مرے دل مرے مسافر (کتاب) از فیض احمد فیض

فرخ منظور

لائبریرین
مقتل میں نہ مسجد نہ خرابات میں کوئی
ہم کس کی امانت میں غمِ کارِ جہاں دیں

شاید کوئی ان میں سے کفن پھاڑ کے نکلے
اب جائیں شہیدوں کے مزاروں پہ اذاں دیں

بیروت 79 ؁

 

فرخ منظور

لائبریرین
پیرس

دن ڈھلا کوچہ و بازار میں صف بستہ ہوئیں
زرد رُو روشنیاں
ان میں ہر ایک کے کشکول سے برسیں رم جھم
اس بھرے شہر کی ناسودگیاں
دور پس منظرِ افلاک میں دھندلانے لگے
عظمتِ رفتہ کے نشاں
پیش منظر میں
کسی سایۂ دیوار سے لپٹا ہوا سایہ کوئی
دوسرے سائے کی موہوم سی امید لیے
روزمرہ کی طرح
زیرِ لب
شرحِ بےدردیِ ایّام کی تمہید لیے
اور کوئی اجنبی
ان روشنیوں سایوں سے کتراتا ہوا
اپنے بے خواب شبستاں کی طرف جاتا ہوا

پیرس ، اگست 1979 ؁
 

فرخ منظور

لائبریرین
قوّالی
جلا پھر صبر کا خرمن، پھر آہوں کا دھواں اٹھّا
ہوا پھر نذرِ صرصر ہر نشیمن کا ہر اِک تنکا

ہوئی پھر صبحِ ماتم آنسوؤں سے بھر گئے دریا
چلا پھر سوئے گردوں کاروانِ نالۂ شب ہا
ہر اِک جانب فضا میں پھر مچا کہرامِ یارب ہا

امڈ آئی کہیں سے پھر گھٹا وحشی زمانوں کی
فضا میں بجلیاں لہرائیں پھر سے تازیانوں کی
قلم ہونے لگی گردن قلم کے پاسبانوں کی
کھلا نیلام ذہنوں کا، لگی بولی زبانوں کی
لہو دینے لگا ہر اِک دہن میں بخیہِ لب ہا
چلا پھر سوئے گردوں کاروانِ نالۂ شب ہا

ستم کی آگ کا ایندھن بنے دل پھر سے، دادلہا!
یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں خداوندا
بنا پھرتا ہے ہر اِک مدّعی پیغام بر تیرا
ہر اِک بت کو صنم خانے میں دعویٰ ہے خدائی کا
خدا محفوظ رکھے از خداوندانِ مذہب ہا
چلا پھر سوئے گردوں کاروانِ نالۂ شب ہا

بیروت 1979ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
کیا کریں

مری تری نگاہ میں
جو لاکھ انتظار ہیں
جو میرے تیرے تن بدن میں
لاکھ دل فگار ہیں
جو میری تیری انگلیوں کی بے حسی سے
سب قلم نزار ہیں
جو میرے تیرے شہر کی
ہر اک گلی میں
میرے تیرے نقش ِ پا کے بے نشاں مزار ہیں
جو میری تیری رات کے
ستارے زخم زخم ہیں
جو میری تیری صبح کے
گلاب چاک چاک ہیں
یہ زخم سارے بے دوا
یہ چاک سارے بے رفو
کسی پہ راکھ چاند کی
کسی پہ اوس کا لہو
یہ ہے بھی یا نہیں، بتا
یہ ہے، کہ محض جال ہے
مرے تمہارے عنکبوتِ وہم کا بُنا ہوا
جو ہے تو اس کا کیا کریں
نہیں ہے تو بھی کیا کریں
بتا ، بتا ،
بتا ، بتا

