قصور:کمسن زینب کی نماز جناز ہ ادا، مظاہروں میں 2 افراد جاں بحق

فاخر رضا

محفلین
ان کی حکومت ہے، تو اس میں اگر کا کیا سوال ہے۔ یہ کام ان کے بس سے باہر کیسے ہے؟
یا ان کا بس صرف نہتے مظاہرین پر چلتا ہے۔
معاملہ عدالت میں ہے اور ماورائے عدالت اگر سزا دی گئی تو وہ بھی بجا نہیں ہوگا، سیاسی حوالے سے. مجھے معلوم ہے یہ صرف بیان بازیاں ہیں مگر یہ ان کی اس وقت مجبوری ہے
 
ان کی حکومت ہے، تو اس میں اگر کا کیا سوال ہے۔ یہ کام ان کے بس سے باہر کیسے ہے؟
یا ان کا بس صرف نہتے مظاہرین پر چلتا ہے۔
اصل میں آپکے خادم اعلیٰ کو وکٹ کے دونوں اطراف کھیلنے کا شوق ہے۔ صبح دفتر میں حکومت کرتے ہیں اور شام کو اسٹیج پر آکر اپوزیشن بن جاتے ہیں۔
 
قاتل کی گرفتاری پر تالیاں کیسی؟
ذیشان علیبی بی سی اردو، اسلام آباد

_99719426_4b87b0da-518f-41fe-a19f-24a219971736.jpg
تصویر کے کاپی رائٹFACEBOOK/MIAN SHEHBAZ SHARIF
رواں ماہ پنجاب کے شہر قصور سے ایک خبر سامنے آئی جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا، خبر ہی ایسی تھی۔ ایک سات سالہ بچی زینب کو انتہائی بے دردی سے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر کے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا گیا تھا۔

یہ خبر پہلے سوشل میڈیا پر آئی اس کے بعد نیوز چینلز اور پھر ہر گھر ہر زبان پر زینب کا زکر ہونے لگا۔ قصور میں پرتشدد مظاہرے اور توڑ پھوڑ بھی ہوئی اور ان سب کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ قاتل کو گرفتار کیا جائے۔

زینب امین خود تو نہ رہی اور چند دیگر خاندانوں کے زخم بھی تازہ کر گئی، جب تحقیقات کرنے والے حکام نے یہ کہا کہ زینب کا قاتل قصور میں ہی چند دیگر بچیوں کو بھی ریپ کے بعد قتل کرنے والا دکھائی دیتا ہے۔

زینب امین کے قاتل کی گرفتاری کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا ہے، اور اب عدالت سے اسے سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

قاتل گرفتار کر لیا گیا ہے اس بات کا اعلان کرنے کے لیے لاہور میں پریس کانفرنس کی گئی جس میں شرکت کے لیے زینب کے والد کو خصوصی طور پر قصور سے بلوایا گیا۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ زینب کے قتل کی تحقیقات 14 دن کی انتھک محنت کے بعد اختتام کو پہنچی ہے اور قاتل پکڑا گیا ہے۔

اس کے بعد وزیر اعلیٰ نے تحقیقات کرنے والے اہلکاروں سے کہا کہ وہ کھڑے ہو جائیں اور منہ میڈیا کے نمائندوں کی جانب کر لیں، انھوں نے ویسا ہی کیا اور پورے ہال میں تالیاں بجنے لگیں۔

تالیاں بجیں کیونکہ بقول وزیر اعلیٰ زنیب سمیت کئی دیگر بچیوں کی زندگی تباہ کرنے والا ’درندہ‘ پکڑا گیا ہے۔ لیکن تالیاں بجانے والوں نے ایک لمحے کو کیا سوچا ہو گا کہ اسی ہال میں اس زینب کا باپ بھی موجود ہے اسے یہ تالیاں کیسی لگیں گی؟

خیر پھر ان اہلکاروں سے کہا جاتا ہے کہ وہ بتائیں کہ کیسے انھوں نے ایک سیریل کلر اور ’درندے‘ کو پکڑنے میں مدد کی۔

ایک ہزار 150 ڈی این اے ٹیسٹ کرنے والے ڈی جی لیب جو پہلے سے ہی سلائیڈ شو تیار کر کے لائے تھے نے بتایا کہ کیسے انھوں نے ماضی کی طرح یہ کیس بھی حل کر دکھایا۔

لیکن جب باری آئی زینب امین کے والد کی تو صرف انھیں تحقیقاتی ٹیم،وزیراعلیٰ پنجاب، چیف جسٹس اور آرمی چیف کا شکریہ ادا کرنے کا موقع دیا گیا اور فوراً ان کا مائیک بند کر دیا گیا۔

