عالمی ذہانت کی خریداری اور جنگوں کا کاروبار

آصف اثر

معطل
سرمائے کے بل بوتے پر اذہان اور محنت خریدنے کی روایت اگرچہ بہت پُرانی ہے لیکن جدید ادوار میں جس تیز رفتاری اور عیاری سے اس سلسلے کو دوام بخشا گیاوہ اپنی مثال آپ ہے۔

ذرا تصور کریں آپ کو بچپن میں بستہ تھمایا جاتاہے، بارہ سال تک اسکول کے چکر کاٹنے اور دِن رات ایک کرکے جب آپ اسکول سے اعلیٰ نمبر لے کرفارغ ہوتے ہیں تو کالج یونیورسٹی کی زندگی آپ کو خوش آمدید کہتی ہے۔ چھ سے آٹھ سال جان جوکھوں میں ڈال کر آپ اپنی خداد صلاحیت کو ہیرے کی طرح جگمگانے کے لیے جب گرم وسرد اور دوڑدھوپ کو برداشت کرتے کرتے اعلیٰ ڈِگری لیے، یونیورسٹی سے پروفیشنل زندگی میں قدم رنجہ فرما ہوتے ہیں تو آپ کے سامنے کئی طرح کے خواب ایک خوبصورت منظر کی طرح کھڑے ہوئے دِکھائی دیتے ہیں۔ آپ مختلف کمپنیوں اور اداروں میں اپلائی کرنے جاتے ہیں۔ انٹرویوز اور مختلف دماغی اور اور آئی کیو ٹیسٹس سے گزر کر آپ کو بہترین عہدے پر فائز ہونے کی نوید سنائی جاتی ہے۔ آپ یہ خبر سُن کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ آپ بھی انسانیت اور قوم و ملت کی خدمت کے ساتھ اپنے بال بچوں کے بہترین مستقبل کو یقینی بنانے کے لیےاپنی تمام تر توانائی صَرف کرتے ہیں اور اعلیٰ منصوبے ادارے کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ادارہ آپ اور آپ جیسے دوسرے ذہین اور قابل ملازمین اور مشیروں پر اپنی بنیادیں پختہ سے پختہ تر کرتا جاتا ہے۔ اس دوران ادارے کے سربراہ اور دیگر اعلیٰ عہدیدار وں کے ساتھ کچھ سرکاری، نیم سرکاری یا غیر سرکاری افراد ایک اہم میٹنگ طے کرتے ہیں۔

آپ خدمت کے جذبے سے سرشار اوربہترین منصوبوں کو ذہن میں ترتیب دےکر میٹنگ میں شریک ہوتے ہیں۔ دوران اجلاس یا اجلاس کے بعد آپ کو معلوم ہوتاہے کہ آپ کی کمپنی کو پیش کش کی گئی ہے، اگر آپ ہمارے ساتھ فلاں فلاں پراجیکٹس پر کام کریں یا فلاں ٹیکنالوجی یا ٹیکنیکس ہمارے ساتھ شئیر کریں تو ہم آپ کو اس کی اتنی قیمت کی ادائیگی کے ساتھ دیگر مراعات دے سکتے ہیں جس سے آپ اور آپ کا ادارہ مستقبل میں ایک اچھی پوزیشن پر ہوسکتاہے۔ لیکن اس دوران آپ کو خبر ہوتی ہے کہ ہماری محنت، خون پسینےاور دِ ن رات سوچ بچار کے بعد بنائی گئی اس بہترین ٹیکنالوجی یا ایجاد کو انسانیت کےخلاف قتلِ عام میں بالواسطہ یا بلاواسطہ استعمال کیا جانے والا ہے تو آپ کا ضمیر بےقرار ہوجاتاہے۔ آپ کے سامنے وہ معصوم اور بے گناہ اور بے بس بچے، خواتین اور ضعیف العمر افراد گھومتے ہیں جو اِن قاتلوں کی جدید ٹیکنالوجیز اور اسلحہ کے ذریعے خون میں لت پت بے یارومددگار زمین پر پڑے ہیں۔ ہر طرف چیخ و پکار مچی ہے۔ خوف ودہشت کا عالم ہےاور ہر آسمانی گرج کو ایک اور قیامت محسوس کیا جارہاہے!

