سمندر خان

زیف سید

محفلین
سمندر خان، اک پشتو کا شاعر
جا رہا تھا گاؤں سے دور ایک ویرانے میں‌
یک دم اک جھپاکا سا ہوا
اور ذہن کے پردے پہ اک دھندلا ہیولا بننے اور مٹنے لگا
پر شومیِ‌قسمت، قلم ہی جیب میں‌تھا اورنہ کاغذ کا کوئی پرزہ
سمندر خان رک کر، اور اک پتھر پہ ٹک کر، میچ کر آنکھوں‌کو
دنیا اور مافیہا سے بیگانہ ہوا

پھر شام کو گاؤں‌کے لوگوں نے عجب نظارہ دیکھا
ڈھلتے سایوں‌میں‌سمندر خان، وہ پشتو کا شاعر
ڈگمگاتا، ہانپتا، اپنے پسینے میں‌نہاتا
پیٹھ پر دو من کی اک چٹان لادے
گاؤں‌کی سرحد میں‌داخل ہو رہا ہے۔۔۔

اور اس کے بعد عادت بن گئی اس کی
سمندر خان ویرانے سے بھاری سل
کوئی جب تک اٹھا کے گھر نہ لاتا تھا
تو اس پر نظم کی اک سطر تک القا نہ ہوتی تھی
سو رفتہ رفتہ اس کی کوٹھڑی، دالان اور چھت
ان گھڑی بے ڈھب سلوں کے بوجھ سے دبتے گئے

اک دن سمندر خان، وہ پشتو کا شاعر
کھردری نظموں کے اس انبار کے نیچے دبا پایا گیا
 

الف عین

لائبریرین
واہ زیف، لیکن کہیں تم خود بھی اپنی نظموں تلے نہ دب جاؤ خدا نخواستہ۔۔ جلدی ان کا کچھ انتظام کرو۔
 

زیف سید

محفلین
واہ زیف، لیکن کہیں تم خود بھی اپنی نظموں تلے نہ دب جاؤ خدا نخواستہ۔۔ جلدی ان کا کچھ انتظام کرو۔

استادِ محترم، نظموں کا انبار تو نہیں، ایک چھوٹی سی ڈھیری ہے، جس کے نیچے مجھ دھان پان کے دبنے کا بھی احتمال نہیں :)

نظمیں یہاں پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کی فنی یا معنوی خامیوں کی نشان دہی ہو سکے، کیوں کہ ان میں سے کئی نظمیں ایسی ہیں جو خاک سار کے علاوہ کسی اور کی نظر سے نہیں گزریں۔ بس دو ہی تین نظمیں رہ گئی ہیں، اس کے بعد میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں۔

زیف
 

جیہ

لائبریرین
بہت خوب زیفصاحب ۔ مگر آپ نے خواہ مخواہ سمندر خان سمندر کو کچلوا دیا :)

سمندر خان سمندر جو کہ سمندر د بدرشو کے نام سے بھی مشہور ہیں، پشتو کے چند عظیم شاعروں میں سے ایک ہیں۔ بہت بسیار گو شاعر تھے۔ سمندر واحد شاعر ہیں جنہوں نے پشتو میں عروضی شاعری کا (نا) کامیاب تجربہ کیا۔ وہ صوتیاتی شاعری کے بھی ماہر تھے ۔ مشہور خٹک ڈانس کے ردھم پر انہوں نے ایک مشہور نظم کہی ہے جس کے چند بول یہ ہیں
درون پختون یم دروند پختون
درون پختون
درون درون درون پختون۔۔۔۔۔۔

انہوں نے علامہ اقبال کی شاعری کا پشتو میں منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔ نظم کے شاعر تھے مگر غزل بھی خوب کہی ہے۔وہ ضلع نوشہرہ کے علاقے بدرشی سے تعلق رکھتے تھے۔

زیف صاحب نے جس واقعے کو نظم کیا ہے، وہ ایک ہی بار پیش آیا تھا اور یہ واقعہ ایلم پہاڑ کی چوٹی پر جو کہ سوات اور بنیر کے سرحد پر واقع مشہور پہاڑ ہے، پر پیش آیا تھا۔ (ہمارے گھر سے یہ چوٹی صاف نظر آتی ہے)۔ ان کا یہ واقعہ بہت مشہور ہو گیا تھا۔ سمندر صاحب غالباً اسی کے دہائی میں طبعی موت مرے تھے۔ سن وفات مجھے یاد نہیں۔
 

زیف سید

محفلین
بہت خوب زیفصاحب ۔ مگر آپ نے خواہ مخواہ سمندر خان سمندر کو کچلوا دیا :)

اصل میں کچھ تو ’فنکاری‘ دکھانی تھی، ورنہ تو یہ کاوش منظوم اخباری خبر بن کر رہ جاتی :)

