فارسی نثری اقتباسات مع اردو ترجمہ

خطرناک‌ترین نوع بشر کسی است که فهمش کم و اعتقادش زیاد است
(آنتون چخوف)

خطرناک ترین نوعِ بشر وہ ہے کہ جس کی عقل اور سمجھ کم ہو اور اعتقاد زیادہ ہو
 

حسان خان

لائبریرین
"یکی از سبب‌هایِ این که تاجیکان و ازبکانِ واحدهایِ آسیایِ میانه در زیست و معیشت، رسم و عادت، اخلاق و آداب، موسیقی و رقص و غیره از هم فرق ندارند یا کم تفاوت دارند، همین است، که بسیاری از آن ازبکان در گذشتهٔ نزدیک تاجیک بودند و اساساً با دیگر شدنِ زبان منسوبیتِ ملّی‌اشان تغییر یافت. فرهنگشان - عُرف و عادت، خوراک و پوشاک، سرود و رقص و غیره همه چنانکه تاجیکی بود، همچنان ماند، فقط متنِ سرودها ازبکی شد. آن جا تاجیک و ازبک اساساً با زبان از هم فرق می‌کند."

کتاب: خُراسان است اینجا
نویسنده: محمّدجان شکوری بُخارایی
سالِ اشاعتِ اول: ۱۹۹۶ء

"وسطی ایشیا کے تاجکوں اور اُزبکوں کے درمیان زیست و زندگانی، رسم و عادت، اخلاق و عادت، موسیقی و رقص وغیرہ کے لحاظ سے باہم فرق نہ ہونے یا کم تفاوت ہونے کا ایک سبب یہی ہے کہ اُن اُزبکوں میں سے کئی ماضیِ نزدیک میں تاجک تھے اور بنیادی طور پر زبان کی تبدیلی کے ساتھ اُن کی ملّی منسوبیت تغییر پا گئی۔ اُن کی ثقافت - عُرف و عادت، خوراک و پوشاک، سُرود و رقص وغیرہ تمام کا تمام جس طرح کہ قبلاً تاجکی تھا، ویسا ہی رہا، فقط سُرودوں کا متن اُزبکی ہو گیا۔ اُس جا تاجک اور اُزبک بنیادی طور پر زبان کے ساتھ یک دیگر کے درمیان فرق کرتے ہیں۔"
 
آخری تدوین:
اس اقتباس میں سرخ واژوں کے معنی نوشتہ کردیں


در کنار ثبت ملی آثار تاریخی قرار گرفته در "موزه ملی ایران"، "سعدآباد"، "تپه حسنلو" و حتی "شهرسوخته"، ۲۷ اثر تاریخی نیز از کاخ جهانی گلستان نیز در فهرست آثار ملی به ثبت رسیده‌اند
 

حسان خان

لائبریرین
"...در دربار، زبان رایج و اصلی ترکی بود، نه فارسی. اکثر «اردوی همایونی» و لشکریان و امرای ارتش صفوی هم ترک‌زبان بودند، یعنی زبان مادری‌شان ترکی بود. فارسی هم می‌دانستند. طبیعتاً پادشاهان صفوی هم فارسی می‌دانستند و خوب هم می‌دانستند، چونکه تحصیل‌کرده بودند و برخی حتیٰ به هر دو زبان شعر هم گفته‌اند. اکثراً شعر فارسی آن‌ها بیش‌تر از شعر ترکی‌شان بود، یعنی دو زبانه بوده‌اند ولی زبان نخستشان، زبانی که با پدر و مادر و فرزندانشان صحبت کرده‌اند، ترکی بود."

