آخرت کے لیے تیاری کیسے کریں

سید عمران

محفلین
مرنے کے بعد پانچ بڑے ہوش ربا مراحل ہیں...
جن کی تیاری کے لیے قرآن و حدیث میں اعمال بتائے گئے ہیں...
جی میں آیا انہیں شئیر کرلوں...
جس کو استفادہ حاصل کرنا ہے... کر لے...

پہلے ان پانچ مراحل کا تذکرہ...
پھر ایک ایک کرکے ان کا مختصر بیان...
اور انہیں طے کرنے والے اعمال کا ذکر ہوگا...

1) روح نکلنے کا وقت یعنی عالم نزع...
2) قبر و برزخ کا عالم...
3) قیامت کے میدان کا قیامت خیز وقت...
4) حساب کتاب اور میزان پر پیشی کا مرحلہ..
5) پل صراط کو طے کرنے کا سفر...

1) سب سے پہلا مرحلہ روح نکلنے کا ہے...
یہ بڑا جاں گسل اور سخت مرحلہ ہے...
جب انسان اس جہاں سے...
اپنے پیاروں سے..
اپنی تعلیمی قابلیت سے...
اپنی تمام تر ذاتی صفات سے...
اور اپنی جمع شدہ دولت اور جائیداد سے...
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہاتھ جھاڑ کر ایک طویل سفر پر روانہ ہوتا ہے...
اور اپنے ساتھ صرف نیک و بد اعمال کا پشتارا لے چلتا ہے..
تو اس مرحلے کی کیفیات کو مرنے والا تو بیان کرنے کے قابل نہیں ہوتا... اس لیے اللہ تعالی بیان فرماتے ہیں...

1) كَلا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ (26) وَقِيلَ مَنْ رَاقٍ (27) وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ (29) إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَسَاق
2) فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ ﴿83﴾ وَأَنتُمْ حِينَئِذٍ تَنظُرُونَ ﴿84﴾ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَكِن لَّا تُبْصِرُونَ ﴿85﴾ فَلَوْلَا إِن كُنتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ ﴿86﴾ تَرْجِعُونَهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
3) وَ لَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰاتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوْآ اَیْدِیْھِمْ اَخْرِجُوْآ اَنْفُسَکُمْ

1) جب روح سارے بدن سے کھنچ کر ہنسلی کی ہڈی میں آکر اٹک جائے گی... اور لوگ کہیں گے کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا... کوئی دوا دارو کرنے والا... حالانکہ مرنے والا تو سمجھ جاتا ہے کہ اب جدائی کا وقت آگیا... روح نکلنے کی شدت کے باعث اس کی پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ رہی ہوتی ہے... یہی تو اپنے رب سے ملاقات کا وقت ہے...
2) جب روح نکل کر گلے تک پہنچ جاتی ہے... اور تم مرنے والے کو اپنی آنکھوں سے مرتا دیکھ رہے ہوتے ہو... اس وقت ہم تم سے زیادہ اس کے نزدیک ہوتے ہیں... مگر تم دیکھ نہیں سکتے... اگر تم اپنے قول میں سچے ہو کہ تمہیں جزا و سزا کچھ نہیں ملنے والی تو تم اس کی روح کو پلٹا کیوں نہیں دیتے...
3) کاش تم دیکھ سکو کہ جب ظالم موت کی سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ لاؤ نکالو اپنی جانیں...

رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم موت کے اس انتہائی ہولناک مرحلے سے نمٹنے کا نہایت آسان نسخہ بیان فرمارہے ہیں...

1) ان الصدقۃ تطفی غضب الرب و تدفع میتۃ السوء
بے شک صدقہ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے...

2) اور اللہ تعالی فرماتے ہیں:
وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

اور خیرات کرو اس مال میں سے جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے... اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آئے تو وہ کہے کہ اے میرے پروردگار! تو نے مجھے اور تھوڑی سی مہلت کیوں نہ دی کہ میں خیرات کرتا اور نیکوکاروں میں سے ہوتا...

3) دوسری حدیث ہے کہ اللہ تعالی پاک مال سے ہی صدقہ قبول فرماتے ہیں...

الحمد للہ آج آخرت کے سب سے پہلے مرحلے کی سختی اور اس سے نمٹنے کے بارے میں اللہ تعالی کی توفیق سے کچھ بیان ہوگیا...

لہذا اپنے حلال مال سے خوب کثرت سے صدقہ کریں...
حقیقی ضرورت مندوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی مدد کریں...
مسجد و دینی مدارس میں مال خرچ کریں...
دین کی نشر و اشاعت کا موقع ملے تو اسے ہاتھ سے نہ جانے دیں...
غیر سودی بینک... انشورنس... ٹی وی... فلم وغیرہ سمیت تمام حرام و حلال ذرائع رزق کی تعریف علماء سے ضرور پوچھیں...
بلادلیل اپنی خودساختہ تاویلات سے حرام کو حلال بنانے کی کوشش نہ کریں...
کیوں کہ معاملہ ہے ہمیشہ کی زندگی کا...

اللہ تعالی ہم سب کو آخرت کی تیاری کی توفیق بھی عطا فرمائیں...
اور آخرت کی گھاٹیوں کی ہولناکیوں سے بھی بچائیں... آمین!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
موت کے بعد دوسرا سخت ترین مرحلہ قبر و برزخ کا ہے...
جہاں دنیا میں زندگی گزارنے کے لحاظ سے معاملہ ہوگا...
۱) ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سنانے کھڑے ہوئے تو قبر کے احوال بیان فرمائے، اسے سُن کر مسلمان مارے خوف کے زور زور سے رونے لگے...
۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر کے متعلق سوال کیا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہاں عذاب قبر برحق ہے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہے...
دنیا سے آنکھیں بند ہوتے ہی دوسرے جہاں کی آنکھیں کھل جاتی ہیں...
۳)ایک حدیث ہے کہ میت پہچانتی ہے کہ کون اسے غسل دیتا ہے، کون اسے اٹھاتا ہے، کون اسے کفن پہناتا ہے اور کون اسے قبر میں اتارتا ہے...
۴)ایک دوسری حدیث ہے کہ جب جنازہ اٹھایا جاتا ہے تو اگر نیک ہو تو کہتا ہے کہ مجھے جلدی لے چلو، اور نیک نہ ہو تو کہتا ہے کہ ہائے بدقسمتی! تم مجھے کہاں لے جارہے ہو؟
۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے کوئی منظر قبر کے منظر سے زیادہ خوفناک نہیں دیکھا...
۶) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کی تدفین سے فارغ ہو جاتے تو قبر پر کھڑے ہو کر فرماتے کہ اپنے بھائی کے لیے مغفرت اور ثابت قدمی کی دعا کرو کیونکہ اب اس سے سوال کیا جا رہا ہے...
۷) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے، جو اس سے نجات پاگیا تو آگے کی منزلیں آسان ہیں...
اور اگر نجات نہ پاسکا تو بعد کی منزلیں سخت ہیں...
قبر کے عذاب میں مبتلا کرنے والی دو وجوہات بہت بڑی نہیں ہیں... بالکل معمولی ہیں...
حضور صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں پر سے گزرے تو فرمایا کہ انہیں عذاب ہو رہا ہے...
اور کسی بڑی بات پر نہیں بلکہ ان میں سے ایک چغلی کھاتا پھرتا تھا (یعنی جھوٹ سچ بول کر ایک کو دوسرے سے لڑاتا تھا یا ان کے درمیان بد مزگی پیدا کرتا تھا۔) ...
اور دوسرا پیشاب کے چھینٹوں سے احتیاط نہیں کرتا تھا...
قبر کی تاریکی، عذاب اور خوفناکیوں سے بچنے کے لیے احادیث پاک کی رو سے پانچ اعمال بیان کیے جاتے ہیں:
۱)حدیث پاک کی روشنی میں سورۂ ملک (انتیس پارہ)کی روزانہ بعد عشاء (فجر تک کے دوران کسی بھی وقت) تلاوت کا اہتمام کرنا قبر کے عذاب سے بچاتا ہے...
۲)زبان نبوت سے ادا ہونے والے ان الفاظ کے ذریعے دعا کرکے قبر کے عذاب سے پناہ مانگئے:
اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ
اے اللہ! میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں...
۳)پیشاب کرتے وقت اس کی چھینٹوں سے بچیں...
۴) مسلمان بھائیوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے کی عادت سے توبہ کریں...
۵) اور روزانہ کم از کم دو رکعت تہجد پڑھیں... کیوں کہ تہجد کی نماز قبر کو نور سے بھردیتی ہے...
تہجد پڑھنے کا ایک آسان طریقہ :
حدیث پاک میں ہے کہ عشاء کے بعد جو نفل نماز پڑھی جائے وہ تہجد میں داخل ہے...
چناں چہ عشاء کے فرض اور دو سنتوں کے بعد وتر سے پہلے اگر روزانہ کم از کم دو نفل بھی پڑھ لیے جائیں...
تو قیامت تک قبر اللہ کے نور اور روشنی سے منور رہے گی...
ان شاء اللہ!!!
 

