لفظوں میں قید مجھ کو جو صیاد کر گئے (اصلاح طلب)

زنیرہ عقیل

محفلین
لفظوں میں قید مجھ کو جو صیاد کر گئے
خوشیوں سے اپنے آپ کو آزاد کر گئے
اپنے لیےجو خواب سجائے تھے میں نے وہ
پل بھر میں توڑ کر مجھے ناشاد کر گئے
جن پر کئے ہوئے تھےتکیہ وہ لوگ اب
میرا گلا گھونٹ کر بے ناد کر گئے
نابود کر دیا ہےدنیا کے خداؤں نے
اللہ کے حضور یہ فریاد کر گئے
قحطِ خوشی میں لفظ تلخ کہہ گئی جو"گل "
کچھ کم شناس لوگ تو برباد کر گئے

زنیرہ گل
 

الف عین

لائبریرین
لفظوں میں قید مجھ کو جو صیاد کر گئے
خوشیوں سے اپنے آپ کو آزاد کر گئے
///درست اگرچہ سمجھ نہیں سکا۔

اپنے لیےجو خواب سجائے تھے میں نے وہ
پل بھر میں توڑ کر مجھے ناشاد کر گئے
/// واضح نہیں۔ 'وہ' کون، خواب یا محبوب؟

جن پر کئے ہوئے تھےتکیہ وہ لوگ اب
میرا گلا گھونٹ کر بے ناد کر گئے
۔۔۔قافیہ سمجھ نہیں سکا۔ دونوں مصرع بحر سے خارج ہیں

نابود کر دیا ہےدنیا کے خداؤں نے
اللہ کے حضور یہ فریاد کر گئے
///پہلا مصرع وزن میں نہیں

قحطِ خوشی میں لفظ تلخ کہہ گئی جو"گل "
کچھ کم شناس لوگ تو برباد کر گئے
///وزن میں نہیں پہلا مصرع ۔ شاید 'تلخ' میں لام پر زبر سمجھا گیا ہے جو درست نہیں
 
اس سے پہلے کہ چھوڑ جاؤں تجھے
زیست آ پھر سے آزماؤں تجھے

تیری عادت ہے زخم دینے کی
میری خواہش ہے مسکراؤں تجھے

موسمِ گل کو مات دینی ہے
آ خزاؤں میں پھر ملاؤں تجھے

جب تلک رخ ہوا نہیں بدلے
تب تلک اے دیے جلاؤں تجھے

میرا قصہ نہیں ہے لفظوں میں
مجھ سے آنکھیں ملا، سناؤں تجھے

آؤ اک ایسی بازی کھیلیں اب
جیت جاؤں یا ہار جاؤں تجھے

آخری حکم اب کرو صادر
بھولنا ہے کہ یاد آؤں تجھے

روٹھ جاتا ہے یہ جہاں سارا
میرے ابرک اگر مناؤں تجھے
 
Top