سلیم احمد سلیم احمد کے قطعات

قطعات
اسی کے گرد گردش کر رہا ہوں
جو طے ہوتا نہیں وہ فاصلہ ہوں
مرا اس سے تعلق دائمی ہے
وہ مرکز ہے میں اس کا دائرہ ہوں
--------------------
مکاں کے دائروں کا ناپتا ہے
کراں سے تا کراں پھیلا ہوا ہے
یہ نقطہ جس کی ہیں شکلیں ہزاروں
خود اپنی وسعتوں میں چھپ گیا ہے
--------------------
کوئی تازہ تمنا چاہتا ہوں
مرا دل ایک غم سے تھک گیا ہے
میں اس کو شاخ پر رہنے تو دیتا
مگر یہ پھل زیادہ پک گیا ہے
--------------------
ستارے آسماں سے گر رہے ہیں
یقیناََ اک قیامت بھی اُٹھے گی
یہ دنیا جو بظاہر مر رہی ہے
یہ خاکستر سے اپنے جی اٹھے گی
--------------------
مجھے خود میری ہستی کی خبر دی
مسرت میرے جان و دل میں بھر دی
وہ اخفائے محبت چاہتا تھا
دیا بوسہ لبوں پر مُہر کر دی
--------------------
شعاعیں جذب اس میں ہو رہی ہیں
یہ ذرّہ جو ابھی کجلا رہا ہے
کوئی اس کی توانائی تو دیکھے
یہ سورج کو زمیں پر لا رہا ہے
--------------------
بگولا بن کے ہر سو پھر رہا ہوں
اشارے پر ہوا کے ناچتا ہوں
حقیقت میری ہستی کی ہے اتنی
خود اپنی گرد سے پیدا ہوا ہوں
--------------------
بات کی ہے مختلف اوقات میں
خامشی بڑھتی گئی ہے ذات میں
خود بخود چھپتا گیا ہوں اس قدر
جس قدر ظاہر ہوا ہوں بات میں
--------------------
کسی ذرے کو تابندہ کیا ہے
کسی لمحے کو پائبدہ کیا ہے
فنا سے صرف وہ چیزیں ہیں محفوظ
محبت نے جنھیں زندہ کیا ہے
--------------------
مسلسل دید بھی شاید کبھی ہو
ابھی تو اس کے ڈر سے کانپتا ہوں
مرا دل جیسے ہمسائے کا گھر ہے
کبھی روزن سے خود کو جھانکتا ہوں
--------------------
جو ذرّہ ہوں تو تا بندہ کریں گے
جو لمحہ ہوں تو پایندہ کریں گے
نہ جانے دور ہے کتنی محبت
نہ جانے کب مجھے زندہ کریں گے
--------------------
طبعیت صبر کی خوگر ہوئی تھی
غموں کا مرحلہ سر کر لیا تھا
یہ اس میں ڈال دیں کس نے دراڑیں
کہ میں نے دل کو پتھر کر لیا تھا
سلیم احمد
 
