بھوکے کوے، ہاتھی اور غریب بچے

ایک شدید زخمی ہاتھی کو چند کوے نوچ نوچ کر اس کی بوٹیاں کھا رہے تھے، ہاتھی شدید کرب اور اضطراب میں مبتلا تھا، ایک آدمی نے ان کوئوں کو پتھر مار کر اڑا دیا، ہاتھی پہلے زور سے ہنسا پھر زاروقطار رونے لگا، آدمی بڑا حیران ہوا، کہ اس نے ہاتھی کو جاں گسل اذیت سے چھٹکارا دلایا ہے مگر وہ پہلے ہنسا اور پھر رونے کیوں لگا، اس نے ہاتھی سے وجہ دریافت کی تو ہاتھی یوں گویا ہوا کہ آپ نے مجھے ان کووں سے نجات دلائی، جو میرے جسم کی بوٹیاں نوچ رہے تھے اس پر مجھے خوشی ہوئی، تو میں ہنس پڑا، مگر جب میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ جن کووں کو آپ نے بھگایا میرا گوشت کھا کھا کر ان کے پیٹ بھر چکے تھے اس لئے میرے جسم سے ان کے گوشت نوچنے کی رفتار کم پڑتی جا رہی تھی مگر اب جو دوسرے کوے مجھے نوچنے آئیں گے تو وہ بہت زیادہ بھوکے ہوں گے وہ میرے وجود کو انتہائی برے طریقے سے نوچیں گے سو یہ سوچ کر میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں چھ سالہ نبیل مختار کے میلے کچیلے اور گندے چہرے پر آنسوئوں کی جھڑی لگی تھی وہ زاروقطار رو رہا تھا، وہ روزانہ 9گھنٹے موٹرسائیکل دھونے کا کام کرتا ہے وہ پڑھنا بھی چاہتا ہے، وہ ڈاکٹر بننے کا آرزو مند ہے مگر وہ کلاس روم کی بجائے مزدوری کرنے پر مجبور ہے۔
ہمارے گائوں میں بھی ایک ایسا بچہ موجود ہے جسے سکول میں ہونا چاہئے، اس کے ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہئیں مگر وہ گلی گلی ردی خریدنے کے لئے آوازیں لگاتا پھرتا ہے، کبھی وہ چھولے ابال کر ان میں نمک مرچ ڈال کر انہیں بیچنے کے لئے سکول میں آ جاتا ہے، کالے سیاہ رنگ، سفید چمکیلی آنکھوں، سفید دانتوں اور موٹے پیٹ والے اس دس سالہ فرقان کے دل میں بھی یہ امنگ ضرور کلبلاتی ہو گی کہ مجھے بھی دیگر بچوں کی طرح تعلیم حاصل کرنا چاہئے مگر حالات کے ستائے، غربت کے ڈسے ایسے بچے گلی گلی روزی کمانے کے لئے سرگرداں اور سربہ گریباں ہیں، لاہور کے بازاروں سے لے کر کراچی کی فیکٹریوں تک کام کرنے والے یہ ننھے منے ہاتھ زباں حال سے شکوہ کناں ہیں کہ
لہو کو بیچ کر روٹی خرید لایا ہوں
امیرِ شہر بتا یہ مجھ پہ حلال تو ہے
نبیل مختار کی ماں بھی چیخ رہی تھی کہ میں اپنے بچوں کو سکول بھیجنا چاہتی ہوں مگر ہمارے پاس گھریلو اخراجات کے لئے رقم نہیں، نبیل کا باپ ریڑی لگاتا ہے وہ دو تین سو روپے کما لیتا ہے مگر ان روپوں میں گھر چلانا ممکن نہیں، بڑھتی قیمتوں کے عفریت نے ہزاروں خاندانوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے بجائے کام دھندے پر لگا دیں۔
