اصلاح براہِ کرم!

راشد ماہیؔ

محفلین
جو محبت کی لاج رکھتے ہیں
کیا عجب ہی مزاج رکھتے ہیں
چاہے جتنے بھی غم زمانے کے
خندہِ اختلاج (بناوٹی مسکراہٹ)رکھتے ہیں
کیا عقیدہ کہ دیدِ یار کو ہی
ہر مرض کا علاج رکھتے ہیں
دم یہ آغوش میں تری نکلے
اور نہ کچھ احتیاج رکھتے ہیں
یہ زمانہ کہے ہے کافر پر
عشق و دیں امتزاج رکھتے ہیں
عشق کے تنگ و تار رستوں میں
دل ہی اپنا سراج رکھتے ہیں
کیا فقیروں کو جانے ہے دنیا
پاؤں میں تخت و تاج رکھتے ہیں
اک اشارے پہ یار کے عاشق
جان دینا رواج رکھتے ہیں
کیا لگائے گی دنیا دام اپنے
جس پہ ہم خود بیاج رکھتے ہیں
پا نشیں تیرے اک انوکھی ہی
عاشقوں میں براج رکھتے ہیں
کیا طلب ان کو بادشاہی کی
جو دل و جاں پہ راج رکھتے ہیں
ہم گلابوں سے نرم دل ماہیؔ
بڑا ظالم سماج رکھتے ہیں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
فرصت میں دیکھتا ہوں۔ ابھی تو جا رہا ہوں۔ صبح سعودی کا سفر درپیش ہے۔ بعد میں ان شاء اللہ۔ بھول جاوں تو یاد دلا دینا
 

الف عین

لائبریرین
لو آ گیا یہاں۔
اس غزل کے اکثر مصرعوں میں بات مکمل ہونے سے رہ گئی ہے، ایسا لگتا ہے۔
جو محبت کی لاج رکھتے ہیں
کیا عجب ہی مزاج رکھتے ہیں
۔۔۔ تو معمول کس مزاج کا ہونا چاہیے تھا؟

چاہے جتنے بھی غم زمانے کے
خندہِ اختلاج (بناوٹی مسکراہٹ)رکھتے ہیں
۔۔۔پہلے مصرع میں 'ہوں' کی کمی ہے۔
دوسرے میں، اختلاج تو ایک بیماری کا نام ہے۔

کیا عقیدہ کہ دیدِ یار کو ہی
ہر مرض کا علاج رکھتے ہیں
۔۔۔ رکھتے ہیں یہاں خلاف محاورہ ہے، 'سمجھتے ہیں' کا محل ہے۔ پہلا مصرع بھی مکمل نہیں 'ہے' کے بغیر۔ یوں ہو سکتا ہے۔
یہ عقیدہ ہے، اس کی دید میں ہم

دم یہ آغوش میں تری نکلے
اور نہ کچھ احتیاج رکھتے ہیں
۔۔۔روانی کی کمی ہے۔
تیری آغوش میں ہی دم نکلے
بس یہی احتیاج۔۔۔۔
زیادہ رواں نہیں؟

یہ زمانہ کہے ہے کافر پر
عشق و دیں امتزاج رکھتے ہیں
۔۔۔سمجھ نہیں سکا

عشق کے تنگ و تار رستوں میں
دل ہی اپنا سراج رکھتے ہیں
۔۔۔سراج رکھنا محاورہ نہیں۔

کیا فقیروں کو جانے ہے دنیا
پاؤں میں تخت و تاج رکھتے ہیں
۔۔درست

اک اشارے پہ یار کے عاشق
جان دینا رواج رکھتے ہیں
۔۔۔ٹھیک

کیا لگائے گی دنیا دام اپنے
جس پہ ہم خود بیاج رکھتے ہیں
۔۔۔بیان رکھنا سمجھ میں نہیں آتا ۔ بیان کا درست تلفظ اور تقطیع پیاس کی طرح محض 'باج' ہے۔

پا نشیں تیرے اک انوکھی ہی
عاشقوں میں براج رکھتے ہیں
'براجنا' خود ایک فعل ہے۔ براج رکھنا بے معنی ہے۔ اور وہ بھی 'انوکھی براج رکھنا'؟

کیا طلب ان کو بادشاہی کی
جو دل و جاں پہ راج رکھتے ہیں
۔۔۔یہاں بھی 'راج کرتے ہیں' کا محل ہے

ہم گلابوں سے نرم دل ماہیؔ
بڑا ظالم سماج رکھتے ہیں
۔۔سماج کیا آپ کے اختیار میں ہے جو رکھا جا سکے؟۔
 

راشد ماہیؔ

محفلین
تو معمول کس مزاج کا ہونا چاہیے تھا؟
عام لوگ محبت نہیں نبھا پاتے
رستہِ محبت جو تکالیف آتی ہیں
محبت جو قربانیوں مانگتی ہے
ہر حال میں یار سے خوش رہنا
جفا کے بدلے بھی وفا ہی کرنا
اپنی ترجیحات بھلا دینا
اپنی خوشیاں قربان کر دینا
اور اسکا گلہ تک نہ کرنا۔۔۔۔۔
بس وہی ہے وہی ہےوہ ہی۔۔۔۔
اس لیے محبت کی لاج رکھنے والے عجب ہی طبیعت رکھتے ہیں۔۔!
 

