غزل : عشق میں تخت و تاج کیا کرتے

سعید سعدی

محفلین
عشق میں تخت و تاج کیا کرتے
اپنے دل کا علاج کیا کرتے

جب لکھی تھی شکست قسمت میں
جو نہ دیتے خراج کیا کرتے

میرے اس چاک پیرہن کے لیے
کچھ بٹن چند کاج کیا کرتے

گر بغاوت پہ ہم اتر آتے
پھر یہ رسم و رواج کیا کرتے

اس کا برہم مزاج کیا کہنے
ہم شگفتہ مزاج کیا کرتے

اس کی بستی میں بے وفائی کا
چل پڑا تھا رواج کیا کرتے

حسبِ معمول درمیان میں تھا
پھر یہ ظالم سماج کیا کرتے

کل ملاقات اس سے طے تھی مگر
یہ بتاؤ کہ آج کیا کرتے

کچھ نہ بولے کوئی گلہ نہ کیا
اس کی رکھنی تھی لاج کیا کرتے

اتنی مہلت نہ مل سکی سعدی
ہم ترے دل پہ راج کیا کرتے
 

شکیب

محفلین
کچھ دن سے ایک عزیز فیس بک میسنجر میں لگاتار اپنی "شاعری" بھیج رہے ہیں، اور میں مروت کے مارے کچھ کر نہیں پا رہا ہوں...
ایسے میں آپ کی یہ غزل... واہ!
دل کی گہرائیوں سے داد قبول فرمائیے...
 

سعید سعدی

محفلین
تہمد میں بٹن جب لگنے لگے جب دھوتی سے پتلون اگا
ہر پیڑ پر اک پہرا بیٹھا ہر کھیت میں اک قانون اگا
 
Top