سرد تھا افسردہ تھا محروم تھا ناکام تھا

نمرہ

محفلین
کبھی کبھی زندگی اس قدر ویران اور خالی معلوم ہوتی ہے کہ صبح بستر سے اٹھنے کی کوئی وجہ ہاتھ نہیں آتی۔
اتنا تو ہم تسلیم کریں گے کہ اتوار کی صبح یونیورسٹی جاتے ہوئے پڑنے والے نائلزم کے دورے اس قدر بھی خالی از علت نہیں ہوا کرتے اور وہ بھی جبکہ انسان تین دن سے لگاتار ایک ہی مضمون کی اسائنمنٹ حل کرنے میں ناکام ہو رہا ہو مگر ایسی صورتحال میں کبھی کبھار تو ساری منطق نظر آنی بند ہو جاتی ہے۔ شاید زندگی میں انسان کا دل اسی طرح لگا رہتا ہے جب وہ نئی نئی چیزوں میں ناکام ہو رہا ہو۔ ایک ہی دیوار سے سر پھوڑنے کے بعد ہر قسم کی مشق سے اکتا جاتا ہے آدمی مگر ناکامیوں پر مونو گراف ہم پہلے کبھی لکھ چکے ہیں اور اب خود کو دہرانا نہیں چاہتے۔
جب سے ہماری عمر کا پیمانہ لبریز ہوا ہے، ہم نے ہر قسم کی بکواس پر وقت ضائع کرنا ترک کر دیا ہے اور اس میں سر فہرست تو رونا دھونا اور گلے شکوے کرنا ہے۔ رونے دھونے کا معاملہ یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ انسان کو زندگی میں کچھ پسند نہ ہو تو اسے تبدیل کر دینا چاہیے اور بہت کچھ تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے انسان اور ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے دنیا مگر کہیں کہیں معاملات اپنے ہاتھ میں نہیں ہوتے تو پھر وہاں چپ کر کے برداشت کرنا چاہیے کہ رونا دھونا دائمی لوزرز کا کام ہے۔ تبدیلی کا یہ فلسفہ ہم نے پہلے اپنی صحت پر لاگو کیا اور پھر اپنے جی پی اے کی صحت پر مگر اس راستے میں ٹکرا گئی ہمیں ایک اسائنمنٹ۔ خیر اس میں بھی ہم چپ چاپ ناکام ہونے پر راضی تھے لیکن پھر ہم نے اپنے پروفیسر کی ای میل دیکھ لی جس میں انھوں نے اقرار کیا تھا کہ اسائنمنٹ دینے میں ان کا مدعا ہارر سٹوری تخلیق کرنے کا نہیں تھا اور ہم نے ضبط کے تمام ٹوٹے بندھنوں کے ساتھ انھیں اپنی ہارر سٹوری لکھ کر بھیج ڈالی۔ کمی صرف یہ رہ گئی کہ ہم اردو میں عرض مدعا نہیں کر سکے ، تو اس کا ازالہ ہم کسی اور طرح کرنے کی کوشش کریں گے۔
اسائنمنٹ کا چکر یہ ہے کہ ہم اپنی ہر کوشش کو اپنے سیلف ایسٹیم سے جدا رکھنے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر ہے یہ مشکل کام۔ پھر ہمیں شک ہے کہ دراصل ہم اپنے پروفیسر سے یوں بھی کچھ حسد کرتے ہیں کہ اس غریب کے پاس وہ سب کچھ ہے جو ہمارے پاس نہیں، مثلا دراز قد، سنہرے بال ، لینئر الجبرا کی حقیقی سمجھ بوجھ اور ایک ایسی یونیورسٹی کا نام جس کا لوگو ہم کسی کی شرٹ پر دیکھ لیں تو دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ پھر ریاضی میں کوئی ہم سے جلد باز ہو تو یہ ہم سے بالکل برداشت نہیں ہوتا، اس لیے ہمیں اپنی کلاس کے لوگوں سے بھی اچھی خاصی تکلیف ہے۔ یہ الگ معاملہ ہے کہ ہم اس مضمون کے لیکچر خال خال ہی لینے جاتے ہیں اور جائیں بھی تو آدھی کلاس کے بعد اٹھ آتے ہیں کہ وہاں بیٹھ کر بھی ہماری محدود سمجھ میں کیا ہی آتا ہے۔ اتنے سارے بوائزس کے ساتھ کلاس لینے میں واحد مسئلہ یہی ہے کہ ہمارا آنا جانا صاف پہچانا جاتا ہے اور جب ہم احمقانہ سوال کرتے ہیں میٹھے لہجے میں تو ہمیں اتنی ہی مٹھاس کے ساتھ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ ہم چار ہفتے قبل کلاس میں دیکھ چکے ہیں، آپ خدا جانے کہاں کس باغ میں سیر سپاٹے کرنے میں مصروف تھیں۔ کہاں کا ذکر تو خیر بین السطور ہوتا ہے مگر ہماری زندگی کا مسئلہ یہی ہے کہ ہم سطروں کے درمیان و غیر درمیان ، ہر دو مطالب سمجھنے میں اچھے خاصے ہیں اور پھر ہر دو کی ٹکے کی پروا نہیں کرتے۔
