اردو لکھنے پڑھنے والوں کی توقعات اور معیاری فونٹ کا حل طلب مسئلہ

عارف انجم

محفلین
اردولکھنے کیلئے درجن کے قریب نستعلیق اور کئی درجن نسخ فونٹس کی موجودگی میں شاید اس لڑی میں ’’حل طلب‘‘ کے الفاظ بہت سے دوستوں کو عجیب محسوس ہوں گے لیکن میں کچھ ہی دیر میں اس کی وضاحت کرتا ہوں۔ پہلے ذرا اس سارے معاملے کا سیاق و سباق واضح کر لوں۔

میں لگ بھگ 18 برس سے پاکستان میں اردو صحافت سے وابستہ ہوں۔ گو کہ میرا تعلق ادارتی شعبے سے ہے لیکن شروع سے ہی ویب پر اردو لکھنے پڑھنے کے معیاری(اس لڑی میں ہر جگہ لفظ معیاری انگریزی کے standard کے معنے میں استعمال ہوا ہے) طریقے میں مجھے دلچسپی رہی ہے۔ پاک ڈیٹا والوں کی ’’اردو 98‘‘ سے لے کر ، سن 2000 میں شہزاد عاشق علی کی جانب سے نستعلیق کریکٹر فونٹ بنانے کی کاوش اوراسی زمانے میں جنگ گروپ کی طرف سے کئی فائلوں پر مشتمل الرحمٰن نوری نستعلیق فونٹ ویب سائیٹ کے لیے استعمال کرنے کی کوششوں تک میں نے تقریباً ہر نستعلیق فونٹ کو پرکھا ہے۔رواں اور پچھلے عشرے میں سامنے آنے والے کئی نستعلیق فونٹ (جمیل ، فیض، فجر، علوی، پاک ، فجر، تاج، مہر، نوٹو، نفیس وغیرہ ) بھی میں نے آزمائے ہیں ۔ لیکن مجھے یہ کہنے دیں کہ ویب کے لیے ایک ’’معیاری‘‘ نستعلیق فونٹ کی ضرورت آج بھی محسوس ہوتی ہے اور یہ ضرورت محسوس ہونے کی سب سے بڑی وجہ عام قارئین ہیں۔

اس سلسلے میں دو واقعات پیش ہیں۔

کچھ عرصہ قبل ہم نے اپنی تازہ ترین خبروں کی ویب سائیٹ کو تصویری؍گرافک شکل کے بجائے ٹیکسٹ کی صورت میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن پندرہ دن میں ویب ٹریفک کئی ہزار گر گئی۔ جمیل اور دیگر فونٹس استعمال کرنے کے باوجود باقاعدہ پڑھنے والوں میں سے کئی لوگوں نے ای میل کے ذریعے بتایا کہ وہ پرانے انداز میں ویب سائیٹ چاہتے ہیں کیونکہ اس میں ’’لکھا ہوا بہتر نظر آتا تھا۔‘‘

دوسرا واقعہ۔ ہمارے ادارے میں ان پیج کی لائسنس شدہ کاپیاں استعمال ہوتی ہیں۔ 2016 میں مزید کچھ لائسنس استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس وقت ان پیج کا آخری ورژن 3.50 تھا جس میں نوری نستعلیق فونٹ شامل نہیں تھا۔ محض اس فونٹ کے شامل نہ ہونے کی وجہ سے ادارے نے نئے ورژن کے بجائے پرانے ورژن کے لائسنس خریدے۔ وجہ یہ تھی کہ نوری نستعلیق کے سوا نہ تو اردو کے پبلشرز کو اور نہ ہی اردو کے عام قارئین کو کوئی فونٹ قبول ہے۔

نوری نستعلیق پر اس اصرار کو شاید کچھ لوگ نامعقول کہیں لیکن میں عام قارئین کی بات کر رہا ہوں۔ نستعلیق کے الگ الگ انداز پسند کرنے والے یقیناً اچھا aesthetic sense رکھتے ہیں۔ لیکن عوام کیا قبول کرتے ہیں اس پر ہمارا اختیار نہیں ہوتا۔ یقیناًنئے رحجانات متعارف کرائے جا سکتے ہیں لیکن رحجانات بننے میں وقت لگتا ہے۔ بالخصوص پہلے سے موجود مضبوط رحجان کو توڑ کر نیا رحجان بنانے میں۔