سید عمران

محفلین
۳) قیامت کے میدان کا قیامت خیز وقت

مرنے کے بعد تیسرا سخت ترین مرحلہ ہے میدان محشر میں حساب کتاب کے لیے جمع ہونا۔۔۔
اس دن سب اپنی قبروں سے بالوں سے مٹی جھاڑتے ہوئے اٹھیں گے۔۔۔
خودبخود ایک جگہ جمع ہونے کھنچے چلے آرہے ہوں گے۔۔۔
گرمی کی شدت ہوگی۔۔۔
سب اپنے گناہوں کے بقدر پسینوں میں ڈوبے ہوں گے۔۔۔
کوئی ٹخنوں تک۔۔۔
کوئی گھٹنوں تک۔۔۔
تو کوئی ناک تک۔۔۔
ایک کا پسینہ دوسرے کو نہیں پہنچے گا۔۔۔
یہ عجیب افراتفری کا دن ہوگا۔۔۔
اس کا ایک دن دنیا کے پچاس ہزار برس کے برابر ہوگا۔۔۔
قرآن پاک نے اس دن کو کئی ناموں سے پکارا ہے۔۔۔
يَوْمَ تُبْلَى السَّرَائِرُ۔۔۔ قلعی کھل جانے کا دن۔۔۔
یَومُ التَّغَابُنِ۔۔۔ گناہ کمانے والوں کے لیے خسارے کا دن۔۔۔
یوم التناد۔۔۔ حساب کتاب کی پیشی کے لیے آوازیں پڑنے کا دن۔۔۔
جس دن ماں باپ، بہن بھائی، میاں بیوی، اولاد، دوست ایک دوسرے کے کسی کام نہ آئیں گے۔۔۔
ایک دوسرے کو پہچانیں گے بھی نہیں۔۔۔
حتیٰ کہ ایک دوسرے کو دیکھ کر دور بھاگیں گے۔۔۔
اربوں کھربوں انسانوں کی چیخ و پکار سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے گی۔۔۔
ہر طرف ہاہا کار مچی ہوگی۔۔۔
لوگ کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ جلد نزول فرمائیں۔۔۔
چاہے جہنم میں بھیج دیں ۔۔۔مگر اس مشکل سے نجات دلائیں۔۔۔
اس کڑے وقت میں جہنم کی آگ آسان معلوم ہوگی۔۔۔
نہ جانے کتنے عالم بیت جائیں گے۔۔۔
تب آٹھ فرشتے اللہ کا عرش اٹھائے ہوئے نازل ہوں گے۔۔۔
اور اس وقت۔۔۔
سارے انسانوں پر عظمت الٰہی کا ایسا خوف ہوگا۔۔۔
کہ گھٹنوں کے بل گر پڑیں گے۔۔۔
چیخ و پکار سب بھول جائیں گے۔۔۔
اور۔۔۔
پورے میدان محشر میں قدموں کی سرسراہٹ کے سوا کوئی آواز سنائی نہیں دے گی۔۔۔
پھر جب میزان عدل گاڑی جائیں گی۔۔۔
فلاں بن فلاں حاضر ہو۔۔۔ کی آوازیں لگنی شروع ہوں گی۔۔۔
حساب کتاب ہوگا۔۔۔
بال کی کھال ادھیڑی جائے گی۔۔۔
تو دنیا میں کی گئی ساری بدمستیاں ناک کے راستے نکل جائیں گی۔۔۔
جھوٹ بولیں گے تو کسی کام نہ آئے گا۔۔۔
زبان پر مہر لگ جائے گی۔۔۔
جسم کا انگ انگ کیے کرائے کی گواہی دے گا۔۔۔
کہیں جہنم خود اپنا چارہ چگنے کے لیے بار بار گردن نکالے گی۔۔۔
کہیں مجرموں کو پابند سلاسل کرکے جبڑے میں ہاتھ ڈال کر گھسیٹا جائے گا۔۔۔
جب سب کو اپنی اپنی پڑی ہوگی۔۔۔
اور لوگ پکار رہے ہوں گے۔۔۔
یارب نفسی نفسی۔۔۔
ہائے میں بچ جاؤں ۔۔۔بس میں بچ جاؤں۔۔۔
انبیاء تک پکار رہے ہوں گے۔۔۔
یارب نفسی نفسی۔۔۔
تب۔۔۔
ایسے عالم میں ایک آواز گونج رہی ہوگی۔۔۔
رحمۃ للعالمین کی۔۔۔
کہ۔۔۔
یا رب امتی امتی۔۔۔
اے میرے رب ۔۔۔
میری امت ، میری امت۔۔۔
میری امت کا خیال کیجیے۔۔۔
میری ا مت کو بچالیجیے۔۔۔
ایسے ہولناک، دہشت ناک اور وحشت ناک دن کی سختیوں سے بچنے کے لیے نبی رحمت۔۔۔
امید رحمت بن کر سات اعمال بتا رہے ہیں۔۔۔
ان میں سے کوئی ایک عمل بھی کرلیا جائے تو اس دن کی قیامت خیزیاں آسان ہوجائیں گی۔۔۔
ان شاء اللہ۔۔۔
جزی اللہ عنا محمداً صلی اللہ علیہ وسلم ما ھو اھلہٗ۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرما رہے ہیں۔۔۔
سات لوگ ایسے ہیں جو قیامت کے دن عرش کے سائے میں ہوں گے۔۔۔
جس دن اس سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔۔۔
۱) امام عادل۔۔۔جس نے اللہ کے احکام نافذ کرنے اور مخلوق پر عدل کرنے کے لیے کسی کی پرواہ نہ کی ہو۔۔۔
۲)وہ جوان جو جوانی کی بدمستیوں اور عیاشیوں میں نہیں پڑا۔۔۔
بھری جوانی ہی سے خدا کی عبادت کرتا رہا۔۔۔
اور اگر گناہ آلود زندگی گزاری تو عین عالم شباب میں تائب ہوگیا۔۔۔
۳) وہ آدمی جس کا دل مسجد میں ہی اٹکا رہتا ہے۔۔۔
ایک نماز سے فارغ ہوا تو دوسری نماز کے انتظار اور تیاری کی فکر میں رہا۔۔۔
ملا کی دوڑ مسجد تک آج کام دے رہی ہے۔۔۔
جس دن ماں باپ بھی کام نہ آئیں گے۔۔۔
۴) وہ دو لوگ جنہوں نے محض اللہ کے لیے آپس میں محبت رکھی۔۔۔
علماء کرام، مشایخ عظام اور اولیاء وقت سے محبت رکھنا۔۔۔
اللہ کے لیے ان کا ادب کرنا۔۔۔
ان کی صحبتوں و مجالس میں جاکر دین سیکھنا۔۔۔
آج کام دے گا ۔۔۔
جس دن ساری کائنات کی دولت بھی کسی کام نہ آئے گی۔۔۔
۵) وہ آدمی جس کو اعلیٰ اچھے خاندان کی حسین و جمیل عورت دعوت گناہ دے۔۔۔
اور وہ کہہ دے۔۔۔
انی اخاف اللہ!!!
نہیں ۔۔۔نہیں ۔۔میں تو اپنے اللہ سے ڈرتا ہوں۔۔۔
عشق مجازی کی عارضی حرام لذت سے بچنا رائیگاں نہیں گیا۔۔۔
آج بڑے کام آرہا ہے۔۔۔
عورت کسی مرد کی دعوت گناہ ٹھکرا دے تو۔۔۔
وہ بھی آج مزے میں ہوگی۔۔۔
۶) صرف اللہ کو دکھانے کے لیے ایسے اخلاص سے صدقہ کرے۔۔۔
کہ دائیں ہاتھ سے دے تو بائیں کو خبر نہ ہو۔۔۔
شوہر دے تو بیوی بے خبر رہے۔۔۔
بیوی اپنے ذاتی مال سے دے تو شوہر کو علم نہ ہو۔۔۔
باقی تو سب کسی شمار میں ہی نہیں۔۔۔
۷) جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرے۔۔۔
اور اللہ کی محبت یا خوف سے۔۔۔
اس کی آنکھیں بہہ پڑیں!!!

