قصور:کمسن زینب کی نماز جناز ہ ادا، مظاہروں میں 2 افراد جاں بحق

فاخر رضا

محفلین
بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ
سورہ تکویر کی یہ آیت ان بیٹیوں کے بارے میں ہے جنہیں زندہ گاڑھ دیا جاتا تھا
یہ ظلم زندہ گاڑھنے سے کہیں بڑا اور ہولناک ہے
جب زینب قیامت کے دن پوچھے گی کہ مجھے کس جرم میں زیادتی کرکے چار دن بعد گلا گھونٹ کر مار ڈالا. جب وہ رسول خدا کا دامن پکڑ کر شکایت لگائے گی کہ آپ کے امتی جو آپ کے نام پر جان دینے پر تیار رہتے تھے کہاں ہیں اور مجھے انصاف کیوں نہیں دلایا. جب وہ عرش کا پایا ہلا کر کہے گی کہ کیا میرا یہ قصور تھا کہ میں اس معاشرے میں پیدا ہوئی. کیا میرا قصور یہ تھا کہ میرے والدین تیرے گھر اور تیرے نبی کریم کی زیارت کے لئے گئے ہوئے تھے.
اگر کسی شخص کا دل یہ خبر سن کر پھٹ جائے تو جو حق پر مرا، کجا یہ کہ اس پر سیاست و بیان بازی ہو.
کیا آئی ایس آئی، سی آئی ڈی اور دیگر ایجنسیاں مفلوج ہوگئی ہیں
اب تو ان مردہ زمیروں کے سڑاند آنے لگی ہے
 
کیا ابھی تک کسی کو شک پر گرفتار کیا ہے؟
سی سی ٹی وی فوٹیج سے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی جاننے والا ہی تھا، کیونکہ بچی بہت اطمینان سے اس کے ساتھ جا رہی ہے۔ کیا ابھی تک محلہ داروں، رشتہ داروں نے شناخت نہیں کیا؟
 

الف نظامی

لائبریرین
سانحۂ قصور: قسامت کا اصول نافذ کیجیے۔
سانحۂ قصور پر ہر آنکھ اشک بار ہے۔ کئی دوست سخت ترین سزائیں نافذ کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری حکومتی مشینری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ مجرم/مجرموں کا تعین کرکے اس/ان کا جرم عدالت میں ثابت کرے اور پھر اسے/انھیں قرار واقعی سزا دی جائے۔

تاہم کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ مجرموں کے خلاف ثبوت نہیں ملتا، یا نہیں ڈھونڈا جاتا، یا نہیں پیش کیا جاتا، یا نہیں قبول کیا جاتا۔ پھر ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ عدمِ ثبوت کی بنا پر مجرم یا مجرموں کا بچ جانا قابلِ فہم ہے، شک کا فائدہ ملزم کو دینا بھی انصاف کا لازمی تقاضا ہے، لیکن کیا مظلوم کا خون رائیگاں جائے گا؟

اسلامی قانون نے اجتماعی ذمہ داری کا جو نظام دیا ہے اس کے اہم اجزا میں دیت اور قسامت کے تصورات بھی ہیں جن کو پوری طرح نافذ کیا جائے تو یقیناً ایسے گھناونے جرائم کی راہ روکی جاسکتی ہے۔