محفل پر موجود کافی لوگ جانتے ہیں کہ کمپیوٹر پر نوری نستعلیق خط میں اردو لکھنے کی تاریخ لگ بھگ چار عشرے پرانی ہے۔ 1981 میں احمد مرزا جمیل اور مونو ٹائپ کےاشتراک سے جو نوری نستعلیق فونٹ بنا وہ 1988 کے لگ بھگ اخباری دنیا میں کافی حد تک استعمال ہونا شروع ہوگیا۔ 1990 کے عشرے میں تقریباً تمام اخبارات و جرائد میں یہی فونٹ استعمال ہو رہا تھا۔ کاتب اکا دکا رہ گئے تھے اور وہ بھی صرف سرخیاں لکھنے کی حد تک۔ چند برسوں میں وہ بھی نہ رہے۔ ان پیج کے آنے سے پہلے شاہکار نامی سافٹ وئیر کے ذریعے نوری نستعلیق میں لکھے متن کے کالم کی صورت میں ٹریسنگ پیپر پر پرنٹ نکال لیے جاتے تھے جن کی پیسٹنگ کی جاتی اور کاپی تیار ہوجاتی۔

سادہ لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ اردو پڑھنے والے پچھلے 30 برس سے صرف نوری نستعلیق فونٹ ہی دیکھ رہے ہیں۔ یہی ان کے لیے معیار بن چکا ہے۔

فونٹ یا ٹائپ فیس کے حوالے سے اردو پڑھنے والوں کی توقعات کو مختصراً یوں بیان کیا جا سکتاہے۔

1۔ فونٹ نوری نستعلیق ہونا چاہیے۔
2۔ کرننگ ان پیج کی کرننگ جیسی ہونی چاہیئے (ویب سائیٹ کے ہمارے قارئین کی تصویری ورژن میں "لکھا ہوا بہتر نظر آتا ہے" سے یہی مراد تھی۔
3۔ اس فونٹ میں لکھنے پڑھنے کی رفتار تیز ہو۔ (پیج رینڈرنگ کی تیز رفتاری)


1. نوری نستعلیق فونٹ بنیادی طورپر دہلوی نستعلیق کے خاندان کا حصہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ نوری نستعلیق کے متبادل کے طور پر اردو کے قارئین دہلوی نستعلیق کا کوئی بھی خط لاہوری نستعلیق کی بہ نسبت زیادہ جلدی قبول کرلیں لیکن مجھے خدشہ ہے کہ ان کی ترجیح نوری نستعلیق سے انتہائی قریب فونٹ ہی رہے گا۔ (واضح رہے کہ یہاں میرا مقصد لاہوری نستعلیق پر تنقید نہیں ہے۔ پاکستان کے اخبارات میں بڑے عرصے تک خبروں کی سرخیاں لاہوری نستعلیق میں ہی لکھی جاتی رہی ہیں لیکن متن کے معاملے میں نوری نستعلیق معیار بن گیا۔)

2۔ یوں تو جمیل نوری نستعلیق کی کرننگ بالخصوص فائر فاکس برائوزر پر بہت ہی اچھی ہے اور ذاتی طور پر میرے لیے قابل قبول بھی لیکن ان پیج جیسی کرننگ پر عام قارئین کا اصرار محض جانے پہچانے تجربے (familiar experience ) کی بنیاد پر ہے۔ وہ اسے ایسے ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ خواہ کسی دوسری کرننگ میں readability زیادہ بہتر ہی کیوں نہ ہو۔

3 ۔ فونٹ کی رفتار کے حوالے سے میں کچھ تجربات بیان کرنا چاہوں گا۔ پچھلے عشرے میں جب نفیس نستعلیق بہت آسانی سے دستیاب تھا اسے ویب کے لیے استعمال نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بنی کہ ویب پیجز بہت دیر سے لوڈ ہوتے تھے۔ ایم ایس ورڈ میں بھی یہ بڑی فائلوں میں کمپیوٹر کو سست کر دیتا تھا۔ لیگچر بیسڈ فونٹس نے رفتار کا یہ مسئلہ یقیناً حل کر دیا ہے لیکن یہ فونٹس آج بھی ہر اردو پڑھنے والے کے کمپیوٹر پر دستیاب نہیں۔ دوسری طرف اردو کی ویب سائیٹوں میں فونٹ ایمبیڈ کرنے کا چلن عام ہوگیا ہے۔ خواہ وہ بی بی سی اردو ہو یا حال ہی میں سامنے آنے والی مکالمہ اور دلیل جیسی ویب سائیٹس۔