سمندر خان سمندر جو کہ سمندر د بدرشو کے نام سے بھی مشہور ہیں، پشتو کے چند عظیم شاعروں میں سے ایک ہیں۔ بہت بسیار گو شاعر تھے۔ سمندر واحد شاعر ہیں جنہوں نے پشتو میں عروضی شاعری کا (نا) کامیاب تجربہ کیا۔
شاید اس سے مراد یہ ہے کہ سمندر خان سمندر نے پشتو عروض پر پہلی کتاب لکھی، کیوں کہ پشتو میں ’عروضی‘ شاعر تو قدیم سے ہوتی چلی آئی ہے۔یہ الگ بات کہ پہلی کتاب لکھنے کا دعویٰ بھی غلط ثابت ہو چکا ہے۔

زیف صاحب نے جس واقعے کو نظم کیا ہے، وہ ایک ہی بار پیش آیا تھا اور یہ واقعہ ایلم پہاڑ کی چوٹی پر جو کہ سوات اور بنیر کے سرحد پر واقع مشہور پہاڑ ہے، پر پیش آیا تھا۔ (ہمارے گھر سے یہ چوٹی صاف نظر آتی ہے)۔ ان کا یہ واقعہ بہت مشہور ہو گیا تھا۔ سمندر صاحب غالباً اسی کے دہائی میں طبعی موت مرے تھے۔ سن وفات مجھے یاد نہیں۔

سمندر صاحب کا انتقال 17 جنوری 1990 کو ہوا تھا۔

حقیقت مہ دے یو ساسکے
حہ کہ نوم مہ سمندر دے

ایک قطرہ ہوں میں حقیقت میں
ورنہ تو نام کا سمندر ہوں!

زیف
 

Rrahi

محفلین
موضوع اور تخیل کے اعتبار سے بہت خوب صورت نظًم ہے ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی تاریخی واقعے کو فینٹسائز کیا جائے ۔ بلکہ یہ ایک خراج تحسین ہے ، اور لائق تحسین بھی۔ ہاں اس نظم کا بیانیہ بہت کم زور ہے۔ نظم میں بیان کوبہترکرنے کی گنجایش غزل سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے یہاں یہ کوشش بہتری کا باعث بن سکتی ہے۔
 

زیف سید

محفلین
جنابِ والا: نظم پسند فرمانے کا بہت بہت شکریہ۔

موضوع اور تخیل کے اعتبار سے بہت خوب صورت نظًم ہے ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی تاریخی واقعے کو فینٹسائز کیا جائے ۔ بلکہ یہ ایک خراج تحسین ہے ، اور لائق تحسین بھی۔ ہاں اس نظم کا بیانیہ بہت کم زور ہے۔ نظم میں بیان کوبہترکرنے کی گنجایش غزل سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے یہاں یہ کوشش بہتری کا باعث بن سکتی ہے۔

اگر اس بات کی وضاحت فرما دیں کہ بیانیے میں کیا خامی ہے تو عین نوازش ہو گی۔

زیف
 
بہت خوب زیفصاحب ۔ مگر آپ نے خواہ مخواہ سمندر خان سمندر کو کچلوا دیا :)

سمندر خان سمندر جو کہ سمندر د بدرشو کے نام سے بھی مشہور ہیں، پشتو کے چند عظیم شاعروں میں سے ایک ہیں۔ بہت بسیار گو شاعر تھے۔ سمندر واحد شاعر ہیں جنہوں نے پشتو میں عروضی شاعری کا (نا) کامیاب تجربہ کیا۔ وہ صوتیاتی شاعری کے بھی ماہر تھے ۔ مشہور خٹک ڈانس کے ردھم پر انہوں نے ایک مشہور نظم کہی ہے جس کے چند بول یہ ہیں
درون پختون یم دروند پختون
درون پختون
درون درون درون پختون۔۔۔۔۔۔

انہوں نے علامہ اقبال کی شاعری کا پشتو میں منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔ نظم کے شاعر تھے مگر غزل بھی خوب کہی ہے۔وہ ضلع نوشہرہ کے علاقے بدرشی سے تعلق رکھتے تھے۔

زیف صاحب نے جس واقعے کو نظم کیا ہے، وہ ایک ہی بار پیش آیا تھا اور یہ واقعہ ایلم پہاڑ کی چوٹی پر جو کہ سوات اور بنیر کے سرحد پر واقع مشہور پہاڑ ہے، پر پیش آیا تھا۔ (ہمارے گھر سے یہ چوٹی صاف نظر آتی ہے)۔ ان کا یہ واقعہ بہت مشہور ہو گیا تھا۔ سمندر صاحب غالباً اسی کے دہائی میں طبعی موت مرے تھے۔ سن وفات مجھے یاد نہیں۔
ان کی کتب کی فہرست بہت طویل ہے۔ ۶۴۰۰۰ اشعار پر مشتمل کلمہ طیبہ کی پشتو منظوم تفسیر لکھی جو کہ ’د توحید ترنگ‘ (ترنگِ توحید) کے نام سے دس جلدوں میں شائع ہے۔ جنوری ۱۹۸۰ میں انتقال فرمایا
 

