محبت خوش گماں ہے

نوجوان نسل کے مشہور و مقبول شاعر اور ایف ایم ریڈیو کے مایہ ناز پریزینٹر جناب خلیل اللہ فاروقی کا پہلا شعری مجموعہ ”محبت خوش گماں ہے“ شائع ہو چکا ہے۔ جسے زبردست پزیرائی حاصل ہو رہی ہے اور مسلسل اس کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔







حاصل کرنے کے لیے:
45، پریس چیمبر، آئی،۔آئی چندریگر روڈ،
کراچی۔​
 

علمدار

محفلین
یہ کتاب پاکستان بھر کے بکس اسٹالز پر دستیاب ہے-
کراچی میں یہ کتاب درج ذیل مقامات سے حاصل کی جا سکتی ہے-

حسین نیوز ایجنسی، اخبار مارکیٹ کراچی
دانش کدہ، گلشن اقبال
ویلکم بک پوسٹ، اردو بازار
فضلی سنز، اردو بازار
مکتبہ عمران
 

علمدار

محفلین
بالکل، وہ بھی مل جائے گا- فی الحال تو میں بھی جو پہلے محفل پر اس کتاب سے پوسٹ کیا تھا وہ ڈھونڈ رہا ہوں کے گزارا ہو جائے باقی بعد میں پوسٹ کر دیں گے-
 

علمدار

محفلین
محبت کے تصوّر کو اگر تصویر کرنا ہے

محبت کے تصوّر کو اگر تصویر کرنا ہے
دھنک سے رنگ لے لینا
ستاروں سے دمک لینا
سحر سے روشنی لینا
گُلوں سے دلکشی لینا
مغنّی بلبلوں سے نغمگی لینا
علی الصبح جاگ جانا
اوس کے قطروں سے تم
پاکیزگی اور تازگی لینا
صباحت حور سے لینا
ملاحت تم مِرے محبوب سے لینا

ہزاروں بھید والے
کالے برِّاعظم کے تحیّر خیز خطے میں چلے جانا
بہت مخصوص جنگل میں
قلانچیں مارتے آہو کا رَم تسخیر کر لینا
اور اُس کے نافہ مغزن صفت سے
خوشبوئے جادو اثر لینا
جسے سب مُشک کہتے ہیں

لگے جب جنگلوں میں آگ
اس آتش کے شعلوں سے
غضب کی تم لپک لینا
سمندر سے تحمل، ضبط اور گہرائی لے لینا

محبت کے تصوّر کو اگر تصویر کرنا ہے

بہاروں سے یہ کہنا
اپنی شادابی تمھیں دے دیں
کسی سرسبز وادی میں
چمکتی جھیل پر جب کالے بادل جھوم کر چھائیں
ہوا رُک جائے
بارش کی بہت ننھی سی بے حد دلنشیں شہزادیاں
بوندوں کی نازک پالکی میں جب اُتر آئیں
تو یہ منظر چُرا لینا

یہ سارے رنگ اور منظر تمھارے ہاتھ آجائیں
مگر پھر بھی اُدھوری سی تمھیں تصویر لگتی ہو
طرب زارِ تمنا میں المناکی ضروری ہو
محبت کی اگر یہ مونا لیزا بن نہیں پائے
تو پھر اِک کام تم کرنا
مِرے ٹوٹے ہوئے دل کی
ہر اِک کرچی اُٹھا لینا
یہی جوہر تو اس تصویر میں
اِک روح پھونکے گا
محبت کے تصوّر کو اگر تصویر کرنا ہے....
 