(نوٹ: مذکورہ بالا آرا کئی برسوں سے کراچی میں اردو اخبارات کے شبعہ گرافکس و پیج میکنگ کے افراد، اردو کے مختلف ویب ڈیولپرز سے بات چیت اور ان ویب ڈیولپرز کو ملنے والے قارئین کے فیڈ بیک پر مبنی ہیں۔ مجموعی طور پر 100 سے زائد افراد کا نقطہ نظر اس میں شامل ہے۔)

اس صورتحال میں کہا جاسکتا ہے کہ اردو ویب سائیٹس کے لیے ایک ایسا فونٹ درکار ہے جو نوری نستعلیق یا اس سے انتہائی قریب ہو۔ اس میں built in بہت اچھی کرننگ ہو اور اس کی رفتار بھی تیز ہو۔ نیز فائل سائز اتنا کم ہو کہ اسے ایمبیڈ یا ڈائون لوڈ کے لے بآسانی دستیاب کیا جا سکے۔

مجھے سید منظر کا تیار کردہ علی نستعلیق اس ہدف کے بہت قریب لگا۔ گو کہ کرننگ میں بہتری ابھی درکار ہے۔ (یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ سید منظر کے ساتھ جو عارف انجم کام کر رہے ہیں وہ یقیناً میں نہیں ہوں۔ میرا تعلق کراچی سے ہے جبکہ وہ غالباً ممبئی کے قریب کسی علاقے سے ہیں) لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیا وہ اسے عام دستیاب کریں گے؟ شاید نہیں۔

دوسرا اور شاید نسبتاً بہتر حل یہ ہے کہ جمیل نوری نستعلیق کا ہی کریکٹر بیسڈ ایسا ورژن بنایا جائے جس میں یہ ساری خوبیاں موجودہوں۔ یہاں پھر کاپی رائیٹ کا مسئلہ آڑے آجاتا ہے۔

شاید اس کے علاوہ بھی کچھ حل ہو۔ لیکن اس مضمون کا مقصد مسئلے کو بیان کرنا ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ اردو قارئین نوری نستعلیق یا اس کے قریب تر، ان پیج جیسی کرننگ والا ایک تیز رفتار فونٹ چاہتے ہیں۔
 

عارف انجم

محفلین
Perhaps this is not as impossible as it seems. Syed Manzar is already on it; besides there is no harm in underlining a benchmark that has always been there..
 

نبیل

تکنیکی معاون
باقی مضمون تو وقت ملنے پر ہی پڑھوں گا، فی الحال تو عارف انجم کو باز خوش آمدید کہنا چاہتا ہوں۔ :)
 

سید ذیشان

محفلین
کافی لمبا چوڑا تبصرہ لکھا تھا، جو ڈیٹابیس کے مسئلے کی وجہ سے غائب ہو گیا۔ بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ:

1- جمیل نوری نستعلیق 3 میں خاطرخواہ حد تک کرننگ موجود ہے۔ لیکن اس کا سائز بھی بڑا ہے تو فی الحال ویب پر استعمال (ایمبیڈ کرنا) مشکل ہے۔
2- دوسرا مسئلہ اوپن ٹائپ فارمیٹ میں رہ کر کیریکٹر بیسڈ فونٹ میں کرننگ کا مسئلہ حل کرنا ہے، جو کہ اتنا سیدھا مسئلہ نہیں ہے۔ تو کوئی ایک آدھ آدمی اس کو بہ آسانی حل نہیں کر سکتا۔ اس کے لئے ایک ٹیم کی ضرورت ہے۔
3- ایک سوال بھی ہے: کہ جنگ گروپ یا باقی اخباری اور میڈیا گروپ، جن کا کام ہی اردو میں لکھنا پڑھنا ہے، ٹی وی پر ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے، ایک جگاڑی فونٹ استعمال کر رہے ہیں۔ کیا آپ ایسا نہیں کر سکتے کہ ایک ریسرچ گروپ تشکیل دیں جو اس پر اس ریسرچ کرے اور ایک کیریکٹر بیسڈ فونٹ بنائے جس میں کرننگ بھی موجود ہو؟
 
آخری تدوین:

متلاشی

محفلین
اردولکھنے کیلئے درجن کے قریب نستعلیق اور کئی درجن نسخ فونٹس کی موجودگی میں شاید اس لڑی میں ’’حل طلب‘‘ کے الفاظ بہت سے دوستوں کو عجیب محسوس ہوں گے لیکن میں کچھ ہی دیر میں اس کی وضاحت کرتا ہوں۔ پہلے ذرا اس سارے معاملے کا سیاق و سباق واضح کر لوں۔

