پرانی یادیں۔۔۔سید مظہر علی شاہ

Dilkash

محفلین
پرانی یادیں
زندہ اور مردہ قوموں میں بڑا واضح فرق ہوتا ہے اول الذکر اپنے ان سپوتوں کو بھلاتی نہیں جنہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیکر اپنے علاقے اور اپنی مٹی کو ایک پہچان دی ہوتی ہے وہ ان کی یاد سے جڑی ہوئی ہر چیز کو محفوظ کرلیتی ہیں تاکہ نئی نسل یا آئندہ آنے والی نسلوں کو اپنے اسلاف اور اپنے ہیروز کے بارے میں مکمل آگاہی ہو ان کویاد رکھنے کے کئی طریقے ہیں ان کے ناموں پر شہر کی سڑکوں کے نام رکھے جاسکتے ہیں اگر وہ گھر موجود ہیں جہاں انہوں نے آنکھ کھولی تھی تو ان کو ثقافتی ورثہ قرار دیکر محفوظ کیا جاسکتا ہے ان کے شعبے سے متعلق جن میں انہوں نے نام کمایا ہو کی عمارتوں کے بلاکوںکے نام ان کے نام پر رکھے جاسکتے ہیں

سائنس‘ طب ‘فنون لطیفہ‘ تعلیم وغیرہ وغیرہ کے میدانوں میں خیبر پختون خوا کی مٹی نے کئی ایسی شخصیات کو جنم دیا ہے جو اپنے اپنے فن میں یکتا تھے یا ہیں اور ان میں ید طولے رکھتے ہیں ڈیرہ اسماعیل خان سے لیکر چترال تک کے وسیع علاقے نے مختلف ادوار میں کئی ایسے انمول موتی پیدا کئے ہیں جن کے بارے میں اکثر لوگوں کو پتہ ہی نہیں اور شاید وہ گمنام ہی رہیں کیونکہ اپنے ہاںلکھنے پڑھنے کا مادہ ہمیشہ سے کم رہا ماضی بعید کی عظیم شخصیتیں تو کجا ہم ماضی قریب کی عظیم شخصیتوں کو بھی صحیح معنوں میں اجاگر کرکے ان کو وہ مقام نہیں دے سکے ہیں جو ان کا حق ہے۔

گذشتہ روز ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کے ایک رپورٹر نے پشاور سے تعلق رکھنے والے فلمی ستاروں کے بارے میں اپنے خبرنامے میں چند منٹوں پر محیط ایک فوٹیج چلائی جو یقینا ایک اچھی کاوش تھی پر اس سے ناظرین کی تشفی نہیں ہوئی کیونکہ وہ فوٹیج نہایت ہی سطحی اور نامکمل تھی اس فوٹیج میں ان فلمی شخصیات اور گھرانوں کا ذکر کیاگیا جنہوں نے بالی ووڈ جاکر وہاں کی فلمی صنعت کو چار چاند لگائے اس رپورٹر کا یہ مطالبہ بالکل بجا تھا کہ پشاور میں ثقافت سے متعلق جو سرکاری ادارہ بھی کام کررہا ہے وہ کم ازکم ان فلمی شخصیات کے گھروں کو ہی ثقافتی ورثہ قرار دے کر محفوظ کرلے کہ وہ اب بھی اسی حالت میں موجود ہیں جس حالت میں وہ بنے تھے گو وقت کے ساتھ ساتھ وہ خستہ حال ضرور ہوئے

اس قسم کا مطالبہ پرنٹ میڈیا اس سے پیشتر بھی کر چکا ہے پر پشاور میں ثقافت کے بارے میں معاملات نبٹانے والے سرکاری بابوؤں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی پچھلی صوبائی حکومت سے خیر کوئی کیا گلہ کرے کہ وہ تو فنون لطیفہ کے بارے میں اپنے دل میں کوئی نرم گوشہ رکھتی ہی نہ تھی پر موجودہ صوبائی حکومت میں ضرور ایسے اہلکار موجود ہوں گے جو اس بات کا ادراک رکھتے ہوں کہ یہ معاملہ کتنی اہمیت کا حامل ہے

