اسکول کے زمانے کی یادیں تازہ کریں

رانا

محفلین
پھر اس کے بعد کیا ہوا رانا صیب۔۔:rollingonthefloor:
پھر رات کو ابو کام سے واپس آئے اور ۔۔۔۔۔۔۔ آگے کے دُکھ تو ہمارے آپ کے مشترکہ ہی ہوں گے سمجھ جائیں۔:p
ساتھ یہ حکم صادر ہوا کہ ابھی جاکر کرن کے گھر سے معاشرتی علوم کی کاپی لاؤ اور پچھلا سارا ہوم ورک مکمل کرو۔ اب جب دوبارہ اسی کے گھر گئے کاپی مانگنے تو یہ بستی الگ بونس میں برداشت کی۔:)
 

رانا

محفلین
ویسے لگتا ہے کہ سکول کی ساری یاد سزاؤوں کے ارد گرد ہی ہے۔
ہمارے ایک اردو کے استاد تھے، جو مارنے سے زیادہ نصیحت پر یقین رکھتے تھے، لہٰذا ان کے آنے سے پہلے کلاس ضرور شور مچاتی تھی۔ اس طرح پیریڈ کے شروع کے پندرہ منٹ اس لیکچر میں گزر جاتے تھے، پھر پڑھائی کا وقت کم بچتا تھا۔

ایک اور ٹیچر مارتے یا مرغا تو نہیں بناتے تھے، مگر ذلیل اتنا کرتے تھے کہ ان سے ذلیل ہونے سے بہتر بندہ دو ڈنڈے کھا لے۔ اور سزائیں بھی انوکھی دیتے تھے۔ دو لڑکے باتیں کر رہے تھے تو ان میں سے ایک کا منہ دروازے سے باہر کی طرف کروا کر دوسرے کے ہاتھ میں ٹوٹی ہوئی کرسی کی پھٹی پہلے کے کاندھے پر رکھ کر گن کی طرح پکڑا دی۔
اب برآمدے سے گزرنے والا ہر فرد دیکھ کر پہلے تو چونکے، پھر ہنستا ہوا گزر جائے۔ :)
ہمارے اسکول میں جو سزائیں معروف تھیں ان میں الٹے ہاتھ پر کھڑے اسکیل سے مارنا، کلاس کے سامنے ہاتھ اوپر کرکے کھڑا ہونا اور منہ پر تھپڑ کھانا۔ اول الذکر دونوں سزاؤں سے ہماری جان جاتی تھی۔ خاص طور ہاتھ اوپر کرکے کھڑے ہونے کی سزا۔ جو شروع کے چند منٹ تو محسوس نہیں ہوتی تھی لیکن زیادہ دیر کھڑے رہنے پر دن کو تارے نظر آجاتے تھے۔:)
 

رانا

محفلین
ہاہاہا۔۔۔ نا بابا ایسے خوفناک ٹیچر ہمارے سکول میں نہیں تھے۔ وہاں شامت بوائز کی آتی تھی۔ گرلز کو صرف کھڑا کیا جاتا یا ہینڈ ریز۔۔ اس پر بھی گرلز رو رو کر برا حال کر لیتی اور ٹیچرز کو ترس آجاتا۔ :D
ہماری کلاس کی ساری گرلز سوائے ایک آدھ کے لائق اور پڑھنے والی تھیں جو ایک آدھ نالائق تھی وہ بھی ہوم پورا کرتی تھی اس لئے ان کو سزا کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔:)
 