سوشل میڈیا پر ردعمل
سوشل میڈیا پر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ پر ان کی ہنسی اور تالیوں کے حوالے سے کافی تنقید کی جا رہی ہے۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ زینب کے والد کے سٹیج پر بیٹھے ہوئے ان اعلیٰ عہدیداروں کا ہنسنا اور تالیاں بجانا نہایت غیر موزوں تھا۔

ٹویٹر پر کالم نگار مہر تارڑ نے لکھا ایک تصویر لگائی ہے جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیر قانون رانا ثنا اللہ کے علاوہ دیگر افراد کو ہنستے دکھایا گیا ہے جبکہ زینب کے والد بیچ میں سنجیدہ بیٹھے ہیں۔ اور انھوں نے لکھا ہے ’کچھ تو شرم کر لیں‘۔

نامور صحافی طلعت حسین نے ٹویٹ میں کہا کہ قصور کے ’سیریل کلر نے کم از کم سات مزید بچیوں کو نشانہ بنا کر مار ڈالا۔ شہباز شریف اس کا نشانہ بننے والی کم از کم ایک بچی کا نام تو لیتے اور ان کے خاندان والوں کو پریس کانفرنس میں بلاتے۔ لیکن وہ ایسا کیوں کریں گے؟ دیگر بچیاں اس وقت خبر نہیں ہیں۔‘

ایک اور صارف جیا جی نے ٹویٹ میں کہا شہباز شریف نے زینب کے والد کا مائیکرو فون بند کر دیا اور میڈیا کے سوالات کے جواب خود دیے۔

قاتل کی گرفتاری پر تالیاں کیسی؟
 
معاملہ عدالت میں ہے اور ماورائے عدالت اگر سزا دی گئی تو وہ بھی بجا نہیں ہوگا، سیاسی حوالے سے. مجھے معلوم ہے یہ صرف بیان بازیاں ہیں مگر یہ ان کی اس وقت مجبوری ہے
ڈاکٹر صاحب میں ہرگز جرم ثابت ہونے سے پہلے یا ماورائے عدالت کسی ایکشن کی بات نہیں کر رہا۔ کسے نہیں معلوم کہ پہلے اسی قسم کے درندے سیاسی چھتریوں کا سہارا لیتے ہوئے عدالت سے بری نہیں ہوئے۔
کیا قانونی اداروں اور ایجنسیوں کا کام کسی جرم کے انتہا پر پہنچنے اور میڈیا اور سوشل میڈیا پر واویلے کے بعد شروع ہوتا ہے؟ یہ ساری تحقیقات اور کارووائی پہلے واقعہ کے بعد ہی عمل میں آ گئی ہوتی تو اتنے گھر اجڑتے؟
اور اس کے بعد مظاہرے میں سیدھی فائرنگ سے جو دو افراد مارے گئے وہ کس قانون کے تحت مارے گئے، اور کیا وہ پولیس والے پکڑے گئے؟ وہاں گولی چلانا ان کے بس میں کیسے تھا؟
 

فاخر رضا

محفلین
محلے والے ہی درندے بن جائیں اور تمام دیگر افراد جو علاقے میں رہتے ہیں بےحس ہوجائیں تو کوئی بھی پولیس یا ایجنسی کیا کرسکتی ہے
پہلے یہ ہوتا تھا کہ کوئی بھی برا آدمی اول تو علاقے میں گھس نہیں سکتا تھا اور اگر گھس جاتا تو اسکا رہنا مشکل تھا
اس وقت نفسانفسی کا عالم ہے. باپ کو بیٹی کا نہیں پتہ، بھائی کو بہن کی خبر نہیں
وہی سوشل میڈیا والے اور مظاہرین جو سڑکوں پر نکلے وہ بھی قصور وار ہیں.
محلہ کمیٹیاں کیوں ختم ہوگئیں، بیٹھکیں کہاں ہیں. بزرگانِ محلہ کدھر سوئے ہوئے ہیں.
صرف حکومت قصور وار نہیں ہے اور نہ حکومت کی تبدیلی سے عمران (مجرم) جیسے لوگ ختم ہوجائیں گے
مظاہرین پر گولیاں نہیں چلانی چاہیئں تھیں یہ غلط ہوا. مگر امام حسین علیہ السلام کے قتل کے بعد توابین نکلے تھے، انہیں احساس گناہ تھا. مگر وہ ہرگز تاریخ میں مظلوم کربلا کی طرح جگہ نہ بنا سکے.
یہ مظاہرین اور سوشل میڈیا پر لکھنے والے، بشمول میرے، اپنے احساس گناہ کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں.
مگر ان تمام مظاہروں کے باوجود ان کی ذمہ داری کم نہیں ہوسکتی.
کم از کم اب تو ہر محلے میں امن و امان اور سیکورٹی کمیٹی بننی چاہیے. اب تو کسی اجنبی یا مشکوک شخص پر نظر رکھنے کا کوئی طریقہ کار وضع ہونا چاہیے
مگر مجھے اور آپ کو معلوم ہے کہ سب چین کی نیند سو جائیں گے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں
ایک شامی ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس حرم خدا میں آیا اور پوچھا کہ احرام میں مچھر مارنے کا کیا کفارہ ہے
ابن عباس نے لوگوں کے سامنے فرمایا کہ رسول کے نواسے کو بے دردی سے قتل پر نہیں پوچھا اور مچھر مارنے کا کفارہ پوچھ رہے ہو.
اسی طرح کچھ دن بعد لوگ اس معاملے کو بھول کر فقہی معاملات میں لڑ رہے ہونگے اور ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہونگے
 