پرتھوی راج کپور کے خاندان کا فلمی دنیا میں ایک اہم مقام ہے۔گذشتہ 60برسوں سے پرتھوی راج کپور‘ ان کے بیٹے راج کپور ‘شمی کپور ششی کپور‘ان کے پوتے رشی کپور اور ان کے پڑپوتوں اور پڑپوتیوں نے برصغیر کے کروڑوں عوام کی زندگیوں میں اپنی عمدہ اداکاری سے خوشیاں اور مسکراہٹیں بکھیری ہیں اور اپنی فلموں کے ذریعے معاشرے کو کئی سبق آموز کہانیاں اور پیغام دیئے ہیں ڈھکی نعلبندی پشاور میں وہ گھر آج بھی ایستادہ ہے جس میں شہرہ آفاق فلم مغل اعظم کا اکبر بادشاہ‘ پرتھوی راج کسی زمانے میں رہا کرتا تھا اور وہاں سے سائیکل پر ایڈورڈ کالج پشاور پڑھنے جایا کرتا تھا

ڈھکی نعلبندی کی اسی گلی میں ’’آوارہ‘‘ نامی فلم کا خوبرو ہیرو راج کپور جو پرتھوی راج کپور کا بڑا بیٹا تھا کھیلا کرتا تھا اسی ڈھکی نعلبندی میں انیل کپور کے والد کا گھر تھا چند قدم دور محلہ خداداد قصہ خوانی کی ایک چھوٹی سی گلی کے نکڑ پر وہ گھر آج بھی نظر آتا ہے جہاں دنیائے فلم کے عظیم ترین اداکار یوسف خان المعروف دلیپ کمار نے جنم لیا تھا اس میں دو آراء ہو ہی نہیں سکتیں کہ ان جیسا کنگ آف ٹریجڈی آج تک پروہ سیمیں کو پھر میسر آیا ہی نہیں بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوجاتی پشاور میں وہ گھر بھی موجود ہے کہ جس میں ضیا ء سرحدی جیسا لکھاری‘فلمی ہدایت کار اور کہانی نویس پیدا ہوا جس کی فلم ’’ہم لوگ‘‘ رہتی دنیا تک فلم کے ناظرین یا درکھیں گے پیرپیائی نوشہرہ کے گل حمید کا گھر پیرپیائی میں موجود ہے ۔

ایک زمانے میں اس نے بالی ووڈ میں تہلکہ مچا رکھا تھا اس طرح نامور ادیب وسفارت کار پطرس بخاری‘ عظیم مصور اور سنگتراش گل جی مشہور فلمی ہیرو لالہ سدھیر اور اسی درجے کے کئی دوسرے فنکار جن کے نام اس وقت ذہین میں نہیں آرہے ان سب کی یادوں کو کسی نہ کسی طریقے سے محفوظ کیا جاسکتا ہے کاش کہ صوبائی حکومت اس ضمن میں کوئی پراجیکٹ بنائے یقینا عوام الناس اس کی پذیرائی کریں گے۔
 

Dilkash

محفلین
ایبٹ ابادکے پران،نواں کلی پشاورکے جینت (امجد خان کے والد) پشاور ہی کے خلیل خان اور اس قسم کے درجنوں فلمی ستاروں کے اب صرف یادیں ہی رہ گئیں ہیں
 

Dilkash

محفلین
کوہ نور۔۔۔۔تاریخ سے ایک ورق ۔۔۔۔سید مظہر علی شاہ روزنامہ آج پٰیشور

برطانیہ کی ملکہ الزبتھ کے تاج میں کوہ نور ہیرے کو دیکھ کر افغانیوں ‘ایرانیوں‘ پاکستانیوں اور بھارتیوں کے منہ میں کبھی کبھی پانی آجاتا ہے اور ان میں بعض لوگ یہ مطالبہ کربیٹھتے ہیں کہ چونکہ ‘یہ ہیرا ان کی میراث ہے اس لئے اسے ان کوواپس کیا جائے کچھ عرصے کے لئے اس مطالبے کے بعد میڈیا میں بحث ومباحثہ کا سلسلہ چل پڑتا ہے پر کچھ وقت کے بعد معاملہ پھر ٹھنڈا پڑجاتاہے کوہ نور ہیرے کی داستان بڑی رنگیں بھی ہے اور عجیب بھی اس کا موجودہ وزن 106 Carat(قیراط) اس وزن کا عشر عشیر بھی نہیں جو کسی زمانے میں ہوا کرتا تھا یعنی9871(قیراط) یاد رہے کہ ایک قیراط دو سو ملی گرام کے برابر ہوتا ہے اور یہ پیمانہ سونا‘ جواہرات تولنے کیلئے استعمال ہوتا ہے