اس سب کے باوجود ہم نے نیک نیتی سے اس مضمون کا علم حاصل کرنے کی کوشش کی اور وجہ وہی ایک یونیورسٹی جس کے سفید مرمریں ستونوں میں کہیں ہمارا دل اٹکا ہوا تھا مگر جیسا کہ ہمارے اب تک کی تقریر سے ظاہر ہے، یہ نہ تھی ہماری قسمت۔ کبھی کبھی سوال کرنے کے موڈ میں آ کر ہم سوچا کرتے ہیں کہ ہماری قسمت میں خلا کے علاوہ کہیں کچھ ہے بھی کیا مگر بڑھی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ ہم نے فلسفیانہ سوالات کو شدید غیر ذاتی رکھنے کا عہد کر لیا ہے کہ اس کے بغیر ذہنی سکون ممکن نہیں۔ ٹھیک ہے کہ ہماری نیک نیت بھی شاید نیکی کے معیار پر کھری نہیں ہوتی مگر انسان کوشش کے علاوہ کر بھی کیا سکتا ہے۔
ہمیں اپنی یونیورسٹی بہت سے لوگوں سے بڑھ کر پسند ہے مگر ادھر تھیوری والوں کی یہ حرکت سمجھ میں نہیں آتی کہ دس نمبر کی اسائنمنٹ میں وہ سوال اٹھا کر دے دیتے ہیں کہ جن کو حل کرنے کے لیے لوگ عمر گزارنے کے بعد مقالے لکھتے ہیں۔ اس کی وجہ ہمیں تو ہماری کم مائیگی کا احساس دلانے کے علاوہ کوئی نہیں ملتی اور اس لحاظ سے یہ لوگ بڑے کامیاب ہیں کہ ہم دل سے تسلیم کر چکے ہیں کہ ہم بے دھیانی میں فٹ پاتھ پر پھینکا گیا کچرا ہیں اور ساری زندگی یہی رہیں گے۔ پہلے ہم ایسے نتائج نکالنے کے بعد رویا دھویا کرتے تھے نثر اور شعر میں مگر اب ہم نے یہ عادت ترک کر دی ہے کہ ہم جو کچھ بھی ہیں، اپنے لیے مناسب ہیں اور دوسروں کی طرف دیکھ کر پریشان نہیں ہو سکتے۔ گول ڈھکنے چوکور چوکھٹوں سے گر سکتے ہیں مگر ان میں فٹ نہیں ہو سکتے اور اگر ہم نے اپنی رائیگاں جانے والی عمر سے ایک بات سیکھی ہے تو وہ یہی سیکھی ہے کہ انسان اپنے آپ کو جس قدر بھی دنیا کے پسندیدہ سانچوں میں ڈھالنے کی کوشش کرتا رہے، وہ اس میں ناکام ہی رہتا ہے اور نہ خود خوش رہتا ہے اور نہ کسی اور کو رہنے دیتا ہے۔ وہ اور خوش قسمت لوگ ہوتے ہیں گے جو یہ بار گراں اٹھا پاتے ہوں گے، ہمارے پاس نہ ایسی قسمت ہے اور نہ اتنا دماغ۔ لکھنے لکھانے کا یوں بھی یہ معاملہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان دل جلنے پر شعر کہتا ہے اور لوگ واہ واہ کرتے ہیں۔
زندگی میں ایک بڑا اہم سوال یہ رہتا ہے کہ دنیا کو کیا مقام دیا جائے۔ ہم نے تجربات کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ دنیا جیسی ہے، ویسی ہی رہے گی اور ہم جیسے بھی ہیں، خود سے بھاگ نہیں سکتے۔ حال ہی میں کسی سے ذکر کر رہے تھے کہ ایک نارمل انسان ایک نارمل زندگی میں جس قدر کچھ کہہ سکتا ہے ہم اس سے کوئی دس ہزار گنا سوچا کرتے ہیں اور پھر سمجھا تو کسی کو ایک بات بھی نہیں پاتے۔ ظاہر ہے کہ اس قدر منتشر خیالی اور سوچ کی گہما گہمی کا ساتھ نہ نثر دے پاتی ہے اور نہ شعر۔ کچھ کہہ ڈالنے کے بعد اس سے بھی زیادہ احمقانہ بات یہ ہے کہ انسان دوسرے لوگوں سے سمجھے جانے کی توقع رکھے اور پھر اس کے پورا نہ ہونے پر آزردہ ہو۔ سامنے کی بات پر آزردہ ہونے کا کیا مطلب ہے آخر؟ اگر لوگ ہمیں نہیں سمجھتے تو ہم کون سا لوگوں کو سمجھتے ہیں، مثلا دوسروں میں قبول کیے جانے کی آرزو، آنکھیں بند کر کے پیچھے چلنے کا چلن، روایات پر اصرار حالانکہ وہ اپنی اصل میں سرکلر لاجک سے بڑھ کر کچھ نہیں ، اپنی صاف صاف دلی خواہشات پر منطق، نصیب، مجبوری اور ہر قسم کے پردے ڈالنے کی عادت اور اپنی کوتاہیوں کو دیکھنے سے واضح محرومی۔ لوگ کچھ بالکل اور ہی اصولوں پر چلا کرتے ہیں، ہم کچھ اور ہی اصولوں پر۔ ہم میں پچاس کروڑ مسائل ہوں گے مگر ہم کم از کم کوشش تو کرتے ہیں کہ ان سب سے آگاہ رہیں اور کسی کسی کو گاہے گاہے ٹھیک کرنے کی کوشش کر لیا کریں۔ یوں بھی کوشش کے سوا کیا ہے انسان کے لیے، تو جو لوگ یہ کوشش نہیں کرتے وہ بالکل بھی ہماری سمجھ میں نہیں آتے۔
یہاں یہ بھی ذکر کرتے چلیں کہ شاید ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ جو کچھ ہماری سمجھ میں نہ آئے وہ بڑی تکلیف دیتا ہے۔
انصاف کی کہیے تو جب خیالات کی کمیونیکیشن میں یہ خلا دو طرفہ ہے تو ہمیں اس پر تنقید کرنے کا بھی حق نہیں۔ ہم نے دل و جان سے تسلیم کر لیا ہے کہ ہم اور دنیا ، دونوں ایک دوسرے کی سمجھ میں نہیں آ سکتے۔ ہماری نرم دلی کو لوگ اگر حماقت پر محمول کرتے ہیں تو یونہی کرتے رہیں گے اور اگر لوگوں کا یہی عمومی اصول ہے کہ خاموش رہنے کا مطلب ہوتا ہے کہ اگلا انسان یا تو کچھ دیکھ ہی نہیں سکتا یا کہنے کی مجال نہیں رکھتا تو ہم کسی کو کیوں کہیں کہ ہم بہت دیکھتے ہیں اور کچھ بھی کہہ سکتے ہیں مگر ہمیں کچھ تو اپنی اماں کی تربیت کے مارے ری ایکشن دینے کی عادت نہیں اور کچھ یہ کہ ایک ٹی وی شو کے الفاظ میں، ہم ذرا بڑے اور اہم سوالات پر غور کیا کرتے ہیں۔ لوگ اپنی دنیا میں خوش رہیں، ہم اپنی میں رہتے ہیں۔ ایک بات تو ہم سیکھ چکے ہیں اور وہ یہ کہ توقعات وابستہ کرنا، چاہیے وہ لوگوں سے ہو، دنیا سے یا اپنے نصیب سے، صرف چھوٹے بچوں کا کام ہوتا ہے، اس کے بعد نہیں۔ ہمارے ساتھ کوئی برا کرے تو اس کو حق ہے۔ کوئی اچھا کرے تو ہمیں حق ہے کہ اسی مسکراہٹ سے جواب دیں جو ہم نے اس وقت کے لیے مخصوص کر رکھی ہے جب کوئی کہیں ہمارے لیے بڑھ کر دروازہ کھول دے۔ ہمیں دونوں قطعی برابر ہیں اور ہم کسی ایک کی طرف بھی جھکاؤ نہیں رکھتے۔ پھر یہ بھی ہمیں اندازہ ہو گیا ہے کہ زندگی میں وقت بہت محدود ہوتا ہے اور ایسا کام بار بار کرنا جس میں ناکامی کا پہلے سے ہی علم ہو ، نہایت فضول حرکت ہے۔ ٹھیک ہے کہ ہم ٹیورنگ ٹیسٹ نہ پاس کر پائیں مگر اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ اپنی غلطیاں دہراتے رہیں۔ خوش رہنے کے لیے اپنی طرف اور صرف اپنی طرف دیکھنا نہایت ضروری ہے اور وقت ضائع کرنا ہی ہو تو اس کے خوش کن طریقے بہت ہیں، دنیا سے سر پھوڑنے کی کیا ضرورت ہے۔
کبھی کبھی ہماری اپنی سمجھ میں بھی نہیں آتا کہ ایک چھوٹی سی اسائنمنٹ اتنا بڑا ایگزیسٹینشئل کرائسس کس طرح ٹریگر کر سکتی ہے۔
 

لاریب مرزا

محفلین
خوب طنزیہ تحریر تھی۔ :)
یہ بھی آپ کی ہمت ہے کہ دیار غیر میں رہ کر ہمت جٹائے ہوئے ہیں۔ ورنہ تو لوگ (بالخصوص صنف نازک) ہمت ہار جاتے ہیں۔
 
Top