بیروت 80 ؁
 

فرخ منظور

لائبریرین
دو نظمیں فلسطین کے لیے

فلسطینی شہدا جو پردیس میں کام آئے
(ا)
میں جہاں پر بھی گیا ارضِ وطن
تیری تذلیل کے داغوں کی جلن دل میں لیے
تیری حرمت کے چراغوں کی لگن دل میں لیے
تیری الفت، تری یادوں کی کسک ساتھ گئی
تیرے نارنج شگوفوں کی مہک ساتھ گئی
سارے اَن دیکھے رفیقوں کا جِلو ساتھ رہا
کتنے ہاتھوں سے ہم آغوش مرا ہاتھ رہا
دور پردیس کی بے مہر گذرگاہوں میں
اجنبی شہر کی بے نام و نشاں راہوں میں
جس زمیں پر بھی کھُلا میرے لہو کا پرچم
لہلہاتا ہے وہاں ارضِ فلسطیں کا عَلَم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد
میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد
بیروت ۸۰ ء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فلسطینی بچے کے لیے لوری

مت رو بچے
رو رو کے ابھی
تیری امی کی آنکھ لگی ہے
مت رو بچے
کچھ ہی پہلے
تیرے ابا نے
اپنے غم سے رخصت لی ہے
مت رو بچے
تیرا بھائی
اپنے خواب کی تتلی کے پیچھے
دور کہیں پردیس گیا ہے
مت رو بچے
تیری باجی کا
ڈولا پرائے دیس گیا ہے
مت رو بچے
تیرے آنگن میں
مردہ سورج نہلا کے گئے ہیں
چندرما دفنا کے گئے ہیں
مت رو بچے
امی، ابا، باجی، بھائی
چاند اور سورج
تو گر روئے گا
اور بھی تجھ کو رلوائیں گے
تو مسکائے گا تو شاید
سارے اک دن بھیس بدل کر
تجھ سے کھیلنے لوٹ آئیں گے

بیروت ۸۰ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
نذرِ حافظ
ناصحم گفت بجز غم چہ ہنر دارد عشق
بر وائے خواجۂ عاقلِ ہنرِ بہتر ازیں
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
قندِ دہن، کچھ اس سے زیادہ
لطفِ سخن، کچھ اس سے زیادہ

فصلِ خزاں میں لطفِ بہاراں
برگِ سمن کچھ اس سے زیادہ

حالِ چمن پر تلخ نوائی
مرغِ چمن، کچھ اس سے زیادہ

دل شکنی بھی، دلداری بھی
یادِ وطن، کچھ اس سے زیادہ

شمعِ بدن فانوسِ قبا میں
خوبیِ تن، کچھ اس سے زیادہ

عشق میں کیا ہے غم کے علاوہ
خواجۂ من، کچھ اس سے زیادہ

بیروت 80 ؁
 

فرخ منظور

لائبریرین
میرے ملنے والے

وہ در کھلا میرے غمکدے کا
وہ آ گئے میرے ملنے والے
وہ آگئی شام، اپنی راہوں میں
فرشِ افسردگی بچھانے
وہ آگئی رات چاند تاروں کو
اپنی آزردگی سنانے
وہ صبح آئی دمکتے نشتر سے
یاد کے زخم کو منانے
وہ دوپہر آئی آستیں میں
چھپائے شعلوں کے تازیانے
یہ آئے سب میرے ملنے والے
کہ جن سے دن رات واسطا ہے
پہ کون کب آیا، کب گیا ہے
نگاہ ودل کو خبر کہاں ہے
خیال سوئے وطن رواں ہے
سمندروں کی ایال تھامے
ہزار وہم وگماں سنبھالے
کئی طرح کے سوال تھامے
بیروت 80 ؁
 

فرخ منظور

لائبریرین
گاؤں کی سڑک

یہ دیس مفلس و نادار کج کلاہوں کا
یہ دیس بے زر و دینار بادشاہوں کا
کہ جس کی خاک میں قدرت ہے کیمیائی کی
یہ نائبانِ خداوندِ ارض کا مسکن
یہ نیک پاک بزرگوں کی روح کا مدفن
جہاں پہ چاند ستاروں نے جبّہ سائی کی
نہ جانے کتنے زمانوں سے اس کا ہر رستہ
مثالِ خانۂ بے خانماں تھا در بستہ