آپ تو جانتے ہی ہوں گے کہ پاکستان میں یہ طریقہ بھی رہا ہے کہ جو بچے حافظ قرآن ہوں انہیں چھٹی جماعت میں بآسانی داخلہ مل جاتا تھا، میں جب حفظ سے فارغ ہوا تو چھٹی کلاس میں ہی داخل ہوا۔ سکول کے ماحول میں نیا تھا، لیکن دلچسپ چیزیں دیکھنے کو ملیں۔ ریاضی کے ماسٹر صاحب خاصے "باکمال" آدمی تھے۔ یوں تو ان کی بہت سی باتیں نرالی تھیں لیکن ایک بات آپ سے بیان کرتا ہوں۔
کتاب کے ابتدائی چیپٹر تو ماسٹر صاحب نے بخوبی پڑھالیے، جب ذرا مشکل ابواب آئے تو وہ گائیڈ لے کر بلیک بورڈ کے پاس کھڑے ہوجاتے اور گائیڈ سے پورا سوال مع جواب لکھ دیتے۔ پھر کلاس کی طرف متوجہ ہوکر پوچھتے "سمجھ آگیا؟" تجربہ کار طلباء سبھی بیک آواز کہتے "جی سر" اس کے بعد سوال مٹا کر اگلا سوال لکھا جاتا اور کلاس سے یہی سوال دہرایا جاتا۔ اور حسب معمول سب کہتے: جی!!!
ایک مرتبہ ماسٹر صاحب نے جب پوچھا تو ایک موٹے سے لڑکے نے ہاتھ کھڑا کیا اور کہا "سر! سمجھ نہیں آیا"
آہا!! ماسٹر صاحب کے چہرے کا رنگ بدل گیا، آواز کرخت ہوگئی۔ انہوں نے زور دار آواز میں کہا" کہاں سے سمجھ نہیں آیا؟ وہ غریب کیا بتاتا جسے الف سے ی تک کہیں سے بھی سمجھ نہیں آیا تھا۔ ماسٹر صاحب کا رنگ سرخ ہوگیا۔ انہوں نے اپنا مشہور زمانہ اٹھارہ سالہ ڈنڈا اٹھایا اور اس سے اس حیون شریف کو "خوب سمجھایا". پھر بلیک بورڈ پر اگلا سوال مع جواب لکھ کر پوچھا "سمجھ آیا؟"
جی!!!! سب نے بیک آواز کہا۔
 

ہادیہ

محفلین
پھر رات کو ابو کام سے واپس آئے اور ۔۔۔۔۔۔۔ آگے کے دُکھ تو ہمارے آپ کے مشترکہ ہی ہوں گے سمجھ جائیں۔:p
ساتھ یہ حکم صادر ہوا کہ ابھی جاکر کرن کے گھر سے معاشرتی علوم کی کاپی لاؤ اور پچھلا سارا ہوم ورک مکمل کرو۔ اب جب دوبارہ اسی کے گھر گئے کاپی مانگنے تو یہ بستی الگ بونس میں برداشت کی۔:)
ہاہاہا رانا صیب آپ نے اصل بات لکھی نہیں تھی نا۔ ویسے بھی ابو جی "پشاوری چپل" سے ویلکم کرتے ہیں نا۔۔ ایسے موقعوں پر:rollingonthefloor:
دکھ تو خیر ہمارے مشترکہ نہیں ۔ :laughing:البتہ ہم دکھ میں برابر کے شکریک ضرور ہوسکتے ہیں۔ :noxxx:
 

ہادیہ

محفلین
ہماری کلاس کی ساری گرلز سوائے ایک آدھ کے لائق اور پڑھنے والی تھیں جو ایک آدھ نالائق تھی وہ بھی ہوم پورا کرتی تھی اس لئے ان کو سزا کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔:)
ہماری کلاس میں شاید دو تھی جو پڑھنے میں تھوڑی نالائق تھیں۔ لیکن لڑکیوں کو سزا صرف ٹیسٹ میں اچھے مارکس نا لینے کی وجہ سے ہی ملتی تھی۔
 

ہادیہ

محفلین
آپ تو جانتے ہی ہوں گے کہ پاکستان میں یہ طریقہ بھی رہا ہے کہ جو بچے حافظ قرآن ہوں انہیں چھٹی جماعت میں بآسانی داخلہ مل جاتا تھا، میں جب حفظ سے فارغ ہوا تو چھٹی کلاس میں ہی داخل ہوا۔ سکول کے ماحول میں نیا تھا، لیکن دلچسپ چیزیں دیکھنے کو ملیں۔ ریاضی کے ماسٹر صاحب خاصے "باکمال" آدمی تھے۔ یوں تو ان کی بہت سی باتیں نرالی تھیں لیکن ایک بات آپ سے بیان کرتا ہوں۔
کتاب کے ابتدائی چیپٹر تو ماسٹر صاحب نے بخوبی پڑھالیے، جب ذرا مشکل ابواب آئے تو وہ گائیڈ لے کر بلیک بورڈ کے پاس کھڑے ہوجاتے اور گائیڈ سے پورا سوال مع جواب لکھ دیتے۔ پھر کلاس کی طرف متوجہ ہوکر پوچھتے "سمجھ آگیا؟" تجربہ کار طلباء سبھی بیک آواز کہتے "جی سر" اس کے بعد سوال مٹا کر اگلا سوال لکھا جاتا اور کلاس سے یہی سوال دہرایا جاتا۔ اور حسب معمول سب کہتے: جی!!!
ایک مرتبہ ماسٹر صاحب نے جب پوچھا تو ایک موٹے سے لڑکے نے ہاتھ کھڑا کیا اور کہا "سر! سمجھ نہیں آیا"
آہا!! ماسٹر صاحب کے چہرے کا رنگ بدل گیا، آواز کرخت ہوگئی۔ انہوں نے زور دار آواز میں کہا" کہاں سے سمجھ نہیں آیا؟ وہ غریب کیا بتاتا جسے الف سے ی تک کہیں سے بھی سمجھ نہیں آیا تھا۔ ماسٹر صاحب کا رنگ سرخ ہوگیا۔ انہوں نے اپنا مشہور زمانہ اٹھارہ سالہ ڈنڈا اٹھایا اور اس سے اس حیون شریف کو "خوب سمجھایا". پھر بلیک بورڈ پر اگلا سوال مع جواب لکھ کر پوچھا "سمجھ آیا؟"
جی!!!! سب نے بیک آواز کہا۔
کہیں سوال پوچھنے والے آپ ہی تو نہیں تھے۔۔:laugh:
 
