زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

حسان خان

لائبریرین
مہربانی فرماکر ترجمہ کردیں
گرگ میراں سگ وزیراں موش را دیواں کند
ایں چنیں ارکانِ دولت ملک را ویراں کند
برادر، اوّلاً تو یہ شاعری ترجمہ کروانے کا دھاگا نہیں ہے بلکہ یہاں فارسی زبان سے تعلق رکھنے والے لغوی و لسانی موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے اور اُن کے بارے میں سوالات پوچھے جاتے ہیں، اور ثانیاً یہ کہ اگر آپ فارسی کے طالبِ علم ہیں تو کسی دوسرے کو ترجمہ کرنے کے لیے کہنے کی بجائے خود ترجمہ کرنے کی کوشش کیجیے، اور سِپس (پھر) اُس ترجمے کو تصحیح کے لیے پیش کیجیے۔ یہ زیادہ بہتر طریقہ ہے۔
 

اسيدرضا

محفلین
حسان بھائی طالب ہوں اس شعرکاترجمہ کرنے کی کوشش کی اغلاط پررہنمائی فرمادیں عنایت ہوگی
گرگ میراں سگ وزیراں موش را دیواں کند
ایں چنیں ارکانِ دولت ملک را ویراں کند
بھیڑیا حکمراں کتاوزیر چوہاوزیرخزانہ
اس جیسے حکومت کےارکان ہوں تو ملک تباہ ہوجاتے ہیں
 

حسان خان

لائبریرین
حسان بھائی طالب ہوں اس شعرکاترجمہ کرنے کی کوشش کی اغلاط پررہنمائی فرمادیں عنایت ہوگی
گرگ میراں سگ وزیراں موش را دیواں کند
ایں چنیں ارکانِ دولت ملک را ویراں کند
بھیڑیا حکمراں کتاوزیر چوہاوزیرخزانہ
اس جیسے حکومت کےارکان ہوں تو ملک تباہ ہوجاتے ہیں
جی، اِس بیت کا تقریباً یہی مفہوم نِکلے گا۔
(مصرعِ اوّل کا متن دستوری لحاظ سے عیب دار ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
مروارید
فارسی لفظ 'مروارید' (دُر، موتی) بھی تلفُّظ کے لِحاظ سے دارائے اِختلاف ہے۔ ماوراءالنہر میں یہ لفظ بہ فتحِ اوّل 'مَرواریِد' (marvârîd) تلفُّظ ہوتا ہے، جبکہ ایرانی فارسی میں اِس کا تلفُّظ 'مُروارِید' (morvârîd) ہے۔
اردو فرہنگوں میں یہ لفظ میم پر فتحہ کے ساتھ ثبت ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
مُعاصر فارسی میں نیند آ جانے کے لیے '(کسی را) خواب بُردن' بارہا استعمال ہوتا ہے، اور اِس کی گردان یوں ہوتی ہے:
خوابم بُرد = مجھے نیند آ گئی (لفظی معنی: خواب مجھ کو لے گیا)
خوابت بُرد = تم کو نیند آ گئی
خوابش بُرد = اُس کو نیند آ گئی
وعلیٰ ہٰذا القیاس۔
یہ گُفتاری محاورہ ادبی و کتابی فارسی میں بھی منتقل ہو گیا ہے۔

جبکہ، نیند آنے کے لیے 'خواب آمدن' استعمال ہوتا ہے، مثلاً:
خوابم می‌آید = مجھے نیند آتی/آ رہی ہے (گُفتاری تہرانی فارسی میں: خوابم می‌آد)

'مجھے نیند نہیں آتی' کے لیے 'خوابم نمی‌بَرَد' (گُفتاری تہرانی فارسی میں: خوابم نمی‌بَرِه) بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گُفتاری تہرانی فارسی کا ایک نمونہ اور اُس کا معیاری ایرانی فارسی اور اُردو میں برگردان:

"بِهِش گفتم تا نیومدم چیزی نگه. امّا اون هر چی از دهنش در اومده بِهِش گفته. صداش کردم که بِگم بِیاد بِشینه، امّا نیومد. یهویی چِشام به یه ماشین اُفتاد که می‌رف طرفِ خونه‌شون."