کتاب: زبانِ آذربایجان در گُذرِ زمان
سالِ اشاعت: ۲۰۱۷ء
نویسنده: عباس جوادی

"...[صفوی] دربار میں رائج و بنیادی زبان تُرکی تھی، نہ کہ فارسی۔ شاہی لشکرگاہ کا بیشتر حصّہ اور صفوی فوج کے اکثر لشکری اور اُمَراء بھی تُرک زبان تھے، یعنی اُن کی مادری زبان تُرکی تھی۔ وہ فارسی بھی جانتے تھے۔ فطرتاً، پادشاہانِ صفوی بھی فارسی جانتے تھے اور بخوبی جانتے تھے، کیونکہ تعلیم یافتہ تھے اور حتیٰ اُنہوں نے ہر دو زبانوں میں شاعری بھی کہی ہے۔ اکثراً اُن کی فارسی شاعری اُن کی تُرکی شاعری سے بیشتر تھی۔ یعنی وہ دولسانی تھے، لیکن اُن کی زبانِ اوّل، یعنی وہ زبان کہ جس میں وہ اپنے پدر و مادر و فرزنداں کے ساتھ گفتگو کرتے تھے، تُرکی تھی۔"
 

حسان خان

لائبریرین
"سلطان بزرگ غزنه، سلطان محمود که به گفتهٔ استاد عبدالحی حبیبی می‌توان او را شهنشاه بزرگ کشور ادب نیز گفت؛ با لشکرکشی‌های گستردهٔ خویش به نیم‌قارهٔ هندی نه تنها دین اسلام را به آن سرزمین برد؛ بلکه این امر سبب شد تا زبان و ادبیات فارسی دری، به تعبیر خواجهٔ رندان حافظ شیراز این قند پارسی به بنگاله نیز برده شود."
(پرتو نادری)، از افغانستان
مأخذ

"غزنہ کا سلطانِ بزرگ سلطان محمود، کہ اُستاد عبدالحَی حبیبی کے بقول جس کو مُلکِ ادب کا شہنشاہِ بزرگ بھی کہا جا سکتا ہے، برِّ صغیرِ ہند پر اپنی وسیع لشکر کَشیوں کے ساتھ نہ فقط دینِ اسلام کو اُس سرزمین میں لے گیا، بلکہ یہ امر زبان و ادبیاتِ فارسی، یا خواجۂ رِنداں حافظِ شیراز کی تعبیر میں، اِس قندِ پارسی کے بنگالہ میں بھی پہنچائے جانے کا سبب بنا۔"
 

حسان خان

لائبریرین
محمد اشرف غنی، رئیس جمهوری افغانستان، از شاهد خاقان عباسی، نخست وزیر پاکستان رسماً دعوت کرده به کابل سفر کند تا گفت‌وگوها میان دولت‌های افغانستان و پاکستان آغاز شود.
مأخذِ خبر
تاریخ: ۱۷ مارچ ۲۰۱۸ء

افغانستان کے صدرِ مملکت محمد اشرف غنی نے پاکستان کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عبّاسی کو کابل آنے کی رسماً دعوت دی ہے تاکہ افغانستان اور پاکستان کی ریاستوں کے درمیان گفتگوؤں کا آغاز ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
ای پسرِ تُراب
کور شو تا جمالم بینی و کر شو تا لحن و صوتِ ملیحم را شنوی و جاهل شو تا از علمم نصیب بری و فقیر شو تا از بحرِ غنایِ لایزالم قسمتِ بی‌زوال برداری کور شو یعنی از مشاهدهٔ غیرِ جمالِ من و کر شو یعنی از استماعِ کلامِ غیرِ من و جاهل شو یعنی از سوایِ علمِ من تا با چشمِ پاک و دلِ طیّب و گوشِ لطیف به ساحتِ قُدسم درآیی.


کتاب: کلماتِ مکنونه
نویسنده: میرزا حُسین‌علی نوری بهاءالله (بانیِ دینِ بهائیت)
سالِ تألیف: ۱۲۷۴ھ/۱۸۵۷-۵۸ء

اے پِسرِ خاک!
اندھے ہو جاؤ تاکہ تم میرا جمال دیکھو، اور بہرے ہو جاؤ تاکہ تم میری ملیح نوا و صدا کو سُنو، اور جاہل ہو جاؤ تاکہ تم میرے عِلم سے بہرہ لو، اور فقیر ہو جاؤ تاکہ تم میرے ابدی بحرِ توانگری سے بے زوال حصّہ اُٹھاؤ۔ اندھے ہو جاؤ یعنی میرے جمال کے بجز ہر چیز کے مُشاہدے سے، اور بہرے ہو جاؤ یعنی میرے کلام کے بجز ہر کسی کے کلام کی سماعت سے، اور جاہل ہو جاؤ یعنی میرے علم کے سوا ہر چیز سے، تاکہ چشمِ پاک و دلِ طیِّب و گوشِ لطیف کے ساتھ تم میری درگاہِ قُدس میں داخل ہو جاؤ۔
 