کہیں سوال پوچھنے والے آپ ہی تو نہیں تھے۔۔:laugh:
میری کیا ہمت!! میرا تو آخری دن ہوتا اگر میری وہ گت بنی ہوتی۔ البتہ وہ گول مٹول میرے بالکل پیچھے ہی بیٹھتا تھا۔ کافی محنتی تھا۔ جب ماسٹر صاحب ڈنڈا لے کر آئے تو میرا تو "تراہ"ہی نکل گیا تھا۔
 

ہادیہ

محفلین
سکول سے ہٹ کر یہ سزا ملی تھی۔ قاری صاحب کی طرف سے۔قاری صاحب نے پوچھا۔ نماز کس کس نے پڑھی ہے ۔ ظاہر ہے بچے تھے تو پابندی تو بالکل نہیں تھی۔ کسی نے بھی نہیں پڑھی تھی۔ قاری صاحب بہت اچھے انسان نرم دل تھے۔ سب (بہن بھائیوں) کو کھڑا کردیا۔ ہم سب کی ہنسی نکل رہی تھی۔ قاری صاحب کا مخصوص لہجہ
"خلا خبیث آ ۔۔ ہسدے او۔۔ " ۔۔ وہ پہلی سزا تھی جو قاری صاحب سے ملی تھی۔ :rollingonthefloor:
 
آخری تدوین:

رانا

محفلین
ہاہاہا رانا صیب آپ نے اصل بات لکھی نہیں تھی نا۔ ویسے بھی ابو جی "پشاوری چپل" سے ویلکم کرتے ہیں نا۔۔ ایسے موقعوں پر:rollingonthefloor:
دکھ تو خیر ہمارے مشترکہ نہیں ۔ :laughing:البتہ ہم دکھ میں برابر کے شکریک ضرور ہوسکتے ہیں۔ :noxxx:
ہر بات لکھنے کی تھوڑا ہی ہوتی ہے-:laughing:
 

فاتح

لائبریرین
اسے پپی لو کہا جاتا ہے۔ یہ عشق کی ایک بچگانہ قسم ہے۔ یہ زیادہ سیریس نہ ہواس سے بچاؤ کیلئے عموماً پاکستان میں پرائمری کے بعد خواتین ٹیچرز کی تعداد کم کر دی جاتی ہے۔
اور اگر سیریس ہو جائے تو فرانس کے صدر اور ان کی اہلیہ کی طرح کا واقعہ بن جاتا ہے۔
 
بھیا آپ سکول نہیں گئے کیا؟:p:D
جی بہنا ہم تو اکثر جاتے تھے اور اسکول کا دور ہمارا بھی دیگر محفلین سے کچھ ملتا جلتا ہی ہے۔ان شاء اللہ کام سے فارغ ہوکر حاضر ہوتا ہوں ۔جب تک کے لیے رسید حاضر ہے گزارا کریں۔
 

رانا

محفلین
او مائی گاڈ :eek: اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تو نے پانچویں جماعت کے بعد عقل دے دی۔:p
شائد ایک وجہ یہ بھی تھی کہ چھٹی جماعت سے ہماری کلاس ٹیچرز کچھ زیادہ ہی بڑی عمر کی ہوتی تھیں۔ اگر وہی پانچویں جماعت والی ہوتیں تو وہ تو ہمیں بہت اچھی لگتی تھیں حالانکہ ہوم ورک نہ کرنے پر ہمیں ہاتھوں کی پشت پر کھڑے سکیل سے مارتی تھیں۔:)
 