آخری تدوین:
قطعات
رجسٹر میں ہوں اس کی مدِ فاضل
لکھا ہے پھر قلمزو کر دیا ہے
میں تخمہ سے اس کے بڑھ گیا تھا
سو فطرت نے مجھے رد کر دیا
--------------------
ہم اپنی خود کلامی میں ہیں مصروف
ہر اک کچھ اپنی اپنی کہہ رہا ہے
جزیرے ہیں کہ جن کے درمیاں میں
زمانے کا سمندر بہہ رہا ہے
--------------------
وہاں بھی زندگی کے گُل کھلیں گے
وہاں بھی شاد و ناشاد ہوں گے
ازل کے دن سے جو سونے پڑے تھے
وہ ویرانے بھی اب آباد ہوں گے
--------------------
خلا آباد ہو گی زندگی سے
فضا جذبات سے معمور ہو گی
ابھی ہونے کو ہیں سب فاصلے طے
یہ منزل اور تھوڑی دُور ہو گی
--------------------
جلا وطنی کے دن پورے ہوئے ہیں
حیاتِ تازہ پانے جا رہا ہوں
کیا ہے طور کو زندہ کسی نے
میں پھر سے آگ لانے جا رہا ہوں
--------------------
نہ جانے کتنے جلوے تھے سرِ راہ
نہیں دیکھا کبھی نظریں اٹھا کے
محبت پارسائی بن گئی ہے
اسے تیرے لیے رکھا بچا ہے
--------------------
نہ جانے دیکھتی کیا ہیں یہ آنکھیں
بھروسا کیوں نہیں ہے زندگی پر
ملی ہے کون سی ان کو بصیرت
یہ کیوں رونے لگی ہیں ہر خوشی پر
--------------------
میں دنیا کو بدلنا چاہتا ہوں
مجھے دنیا بدلنا چاہتی ہے
مشیّت نے کشاکش کی ہے پیدا
وہ اپنی چال چلنا چاہتی ہے
--------------------
منتشر تھی مری کتابِ حیات
اب فراہم ہوا ہے شیرازہ
ہو خدا سے کہ کائنات سے ہو
آدمی نام ہے تعلق کا
--------------------
میرا ماضی مرے پیچھے نہ آئے
مجھے یادوں کی اب فرصت نہیں ہے
نئے خوابوں میں اُلجھایا گیا ہوں
رہی تعبیر سو عُجلت نہیں ہے
--------------------
تعلق پر مدارِ زندگی تھا
نہ جانے مر گیا یا سو گیا ہے
جو ہر شے اپنی جانب کھینچتا تھا
وہ مقناطیس اب گم ہو گیا ہے
--------------------
نہیں کھلتا کہ میرا جہل کیا ہے
کہاں تک آگہی کا سلسلا ہے
میں جس کے درمیاں ہوں زندگی میں
وہ میری روشنی کا دائرا ہے
--------------------
سلیم احمد
 

ابن عادل

محفلین
سلیم احمد نے کسی سے کہا کہ'' میری شاعری میری نثر کے مقابلے میں بچہ ہے ۔ لیکن ہے ہاتھی کا بچہ ''۔ مجھے ان کا دیوان نہیں مل پایا ، آپ اگر مہیا کردیں تو احسان ہوگا ۔
 
سلیم احمد نے کسی سے کہا کہ'' میری شاعری میری نثر کے مقابلے میں بچہ ہے ۔ لیکن ہے ہاتھی کا بچہ ''۔ مجھے ان کا دیوان نہیں مل پایا ، آپ اگر مہیا کردیں تو احسان ہوگا ۔
کلیاتِ سلیم احمد
ناشر رنگِ ادب پبلی کیشنز کراچی
فون نمبر03362085325
فون نمبر 03350253706
پتہ کیجیے ان شاء اللہ مل جائے گی
 
قطعات
اس تعلق کی ابتدا کیا ہے
جذبہِ دل کی انتہا کیا ہے
عمر آدھی گنوا کے سوچتا ہوں
عشق کیا ہے مرا ، وفا کیا ہے
--------------------
ایک گُم کردہ راہ اور سہی
اور ہوگا تباہ اور سہی
ابنِ آدم جہانِ نو کے لیے
ایک تازہ گناہ اور سہی
--------------------
اُسے جب اس کی فطرت نے پکارا
فریضے اور ہی اس نے سنبھالے
وفا کیا سنگریزوں سے نبھاتا
وہ جس نے آنچلوں میں لال پالے
--------------------
وفا اک انفرادی مسئلہ ہے
صداقت کی یہی ہے ترجمانی
وفا سے مسئلہ اس کا بڑا ہے
کرے اک نس کی جو پاسبانی
--------------------
وہ مجھ کو چھوڑ بیٹھا آخرِ کار
سبب اس کا نہیں ہے بے وفائی
وفا تو اس کی گھٹی میں پڑی ہے
نہیں مجھ سے زمانے نے نبھائی
--------------------
آخری درد بھی ہوا رُخصت
آج ویراں ہوا ہے خانہِء جاں
سارے ہنگامے لے کے ساتھ اپنے
گھر میں آ کر چلا گیا مہماں
--------------------
بہت تیزی سے گزری جا رہی ہے
یہ سانسیں زندگی ہیں رائیگاں کی
اگر پھر ہو ترے ملنے کا امکاں
میں باگیں کھینچ لوں عمر رواں کی
--------------------
دل میں تھی کسی کی طلب یاد نہیں
حال جو کل تھا وہ اب یاد نہیں
گریہِء شب ہیں آنکھیں نم ناک
اور رونے کا سبب یاد نہیں
--------------------
روح میں ہوتی ہے سرگوشی سی
آہ وہ لہجہءِ مانوس ترا
یاد آیا کوئی گزرا موسم
جیسے اترا ہوا ملبوس ترا
--------------------
کبھی اپنی خوشی پر شادماں ہوں
کبھی اپنے غموں پر نوحہ خواں ہوں
تواضع خود ہی کر لیتا ہوں اپنی
میں اپنے گھر میں اپنا مہماں ہوں
--------------------
کشش سے باہمی قائم ہیں دونوں
میں اس کا ہوں وہ میرا ہے سہارا
ستارے ایک ہی برجِ وفا کے
مگر ملنا نہیں ممکن ہمارا
--------------------
سلیم احمد
 
