دس شاعرجو اپنی شاعری سے پیچھے رہ گئے۔فاضل جمیلی

وہ تو خوشبو ہے ہوائوں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے، پھول کدھر جائے گا
پروین شاکر کے اس شعر کی ویسے تو کئی پرتیں ہیں لیکن پھول کے اس مسئلےکو شاعری کی تفہیم کے تناظر میں دیکھاجائے توکہا جاسکتا ہے کہ شعربھی خوشبو کی طرح سفر کرتاہے۔ضروری نہیں کہ شاعر کا نام بھی اپنے ساتھ لے جائے۔اُردو شاعری میں سیکڑوں اشعار ایسےموجود ہیں جو زبان زدِ عام ہوئے اور اپنے خالق سے کہیں آگے نکل گئے۔

بہت سےاشعار ایسے ہیں جو ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکےہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جن کالکھنے والا تو کوئی اور ہے لیکن وہ کسی اور کے نام سے مشہور ہیں۔اسی طرح بہت سے فلمی گانوں پر ہم جھومتے تو بہت ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ ہمارے دل کی آواز کو اتنے خوب صورت اور دل نشیں الفاظ کا جامہ کس نے پہنایا ؟

کانوں میں رس گھولنے والےنازیہ حسن کے گیت ہوں یاجنون کادلوں میں دھڑکنے والانغمہ ’’ہےجذبہ ،جنوں تو ہمت نہ ہار‘‘ ۔گلوکار توبہت جانے پہچانے ہیں لیکن گانوں کے تخلیق کار گم نام کیوں رہ جاتے ہیں؟علی عظمت کا مشہورگانا ’’چین اک پل نہیں، اور کوئی حل نہیں‘‘ ، کس نے لکھا؟اورکون ہےوہ جو موجودہ دور کی بیشتر ڈرامہ سیریلز کے ٹائٹل سونگ لکھتا ہے،اس کے لکھے ہوئے گیت ان ڈراموں کی سگنیچر ٹونز بن جاتے ہیں لیکن ان گیتوں پر اس کے اپنے نام کا ٹھپہ نہیں لگتا۔

سجاد علی کا گانا’’تیری یاد ستاندی‘‘، راحت فتح علی کا’’میری ذات ذرہء بے نشاں‘‘ اور شفقت امانت علی کا ’’آنکھوں کے ساگر‘‘ہو یا ’’جنون اور عشق سے ملتی ہے آزادی‘‘جیسا مقبول عام ترانہ سب کے سب ایک ہی شاعر کی تخلیق ہیں اوران کا نام ہے صابر ظفر۔

صابر ظفر کراچی میں رہتے ہیں۔ان کی غزلوں کے اب تک انتالیس مجموعے شائع ہو چکےہیں۔ان کا پہلا مجموعہ ’’ابتداء‘‘ تھا۔جس کی ایک غزل ’’دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے‘‘، غلام علی کی آواز میں اپنی مقبولیت کے ریکارڈ قائم کر چکی ہےلیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس غزل کے خالق صابر ظفر ہیں۔

فیض احمد فیض کی ایک غزل ’’گلوں میں رنگ بھرے، بادِ نوبہار چلے‘‘ مہدی حسن نے گائی اور انہی کی پہچان بن کر رہ گئی۔ کہتے ہیں فیض صاحب ہندوستان گئے تو فرمائش ہوئی کہ کچھ عطا کیجئے ۔فیض صاحب نے یہی غزل سنانی شروع کی تو سامعین میں سے کسی نے آواز لگائی، جناب یہ تو مہدی حسن کی غزل ہے، کچھ اپنا کلام سنایئے۔

ایک اور مشہور غزل ’’اے جذبہ ء دل گر میں چاہوں، ہر چیز مقابل آ جائے‘‘کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ نیرہ نور نے گائی ہے لیکن بہزاد لکھنوی کا نام کم کم ہی سننے کو ملتا ہے جنہوں نے یہ غزل لکھی۔وہ لکھنئو میں پیداہوئے ، قیام پاکستان کے بعد کراچی آ گئے تھے اور یہیں ان کا انتقال ہوا۔اسی طرح چراغ حسن حسرت کو آج کتنے لوگ جانتے ہیں لیکن ان کایہ شعر ہر دوسرے شخص کو یاد ہے ۔
امید تو بندھ جاتی ، تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے، وعدہ تو کیا ہوتا
چراغ حسن حسرت کشمیری تھے۔حصولِ تعلیم کے بعد کولکتہ میں شعبہء صحافت سے منسلک ہوئے۔بعدازاں لاہور آگئے اور اس زمانے کے موٗقر روزناموں ’’زمیندار‘‘ اور ’’امروز‘‘ میں سندباد جہازی کے قلمی نام سے کالم لکھتے رہے۔فوج میں بھی ملازمت کی اور ریڈیوپاکستان سے بھی وابستہ رہے۔چراغ حسن حسرت لاہور ہی میں آسودہء خاک ہیں۔

بہت سے اشعار ایسے بھی ہیں جو علامہ اقبال کے نہیں ہیں لیکن ان کے نام سے منسوب ہیں۔اقبال کے نام سے مشہور انہی اشعار میں ایک شعر ایسا بھی ہے جو ہر سیاسی جلسے میں سننے کو ضرور ملتا ہے۔
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
یہ شعر دراصل شہیر مچھلی شہری کاہے۔آپ 1856 میں جونپور میں پیدا ہوئے ۔ ان کے آبائو اجدادایران کے علاقے نیشاپور سےمچھلی شہر کے محلہ سیّد واڑہ میں آکر آبادہو گئے تھے۔ 1929 میں شہیر کا انتقال ہوا ۔اسی طرح ظفرعلی خان کا ایک شعر بھی بہت سے لوگ اقبال اور بہت سے حالی سے منسوب کرتے ہیں۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