رانا

محفلین
ویسے فاتح بھائی عموما شاعر بچپن سے ہی شاعرانہ اور شائد عاشقانہ مزاج بھی رکھتے ہیں۔ اس لئے آپ کے بارے میں ہم تصور کرسکتے ہیں کہ آپ کی اسکول لائف کیسی گزرتی ہوگی۔:)

کلاس ٹیچر سے عشق کچھ ایسے فرمایا جاتا ہوگا۔۔۔

روز مرّہ کی ضرورت کی طرح صبح و مسا
میں تجھے مثلِ چراغ اور سحر چاہتا ہوں:)

اور کلاس ٹیچر نے پرنسپل آفس میں بلا کر قیاس غالب ہے کہ مرغا بنایا ہوگا۔:) جب باہر آئے ہوں گے تو کلاس فیلوز نے حسب معمول پوچھا ہوگا کہ اندر کیا ہوا تھا کہ یہ پرتجسس سوال تو یونیورسٹی تک پیچھا نہیں چھوڑتا۔ آپ کا جواب کچھ ایسا ہوتا ہوگا۔۔۔

اس نے کیا تھا مجھ سے بس یہ سوال فاتح
کیوں عشق بن گیا ہے جاں کا وبال فاتح:)

ہوم ورک نہ کرنے پر جب ٹیچر پٹائی کرتی ہوں گی تو ہم تو روایتی انداز میں رونا شروع کرتے تھے لیکن قیاس کہتا ہے کہ آپ رونے سے پہلے غالبا ایک نعرہ لگاتے ہوں گے۔۔۔

آتش فشانِ ہجر کی غارت گری بجا
تُو آسماں زمین پہ اب ٹوٹتے بھی دیکھ:)

کسی کلاس فیلو کو ہوم ورک نہ کرنے پر ٹیچر ڈانٹ رہی ہیں کہ کیا کرتے رہے پورا دن تو جناب لقمہ بھی دیتے ہوں گے۔۔۔

خواب میں محوِ خواب میرے ساتھ
رات بھر تھے جناب میرے ساتھ:)

اسکول دیر سے پہنچنا اور ڈانٹ کھانا تو ہم سب بچوں کا مشترکہ دکھ ہوتا تھا لیکن آپ کچھ اس طرح ٹیچر کو صفائی پیش کرتے ہوں گے۔۔۔

جانے میری بلا کیوں تاخیر ہو گئی
جو بھی تھی علّتِ التوا، معذرت:)

اور جیسے ہم نے اپنا واقعہ ذکر کیا کہ ایک لڑکے نے ہم کو لڑائی چیلنج دے دیا تھا ۔ ہم نے تو سادہ الفاظ میں قبول کیا تھا لیکن آپ کا انداز غالبا یہ ہوتا ہوگا۔۔۔

اٹھّے گا حشر، شام کا بازار دیکھنا
گرتی ہے کس کے ہاتھ سے تلوار، دیکھنا:)