دیت کے متعلق یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اسلامی قانون کی رو سے قتلِ عمد یا طرفین کے درمیان صلح کے نتیجے میں طے پانے والی دیت کا ادا کرنا قاتل کی ذمہ داری ہے لیکن قتلِ خطا اور قتل کی دیگر اقسام میں دیت کا ادا کرنا قاتل کے اعوان و انصار کی، جنھیں اصطلاحاً "عاقلہ" کہا جاتا ہے، ذمہ داری ہوتی ہے۔
امام سرخسی یہ وضاحت کرتے ہوئے کہ عاقلہ کی یہ ذمہ داری انفرادی ذمہ داری کے عام اصول کے خلاف نہیں ہے، فرماتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات میں فعل کا ارتکاب کرنے والے سے جو کوتاہی یا لاپروائی سرزد ہوتی ہے اس کے پیچھے یہ خیال ہی کارفرما ہوتا ہے کہ میرے اعوان و انصار مجھے بچانے کےلیے موجود ہیں اور ان کے ہوتے کوئی مجھے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہر شخص کو اپنے خاندان اور متعلقین میں وہ بے وقوف اور غیر محتاط لوگ معلوم ہوتے ہیں جو غفلت یا لاپروائی کی وجہ سے دوسروں کو نقصان پہنچاسکتے ہیں اور اگر اس کے باوجود ایسے شخص کو وہ نہیں روکتا تو گویا وہ اسے اس غلط کام کی اجازت دیتا ہے۔ وہ مزید واضح کرتے ہیں کہ اعوان و انصار پر ایسے شخص کے فعل کے نتائج کی اجتماعی ذمہ داری ڈالی جائے تو وہ اسے حماقتوں سے روکتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ معاشرے میں جرائم میں کمی آتی ہے بلکہ ایک دوسرے کی مدد اور انسانی ہمدردی کے جذبے کو بھی تقویت ملتی ہے۔

قسامت کا تصور انھی دو اصولوں پر مبنی ہے: ایک یہ کہ انسانی خون رائیگاں نہیں جائے اور دوسرا جرائم کی روک تھام کےلیے اجتماعی ذمہ داری۔
چنانچہ شرعی نصوص کی بنیاد پر فقہاے کرام نے طے کیا ہے کہ اگر کسی علاقے میں لاش ملے اور قرائن سے معلوم ہوتا ہو کہ اسے قتل کیا گیا ہے تو اس علاقے پر جن لوگوں کا تسلط ہو ان سے قسمیں لی جائیں گی کہ نہ انھوں نے یہ قتل کیا ہے اور نہ ہی انھیں اس قتل کے متعلق کچھ معلوم ہے۔ قسمیں اٹھاچکنے کے بعد ان کی ذمہ داری ختم نہیں ہوجائے گی بلکہ ان پر لازم ہوگا کہ وہ اس مقتول کی دیت ادا کریں۔
واضح رہے کہ مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان میں دیت کا تصور تو ہے لیکن عاقلہ کے بغیر، اور قسامت کا تصور سرے سے مفقود ہے۔
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم اسلامی قانون کے ان تصورات کو اپنے معاشرے میں نافذ کرنے کی کوشش کریں؟
 
خبر میں کیوں تصویر فقط زینب کی ہے ؟
کچرے سے جو لاش ملی،ہم سب کی ہے

یہ جُملہ کہنے والوں پر لعنت ہو
صبر کریں، صاحب ! یہ مرضی رب کی ہے

گُڑیا کھیلنے والی گُڑیا پر حملہ ؟
یہ تعلیم بتاؤ کس مذہب کی ہے ؟

چہروں پر تو آج ہی ظاہر ہوئی مگر
باطن پر یہ کالک جانے کب کی ہے

زینب کے گھر جا اور تصویریں کھنچوا
شہر کے حاکم ! خبر ترے مطلب کی ہے

میرے دیس میں صُبح کب آئے گی فارس ؟
گلی گلی مکرُوہ سیاہی شب کی ہے
کلام : رحمن فارس
گوگل پلس سے ماخوز​
 
آخری تدوین:
خبر میں کیوں تصویر فقط زینب کی ہے ؟
کچرے سے جو لاش ملی،ہم سب کی ہے

یہ جُملہ کہنے والوں پر لعنت ہو
صبر کریں، صاحب ! یہ مرضی رب کی ہے

گُڑیا کھیلنے والی گُڑیا پر حملہ ؟
یہ تعلیم بتاؤ کس مذہب کی ہے ؟

چہروں پر تو آج ہی ظاہر ہوئی مگر
باطن پر یہ کالک جانے کب کی ہے

زینب کے گھر جا اور تصویریں کھنچوا
شہر کے حاکم ! خبر ترے مطلب کی ہے

میرے دیس میں صُبح کب آئے گی فارس ؟
گلی گلی مکرُوہ سیاہی شب کی ہے
گوگل پلس سے ماخوز​
شاعر: رحمٰن فارس
 
