امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا

یہی اشکال مجھے بھی ہے۔ ایک لڑی پر بات چھوڑ کر دوسری پر شروع پھر تیسری اور پھر۔۔۔۔

میری طرف سے اب اس موضوع پر اس لڑی میں کوئی بات نہیں ہو گی۔ کیونکہ مرزا صاب رفو چکر ہو چکے ہیں۔ اب اگر انہیں اس موضوع پر بات کرنی ہو تو ایک الگ لڑی پروئیں۔
مرزا حنیف احمد صاب اس پر بھی نظر کرم فرما لیں۔ ہر لڑی ایک ہی کام کے لیے نہیں ہوتی۔ اپنے مقاصد ہوتے ہیں اس کے۔ اور کسی کی لڑی کو یوں خراب کرنا اخلاقاً غلط ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
بیت المقدس مملکتِ فلسطین کا دارالحکومت؟
ڈاکٹر فرقان حمید


امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایسے وقت میں القدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کا فیصلہ سناتے ہوئے عالمِ اسلام کو ایک ایسی آگ میں دھکیل دیا ہے جس میں عالمِ اسلام کے چند ایک امریکہ نواز ممالک کے ساتھ ساتھ امریکہ کے خود جل کر بھسم ہونے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ صدر ٹرمپ اگرچہ امریکی سفارت خانے کو جلد ہی القدس منتقل کرنےکے لئے تیاریاں کرنے کا حکم بھی جاری کرچکے ہیں لیکن یہ سفارت خانہ کسی بھی صورت ان کے دور میں منتقل ہوتا دکھائی نہیں دیتا اور ان کے بعد آنے والا کوئی بھی امریکی صدر اس قسم کے احمقانہ فیصلے پر عمل درآمدکروانے کے قابل ہی نہیں ہوگا۔ امریکی صدر ٹرمپ کے اس فیصلے پر دنیا بھر میں شدید ردِ عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ ترکی، پاکستان، لبنان، ملائیشیا اور انڈو نیشیا کے علاوہ یورپی یونین، روس اور چین نے بھی اس فیصلے کو مشرقِ وسطیٰ پر کاری ضرب لگانے اور پہلے ہی مشکلات سے دوچار خطےکو آگ میں دھکیلنے سے تعبیر کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کیوں اس وقت یہ فیصلہ کیا ہے؟ اس کو سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ انہوں نے گزشتہ سال اپنی انتخابی مہم کے دوران صدر منتخب ہونے کی صورت میں القدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کا یہودی لابی سے جو وعدہ کیا تھا اس کو پورا کردیا ہے (صدر ٹرمپ کو جتوانے میں یہودی لابی نے بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہودی لابی امریکہ کی سب سے اہم لابی سمجھی جاتی ہے) اور انہوں نے آئندہ اس لابی سے مزید بہت کام لینا ہے۔ دوسری بڑی وجہ ان کو ان کے عہدے ہی کے دوران معزول کرنے کے لئے جس تحریک کا آغاز ہونے والا ہے اس سے قبل ہی انہوں نے یہ قدم اٹھاتے ہوئے اسی لابی کی ہمدردیاں حاصل کرنا، اپنے لئے بہتر سمجھا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں اگر ان کو معزول کرنے کی کوئی قرارداد پیش کی گئی تو اس کی راہ میں یہودی لابی ہی دیوار کھڑی کرسکتی ہے۔ اس لئے انہوں نے اپنے اقتدار کو جاری رکھنے کے لئے یہودی لابی کو یہ تحفہ دیا ہےتاکہ یہ لابی ان کے اقتدار کو بچائے رکھے۔ صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ہمیں اس پر بھی نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ جو سلامتی کونسل کا مستقل رکن ملک ہے 1967ء اور 1973ء میں سلامتی کونسل کی جانب سے منظور کردہ ’’مقبوضہ علاقے‘‘ جس میں القدس بھی شامل ہے ،پر امریکہ کے بھی دستخط موجود ہیں اور اب وہ القدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اپنے اس فیصلے کو خود ہی ردی کی ٹوکری کی نذر کررہا ہے۔ اسی طرح مصر کے ساتھ 1978ء میں طے پانے والے کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے ،جس میں پہلی بار مشرق وسطیٰ میں سلسلہ امن کا ذکر کیا گیا تھا، عملی طور پر ختم ہو کر رہ جائے گا۔ کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے جس میں مشرقی القدس کے اسرائیل کے قبضے میں ہونے کا ذکر کیا گیا ہے کو اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین اور روس نے بھی قبول کرلیا تھا۔ علاوہ ازیں امریکہ کے اس فیصلے سے سلسلہ اوسلو سمجھوتے کو بھی نقصان پہنچا ہےاوراسرائیل کے زیر قبضہ دیگر فلسطینی علاقوں میں بھی یہودی بستیوں کی تعمیرات کو قانونی شکل حاصل ہو جائے گی۔ القدس کو اسرائیل کے حصے کے طور پر دیکھنے والے عناصر غیر قانونی یہودی بستیوں کو قانونی راستہ دلوانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ علاوہ ازیں ٹرمپ کے اس فیصلے سے اسرائیل سمیت پورا علاقہ ایک بار پھر انتفادہ کی لپیٹ میں آجائے گا اور اس بار شروع ہونے والا انتفادہ شاید اب اسرائیل کے لئے جلتی پر تیل کا کام کرے۔ کیا صدر ٹرمپ کو اپنے اس فیصلے سے باز رکھا جاسکتا ہے؟ فی الحال ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اقوام متحدہ بھی اس سلسلے میں ان کو نہیں روک سکتی حالانکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گٹریس نے صدر ٹرمپ کے اس فیصلے پر اپنے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے لیکن اس کے باوجود وہ امریکی صدر کے فیصلے کو تبدیل کروانے کی سکت نہیں رکھتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ امریکہ کے خلاف کسی بھی صورت کوئی قرارداد سلامتی کونسل سے منظور نہیں کروائی جاسکتی ہے۔ عرب لیگ ویسے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس میں کبھی یک جہتی اور اتحاد کا مظاہرہ نہیں ہوا اور اب بھی وہ امریکی صدر ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکی۔جہاں تک تنظیم اسلامی کانفرنس کا تعلق ہے اس تنظیم سے بھی کوئی زیادہ توقعات نہیں ہیں لیکن ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان اس تنظیم کے موجوہ چیئرمین ہیں اور جو فلسطینیوں کے سچے ہمدرد اور حکومتِ اسرائیل کے فلسطینیوں کے سرزمین پر غاصبانہ قبضے کے سخت خلاف ہیں، کی قیادت میں او آئی سی کے سربراہی اجلاس میں کسی جراتمند انہ فیصلے اور قرارداد منظور کیے جانے کی توقع کی جا رہی ہے۔ صدر ایردوان نے اس کانفرنس کے اجلاس سے قبل بیان دیتے ہوئے امریکہ کے اس متنازع فیصلے کے خلاف لڑنے کا اعلان کیا اور اسرائیل کو معصوم بچوں کی قاتل ’’دہشت گرد‘‘ ریاست قرار دیا ہے۔ اس سے قبل وہ اپنے ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ بیت المقدس، جس کے مشرقی حصے کو فلسطینی اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں، مسلمانوں کے لئے ’’سرخ لکیر‘‘ ہے جس کو عبور نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے اسرائیل کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام کو اسرائیل کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا ہے۔ اگرچہ او آئی سی امریکی صدر کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور تو نہیں کرسکتی ہے لیکن اس تنظیم کے پاس ایک ایسا ہتھیار موجود ہے جس سے نہ صرف اسرائیل ہل کر رہ جائے گا بلکہ اس سے امریکہ کو بھی اپنے پائوں تلے زمین سرکتی محسوس ہو گی۔ اوآئی سی کے سربراہی اجلاس کے موقع پر اگر تمام اسلامی ممالک بیت المقدس کو مملکتِ فلسطین کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کا بیک وقت اعلان کردیں اور چین اورروس جیسے ممالک کی بھی حمایت حاصل کرلیں تو امریکہ اور اسرائیل کی کایا پلٹی جاسکتی ہے۔ اس قسم کی قرارداد کی منظوری امریکہ کے لئے تاریخ کی بدترین شکست ہوگی اور اس کا سپر قوت ہونے کا زعم پاش پاش ہو جائے گا،جس سے اسلامی ممالک کی امریکہ کے غلبے سے نکلنے کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔ ترکی کے صدر ہمیشہ ہی اقوام متحدہ میں پانچ ممالک کی اجارہ داری کا رونا روتے چلے آرہے ہیں۔ تنظیم اسلامی کانفرنس کے سربراہی اجلاس کے دوران ایک قرارداد منظور کرواتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کسی بھی اسلامی ملک (آبادی یا ترقی کے لحاظ سے ترکی، پاکستان، انڈو نیشیا اور ملائشیا) کو باری باری اسلامی ملک کی سیٹ پر ویٹو کے اختیارات دلوانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ (لیکن یہ اختیارات اس ملک کو نہیں بلکہ تنظیم اسلامی کانفرنس کے نام سے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ ورنہ اقوام متحدہ میں کبھی بھی کسی اسلامی ملک کے حق میں فیصلہ نہیں کرایا جاسکے گا) اب یہ تنظیم اسلامی کانفرنس کا کام ہے کہ وہ آپس میں اتحاد اور یک جہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی مذمتی قرارداد کو منظور کروانے کی بجائے اپنی توانائیاں کوئی ایسا فیصلہ کروانے میں صرف کرے، جس کے ذریعے اسلامی ممالک کے ساتھ ہونے والی کسی بھی نا انصافی کو ختم کروایا جاسکے ورنہ عالمِ اسلام یوں ہی زبوں حالی کا شکار رہے گا اور اس کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہوگا۔ تنظیم اسلامی کانفرنس آج تک عالمِ اسلام کے مفاد میں کوئی قدم اٹھانے میں ناکام رہی ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان جو اقوام متحدہ میں اسلامی ممالک کے ساتھ کیے جانے والے سلوک سے اچھی طرح باخبر ہیں اور جن کو مظلوم فلسطینی، کشمیری، روہنگیا مسلمانوں اور دیگر مظلوم عوام کی ہمدردیاں حاصل ہیں، اس کانفرنس کے ذریعے کوئی ایسا فیصلہ کروانے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں عالمِ اسلام کی تاریخ تبدیل ہو کر رہ جائے اور وہ پانچ مغربی ممالک کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بننے کی بجائے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کے مجاز بن جائیں۔