عینی مروت

محفلین
اور اس کے بعد عادت بن گئی اس کی
سمندر خان ویرانے سے بھاری سل
کوئی جب تک اٹھا کے گھر نہ لاتا تھا
تو اس پر نظم کی اک سطر تک القا نہ ہوتی تھی

یعنی۔۔۔
کتنی راتوں کا لہو پی کے نکھرتی ہے غزل
کیسے ہم کہتے ہیں اشعار تجھے کیا معلوم

بےحد انوکھا خیال نظم کیا ہے
بہت سی داد ۔۔۔
 
اور اس کے بعد عادت بن گئی اس کی
سمندر خان ویرانے سے بھاری سل
کوئی جب تک اٹھا کے گھر نہ لاتا تھا
تو اس پر نظم کی اک سطر تک القا نہ ہوتی تھی

یعنی۔۔۔
کتنی راتوں کا لہو پی کے نکھرتی ہے غزل
کیسے ہم کہتے ہیں اشعار تجھے کیا معلوم

بےحد انوکھا خیال نظم کیا ہے
بہت سی داد ۔۔۔
نظم کا جو حصہ آپ نے اقتباس لیا ہے حقیقت میں ایسا نہیں تھا بلکہ سمندر مرحوم نے صرف چٹان پر اپنے اشعار لکھے تھے گھر تک چٹان لانا کہیں بھی ثابت نہیں
 
اصل میں کچھ تو ’فنکاری‘ دکھانی تھی، ورنہ تو یہ کاوش منظوم اخباری خبر بن کر رہ جاتی :)


شاید اس سے مراد یہ ہے کہ سمندر خان سمندر نے پشتو عروض پر پہلی کتاب لکھی، کیوں کہ پشتو میں ’عروضی‘ شاعر تو قدیم سے ہوتی چلی آئی ہے۔یہ الگ بات کہ پہلی کتاب لکھنے کا دعویٰ بھی غلط ثابت ہو چکا ہے۔



سمندر صاحب کا انتقال 17 جنوری 1990 کو ہوا تھا۔

حقیقت مہ دے یو ساسکے
حہ کہ نوم مہ سمندر دے

ایک قطرہ ہوں میں حقیقت میں
ورنہ تو نام کا سمندر ہوں!

زیف
نہیں جناب جیہ صاحبہ کا مطلب یہ نہیں بلکہ انہوں نے کہا ہے کہ کامیاب تجربہ کیا ہے ۔ پشتو میں میا شرف کے بعد عروض پر نہ تو کوئی کتاب لکھی گئی نہ ہی شاعری میں اس کا استعمال اتنا ہوا ہے۔ میا شرف کے بعد سمندر وہ واحد ادیب ہیں جنہوں نے پشتو شاعری کو عربی عروض میں ڈھالا۔ لیکن زیادہ ترادیب عربی عروض کے خلاف تھے لہذا اب پشتو عروض پر بھی کام ہورہا ہے۔ درویش درانی کی ’پختو عروض‘ اور نقیب اللہ سالک کی ’د پختو شاعرئ عروضی نظام‘ اس حوالے سے پشتو میں اہم پیشرفت ہیں
 
اصل میں کچھ تو ’فنکاری‘ دکھانی تھی، ورنہ تو یہ کاوش منظوم اخباری خبر بن کر رہ جاتی :)


شاید اس سے مراد یہ ہے کہ سمندر خان سمندر نے پشتو عروض پر پہلی کتاب لکھی، کیوں کہ پشتو میں ’عروضی‘ شاعر تو قدیم سے ہوتی چلی آئی ہے۔یہ الگ بات کہ پہلی کتاب لکھنے کا دعویٰ بھی غلط ثابت ہو چکا ہے۔



سمندر صاحب کا انتقال 17 جنوری 1990 کو ہوا تھا۔

حقیقت مہ دے یو ساسکے
حہ کہ نوم مہ سمندر دے

ایک قطرہ ہوں میں حقیقت میں
ورنہ تو نام کا سمندر ہوں!

زیف
۱۷ جنوری غالباً ان کی پیدائش ہے، لیکن فوت بھی جنوری میں ہوئے تھے
 

عینی مروت

محفلین
نظم کا جو حصہ آپ نے اقتباس لیا ہے حقیقت میں ایسا نہیں تھا بلکہ سمندر مرحوم نے صرف چٹان پر اپنے اشعار لکھے تھے گھر تک چٹان لانا کہیں بھی ثابت نہیں
زیب داستاں کےلیے زور تخیل سے کام لیا گیا ہے۔۔جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا :)
 
Top