آخری تدوین:
قطعات
مدتوں میں پرسشِ چشم کرم
کر گئی ہے اور بھی مجھ کو اُداس
گرمیوں کی دوپہر میں جس طرح
برف کے پانی سے پڑھ جاتی ہے پیاس
--------------------
بُھلا بیٹھا تھا جن یادوں کو دل سے
وہی یادیں ہیں جن پر جی رہا ہوں
اُدھیڑا تھا جسے لاکھوں جتن سے
وہ پیراہن میں پھر سے سی رہا ہوں
--------------------
تمہارے دوش پر بھاری نہیں تھا
یہ احساں کس لیے فرما دیا ہے ؟
عزیزو اس قدر عجلت بھی کیا تھی
مجھے زندہ ہی کیوں دفنا دیا ہے ؟
--------------------
معمے کی طرح پر پیچ ایسا
کہ وہم و عقل سے جانا نہ جائے
کبھی ایسا کہ جیسے میرا سایہ
کبھی ایسا کہ پہچانا نہ جائے
--------------------
کبھی اس کی طرف پاسنگ ڈالا
کبھی میری طرف پلڑا جھکایا
رکھا ہر حال میں قائم توازن
وہ دو روحوں میں ہے یکساں سمایا
--------------------
نہاں ہیں جتنے فطرت میں تضادات
وہ سارے ہیں بروئے کار اس میں
بظاہر ہے سراپا صلح لیکن
عجب رہتی ہے اک پیکار اُس میں
--------------------
ترے انفاسِ تازہ میں بسا کر
مرے سینے میں پہنچا دی گئی ہیں
جوسانسیں زندگی میں رائیگاں تھیں
وہ سانسیں مجھ کو لوٹا دی گئی ہیں
--------------------
وہ لمحہ جو فنا نا آشنا تھا
حیاتِ تازہ مجھ کو دے رہا ہے
میں گویا از سرِ نو جی رہا ہوں
کوئی پھر مجھ میں سانسیں لے رہا ہے
--------------------
وفا ، ایثار ، قربانی ، محبت
یہ نکتے زندگی کے پا رہا ہوں
سمجھتا جا رہا ہوں آدمی کو
اسے جتنا پرکھتا جا رہا ہوں
--------------------
کبھی ہمراہیوں میں تیری دن بھر
کبھی راتوں کو تنہا جاگنے میں
جو تیرے پاس رہنے میں مزہ ہے
وہی ہے لطف تجھ سے بھاگنے میں
--------------------
فراق و وصل کے گُر جانتا ہے
وہ اپنی فطرتِ سادہ میں سچا
کھلونے دے کے بہلاتا رہا ہے
سمجھتا ہے مجھے بھی کوئی بچہ
--------------------
دھنک تھا ، پھول تھا شعلہ تھا ، کیا تھا
جو اک کھیتی کا بادل بن گیا ہے
کوئی رنگین سی شے تھی مکر اب
وہ آنچل ماں کا آنچل بن گیا ہے
--------------------
سلیم احمد
 
Top