۸) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔
قیامت کے دن چہروں کو روشن کرنے والا ایک عمل بیان فرمارہے ہیں۔۔۔
کہ اس روز جب سب کے چہرے سیاہ ہوں گے۔۔۔
تو۔۔۔
چند لوگ ہوں گے ۔۔۔
جن کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح روشن اور چمک دار ہوں گے۔۔۔
یہ وہ لوگ ہوں گے۔۔۔
جو روزانہ سو مرتبہ لا الٰہ الّا اللہ پڑھا کرتے تھے۔۔۔

جس دن ساری انسانیت حساب کتاب کی پیشیاں بھگت رہی ہو گی۔۔۔
اس دن۔۔۔
یہ خوش نصیب لوگ عرش کے سائے میں ۔۔۔
روشن اور چمک دار چہرے لیے۔۔۔
اطمینان سے ہوں گے۔۔۔
کیوں کہ۔۔۔۔
اللہ نے ان کے کسی اجر ،کسی کی محنت کو ضائع نہیں کیا۔۔۔
 
آخری تدوین:

ربیع م

محفلین
موت کے بعد دوسرا سخت ترین مرحلہ قبر و برزخ کا ہے...
جہاں دنیا میں زندگی گزارنے کے لحاظ سے معاملہ ہوگا...
۱) ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سنانے کھڑے ہوئے تو قبر کے احوال بیان فرمائے، اسے سُن کر مسلمان مارے خوف کے زور زور سے رونے لگے...
۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر کے متعلق سوال کیا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہاں عذاب قبر برحق ہے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہے...
دنیا سے آنکھیں بند ہوتے ہی دوسرے جہاں کی آنکھیں کھل جاتی ہیں...
۳)ایک حدیث ہے کہ میت پہچانتی ہے کہ کون اسے غسل دیتا ہے، کون اسے اٹھاتا ہے، کون اسے کفن پہناتا ہے اور کون اسے قبر میں اتارتا ہے...
۴)ایک دوسری حدیث ہے کہ جب جنازہ اٹھایا جاتا ہے تو اگر نیک ہو تو کہتا ہے کہ مجھے جلدی لے چلو، اور نیک نہ ہو تو کہتا ہے کہ ہائے بدقسمتی! تم مجھے کہاں لے جارہے ہو؟
۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے کوئی منظر قبر کے منظر سے زیادہ خوفناک نہیں دیکھا...
۶) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کی تدفین سے فارغ ہو جاتے تو قبر پر کھڑے ہو کر فرماتے کہ اپنے بھائی کے لیے مغفرت اور ثابت قدمی کی دعا کرو کیونکہ اب اس سے سوال کیا جا رہا ہے...
۷) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے، جو اس سے نجات پاگیا تو آگے کی منزلیں آسان ہیں...
اور اگر نجات نہ پاسکا تو بعد کی منزلیں سخت ہیں...
قبر کے عذاب میں مبتلا کرنے والی دو وجوہات بہت بڑی نہیں ہیں... بالکل معمولی ہیں...
حضور صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں پر سے گزرے تو فرمایا کہ انہیں عذاب ہو رہا ہے...
اور کسی بڑی بات پر نہیں بلکہ ان میں سے ایک چغلی کھاتا پھرتا تھا (یعنی جھوٹ سچ بول کر ایک کو دوسرے سے لڑاتا تھا یا ان کے درمیان بد مزگی پیدا کرتا تھا۔) ...
اور دوسرا پیشاب کے چھینٹوں سے احتیاط نہیں کرتا تھا...
قبر کی تاریکی، عذاب اور خوفناکیوں سے بچنے کے لیے احادیث پاک کی رو سے پانچ اعمال بیان کیے جاتے ہیں:
۱)حدیث پاک کی روشنی میں سورۂ ملک (انتیس پارہ)کی روزانہ بعد عشاء (فجر تک کے دوران کسی بھی وقت) تلاوت کا اہتمام کرنا قبر کے عذاب سے بچاتا ہے...
۲)زبان نبوت سے ادا ہونے والے ان الفاظ کے ذریعے دعا کرکے قبر کے عذاب سے پناہ مانگئے:
اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ
اے اللہ! میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں...
۳)پیشاب کرتے وقت اس کی چھینٹوں سے بچیں...
۴) مسلمان بھائیوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے کی عادت سے توبہ کریں...
۵) اور روزانہ کم از کم دو رکعت تہجد پڑھیں... کیوں کہ تہجد کی نماز قبر کو نور سے بھردیتی ہے...
تہجد پڑھنے کا ایک آسان طریقہ :
حدیث پاک میں ہے کہ عشاء کے بعد جو نفل نماز پڑھی جائے وہ تہجد میں داخل ہے...
چناں چہ عشاء کے فرض اور دو سنتوں کے بعد وتر سے پہلے اگر روزانہ کم از کم دو نفل بھی پڑھ لیے جائیں...
تو قیامت تک قبر اللہ کے نور اور روشنی سے منور رہے گی...
ان شاء اللہ!!!