کوہ نور ہیرے کی دریافت 1657ء کے لگ بھگ یعنی ساڑھے تین سو سال پہلے ہوئی تھی اس کو میرجملہ نے بھارت کے علاقے کولر کے مقام پر واقع معدنیات کی کانوں سے نکالا تھا اور ناتراشیدہ حالت میں اسے مغل بادشاہ شاہ جہاں کی خدمت میں پیش کیا تھا اس کے بعد بعض غیر ملکیوں نے اسے اورنگزیب کے خزانے میں دیکھا اس وقت اس کا وزن متواتر تراشنے سے279 قیراط رہ گیا تھا جب مغل حکومت کمزور پڑگئی تو ایران کے بادشاہ نادرشاہ نے اسے مغلوں سے چھین کر اپنے خزانے میں شامل کرلیا

نادر شاہ نے ہی اسے کوہ نور کا خطاب دیایعنی روشنی کا پہاڑ جب 1747ء میں نادرشاہ کو قلات کے مقام پر قتل کیاگیا تو یہ ہیرا اس کے پوتے شاہ رخ کے پاس چلاگیا 1751ء میں شاہ رخ نے اسے بطور انعام احمد شاہ کے حوالے کیا جو درانی خاندان کا بانی تھا اور جس نے مشکل وقت میں شاہ رخ کی امداد کی تھی احمد شاہ نے اسے اپنے بیٹے تیمور کو تحفہ میں دیا جو بعد میں کابل میں رہنے لگا اس کے بعد وراثت میں یہ اس کے بڑے بیٹے شاہ زمان کے حصے میں آیا گو کہ شاہ زمان کو اس کے بھائی نے معزول کردیا اور اس کی آنکھیں بھی نکال دیں پر کوہ نور کا دامن اس نے نہ چھوڑا

بعد میں وہ اس کے چھوٹے بھائی شاہ شجاع کو ملا ۔تاریخ میں لکھا ہے کہ یہ ہیرا شاہ شجاع کے بعد رنجیت سنگھ کے قبضے میں آیا 1839ء میں رنجیت سنگھ کا انتقال ہوا اس نے بسترمرگ پر یہ وصیت کی تھی کہ کوہ نور جس کی مالیت اس وقت ایک ملین سٹرلنگ پاؤنڈ بتائی جاتی ہے کو جگن ناتھ کے حوالے کیا جائے پر اس کی اس وصیت پر عمل درآمد نہ کیاگیا اور اس کو اس وقت تک ایک تہہ خانے میں محفوظ رکھا گیا جب تک برطانوی حکومت نے راجہ دلیپ سنگھ کو باقاعدہ طور پر رنجیت سنگھ کا جانشین تسلیم نہیں کیا جب 1849ء میں پنجاب کو برطانوی حکومت نے اپنے ساتھ مدغم کردیا تو کوہ نور کو برطانوی افسر لارڈ لارنس کے حوالے کردیاگیا ۔

بعد میں غیر منقسم برصغیر پاک وہند کے برطانوی اہلکاروں نے اسے ملکہ برطانیہ کے حوالے کیا اور تب سے یہ برطانیہ کی ملکہ کا تاج کا باقاعدہ حصہ بنادیاگیا ہے ملکہ برطانیہ اسے خاص خاص مواقع پر اپنے تاج میں لگاکر پہنتی ہے ورنہ لندن ٹاور کے میوزیم میں اسے رکھا جاتا ہے جس کو دیکھنے کے لئے ہزاروں سیاح روزانہ ٹاور آف لندن کا دورہ کرتے ہیں اور ٹکٹ لیکر اس کا درشن کرتے ہیں اس طرح کوہ نور سے برطانیہ کی حکومت اچھے خاصے پیسے بھی کما رہی ہے اب اس کا فیصلہ بھلا کون کرے کہ کیا اس پر بھارت کا حق ہے کیونکہ یہ بھارت میں واقع ایک کان سے میر جملہ نے نکالا اور اس وقت کے مغل بادشاہ شاہ جہاں کو پیش کیا؟