خوشا کہ آج بفضلِ خدا وہ دن آیا
کہ دستِ غیب نے اس گھر کی در کشائی کی

چنے گئے ہیں سبھی خار اس کی راہوں سے
سنی گئی ہے بالآخر برہنہ پائی کی

بیروت 80 ؁



 

فرخ منظور

لائبریرین
اب کے برس دستورِستم میں کیا کیا باب ایزاد ہوئے
جو قاتل تھے مقتول ہوئے، جو صید تھے اب صیّاد ہوئے
پہلے بھی خزاں میں باغ اجڑے پر یوں نہیں جیسے اب کے برس
سارے بوٹے پتہ پتہ روش روش برباد ہوئے
پہلے بھی طوافِ شمعِ وفا تھی، رسم محبت والوں کی
ہم تم سے پہلے بھی یہاں منصور ہوئے، فرہاد ہوئے
اک گل کے مرجھانے پر کیا گلشن میں کہرام مچا
اک چہرہ کمھلا جانے سے کتنے دل ناشاد ہوئے
فیض، نہ ہم یوسف نہ کوئی یعقوب جو ہم کو یاد کرے٭
اپنی کیا، کنعاں میں رہے یا مصر میں‌ جا آباد ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭ غنی روزِ سیاہ پیرِ کنعاں را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخا را
 

فرخ منظور

لائبریرین
غم بہ دل، شکر بہ لب، مست و غزل خواں چلیے
جب تلک ساتھ ترے عمرِ گریزاں چلیے

رحمتِ حق سے جو اس سَمت کبھی راہ ملے
سوئے جنّت بھی براہِ رہِ جاناں چلیے

نذر مانگے جو گلستاں سے خداوندِ جہاں
ساغرِ مے میں لیے خونِ بہاراں چلیے

جب ستانے لگے بے رنگیِ دیوارِ جہاں
نقش کرنے کوئی تصویرِ حسیناں چلیے

کچھ بھی ہو آئینۂ دل کو مصفّا رکھیے
جو بھی گزرے، مثلِ خسروِ دوراں چلیے

امتحاں جب بھی ہو منظور جگر داروں کا
محفلِ یار میں ہمراہِ رقیباں چلیے
 

فرخ منظور

لائبریرین
وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوفِ خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ جزا گیا

جو نفس تھا خارِگلو بنا، جو اٹھے تو ہاتھ لہو ہوئے
وہ نشاطِ آہ سحر گئی وہ وقارِ دستِ دعا گیا

نہ وہ رنگ فصلِ بہار کا، نہ روش وہ ابرِ بہار کی
جس ادا سے یار تھے آشنا وہ مزاجِ بادِ صبا گیا

جو طلب پہ عہدِ وفا کیا، تو وہ آبروئے وفا گئی
سرِ عام جب ہوئے مدّعی تو ثوابِ صدق و صفا گیا

ابھی بادباں کو تہہ رکھو ابھی مضطرب ہے رخِ ہوا
کسی راستے میں ہے منتظر وہ سکوں جو آکے چلا گیا

 

فرخ منظور

لائبریرین
ستم سکھلائے گا رسمِ وفا، ایسے نہیں ہوتا
صنم دکھلائیں گے راہِ خدا، ایسے نہیں ہوتا

گنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ہیں تن کے مقتل میں
مرے قاتل حسابِ خوں بہا ایسے نہیں ہوتا

جہانِ دل میں کام آتی ہیں تدبیریں نہ تعزیریں
یہاں پیمانِ تسلیم و رضا، ایسے نہیں ہوتا

ہر اک شب، ہر گھڑی گزرے قیامت، یوں تو ہوتا ہے
مگر ہر صبح ہو روزِ جزا ،ایسے نہیں ہوتا

رواں ہے نبضِ دوراں، گردشوں میں آسماں سارے
جو تم کہتے ہو سب کچھ ہو چکا، ایسے نہیں ہوتا

 
Top