اگر ایسا نہیں ہوتا تھا تو پھر اپنے اصلی والے وقعات شئیر کریں۔:p
 
آخری تدوین:
رانا بھیا نے زبردست اور عمدہ موزوں پر دھاگے کا آغاز کیا ہے،تعلیمی دور چاہے اسکول ،کالج کا ہو یا یونیورسٹی کا ہر طالب علم کے لیے یادگار ہوتا ہے،پڑھائی لکھائی کے ساتھ ساتھ کلاس فیلوز کے ساتھ گزرا وقت زندگی کا وہ یادگار دور ہوتا ہے جس میں دنیاوی ریا کاری اور خود غرضی نہیں ہوتی ۔
الحمدللہ اسکول کے زمانے میں چوتھی کلاس سے دور طالبعلمی کے ہنگامہ خیز ماحول کا آغاز ہوا۔ہم نے نرسری سے میٹرک تک کی تعلیم پرائیوٹ اسکول میں حاصل کی،مخلوط تعلیمی نظام کی وجہ سے بھی تھوڑا طبعیت میں ہیرو گیری نے اپنی جگہ بنالی تھی ،جو وقت کے ساتھ ساتھ زندگی کے نشیب و فراز کی وجہ سے مزید پختہ ہوتی چلی گئی۔
پانچویں کلاس سے نالائق طالب علم میں ہماری شمولیت ہوچکی تھی،انگلش ،سندھی ،انگلش گرامر کے اساتذہ سے ہماری دشمنی کے سنہری دور کا آغاز ہو چکا تھا۔وہ لوگ ہمیں ہر صورت میں پڑھانا چاہتے تھے اور ہم کسی بھی صورت میں اُن کو چکر دے کر اپنی جان بچانے کے موقع تلاش کرتے تھے مگر استاد استاد ہوتا ہے ہمیشہ ہم اپنی تخریب کاری میں ناکام ہوجاتے تھے اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہتی۔
چھٹی کلاس سے ہمارا نام چھٹے ہوئے نالائقوں کی فہرست میں سرفہرست پر تھا۔اساتذہ کی پرتشدود رویے کی بناء پر اپنے ہم خیال کلاس فیلوز کے ساتھ مل کر اسکول میں گروپ بنا ڈالا اور کیونکہ ہم سے روز روز کی مارپیٹ تنہا برداشت نہیں ہوتی تھی اپنی سنگت کی ساتھ استاد کی مارپیٹ میں ہمیں کم مار پڑھتی۔ہمیں مرغا بنائےجانا تو شاید استاد کے لیے کھیل کی مانند ہو گیا تھا۔اکثراوقات تو ہماری عام حالات میں مرغوں جیسی کیفیت ہونے لگتی تھی ،کڑوں کڑوں کی آوازیں بے اختیار حلق سے برآمد ہونے لگتی ،والدین اور اساتذہ ہمیں ہر صورت میں سدھارنا چاہتے تھے مگر ڈھٹائی کے جراثیم ہمیشہ غالب رہتے تھے۔چھٹی کلاس کی اختتامی دور میں ہم اسکول سے پر اسرارطور پر غائب ہونے کے فن سے آشنا ہو چکے تھے۔
 

فاتح

لائبریرین
ویسے فاتح بھائی عموما شاعر بچپن سے ہی شاعرانہ اور شائد عاشقانہ مزاج بھی رکھتے ہیں۔ اس لئے آپ کے بارے میں ہم تصور کرسکتے ہیں کہ آپ کی اسکول لائف کیسی گزرتی ہوگی۔:)

کلاس ٹیچر سے عشق کچھ ایسے فرمایا جاتا ہوگا۔۔۔

روز مرّہ کی ضرورت کی طرح صبح و مسا
میں تجھے مثلِ چراغ اور سحر چاہتا ہوں:)

اور کلاس ٹیچر نے پرنسپل آفس میں بلا کر قیاس غالب ہے کہ مرغا بنایا ہوگا۔:) جب باہر آئے ہوں گے تو کلاس فیلوز نے حسب معمول پوچھا ہوگا کہ اندر کیا ہوا تھا کہ یہ پرتجسس سوال تو یونیورسٹی تک پیچھا نہیں چھوڑتا۔ آپ کا جواب کچھ ایسا ہوتا ہوگا۔۔۔

اس نے کیا تھا مجھ سے بس یہ سوال فاتح
کیوں عشق بن گیا ہے جاں کا وبال فاتح:)

ہوم ورک نہ کرنے پر جب ٹیچر پٹائی کرتی ہوں گی تو ہم تو روایتی انداز میں رونا شروع کرتے تھے لیکن قیاس کہتا ہے کہ آپ رونے سے پہلے غالبا ایک نعرہ لگاتے ہوں گے۔۔۔

آتش فشانِ ہجر کی غارت گری بجا
تُو آسماں زمین پہ اب ٹوٹتے بھی دیکھ:)

کسی کلاس فیلو کو ہوم ورک نہ کرنے پر ٹیچر ڈانٹ رہی ہیں کہ کیا کرتے رہے پورا دن تو جناب لقمہ بھی دیتے ہوں گے۔۔۔

خواب میں محوِ خواب میرے ساتھ
رات بھر تھے جناب میرے ساتھ:)

اسکول دیر سے پہنچنا اور ڈانٹ کھانا تو ہم سب بچوں کا مشترکہ دکھ ہوتا تھا لیکن آپ کچھ اس طرح ٹیچر کو صفائی پیش کرتے ہوں گے۔۔۔

جانے میری بلا کیوں تاخیر ہو گئی
جو بھی تھی علّتِ التوا، معذرت:)