ماخذ
 

زیک

مسافر
بیت المقدس مملکتِ فلسطین کا دارالحکومت؟
ڈاکٹر فرقان حمید


امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایسے وقت میں القدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کا فیصلہ سناتے ہوئے عالمِ اسلام کو ایک ایسی آگ میں دھکیل دیا ہے جس میں عالمِ اسلام کے چند ایک امریکہ نواز ممالک کے ساتھ ساتھ امریکہ کے خود جل کر بھسم ہونے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ صدر ٹرمپ اگرچہ امریکی سفارت خانے کو جلد ہی القدس منتقل کرنےکے لئے تیاریاں کرنے کا حکم بھی جاری کرچکے ہیں لیکن یہ سفارت خانہ کسی بھی صورت ان کے دور میں منتقل ہوتا دکھائی نہیں دیتا اور ان کے بعد آنے والا کوئی بھی امریکی صدر اس قسم کے احمقانہ فیصلے پر عمل درآمدکروانے کے قابل ہی نہیں ہوگا۔ امریکی صدر ٹرمپ کے اس فیصلے پر دنیا بھر میں شدید ردِ عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ ترکی، پاکستان، لبنان، ملائیشیا اور انڈو نیشیا کے علاوہ یورپی یونین، روس اور چین نے بھی اس فیصلے کو مشرقِ وسطیٰ پر کاری ضرب لگانے اور پہلے ہی مشکلات سے دوچار خطےکو آگ میں دھکیلنے سے تعبیر کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کیوں اس وقت یہ فیصلہ کیا ہے؟ اس کو سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ انہوں نے گزشتہ سال اپنی انتخابی مہم کے دوران صدر منتخب ہونے کی صورت میں القدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کا یہودی لابی سے جو وعدہ کیا تھا اس کو پورا کردیا ہے (صدر ٹرمپ کو جتوانے میں یہودی لابی نے بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہودی لابی امریکہ کی سب سے اہم لابی سمجھی جاتی ہے) اور انہوں نے آئندہ اس لابی سے مزید بہت کام لینا ہے۔ دوسری بڑی وجہ ان کو ان کے عہدے ہی کے دوران معزول کرنے کے لئے جس تحریک کا آغاز ہونے والا ہے اس سے قبل ہی انہوں نے یہ قدم اٹھاتے ہوئے اسی لابی کی ہمدردیاں حاصل کرنا، اپنے لئے بہتر سمجھا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں اگر ان کو معزول کرنے کی کوئی قرارداد پیش کی گئی تو اس کی راہ میں یہودی لابی ہی دیوار کھڑی کرسکتی ہے۔ اس لئے انہوں نے اپنے اقتدار کو جاری رکھنے کے لئے یہودی لابی کو یہ تحفہ دیا ہےتاکہ یہ لابی ان کے اقتدار کو بچائے رکھے۔ صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ہمیں اس پر بھی نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ جو سلامتی کونسل کا مستقل رکن ملک ہے 1967ء اور 1973ء میں سلامتی کونسل کی جانب سے منظور کردہ ’’مقبوضہ علاقے‘‘ جس میں القدس بھی شامل ہے ،پر امریکہ کے بھی دستخط موجود ہیں اور اب وہ القدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اپنے اس فیصلے کو خود ہی ردی کی ٹوکری کی نذر کررہا ہے۔ اسی طرح مصر کے ساتھ 1978ء میں طے پانے والے کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے ،جس میں پہلی بار مشرق وسطیٰ میں سلسلہ امن کا ذکر کیا گیا تھا، عملی طور پر ختم ہو کر رہ جائے گا۔ کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے جس میں مشرقی القدس کے اسرائیل کے قبضے میں ہونے کا ذکر کیا گیا ہے کو اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین اور روس نے بھی قبول کرلیا تھا۔ علاوہ ازیں امریکہ کے اس فیصلے سے سلسلہ اوسلو سمجھوتے کو بھی نقصان پہنچا ہےاوراسرائیل کے زیر قبضہ دیگر فلسطینی علاقوں میں بھی یہودی بستیوں کی تعمیرات کو قانونی شکل حاصل ہو جائے گی۔ القدس کو اسرائیل کے حصے کے طور پر دیکھنے والے عناصر غیر قانونی یہودی بستیوں کو قانونی راستہ دلوانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ علاوہ ازیں ٹرمپ کے اس فیصلے سے اسرائیل سمیت پورا علاقہ ایک بار پھر انتفادہ کی لپیٹ میں آجائے گا اور اس بار شروع ہونے والا انتفادہ شاید اب اسرائیل کے لئے جلتی پر تیل کا کام کرے۔ کیا صدر ٹرمپ کو اپنے اس فیصلے سے باز رکھا جاسکتا ہے؟ فی الحال ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اقوام متحدہ بھی اس سلسلے میں ان کو نہیں روک سکتی حالانکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گٹریس نے صدر ٹرمپ کے اس فیصلے پر اپنے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے لیکن اس کے باوجود وہ امریکی صدر کے فیصلے کو تبدیل کروانے کی سکت نہیں رکھتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ امریکہ کے خلاف کسی بھی صورت کوئی قرارداد سلامتی کونسل سے منظور نہیں کروائی جاسکتی ہے۔ عرب لیگ ویسے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس میں کبھی یک جہتی اور اتحاد کا مظاہرہ نہیں ہوا اور اب بھی وہ امریکی صدر ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکی۔جہاں تک تنظیم اسلامی کانفرنس کا تعلق ہے اس تنظیم سے بھی کوئی زیادہ توقعات نہیں ہیں لیکن ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان اس تنظیم کے موجوہ چیئرمین ہیں اور جو فلسطینیوں کے سچے ہمدرد اور حکومتِ اسرائیل کے فلسطینیوں کے سرزمین پر غاصبانہ قبضے کے سخت خلاف ہیں، کی قیادت میں او آئی سی کے سربراہی اجلاس میں کسی جراتمند انہ فیصلے اور قرارداد منظور کیے جانے کی توقع کی جا رہی ہے۔ صدر ایردوان نے اس کانفرنس کے اجلاس سے قبل بیان دیتے ہوئے امریکہ کے اس متنازع فیصلے کے خلاف لڑنے کا اعلان کیا اور اسرائیل کو معصوم بچوں کی قاتل ’’دہشت گرد‘‘ ریاست قرار دیا ہے۔ اس سے قبل وہ اپنے ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ بیت المقدس، جس کے مشرقی حصے کو فلسطینی اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں، مسلمانوں کے لئے ’’سرخ لکیر‘‘ ہے جس کو عبور نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے اسرائیل کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام کو اسرائیل کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا ہے۔ اگرچہ او آئی سی امریکی صدر کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور تو نہیں کرسکتی ہے لیکن اس تنظیم کے پاس ایک ایسا ہتھیار موجود ہے جس سے نہ صرف اسرائیل ہل کر رہ جائے گا بلکہ اس سے امریکہ کو بھی اپنے پائوں تلے زمین سرکتی محسوس ہو گی۔ اوآئی سی کے سربراہی اجلاس کے موقع پر اگر تمام اسلامی ممالک بیت المقدس کو مملکتِ فلسطین کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کا بیک وقت اعلان کردیں اور چین اورروس جیسے ممالک کی بھی حمایت حاصل کرلیں تو امریکہ اور اسرائیل کی کایا پلٹی جاسکتی ہے۔ اس قسم کی قرارداد کی منظوری امریکہ کے لئے تاریخ کی بدترین شکست ہوگی اور اس کا سپر قوت ہونے کا زعم پاش پاش ہو جائے گا،جس سے اسلامی ممالک کی امریکہ کے غلبے سے نکلنے کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔ ترکی کے صدر ہمیشہ ہی اقوام متحدہ میں پانچ ممالک کی اجارہ داری کا رونا روتے چلے آرہے ہیں۔ تنظیم اسلامی کانفرنس کے سربراہی اجلاس کے دوران ایک قرارداد منظور کرواتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کسی بھی اسلامی ملک (آبادی یا ترقی کے لحاظ سے ترکی، پاکستان، انڈو نیشیا اور ملائشیا) کو باری باری اسلامی ملک کی سیٹ پر ویٹو کے اختیارات دلوانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ (لیکن یہ اختیارات اس ملک کو نہیں بلکہ تنظیم اسلامی کانفرنس کے نام سے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ ورنہ اقوام متحدہ میں کبھی بھی کسی اسلامی ملک کے حق میں فیصلہ نہیں کرایا جاسکے گا) اب یہ تنظیم اسلامی کانفرنس کا کام ہے کہ وہ آپس میں اتحاد اور یک جہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی مذمتی قرارداد کو منظور کروانے کی بجائے اپنی توانائیاں کوئی ایسا فیصلہ کروانے میں صرف کرے، جس کے ذریعے اسلامی ممالک کے ساتھ ہونے والی کسی بھی نا انصافی کو ختم کروایا جاسکے ورنہ عالمِ اسلام یوں ہی زبوں حالی کا شکار رہے گا اور اس کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہوگا۔ تنظیم اسلامی کانفرنس آج تک عالمِ اسلام کے مفاد میں کوئی قدم اٹھانے میں ناکام رہی ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان جو اقوام متحدہ میں اسلامی ممالک کے ساتھ کیے جانے والے سلوک سے اچھی طرح باخبر ہیں اور جن کو مظلوم فلسطینی، کشمیری، روہنگیا مسلمانوں اور دیگر مظلوم عوام کی ہمدردیاں حاصل ہیں، اس کانفرنس کے ذریعے کوئی ایسا فیصلہ کروانے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں عالمِ اسلام کی تاریخ تبدیل ہو کر رہ جائے اور وہ پانچ مغربی ممالک کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بننے کی بجائے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کے مجاز بن جائیں۔