محلے والے ہی درندے بن جائیں اور تمام دیگر افراد جو علاقے میں رہتے ہیں بےحس ہوجائیں تو کوئی بھی پولیس یا ایجنسی کیا کرسکتی ہے
پہلے یہ ہوتا تھا کہ کوئی بھی برا آدمی اول تو علاقے میں گھس نہیں سکتا تھا اور اگر گھس جاتا تو اسکا رہنا مشکل تھا
اس وقت نفسانفسی کا عالم ہے. باپ کو بیٹی کا نہیں پتہ، بھائی کو بہن کی خبر نہیں
وہی سوشل میڈیا والے اور مظاہرین جو سڑکوں پر نکلے وہ بھی قصور وار ہیں.
محلہ کمیٹیاں کیوں ختم ہوگئیں، بیٹھکیں کہاں ہیں. بزرگانِ محلہ کدھر سوئے ہوئے ہیں.
صرف حکومت قصور وار نہیں ہے اور نہ حکومت کی تبدیلی سے عمران (مجرم) جیسے لوگ ختم ہوجائیں گے
مظاہرین پر گولیاں نہیں چلانی چاہیئں تھیں یہ غلط ہوا. مگر امام حسین علیہ السلام کے قتل کے بعد توابین نکلے تھے، انہیں احساس گناہ تھا. مگر وہ ہرگز تاریخ میں مظلوم کربلا کی طرح جگہ نہ بنا سکے.
یہ مظاہرین اور سوشل میڈیا پر لکھنے والے، بشمول میرے، اپنے احساس گناہ کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں.
مگر ان تمام مظاہروں کے باوجود ان کی ذمہ داری کم نہیں ہوسکتی.
کم از کم اب تو ہر محلے میں امن و امان اور سیکورٹی کمیٹی بننی چاہیے. اب تو کسی اجنبی یا مشکوک شخص پر نظر رکھنے کا کوئی طریقہ کار وضع ہونا چاہیے
مگر مجھے اور آپ کو معلوم ہے کہ سب چین کی نیند سو جائیں گے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں
ایک شامی ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس حرم خدا میں آیا اور پوچھا کہ احرام میں مچھر مارنے کا کیا کفارہ ہے
ابن عباس نے لوگوں کے سامنے فرمایا کہ رسول کے نواسے کو بے دردی سے قتل پر نہیں پوچھا اور مچھر مارنے کا کفارہ پوچھ رہے ہو.
اسی طرح کچھ دن بعد لوگ اس معاملے کو بھول کر فقہی معاملات میں لڑ رہے ہونگے اور ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہونگے
آپ کی بات سے متفق ہوں۔
 
