آنسوکوئی آنکھ سے چھلکا ہے کیا، تم کہو ۔۔۔۔ اصلاح طلب

آنسوکوئی آنکھ سے چَھلکا ہے کیا، تم کہو
پھول کوئی شاخ سے بچھڑا ہے کیا ، تم کہو
جھوٹ نے دنیا کو یوں قید میں ہے کر لیا
کوئی منظر اِس جگہ سچا ہے کیا ، تم کہو
مسئلے دنیا کے جتنے تھے، وہ سبھی حل ہوئے
موت کا بھی مسئلہ سلجھا ہے کیا ، تم کہو
دل میں نفرت اور زباں پر ترانےعشق کے
اُس نے فن کچھ ایسا بھی سیکھا ہے کیا، تم کہو
 

الف عین

لائبریرین
کئی باتیں کہنا چاہوں گا۔
1۔ ردیف کہیں بھی معنی خیز نہیں ہے۔
2۔ قافیے میں ہی حروف کا اسقاط اچھا نہیں لگتا۔ چھلکا، بچھڑا کو محض چھلک اور بچھڑ تقطیع کرنا غلط ہے۔
3۔ یہ افاعیل دو حصوں میں ہیں، درمیان میں کوما ہونا چاہیے۔ یعنی بات دونوں نصفوں میں مکمل ہو۔ یہاں تو لفظ بھی ٹوٹ گیا ہے۔
مسئلے دنیا کے جت۔۔۔ نے تھے، وہ سبھی حل ہوئے
یہ مصرع بحر سے خارج بھی ہو گیا ہے۔
 
Top