جزاك الله خيرا

بہت عمدہ
 

ربیع م

محفلین
موت کے بعد دوسرا سخت ترین مرحلہ قبر و برزخ کا ہے...
جہاں دنیا میں زندگی گزارنے کے لحاظ سے معاملہ ہوگا...
۱) ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سنانے کھڑے ہوئے تو قبر کے احوال بیان فرمائے، اسے سُن کر مسلمان مارے خوف کے زور زور سے رونے لگے...
۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر کے متعلق سوال کیا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہاں عذاب قبر برحق ہے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہے...
دنیا سے آنکھیں بند ہوتے ہی دوسرے جہاں کی آنکھیں کھل جاتی ہیں...
۳)ایک حدیث ہے کہ میت پہچانتی ہے کہ کون اسے غسل دیتا ہے، کون اسے اٹھاتا ہے، کون اسے کفن پہناتا ہے اور کون اسے قبر میں اتارتا ہے...
۴)ایک دوسری حدیث ہے کہ جب جنازہ اٹھایا جاتا ہے تو اگر نیک ہو تو کہتا ہے کہ مجھے جلدی لے چلو، اور نیک نہ ہو تو کہتا ہے کہ ہائے بدقسمتی! تم مجھے کہاں لے جارہے ہو؟
۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے کوئی منظر قبر کے منظر سے زیادہ خوفناک نہیں دیکھا...
۶) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کی تدفین سے فارغ ہو جاتے تو قبر پر کھڑے ہو کر فرماتے کہ اپنے بھائی کے لیے مغفرت اور ثابت قدمی کی دعا کرو کیونکہ اب اس سے سوال کیا جا رہا ہے...
۷) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے، جو اس سے نجات پاگیا تو آگے کی منزلیں آسان ہیں...
اور اگر نجات نہ پاسکا تو بعد کی منزلیں سخت ہیں...
قبر کے عذاب میں مبتلا کرنے والی دو وجوہات بہت بڑی نہیں ہیں... بالکل معمولی ہیں...
حضور صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں پر سے گزرے تو فرمایا کہ انہیں عذاب ہو رہا ہے...
اور کسی بڑی بات پر نہیں بلکہ ان میں سے ایک چغلی کھاتا پھرتا تھا (یعنی جھوٹ سچ بول کر ایک کو دوسرے سے لڑاتا تھا یا ان کے درمیان بد مزگی پیدا کرتا تھا۔) ...
اور دوسرا پیشاب کے چھینٹوں سے احتیاط نہیں کرتا تھا...
قبر کی تاریکی، عذاب اور خوفناکیوں سے بچنے کے لیے احادیث پاک کی رو سے پانچ اعمال بیان کیے جاتے ہیں:
۱)حدیث پاک کی روشنی میں سورۂ ملک (انتیس پارہ)کی روزانہ بعد عشاء (فجر تک کے دوران کسی بھی وقت) تلاوت کا اہتمام کرنا قبر کے عذاب سے بچاتا ہے...
۲)زبان نبوت سے ادا ہونے والے ان الفاظ کے ذریعے دعا کرکے قبر کے عذاب سے پناہ مانگئے:
اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ
اے اللہ! میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں...
۳)پیشاب کرتے وقت اس کی چھینٹوں سے بچیں...
۴) مسلمان بھائیوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے کی عادت سے توبہ کریں...
۵) اور روزانہ کم از کم دو رکعت تہجد پڑھیں... کیوں کہ تہجد کی نماز قبر کو نور سے بھردیتی ہے...
تہجد پڑھنے کا ایک آسان طریقہ :
حدیث پاک میں ہے کہ عشاء کے بعد جو نفل نماز پڑھی جائے وہ تہجد میں داخل ہے...
چناں چہ عشاء کے فرض اور دو سنتوں کے بعد وتر سے پہلے اگر روزانہ کم از کم دو نفل بھی پڑھ لیے جائیں...
تو قیامت تک قبر اللہ کے نور اور روشنی سے منور رہے گی...
ان شاء اللہ!!!

جزاك الله خيرا

بہت عمدہ
 

سید عمران

محفلین
4) حساب کتاب اور میزان پر پیشی کا مرحلہ...

قیامت کے دن جب ایک طویل انتظار کے بعد اللہ تعالیٰ کا عرش میدان محشر میں اترے گا۔۔۔
تو۔۔۔
اس میدان میں میزان عدل گاڑی جائے گی۔۔۔
فرداً فرداً ہر شخص کا نام لے کر پکارا جائے گا۔۔۔
اس نے دنیا میں جو کچھ کیا تھا۔۔۔
سب محفوظ کرلیا گیا۔۔۔
آج سارا کچا چٹھا سامنے آرہا ہے۔۔۔
یہ ترازو ایسی ہوگی جو سرتاپا انصاف ہی انصاف ہوگی۔۔۔
ظلم کا شائبہ تک نہ ہوگا۔۔۔
یہ ایسی میزان ہے۔۔۔
جو ذرّے کے برابر کیا گیا عمل بھی نہ چھوڑے گی۔۔۔
ذرّے ذرّے کا عمل سامنے لاکر رہے گی۔۔۔
یہ ایسی میزان ہے۔۔۔
جو انسان کے ان اعمال کو تولے گی جن کا کوئی ٹھوس ظاہری جسم نہیں ۔۔۔
اور۔۔۔
یہ ایسی میزان ہے ۔۔۔
جس میں زمین و آسمان رکھ دئیے جائیں تو۔۔۔
ان کا وزن بھی کرلے گی۔۔۔
یہ ایسا مشکل وقت ہوگا جس کا تصور ہی پسینے بہا دیتا ہے۔۔۔
جب ترازو کے ایک پلڑے میں گناہ رکھے جائیں گے۔۔۔
قضا نماز روزوں کا گناہ۔۔۔
زکوٰۃ نہ دینے کا گناہ۔۔۔
سود کھانے کا گناہ۔۔۔
عشق مجازی کے کرتوت۔۔۔
ماں باپ ، بڑے بوڑھوں اور مخلوق کو ستانے کا عمل۔۔۔
زبان و قلم کی سیاہ کاریاں۔۔۔
سب ہی کچھ تو اس پلڑے میں ڈال دیا جائے گا۔۔۔
اور۔۔۔
دوسرے پلڑے میں۔۔۔
سخت سردیوں کے وضو و سجود کا ثواب۔۔۔
چلچلاتی گرمیوں میں حلق خشک کرتے روزوں کا اجر۔۔۔
مال خرچ کرنے کا مجاہدہ۔۔۔
مخلوق پر رحم کرنے کا عمل۔۔۔
دل میں رچی بسی خدا اور رسول کی محبت ۔۔۔
کچھ بھی تو نہ چھوڑا جائے گا۔۔۔
اگر بد اعمالیوں کا پلڑا جھک گیا۔۔۔
نیکی کم پڑ گئیں۔۔۔
گناہ۔۔۔عیاشیاں۔۔۔بدمستیاں بازی لے گئیں ۔۔۔
تو۔۔۔
ہائے ہائے کا شور مچ جائے گا۔۔۔
خون کے آنسو کی نہریں جاری ہوجائیں گی۔۔۔
مگر اب یہ کسی کام کی نہیں ۔۔۔
یہ سب تو دنیا میں کرنا تھا۔۔۔
اور جس کے نیک اعمال کا پلڑا جھک گیا۔۔۔
گناہوں کو ہوا میں لے اڑا۔۔۔
نیکیاں۔۔۔نورانیاں۔۔۔ خوش اعمالیاں بڑھ گئیں۔۔۔
تو۔۔۔
اس کی خوشی کا کیا ٹھکانہ۔۔۔
اس کے تمام مجاہدات سپھل ہوگئے۔۔۔
نیکیاں بار آور ثابت ہوئیں۔۔۔
غم و ھم کے بادل چھٹ گئے۔۔۔
اور۔۔۔
صاف مطلع سے۔۔۔
سامنے جنت نظر آنے لگی۔۔۔
گاہ گاہ اپنی جھلک دکھانے لگی۔۔۔
چہروں کو اپنی چمک سے جگمگانے لگی۔۔۔
اس کڑے مرحلے سے۔۔۔
بعافیت گزرنے سے۔۔۔
بزبان نبوت۔۔۔
بحکم الٰہی۔۔۔
ایک دعا ہے۔۔۔
جو اس مرحلے کو آسان کردے گی۔۔۔
نٍہایت سرسری بنا دے گی۔۔۔
جب سرسری سوال جواب ہوں۔۔۔
اور آگے جانے کا اذن مل جائے۔۔۔
حساب کتاب کو۔۔۔
اس مرحلۂ عذاب کو۔۔۔
آسان بنانے والی یہ دعا نہایت آسان ہے۔۔۔
صرف چار الفاظ ہیں۔۔۔
اور بیڑا پار ہے۔۔۔
ان شاء اللہ!!!
زبان نبوت سے جاری ہونے والے بابرکت الفاظ ہیں۔۔۔
اَللّٰہُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَّسِیْرًا
اے اللہ میرا حساب آسان فرمادیجئے!!!​
 

سید عمران

محفلین
5) پل صراط کو طے کرنے کا سفر...​
یہ آخرت کے ہولناک مراحل میں سے آخری مرحلہ ہے۔۔۔
اسے طے کرلیا تو بس پھر۔۔۔
جنت کے دائمی مزے۔۔۔
ابدی راحتیں۔۔۔
اور اگر اس میں رہ گیا تو جہنم کی جھلسا دینے والی آگ۔۔۔
تڑپادینے والے سانپ۔۔۔
حلق چیرنے والی غذائیں۔۔۔
اور ۔۔۔
انتڑیوں کو لوتھڑوں میں تقسیم کرنے والا مشروب حصے میں آئے گا۔۔۔
یہ پل جہنم کے اوپر رکھا جائے گا۔۔۔
نیچے جہنم کی بپھری ہوئی غضبناک آگ کی لپٹیں ۔۔۔
اور۔۔۔
اس پار جنت کی راحتیں ہوں گی۔۔۔
اسے دیکھ فرشتے بھی کانپ اٹھیں گے۔۔۔
کہ یااللہ اس پر سے کون نجات پائے گا؟
یہ پل بال سے باریک۔۔۔ تلوار سے تیز ہوگا۔۔۔
گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبا ہوگا۔۔۔
بڑے بڑے تیز دھار آنکڑے ہوں گے جو جسم کو کاٹ کر قیمہ بنادیں گے۔۔۔
پهسل کر جہنم میں گرنے والوں کی چیخ و پکار اچھے اچھوں کے دل دہلا دیں گی۔۔۔
امانت اور صلہ رحمی اس پل کے دائیں بائیں کھڑی ہوجائیں گی۔۔۔
اپنا حق جتائیں گی۔۔۔
جس نے حق ضائع کیا۔۔۔
اسے منہ کے بل جہنم کی وادیوں میں دھکیل دیں گی۔۔۔
آج جو اپنی زندگی میں ان دونوں کا حق ادا کرے گا۔۔۔
وہ کل ان کا بیڑا پار لگانے میں ہاتھ بٹائیں گی۔۔۔
انہیں اس پل کے پار لگائیں گی۔۔۔
امانت کا لحاظ رکھنا یہ ہے کہ ۔۔۔
کاروبار میں۔۔۔
مشورہ دیتے ہوئے۔۔۔
کسی کی امانت پاس رکھتے وقت ۔۔۔
مال ادھار لیا تو بروقت ادائیگی یقینی بناتے ہوئے۔۔۔
امانت کا پاس رکھا۔۔۔
تو اس نے امانت کا حق ادا کیا۔۔۔ اسے ضائع ہونے سے بچالیا۔۔۔
اور۔۔۔
رہی بات صلہ رحمی کی ۔۔۔
تو۔۔۔
ماں باپ کے۔۔۔
اپنے خونی رشتے داروں کے حقوق ادا کیے۔۔۔
کسی سے کسی بات پر ناراض نہ ہوا۔۔۔
تلخی سے منہ نہ پھیرا۔۔۔
کبھی ناخوشگواری ہوئی تو بعد میں معاملہ رفع دفع کرلیا۔۔۔
معافی مانگنی پڑی تو سو جان سے مانگی۔۔۔
معافی مانگتے وقت اپنی انا کو فنا کیا۔۔۔
تو۔۔۔
آج یہ فنائیت صلہ رحمی کو اپنائیت محسوس ہوگی۔۔۔
اس کا بیڑا پار ہونے کا سبب ہوگی۔۔۔
اور ۔۔۔
اس پل کے گھٹا ٹوپ اندھیرے سے بچنے کا بھی نسخہ ہے۔۔۔
اس درماں کا اک علاج بھی ہے۔۔۔
درود شریف کی کثرت۔۔۔
اور ایمان کی برکت۔۔۔
نور بن کر اس پل پر آگے آگے دوڑیں گے۔۔۔
بس پھر۔۔۔
ایسے لوگ پلک جھپکنے پل پر سے گزر جائیں گے۔۔۔
جنت میں جاکر حیران ہوں گے ۔۔۔
کہیں گے۔۔۔
ہمارے رب کا وعدہ کیا ہوا کہ ہم دوزخ پر سے گذریں گے۔۔۔
اللہ تعالیٰ فرمائیں گے۔۔۔
تم تو اس پرسے گذر کر آئے، لیکن ہم نے اس کی لپٹیں دبا دیں۔۔۔
اور ۔۔۔
تمہاری محنتیں رائیگاں نہ جانے دیں۔۔۔​
 

سید عمران

محفلین
الحمد للہ،
آج آخرت کے پانچ کٹھن مراحل اور ان کو بعافیت طے کرنے کا بیان مکمل ہوا۔۔۔
اللہ تعالیٰ لکھنے والے کو۔۔۔
اور جو پڑھے۔۔۔
ان سب عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔۔۔
ان اعمال کی برکت سے۔۔۔
اور سب سے بڑھ کر اپنی رحمت سے۔۔۔
ان تمام مراحل کو آسانی سے طے کروادیں۔۔۔
آمین!!!
 