میں لگ بھگ 18 برس سے پاکستان میں اردو صحافت سے وابستہ ہوں۔ گو کہ میرا تعلق ادارتی شعبے سے ہے لیکن شروع سے ہی ویب پر اردو لکھنے پڑھنے کے معیاری(اس لڑی میں ہر جگہ لفظ معیاری انگریزی کے standard کے معنے میں استعمال ہوا ہے) طریقے میں مجھے دلچسپی رہی ہے۔ پاک ڈیٹا والوں کی ’’اردو 98‘‘ سے لے کر ، سن 2000 میں شہزاد عاشق علی کی جانب سے نستعلیق کریکٹر فونٹ بنانے کی کاوش اوراسی زمانے میں جنگ گروپ کی طرف سے کئی فائلوں پر مشتمل الرحمٰن نوری نستعلیق فونٹ ویب سائیٹ کے لیے استعمال کرنے کی کوششوں تک میں نے تقریباً ہر نستعلیق فونٹ کو پرکھا ہے۔رواں اور پچھلے عشرے میں سامنے آنے والے کئی نستعلیق فونٹ (جمیل ، فیض، فجر، علوی، پاک ، فجر، تاج، مہر، نوٹو، نفیس وغیرہ ) بھی میں نے آزمائے ہیں ۔ لیکن مجھے یہ کہنے دیں کہ ویب کے لیے ایک ’’معیاری‘‘ نستعلیق فونٹ کی ضرورت آج بھی محسوس ہوتی ہے اور یہ ضرورت محسوس ہونے کی سب سے بڑی وجہ عام قارئین ہیں۔

اس سلسلے میں دو واقعات پیش ہیں۔

کچھ عرصہ قبل ہم نے اپنی تازہ ترین خبروں کی ویب سائیٹ کو تصویری؍گرافک شکل کے بجائے ٹیکسٹ کی صورت میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن پندرہ دن میں ویب ٹریفک کئی ہزار گر گئی۔ جمیل اور دیگر فونٹس استعمال کرنے کے باوجود باقاعدہ پڑھنے والوں میں سے کئی لوگوں نے ای میل کے ذریعے بتایا کہ وہ پرانے انداز میں ویب سائیٹ چاہتے ہیں کیونکہ اس میں ’’لکھا ہوا بہتر نظر آتا تھا۔‘‘

دوسرا واقعہ۔ ہمارے ادارے میں ان پیج کی لائسنس شدہ کاپیاں استعمال ہوتی ہیں۔ 2016 میں مزید کچھ لائسنس استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس وقت ان پیج کا آخری ورژن 3.50 تھا جس میں نوری نستعلیق فونٹ شامل نہیں تھا۔ محض اس فونٹ کے شامل نہ ہونے کی وجہ سے ادارے نے نئے ورژن کے بجائے پرانے ورژن کے لائسنس خریدے۔ وجہ یہ تھی کہ نوری نستعلیق کے سوا نہ تو اردو کے پبلشرز کو اور نہ ہی اردو کے عام قارئین کو کوئی فونٹ قبول ہے۔

نوری نستعلیق پر اس اصرار کو شاید کچھ لوگ نامعقول کہیں لیکن میں عام قارئین کی بات کر رہا ہوں۔ نستعلیق کے الگ الگ انداز پسند کرنے والے یقیناً اچھا aesthetic sense رکھتے ہیں۔ لیکن عوام کیا قبول کرتے ہیں اس پر ہمارا اختیار نہیں ہوتا۔ یقیناًنئے رحجانات متعارف کرائے جا سکتے ہیں لیکن رحجانات بننے میں وقت لگتا ہے۔ بالخصوص پہلے سے موجود مضبوط رحجان کو توڑ کر نیا رحجان بنانے میں۔

محفل پر موجود کافی لوگ جانتے ہیں کہ کمپیوٹر پر نوری نستعلیق خط میں اردو لکھنے کی تاریخ لگ بھگ چار عشرے پرانی ہے۔ 1981 میں احمد مرزا جمیل اور مونو ٹائپ کےاشتراک سے جو نوری نستعلیق فونٹ بنا وہ 1988 کے لگ بھگ اخباری دنیا میں کافی حد تک استعمال ہونا شروع ہوگیا۔ 1990 کے عشرے میں تقریباً تمام اخبارات و جرائد میں یہی فونٹ استعمال ہو رہا تھا۔ کاتب اکا دکا رہ گئے تھے اور وہ بھی صرف سرخیاں لکھنے کی حد تک۔ چند برسوں میں وہ بھی نہ رہے۔ ان پیج کے آنے سے پہلے شاہکار نامی سافٹ وئیر کے ذریعے نوری نستعلیق میں لکھے متن کے کالم کی صورت میں ٹریسنگ پیپر پر پرنٹ نکال لیے جاتے تھے جن کی پیسٹنگ کی جاتی اور کاپی تیار ہوجاتی۔