کیا اسے ایران کی ملکیت سمجھا جائے کیونکہ نادر شاہ دلی کو نیست نابود کرنے کے بعد بزورشمشیر اسے اپنے ساتھ ایران لے گیا تھا یا پھر اسے رنجیت سنگھ کی پراپرٹی قرار دیکر اسے سکھوں کے حوالے کیا جائے یا پھر اسے افغانستان یا پاکستان کے حوالے کیا جائے کیونکہ کافی عرصہ تک یہ افغانیوں کے پاس بھی رہا اور اس علاقے میں بھی رہا کہ جواب پاکستان کہلاتا ہے یہ دلچسپ بحث ہے اور شاید انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کی طرح کوئی ادارہ ہی یہ گتھی سلجھا سکے اور یا پھر اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے بہر حال کوہ نور اقتدار کی کرسی کی طرح بے وفا نکلا ہے جس نے کئی مالک بدلے ہیں اب دیکھتے ہیں کہ وہ آئندہ کس حکمران کے تاج کی زینت بنتا ہے۔

Dated : 2010-07-27 00:00:00
 
پرانی یادیں
زندہ اور مردہ قوموں میں بڑا واضح فرق ہوتا ہے اول الذکر اپنے ان سپوتوں کو بھلاتی نہیں جنہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیکر اپنے علاقے اور اپنی مٹی کو ایک پہچان دی ہوتی ہے وہ ان کی یاد سے جڑی ہوئی ہر چیز کو محفوظ کرلیتی ہیں تاکہ نئی نسل یا آئندہ آنے والی نسلوں کو اپنے اسلاف اور اپنے ہیروز کے بارے میں مکمل آگاہی ہو ان کویاد رکھنے کے کئی طریقے ہیں ان کے ناموں پر شہر کی سڑکوں کے نام رکھے جاسکتے ہیں اگر وہ گھر موجود ہیں جہاں انہوں نے آنکھ کھولی تھی تو ان کو ثقافتی ورثہ قرار دیکر محفوظ کیا جاسکتا ہے ان کے شعبے سے متعلق جن میں انہوں نے نام کمایا ہو کی عمارتوں کے بلاکوںکے نام ان کے نام پر رکھے جاسکتے ہیں

سائنس‘ طب ‘فنون لطیفہ‘ تعلیم وغیرہ وغیرہ کے میدانوں میں خیبر پختون خوا کی مٹی نے کئی ایسی شخصیات کو جنم دیا ہے جو اپنے اپنے فن میں یکتا تھے یا ہیں اور ان میں ید طولے رکھتے ہیں ڈیرہ اسماعیل خان سے لیکر چترال تک کے وسیع علاقے نے مختلف ادوار میں کئی ایسے انمول موتی پیدا کئے ہیں جن کے بارے میں اکثر لوگوں کو پتہ ہی نہیں اور شاید وہ گمنام ہی رہیں کیونکہ اپنے ہاںلکھنے پڑھنے کا مادہ ہمیشہ سے کم رہا ماضی بعید کی عظیم شخصیتیں تو کجا ہم ماضی قریب کی عظیم شخصیتوں کو بھی صحیح معنوں میں اجاگر کرکے ان کو وہ مقام نہیں دے سکے ہیں جو ان کا حق ہے۔

گذشتہ روز ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کے ایک رپورٹر نے پشاور سے تعلق رکھنے والے فلمی ستاروں کے بارے میں اپنے خبرنامے میں چند منٹوں پر محیط ایک فوٹیج چلائی جو یقینا ایک اچھی کاوش تھی پر اس سے ناظرین کی تشفی نہیں ہوئی کیونکہ وہ فوٹیج نہایت ہی سطحی اور نامکمل تھی اس فوٹیج میں ان فلمی شخصیات اور گھرانوں کا ذکر کیاگیا جنہوں نے بالی ووڈ جاکر وہاں کی فلمی صنعت کو چار چاند لگائے اس رپورٹر کا یہ مطالبہ بالکل بجا تھا کہ پشاور میں ثقافت سے متعلق جو سرکاری ادارہ بھی کام کررہا ہے وہ کم ازکم ان فلمی شخصیات کے گھروں کو ہی ثقافتی ورثہ قرار دے کر محفوظ کرلے کہ وہ اب بھی اسی حالت میں موجود ہیں جس حالت میں وہ بنے تھے گو وقت کے ساتھ ساتھ وہ خستہ حال ضرور ہوئے