بنت یوسف

محفلین
مرنے کے بعد پانچ بڑے ہوش ربا مراحل ہیں...
جن کی تیاری کے لیے قرآن و حدیث میں اعمال بتائے گئے ہیں...
جی میں آیا انہیں شئیر کرلوں...
جس کو استفادہ حاصل کرنا ہے... کر لے...

پہلے ان پانچ مراحل کا تذکرہ...
پھر ایک ایک کرکے ان کا مختصر بیان...
اور انہیں طے کرنے والے اعمال کا ذکر ہوگا...

1) روح نکلنے کا وقت یعنی عالم نزع...
2) قبر و برزخ کا عالم...
3) قیامت کے میدان کا قیامت خیز وقت...
4) حساب کتاب اور میزان پر پیشی کا مرحلہ..
5) پل صراط کو طے کرنے کا سفر...

1) سب سے پہلا مرحلہ روح نکلنے کا ہے...
یہ بڑا جاں گسل اور سخت مرحلہ ہے...
جب انسان اس جہاں سے...
اپنے پیاروں سے..
اپنی تعلیمی قابلیت سے...
اپنی تمام تر ذاتی صفات سے...
اور اپنی جمع شدہ دولت اور جائیداد سے...
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہاتھ جھاڑ کر ایک طویل سفر پر روانہ ہوتا ہے...
اور اپنے ساتھ صرف نیک و بد اعمال کا پشتارا لے چلتا ہے..
تو اس مرحلے کی کیفیات کو مرنے والا تو بیان کرنے کے قابل نہیں ہوتا... اس لیے اللہ تعالی بیان فرماتے ہیں...

1) كَلا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ (26) وَقِيلَ مَنْ رَاقٍ (27) وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ (29) إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَسَاق
2) فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ ﴿83﴾ وَأَنتُمْ حِينَئِذٍ تَنظُرُونَ ﴿84﴾ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَكِن لَّا تُبْصِرُونَ ﴿85﴾ فَلَوْلَا إِن كُنتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ ﴿86﴾ تَرْجِعُونَهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
3) وَ لَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰاتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوْآ اَیْدِیْھِمْ اَخْرِجُوْآ اَنْفُسَکُمْ

1) جب روح سارے بدن سے کھنچ کر ہنسلی کی ہڈی میں آکر اٹک جائے گی... اور لوگ کہیں گے کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا... کوئی دوا دارو کرنے والا... حالانکہ مرنے والا تو سمجھ جاتا ہے کہ اب جدائی کا وقت آگیا... روح نکلنے کی شدت کے باعث اس کی پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ رہی ہوتی ہے... یہی تو اپنے رب سے ملاقات کا وقت ہے...
2) جب روح نکل کر گلے تک پہنچ جاتی ہے... اور تم مرنے والے کو اپنی آنکھوں سے مرتا دیکھ رہے ہوتے ہو... اس وقت ہم تم سے زیادہ اس کے نزدیک ہوتے ہیں... مگر تم دیکھ نہیں سکتے... اگر تم اپنے قول میں سچے ہو کہ تمہیں جزا و سزا کچھ نہیں ملنے والی تو تم اس کی روح کو پلٹا کیوں نہیں دیتے...
3) کاش تم دیکھ سکو کہ جب ظالم موت کی سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ لاؤ نکالو اپنی جانیں...

رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم موت کے اس انتہائی ہولناک مرحلے سے نمٹنے کا نہایت آسان نسخہ بیان فرمارہے ہیں...

1) ان الصدقۃ تطفی غضب الرب و تدفع میتۃ السوء
بے شک صدقہ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے...

2) اور اللہ تعالی فرماتے ہیں:
وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

اور خیرات کرو اس مال میں سے جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے... اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آئے تو وہ کہے کہ اے میرے پروردگار! تو نے مجھے اور تھوڑی سی مہلت کیوں نہ دی کہ میں خیرات کرتا اور نیکوکاروں میں سے ہوتا...

3) دوسری حدیث ہے کہ اللہ تعالی پاک مال سے ہی صدقہ قبول فرماتے ہیں...

الحمد للہ آج آخرت کے سب سے پہلے مرحلے کی سختی اور اس سے نمٹنے کے بارے میں اللہ تعالی کی توفیق سے کچھ بیان ہوگیا...

لہذا اپنے حلال مال سے خوب کثرت سے صدقہ کریں...
حقیقی ضرورت مندوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی مدد کریں...
مسجد و دینی مدارس میں مال خرچ کریں...
دین کی نشر و اشاعت کا موقع ملے تو اسے ہاتھ سے نہ جانے دیں...
غیر سودی بینک... انشورنس... ٹی وی... فلم وغیرہ سمیت تمام حرام و حلال ذرائع رزق کی تعریف علماء سے ضرور پوچھیں...
بلادلیل اپنی خودساختہ تاویلات سے حرام کو حلال بنانے کی کوشش نہ کریں...
کیوں کہ معاملہ ہے ہمیشہ کی زندگی کا...

اللہ تعالی ہم سب کو آخرت کی تیاری کی توفیق بھی عطا فرمائیں...
اور آخرت کی گھاٹیوں کی ہولناکیوں سے بھی بچائیں... آمین!!!
سکون مل گیا سن کر کہ صدقہ انشااللہ موت کے وقت آسانی لائے گا....جزاکم اللہ خیرا
 
آخری تدوین:

