اگر خواهد خدا روزی که هستی را بیاراید
تراگوید تجلی کن که هستی را بیارایی
(قآنی شیرازی)

اگر کسی روز خدا چاہے کہ وجود کو آراستہ کرے، وہ تجھے کہے گا کہ تجلی کر تاکہ وجود کو تو آراستہ کردے
 
بہ زیورہا بیارایند مردم خوبرویان را
تو سیمین تن چنان خوبی کہ زیورہا بیارائی

(شیخ سعدی شیرازیؒ)
لوگ خوبروؤں کو زیور سے آراستہ کرتے ہیں، لیکن تو سیمیں تن اس قدر زیبا ہے کہ تو زیور کو آراستہ کردیتا ہے۔
جمال خوبرویان را به زیور زینت افزایند
تو گر زیور به خود بندی به خوبی زیور افزایی
(قآنی شیرازی)

خوب رویوں کے جمال کی زینت کو زیور سے زیادہ کیا جاتا ہے. اگر تو خود زیور زیب تن کرے تو زیور کی خوشنمائی زیادہ کرے
 
ز بس در حسن مشهوری کس اوصافت نمی پرسد
که ناظر هرکجا بیند تو چون خو‌رشید پیدایی
(قآنی شیرازی)

تو حسن میں اس قدر زیادہ مشہور ہے کہ کوئی تیرے (دیگر) اوصاف کی پرسش نہیں کرتا، کہ بینندہ جس طرف بھی دیکھے، تو مثلِ خورشید عیاں ہے.
 

محمد وارث

لائبریرین
اے بحر نسبتِ تو کجا، اشکِ ما کجا
ما را ہزار ہمچو تو در آستیں بوَد


اہلی شیرازی

اے بحر، تجھ سے نسبت کہاں اور ہمارے اشک کہاں۔ ہمارے لیے تو تیرے جیسے ہزاروں ہماری آستین میں ہوتے ہیں۔
 
چنان شیرینی ارزان شد زگفتارت که در عالم
خریداری ندارد جز مگس دکانِ حلوایی
(قآنی شیرازی)

تیری گفتار سے شیرینی دنیا میں اس قدر ارزاں ہوگئی ہے کہ حلوائی کی دکان پر مگس کے علاوہ کوئی بھی خریدار نہیں ہے.

*مگس=مکھی
 

حسان خان

لائبریرین
ز نورِ شمعِ رُخسارت فُروغی بود در عیسیٰ
ازین معنی به معبودی پرستیدند عیسیٰ را

(سیّد عمادالدین نسیمی)
حضرتِ عیسیٰ میں تمہاری شمعِ رُخسار کے نور سے ایک پرتَو تھا، اِسی باعث مردُم نے عیسیٰ کی بطورِ معبود پرستش کی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از شیخ عبداللہ انصاری ہروی

عیب است بزرگ، برکشیدن خود را
وز جملۂ خلق برگزیدن خود را
از مردمکِ دیدہ بباید آموخت
دیدن ہمہ کس را و ندیدن خود را


اپنے آپ کی بڑائی بیان کرنا اور خود کو بلند مرتبہ سمجھا ایک بہت بڑا عیب ہے، اسی طرح تمام لوگوں میں سے خود کو برگزیدہ سمجھنا بھی بہت بڑا عیب ہے۔ (خود بینی سے بچاؤ) آنکھوں کی پُتلیوں سے سیکھنا چاہیے کہ سب کو دیکھنا اور خود کو نہ دیکھنا۔
 

حسان خان

لائبریرین
پیشِ ابرویِ تو می‌خواهم که جان قربان کنم
پرده بردار از رُخ ای عیدِ من و نوروزِ من

(سید عمادالدین نسیمی)
میں تمہارے ابرو کے پیش میں جان قُربان کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ رُخ سے پردہ اُٹھا لو، اے میری عید! اور اے میرے نوروز!
 