آپ سیالکوٹ چلے جائیں وہاں فٹ بالز پر ٹانکے لگانے والے بچے ملیں گے، آپ قالین بافی کی صنعت کو ملاحظہ کر لیں آپ کو بچے ہی دکھائی دیں گے، آپ کراچی کی فیکٹریوں کا وزٹ کر لیں آپ کو 5تا 14سالہ بچے مزدوری کرتے ملیں گے، حتیٰ کہ آپ کو یہ معصوم بچے کوڑے کے ڈھیروں پر کاغذ چنتے بھی دکھائی دیں گے۔ آپ موٹرسائیکل یا کار ٹھیک کروانے چلے جائیں وہاں میل میں اٹے ہاتھوں والے پھولوں جیسے بچے ملیں گے ان کے نرم و نازک ہاتھوں میں کتابوں کے بجائے اوزار ہوں گے۔
کتنے ہی بچے ایسے ہیں جو تلاش رزق میں مارے مارے پھرتے ہیں، ایسے بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جون، جولائی کی آگ برساتی دھوپ ہو یا دسمبر کی یخ بستہ صبحیں، احساس محرومی میں مبتلا یہ معصوم، مغموم اور مسموم چہروں والے بچے کوڑے کے ڈھیر پر رزق تلاشتے پھرتے ہیں، ان کے چہروں پر معصومیت، غربت اور اداسی کے سوا کچھ دکھائی نہ دے گا، شوخی، طراری ان سے کوسوں دور ہو گی، انہیں پیٹ بھرنے کی فکر گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے۔
ایسے بچے اکثر جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں چڑھ جاتے ہیں اور پھر وہ بڑے ہو کر گھنائونے جرائم میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ کراچی کا عاشق نامی ایک ایسا ہی بچہ بڑے کرب سے کہتا ہے کہ جب میں کھیلنے کے لئے گرائونڈ میں جاتا ہوں تو میری حالت زار دیکھ کر لوگ یہ کہہ بھگا دیتے کہ یہ بچہ گندا ہے، یہ سن کر میرا دل کٹ سا جاتا ہے۔ کراچی کے ہوٹلوں کے باہر ایسے درجنوں بچے دیکھے جا سکتے ہیں جو کسی سیٹھ کے منتظر ہوتے ہیں کہ وہ انہیں آ کر کھانا کھلا دے گا، کتنے ہی گھروں کی حالت اتنی ابتر ہے کہ باہر گلی میں غبارے اور کھلونے بیچنے والا آ جائے تو مائوں کے دل پریشان ہو جاتے ہیں، اس لئے کہ ان کے پاس بچوں کو یہ چیزیں خرید کر دینے کے لئے پیسے ہی نہیں ہوتے۔
کھلونے بیچنے والا گلی میں آ گیا ہے
خداوند، میرے بچوں کو پھر نیند آ جائے
کروڑوں لوگوں کے غربت کے پاٹوں میں پسنے کا اصل سبب مہنگائی ہے اور مہنگائی کی وجہ اس ملک کے کرپٹ حکمران ہیں، پاکستان کی سرزمین کو کسی چمنستان اور گل کدے میں تبدیل کر ڈالنے کے دعویدار، روٹی، کپڑا اور مکان کے دل ربا نعرے کے دام فریب میں مبتلا کرنے والے شاطر اور عیار حکمران، غربت کے آخری قدمچے پر کھڑے لوگوں کے باقی ماندہ لہو کو سینت لینے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہتے۔ کوئوں کی مانند اس وطن کو نوچ نوچ کر اس کی بوٹیاں کھا کر بھی ان کا پیٹ بھرنے میں نہیں آتا، اور جب قوم ان کووں کو بھگانے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگاتی ہے تو پھر بھوکے کووں کا دوسرا گروہ اس کو نوچنے کے لئے ٹوٹ پڑتا ہے، ایک گروہ جاتا ہے تو دوسرا جتھہ اس ملک کو نوچنے کے لئے آ جاتا ہے، جن کا خود پیٹ بھرنے میں نہ آئے وہ اس ملک کے غریب، بے سہارا اور کوڑے کے ڈھیر پر ردی چنتے بچوں کے درد کا درماں کیسے کریں گے؟ کیا یہ ممکن ہے؟