ظفر علی خان کا ہی ایک اور شعربھی بہت زیادہ مشہور ہے اور اکثر تقریروں اور تحریروں میں فراوانی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
ظفرعلی خان کا شمار تحریک ِ پاکستان کے اہم رہنمائوں میں ہوتا ہے۔انہوں نے مشہورزمانہ اخبار’’زمیندار‘‘ کا اجراء کیا۔انہیں بابائے صحافت بھی کہا جاتا ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ مذکورہ بالاضرب المثل اشعار کے خالق بھی ہیں۔

ایک اور شعر بھی اقبال کے نام سے مشہور ہے اور اخبارات و رسائل میں انہی کے نام سے نقل کیا جاتا ہے۔لیکن دراصل یہ شعر علامہ کا نہیں بلکہ شکر گڑھ کے ایک وکیل سید صادق حسین کا ہے۔
تندیء بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لئے
صادق حسین ایڈوکیٹ کی ایک مختصر کتاب ”برگِ سبز“کے نام سے 1976ءمیں شائع ہوئی تھی جس میں یہ شعر موجود ہے۔

ایک شاعر برق لکھنوی ہوا کرتے تھے۔ان کا نام بھی کسی نے نہیں سنا لیکن ان کا ایک شعر اتنازیادہ مشہور ہے کہ سید قائم علی شاہ تک کو یاد ہے۔
مدّعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے ، جو منظورِ خدا ہوتا ہے
برق لکھنوی کااصل نام مرزا محمد رضا خاں تھا لیکن وہ برق تخلص کیا کرتے تھےاور استاد ناسخ کے شاگردوں میں تھے ۔ ایک دیوان ان کی حیات میں 1853 میں شائع ہوا ۔ 1857 میں کلکتہ میں ان کا انتقال ہوا۔

اور یہ شعر شاذہی کوئی ہو جس نے کسی خاص صورتحال کی ترجمانی کےلیے اپنی زبان سے ادا نہ کیا ہو۔اس شعر کے خالق ثاقب لکھنوی کو بھی کوئی نہیں جانتا۔
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا دینے لگے
ثاقب لکھنوی کی شاعری میں پائے جانے والے گداز اور سلاست کی وجہ سے ان کے کئی اشعار ان کے نام سے بہت آگے نکل گئے ہیں اور آج ضرب المثل کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں۔ثاقب کے درج ذیل دو اشعاربھی ہر دوسرے شخص سے سننے کو ملتے ہیں لیکن کسی کی زبان پر اس شاعرِ بے مثال کا نام نہیں آتا۔
بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ
ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے
مٹھیوں میں خاک لے کے دوست آئے وقتِ دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے

شکست وفتح کی صورت میں تسلی کے دولفظ اداکرنے ہوں تو اکثر کہا جاتا ہے’’مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا‘‘۔اس مصرعے کو بہت سے لوگ میرتقی میر کا سمجھتے ہیں یا امیر مینائی کے نام سے منسوب کرتے ہیں حالانکہ یہ شعر دونوں میں سے کسی ایک کا بھی نہیں ، نواب محمد یار خاں کا ہے۔میر سے منسوب کرنے والے اس شعر کو اس طرح لکھتے اور پڑھتے ہیں۔
شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا
لیکن اصل شعر کچھ اس طرح لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔
شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
اردو شاعری میں ایسے سیکڑوں اشعار ہیں جو شاعر سے زیادہ شہرت رکھتے ہیں۔آئیے ان بچھڑے ہوئوں کو آپس میں ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ایک شاعر پنڈت مہتاب رائے تاباں ہوا کرتے تھے۔ان کا نام کسی کو یاد نہیں رہا لیکن سر پہ بن آئے کچھ ایسی تو ان کایہ شعر دہرانا کوئی نہیں بھولتا۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
ایک شعر آپ کو ہر لوحِ مزار پر لکھا ہوا نظر آجائے گا۔
پھول تو دو دن بہارِ جانفزا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بِن کھِلے مرجھا گئے
یہ شعر بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ اُستاد ابراہیم ذوق کا ہے جوانہوں نے کچھ اس طرح لکھا تھا۔
کھل کے گل کچھ تو بہار اپنی صبا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بِن کھِلے مرجھا گئے
آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے نام سے منسوب یہ اشعار بھی ان کے نہیں بلکہ جاوید اختر کے دادا مضطر خیرآبادی کے ہیں۔
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
کسی کام میں جو نہ آ سکے مَیں وہ ایک مشتِ غبار ہوں
مضطر کا مجموعہ کلام ’’خرمن‘‘ کے نام سے پچھلے سال منظرِ عام پر آیا اور اسے جاوید اختر ہی نے ترتیب دیا ہے۔ مضطر خیرآبادی کے بیٹے اورجاوید اختر کے والد جاں نثار اختر بھی اپنے دور کے عمدہ شاعر تھے۔ ان کی ایک غزل جو بہت مشہور ہوئی ، آج بھی سننے والوں کو ایک رومانوی فضا میں لے جاتی ہے۔
اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں
کچھ شعر فقط ان کو سنانے کے لیے ہیں
دیکھوں ترے ہاتھوں کو تو لگتا ہے ترے ہاتھ
مندر میں فقط دیپ جلانے کے لیے ہیں
یہ علم کا سودا یہ رسالے یہ کتابیں
اک شخص کی یادوں کو بھلانے کے لیے ہیں

فاضل جمیلی
 
Top