حسان خان

لائبریرین
امیر علی‌شیر نوایی کی تُرکی کتاب 'مجالس‌النفائس' کے فارسی مترجم حکیم شاہ محمد قزوینی (وفات: ۹۶۶ھ) نے اپنے ترجمے کے اندر نوائی کے شرحِ حال میں یہ لکھا ہے:

"...و کمال قدرت بر شعر فارسی و ترکی داشته ولیکن میل خاطر عاطرش به ترکی گفتن بیشتر افتاده و خمسهٔ ترکی او مشهور است و قریب سی هزار بیت خوب است و کسی شعر ترکی بهتر از او نگفته و گوهر نظم و نثر بهتر از او نسُفته."

"...اور وہ فارسی و تُرکی شاعری پر کمالِ قُدرت رکھتے تھے لیکن اُن کی خاطرِ مُعطّر کی رغبت تُرکی کہنے کی جانب زیادہ رہی تھی، اور اُن کا خمسۂ تُرکی مشہور ہے جس میں تقریباً تیس ہزار خوب ابیات ہیں، اور کسی نے اُن سے بہتر تُرکی شاعری نہیں کہی ہے اور کسی نے گوہرِ نظم و نثر کو اُن سے بہتر نہیں پرویا ہے۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"بعد از وفاتِ بابُر (۹۳۷ هجری - ۱۵۳۱ میلادی) پسرِ بزرگِ او همایون-پادشاه بر تخت نشسته باشد هم، به سببِ اختلافِ برادرانش شیرخانِ افغان در هندوستان غلبه کرده، او مجبور شد، که به ایران گُریزد. او در ایران از شاه طهماسبِ صفوی مدد گرفته دوباره آمده اوّل قندهار و کابُل را گرفته، بعد از جنگ و جدالِ بسیار در سالِ ۹۶۲ هجری (۱۵۵۵) دوباره به هندوستان راه یافته، از اولادِ شیرخانِ مذکور مملکت را گرفت و در اوّل‌هایِ سالِ ۹۶۳ (۱۵۵۶) بعد از دوماهه سلطنتِ دوبارهٔ هندوستان از بام افتاده وفات نمود و به جایِ او پسرش - اکبر، که در این وقت در سِنِّ ۱۳-سالَگی بود، به تختِ هندوستان صاحب شد."

کتاب: میرزا عبدالقادرِ بیدل
نویسندہ: صدرالدین عینی
سالِ اشاعت: ۱۹۵۴ء

"بابر کی وفات (۹۳۷ھ/۱۵۳۱ء) کے بعد اگرچہ اُس کا پِسرِ بُزُرگ ہمایوں پادشاہ تخت پر بیٹھا تھا، لیکن اُس کے برادروں کے اختلاف کے باعث شیر خانِ افغان نے ہندوستان پر غلبہ کر لیا، اور وہ ایران کی جانب فرار کرنے پر مجبور ہو گیا۔ ایران میں وہ شاہِ طہماسبِ صفوی سے مدد حاصل کر کے دوبارہ آیا اور اوّلاً اُس نے قندہار و کابُل کو تصرُّف میں لیا اور پھر جنگ و جِدالِ بِسیار کے بعد سال ۹۶۲ھ (۱۵۵۵ء) میں دوبارہ ہندوستان میں راہ پا کر شیر خانِ مذکور کی اولاد سے مملکت کو لے لیا اور سلطنتِ ہندوستان کو دوبارہ پا لینے کے دو ماہ بعد سال ۹۶۳ھ (۱۵۵۶ء) کے اوائل میں بام سے گِر کر وفات کر گیا اور اُس کی جا پر اُس کا پِسر اکبر، کہ اُس وقت تیرہ سال کا تھا، تختِ ہندوستان کا مالک ہو گیا۔"
 

حسان خان

لائبریرین
گذشتہ صدیوں میں ماوراءالنہر کے افراد، خواہ تُوران میں ہوں، یا خواہ ہند میں مہاجر ہوں، اپنے سُنّی تعصُّب اور سخت گیری کے لیے مشہور تھے۔ دورِ مُغلیہ کا ذکر کرتے ہوئے صدرالدین عینی لکھتے ہیں:

"در وقتِ این نزاع‌ها آسیای‌میانَگی‌ها، که رهبرِ حکومت (تیموریان) را از خودشان دانسته و خود را از دیگر مهاجران بالاتر می‌شمردند، در پَیِ نیست کردنِ مذهبِ شیعه و دیگر مسلک‌هایِ مخالفِ خودشان و اهلِ آن با تعصُّبِ سخت می‌کوشیدند."