بشکریہ۔۔ ہفت روزہ جرار
والسلام،،،،علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
 

سید زبیر

محفلین
ایک شدید زخمی ہاتھی کو چند کوے نوچ نوچ کر اس کی بوٹیاں کھا رہے تھے، ہاتھی شدید کرب اور اضطراب میں مبتلا تھا، ایک آدمی نے ان کوئوں کو پتھر مار کر اڑا دیا، ہاتھی پہلے زور سے ہنسا پھر زاروقطار رونے لگا، آدمی بڑا حیران ہوا، کہ اس نے ہاتھی کو جاں گسل اذیت سے چھٹکارا دلایا ہے مگر وہ پہلے ہنسا اور پھر رونے کیوں لگا، اس نے ہاتھی سے وجہ دریافت کی تو ہاتھی یوں گویا ہوا کہ آپ نے مجھے ان کووں سے نجات دلائی، جو میرے جسم کی بوٹیاں نوچ رہے تھے اس پر مجھے خوشی ہوئی، تو میں ہنس پڑا، مگر جب میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ جن کووں کو آپ نے بھگایا میرا گوشت کھا کھا کر ان کے پیٹ بھر چکے تھے اس لئے میرے جسم سے ان کے گوشت نوچنے کی رفتار کم پڑتی جا رہی تھی مگر اب جو دوسرے کوے مجھے نوچنے آئیں گے تو وہ بہت زیادہ بھوکے ہوں گے وہ میرے وجود کو انتہائی برے طریقے سے نوچیں گے سو یہ سوچ کر میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں چھ سالہ نبیل مختار کے میلے کچیلے اور گندے چہرے پر آنسوئوں کی جھڑی لگی تھی وہ زاروقطار رو رہا تھا، وہ روزانہ 9گھنٹے موٹرسائیکل دھونے کا کام کرتا ہے وہ پڑھنا بھی چاہتا ہے، وہ ڈاکٹر بننے کا آرزو مند ہے مگر وہ کلاس روم کی بجائے مزدوری کرنے پر مجبور ہے۔
ہمارے گائوں میں بھی ایک ایسا بچہ موجود ہے جسے سکول میں ہونا چاہئے، اس کے ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہئیں مگر وہ گلی گلی ردی خریدنے کے لئے آوازیں لگاتا پھرتا ہے، کبھی وہ چھولے ابال کر ان میں نمک مرچ ڈال کر انہیں بیچنے کے لئے سکول میں آ جاتا ہے، کالے سیاہ رنگ، سفید چمکیلی آنکھوں، سفید دانتوں اور موٹے پیٹ والے اس دس سالہ فرقان کے دل میں بھی یہ امنگ ضرور کلبلاتی ہو گی کہ مجھے بھی دیگر بچوں کی طرح تعلیم حاصل کرنا چاہئے مگر حالات کے ستائے، غربت کے ڈسے ایسے بچے گلی گلی روزی کمانے کے لئے سرگرداں اور سربہ گریباں ہیں، لاہور کے بازاروں سے لے کر کراچی کی فیکٹریوں تک کام کرنے والے یہ ننھے منے ہاتھ زباں حال سے شکوہ کناں ہیں کہ
لہو کو بیچ کر روٹی خرید لایا ہوں
امیرِ شہر بتا یہ مجھ پہ حلال تو ہے
نبیل مختار کی ماں بھی چیخ رہی تھی کہ میں اپنے بچوں کو سکول بھیجنا چاہتی ہوں مگر ہمارے پاس گھریلو اخراجات کے لئے رقم نہیں، نبیل کا باپ ریڑی لگاتا ہے وہ دو تین سو روپے کما لیتا ہے مگر ان روپوں میں گھر چلانا ممکن نہیں، بڑھتی قیمتوں کے عفریت نے ہزاروں خاندانوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے بجائے کام دھندے پر لگا دیں۔
