابھی ناامیدِ عشق نہ ہو ابھی دل میں بوند لہو کی ہے

ابھی رند ہے ابھی پارسا تجھے تابش آج ہوا ہے کیا
کبھی جستجو مےوجام کی کبھی فکر آب و وضو کی ہے

تابش دہلوی
 

عینی مروت

محفلین
زبردست غزل پیش کی ہے۔۔۔۔ شریک محفل کرنے والے سب محفلین کا شکریہ

ہمیں عمر بھر بھی نہ مل سکی کبھی اک گھڑی بھی سکون کی
دلِ زخم زخم میں چارہ گر! کوئی اک جگہ بھی رفو کی ہے؟

(y)(y)(y)
 

عینی مروت

محفلین
ابھی تلاش کیا تو طارق شاہ صاحب نے بھی پوسٹ کی ہوئی ہے۔ وہاں درست ہے۔

نہ ہو نااُمید ابھی عِشق سے، ابھی دِل میں بوند لہُو کی ہے

میں ہزار سوختہ جاں سہی، مرے لب پہ لاکھ فغاں سہی
نہ ہو ناامید ابھی عشق سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت شکریہ سر۔۔اتنے پیارے شعر کی دلکشی لوٹانےکےلیے
 
Top