اور جیسے ہم نے اپنا واقعہ ذکر کیا کہ ایک لڑکے نے ہم کو لڑائی چیلنج دے دیا تھا ۔ ہم نے تو سادہ الفاظ میں قبول کیا تھا لیکن آپ کا انداز غالبا یہ ہوتا ہوگا۔۔۔

اٹھّے گا حشر، شام کا بازار دیکھنا
گرتی ہے کس کے ہاتھ سے تلوار، دیکھنا:)

اگر ایسا نہیں ہوتا تھا تو پھر اپنے اصلی والے وقعات شئیر کریں۔:p
ہاہاہاہاہاہا :laughing:
آپ نے میرے اشعار کو جس عمدگی سے تصوراتی واقعات پر چسپاں کیا ہے اس سے تو مجھے خود بعض اوقات یہ لگا کہ میں نے واقعی یہ اشعار انھی مواقع پر کہے تھے۔ :laughing:
میرے ساتھ ٹیچرز پر فدا ہونے کا ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا شاید اس کی وجہ یہ رہی کہ میں ہمیشہ سرکاری سکولوں سے ہی پڑھا ہوں اور پہلی جماعت سے چوتھی جماعت تک میرے چچا ہی ہمارے استاد تھے۔ پانچویں جماعت نیو میتھڈ پرائمری سکول سے کی اور وہاں خواتین اساتذہ تھیں لیکن ان میں سے بھی کسی سے کوئی عشق محبت اپنا پن نہیں ہوا۔ ہاں، ایک مس نجمہ کے کرارے تھپڑوں کی تازگی اب بھی گالوں پر محسوس ہوتی ہے۔ ایک مس کوثر ہوا کرتی تھیں جو سکاؤٹس کی بھی ان چارج تھیں اور ان کی ہم سے شفقت ہمیں یاد ہے کہ وہ کہتی تھیں کہ "فاتح تو میرا بیٹا ہے"۔ اب ایسے ماحول میں عشق محبت اپنا پن کہاں سے ہونا تھا۔
سوائے کمپری ہینسو ہائی سکول میں ساتویں کلاس میں ایک چھوٹے سے واقعے کے کہ جب میں معاشرتی علوم کی ایک نئی ٹیچر کے چہرے کو انہماک سے دیکھے جا رہا تھا اور اس "تاڑنے" کو بھی انھوں نے فوراً ہی یہ کہہ کر منسوخ فرما دیا کہ "اس سے آگے سبق آپ پڑھیں" اور ہماری بلا جانے سبق کہاں تک پہنچا تھا کہ ہم تو صرف انھی کو دیکھ رہے تھے۔ آٹھویں جماعت میں دوبارہ مرد اساتذہ مل گئے اور پھر کبھی خواتین اساتذہ نصیب نہ ہوئیں۔
 

رانا

محفلین
سوائے کمپری ہینسو ہائی سکول میں ساتویں کلاس میں ایک چھوٹے سے واقعے کے کہ جب میں معاشرتی علوم کی ایک نئی ٹیچر کے چہرے کو انہماک سے دیکھے جا رہا تھا اور اس "تاڑنے" کو بھی انھوں نے فوراً ہی یہ کہہ کر منسوخ فرما دیا کہ "اس سے آگے سبق آپ پڑھیں" اور ہماری بلا جانے سبق کہاں تک پہنچا تھا کہ ہم تو صرف انھی کو دیکھ رہے تھے۔
ہاہاہاہا :p
چلیں آپ کو ٹیچرز کی شفقت تو نصیب تھی اور بیٹا کہتی تھیں۔ ہمیں تو جس ٹیچر پر مان ہوتا تھا وہ بیٹا کہہ کر ہی توڑتی تھیں۔ چھٹی جماعت میں کی کلاس ٹیچر کے متعلق ہمارا گمان تھا کہ ہمیں بہت اچھا بچہ سمجھتی ہیں۔ اسی مان میں ایک دن امتحانوں سے پہلے ان کے پاس چلے گئے کہ معاشرتی علوم میں سے امپورٹنٹ سوالوں پر نشانات لگوالیں۔ انہوں نے تین سوالوں پر نشان لگا دیئے۔ تینوں اتنے بڑے بڑے سوال لیکن اس امید پر دن رات ایک کرکے یاد کئے کہ مس نے نشان لگا کر دئیے ہیں۔ امتحان میں ان میں سے ایک بھی نہیں آیا۔:)
 
Top