"به او گفتم تا نیامده‌ام چیزی نگوید. امّا او هر چه از دهانش درآمده به او گفته‌است. صدایش کردم که بِگویم بِیاید و بِنشیند، امّا نیامد. ناگهان چشمانم به یک ماشین که طرفِ خانه‌شان می‌رفت اُفتاد."

"میں نے اُس سے کہا کہ جب تک میں آ نہ جاؤں، وہ کوئی چیز نہ کہے۔ لیکن اُس نے جو چیز بھی اُس کے دہن سے نکلی وہ اُس سے کہہ دی ہے۔ میں نے اُس کو آواز دی کہ کہوں آئے اور بیٹھے، لیکن وہ نہ آیا۔ ناگہاں میری نظر ایک گاڑی پر پڑی جو اُن کے خانے (گھر) کی طرف جا رہی تھی۔"
 

حسان خان

لائبریرین
ماوراءالنہری فارسی میں شخصِ نادار و فقیر کے لیے تُرکی الاصل لفظ 'قشّاق' بھی استعمال ہوتا ہے، اگرچہ فی زمانِنا اِس لفظ کا استعمال وہاں کی ادبی زبان سے زیادہ گُفتاری زبانچوں میں ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مُعاصر ماوراءالنہری فارسی میں استعمال ہونے والے الفاظ کے معانی جاننے کے لیے تا حال بہترین فرہنگ 'فرهنگِ تفسیریِ زبانِ تاجیکی' ہے، جو ۲۰۱۰ء میں دو جلدوں میں تاجکستان میں شائع ہوئی تھی، اور جس میں تقریباً ۸۰ ہزار کلمات و عبارات مشمول ہیں۔ یہ کُل فرہنگ اب انٹرنیٹ پر بھی 'واژه‌جُو' کے نام سے ایک ویب گاہ کی شکل میں آ گئی ہے، جس سے بہ آسانی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ الفاظ فارسی رسم الخط میں لکھ کر بھی تلاش کیے جا سکتے ہیں، لیکن مُتأسفانہ اِس کے بجز دیگر تمام مندرجات روسی رسم الخط ہی میں ہیں۔
واژه‌جُو

نام بُردہ فرہنگ کی دونوں جلدوں کو یہاں سے بارگیری کیا جا سکتا ہے:

جلدِ اول
جلدِ دوم
 

حسان خان

لائبریرین
برادر محمد ریحان قریشی نے سوال پوچھا ہے کہ:
"حسان بھائی، توان کردن اور تواند کردن میں کیا فرق ہے؟"

جواب:
'توان/می‌توان کردن' (مصدرِ مُرخّم کے ساتھ: توان/می‌توان کرد) اور 'تواند/‌می‌تواند کردن' (مصدرِ مُرخّم کے ساتھ: تواند/می‌تواند کرد) کے درمیان فرق یہ ہے کہ اول الذکر غیر شخصی صیغہ ہے جس کے مفہوم کا اردو میں قریبی ترجمہ 'کیا جا سکے/کیا جا سکتا ہے' ہو گا، یعنی یہ فعل چھ دستوری اشخاص میں سے کسی کی جانب بھی راجِع نہیں ہے۔ انگریزی میں 'one can do' غیر شخصی مفہوم دے سکتا ہے۔
ایک مثال دیکھیے:
نه از جمالِ تو قطعِ نظر توان کردن
نه جز خیالِ تو فکرِ دگر توان کردن

(فُروغی بسطامی)
نہ تمہارے جمال سے قطعِ نظر کیا جا سکتا ہے، [اور] نہ تمہارے خیال کے بجز کوئی دیگر فکر کی جا سکتی ہے۔