Screenshot_2018-01-11-10-02-47_mh1515646986767.jpg

یہ زیادہ پرانے نہیں، محض تین چار ماہ پرانے واقعات ہیں۔ اور یہ صرف وہ واقعات ہیں جو خبر بنے۔
کتنے واقعات ہمیں یاد ہیں؟ کتنوں کا غم و غصہ باقی ہے۔
بس دو تین دن کا اضطراب، پھر کوئی لایعنی خبر میڈیا کی زینت اور ہمارے تبصرے، ٹھٹھے شروع۔ ملزم اول تو پکڑا نہیں جانا۔ پکڑا بھی گیا، تو ضمانت ہو جانی ہے، ورنہ صدر نے تو معاف کر ہی دینا ہے۔
 
بس دو تین دن کا اضطراب، پھر کوئی لایعنی خبر میڈیا کی زینت اور ہمارے تبصرے، ٹھٹھے شروع۔ ملزم اول تو پکڑا نہیں جانا۔ پکڑا بھی گیا، تو ضمانت ہو جانی ہے، ورنہ صدر نے تو معاف کر ہی دینا ہے۔
یہ معاملہ صرف ملزمان تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک معاشرتی اخلاقی مسئلہ ہے جو ملزمان کو سزا دینے سے حل نہیں ہوگا۔ پچھلے دو ہفتوں میں یہ قصور میں ہونے والا 12واں واقعہ ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ کے مطابق ایک شخص کا میچ کئی بچوں سے ملا ہے لیکن سب سے نہیں۔ یعنی یہ کام کئی لوگ کر رہے ہیں۔ کس کس کو پکڑیں گے۔
 

فاخر رضا

محفلین
----------*زینب کی پکار* -----------
یہ ساری قوم سے زینب سوال کرتی ہے
وہ جاچکی ہے مگر اب سوال کرتی ہے

سوال ہے مرا قانون کے حوالوں سے
سوال یے مرا انصاف دینے والوں سے

سوال ہے مرا ملت کے حکمرانوں سے
سوال ہے مرا مذہب کے پاسبانوں سے

سوال ہے مرا اس قوم کے محافظ سے
سوال ہے مرا اہل کتاب و دانش سے

سوال ہے مرا اس قوم کے امیروں سے
سوال ہے مرا سب عالموں سے پیروں سے

سوال یے مرا دنیا کے ہر مسلماں سے
سوال ہے مرا ہر با ضمیر انساں سے

سوال ہے مرا تم سے اے بیٹیوں والو
سوال ہے مرا تم سے نبی(ص) کے متوالو

تمہیں خبر ہے قیامت جو مجھ پہ بیتی ہے
کہ جس میں بچی کوئی مرتی ہے نہ جیتی ہے

وہ پانج دن جو مصیبت کے مجھ پہ گزرے ہیں
بلا و کرب کے جو لمحے مجھ پہ گزرے ہیں

کروں بیان تو سب کا کلیجہ کٹ جائے
جو بیٹی والے ہیں ان کا تو دل ہی پھٹ جائے

یہ لوگ کہتے ہیں اہل قصور تھی زینب
قسم خدا کی بڑی بے قصور تھی زینب

کوئی بتائے تو مجھ کو مری خطا کیا ہے
درندگی کی بھلا اور انتہا کیا ہے

ستم کی چکی میں مظلوم روز پِستے ہیں
کوئی بتائے کہ ظالم کی یاں سزا کیا ہے

جو ظلم مجھ پہ ہوا وہ تو اب تمام ہوا
یہ بچیوں پہ تو ظلم و ستم مدام ہوا

خدا کے واسطے ان بچیوں پہ رحم کرو
خدا کے واسطے ان بیٹیوں سے پیار کرو

یہ بیٹیاں تو تمہارے خدا کی رحمت ہیں
نہ رحمتوں کو تم اتنا ذلیل و خوار کرو

کبھی تمہیں جو مرے سانحے کی یاد آئے
تو اپنی بیٹی سے آنکھیں چرا کے چپکے سے
چند ایک اشک مرے نام پر بہا لینا
جو شرم آئے تو پھر اپنا سر جھکا لینا

