جب مسلمانوں کے رب کی مدد کفار کے ساتھ ہو گئئ

سید احمد

محفلین
بارھویں صدی عیسویں کے اختتام پہ چنگیز خان نے تقریباﹰ سارا چِین فتح کر لیا تھا ۔ اور اب اس نے قریبی ملکوں کے ساتھ تجارت فروغ دینے کا ارادہ کیا ۔
چنگیز خان کی حکومت کے جنوب میں بہت بڑی اور طاقتور مسلمان حکومت سلطنت خوارزم تھی ۔
سنہ 1200 عیسوی میں سلطان قطبدین کے بیٹے علاودین نے تخت سنبھالا ۔
چنگیز خان نے علاؤدین کی طرف تجارت کی غرض سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور اپنا ایلچی علاؤدین کے دربار میں بھیجا ۔
چنگیز کے ایلچی نے مسلمان سلطنت خوارزم اور چنگیزی سلطنت کے درمیان تجارت کا معاہدہ طے کیا ۔
کچھ عرصے بعد چنگیزی حکومت کے تاجر معاہدے کے مطابق سامان لے کر مسلمانوں کی سلطنت خوارزم کی حدود میں داخل هوئے ۔ جس علاقے میں وہ داخل ہوئے وہاں کا گورنر خلیفہ علاؤدین کا ماموں تھا اور انتہائ لالچی انسان تھا ۔
منگولیا سے آنے والے چنگیزی حکومت کے تاجروں کا سامان دیکھ کر اسے لالچ آئ اور اس نے تاجروں کو بغیر ثبوت کے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کر لیا ۔
تاجروں کی گرفتاری کے بعد اس نے اپنا پیغام دارالحکومت بھیجا اور خلیفہ علاؤدین سے مشورہ مانگا کہ ان تاجروں کے ساتھ اب کیا سلوک کیا جائے.
علاؤدین کا کام تھا کہ سلطنت میں انصاف کی بالاتری قائم رکھے اور مظلوم کا ساتھ دے ،
مگر ماموں کی طرفداری کی اور کہ دیا کہ منگول قیدیوں کے ساتھ جو چاہو کرو ۔
خلیفہ علاؤدین کے ماموں نے سارے قیدیوں کو مقدمہ چلائے بغیر اور جرم ثابت ہوئے بغیر قتل کروا دیا اور ان کا لایا ہوا تجارتی سامان رکھ لیا ۔
ادھر چنگیز خان کو جب اپنے بھیجے هوئے تاجروں کے ساتھ ہونے والے سلوک کا پتہ چلا تو اسے حیرت ہوئ اور سوچا کہ شاید مسلمانوں کے حکمران سے غلطی ہوئ ہو اور اس نے اپنا ایلچی خلیفہ علاؤدین کے دربار میں بھیج کرانصاف کا مطالبہ کروایا ۔
ایلچی نے خلیفہ کے سامنے چنگیز خان کا مطالبہ رکھا کہ چنگیزی تاجروں کے قاتل کو اس کے کیئے کی سزا دی جائے یا اسے چنگیز خان کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ خود انصاف کر لے ۔ اور تاجروں کا سامان واپس چنگیز خان کو بھیجا جائے ۔
انصاف اور دانشمندی کا تقاضہ یہ تھا کہ خلیفہ کم از کم چنگیزی تاجروں کا سامان ہی واپس کروا دیتا اور اگر اپنے ماموں کو چنگیز خان کے حوالے کرنا ممکن نہ تھا تو ایک معافی نامہ لکھ کر چنگیزی ایلچی کے همراه کر دیتا ۔
مگر خلیفہ علاؤدین خوارزمی نے طیش میں آ کہ چنگیزی ایلچی کو انصاف فراہم کرنے کے بجائے قتل کروا دیا ۔
خلیفہ کے اس ظلم اور نا انصآفی کے عمل اور اس پہ اکڑ اور غلطی تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے اب یہ اللہ کی نظروں میں گر چکا تھا اور اللہ کا غیض و غضب اس کی طرف متوجہ ہو گیا ۔
اُدھر چنگیز خان کو جب خلیفہ کے رویّے کی اطلاع ملی تو اس نے ایک ایسا عمل کیا جو شاید تاریخ میں کسی کافر بادشاه نے نہ کیا ہو ۔
غم.اور غصے کی حالت میں رات کی تاریکی میں وہ اکیلا ایک پہاڑ پہ چڑھا اور آسمان کی طرف منہ کر کہ بولا ۔
اے مسلمانوں کے اللہ ۔ تیرے ماننے والوں نے میریساتھ دھوکا اور میری رعایا کے ساتھ ظلم کیا ۔ مجھے پتہ ہے کہ تو مظلوم کی دعا قبول رد نہیں کرتا چاہے وہ کافر ہی ہو ۔چنانچہ میں ایک کافر ۔ تموجن عرف چنگیز خان آج تجھ سے مدد مانگتا ہے تاکہ ظالموں کو ان کے کیئے کا مزہ چکھا سکوں ۔
اس رات چنگیز خان کی دعا قبول ہو گئ ۔
واقعات 1218 عیسویں میں هوئے.