جبکہ 'تواند/می‌تواند کرد/کردن' شخصِ سومِ مُفرد کا صیغہ ہے، جس کا اردو ترجمہ 'وہ کر سکے/کر سکتا ہے' ہے۔ اگرچہ مُعاصر فارسی میں یہ ساخت، بجز شاعری میں، استعمال نہیں ہوتی اور اُس کی بجائے 'می‌تواند بِکُند/کُند' (وہ کر سکتا ہے کہ کرے) کی ساخت رائج ہے، یعنی 'می‌تواند' کے بعد مصدرِ مُرخّم لانے کی بجائے فعل کو التزامی حالت میں لایا جاتا ہے۔
مثال:
خاکساری و تحمّل زِرهٔ داودی‌ست
شورشِ بحر به ساحل چه تواند کردن؟

(صائب تبریزی)
خاکساری و تحمّل زِرۂ داؤدی ہے؛ شورشِ بحر ساحل کے روبرو کیا کر سکتی ہے؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اِس ویڈیو میں پاکستانی ہزاراؤں کے فارسی زبانچے کا نمونہ سنا جا سکتا ہے۔ ہزاراؤں کے فارسی زبانچے کو 'ہزارگی' پکارا جاتا ہے، اور اُن کی گفتاری فارسی ایرانی و تہرانی فارسی سے بالکل مختلف ہے۔ لیکن ہزارہ، خصوصاً افغانستان کے ہزارہ، رسمی تحریروں میں معیاری کتابی فارسی ہی استعمال کرتے ہیں۔ پاکستانی ہزارہ چونکہ مکتبوں میں فارسی کی تعلیم حاصل نہیں کرتے، اس لیے شاید وہ تحریری زبان پر عبور نہ رکھتے ہوں۔
ظاہراً پاکستانی ہزارہ اپنی گفتاری فارسی میں کئی اردو اور انگریزی الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں، اور اُن کی گفتاری زبان اردو سے متأثر نظر آئی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
قفقازی آذربائجانی ادیب فریدون بیگ کؤچرلی اپنی کتاب 'آذربایجان ادبیاتې' (ادبیاتِ آذربائجان)، جو اُن کی وفات کے بعد ۱۹۲۵ء میں استانبول سے شائع ہوئی تھی، کی جلدِ اول میں لکھتے ہیں:

"گذشتہ زمانوں میں شوکت و قوت کی مالک دولتِ ایران نے مُدّتِ مدید تک تمام ولایتِ آذربائجان پر مِلکیت و حکمرانی کی ہے۔ آذربائجانی تُرکوں نے اِس دولتِ عظیمہ کی حکومت کے تحت کئی زمانوں تک زندگانی کی ہے۔ اِس وجہ سے آذربائجانی تُرکوں پر ایران کا نفوذ و اثر حد سے زیادہ ہوا ہے۔ یہ تأثیرات جس طرح ظاہری صورت میں یعنی ہیئت و قیافہ میں، طرزِ لباس و خوراک میں اور دیگر اوضاع و احوال میں اور امرِ معاش میں نظر آتی ہیں، اُسی طرح باطنی و معنوی صورت میں بھی ہوئی ہیں، جن کا مشاہدہ اخلاق و اطوار میں، رُسوم و آداب میں، لسان و ادبیات میں ہوتا ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ جو زبان آذربائجانی تُرکوں کو ہر زبان سے زیادہ پسند آئی ہے اور جس کی جانب اُنہوں نے سب سے زیادہ مَیل و رغبت دکھائی ہے وہ زبانِ فارسی ہے۔ "لفظ - لفظِ عرب است، فارسی - شَکَر است، تُرکی - هنر است" کہتے ہوئے ہمارے تُرکوں نے عربی زبان کی تعریف کی ہے اور تُرکی زبان میں بات کرنے کو ہُنر جانا ہے، لیکن اِن دونوں زبانوں سے زیادہ مَیل و رغبت اُنہوں نے 'شَکَر'، یعنی فارسی کی جانب دِکھائی ہے۔ اِس زبان کے بِسیار شیرین و خوش طرز ہونے کے بارے میں کسی شخص کو کوئی شُبہہ نہیں ہے۔ لہذا ہمارے مکاتب میں اِن آخر وقتوں تک تعلیم و تدریس فارسی زبان میں ہوتی رہی اور ہمارے اطفال فارسی کتابیں خوانتے (پڑھتے) رہے ہیں۔ ہمارے نوِشتہ جات اور مراسلات بھی اِس زبان میں جاری ہوتے رہے ہیں، اور تُرکی زبان کی جانب زیادہ مَیل و رغبت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ آذربائجان کے جو حصّے ایران میں ہیں، اُن میں ہنوز تعلیم و تدریس و کتابت فارسی زبان میں انجام پاتی ہے۔ قفقاز [یعنی قفقازی آذربائجان] میں مادری زبان نے محض چند زمانے قبل ہی آذربائجانی تُرکوں کی توجُّہ کو جلب کر کے اپنے لیے ایک طرح کا احترام و اہمیت کسب کرنا شروع کیا ہے۔"
(تُرکی متن دیکھیے۔)