زینب قتل کیس، مجرم عمران کو 4 بار سزائے موت کا حکم
l_450119_011852_updates.jpg

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے زینب قتل کیس کے مجرم عمران کو 4 بار سزائے موت کا حکم دے دیا۔
فیصلہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج سجاد احمد نے سنایا۔
پراسیکیوٹر جنرل احتشام قادر نے بتایا کہ عمران کو زینب سے بدفعلی پر عمرقید اور 10 لاکھ روپے جرمانے جبکہ لاش کو گندگی کے ڈھیر پر پھینکے پر7سال قید اور 10 لاکھ جرمانےکی سزا بھی سنائی گئی۔
پراسیکیوٹر نے بتایا کہ مجرم کے پاس اپیل کرنےکے لیے 15 دن کا وقت ہے جبکہ وہ صدر پاکستان سے رحم کی اپیل کا حق بھی رکھتا ہے۔
فیصلے پر زینب کے والد امین انصاری نے مجرم کو سزا سنانے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے جبکہ زینب کی والدہ نے مجرم کو سرعام پھانسی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جس جگہ سے زینب کو اغوا کیا گیا اسی مقام پر مجرم عمران کو پھانسی دی جائے۔
مجرم عمران نے نو بچیوں کے ساتھ زیادتی کی تھی جن میں سے دو زندہ ہیں جبکہ سات کا انتقال ہوچکا ہے۔
پراسیکیوٹر جنرل کا کہنا ہے کہ ہم ان ممالک میں شامل ہو گئے ہیں جہاں سائنسی بنیادوں پر ثبوتوں پر سزا دی جاسکتی ہے۔
قصور کی کمسن مقتول زینب کے والد محمد امین کہتے ہیں کم سے کم وقت میں مقدمے کا فیصلہ آنا اچھی کوشش ہے، اس کے لیے وہ چیف جسٹس پاکستان کے شکر گزار ہیں۔
گزشتہ روز لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اہم کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ زینب کے قاتل کے خلاف جج سجاد احمد نے 4 روز تک روزانہ 9 سے 11گھنٹے سماعت کی،56 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔
ساڑھے گیا رہ سو افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد22 جنوری کو عمران علی پکڑا گیا جو اس کےمحلے میں رہتا ہے۔
ملزم عمران کا ڈی این اے زینب سمیت 8 بچیوں سے مل گیا،جو کہ گزشتہ 2سالوں میں قصور میں زیادتی کے بعد قتل کی گئی تھیں۔
پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ فرانزک رپورٹس کے مطابق عمران ہی زینب کا قاتل ہے۔
گزشتہ دنوں ملزم عمران کی جانب سے قصور کی کمسن بچی زینب کو درندگی کا نشانہ بنانے کے اعتراف کے بعد ملزم عمران کے وکیل نے اپنا وکالت نامہ واپس لے لیا تھا۔عمران کے وکیل کا کہنا تھا کہ اقرار جرم کے بعد ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ سفاک ملزم کا کیس لڑوں۔
انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کی جانب سے فیصلے سنانے کے موقع پر قصور کی کمسن مقتول زینب کے والد محمد امین بھی موجود تھے۔ جیل آمد کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ کم سے کم وقت میں مقدمے کا فیصلہ آنا اچھی کوشش ہے۔ اس کے لیے وہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے شکر گزار ہیں۔
واضح رہے کہ قصور کی 6 سالہ زینب4 جنوری کو اغواء ہوئی اور 9 جنوری کو لاش اس کے گھر سے کچھ فاصلے پر خالی پلاٹ سے ملی تھی۔
زینب کے میڈیکل سے یہ بات سامنے آئی کہ اسے زیادتی کے بعد قتل کیا گیاتھا ۔لاش ملتے ہی قصور کے شہری مشتعل ہو گئے تھے اورشہر بھر میں مظاہرے ہوئے جن میں2 افراد جان سے گئے۔ اہل علاقہ کے احتجاج اور میڈیا پر خبر کے بعد یہ ہائی پرو فائل کیس بن گیا۔سپریم کورٹ اور وزیراعلیٰ پنجاب نے واقعے کا فوری نوٹس لیا تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کسی بھی معاملے میں "پریزینٹیشن" انتہائی اہم ہوتی ہے اور ڈاکٹر شاہد مسعود نے یہیں خطا کی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس مسئلے کو اتنا غلط رنگ دے دیا اور اسے اس طرح کا سیاسی بنا دیا کہ نکتہ ٹھیک ہوتے ہوئے بھی کہیں دب گیا، مر مرا گیا اور بات کہیں سے کہیں چلی گئی۔ چائلڈ پورنو گرافی کا مسئلہ پاکستان میں دھیرے دھیرے سامنے آ رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے سرگودھا سے ایک شخص پکڑا گیا تھا جو بچوں کی فحش فلمیں بنا کر "ایکسپورٹ" کر رہا تھا۔ زینب کیس کے بعد جھنگ سے ایک انجینیئر پکڑا گیا جو یہی کام کر رہا تھا۔ اس کے بعد بھی کہیں ایک اور شخص پکڑا گیا۔ پاکستان میں ایسے لوگ اس وقت پکڑے جاتے ہیں جب دوسرے ملکوں کے ادارے کسی شخص کو پکڑ کو "سورس" پوچھتے ہیں اور پھر پاکستانی حکام کو اطلاع دیتے ہیں، حالانکہ پاکستانی اداروں کو خود اس مسئلے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لعنت کو ختم ہونا چاہیئے، لوگ انفرادی طور پر کر رہے ہیں یا کوئی ریکٹ یا مافیا ہیں، پاکستانی اداروں کو اس پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
 

سید رافع

محفلین
دل چاہتا ہے کہ بس اب زندگی بھر زینب کے بارے میں بات ہوتی رہے! کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ مجھ جیسا بڈھا کیوں زندہ ہے اور ننھی تتلی کیوں چلی گی! میں کبھی اس بات کو فراموش نہیں کر پاوں گا! دل کا ایک حصہ اب زینب کے نام ہو چکا! خیالات کی دھول چڑھ جاتی ہے لیکن بار بار تازہ ہو جاتا ہے غم۔ معلوم نہیں کیوں!
 
Top