ماخذ
یہودی لانے سے متعلق یہ تجزیہ کافی غلط ہے
 
حالانکہ اس محفل کے ہر ایک دھاگے اور مراسلے میں آپ کا یہی ایک کام ہے۔
لڑی ٹھیک جا رہی تھی کہ ایک سابق ایڈمن نے یہ بھنگ ڈال دی:
کیا اسرائیل کسی پاکستانی مسلمان کو اپنے ہاں رہنے کی اجازت دے سکتا ہے؟ نہیں۔
تو پھر احمدیوں کو اپنے ہاں رہنے کی اجازت کیوں دیتے ہیں؟ یا بقول آپ کے، دے رکھی ہے؟
کیونکہ وہ بھی ہماری طرح آپ کو احمدی سمجھتےہیں، مسلمان نہیں!
کیونکہ میں پچھلے ہی سال حیفا اسرائیل میں احمدیہ جلسہ سے ہو کر واپس آیا ہوں، اسلئے اس تعصب زدہ مراسلے پر دھاگہ اپنے آپ لڑک گیا۔
 
میری طرف سے اب اس موضوع پر اس لڑی میں کوئی بات نہیں ہو گی۔ کیونکہ مرزا صاب رفو چکر ہو چکے ہیں۔ اب اگر انہیں اس موضوع پر بات کرنی ہو تو ایک الگ لڑی پروئیں۔
مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ بس آپ لوگ ہر دوسرے دھاگے میں احمدیوں کیخلاف بغض، کینہ اور تعصب دکھانا چھوڑ دیں۔
 
اگرچہ او آئی سی امریکی صدر کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور تو نہیں کرسکتی ہے لیکن اس تنظیم کے پاس ایک ایسا ہتھیار موجود ہے جس سے نہ صرف اسرائیل ہل کر رہ جائے گا بلکہ اس سے امریکہ کو بھی اپنے پائوں تلے زمین سرکتی محسوس ہو گی۔ اوآئی سی کے سربراہی اجلاس کے موقع پر اگر تمام اسلامی ممالک بیت المقدس کو مملکتِ فلسطین کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کا بیک وقت اعلان کردیں اور چین اورروس جیسے ممالک کی بھی حمایت حاصل کرلیں تو امریکہ اور اسرائیل کی کایا پلٹی جاسکتی ہے۔
57 مسلم ممالک نے آج متفقہ طور پر یہی مطالبہ کیا ہے کہ یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کیا جائے۔ یعنی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرپ سے بھی بڑی بونگی مار دی ہے۔ اگر یکطرفہ طور پر ہی یہ فیصلہ ٹھونسنا تھا تو سالہا سال کے اسرائیل-فلسطین مذاکرات پر وقت برباد کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کے باقی 150 ممالک ان 57 مسلم ممالک کو ہری جھنڈی دکھاتےہیں یا ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ ویسے عملی طور پر ان اقدام کا اسرائیل کو کوئی نہیں فرق پڑتا۔ یروشلم پچھلے 3000 سال سے اہل یہود کا مرکز ہے، اور آئندہ بھی رہے گا۔
 

فاخر رضا

محفلین
پندرہ سو سال پہلے خانہء کعبہ سے رسول اللہ نے بت گرائے تھے. اب ہندو کہیں گے کہ کعبہ پر ہمارا حق ہے اور احمدی اس کی حمایت کریں گے
 

فاخر رضا

محفلین
خانہء کعبہ کی طرح فلسطین اور مسجد اقصی مسلمانوں کی ہے. یہ عرب اسرائیل جھگڑا نہیں ہے ورنہ اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن ایران نہ ہوتا
 
پندرہ سو سال پہلے خانہء کعبہ سے رسول اللہ نے بت گرائے تھے. اب ہندو کہیں گے کہ کعبہ پر ہمارا حق ہے اور احمدی اس کی حمایت کریں گے
ان بتوں کا تعلق ہندو مذہب سے نہیں تھا۔ مضحکہ خیز دلیلیں دیکر اپنا مذاق نہ بنائیں۔
 

فاخر رضا

محفلین
ٹرمپ نےیہ ایک بیوقوفانہ حرکت کی ہے اور اس طرح عربوں کی امریکہ سے نفرت میں اضافہ ہوگا. دوسری طرف ایران کو اسرائیل کے خلاف مزید ہمدردی ملے گی اور سعودی ایران جنگ میں ایران یہ کارڈ استعمال کرے گا. یورپ کا جھکاؤ بھی ایران کی طرف بڑھے گا. ٹرمپ اور ابامہ کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ کو پہلے بھی عراق اور شام میں سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ حرکت بھی counter productive ثابت ہوگی
 
Top