برائے اصلاح

عشق اک کارِ عبث ہے جاناں
یوں ہی بےکار میں پڑ سکتا ہے

دیکھ یوں روز ملو نا مجھ سے
تو میرے پیار میں پڑ سکتا ہے

باغ میں پھول ابھی کِھلنے ہیں
وقت اظہار میں پڑ سکتا ہے

سید حیدر علی شاہ
 
ردیف سمجھ میں نہیں آئی۔ اشعار ویسے وزن میں تو درست ہیں۔
محترم آپ کی بات نہیں سمجھ سکا۔۔ مبتدی ہوں۔ ابھی صرف وزن ہی سیکھ رہا ہوں۔ خیال کو کس طرح اچھے سے باندھ سکتا ہوں۔۔ اس کیلیے استاد شعرا کو پڑھنا شروع کیا ہے۔ باقی ردیف اسی غرض ہونے سے ہے۔۔ یعنی کام پڑنا۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
لیکن مفہوم کچھ سمجھ میں نہیں آیا، ایسا لگتا ہے کہ جیسے ردیف طے کر کے سارے اشعار زبردستی کہے گئے ہیں۔ مثلاً پیار میں پڑنا ہی محاورہ نہیں، کجا پڑ سکنا!! پیار میں مبتلا ہونا درست محاورہ ہے۔
مکمل شعر میں ایک ہی ضمیر استعمال ہونی چاہیے۔ یہ نہیں کہ ایک مصرع میں تو، دوسرے میں تم۔
دیکھ یوں روز ملو نا مجھ سے
تو میرے پیار میں پڑ سکتا ہے
 
مکمل شعر میں ایک ہی ضمیر استعمال ہونی چاہیے۔ یہ نہیں کہ ایک مصرع میں تو، دوسرے میں تم۔
دیکھ یوں روز ملو نا مجھ سے
تو میرے پیار میں پڑ سکتا ہے
معذرت خواہ ہوں۔۔ کم علمی کی وجہ سے سمجھ نہیں پا رہا ہوں۔۔ یہاں تو کی جگہ تم سے تھوڑی درستی ہو جائیگی۔
امید ہے بُرا نہیں منائینگے۔۔
شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
برا کیوں مانوں گا؟
اگر ’تم پڑ سکتا ہے‘ درست ہے تو تو کی جگہ تم لایا جا سکتا ہے یہاں!!
 
Top