فارسی شاعری می رقصم - شیخ عثمان مروَندی معروف بہ لال شہباز قلندر کی غزل

ماشاء اللہ بہت ہی خوبصورت کلام ہے۔ مجھے اس کا پنجابی ورژن بھی بہت پسند ہے۔ گو کہ اسے "نمی دانم چی منزل بود" میں ہی گایا جاتا ہے لیکن فرید ایاز ابو محمد نے علیحدہ اس کلام کو کلاسیک انداز میں بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔
یہاں باتیں جو زیر بحث آئيں فقیر کی گزارشات ہیں کہ،
؎ یہ کلام زیادہ شدت کے ساتھ حضرت خواجہ عثمان مروندی لعل شہباز قلندر سے منسوب ہے۔ فرید ایاز جن کا تعلق قوالی کے معتبر گھرانے اور سندھ سے ہے نے بھی اسے انہیں کا بتایا ہے۔ لیکن نصرت فتح علیخاں صاحب نے عثمان ہارونی|ہرونی سے منسوب کیا ہے۔
عثمان ہارونی یا ہرونی خواجہ غریب نواز کے مرشد ہیں آپ کا تعلق ایران کے قصبہ ہرون سے ہے۔ یہ لفظ ہرونی ہے اہل علم ہرونی ہی بولتے ہیں۔ یہ شاید، گمان ہے کہ ترجمہ ہوتے ہوتے یا قوالیانہ تحریف کے نتیجہ میں ہارونی بن گیا ہے۔
حضرت لعل شہباز قلندر کا اسم مبارک عثمان مروندی ہے۔

اللہ و رسولہ اعلم!
 
یہ بھی ملاحظہ ہو:

بہ گردِ مرکزِ خود صورتِ پرکار می رقصم
محیطِ بے کرانم من قلندر وار می رقصم

چو اندر این وجودے خود مقامِ یار می بینم
ہزاراں پردہا چاکم ہزاراں‌ بار می رقصم

منم بے تاب و بے صبرم قتیلِ نظرِ‌ بے باکم
بچشمِ شوخِ آں‌ شوخے پئے دیدار می رقصم

حیائے شانِ بے چُونم متاعِ کنز مخفی ام
ز انوارِ تجلائے سرِ بازار می رقصم

اگرچہ رشتہ جانے و جاناں سر پنہانم
خوشا آں حلقہ گیسو کہ من بردار می رقصم

جلائے آبِ شمشیرم ضیائے درِ مکنونم
سراپا کیف و مستی ام قلندر دار می رقصم

ولی را خود نمی دانم نثارِ‌لذت ہوئم
اگرچہ لامکاں دارم پئے اظہار می رقصم

از ولی الدین
لاجواب۔۔۔۔۔دادی ماں ہاجرہ یاد آگئیں ۔۔۔فارسی سے بہت لگاؤ تھا اور ہماری پھوپھیاں ان سے پڑھا کرتی تھیں اور پھر غزلیں ہمارے کانوں میں اپنی رس گھولتی آواز میں ڈالتی تھیں ۔۔۔سمجھ تو آتی نہیں تھی ۔۔خیر تھوڑی سی کوشش کرلیتے ہیں ہم بھی اب فارسی کو پڑھنے کی ۔۔۔
 

الف نظامی

لائبریرین
لاجواب۔۔۔۔۔دادی ماں ہاجرہ یاد آگئیں ۔۔۔فارسی سے بہت لگاؤ تھا اور ہماری پھوپھیاں ان سے پڑھا کرتی تھیں اور پھر غزلیں ہمارے کانوں میں اپنی رس گھولتی آواز میں ڈالتی تھیں ۔۔۔سمجھ تو آتی نہیں تھی ۔۔خیر تھوڑی سی کوشش کرلیتے ہیں ہم بھی اب فارسی کو پڑھنے کی ۔۔۔
ما شا ء اللہ.
 