کتاب: میرزا عبدالقادرِ بیدل
نویسندہ: صدرالدین عینی
سالِ اشاعت: ۱۹۵۴ء

"اِن [مسلَکی] کشمکشوں کے زمانے میں وسطی ایشیائی [مُہاجرین]، جو رہبرِ حکومت (تیموریوں/مُغلوں) کو اپنے میں سے جانتے تھے اور خود کو دیگر مُہاجروں سے بالاتر شُمار کرتے تھے، مذہبِ شیعہ اور دیگر مخالف مسلَکوں کو اور اُن کے پیروؤں کو نیست و نابود کرنے کے لیے شدید تعصُّب کے ساتھ کوشش کرتے تھے۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
[تُرکی زبان میں علامتِ مصدر]

"مصدر از اسم‌های ترکی، آن است که در آخرش لفظ مک یا ماق یا ماخ باشد، بنا به اصطلاح تبریزیان، که آن‌ها در مک و ماق به عوض کاف و قاف، همیشه به خاء تنطُّق می‌کنند."

کتاب: قاعدهٔ زبانِ تُرکی
مؤلف: عبدالعلی خلخالی
سالِ تألیف: ۱۲۸۹ھ/۱۸۷۲ء


"تُرکی اسماء میں سے مصدر وہ ہے کہ جس کے آخر میں لفظِ مک یا ماق، یا تبریزیوں کے عُرف کے مطابق ماخ ہو، کہ وہ مک و ماق میں کاف و قاف کی بجائے ہمیشہ 'خا' کے ساتھ تکلُّم کرتے ہیں۔"
 

حسان خان

لائبریرین
رحیم نیک‌بخت کے مقالے 'حُسینه یئرلر آغلار گؤیلر آغلار: پیشینهٔ یک نوحهٔ قدیمی در دیوانِ شهریار' سے ایک اقتباس:
"اگر بگوییم که ادبیاتِ مکتوبِ تُرکی در دامانِ فرهنگ و تمدنِ ایرانی قدم به عرصهٔ وجود گذاشته‌است بی‌راه نگفته‌ایم."
"اگر ہم کہیں کہ تحریری تُرکی ادبیات نے ایرانی ثقافت و تمدُّن کے دامن میں میدانِ وجود میں قدم رکھا ہے تو یہ کوئی نابجا سُخن نہیں ہے۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
میرزا مُلّا احمد کے مقالے 'حوزه‌ی ادبی حصار و بعضی از ویژگی‌های آن' سے ایک اقتباس:

"این ادبیات تا ابتدای قرن ۱۰ ه./۱۶ م. عمومیت و یکپارچگی خود را برای کُلِّ مردمان فارسی‌زبان نگاه داشته است. ولی پس از فروپاشی دولت تیموریان در ماوراءالنهر و خراسان و تأسیس دولت صفوی‌ها در ایران و دولت شیبانی‌ها در ماوراءالنهر و اختلاف شدید سیاسی و مذهبی آن‌ها این ادبیات یگانه و یکپارچه به شاخه‌ها تقسیم شد."

