قابل اجمیری نظم: آواز

حسنِ آغاز دے رہا ہے مجھے
لذتِ ساز دے رہا ہے مجھے
شوقِ پرواز دے رہا ہے مجھے

کوئی آواز دے رہا ہے مجھے

دامنِ انتظار پھیلا کر
وقت کے گیسوؤں کو لہرا کر
دلِ بیتاب کے قریب آ کر

کوئی آواز دے رہا ہے مجھے

ظلمت و ماہ سے گزر جاؤں
رہبر و راہ سے گزر جاؤں
نغمہ و آہ سے گزر جاؤں

کوئی آواز دے رہا ہے مجھے

محفلِ عیش و غم میں کیا ٹھہروں
بزمِ دیر و حرم میں کیا ٹھہروں
راہ کے پیچ و خم میں کیا ٹھہروں

کوئی آواز دے رہا ہے مجھے

عالمِ رنگ و بو سے بھی آگے
سرحدِ جستجو سے بھی آگے
منزلِ آرزو سے بھی آگے

کوئی آواز دے رہا ہے مجھے

شامِ دیجور ہو کہ صبحِ بہار
اجنبی شہر ہو کہ اپنا دیار
دل بہرحال ہے حریفِ قرار

کوئی آواز دے رہا ہے مجھے

نغمگی آ گئی ہے آہوں میں
پھول سے کھل اٹھے نگاہوں میں
زندگی کی حسین راہوں میں

کوئی آواز دے رہا ہے مجھے
٭٭٭
قابلؔ اجمیری
 
بہت خوب۔
تابش بھائی! کسی شاعر کی کتنی غزلیات پسندیدہ کلام کے زمرے میں شامل کر دیں تو اس کے نام کا فلیگ بن سکتا ہے؟
 
آخری تدوین:
اور اس شمولیت کی شرط کیا ہے؟
کوئی طے شدہ قاعدہ تو نہیں ہے۔ پہلے جس کی درخواست آتی تھی، اس کا جائزہ لے کر شامل کر دیتے تھے۔
ابھی ورکنگ جاری ہے، کچھ مزید نام شامل کرنے پر۔ بنیادی طور پر کلام کی تعداد، معیار وغیرہ دیکھ کر ہی فیصلہ کیا جاتا ہے۔
 
Top