ہر سال دنیا بھر میں لاکھوں طلباء اور ماہرین اپنے اپنے فن کے میدانوں میں عملی زندگی کا آغاز کرتے ہوئے شعوری یا لاشعوری طور پر خیر و شر کا سبب بن رہے ہیں۔ سال بہ سال پوری دنیا میں ریسرچ پیپرز کی تعداد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح اِن تحقیقات کو عملی جامہ پہنا کر فائدہ اُٹھایا جارہاہے۔ محض 2016 میں صرف امریکاکے 601990،چین کے 471472 جبکہ برطانیہ، جرمنی، جاپان، فرانس، اٹلی، کینیڈا، بھارت، آسٹریلیا، اسپین، جنوبی کوریا اور روس سمیت دیگر ممالک کے کُل تقربیاً 30 لاکھ سے زیادہ ریسرچ پیپرز شائع ہوئےاور یہ سلسلہ ہر سال رُو بہ ترقی ہے۔

یہاں تک پہنچنے کے بعد اب میں اسی طرح کے ایک حالیہ واقعے کی جانب توجہ مبذول کرانا چاہتاہوں۔ گوگل دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ گوگل کے کچھ ملازمین، جن میں چوٹی کے انجینیئرز سے لے کر درمیانے درجے کے ماہرین شامل ہیں، کو اپنی کمپنی اور امریکی حکومت کے درمیان ایک معاہدے کی بھنک پڑ گئی۔ معاہدے کی تفصیل دیکھنے کے بعد اُن کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ایک غیر اسلحہ ساز اور غیر فوجی ادارہ جو عوامی فلاح اور بہبود کا دعوے دار ہے اپنے اعلیٰ اذہان کی ایک بہترین اور منفرد ٹیکنالوجی کو بعِوض امریکی فوجی ادارے کے حوالے کرنے جارہی ہے۔ ایک ایسی ٹیکنالوجی جسے غیر فوجی مقاصد کے لیے تیار کیا گیا تھا لیکن دباؤ، زروجواہرات، دھوکا دہی اور دیگر پُرکشش مراعات کے زور پر امریکا اور اس کے حواری، اس تیار اور پختہ ٹیکنالوجی کو اپنے خون آشام جنگی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھی۔

گوگل کے ایسی ہی تین ہزار اور ایک سو پُر امن اور انسان دوست ماہرین نے کمپنی سے ایک کھلے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ :

”چوں کہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ گوگل کو ”جنگی کاروبار“ کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ”پراجیکٹ میوِن“کو منسوخ کیا جائے اور ایک مسودہ تیار کرکے ادارے کی ایک واضح پالیسی کا اعلان کیاجائے کہ نہ تو گوگل اور نہ ہی اس کے کنٹریکٹرز، کسی بھی قسم کی جنگی یا فوجی ٹیکنالوجی تیار کریں گے۔“

پراجیکٹ میوِن، بدنامِ زمانہ اُس ڈرون ٹیکنالوجی کو مزید خطرناک اور مہلک تر کرنے کی ایک کڑی ہے جس کے متعلق آپ آئے روز یہ خبر پڑھتے اور سنتے ہیں کہ فلاں (مسلمان) ملک کے فلاں علاقے میں آبادی پر، راہ چلتی مسافر گاڑیوں پر، پُر امن اجتماعات یا تعلیمی اداروں پر ایک فضائی حملے میں اتنے بے گناہ افراد جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ قتل ودہشت کے اِن عظیم سانحات میں وہ انجینیئرز اور ماہرین بھی برابر کے شریکِ جرم ٹھہرتے ہیں جنہوں نے اس مہلک ہتھیاروں کی تیاری میں حصہ لیا۔

آج ہلاکت وبربادی کی یہ داستانیں اتنی زیادہ اور زبانِ زدعام ہوچکی ہیں کہ سادہ اور غیر جانبدار غیر مسلموں کی قوتِ برداشت بھی جواب دے رہی ہے۔ وہ خون کے اس دریا کے سامنے کو ئی سدودیوار باندھنا چاہتے ہیں۔ آئیے ہم بھی عزم کریں اور اپنے دوست، احباب اور رشتہ داروں میں موجود ذہین وفطین ماہرین کو بھی یہ دعوتِ عام دیں کہ وہ کسی بھی قسم کی، سیاسی، اداراجاتی یا فوجی ہتھیاروں اور جنگی ٹیکنالوجیز میں استعمار کے اِن اداروں اور موت کے ہرکاروں کا ساتھ نہ دیں جو آئے روز اپنے شیطانی اور انسانیت سوز منصوبوں کوپایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مراعات اور پیسے کے زور پر انسانوں کو انسانوں کے تباہی کے لیے استعمال کررہے ہیں۔

عالمی ذہانت کی خریداری اور جنگوں کا کاروبار - Daleel.Pk
 
آخری تدوین:

bilal260

محفلین
یا اللہ خیر۔ پڑھ لکھ کر یہ کرنا ہے تو پھر ان پڑھ ہی ٹھیک ہوتے ہیں۔
یہ شاید اس وجہ سے ہے کہ دنیا تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔
 
Top