اس قسم کا مطالبہ پرنٹ میڈیا اس سے پیشتر بھی کر چکا ہے پر پشاور میں ثقافت کے بارے میں معاملات نبٹانے والے سرکاری بابوؤں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی پچھلی صوبائی حکومت سے خیر کوئی کیا گلہ کرے کہ وہ تو فنون لطیفہ کے بارے میں اپنے دل میں کوئی نرم گوشہ رکھتی ہی نہ تھی پر موجودہ صوبائی حکومت میں ضرور ایسے اہلکار موجود ہوں گے جو اس بات کا ادراک رکھتے ہوں کہ یہ معاملہ کتنی اہمیت کا حامل ہے

پرتھوی راج کپور کے خاندان کا فلمی دنیا میں ایک اہم مقام ہے۔گذشتہ 60برسوں سے پرتھوی راج کپور‘ ان کے بیٹے راج کپور ‘شمی کپور ششی کپور‘ان کے پوتے رشی کپور اور ان کے پڑپوتوں اور پڑپوتیوں نے برصغیر کے کروڑوں عوام کی زندگیوں میں اپنی عمدہ اداکاری سے خوشیاں اور مسکراہٹیں بکھیری ہیں اور اپنی فلموں کے ذریعے معاشرے کو کئی سبق آموز کہانیاں اور پیغام دیئے ہیں ڈھکی نعلبندی پشاور میں وہ گھر آج بھی ایستادہ ہے جس میں شہرہ آفاق فلم مغل اعظم کا اکبر بادشاہ‘ پرتھوی راج کسی زمانے میں رہا کرتا تھا اور وہاں سے سائیکل پر ایڈورڈ کالج پشاور پڑھنے جایا کرتا تھا

ڈھکی نعلبندی کی اسی گلی میں ’’آوارہ‘‘ نامی فلم کا خوبرو ہیرو راج کپور جو پرتھوی راج کپور کا بڑا بیٹا تھا کھیلا کرتا تھا اسی ڈھکی نعلبندی میں انیل کپور کے والد کا گھر تھا چند قدم دور محلہ خداداد قصہ خوانی کی ایک چھوٹی سی گلی کے نکڑ پر وہ گھر آج بھی نظر آتا ہے جہاں دنیائے فلم کے عظیم ترین اداکار یوسف خان المعروف دلیپ کمار نے جنم لیا تھا اس میں دو آراء ہو ہی نہیں سکتیں کہ ان جیسا کنگ آف ٹریجڈی آج تک پروہ سیمیں کو پھر میسر آیا ہی نہیں بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوجاتی پشاور میں وہ گھر بھی موجود ہے کہ جس میں ضیا ء سرحدی جیسا لکھاری‘فلمی ہدایت کار اور کہانی نویس پیدا ہوا جس کی فلم ’’ہم لوگ‘‘ رہتی دنیا تک فلم کے ناظرین یا درکھیں گے پیرپیائی نوشہرہ کے گل حمید کا گھر پیرپیائی میں موجود ہے ۔

ایک زمانے میں اس نے بالی ووڈ میں تہلکہ مچا رکھا تھا اس طرح نامور ادیب وسفارت کار پطرس بخاری‘ عظیم مصور اور سنگتراش گل جی مشہور فلمی ہیرو لالہ سدھیر اور اسی درجے کے کئی دوسرے فنکار جن کے نام اس وقت ذہین میں نہیں آرہے ان سب کی یادوں کو کسی نہ کسی طریقے سے محفوظ کیا جاسکتا ہے کاش کہ صوبائی حکومت اس ضمن میں کوئی پراجیکٹ بنائے یقینا عوام الناس اس کی پذیرائی کریں گے۔
میں بھی گل حمید کے گاؤں سے ہوں
 
Top