علمدار

محفلین
میں ایسی محبت کرتا ہوں

ناکام نہیں ناشاد نہیں
میں قیس نہیں فرہاد نہیں
پُنّوں بھی نہیں رانجھا بھی نہیں
وامق بھی نہیں مرزا بھی نہیں
وہ لوگ تو بس افسانہ تھے
اِس شدّت سے بیگانہ تھے
میں زندہ ایک حقیقت ہوں
سرتاپا جذبہ¿ اُلفت ہوں
میں تم کو دیکھ کے جیتا ہوں
ہر لمحہ تم پہ مرتا ہوں
میں ایسی محبت کرتا ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟

”تم جہاں پہ بیٹھ کے جاتے ہو
جس چیز کو ہاتھ لگاتے ہو
میں وہیں پہ بیٹھا رہتا ہوں
اس چیز کو چُھوتا رہتا ہوں
میں ایسی محبت کرتا ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟

تم جس سے ہنس کے ملتے ہو
میں اس کو دوست بناتا ہوں
تم جس رستے پر چلتے ہو
میں اس سے آتا جاتا ہوں
میں ایسی محبت کرتا ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟

تم جن کو دیکھتے رہتے ہو
وہ خواب سرہانے رکھتا ہوں
میںتم سے ملنے جلنے کے
کتنے ہی بہانے رکھتا ہوں
میں ایسی محبت کرتاہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟“

کچھ خواب سجا کر آنکھوں میں
پلکوں سے موتی چُنتا ہوں
کوئی لمس اگر چُھو جائے تو
میں پہروں تم کو سوچتا ہوں
میں ایسی محبت کرتا ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو

جن لوگوں میں تم رہتے ہو
تم جن سے باتیں کرتے ہو
جو تم سے ہنس کے ملتے ہیں
جو تم کو اچھے لگتے ہیں
وہی مجھ کو اچھے لگتے ہیں
میں ایسی محبت کرتا ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟

جس باغ میں صبح کو جاتے ہو
جس سبزے پر تم چلتے ہو
جو شاخ تمھیں چُھو جاتی ہے
جو خوشبو تم کو بھاتی ہے
وہ اوس تمھارے چہرے پر
جو قطرہ قطرہ گرتی ہے
وہ تتلی چھوڑ کے پھولوں کو
جو تم سے ملنے آتی ہے
جو تم کو چھونے آتی ہے
ان سب کے نازک جذبوں میں
مِرے دل کی دھڑکن بستی ہے
مِری روح بھی شامل رہتی ہے
تم پاس رہو یا دُور رہو
نظروں میں سمائے رہتے ہو
میں تم کو تکتا رہتا ہوں
میں تم کو سوچتا رہتا ہوں
میں ایسی محبت کرتا ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟

جس کالج میں تم پڑھتے ہو
میں اس میں لیکچر دیتا ہوں
وہ کلاس جہاں تم ہوتے ہو
میں اس کو تکتا رہتا ہوں
جس کرسی پہ تم بیٹھتے ہو
میں اس کو چُھوتا رہتا ہوں

جو کاپی تم نے گم کی تھی
میں اپنے بیگ میں رکھتا ہوں
گدلا سا ایک ٹشو پیپر
جو تم نے کلاس میں چھوڑا تھا
وہ میرے پرس میں رہتا ہے
وہ میرے لمس میں رہتا ہے
وہ مخمل ہے وہ دیبا ہے
وہ چاندی ہے وہ سونا ہے
وہ عنبر ہے وہ صندل ہے
وہ خوشبو کا اِک جنگل ہے

ہر منظر میں ہر رستے پر
میں ساتھ تمھارے ہوتا ہوں
میں چشمِ تصور سے اکثر
بس تم کو دیکھتا رہتا ہوں
بس تم کو سوچتا رہتا ہوں
میں ایسی محبت کرتا ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟
 

علمدار

محفلین
میں ایسی محبت کرتی ہوں

شیریں بھی نہیں لیلیٰ بھی نہیں
میں ہیر نہیں عذرا بھی نہیں
وہ قصّہ ہیں افسانہ ہیں
وہ گیت ہیں پریم ترانہ ہیں
میں زندہ ایک حقیقت ہوں
میں جذبہ¿ عشق کی شدت ہوں
میں تم کو دیکھ کے جیتی ہوں
میں ہر پل تم پہ مرتی ہوں
میں ایسی محبت کرتی ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟

جب ہاتھ دُعا کو اُٹھتے ہیں
الفاظ کہیں کھو جاتے ہیں
بس دھیان تمھارا رہتا ہے
اور آنسو بہتے رہتے ہیں
ہر خواب تمھارا پورا ہو
اس رب کی منّت کرتی ہوں
میں ایسی محبت کرتی ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟

مجھے ٹھنڈک راس نہیں آتی
مجھے بارش سے خوف آتا ہے
پر جس دن سے معلوم ہوا
یہ موسم تم کو بھاتا ہے
اب جب بھی ساون آتا ہے
بارش میں بھیگتی رہتی ہوں
قطروں میں تمہی کو ڈھونڈتی ہوں
بوندوں سے تمھارا پوچھتی ہوں
میں ایسی محبت کرتی ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟

وہ فیض ہو میر ہو غالب ہو
وہ اصغر جگر ہو جالب ہو
وہ سیف عدیم ہو فرحت ہو
وہ ساجد ہو وہ امجد ہو
سب میری فہم سے بالا ہے
کیسا یہ کھیل نرالا ہے
ان سب کو گھنٹوں پڑھتی ہوں
میں ایسی محبت کرتی ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟

سب کہتے ہیں اس دنیا کا
ہر رنگ تمہی سے روشن ہے
مرے عشق کے دعویدار ہیں سب
سب مجھ کو دیوی کہتے ہیں
پر مجھ کو ایسا لگتا ہے
ہر رنگ تمہی پر جچتا ہے
تم نا ہو تو بیرنگ ہوں میں
بے رونق ہے تصویر مِری
مِرے جذبوں کی سچائی ہو تم
تم سے ہے جڑی تقدیر مِری
جو خاک تمھیں چُھو جاتی ہے
اس مٹی پر میں مرتی ہوں
میں ایسی محبت کرتی ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟
تم جب بھی گھر پر آتے ہو
اور سب سے باتیں کرتے ہو
میں اوٹ سے پردے کی جاناں
بس تم کو دیکھتی رہتی ہوں
اک تم کو دیکھنے کی خاطر
میں کتنی پاگل ہوتی ہوں
میں ایسی محبت کرتی ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو

جب دروازے پر دستک ہو
یا گھنٹی فون کی بجتی ہو
میں چھوڑ کے سب کچھ بھاگتی ہوں
پر تم کو جب نہیں پاتی ہوں
جی بھر کے رونے لگتی ہوں
میں ایسی محبت کرتی ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو
محفل میں کہیں جب جانا ہو
کپڑوں کا چناو¿ کرنا ہو
رنگوں کی دھنک سی بکھری ہو
اُس رنگ پہ دل آجاتا ہے
جو رنگ کہ تم کو بھاتا ہے
میں ایسی محبت کرتی ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو

روزانہ اپنے کالج میں
کسی اور کا لیکچر سنتے ہوئے
یا بریک کے خالی گھنٹے میں
سکھیوں سے باتیں کرتے ہوئے
مِرے دھیان میں تم آجاتے ہو
میں، میں نہیں رہتی پھر جاناں
میں تم میں گم ہو جاتی ہوں
بس خوابوں میں کھو جاتی ہوں
ان آنکھوں میں کھو جاتی ہوں
میں ایسی محبت کرتی ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو

جس چہرے پر بھی نظر پڑے
وہ چہرہ تم سا لگتا ہے
وہ شام ہو یا کے دھوپ سمے
سب کتنا بھلا سا لگتا ہے
جانے یہ کیسا نشّہ ہے
گرمی کا تپتا موسم بھی
جاڑے کا مہینہ لگتا ہے
میں ایسی محبت کرتی ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو

تم جب بھی سامنے آتے ہو
میں تم سے سننا چاہتی ہوں
اے کاش کبھی تم یہ کہہ دو
تم مجھ سے محبت کرتے ہو
تم مجھ کو بے حد چاہتے ہو
لیکن تم جانے کیوں چپ ہو
یہ سوچ کے دل گھبراتا ہے
ایسا تو نہیں ہے نا جاناں
سب میری نظر کا دھوکہ ہو
تم نے مجھ کو چاہا ہی نہ ہو
کوئی اور ہی دل میں رہتا ہو
میں تم سے پوچھنا چاہتی ہوں
میں تم سے کہنا چاہتی ہوں
لیکن کچھ پوچھ نہیں سکتی
مانا کہ محبت ہے پھر بھی
لب اپنے کھول نہیں سکتی
خوابوں میں بہت کچھ بولتی ہوں
پر سامنے چُپ ہی رہتی ہوں
میں لڑکی ہوں کیسے کہہ دوں
میں کیسی محبت کرتی ہوں
میں تم سے یہ کیسے پوچھوں
تم کیسی محبت کرتے ہو
میں ایسی محبت کرتی ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو
 

علمدار

محفلین
احساس
(ایک گداگر لڑکی)


میری آواز پہ کشکول کو بھرنے والو
میرے پندار کی قیمت ہیں تمھارے سکّے
روح کے کرب کا احساس نہیں تم کو
ہیں مِرے جسم کا معیار یہ سارے سکّے

رحم کے پردے میں پوشیدہ ہوسناکی ہے
ان نگاہوں کا ہر انداز سمجھ سکتی ہوں
مِرے کشکول میں اُبھری ہے چھنک سکّے کی
اس عنایت کا ہر اِک راز سمجھ سکتی ہوں

میں کہ معصوم سی اِک خوابزدہ لڑکی تھی
کتنے سپنوں کو سجایا تھا تمھیں کیا معلوم
معبدِ دل میں پرستش کی تمنا لے کر
کیسے چہرے کو بسایا تھا تمھیں کیا معلوم

سوچتی رہتی کہ شہزادہ کوئی آئے گا
مجھ کو اس وادی¿ ظلمت سے چُھڑانے کے لیے
مِرے ٹوٹے ہوئے پندار کی قسمت بن کر
میں جو بکھری ہوں مجھے پھر سے بنانے کے لیے

پھر مجھے مل گئی تعبیر مِرے سپنوں کی
دل نے چپکے سے کہا آگئی منزل تیری
ہم نے اقرار کیا ساتھ سدا رہنے کا
تُو ہوا میری طلب، میں بنی حاصل تیری

تم نے سوچا کہ مِرے ہاتھ کا ٹوٹا پیالہ
داغ بن جائے گا اس چاند سی پیشانی کا
یہ نہ سوچا کہ اگر تم نے سہارا نہ دیا
لوگ دیکھیں گے تماشہ مِری عریانی کا

وقت کے ساتھ مِرے جسم سے بیزار ہوئے
اور مجھے اپنی نگاہوں سے گرایا تم نے
مِری آغوش میں لیٹا ہے جو لاغر سا وجود
میری پیشانی پہ یہ داغ لگایا تم نے
 
جس دن یہ کتاب لی تھی اس دن یہ نظم پوسٹ کی تھی محفل میں ۔ ۔ابھی مکمل تو نہیں پڑھا ۔ ۔ ۔۔پر اس میں شامل یہ نظم ہمیشہ سے بہت اچھی لگتی ہے

" نظم"

مگر ابھی تک کوئی کمی ہے

بہت ہی مصروف زندگی میں

مشہور و معروف زندگی میں

خوشی سے بھرپور ساعتوں میں

ہزار طرح کی راحتوں میں

بدن میں گھلتی رفاقتوں میں

وصال آمادہ خلوتوں سے

بہت ہی ہولے سے چوری چپکے

ہر ایک رشتے سے بچ کے کٹ کے

کسی بھی بے سمت سے سفر پر

کسی بھی انجان رہگزر پر

میں چلتے چلتے یہ سوچتا ہوں

کہ ساری دنیا یہ جانتی ہے

بہت حسین میری زندگی ہے

مگر کسی کو میں کیا بتاؤں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

ہر ایک شے ہے وہی نہیں ہے

(خلیل اللہ فاروقی)

محبت خوش گماں ہے
(ص-55)



 
Top