مگر سنو ! یہ مری آخری تمنا ہے
بلا کے دشت میں ان بھیڑیوں کے قبضے سے
یہ سادہ لوح سی کچھ ہرنیاں چھڑا لینا
بشر کے روپ میں پھرتے ہوئے درندوں سے
اب اور بیٹیاں للہ تم بچا لینا
*..............................(عزیر رضوی)*
 

زامر

محفلین
اپنی ناکامیوں پہ آخر کار

مسکرانا تو اختیار میں ہے

ہم ستاروں کی طرح ڈوب گئے

دن قیامت کے انتظار میں ہے

اے آدمِ اولاد تری درندگی پر حیوان بهی شرمنده هیں
 

ربیع م

محفلین
آج زینب کا قاتل پکڑا گیا. سب کو مبارک ہو
اللہ کرے حقیقی مجرم ہی ہو اور اگر اس کی پشت پناہی اور کوئی کر رہا ہے تو اسے ہی محض قربانی کا بکرا نہ بنایا جائے بلکہ اصل مجرم بھی انصاف کے کٹہرے میں لائے جائیں.
 
آخری تدوین:
آج زینب کا قاتل پکڑا گیا. سب کو مبارک ہو
قصور: سات سالہ بچی زینب سے’جنسی زیادتی اور اس کے قتل کا اہم مشتبہ ملزم گرفتار
_99705893_mediaitem99535086.jpg
تصویر کے کاپی رائٹPOLICE
پاکستان کے شہر قصور میں سات سال بچی زینب کے قتل کے کیس میں ہونی والی اہم پیش رفت کے حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف منگل کی شام کو ایک اہم پریس کانفرنس کرنے والے ہیں۔

لاہور سے موصول ہونے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حکام نے زینب کے قریبی رشتہ داروں کو قصور سے لاہور بلا لیا گیا ہے۔

قبل ازیں پنجاب کی حکومت کے ایک ترجمان نے بتایا تھا کہ زینب انصاری کیس میں پولیس نے ایک اہم گرفتاری کی ہے جس کی تفصیلات آئندہ چند گھنٹے میں ڈی این اے کی حتمی رپورٹ کے بعد فراہم کی جائیں گی۔

پولیس کے مطابق گرفتار کیا جانے والا ملزم قصور کے علاقے روڈ کوٹ کا ہی رہائشی ہے اور اسے پیر کی شب حراست میں لیا گیا۔

زینب انصاری کو رواں ماہ کے آغاز میں کوٹ روڈ پر واقع ان کی رہائش گاہ کے قریب سے اغوا کر لیا گیا تھا اور ان کی لاش چند دن بعد ایک کوڑے کے ڈھیر سے ملی تھی۔

زینب کی لاش ملنے کے بعد قصور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا جس کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔

اتوار کو چیف جسٹس نے اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے ادراوں کو مزید 72 گھنٹے کی حتمی مہلت دی تھی جو آج ختم ہو رہی ہے۔

پنجاب حکومت کے ترجمان محمد احمد خان نے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ ملزم کو اس سے پہلے بھی حراست میں لیا گیا تھا تاہم ابتدائی پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔

تاہم اب اسے دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ڈی این اے کی حتمی رپورٹ منگل کی شام چھ بجے تک متوقع ہے جس کے بعد مزید تفصیلات فراہم کی جائیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ ایسے شواہد ملے ہیں کہ جو اسے ملزم قرار دیتے ہیں، تاہم حتمی رپورٹ آنے کے بعد ہی درست طریقے سے تفتیش کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔‘

ترجمان حکومتِ پنجاب کے مطابق ملزم کو پولیس نے پاک پتن سے حراست میں لیا اور وہ حلیہ تبدیل کرتا رہتا تھا۔