"اس [فارسی] ادبیات نے قرنِ دہُمِ ہجری/شانزدہُمِ عیسوی تک تمام فارسی گو مردُموں کے لیے اپنی عمومیت و وحدت کو محفوظ رکھا تھا۔ لیکن ماوراءالنہر و خُراسان میں تیموریوں کی حکومت کے سقوط، اور ایران و ماوراءالنہر میں بالترتیب صفویوں اور شَیبانیوں کی مملکتوں کی تأسیس کے بعد اور اُن کے مابین شدید سیاسی و مذہبی اختلاف کے باعث یہ یگانہ و یک لخت [فارسی] ادب شاخوں میں تقسیم ہو گیا۔"
 

حسان خان

لائبریرین
ابنِ بزّاز اردَبیلی اپنی کتاب صفوة الصفا (سالِ تألیف: تقریباً ۱۳۵۸ء) میں صفَوی صوفی سلسلے کے بانی شیخ صفی الدین اردَبیلی کی توصیف میں لکھتے ہیں:
"در مجموع عمر چنان قدم بر متابعت شریعت نهاد که از او سر مویی خلاف شریعت در وجود نیامد، نه به قول نه به فعل."
"اُنہوں نے تمام عُمر شریعت کی اِس قدر پیروی کی کہ اُن سے سرِ مُو بھی کوئی خلافِ شریعت چیز سرزد نہ ہوئی، نہ قولاً نہ فعلاً۔"
 

حسان خان

لائبریرین
ایران کو اثناعشری شیعہ سلطنت اور مُلک بنانے والے آذربائجان و مشرقی اناطولیہ کے تُرک تھے:

"از میان همه اقوام ترک، این اُغوزهای ترکمان بودند که در سایه رواداری دینی عصر ایلخانی به تشیع گراییدند و در دوره ترکمانان قرا قویونلو، تشیع به عنوان عنصری در معادلات ژئوپولیتیک و رقابتهای سیاسی منطقه درآمد و از دوره صفوی تاکنون، تشیع اقتدار سیاسی خود را مدیون ترک‌ها است. مرزهای عقیدتی ۔ سیاسی ایران توسط صفویها تعیین و به دست افشار و قاجار، احیاء و حفظ گردیده است که جملگی از ترکهای ترکمان هستند."

(محمد امیرآبادی)
مأخذ

"تُرکوں کے تمام گروہوں کے درمیان، یہ تُرکمان اوغوز تھے کہ جنہوں نے ایلخانی منگول دور کی دینی رواداری کے سائے میں تشیُّع کو قبول کر لیا تھا، اور پھر قراقویونلو تُرکمانوں کے دور میں زمین-سیاسی مُعامَلات، اور خِطّے کی سیاسی رقابتوں میں تشیُّع ایک عُنصر کے طور پر شامل ہو گیا تھا، اور صفوی دور سے لے کر اب تک تشیُّع اپنے سیاسی اقتدار کے لیے تُرکوں کا مدیون و مرہون ہے۔ ایران کی عقیدتی-سیاسی سرحدیں صفویوں کے توسُّط سے مُتععیّن ہوئی تھیں، اور پھر افشاروں و قاجاروں کے ذریعے سے اُن کا احیاء اور اُن کی حفاظت ہوئی، اور یہ سب شاہی سلسلے تُرکمان تُرک تھے۔"

× مندرجۂ بالا اقتباس میں 'تُرکمان' سے مُراد حالیہ تُرکمنستان' کے مردُم نہیں، بلکہ اِس سے آذربائجان، اناطولیہ اور شام کے تُرک قبائلی مُراد ہیں۔
× اوغوز = تُرکوں کے ایک تاریخی قبائلی وفاق کا نام
 

حسان خان

لائبریرین
"زبان ترکی و فارسی دو بال متوازن فرهنگ ایرانی است. اتهام انیرانی بودن و اعمال تبعیض نسبت به هر یک از گویشوران این دو زبان، به معنی دشمنی با موجودیت ایران است. در کنار این دو زبان، دیگر زبانهای رایج در ایران نیز بخشهایی دیگر از بدنه فرهنگ ایران را تشکیل می‌دهند. تأمین حقوق زبانی همه اقوام ایرانی، ضرورتی انکارناپذیر و لازمه‌ی توسعه و نفی انحصارطلبی است."
(محمد امیرآبادی)
مأخذ

