محترم استاد الف عین صاحب
امجد علی راجا صاحب
ریحان قریشی صاحب

آنکھ سے آنکھ ملانا بھی ضروری ٹھہرا
اور دل اپنے کو بچانا بھی ضروری ٹھہرا


زندگی میں جو کبھی خواب نہیں دیکھا ہے
اس کی تعبیر بتانا بھی ضروری ٹھہرا

آنکھ سے اشک بہانے پہ لگا کے پہرے
غم کوئی دل میں جگانا بھی ضروری ٹھہرا
عشق کی آگ ضروری تھی مگر دنیا سے
آپ کا پیار چھپانا بھی ضروری ٹھہرا

کیا ستم ہے کہ بھنور سے ہی گزر کے مجھے
کشتی کو پار لگانا بھی ضروری ٹھہرا

جو مکاں ہم نے بنایا تھا زمیں پر جنت
اب اسے چھوڑ کے جانا بھی ضروری ٹھہرا

ایک مدت کی ریاضت سے جسے پایا تھا
اسے اک روز گنوانا بھی ضروری ٹھہرا

جو کبھی ہم نے زباں تک نہیں لایا عابد
اب وہی گیت سنانا بھی ضروری ٹھہرا
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں
اور دل اپنے کو بچانا بھی ضروری ٹھہرا
کو
اور دل اپنا بچانا بھی ضروری ٹھہرا
کہنے میں کیا حرج ہے؟ یوں رواں ہو جاتا ہے زیادہ۔

زندگی میں جو کبھی خواب نہیں دیکھا ہے
اس کی تعبیر بتانا بھی ضروری ٹھہرا
÷÷’خواب ہی نہیں دیکھا‘ کا محل ہے۔

آنکھ سے اشک بہانے پہ لگا کے پہرے
غم کوئی دل میں جگانا بھی ضروری ٹھہرا
÷÷میرا اصول ہے کہ جہاں ’کر‘ مکمل آ سکے، وہاں ’کے‘ استعمال نہ کیا جائے۔

عشق کی آگ ضروری تھی مگر دنیا سے
آپ کا پیار چھپانا بھی ضروری ٹھہرا
۔۔درست

کیا ستم ہے کہ بھنور سے ہی گزر کے مجھے
کشتی کو پار لگانا بھی ضروری ٹھہرا
۔۔پہلا مصرع بحر میں نہیں آتا، ہاں مجھے کی جگہ ’مجھ کو‘ سے آ سکتا ہے۔ شاید ٹائپو ہو۔

جو مکاں ہم نے بنایا تھا زمیں پر جنت
اب اسے چھوڑ کے جانا بھی ضروری ٹھہرا
÷÷جنت کی طرح کہنا چاہیے تھا۔ ورنہ سوال اٹھتا ہے کہ جنت نمائی تھی کہ مکان؟

ایک مدت کی ریاضت سے جسے پایا تھا
اسے اک روز گنوانا بھی ضروری ٹھہرا
۔۔ٹھیک

جو کبھی ہم نے زباں تک نہیں لایا عابد
اب وہی گیت سنانا بھی ضروری ٹھہرا
÷÷’ہم نے لایا‘ محاورہ غلط ہے۔
 
مطلع میں
اور دل اپنے کو بچانا بھی ضروری ٹھہرا
کو
اور دل اپنا بچانا بھی ضروری ٹھہرا
کہنے میں کیا حرج ہے؟ یوں رواں ہو جاتا ہے زیادہ۔

زندگی میں جو کبھی خواب نہیں دیکھا ہے
اس کی تعبیر بتانا بھی ضروری ٹھہرا
÷÷’خواب ہی نہیں دیکھا‘ کا محل ہے۔

آنکھ سے اشک بہانے پہ لگا کے پہرے
غم کوئی دل میں جگانا بھی ضروری ٹھہرا
÷÷میرا اصول ہے کہ جہاں ’کر‘ مکمل آ سکے، وہاں ’کے‘ استعمال نہ کیا جائے۔

عشق کی آگ ضروری تھی مگر دنیا سے
آپ کا پیار چھپانا بھی ضروری ٹھہرا
۔۔درست

کیا ستم ہے کہ بھنور سے ہی گزر کے مجھے
کشتی کو پار لگانا بھی ضروری ٹھہرا
۔۔پہلا مصرع بحر میں نہیں آتا، ہاں مجھے کی جگہ ’مجھ کو‘ سے آ سکتا ہے۔ شاید ٹائپو ہو۔

جو مکاں ہم نے بنایا تھا زمیں پر جنت
اب اسے چھوڑ کے جانا بھی ضروری ٹھہرا
÷÷جنت کی طرح کہنا چاہیے تھا۔ ورنہ سوال اٹھتا ہے کہ جنت نمائی تھی کہ مکان؟

ایک مدت کی ریاضت سے جسے پایا تھا
اسے اک روز گنوانا بھی ضروری ٹھہرا
۔۔ٹھیک

جو کبھی ہم نے زباں تک نہیں لایا عابد
اب وہی گیت سنانا بھی ضروری ٹھہرا
÷÷’ہم نے لایا‘ محاورہ غلط ہے۔
بہت نوازش سر ۔۔ انشاءاللہ بہتری کی کوشش کروں گا
 
خوب اصلاح فرمائی .لطف دوبالا ہوگیا
مطلع میں
اور دل اپنے کو بچانا بھی ضروری ٹھہرا
کو
اور دل اپنا بچانا بھی ضروری ٹھہرا
کہنے میں کیا حرج ہے؟ یوں رواں ہو جاتا ہے زیادہ۔

زندگی میں جو کبھی خواب نہیں دیکھا ہے
اس کی تعبیر بتانا بھی ضروری ٹھہرا
÷÷’خواب ہی نہیں دیکھا‘ کا محل ہے۔

آنکھ سے اشک بہانے پہ لگا کے پہرے
غم کوئی دل میں جگانا بھی ضروری ٹھہرا
÷÷میرا اصول ہے کہ جہاں ’کر‘ مکمل آ سکے، وہاں ’کے‘ استعمال نہ کیا جائے۔

عشق کی آگ ضروری تھی مگر دنیا سے
آپ کا پیار چھپانا بھی ضروری ٹھہرا
۔۔درست

کیا ستم ہے کہ بھنور سے ہی گزر کے مجھے
کشتی کو پار لگانا بھی ضروری ٹھہرا
۔۔پہلا مصرع بحر میں نہیں آتا، ہاں مجھے کی جگہ ’مجھ کو‘ سے آ سکتا ہے۔ شاید ٹائپو ہو۔

جو مکاں ہم نے بنایا تھا زمیں پر جنت
اب اسے چھوڑ کے جانا بھی ضروری ٹھہرا
÷÷جنت کی طرح کہنا چاہیے تھا۔ ورنہ سوال اٹھتا ہے کہ جنت نمائی تھی کہ مکان؟

ایک مدت کی ریاضت سے جسے پایا تھا
اسے اک روز گنوانا بھی ضروری ٹھہرا
۔۔ٹھیک

جو کبھی ہم نے زباں تک نہیں لایا عابد
اب وہی گیت سنانا بھی ضروری ٹھہرا
÷÷’ہم نے لایا‘ محاورہ غلط ہے۔
 
Top