سروش

محفلین
نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ہر صورت بہ پیشِ یار می رقصم


نہیں معلوم کیوں آخر دمِ دیدار رقصاں ہوں
مگر ہے ناز ہر صورت بہ پیشِ یار رقصاں ہوں

تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
بہ ہر طرزِ کہ می رقصانیم اے یار می رقصم

تو ہو نغمہ سرا ہر دم میں ہر اک بار رقصاں ہوں
تری خاطر میں ہر اک طرز پر اے یار رقصاں ہوں

تو آں قاتل کہ از بہر تماشا خون می ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم

تو وہ قاتل کہ جو بہر تماشا خون کرتا ہے
میں وہ بسمل کہ زیرِ خنجرِِ خوں خوار رقصاں ہوں

بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہ جانبازاں
بہ ایں دستارِ رسوائی سرِ بازار می رقصم


مری جاں آ تماشا دیکھ جانبازوں کے مجمعے میں
ردا رسوائی کی اوڑھے سرِ بازار رقصاں ہوں

اگرچہ قطرہ¿ شبنم نہ پوید برسرِ خارے
منم آں قطرہ¿ شبنم بہ نوکِ خار می رقصم


اگرچہ قطرہ¿ شبنم نہیں رکتا ہے کانٹے پر
میں وہ قطرہ ہوں شبنم کا بہ نوکِ خار رقصاں ہوں

منم عثمان مروندی کہ یارے شیخ منصورم
ملامت می کند خلقے ومن بردار می رقصم


میں ہوں عثمان مروندی کہ ہے منصور سے یاری
ملامت خلق کرلے میں تو سوئے دار رقصاں ہوں

—————————————
ترجمہ: ڈاکٹر فاطمہ حسن
 
السلام علیکم ماشاء الله بہت اچھا کلام بہت اچھی تحقیق کے ساتھ پیش کیا جناب وارث صاحب نے اور جناب الف نظامی صاحب نے میں ابھی اس محفل میں نیا ہوں آج نیٹ پر یہ کلام ڈھونڈ رہا تھا تو آپ لوگوں سے ملاقات ہو گئی بہت شکریہ
 

mohsin ali razvi

محفلین
ھمانا العطش بر لب سر کویش چو می رقصم
ہاں میں تشنہ لب اس کے کوچہ میں رقص کناں ہوں
تمام مردمان خوابیده در سوئی مگر بیدار می رقصم
سب لوگ نیند میں ھیں مگر میں رقص میں مصروف
مکن فکر دگر ای یار مروندی من اویم چون توی دلدار می رقصم
اے عثمان مروندی اے مرے یار مجھے غیر مت سمجھ میں بھی تمھارے ہی طرح مشغول بہ رقص ہوں
شب شیراز را گرتونمائی روشنی مرشد برقصم چون تو می رقصی بپای دار می رقصم
اگر مری شھر شیراز کی شب کو قدم رنجہ فرما کر روشنی بخشدواے مرے موشد میں بہی رقص کروں چوبئے دار کے نیچے تم جیسے
علیشا رضوی
 
آخری تدوین:

mohsin ali razvi

محفلین
ھمانا العطش بر لب سر کویش چو می رقصم​
تمام مردمان خوابیده در سوئی مگر بیدار می رقصم​
مکن فکر دگر ای یار مروندی من اویم چون توی دلدار می رقصم​
شب شیراز را گرتونمائی روشنی مرشد برقصم چون تو می رقصی بپای دار می رقصم​
علیشا رضوی​
 

فائضہ خان

محفلین
شیخ سید عثمان شاہ مروَندی علیہ الرحمہ معروف بہ لال شہباز قلندر ایک جلیل القدر صوفی ہیں اور انکے نامِ نامی کی شہرت عالم گیر ہے۔ انکی ایک غزل بہت مشہور ہے جس کی ردیف 'می رقصم' ہے، اس غزل کا کچھ تذکرہ مولانا رومی کی ایک غزل جس کی ردیف 'می گردم' ہے لکھتے ہوئے بھی آیا تھا۔ اس وقت سے میں اس غزل کی تلاش میں تھا لیکن افسوس کہ نیٹ پر مکمل غزل کہیں نہیں ملی بلکہ اکا دکا اشعار ادھر ادھر بکھرے ہوئے ملے۔ کتب میں بھی تلاش کیا لیکن نہیں ملی۔