سادہ لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ اردو پڑھنے والے پچھلے 30 برس سے صرف نوری نستعلیق فونٹ ہی دیکھ رہے ہیں۔ یہی ان کے لیے معیار بن چکا ہے۔

فونٹ یا ٹائپ فیس کے حوالے سے اردو پڑھنے والوں کی توقعات کو مختصراً یوں بیان کیا جا سکتاہے۔

1۔ فونٹ نوری نستعلیق ہونا چاہیے۔
2۔ کرننگ ان پیج کی کرننگ جیسی ہونی چاہیئے (ویب سائیٹ کے ہمارے قارئین کی تصویری ورژن میں "لکھا ہوا بہتر نظر آتا ہے" سے یہی مراد تھی۔
3۔ اس فونٹ میں لکھنے پڑھنے کی رفتار تیز ہو۔ (پیج رینڈرنگ کی تیز رفتاری)


1. نوری نستعلیق فونٹ بنیادی طورپر دہلوی نستعلیق کے خاندان کا حصہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ نوری نستعلیق کے متبادل کے طور پر اردو کے قارئین دہلوی نستعلیق کا کوئی بھی خط لاہوری نستعلیق کی بہ نسبت زیادہ جلدی قبول کرلیں لیکن مجھے خدشہ ہے کہ ان کی ترجیح نوری نستعلیق سے انتہائی قریب فونٹ ہی رہے گا۔ (واضح رہے کہ یہاں میرا مقصد لاہوری نستعلیق پر تنقید نہیں ہے۔ پاکستان کے اخبارات میں بڑے عرصے تک خبروں کی سرخیاں لاہوری نستعلیق میں ہی لکھی جاتی رہی ہیں لیکن متن کے معاملے میں نوری نستعلیق معیار بن گیا۔)

2۔ یوں تو جمیل نوری نستعلیق کی کرننگ بالخصوص فائر فاکس برائوزر پر بہت ہی اچھی ہے اور ذاتی طور پر میرے لیے قابل قبول بھی لیکن ان پیج جیسی کرننگ پر عام قارئین کا اصرار محض جانے پہچانے تجربے (familiar experience ) کی بنیاد پر ہے۔ وہ اسے ایسے ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ خواہ کسی دوسری کرننگ میں readability زیادہ بہتر ہی کیوں نہ ہو۔

3 ۔ فونٹ کی رفتار کے حوالے سے میں کچھ تجربات بیان کرنا چاہوں گا۔ پچھلے عشرے میں جب نفیس نستعلیق بہت آسانی سے دستیاب تھا اسے ویب کے لیے استعمال نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بنی کہ ویب پیجز بہت دیر سے لوڈ ہوتے تھے۔ ایم ایس ورڈ میں بھی یہ بڑی فائلوں میں کمپیوٹر کو سست کر دیتا تھا۔ لیگچر بیسڈ فونٹس نے رفتار کا یہ مسئلہ یقیناً حل کر دیا ہے لیکن یہ فونٹس آج بھی ہر اردو پڑھنے والے کے کمپیوٹر پر دستیاب نہیں۔ دوسری طرف اردو کی ویب سائیٹوں میں فونٹ ایمبیڈ کرنے کا چلن عام ہوگیا ہے۔ خواہ وہ بی بی سی اردو ہو یا حال ہی میں سامنے آنے والی مکالمہ اور دلیل جیسی ویب سائیٹس۔

(نوٹ: مذکورہ بالا آرا کئی برسوں سے کراچی میں اردو اخبارات کے شبعہ گرافکس و پیج میکنگ کے افراد، اردو کے مختلف ویب ڈیولپرز سے بات چیت اور ان ویب ڈیولپرز کو ملنے والے قارئین کے فیڈ بیک پر مبنی ہیں۔ مجموعی طور پر 100 سے زائد افراد کا نقطہ نظر اس میں شامل ہے۔)