**★★★★★★**
پہاڑ سے اتر کر چنگیز خان اپنے سینے میں انتقام کی آگ لیئے واپس اپنے خیمے میں آیا ۔ اسے کسی غیبی طاقت کا اپنے ساتھ ہونے کا گمان ہونے لگا ۔
اس نے اپنے سپہ سالاروں سے سلطنت خوارزم پہ حمله کے لیئے مشورے شروع کر دیئے ۔
مسلمان سلطنت کا بادشاہ علاؤدین شاہ خوارزم نے اپنی نو جوانی میدان جنگ میں گزاری تھی اور اپنی بہادری کی وجہ سے مشہور تھا ۔ وہ سلجوقی نسل کا تھا اور سلجوقیوں نے یورپ اور مشرق وسطی میں صلیبی جنگوں کے دوران عیسائ افواج کو اس بُری طرح ہرایا تھا کہ یورپ میں مائیں اپنے بچوں کو سلجوقی مسلمان سپہ سالاروں کے ناموں سے ڈراتیں ۔
بادشاہ کے کی سلطنت وسطی ایشیا ۔ ایران اور افغانستان سمیت کافی بڑے رقبے پر محیط تھی ۔ سلطنت کی افوج ساڑھے چار لاکھ تربیت یافتہ اور تجربہ کار سپاہ پہ مشتمل تھے ۔ ان کے پاس اسلحہ کی کوئي کمی نہ تھی ۔
دوسری جانب چنگیزی افواج بھی تجربہ کار تھے ۔ مگر چھوٹے چھوٹے قبائلي گروہوں پہ مشتمل تھے اور تعداد میں صرف ڈھائی لاکھ کے قریب ۔
علاؤدین کے مقابلے میں چنگیز خان کمزور تھا -
مگر اب پانسہ پلٹ چکا تھا - آسمانوں پہ فیصلے ہو چکے تھے ۔ جس ذات نے علاؤدین کو طاقت رعب اور دبدبے سے نوازا تھا اسی ذات عالی نے یہ سب کچھ واپس لینے کا ارادہ کر لیا تھا ۔
چنگیز خان اپنے بیٹوں کو حکومت دت کر تاتاری لشکر تیار کرنے میں مشغول ہو گیا ۔ ڈھائ لاکھ سپاہ مسلمانوں پہ حملے کے لیئے تیار تھے ۔
چنگیز خان نے اپنے ایک بیٹے جوجی کی کمان میں ایک لاکھ کا لشکر آگے روانہ کیا ۔
سلطان علاؤدین خوارزم شاہ اس لشکر کے ساتھ جنگ کے لیئے تیار بیٹھا تھا ۔
جوجی کا لشکر مسلمانوں کے لشکر کے آمنے سامنے ہوا ۔ تاتاریوں کے ساتھ اللہ کی مدد کی پہلی نشانی یہ تھی کہ ان کے دلوں سے مسلمانوں کی ہیبت اور خوف اٹھا لیا گیا ۔ چنگیز خان کے بھیجے ہوئے اس لشکر نے مسلمانوں پہ بہت زوردار حملہ کیا ۔ ان کی دلیری نے مسلمان سپہ سالاروں کو حیران کر دیا ۔ تاتاریوں کی تلواریں لہراتی رہیں اور مسلمانوں کے سر اُڑتے رهے ۔ مسلمان لشکر جو آج تک جنگیں جیتنے کا عادی تھا ۔ اب خوف میں مبتلا ہو کر پیچھے ہٹنے لگا ۔ علاؤدین خوارزم شاہ اپنے لشکر کی تباہی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا ۔ جوجی مسلمانوں کے بادشاه کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا ۔
مسلمانوں کو شکست ہونے ہی والی تھی کہ بادشاه کا بڑا بیٹا صلاح الدین ایک کئی گنا چھوٹے لشکر کے ساتھ آن پہچان اور چنگیزی افواج پہ ٹوٹ پڑا ۔