اس سلسلے میں ایک عرض یہ کرونگا کہ بعض مشہور و معروف غزلیات جو صدیوں سے زبان زد عام ہیں، کتب میں نہیں ملتیں، مثلاً امیر خسرو علیہ الرحمہ کی نعت، نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم، انکی غزلیات کے پانچوں دیوانوں میں نہیں ہے (بحوالہ خسرو شیریں بیاں از مسعود قریشی، لوک روثہ اشاعت گھر، اسلام آباد) اسی طرح مولانا رومی کی مذکورہ غزل، نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردم، انکی غزلیات کے دیوان 'دیوانِ شمس' میں موجود نہیں ہے، مولانا کے یہ کلیات ایران میں تصحیح کے ساتھ شائع ہو چکے ہیں اور اسی دیوانِ سمش کا آن لائن ورژن ویب پر بھی موجود ہے، جس میں یہ غزل موجود نہیں ہے اور اسی طرح شیخ عثمان کی مذکورہ غزل بھی کہیں نہیں ملتی لیکن عام طور سے یہی مشہور ہے کہ یہ غزل شیخ عثمان کی ہے۔ اس غزل کے چار اشعار مجھے ویب سے ملے تھے، باقی اشعار نصرت فتح علی خان قوال کی گائی ہوئی ایک قوالی (امیر خسرو کی نعت نمی دانم) سے ملے ہیں اور یوں سات اشعار کی ایک غزل بہرحال بن گئی ہے جو احباب کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں، مجھے پورا یقین ہے کہ اس غزل کے مزید اشعار بھی ہونگے، بہرحال تلاش جاری ہے۔

غزل پیشِ خدمت ہے۔

نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم


نہیں جانتا کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں رقص کر رہا ہوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے رقص کر رہا ہوں۔

تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
بہ ہر طرزِ کہ می رقصانیَم اے یار می رقصم


تو جب بھی اور جس وقت بھی نغمہ چھیڑتا ہے میں اسی وقت اور ہر بار رقص کرتا ہوں، اور جس طرز پر بھی تو ہمیں رقص کرواتا ہے، اے یار میں رقص کرتا ہوں۔

تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم


تُو وہ قاتل کہ تماشے کیلیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خوں خوار خنجر کے نیچے رقص کرتا ہوں۔

بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم


آجا جاناں اور دیکھ کہ جانبازوں کے گروہ میں، میں رسوائی کے صد سامان لیے سر بازار رقص کر رہا ہوں۔

اگرچہ قطرۂ شبنم نہ پویَد بر سرِ خارے
منم آں قطرۂ شبنم بہ نوکِ خار می رقصم


اگرچہ شبنم کا قطرہ کانٹے پر نہیں ٹھہرتا لیکن میں وہ قطرۂ شبنم ہوں کہ نوکِ خار پر رقص کرتا ہوں۔

خوش آں رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم


واہ وہ رندی کہ جس کیلیے میں سیکنڑوں پارسائیوں کو پامال کر دوں، مرحبا یہ تقویٰ کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ رقص کرتا ہوں۔

منم عثمانِ مروندی کہ یارے شیخ منصورم
ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم


میں عثمان مروندی کہ شیخ منصور (حلاج) میرے دوست ہیں، مجھے خلق ملامت کرتی ہے اور میں دار پر رقص کرتا ہوں۔

اس شعر کیلیے ایک وضاحت یہ کہ شیخ عثمان کا نام شیخ عثمان مروَندی ہے لیکن یہ شعر نصرت فتح علیخان نے عثمان ہارونی کے نام کے ساتھ گایا ہے۔ میں نے اپنی سی کوشش ضرور کی کہ کہیں سے یہ علم ہو جائے کہ صحیح شعر کیا ہے اور یہ 'ہارونی' کیوں آیا ہے مصرعے میں لیکن افسوس کہ میرے پاس ذرائع محدود ہیں، یہ بھی علم نہیں ہو سکا کہ کیا 'ہارون' انکے کسی مرشد کا نام تھا جس کی طرف انہوں نے نسبت کی ہے۔

بہرحال تحقیق کے دروازے کھلے ہیں، اس شعر بلکہ اس غزل کے دیگر اشعار کیلیے میں بھی سرگرداں ہوں اور دیگر اہلِ علم و فن و ہنر کو بھی دعوتِ عام ہے۔

السلام علیکم ۔۔۔ سر اگر فارسی سیکھنی ہوتو کیسے سیکھی جاسکتی ہے ۔۔۔۔
 
آپ نے جو بھی فرمایا بجا فرمایا،لیکن آپ کو ایک بات بتاؤ میں کہ یہ کلام عثمان ہارونی کا ہے،اور عثمان ہارونی معین الدین چشتی کے استاد ہے جو خراسان میں پیدا ہوئے تھے۔ان کا قبر مکہ مغظمہ میں ہے۔اسی لئے نصرت فتح علی خان نے کلام میں عثمان ہارونی پڑھا تھا۔اور بہت سے لوگوں کو اس میں غلط فہمی ہوتی ہے۔حالانکہ عثمان مروندی المعروف لال شہباز قلندر جو ہے ان کا مزار سندھ میں ہیں۔اور یہ ان کا کلام نہیں ہے۔شکریہ
 
Top