اس صورتحال میں کہا جاسکتا ہے کہ اردو ویب سائیٹس کے لیے ایک ایسا فونٹ درکار ہے جو نوری نستعلیق یا اس سے انتہائی قریب ہو۔ اس میں built in بہت اچھی کرننگ ہو اور اس کی رفتار بھی تیز ہو۔ نیز فائل سائز اتنا کم ہو کہ اسے ایمبیڈ یا ڈائون لوڈ کے لے بآسانی دستیاب کیا جا سکے۔

مجھے سید منظر کا تیار کردہ علی نستعلیق اس ہدف کے بہت قریب لگا۔ گو کہ کرننگ میں بہتری ابھی درکار ہے۔ (یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ سید منظر کے ساتھ جو عارف انجم کام کر رہے ہیں وہ یقیناً میں نہیں ہوں۔ میرا تعلق کراچی سے ہے جبکہ وہ غالباً ممبئی کے قریب کسی علاقے سے ہیں) لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیا وہ اسے عام دستیاب کریں گے؟ شاید نہیں۔

دوسرا اور شاید نسبتاً بہتر حل یہ ہے کہ جمیل نوری نستعلیق کا ہی کریکٹر بیسڈ ایسا ورژن بنایا جائے جس میں یہ ساری خوبیاں موجودہوں۔ یہاں پھر کاپی رائیٹ کا مسئلہ آڑے آجاتا ہے۔

شاید اس کے علاوہ بھی کچھ حل ہو۔ لیکن اس مضمون کا مقصد مسئلے کو بیان کرنا ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ اردو قارئین نوری نستعلیق یا اس کے قریب تر، ان پیج جیسی کرننگ والا ایک تیز رفتار فونٹ چاہتے ہیں۔
فیس بک پر آپ کےلیے پیغام چھوڑا ہے چیک کر لیجیے گا۔
 

عارف انجم

محفلین
3- ایک سوال بھی ہے: کہ جنگ گروپ یا باقی اخباری اور میڈیا گروپ، جن کا کام ہی اردو میں لکھنا پڑھنا ہے، ٹی وی پر ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے، ایک جگاڑی فونٹ استعمال کر رہے ہیں۔ کیا آپ ایسا نہیں کر سکتے کہ ایک ریسرچ گروپ تشکیل دیں جو اس پر اس ریسرچ کرے اور ایک کیریکٹر بیسڈ فونٹ بنائے جس میں کرننگ بھی موجود ہو؟

میرے خیال میں اردو کے(اس محفل سے منسلک) فونٹ ڈیولپرز کی صورت میں ایک ریسرچ گروپ پہلے ہی موجود ہے۔ شاید وہ منزل کے بہت قریب بھی ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
:):)
:)
اگر میری ذاتی پسند یا نا پسند کا معاملہ ہوتا تو شاید ایسا ہی کیا جاتا۔ میں نے مجموعی رحجان کی بات کی ہے۔
مجموعی رجحان مارکیٹینگ سے بنتا ہے فی الحال مہر نستعلیق والوں کو مارکیٹینگ کا خیال نہیں آیا ورنہ بہترین فونٹ یہی ہے۔
سائز میں بھی کم ، رینڈرنگ رفتار بھی اعلی اور خوبصورتی بھی کمال۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
میرے خیال میں اردو کے(اس محفل سے منسلک) فونٹ ڈیولپرز کی صورت میں ایک ریسرچ گروپ پہلے ہی موجود ہے۔ شاید وہ منزل کے بہت قریب بھی ہیں۔

عارف انجم، محفل فورم پر کوئی باقاعدہ ریسرچ گروپ موجود نہیں ہے۔ کچھ لوگ ذاتی دلچسپی لے کر کچھ کام کرتے رہے ہیں لیکن اس میں کوئی باقاعدگی نہیں ہے اور مستقبل کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی بھی نہیں ہے۔ آپ نے کیریکٹر بیسڈ نوری نستعلیق فونٹ کے حوالے سے کچھ مشاہدات پیش کیے ہیں۔ مجھے علم نہیں ہے کہ پبلشنگ سے باہر فونٹ میں کرننگ کی کتنی افادیت ہے۔ دوسرے ذیشان کی بات میں بھی وزن ہے کہ قومی سطح پر شائع ہونے والے اردو اخبارات اور میڈیا ہاؤسز آخر اس سمت میں ریسرچ کو اگر سپانسر کریں تو یقینا بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اب تک اردو ویب پر اس سمت میں جتنا کام ہوا ہے وہ ذاتی سطح پر کیا گیا ہے۔ جتنے اردو اخبارات کی ویب سائٹس پر نوری نستعلیق فونٹ استعمال ہو رہا ہے وہ اردو ویب پر کی گئی ڈیویلپمنٹ کا ہی ثمر ہے۔ کچھ اور نہ سہی ان اشاعتی اداروں کی جانب سے کم از کم اس کا اعتراف ضرور کیا جانا چاہیے تھا۔
 

