مغربی اقدار کی اندھی تقلید

مجاھد حسین

محفلین
شمشاد چونکہ یہ اس محفل میں نئے ہیں اسلئے میرا خیال ہے ابھی ہاتھ ہلکا رکھا جائے۔

اچھی بات کہیں سے بھی آئے اگر قابل تقلید ہے تو اس پر عمل ضرور ہونا چاہیئے گو کہ اس مسئلے پر برداشت کی حد میں بھی کافی بات ہوچکی ہے پر جب بات غلط رسموں کو معاشرے سے نکالنے کی ہورہی ہو تو ہم کو کافی محنت کرنی ہوگی اور یہ باتیں ہم لوگوں کو بار بار ہر جگہ کرنی ہونگی تاکہ لوگوں کے ذہن میں اچھی طرح سرایت کرجائیں
شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
بھائی شمشاد میں نے جو غلطی کی اس کے لیے میں آپ سب سے معافی مانگتا ہوں۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

مجاہد بھائی مجھے خوشی کہ آپ نے اپنی غلطی کھلے دل سے تسلیم کر لی۔

انٹرنیٹ کی دنیا بہت بڑی ہے۔ اس میں جگہ جگہ معلومات کے خزانے بکھرے پڑے ہیں ہیں۔ اگر کوئی ان خزانوں کو ڈھونڈ کر اردو محفل کی زینت بنائے تو بہت سے اراکین ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن حق بحقدار رسید ادا ہونا چاہیے۔

آپ اردو محفل میں آتے رہیں، یقین کریں کہ آپ اردو محفل میں بہت لطف اندوز ہوں گے۔
 
برادرم مجاہد حسین، اردو محفل میں خوش آمدید۔ اس موضوع سے اتفاق یا اختلاف سے قطع نظر ہمیں آپ کا لغزش سے رجوع کرنے کا حوصلہ بے حد پسند آیا۔ یقین کریں کہ ہر کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ اتنی آسانی سے اپنی غلطی تسلیم کر لیں وہ بھی پبلک فورم پر۔ خیر آپ کو کسی سے معافی کا خواستگار ہونے کی چنداں ضرورت نہیں، بس آئندہ احتیاط برتیں کیوں کہ ہم اردو محفل میں علم کو آپس میں بانٹ کر بڑھانے میں یقین رکھتے ہیں نیز مستحقین کو مناسب کریڈٹ دینے کے عمل کی پذیرائی کرتے ہیں۔ :)
 

زیک

مسافر
ہم سے کون مراد ہے؟ اگر مغربی اقدار کی بات ہے تو ہم مغرب کے لوگ انہیں منائیں تو آپ کو یقینا کوئ اعتراض نہیں ہو گا
 
ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے
واں کنٹر سب بلّوری ہیں یاں ایک پرانا مٹکا ہے

اس دور میں سب مٹ جائیں گے ہاں باقی وہ رہ جائے گا
جو قائم اپنی راہ پہ ہے اور پکّا اپنی ہٹ کا ہے۔۔۔۔۔۔۔
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
3-31-2012_6804_l.JPG
ہم نے مغربی روایات کی بغیر سوچے سمجھے نقالی کی روش جو اپنائی ہے اس نے ہماری اپنی قدریں بھلادی ہیں۔ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا نے مغرب کے مقرر کردہ مخصوص دنوں کو ہمارے لئے تہوار کے طور پرمرچ مسالے کے ساتھ ایسا پیش کیا کہ ہم ذہنی اور معاشرتی قدروں کی پختگی کی بجائے جدت کے چکر میں ایسے دن بھی منانے لگے جو ہماری انا اور غیر ت کو جھٹکا دینے لگے، جیسا کہ مدرز ڈے، فادرز ڈے اورمحبتوں کا دن یعنی ویلنٹائن ڈے وغیرہ اس طرح کے دنوں کی مثالیں ہیں۔ سال میں ماں یا باپ کا ایک دن تو وہ مناتے ہیں جنہوں نے اپنے والدین کو اولڈ ہاوٴس کے حوالے کردیا، ہمارے ہاں تو آج بھی والدین اولاد کیلئے کل کائنات مانے جاتے ہیں۔ ہم بھی مغربی پیروی میں اپنے رشتوں کو مخصوص دنوں تک محدود کررہے ہیں اور ان دنوں کے جائز ہونے کی طرح طرح کی تاویلات بھی پیش کرتے ہیں۔
کیا ہمارا معاشرہ مغرب کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہے، صرف ایسی فضول اور واہیات چیزوں کی نقالی سے؟ کیا ہم نے ان کی طرح تعلیم، سائنس، طب، تحقیق، ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں ان کی نقل کرنیکی کوشش بھی کی؟ پانی کی خاصیت ہے کہ مٹی کے کچے مٹکے میں اسے ڈالنے سے مٹکا اپنا وجود کھو دیتا ہے اور پانی بھی ضائع ہوجاتا ہے۔ وہی مٹی کا مٹکا جسے آگ کی بھٹی میں پختہ کیا جاتا ہے، اسی پانی کو ٹھنڈ ا کردیتا ہے جونہ صرف لوگوں کی پیاس بجھاتا ہے بلکہ اپنا وجود بھی قائم رکھتا ہے۔ ہم اپنی نسل کے ذہنوں کی پختگی کیلئے تعلیم اور تربیت کا بندوبست کر نہیں سکے جبکہ فضول اور خرافات چیزیں ان کو وافر مقدار میں میسر کردیں، کیا وہ ان سے کوئی فائدہ اٹھا سکیں گے یا اندھی پیروی کرتے ہوئے تباہ ہوجائیں گے؟ ہماری نسل موبائل فون، سوشل میڈیا اور مغربی ایام کی نقالی سے کیا حاصل کر رہی ہے سوائے وقتی تسکین کے، کیا یہ جائز ہے؟ حالانکہ ہر چیز میں توازن ہونا چاہیے۔
اسی طرح ماہ اپریل کی شروعات اپریل فول کی خرافات کے ساتھ کی جاتی ہیں۔ یکم اپریل کو اپریل فول یا جھوٹ کا تہوار، پوری دنیا میں بڑے جوش و خروش سے غیرسرکاری طور پر منایا جاتا ہے، اس کو جھوٹوں کی عید بھی کہا جاسکتا ہے، اکثر و بیشتر اس موقع پر جو مذاق کیے گئے ان کے اثرات منفی ہی ظاہر ہوئے اور لوگوں کو نقصان کا سامنا بھی ہوا۔
آپکی تحریر ہمیشہ کی طرح والی تحریر ہے۔ انکے خرافات اپنی جگہہ پر لیکن انکے شوشل پالیسیاں بہت اچھی ہیں
مغربی شوشل پالیسی پاکستان کے پالیسی مسلم ملک کے پالیسیوں سے قدرے بہتر ہے البتہ انسانیت کی قدر جس میں لڑکا لڑکی بہن بھائی ماں باپ میاں بیوی جیسے
پاکیزہ رشتوں کو آزادی کے نام پر خراب کیا ہوا ہے۔
پاکستان نے ابھی تک بیس پچیس سال سے مقیم غیر ملکیوں کو نیشنلٹی نہیں دی، اسی طرح دیگر ملکوں میں یہی حال ہے جبکہ امریکہ، کینیڈا، یورپ یونین والے
پانچ سال ان کے ساتھ نظم و ضبط اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے رہنے والوں کو نیشنلٹی دے دیتے ہیں اور انکے شوشل سسٹم میں داخل ہوجاتے ہیں۔
 
Top