میرے اشعار پہ تنقید اصلاح اور مشوروں سے نوازیں

  • اختیار ہے

    Votes: 0 0.0%
  • اختیار ہے

    Votes: 1 100.0%

  • Total voters
    1
فکر و نظر میں تُو تو سلف کا امیں نہیں ہے
دستِ نگر ہے تُو تو خود پہ یقیں نہیں ہے
رُسوائی ہے یہ تیرا مقدّر تو اس لئے ہی
آباء جیسا دل میں نورِ مبیں نہیں ہے
سردار تھے وہ سارے میدانوں اور جہاں میں
تیرے لئے وہ ہی آسماں اور زمیں نہیں ہے
مغرب بنا ہے اب تیرا تو سبھی جہاں بس
رب کے حضورجھکنے والی جبیں نہیں ہے
سونے کا رسیا ہے نوائے سحر سے محروم
بندہہوس ہے تُو تجھ میں حُبِّ دیں نہیں ہے
قدرت تو جلوہ گر ہے اس سارے ہی جہاں میں
بے دینوں کے لئے وہ تو بس کہیں نہیں ہے
کِس بات پہ تُو نازاں ہے پاس کیا ہے تیرے
اِس بات پہ ارشد تُو غمگیں کیوں نہیں ہے
 

حسان خان

لائبریرین
دستِ نگر ہے تُو تو خود پہ یقیں نہیں ہے
درست ترکیب 'دستِ نگر' نہیں ہے، بلکہ زیرِ اضافت کے بغیر 'دست نِگَر' ہے۔ 'نِگَر' یعنی نگاہ کرنے والا، اور 'دست‌نِگَر' یعنی کسی کے دست کی جانب نگاہ کرنے والا مُحتاج و نیازمند۔
 

الف عین

لائبریرین
کئی مصرع بحر سے خارج ہیں ۔
کیوں ' میں اور دیں کا قافلہ کسی طرح ہو سکتا ہے
جہاں مکمل 'پر ' آ سکے وہاں پہ استعمال کرنا غلط ہے۔ یوں بھی 'پہ ' کا درست مطلب 'مگر ہوتا ہے فصیح اردو میں۔
دست نگر پر بات ہو چکی۔
اسے پھر سے روائز کریں
 
Top