میں کہ بیمارِ محبت ہوں دوا دے ساقی - فرحان محمد خان

میں کہ بیمارِ محبت ہوں دوا دے ساقی
مے میسر نہیں تو زہر ہی لا دے ساقی

دورِ حاضر کا ہوں سقراط سزا ہی دے دے
اپنے ہاتھوں سے مجھے زہر پلا دے ساقی

اہلِ ایمان اُسے ڈھونڈتے ہیں مسجد میں
ہائے بیچارے! اِنھیں رب سے ملا دے ساقی

"راہِ تحقیق میں ہر گام پہ اُلجھن" ہائے
خود شناسی کا کوئی جام پلا دے ساقی

تشنگی بڑھتی ہی جاتی ہے یہاں پر اپنی
جو مجھے خود سے ملا دے وہ دعا دے ساقی

ہم سے لوگوں کی خدا بھی نہیں سنتا واللہ
ہم سے لوگوں کو نہ جینے کی دعا دے ساقی

دورِ حاضر کی محبت کو ہوس کہتا ہوں
میں ہوں گستاخِ محبت تو سزا دے ساقی​
 

عظیم

محفلین
میں کہ بیمارِ محبت ہوں دوا دے ساقی
مے میسر نہیں تو زہر ہی لا دے ساقی
÷÷دوسرے مصرع میں 'تو' کا طویل کھینچنا اچھا نہیں لگ رہا ۔ الفاظ بدلنے کی ضرورت ہے ۔ مثلاً
÷÷مے میسر جو نہیں، زہر ہی لا دے ساقی

دورِ حاضر کا ہوں سقراط سزا ہی دے دے
اپنے ہاتھوں سے مجھے زہر پلا دے ساقی
÷÷'سزا ہی دے دے' کی وجہ سے بیان کمزور ہو رہا ہے ۔ سزا چاہتا ہوں یا سزا مانگتا ہوں وغیرہ شاید بہتر رہیں ۔

اہلِ ایمان اُسے ڈھونڈتے ہیں مسجد میں
ہائے بیچارے! اِنھیں رب سے ملا دے ساقی
÷÷پہلا مصرع معنوی اعتبار سے بھی کچھ درست نہیں لگ رہا ۔ اس کے علاوہ مجھے لگتا ہے کہ ایک دو حرف گرائے گئے ہیں اس لیے روانی بھی متاثر ہے ۔

"راہِ تحقیق میں ہر گام پہ اُلجھن" ہائے
خود شناسی کا کوئی جام پلا دے ساقی
÷÷ 'ہائے' کچھ بھرتی کا لگ رہا ہے ۔

تشنگی بڑھتی ہی جاتی ہے یہاں پر اپنی
جو مجھے خود سے ملا دے وہ دعا دے ساقی
÷÷پہلے مصرع میں 'اپنی' کی جگہ 'میری' ہونا چاہیے تھا ۔

ہم سے لوگوں کی خدا بھی نہیں سنتا واللہ
ہم سے لوگوں کو نہ جینے کی دعا دے ساقی
÷÷درست

دورِ حاضر کی محبت کو ہوس کہتا ہوں
میں ہوں گستاخِ محبت تو سزا دے ساقی
÷÷یہ بھی درست
 

الف عین

لائبریرین
عظیم سے متفق ہوں۔ صرف ’سزا ہی دے دے‘ میں قبول کر لیتا!
البتہ ردیف کے بارے میں ضرور کہتا کہ دو تین اشعار کے علاوہ ساقی کا کہیں محل نہیں ہے۔
 
Top