آپ سیالکوٹ چلے جائیں وہاں فٹ بالز پر ٹانکے لگانے والے بچے ملیں گے، آپ قالین بافی کی صنعت کو ملاحظہ کر لیں آپ کو بچے ہی دکھائی دیں گے، آپ کراچی کی فیکٹریوں کا وزٹ کر لیں آپ کو 5تا 14سالہ بچے مزدوری کرتے ملیں گے، حتیٰ کہ آپ کو یہ معصوم بچے کوڑے کے ڈھیروں پر کاغذ چنتے بھی دکھائی دیں گے۔ آپ موٹرسائیکل یا کار ٹھیک کروانے چلے جائیں وہاں میل میں اٹے ہاتھوں والے پھولوں جیسے بچے ملیں گے ان کے نرم و نازک ہاتھوں میں کتابوں کے بجائے اوزار ہوں گے۔
کتنے ہی بچے ایسے ہیں جو تلاش رزق میں مارے مارے پھرتے ہیں، ایسے بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جون، جولائی کی آگ برساتی دھوپ ہو یا دسمبر کی یخ بستہ صبحیں، احساس محرومی میں مبتلا یہ معصوم، مغموم اور مسموم چہروں والے بچے کوڑے کے ڈھیر پر رزق تلاشتے پھرتے ہیں، ان کے چہروں پر معصومیت، غربت اور اداسی کے سوا کچھ دکھائی نہ دے گا، شوخی، طراری ان سے کوسوں دور ہو گی، انہیں پیٹ بھرنے کی فکر گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے۔
ایسے بچے اکثر جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں چڑھ جاتے ہیں اور پھر وہ بڑے ہو کر گھنائونے جرائم میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ کراچی کا عاشق نامی ایک ایسا ہی بچہ بڑے کرب سے کہتا ہے کہ جب میں کھیلنے کے لئے گرائونڈ میں جاتا ہوں تو میری حالت زار دیکھ کر لوگ یہ کہہ بھگا دیتے کہ یہ بچہ گندا ہے، یہ سن کر میرا دل کٹ سا جاتا ہے۔ کراچی کے ہوٹلوں کے باہر ایسے درجنوں بچے دیکھے جا سکتے ہیں جو کسی سیٹھ کے منتظر ہوتے ہیں کہ وہ انہیں آ کر کھانا کھلا دے گا، کتنے ہی گھروں کی حالت اتنی ابتر ہے کہ باہر گلی میں غبارے اور کھلونے بیچنے والا آ جائے تو مائوں کے دل پریشان ہو جاتے ہیں، اس لئے کہ ان کے پاس بچوں کو یہ چیزیں خرید کر دینے کے لئے پیسے ہی نہیں ہوتے۔
کھلونے بیچنے والا گلی میں آ گیا ہے
خداوند، میرے بچوں کو پھر نیند آ جائے
کروڑوں لوگوں کے غربت کے پاٹوں میں پسنے کا اصل سبب مہنگائی ہے اور مہنگائی کی وجہ اس ملک کے کرپٹ حکمران ہیں، پاکستان کی سرزمین کو کسی چمنستان اور گل کدے میں تبدیل کر ڈالنے کے دعویدار، روٹی، کپڑا اور مکان کے دل ربا نعرے کے دام فریب میں مبتلا کرنے والے شاطر اور عیار حکمران، غربت کے آخری قدمچے پر کھڑے لوگوں کے باقی ماندہ لہو کو سینت لینے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہتے۔ کوئوں کی مانند اس وطن کو نوچ نوچ کر اس کی بوٹیاں کھا کر بھی ان کا پیٹ بھرنے میں نہیں آتا، اور جب قوم ان کووں کو بھگانے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگاتی ہے تو پھر بھوکے کووں کا دوسرا گروہ اس کو نوچنے کے لئے ٹوٹ پڑتا ہے، ایک گروہ جاتا ہے تو دوسرا جتھہ اس ملک کو نوچنے کے لئے آ جاتا ہے، جن کا خود پیٹ بھرنے میں نہ آئے وہ اس ملک کے غریب، بے سہارا اور کوڑے کے ڈھیر پر ردی چنتے بچوں کے درد کا درماں کیسے کریں گے؟ کیا یہ ممکن ہے؟