متلاشی

محفلین
جتنے اردو اخبارات کی ویب سائٹس پر نوری نستعلیق فونٹ استعمال ہو رہا ہے وہ اردو ویب پر کی گئی ڈیویلپمنٹ کا ہی ثمر ہے۔ کچھ اور نہ سہی ان اشاعتی اداروں کی جانب سے کم از کم اس کا اعتراف ضرور کیا جانا چاہیے تھا۔
اردو ویب نے خود ان سب ڈویلپرز کو ان کی اس بے لوث خدمت کا صلہ معطلی کی صورت میں دیا ہے۔
 
اردو ویب نے خود ان سب ڈویلپرز کو ان کی اس بے لوث خدمت کا صلہ معطلی کی صورت میں دیا ہے۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ کر لیں کہ معطلی کی وجہ فونٹ ڈویلپمنٹ نہیں ہے۔
اور نہ ہی فونٹ ڈویلپمنٹ کی وجہ سے باقی رویوں سے چھوٹ دی جا سکتی ہے۔
جزاک اللہ
 

عارف انجم

محفلین
عارف انجم، محفل فورم پر کوئی باقاعدہ ریسرچ گروپ موجود نہیں ہے۔ کچھ لوگ ذاتی دلچسپی لے کر کچھ کام کرتے رہے ہیں لیکن اس میں کوئی باقاعدگی نہیں ہے اور مستقبل کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی بھی نہیں ہے۔ آپ نے کیریکٹر بیسڈ نوری نستعلیق فونٹ کے حوالے سے کچھ مشاہدات پیش کیے ہیں۔ مجھے علم نہیں ہے کہ پبلشنگ سے باہر فونٹ میں کرننگ کی کتنی افادیت ہے۔ دوسرے ذیشان کی بات میں بھی وزن ہے کہ قومی سطح پر شائع ہونے والے اردو اخبارات اور میڈیا ہاؤسز آخر اس سمت میں ریسرچ کو اگر سپانسر کریں تو یقینا بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اب تک اردو ویب پر اس سمت میں جتنا کام ہوا ہے وہ ذاتی سطح پر کیا گیا ہے۔ جتنے اردو اخبارات کی ویب سائٹس پر نوری نستعلیق فونٹ استعمال ہو رہا ہے وہ اردو ویب پر کی گئی ڈیویلپمنٹ کا ہی ثمر ہے۔ کچھ اور نہ سہی ان اشاعتی اداروں کی جانب سے کم از کم اس کا اعتراف ضرور کیا جانا چاہیے تھا۔

آپ کی یہ بات درست ہے کہ محفل پر بعض کوششوں مربوط نہیں لیکن فونٹ پر سب سے اچھے ریسرچرز یہی ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ متعلقہ شعبے کے لوگ ہیں۔ اردو اخبارات و جرائد کو اسپانسر کرنا چاہیے۔ نہ کرنے کی وجہ اردو اخبارات (اور ٹی وی چینلز) کے مالکان کا مائنڈ سیٹ ہے۔ وہ کہیں تو لاکھوں روپے خرچ کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں اور کہیں چند ہزار دینے کو بھی راضی نہیں ہوتے اس پر میں جلد ہی لکھوں گا۔ لیکن راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ آخر کو یہی اخباری مالکان ان پیج جیسا سافٹ ویئر بھی تو خرید چکے ہیں۔ جبکہ انہی میں سے جو ٹی وی چینلز کے مالکان ہیں جو این ایم ایس، آکٹوپس جیسے کنٹنٹ منیجمنٹ سسٹمز پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ سالانہ فیسیں دی جاتی ہیں۔ راستہ ضرور نکلے گا۔
 

زیک

مسافر
کچھ عرصہ قبل ہم نے اپنی تازہ ترین خبروں کی ویب سائیٹ کو تصویری؍گرافک شکل کے بجائے ٹیکسٹ کی صورت میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن پندرہ دن میں ویب ٹریفک کئی ہزار گر گئی۔ جمیل اور دیگر فونٹس استعمال کرنے کے باوجود باقاعدہ پڑھنے والوں میں سے کئی لوگوں نے ای میل کے ذریعے بتایا کہ وہ پرانے انداز میں ویب سائیٹ چاہتے ہیں کیونکہ اس میں ’’لکھا ہوا بہتر نظر آتا تھا۔‘‘
یہ کافی غمناک بات ہے۔