"تُرکی و فارسی زبانیں ایرانی ثقافت کے دو مساوی و ہم وزن بال و پر ہیں۔ تُرکی گویوں یا فارسی گویوں میں سے کسی پر بھی غیرایرانی ہونے کی تُہمت لگانا یا اُن میں کسی سے بھی امتیاز برتنا، ایران کی موجودیت سے دشمنی کے مترادف ہے۔ اِن دو زبانوں کے علاوہ، ایران میں رائج دیگر زبانیں بھی ایرانی ثقافتی جسم کے دیگر حصّے ہیں۔ تمام ایرانی اقوام کے لسانی حقوق کی فراہمی ایک انکار ناپذیر ضرورت، ترقّی کا لازمہ، اور اجارہ داری طلبی کی نفی ہے۔"

"با محروم ساختن ترکهای ایران از آموزش زبان مادری، چه نفعی عاید کشور می‌شود که عده‌ای فکر و ذکری جز یکسان‌سازی فرهنگی ایران ندارند؟!"
(محمد امیرآبادی)
مأخذ

"ایرانی تُرکوں کو اپنی مادری زبان کی آموزش سے محروم کرنے سے مُلک کو [ایسا] کیا فائدہ حاصل ہو گا کہ بعض افراد کے ذہن و زبان پر ایران کی ثقافتی یکساں سازی کے بجز کچھ نہیں ہے؟"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ماوراءالنہری ادیب و دانشمند عبدالرئوف فطرت بُخارایی کی فارسی کتاب 'مُناظره' (۱۹۱۱ء) سے ایک اقتباس:
"بخارا وطن مقدّس ماست، بخارا مادر مهربان ماست، بخارا جای نشو و نمو ماست، بخارا معشوقهٔ عزیز ماست، بخارا محبوبِ با جان برابرِ ماست، بخارا از ماست، ما از بخاراییم!"

"بُخارا ہمارا وطنِ مُقدّس ہے، بُخارا ہماری مادرِ مہربان ہے، بُخارا ہماری جائے نشو و نما ہے، بُخارا ہماری معشوقۂ عزیز ہے، بُخارا ہمارا جان جتنا محبوب ہے، بُخارا ہم سے ہے، ہم بُخارا سے ہیں!"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"برایِ ساختنِ مِلّتی قوی باید زبانی قوی داشت. هیچ مِلّتِ قوی‌ای با زبانِ ضعیف در جهان و در تاریخ وجود ندارد. زبان پایهٔ همه نوع پیش‌رفت است، از جُمله و به‌ویژه مِلّت‌سازی."
(تاجکستانی صحافی داریوش رجَبیان)

"ایک قوی مِلّت تعمیر کرنے کے لیے ایک قوی زبان کا ہونا لازم ہے۔ ضعیف زبان رکھنے والی کوئی بھی قوی مِلّت جہان میں اور تاریخ میں وجود نہیں رکھتی۔ زبان ہر طرح کی پیشرفت کی اساس ہے، بشمول و بخصوص مِلّت سازی کی۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"خوشا کسی که به مشوَرتِ شریران نمی‌رود، و در طریقِ خطاکاران نمی‌ایستد، و در مجلسِ مسخره‌بازان نمی‌نِشیند."
(عہدنامۂ قدیم، زبور، باب ۱، آیت ۱)
خوشا وہ شخص کہ جو بدکاروں کے مشورے کے موافق نہیں چلتا، اور خطاکاروں کی راہ میں کھڑا نہیں ہوتا، اور مَسخَرہ بازوں کی مجلس میں نہیں بیٹھتا۔

× آیت کا فارسی ترجمہ «کتابِ مُقدّس» کے تاجِک فارسی ترجمے سے لیا گیا ہے۔
 
آخری تدوین:
لطفاً اس اقتباس کا ترجمہ تحریر کردیں :

عثمانیها خیال دارند آذربایجان ما را داخل آذربایجان روس و جزو قفقاز شده در تحت حمایت عثمانی به جای آن تركستان روس با استقلال داخلی در تحت حمایت ایران درآید (چندی است ما آذربایجان روس می‌شنویم و تا قبل از آن هرگز به گوش ما این اسم نخورده بود و این خود زمزمه تازه‌ایست كه عثمانیها و قفقازیها می‌كنند.) (سالور، 1374: ج7، 5206)

مأخذ: سالور، قهرمان میرزا. 1378. روزنامه خاطرات عین‌السلطنه. 10 جلد. به كوشش مسعود سالور و ایرج افشار. تهران: اساطیر
 
Top