میں خاص طور پر اقتباس کے اِس جملے کی طرف توجُّہ دلانا چاہتا ہوں:
"اِس زبان کے بِسیار شیرین و خوش طرز ہونے کے بارے میں کسی شخص کو کوئی شُبہہ نہیں ہے۔"
بے شک، یہ ایک فرد کی شخصی رائے ہے، اور اِس حَرف (بات) سے اُن اشخاص کو اختلاف ہو گا جو کسی سبب سے زبانِ فارسی کو پسند نہیں کرتے، لیکن بہرحال اِس سے یہ اندازہ ضرور ہو جاتا ہے کہ شُورَوی دور سے قبل کے قفقازی آذربائجانی اُدَباء و دانشمنداں فارسی کے بارے میں‌ کس طرز کے خیالات رکھتے تھے۔
 
آخری تدوین:
لغتنامہء دہخدا میں "چلیدن" کا معنی "روان شدن" درج ہے جو کہ اردو مصدر "چلنا" کے مترادف ہے، لیکن "چلاندن" کا معنی "فشار دادن، فشردن" درج ہے، جو شاید "چلانا" کے مفہوم سے مختلف نظر آرہا ہے۔۔۔۔کیا یہ درست ہے؟ اور کیا معاصر فارسی میں یہ دونوں مصادر کاربردہ ہوتے ہیں؟
 
قلم درکش ز دیوانِ نظیری
زبس سہوش نشان نتوان نہادن

دوسرے مصرع کا لفظی ترجمہ کیا ہوگا؟

حسان خان محمد وارث اریب آغا
لفظی ترجمہ یہ ہے
اس کے بہت بھولنے کی وجہ سے نشان نہیں رکھا جاسکتا... ا. مفہوم آپ خود بنائیے گا
میرے خیال میں یہاں سہو القلم کاربردہ ہوا ہے جس کا معنی ہے تحریر میں غلطی کرنا. شاید یہاں کاتب سے مخاطب ہوا جارہا ہے جو نظیری کا دیوان تحریر کرتے وقت بسیار خطاؤں کا ارتکاب کررہا ہے اور پھر ان جگہوں پر نشان لگادیتا ہے. نظیری شاید کہہ رہے ہیں کہ باید ان کے دیوان کو تحریر کرنا روکا جائے ازیں رو کہ غلطیوں کی کثرت کی وجہ سے ممکن نہیں کہ اتنے زیادہ نشان لگائے جاسکیں
استاداں محمد وارث اور حسان خان سے تصحیح کی درخواست ہے
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
«قلم درکَشیدن» تو فارسی شاعری میں کِنایتاً خطِ بُطلان کھینچنا، باطل کرنا، محو کرنا کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔
 
Top