حسان خان

لائبریرین
خواهی که باشی پاک‌دین چون طیّبین و طاهرین
حاصل کن ایمانِ یقین از زُلفِ چون زُنّارِ او

(سید عمادالدین نسیمی)
اگر تم طیّبین و طاہرین کی مانند، پاک دین والے بننا چاہتے ہو تو اُس کی زُنّار جیسی زُلف سے ایمانِ یقین حاصل کرو۔
 

حسان خان

لائبریرین
گفتمش بر عارِضت آن قطره‌هایِ ژاله چیست
زیرِ لب خندید و گفت از گُل گُلاب آید برون

(سید عمادالدین نسیمی)
میں نے اُس سے کہا: "تمہارے رُخسار پر وہ شبنم کے قطرے کیا ہیں؟"۔۔۔ وہ زیرِ لب مسکرایا اور بولا: "گُل سے عرَقِ گُل بیرون آتا ہے"۔
 

حسان خان

لائبریرین
نشانِ عاشقِ صادق رُخِ زرد است و سوزِ دل
ز عشقت سوزِ دل گر هست رُویِ زرد می‌باید

(سید عمادالدین نسیمی)
عاشقِ صادق کی علامت رُخِ زرد اور سوزِ دل ہے۔۔۔ اگر عشق کے سبب تم میں سوزِ دل ہے تو چہرۂ زرد لازم ہے۔

× ایک نُسخے میں مصرعِ ثانی کا متن یہ نظر آیا ہے:
ز عشقش سوزِ دل گر هست رُویِ زرد می‌باید
ترجمہ: اگر اُس کے عشق کے سبب [تم میں] سوزِ دل ہے تو چہرۂ زرد لازم ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مپرس وجہِ سوادِ سفینہ ہا غالب
سخن بمرگِ سخن رس سیاہ پوش آمد


مرزا غالب دہلوی

غالب، میری بیاضوں کی سیاہی کی وجہ مت پوچھ، میری شاعری سخن رس اور سخن شناس لوگوں کی موت پر سیاہ (ماتمی) لباس پہنے ہوئے آئی۔
 

حسان خان

لائبریرین
آمد به سرِ کویِ دلم دوش خیالت
جان نعره‌زنان از حرمِ تن بدر اُفتاد

(سید عمادالدین نسیمی)
میرے دل کے کُوچے میں گذشتہ شب تمہارا خیال آیا۔۔۔ [میری] جان نعرہ مارتے ہوئے حرمِ تن سے بیرون گِر گئی۔
 

حسان خان

لائبریرین
دلی که کُشتهٔ عشقِ رُخت نشد حَی نیست
چگونه زنده توان بود بی وُصولِ حیات

(سید عمادالدین نسیمی)
جو دل تمہارے چہرے کے عشق کا قتیل نہ ہوا، زندہ نہیں ہے۔۔۔ حیات کے وُصول کے بغیر کیسے زندہ رہا جا سکتا ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
خیالِ رُویِ تُرا عابدی که قبله نساخت
ز عابدان مشُمارش که می‌پرستد لات

(سید عمادالدین نسیمی)
جس عابد نے تمہارے چہرے کے خیال کو قبلہ نہ بنایا، اُس کو عابدوں میں سے شُمار مت کرو، کہ وہ لات کی پرستش کرتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
تو شاهِ عرصهٔ حُسنی و هر که دید رُخت
به یک پیادهٔ حُسنِ رُخِ تو شد شه مات

(سید عمادالدین نسیمی)
تم میدانِ حُسن کے شاہ ہو، اور جس نے بھی تمہارا چہرہ دیکھا، وہ تمہارے چہرے کے حُسن کے ایک پِیادے سے شاہ مات ہو گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
پیش از این بر دستِ قاتل بوسه کَی می‌زد کسی
این رُسومِ تازه را در عشق ما آورده‌ایم

(بهاءالدین محمد عبدی)
اِس سے قبل کب کوئی شخص دستِ قاتل کو بوسہ دیتا تھا؟۔۔۔۔ عشق میں اِن تازہ رُسوم کو ہم لائے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
آنچه اندر شرع باشد ناپسند
گِردِ او هرگز مگرد ای هوش‌مند

(منسوب به عطّار نیشابوری)
اے ہوش مند! جو چیز شریعت کے لحاظ سے مذموم و ناپسندیدہ ہو اُس کے گِرد ہرگز مت گھومو۔

(مأخوذ از: پندنامه)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
حالِ خود را از دو کس پنهان مدار
از طبیبِ حاذِق و از یارِ غار

(منسوب به عطّار نیشابوری)
دو اشخاص سے اپنے حال کو پِنہاں مت رکھو: طبیبِ ماہر سے، اور [اپنے] یارِ غار سے۔

(مأخوذ از: پندنامه)
 

حسان خان

لائبریرین
جز تو آزاد ندیدم که به این حُسنِ ادا
شعر گوید به زبانِ عرَبی و عجمی

(میر غلام‌علی آزاد بلگرامی)
اے 'آزاد'! میں نے تمہارے بجز [کوئی شخص] نہ دیکھا جو اِس حُسنِ ادا کے ساتھ عربی و فارسی میں شعر کہتا ہو۔
 
Top