بنت یوسف

محفلین
۳) قیامت کے میدان کا قیامت خیز وقت

مرنے کے بعد تیسرا سخت ترین مرحلہ ہے میدان محشر میں حساب کتاب کے لیے جمع ہونا۔۔۔
اس دن سب اپنی قبروں سے بالوں سے مٹی جھاڑتے ہوئے اٹھیں گے۔۔۔
خودبخود ایک جگہ جمع ہونے کھنچے چلے آرہے ہوں گے۔۔۔
گرمی کی شدت ہوگی۔۔۔
سب اپنے گناہوں کے بقدر پسینوں میں ڈوبے ہوں گے۔۔۔
کوئی ٹخنوں تک۔۔۔
کوئی گھٹنوں تک۔۔۔
تو کوئی ناک تک۔۔۔
ایک کا پسینہ دوسرے کو نہیں پہنچے گا۔۔۔
یہ عجیب افراتفری کا دن ہوگا۔۔۔
اس کا ایک دن دنیا کے پچاس ہزار برس کے برابر ہوگا۔۔۔
قرآن پاک نے اس دن کو کئی ناموں سے پکارا ہے۔۔۔
يَوْمَ تُبْلَى السَّرَائِرُ۔۔۔ قلعی کھل جانے کا دن۔۔۔
یَومُ التَّغَابُنِ۔۔۔ گناہ کمانے والوں کے لیے خسارے کا دن۔۔۔
یوم التناد۔۔۔ حساب کتاب کی پیشی کے لیے آوازیں پڑنے کا دن۔۔۔
جس دن ماں باپ، بہن بھائی، میاں بیوی، اولاد، دوست ایک دوسرے کے کسی کام نہ آئیں گے۔۔۔
ایک دوسرے کو پہچانیں گے بھی نہیں۔۔۔
حتیٰ کہ ایک دوسرے کو دیکھ کر دور بھاگیں گے۔۔۔
اربوں کھربوں انسانوں کی چیخ و پکار سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے گی۔۔۔
ہر طرف ہاہا کار مچی ہوگی۔۔۔
لوگ کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ جلد نزول فرمائیں۔۔۔
چاہے جہنم میں بھیج دیں ۔۔۔مگر اس مشکل سے نجات دلائیں۔۔۔
اس کڑے وقت میں جہنم کی آگ آسان معلوم ہوگی۔۔۔
نہ جانے کتنے عالم بیت جائیں گے۔۔۔
تب آٹھ فرشتے اللہ کا عرش اٹھائے ہوئے نازل ہوں گے۔۔۔
اور اس وقت۔۔۔
سارے انسانوں پر عظمت الٰہی کا ایسا خوف ہوگا۔۔۔
کہ گھٹنوں کے بل گر پڑیں گے۔۔۔
چیخ و پکار سب بھول جائیں گے۔۔۔
اور۔۔۔
پورے میدان محشر میں قدموں کی سرسراہٹ کے سوا کوئی آواز سنائی نہیں دے گی۔۔۔
پھر جب میزان عدل گاڑی جائیں گی۔۔۔
فلاں بن فلاں حاضر ہو۔۔۔ کی آوازیں لگنی شروع ہوں گی۔۔۔
حساب کتاب ہوگا۔۔۔
بال کی کھال ادھیڑی جائے گی۔۔۔
تو دنیا میں کی گئی ساری بدمستیاں ناک کے راستے نکل جائیں گی۔۔۔
جھوٹ بولیں گے تو کسی کام نہ آئے گا۔۔۔
زبان پر مہر لگ جائے گی۔۔۔
جسم کا انگ انگ کیے کرائے کی گواہی دے گا۔۔۔
کہیں جہنم خود اپنا چارہ چگنے کے لیے بار بار گردن نکالے گی۔۔۔
کہیں مجرموں کو پابند سلاسل کرکے جبڑے میں ہاتھ ڈال کر گھسیٹا جائے گا۔۔۔
جب سب کو اپنی اپنی پڑی ہوگی۔۔۔
اور لوگ پکار رہے ہوں گے۔۔۔
یارب نفسی نفسی۔۔۔
ہائے میں بچ جاؤں ۔۔۔بس میں بچ جاؤں۔۔۔
انبیاء تک پکار رہے ہوں گے۔۔۔
یارب نفسی نفسی۔۔۔
تب۔۔۔
ایسے عالم میں ایک آواز گونج رہی ہوگی۔۔۔
رحمۃ للعالمین کی۔۔۔
کہ۔۔۔
یا رب امتی امتی۔۔۔
اے میرے رب ۔۔۔
میری امت ، میری امت۔۔۔
میری امت کا خیال کیجیے۔۔۔
میری ا مت کو بچالیجیے۔۔۔
ایسے ہولناک، دہشت ناک اور وحشت ناک دن کی سختیوں سے بچنے کے لیے نبی رحمت۔۔۔
امید رحمت بن کر سات اعمال بتا رہے ہیں۔۔۔
ان میں سے کوئی ایک عمل بھی کرلیا جائے تو اس دن کی قیامت خیزیاں آسان ہوجائیں گی۔۔۔
ان شاء اللہ۔۔۔
جزی اللہ عنا محمداً صلی اللہ علیہ وسلم ما ھو اھلہٗ۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرما رہے ہیں۔۔۔
سات لوگ ایسے ہیں جو قیامت کے دن عرش کے سائے میں ہوں گے۔۔۔
جس دن اس سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔۔۔
۱) امام عادل۔۔۔جس نے اللہ کے احکام نافذ کرنے اور مخلوق پر عدل کرنے کے لیے کسی کی پرواہ نہ کی ہو۔۔۔
۲)وہ جوان جو جوانی کی بدمستیوں اور عیاشیوں میں نہیں پڑا۔۔۔
بھری جوانی ہی سے خدا کی عبادت کرتا رہا۔۔۔
اور اگر گناہ آلود زندگی گزاری تو عین عالم شباب میں تائب ہوگیا۔۔۔
۳) وہ آدمی جس کا دل مسجد میں ہی اٹکا رہتا ہے۔۔۔
ایک نماز سے فارغ ہوا تو دوسری نماز کے انتظار اور تیاری کی فکر میں رہا۔۔۔
ملا کی دوڑ مسجد تک آج کام دے رہی ہے۔۔۔
جس دن ماں باپ بھی کام نہ آئیں گے۔۔۔
۴) وہ دو لوگ جنہوں نے محض اللہ کے لیے آپس میں محبت رکھی۔۔۔
علماء کرام، مشایخ عظام اور اولیاء وقت سے محبت رکھنا۔۔۔
اللہ کے لیے ان کا ادب کرنا۔۔۔
ان کی صحبتوں و مجالس میں جاکر دین سیکھنا۔۔۔
آج کام دے گا ۔۔۔
جس دن ساری کائنات کی دولت بھی کسی کام نہ آئے گی۔۔۔
۵) وہ آدمی جس کو اعلیٰ اچھے خاندان کی حسین و جمیل عورت دعوت گناہ دے۔۔۔
اور وہ کہہ دے۔۔۔
انی اخاف اللہ!!!
نہیں ۔۔۔نہیں ۔۔میں تو اپنے اللہ سے ڈرتا ہوں۔۔۔
عشق مجازی کی عارضی حرام لذت سے بچنا رائیگاں نہیں گیا۔۔۔
آج بڑے کام آرہا ہے۔۔۔
عورت کسی مرد کی دعوت گناہ ٹھکرا دے تو۔۔۔
وہ بھی آج مزے میں ہوگی۔۔۔
۶) صرف اللہ کو دکھانے کے لیے ایسے اخلاص سے صدقہ کرے۔۔۔
کہ دائیں ہاتھ سے دے تو بائیں کو خبر نہ ہو۔۔۔
شوہر دے تو بیوی بے خبر رہے۔۔۔
بیوی اپنے ذاتی مال سے دے تو شوہر کو علم نہ ہو۔۔۔
باقی تو سب کسی شمار میں ہی نہیں۔۔۔
۷) جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرے۔۔۔
اور اللہ کی محبت یا خوف سے۔۔۔
اس کی آنکھیں بہہ پڑیں!!!