اکثر زبانوں نے پرنٹ اور ویب کے لئے سکرپٹ میں تبدیلیاں کی ہیں۔ کتابت اور پبلشنگ کے لیول کا فونٹ ویب کے لئے مشکل ہے
 

عارف انجم

محفلین
اردو کے معاملے میں بھی کئی تجاویز سامنے آئی تھیں۔ 90کے عشرے میں میرے استاد اور اخباری دنیا کے کامیاب ترین ایڈیٹرز میں سے ایک محترم انور سن رائے نے رومن (لیٹن) اسکرپٹ میں اردو ویب سائیٹس کیلئے خاصے دلائل دیئے لیکن اس تجویز کو کوئی پذیرائی نہیں ملی۔ اردو ویب سائیٹس شروع سے تصویری ورژن میں آئیں اور پھر یہی طریقہ رائج ہوگیا۔ اب فونٹ ایمبیڈ کرنے کے نئے رحجان سے ایک نیا مسئلہ پیدا ہوا رہا ہے۔ لوگوں کو فونٹ ڈائون لوڈ کرنے پر آمادہ کرنے کے بجائے انہیں ایک بار پھر غلط توقعات کا عادی بنایا جا رہا ہے۔ فونٹ ایمبیڈ کی ایک وجہ موبائل فون ڈیوائسز بھی ہیں۔ پاکستان میں اس وقت اکثریت نہیں تو قارئین کی بڑی تعدادموبائل فونز سے انٹرنیٹ استعمال کر رہی ہے۔
 

متلاشی

محفلین
اردو کے معاملے میں بھی کئی تجاویز سامنے آئی تھیں۔ 90کے عشرے میں میرے استاد اور اخباری دنیا کے کامیاب ترین ایڈیٹرز میں سے ایک محترم انور سن رائے نے رومن (لیٹن) اسکرپٹ میں اردو ویب سائیٹس کیلئے خاصے دلائل دیئے لیکن اس تجویز کو کوئی پذیرائی نہیں ملی۔ اردو ویب سائیٹس شروع سے تصویری ورژن میں آئیں اور پھر یہی طریقہ رائج ہوگیا۔ اب فونٹ ایمبیڈ کرنے کے نئے رحجان سے ایک نیا مسئلہ پیدا ہوا رہا ہے۔ لوگوں کو فونٹ ڈائون لوڈ کرنے پر آمادہ کرنے کے بجائے انہیں ایک بار پھر غلط توقعات کا عادی بنایا جا رہا ہے۔ فونٹ ایمبیڈ کی ایک وجہ موبائل فون ڈیوائسز بھی ہیں۔ پاکستان میں اس وقت اکثریت نہیں تو قارئین کی بڑی تعدادموبائل فونز سے انٹرنیٹ استعمال کر رہی ہے۔
فونٹ امبیڈنگ کے مسائل مجھے سمجھ نہیں آئے۔ تھوڑی وضاحت کر دیں
 

سید ذیشان

محفلین
یہ کافی غمناک بات ہے۔

اکثر زبانوں نے پرنٹ اور ویب کے لئے سکرپٹ میں تبدیلیاں کی ہیں۔ کتابت اور پبلشنگ کے لیول کا فونٹ ویب کے لئے مشکل ہے
ویب فونٹ کی حد تک آپ کی بات درست ہے۔ اس کے لئے مہر فونٹ یا نوٹو فونٹ کافی بہتر رزلٹ دیتے ہیں لیکن کبھی آپ نے ٹی وی کا فونٹ دیکھا ہے۔ اس میں ایک لگیچر مشرق میں ہوتا ہے تو دوسرا مغرب میں۔ یہ دو دہائی پرانا فونٹ استعمال کر رہے ہیں اور اسی پر مطمئن نظر آتے ہیں۔
سیدھی سی بات ہے کہ جتنا گڑ ڈالو گے اتنا میٹھا ہوگا۔ جتنے بھی اردو محفل سے منسلک ڈیولپر ہیں، شائد متلاشی بھائی کے علاوہ، سب فل ٹائم جاب کرتے ہیں اور فونٹ پر شوقیہ کام کرتے ہیں۔ ایسے میں ان سے اس قسم کی توقعات رکھنا، بغیر ایک دھیلا خرچ کئے، بہت ہی عجیب لگتا ہے۔
 
Top