بشکریہ۔۔ ہفت روزہ جرار
والسلام،،،،علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
علی اوڈ راجپوت صاحب ، غربت ایک صحت مند معاشرے کا لازمی جز ہے ۔ محنت کش عظیم انسان ہیں میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم جن کا بوسہ لینا ایک عظیم سعادت ہے انہوں نے محنت کش کا ہاتھ کا بوسہ لیا مگر بد قسمتی یہ ہے کہ ہم نے محنت کش کی عزت کو چھین لیا اس کی خودداری ہمارے غیض و غضب کا نشانہ بنی،اپنے ہی جسم کے اس حصے کی تذلیل کی ۔ہمیں چاۃیے کہ غریب ہم وطن کو اپنے جسم اپنے معاشرے کا ایک اہم فرد سمجھیں
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ سیالکوٹ چلے جائیں وہاں فٹ بالز پر ٹانکے لگانے والے بچے ملیں گے
ali oadrajput
آپ کی تحریر سے مجھے اتفاق ہے، صرف اس اوپر والے جملے کی کچھ وضاحت کرنا چاہوں گا کہ میرا تعلق بھی سیالکوٹ ہے اور اس انڈسٹری سے بھی گہرا تعلق رہا ہے گو اب نہیں ہے!

1997ء میں آئی ایل او اور سیالکوٹ چیمبر کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جو "اٹلانٹا ایگریمنٹ" کے نام سے مشہور ہے۔ فیفا بھی اس میں شامل تھا، اس معاہدے کے بعد سے اب تک سیالکوٹ فٹبال انڈسٹری میں اسی نوے فیصد کے قریب چائلڈ لیبر کا خاتمہ ہو چکا ہے (سیالکوٹ کی دیگر انڈسٹریوں جیسے سرجیکل انسڑو منٹس وغیرہ میں یہ لعنت ابھی تک ویسی ہی ہے گو کہ ہر فیکٹری کے باہر لکھا ہوا ہے کہ سولہ یا اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کو یہاں نہیں رکھا جاتا)۔

فٹبال انڈسٹری میں چونکہ فیفا شامل ہو گیا تھا اور پھر آئی ایل او، یونیسف اور امریکی حکومت بھی (کلنٹن نے سیالکوٹ فٹبال انڈسٹری سے اس لعنت کو ختم کرنے پر سیالکوٹ چیمبر کی تعریف کی تھی) اس لیے اس لعنت کو بہت حد تک ختم کر دیا گیا ہے۔ آئی ایل او کی ایک مانٹرننگ ٹیم تب سے اب تک سیالکوٹ میں مستقل موجود ہے جو فیکٹریوں اور دور دراز دیہاتوں میں جا کر سلائی مرکزوں پر چھاپے مارتے ہیں۔ ہر فیکٹری میں بھی ایک کوارڈینیٹر ہوتا تھا جو آئی ایل او سیالکوٹ دفتر کے ساتھ مل کر کام کرتا تھا اور میری پہلی جاب بھی یہی تھی۔

اسی پروگرام کے تحت سیالکوٹ میں بچوں کے لیے اسکول بھی بنائے گئے ہیں تا کہ انڈسٹری سے جو بچے نکلے ہیں ان کو تعلیم بھی مل سکے اور پھر ان کو الاؤنس اور وظائف وغیرہ بھی دیے جاتے تھے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ سیالکوٹ فٹبال انڈسڑی میں کچھ بچے گھروں میں چھپ کرفٹبال سینے کا کام کرتے ہیں (پاکستان میں کسی برائی کا جڑوں سے خاتمہ انتہائی مشکل ہے)۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ فیکٹری اور دیہاتوں کے ورکر کے درمیان جو مڈل مین ہوتا ہے اور جسے یہاں "میکر" کہا جاتا ہے وہ بچوں سے کم پیسوں سے کام کرواتا ہے اور فیکٹری سے پورے پیسے وصول کرتا ہے۔ فیکڑیوں کے اندر یا دور دراز دیہاتوں میں فیکٹریوں کے جو اپنے سلائی مرکز ہیں وہاں بچے نہیں ہوتے کہ وہاں چھاپے پڑتے رہتے ہیں۔
 
Top