**★★★**
سلطان کا بڑا بیٹا ایک نیک اور بہادر شخص تھا اور اپنے باپ کے کئی غلط اور غیر منصفانہ فیصلوں کی مذمت کر چکا تھا ۔ جنگ میں الله کے ایک پسندیدہ بندے کی موجودگی نے الله کی رحمت کو مسلمانوں کی طرف متوجہ ہونے کا جواز دیا اور صلاح الدین خوارزمی کے چند ہزار فوجیوں نے جنگ کا نقشہ تبدیل کرنا شروع کر دیا ۔ مسلمان فوجیوں کے دلوں میں ایک بار پھر ہمت اور جیت کی امنگ پیدا ہوئ اور انہوں نے مل کر تاتاریوں پہ حملے شروع کر دیئے ۔ بھاگتے ہوئے مسلمان سپاہی واپس لوٹ آئے اور وقتی طور پہ لشکر کی کمان بادشاہ سے ہٹ کر اس کے بیٹے صلاح الدین کے پاس آ گئ ۔صلاحآلدین خوارزمی نے کمال بہادری اور جنگی حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تاتاری لشکر کو گھیرے میں لے لیا اور اب تاتاری بوکھلا کر بھاگنا شروع ہو گئے ۔ چنگیز خان کے بیٹے جوجی نے اپنےلشکر کو بھاگنے کا حکم دیا اور تاتاری اپنی ہزاروں لاشیں چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ مسلمانوں نے ہاری ہوئ جنگ جیت لی ۔
اب مسلمانوں کے بادشاہ علاؤدین کو یہ ایک آخری موقع ملا کہ اپنے گریبان میں جھانکے اور سمجھنے کی کوشش کرے کہ اس پہ عذاب کی سے احوال کیوں آئے ہوئے ہیں ۔ اُدھر چنگیز خان کا لشکر واپس پہنچا اور اسے شہزادہ صلاحآلدین خوارزمی کی بہادری کی خبر دی ۔ اپنے لشکر کا نقصان دیکھ کر چنگیز خان وقتی طور پہ رک گیا ۔ مگر مسلمانوں پہ نظر رکھنے اپنے جاسوس سلطنت خوارزم بھیج دیئے ۔ اس وقت مشرق میں پاکستاں اور ہندوستان کے علاقوں پہ قطب الدین ایبک کی قائم کردہ سلطنت دہلی کی حکومت تھی اور یہ ایک طاقتور مسلمان ریاست تھی ۔
مغرب میں مشہور کُرد مسلمان فاتح صلاح الدین ایوبی کی قائم کردہ سلطنت تھی ۔ اگر بادشاہ علاؤدین خوارزمی عقلمندی سے کام لیتا تو مشرق و مغرب ایلچی بھیج کر مسلمان حکومتوں سے مدد طلب کرتا ۔ مگر خوارزم کے اس بادشاہ کی عقل پہ پردے پڑ چکے تھے ۔
منگولوں کے اوپر فاتح ہونے کے باوجود بادشاہ ہمت ہار چکاتھا.ہر چیز کی تاثیر اللہ کے حکم سے آتی ہے ۔ وہی پانی کسی کی زندگی اور کسی کی موت کا موجب بنتا ہے ۔
اسی طرح جیت ہار کی تاثیر بھی الله کے حکم سے ہوتی ہے ۔
منگولوں پہ جیت کا بادشاہ پہ الٹا اثر ہوا اور وہ چنگیز خان کے خوف میں مبتلا ہو گیا ۔
منگولوں کا خوف علاﺅ الدین خوارزم شاہ کے دل و دماغ اتنا حاوی ہو ا کہ وہ بجائے اس کے کہ چنگیز خان کے مزید حملوں سے نبرآزما ہونے کے لئے مزید جنگی منصوبہ بندی کرتا غلطیوں پر غلطیاں کرتا رہا۔ اس کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ چنگیز خان کے لشکر کو شکست دینے کے بعد وہ اپنے تمام لشکر کو لے سمرقند پہنچ گیاحالانکہ اس کے لشکر کی تعداد اسوقت چار لاکھ کے قریب تھی۔ دوسرے بڑی غلطی اس نے یہ کی کہ اپنے لشکر کو اس نے مختلف حصوں میں تقسیم کردیا۔ اپنے لشکر میں سے اس نے ساٹھ ہزار کا لشکر اپنے ماموں اینال کی طرف روانہ کردیا جسکی وجہ سے چنگیز خان اس کی سلطنت پر حملہ آور ہوا تھا۔ تیس ہزار کا لشکر اس نے بخارا کی طرف اور تقریبا دو لاکھ کا لشکر سمرقند کی حفاظت کے لئے متعین کرکے باقی لشکر اپنے پاس رکھا ۔ اس طرح سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ نے اپنی جنگی طاقت کو کمزور اور متشرکرلیا۔