راشد ماہیؔ

محفلین
دوسرے میں، اختلاج تو ایک بیماری کا نام ہے
جی
اسکا مطلب ہے دل کا زورزورسے دھڑکنا
پر خندہِ اختلاج ترکیب کا معنی یہی بتایا جاتا ہے کہ
مکر کی ہنسی بناوٹی مسکرانا
بیماری میں مسکرانا
یعنی درد کے ہوتے بھی مسکرانا۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
عام لوگ محبت نہیں نبھا پاتے
رستہِ محبت جو تکالیف آتی ہیں
محبت جو قربانیوں مانگتی ہے
ہر حال میں یار سے خوش رہنا
جفا کے بدلے بھی وفا ہی کرنا
اپنی ترجیحات بھلا دینا
اپنی خوشیاں قربان کر دینا
اور اسکا گلہ تک نہ کرنا۔۔۔۔۔
بس وہی ہے وہی ہےوہ ہی۔۔۔۔
اس لیے محبت کی لاج رکھنے والے عجب ہی طبیعت رکھتے ہیں۔۔!
تو اس مزاج کی خصوصیات کا کچھ اشارہ ہونا چاپیے۔
درد جتنے بھی ہوں زمانے کے
اب ٹھیک ہے جی؟؟
اب درست ہے۔
خندہ اختلاج سے مطمئن نہین
 

راشد ماہیؔ

محفلین
یہ زمانہ کہے ہے کافر پر
عشق و دیں امتزاج رکھتے ہیں
حضور مفہوم ہے کہ
جو لوگ عشق میں حد سے گزر جاتے ہیں
عام لوگ جو شاید کم عقل ہوتے ہیں فتوے لگانے لگتے ہیں
کہ بے دیں ہوگیا کفر کرنے لگا ۔۔۔
پر در حقیقت یہی لوگ عشق اور دین کو صحیح سمجھتے ہیں ہم آہنگی اور شراکت رکھتے ہیں
کہ عشق کے بنا تو ایمان بھی نا مکمل ہے۔۔۔۔
 

راشد ماہیؔ

محفلین
جس پہ ہم خود بیاج رکھتے ہیں
۔۔۔بیان رکھنا سمجھ میں نہیں آتا ۔ بیان کا درست تلفظ اور تقطیع پیاس کی طرح محض 'باج' ہے۔
مفہوم یہی مراد لیا کہ
یہ دنیا عاشقوں کی قیمت نہی لگا سکتی
یہ تو خود مقروض ہے عشق کی
بیاج مطلب جس قرض پہ سود بڑھتا جائے۔۔
اور سر
احمد فراز کی اک نظم ہے
بحرِ زمزمہ میں:
ہم خوابوں کے بیوپاری تھے
پر اس میں ہوا نقصان بڑا
کچھ بخت میں ڈھیروں کالک تھی
کچھ اب کے غضب کا کال پڑا
ہم راکھ لیے ہیں جھولی میں
اور سر پہ ہے ساہوکار کھڑا
یاں بوند نہیں ہے ڈیوے میں
وہ باج بیاج کی بات کرے
ہم بانجھ زمین کو تکتے ہیں
وہ ڈھور اناج کی بات کرے
ہم کچھ دن کی مہلت مانگیں
وہ آج ہی آج کی بات کرے

اس میں بیاج فعول کے وزن پر باندھا گیا ہے
 
حضور مفہوم ہے کہ
جو لوگ عشق میں حد سے گزر جاتے ہیں
عام لوگ جو شاید کم عقل ہوتے ہیں فتوے لگانے لگتے ہیں
کہ بے دیں ہوگیا کفر کرنے لگا ۔۔۔
پر در حقیقت یہی لوگ عشق اور دین کو صحیح سمجھتے ہیں ہم آہنگی اور شراکت رکھتے ہیں
کہ عشق کے بنا تو ایمان بھی نا مکمل ہے۔۔۔۔
یہ مفہوم شعر سے میں تو کم از کم اخذ نہیں کر سکوں گا.
کیا سراج نور یا روشنی کے معنی میں استعمال نہیں ہو سکتا۔۔۔۔؟!
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
 

الف عین

لائبریرین
بیاج کو انڈروائڈ کی بورڈ نے 'بیان' بنا دیا! یہ غلطی اب دیکھ رہا ہوں۔ فراز نے بھی بیاج کا تلفظ غلط باندھا تھا، اس لیے میں سند نہیں مانتا۔ ہندی میں ब्याज ہی لکھا جاتا ہے۔
زبردستی بنانے سے محاورے آسانی سے نہیں بدلے جاتے۔ ردیف بدل کر دوسرا شعر کہا جا سکتا ہے اگر کوئی اسی مفہوم کو رکھنا چاہے۔
اور مفہوم بھی ایسا جسے صرف شاعر نکال سکے!
مزید کہ یہ 'سرکار' والا تخاطب مجھے پسند نہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ اس سے خوش ہوتے ہوں!
 
Top