تھانہ اے ڈویژن کی پولیس نے ملزم کو حکومتِ پنجاب کی جانب سے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے بھی پیش کیا ہے۔

محمد احمد خان کے مطابق زینب کیس کی تفتیش کے دوران قصور میں 600 افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا۔

خیال رہے کہ اس ملزم کی گرفتاری پر زینب ہی نہیں، ان سات بچیوں کے مقدمات کا حل بھی منحصر ہے جنہیں قصور میں گذشتہ دو برس کے دوران اِغوا کرنے کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ پولیس کے مطابق ان میں سے تین خوش قسمتی سے زندہ بچ گئیں۔
 
زیادتی کے بعد بے دردی سے قتل ہونے والی 8 سالہ کمسن زینب کا مبینہ قاتل گرفتار کرلیا

قصور میں 8 سالہ بچی زینب کے قتل کا مرکزی ملزم عمران گرفتارکرلیا گیا ہے۔ گرفتار شخص کا ڈی این اے زینب کے جسم سے ملنے والے ڈی این اے سے میچ کرگیا ہے۔ ملزم قصورمیں ہونے والے ہنگاموں کے دوران ہی پہلے پاک پتن فرار ہوا جس کے بعد وہ عارف والا چلا گیا تھا جبکہ اس نے اپنی داڑھی بھی منڈوالی تھی۔

پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ گرفتارملزم نے جرم کا اعتراف بھی کرلیا ہے جوزینب کا پڑوسی ہے اورکورٹ روڈ کا رہائشی ہے۔ اس سے قبل بھی ملزم کو پولیس کی جانب سے گرفتار کیا گیا تھا تاہم بعد میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ پولیس کی بھاری نفری عمران کے گھر کے باہر تعینات ہے جب کہ ملزم کے گھر والے نامعلوم مقام پر چلے گئے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران ہی کی نشاندہی پر ایک اور ملزم بھی پکڑا گیا ہے تاہم اس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔
ترجمان پنجاب حکومت ملک احمد خان نے بتایا کہ ملزم کی شناخت کے لیے کم از کم 600 افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا، ملزم عمران کابھی ڈی این اےٹیسٹ کیا گیا تھا، ملزم کو پاک پتن کے قریب سے گرفتار کیا گیا اور وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے اپنا حلیہ تبدیل کرتا رہا ہے۔ تفتیش کا سلسلہ تین چار پہلوؤں پر جاری ہے، ابتدائی رپورٹ کےمطابق تمام واقعات میں ایک ہی ملزم ملوث ہے، اس کے لئے ہمیں دیگر بچیوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کے ریکارڈ درکار ہیں۔ ملزم کے ڈی این اے کی تفصیلی رپورٹ کے لیے فرانزک لیب کو کچھ وقت درکار ہے، اس لئے شام کو تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔

واضح رہے کہ قصور میں 8 سالہ بچی زینب کو اغوا اور زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا تھا، بچی کی لاش کچرا کنڈی سے ملی تھی جس کے بعد ملک بھرمیں زینب کے اہل خانہ کوانصاف کی فراہمی کے لیے احتجاج کیا گیا تھا۔
 

فاخر رضا

محفلین
شہباز شریف نے کہا ہے کہ اگر ان کا بس چلے تو اس شخص کو چوک پر لٹکا دیا جائے
میرا دل بھی یہی ہے کہ اس کے ساتھ وہی سلوک ہو جو امیر مختار نے حرملہ کے ساتھ کیا تھا. حرملہ وہ شخص تھا جس نے حضرت علی اصغر علیہ السلام کو اس وقت تیر چلا کر قتل کیا جب امام حسین علیہ السلام ان کو گود میں لئے خیمے کے دروازے پر کھڑے تھے. پانی کے سوال پر تیر سے پیاس بجھائی گئی.
اس ننھی زینب کے ساتھ بھی بہت بڑا ظلم ہوا ہے اسے بھی ویسی ہی سزا ملنی چاہیے. جہنم میں تو وہ جلے گا ہی مگر اس دنیا میں بھی اسی عبرت کا نشان بننا چاہیئے.
 
Top