چنگیز خان کے جاسوسوں نے ساری خبریں اسے دے دیں اور چنگیز بھانپ گیا کہ مسلمانوں پہ حمله کرنے کا وقت آچکا ہے ۔ اور لشکر لے کر خود آگے بڑھا ۔
اب ہر شہر نے اپنے دفاع کا خود انتظام کیا ۔ کیونکہ بادشاہ نے چنگیز خان سے بھاگنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔ چنگیز کا لشکر پیچھے اور علاؤدین دو لاکھ کے لشکر کے ساتھ آگےا آفت بھاگتا پھر رہا تھا ۔ شہزادہ صلاح الدین نے بڑا اصرار کیا کہ لشکر کی کمان اس کو دے دی جائے اور بادشاه مملکت میں روپوش ہو جائے ۔ مگر جب عقل اندھی ہو جائے تو ٹھیک فیصلہ کرنا ممکن نہیں رہتا ۔ علاؤدین کی بزدلی دیکھ کر اس کے سپہ سالار اس کا ساتھ چھوڑ نا شروع ہو گئے. یہ وہی بادشاہ تھا جو سلجوقی تھا اور جوانی گھوڑے کی پیٹھ پہ گزاری تھی ۔
چنگیز شہر پہ شہر فتح کرتا گیا اور لوگوں میں دھشت پھیلانے کی غرض سے قتل عام کیا اور چوراہوں میں کٹے ہوئے سروں کے مینار بنوائے ۔
وہ بہ آواز بلند مسلمانوں کو للکار کہ کہتا کہ میں تمہارے اوپر مسلط شدہ الله کا عذاب ہوں ۔ مجھ سے اس طرح چھٹکارا نہیں پا سکو گے ۔ کم لوگوں کو چنگیز کی بات سمجھ آتی ۔
مگر ایک بزرگ نے دل کی آنکھوں سے ایک عجیب منظر دیکھا ۔
چنگیزی افواج نے ان کے شہر کا محاصرہ کیا اور یہ تلوار اور ڈھال پکڑ کر شہر کی فصیلوں سے باہر جہاد کے لیئے نکلے ۔
دل کی آنکھوں نے دیکھا کہ منگول فوجوں کے ساتھ فرشتے کھڑے ہیں اور کہ رہے ہیں " يا ايهلذين كفرة. قتلتالفجره ". اے کافرو مارو ان منافقوں کو ۔
بزرگ نے جب یہ حال دیکھا کہ اللہ اتنا ناراض ہے کہ عذاب کے طور پہ کافروں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام کروا رہا ہے اور ان کے دلوں سے مسلمانوں کا خوف نکالنے اور جوش ولولہ دلانے کے لیئے فرشتے مقررہ کر رکھے ہیں ۔ سمجھ گئے کہ کیوں چنگیزی فوجوں سے جنگجو سپہ سالار اور بادشاہ ڈر کر بھاگ رہے پیں کیوں شہر کے شہر خوف کے مارے لڑے بغیر ام کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں ۔ سمجھ گئے کہ لڑ کر بھی ام سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں ۔ سمجھ گئے کہ ان چنگیزیوں سے لڑنا بیکار ہے ۔ کیونکہ الله کے عذاب سے کوئ نہیں لڑ سکتا ۔ تلوار اور ڈھال پھینکی اور اپنے گھر کا رخ کیا ۔ وضو کیا اور اپنے اور تمام مسلمانوں کے لیئے توبہ استغفار کرنے لگے ۔
 

زیک

مسافر
چنگیز خان کی زبردست جنگی حکمت عملی کی بجائے یہ پوسٹ کسی مذہبی ڈرامے پر مشتمل لگتی ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
چنگیز خان ایک عظیم جرنیل اور زبردست لیڈر تھا، اُس نے اپنی حکمت عملی اور تدبر سے بکھرئے ہوئے قبائل کو نہ صرف جمع کیا بلکہ اُن سے اپنی قیادت اور سیادت بھی منوائی اور اپنی سربراہی میں ان کو ایک سیسہ پلائی دیوار بنا دیا۔اُس کی فتوحات کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیئے۔
 
Top