۸) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔
قیامت کے دن چہروں کو روشن کرنے والا ایک عمل بیان فرمارہے ہیں۔۔۔
کہ اس روز جب سب کے چہرے سیاہ ہوں گے۔۔۔
تو۔۔۔
چند لوگ ہوں گے ۔۔۔
جن کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح روشن اور چمک دار ہوں گے۔۔۔
یہ وہ لوگ ہوں گے۔۔۔
جو روزانہ سو مرتبہ لا الٰہ الّا اللہ پڑھا کرتے تھے۔۔۔

جس دن ساری انسانیت حساب کتاب کی پیشیاں بھگت رہی ہو گی۔۔۔
اس دن۔۔۔
یہ خوش نصیب لوگ عرش کے سائے میں ۔۔۔
روشن اور چمک دار چہرے لیے۔۔۔
اطمینان سے ہوں گے۔۔۔
کیوں کہ۔۔۔۔
اللہ نے ان کے کسی اجر ،کسی کی محنت کو ضائع نہیں کیا۔۔۔
ماشا اللہ بھائی اللہ آپ کو اس کی جزا دے. آمین
 

بنت یوسف

محفلین
موت کے بعد دوسرا سخت ترین مرحلہ قبر و برزخ کا ہے...
جہاں دنیا میں زندگی گزارنے کے لحاظ سے معاملہ ہوگا...
۱) ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سنانے کھڑے ہوئے تو قبر کے احوال بیان فرمائے، اسے سُن کر مسلمان مارے خوف کے زور زور سے رونے لگے...
۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر کے متعلق سوال کیا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہاں عذاب قبر برحق ہے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہے...
دنیا سے آنکھیں بند ہوتے ہی دوسرے جہاں کی آنکھیں کھل جاتی ہیں...
۳)ایک حدیث ہے کہ میت پہچانتی ہے کہ کون اسے غسل دیتا ہے، کون اسے اٹھاتا ہے، کون اسے کفن پہناتا ہے اور کون اسے قبر میں اتارتا ہے...
۴)ایک دوسری حدیث ہے کہ جب جنازہ اٹھایا جاتا ہے تو اگر نیک ہو تو کہتا ہے کہ مجھے جلدی لے چلو، اور نیک نہ ہو تو کہتا ہے کہ ہائے بدقسمتی! تم مجھے کہاں لے جارہے ہو؟
۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے کوئی منظر قبر کے منظر سے زیادہ خوفناک نہیں دیکھا...
۶) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کی تدفین سے فارغ ہو جاتے تو قبر پر کھڑے ہو کر فرماتے کہ اپنے بھائی کے لیے مغفرت اور ثابت قدمی کی دعا کرو کیونکہ اب اس سے سوال کیا جا رہا ہے...
۷) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے، جو اس سے نجات پاگیا تو آگے کی منزلیں آسان ہیں...
اور اگر نجات نہ پاسکا تو بعد کی منزلیں سخت ہیں...
قبر کے عذاب میں مبتلا کرنے والی دو وجوہات بہت بڑی نہیں ہیں... بالکل معمولی ہیں...
حضور صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں پر سے گزرے تو فرمایا کہ انہیں عذاب ہو رہا ہے...
اور کسی بڑی بات پر نہیں بلکہ ان میں سے ایک چغلی کھاتا پھرتا تھا (یعنی جھوٹ سچ بول کر ایک کو دوسرے سے لڑاتا تھا یا ان کے درمیان بد مزگی پیدا کرتا تھا۔) ...
اور دوسرا پیشاب کے چھینٹوں سے احتیاط نہیں کرتا تھا...
قبر کی تاریکی، عذاب اور خوفناکیوں سے بچنے کے لیے احادیث پاک کی رو سے پانچ اعمال بیان کیے جاتے ہیں:
۱)حدیث پاک کی روشنی میں سورۂ ملک (انتیس پارہ)کی روزانہ بعد عشاء (فجر تک کے دوران کسی بھی وقت) تلاوت کا اہتمام کرنا قبر کے عذاب سے بچاتا ہے...
۲)زبان نبوت سے ادا ہونے والے ان الفاظ کے ذریعے دعا کرکے قبر کے عذاب سے پناہ مانگئے:
اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ
اے اللہ! میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں...
۳)پیشاب کرتے وقت اس کی چھینٹوں سے بچیں...
۴) مسلمان بھائیوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے کی عادت سے توبہ کریں...
۵) اور روزانہ کم از کم دو رکعت تہجد پڑھیں... کیوں کہ تہجد کی نماز قبر کو نور سے بھردیتی ہے...
تہجد پڑھنے کا ایک آسان طریقہ :
حدیث پاک میں ہے کہ عشاء کے بعد جو نفل نماز پڑھی جائے وہ تہجد میں داخل ہے...
چناں چہ عشاء کے فرض اور دو سنتوں کے بعد وتر سے پہلے اگر روزانہ کم از کم دو نفل بھی پڑھ لیے جائیں...
تو قیامت تک قبر اللہ کے نور اور روشنی سے منور رہے گی...
ان شاء اللہ!!!
عمران بھائی میری رہنمائی فرمائیں اس بارے میں کہ کیا مرنے کے بعد ہماری روح ہمارے ان پیاروں سے ملے گی جو عالمِ ارواح میں ہیں؟
 

سید عمران

محفلین
عمران بھائی میری رہنمائی فرمائیں اس بارے میں کہ کیا مرنے کے بعد ہماری روح ہمارے ان پیاروں سے ملے گی جو عالمِ ارواح میں ہیں؟

فی الوقت اس موضوع پر محدث محمد ناصر الدین البانی کی کتاب ’’السلسلۃ الصحیحۃ ‘‘سے ایک روایت نقل کی جارہی ہے:
إذا قبضت نفس العبد تلقاہ أہل الرحمۃ من عباد اللہ كما یلقون البشیر فی الدنیا ، فیقبلون علیہ لیسألوہ ، فیقول بعضہم لبعض : أنظروا أخاكم حتى یستریح ، فإنہ كان فی كرب ، فیقبلون علیہ ، فیسألونہ : ما فعل فلان ؟ ما فعلت فلانۃ ؟ہل تزوجت ؟ فإذا سألوا عن الرجل قد مات قبلہ قال لہم : إنہ قدہلك ، فیقولون : إنا للہ و إنا إلیہ راجعون ، ذہب بہ إلى أمہ الہاویۃ ، فبئست الأم و بئست المربیۃ . (قال الألبانی فی " السلسلۃ الصحیحۃ " 6 / 604)

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب کسی بندے کی روح قبض کی جاتی ہے تو (اس سے پہلے وفات پانے والے) اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اس کا اس طرح استقبال کرتے ہیں جس طرح دنیا میں لوگ خوشخبری دینے والے سے ملتے ہیں۔ پھر جب وہ بندے اس سے سوال کرنا چاہتے ہیں تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ اپنے بھائی کو تھوڑا آرام کرنے دو، یہ دنیا کی بے چینی و پریشانی میں مبتلا تھا۔ آخرکار وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ فلاں کس حال میں تھا؟ کیا اس کی شادی ہو گئی تھی؟ پھر جب وہ کسی ایسے آدمی کے بارے میں سوال کرتے ہیں جو اس سے پہلے مر چکا ہوتا ہے اور وہ جواب میں کہتا ہے کہ وہ تو مجھ سے پہلے مر چکا تھا، تو وہ کہتے ہیں انا لله و انا الیہ راجعون (یعنی وہ تو یہاں پہنچا ہی نہیں ) اس کا مطلب یہ ہوا کہ جہنم اس کا ٹھکانہ ہوا ، وہ برا ٹھکانہ اور رہنے کی بری جگہ ہے۔
 
آخری تدوین:
Top