غزل برائے اصلاح

اس غزل کی بحر شاید غیر مانوس ہو، چونکہ یہ غزل کچھ عرصہ قبل کہی تھی اس لئے پیش کر دی۔ تمام اساتذہ کرام اور احباب سے بے لاگ تنقید و تبصرے کی درخواست ہے۔

فاعلن مفاعلن فاعلن مفاعلن

حسنِ زندگی بتا وہ جمال کیا ہوا
اک ذرا سی دیر میں تیرا حال کیا ہوا

وقت ہی بھلا گیا ذہن سے نقوش سب
یہ بتا کہ اس میں تیرا کمال کیا ہوا

عشق میں لٹا دیا سب متاعِ جاں اور اب
پوچھتے ہیں خود سے وہ اعتدال کیا ہوا

جھک رہا ہے غیروں کے آگے خوف سے بتا
مسلمان ہے تو تیرا جلال کیا ہوا

کاش کوئی پوچھ سکتا یہ مرنے والوں سے
وہ غرور و ناز، وہ جان و مال کیا ہوا

محترم سر الف عین
 
اس غزل کی بحر شاید غیر مانوس ہو
یہ بحر غیر مانوس نہیں ، ناصر کاظمی کی مشہور غزل "غم ہے یا خوشی ہے تو" اسی بحر میں ہے۔
یہ بتا کہ اس میں تیرا کمال کیا ہوا
بحر کا ایک ٹکڑا تیرا کے "تے" پر اختتام پذیر ہو رہا ہے، یہ اچھا نہیں۔
مسلمان ہے تو تیرا جلال کیا ہوا
مسلمان کو فاعلات کے وزن پر بندھا میں نے آج تک نہیں دیکھا۔
کاش کوئی پوچھ سکتا یہ مرنے والوں سے
یہاں بھی سکتا کے "سک' پر بحر کے ایک ٹکڑے کا اختتام ہو رہا ہے۔
وہ غرور و ناز، وہ جان و مال کیا ہوا
سکتے کا یہاں ہونا بالکل بے مقصد ہے۔
 
اصلاح بہرحال اساتذہ فرما دیں گے، ادنیٰ کی رائے درج ہے:
جب کبھی بحر کے ارکان مساوی تقسیم ہوتے ہوں، یعنی مربع ترتیب دیتے ہوں تو مناسب نہیں ہوا کرتا کہ لفظ درمیان سے ٹوٹ جائیں، ملاحظہ ہو
یہ بتا کہ اس میں تیرا کمال کیا ہوا
یہ بتا کہ اس میں تے را کمال کیا ہوا
مسلمان ہے تو تیرا جلال کیا ہوا
مسلمان ہے تو تے را جمال کیا ہوا (ہرچند مسلمان کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے، سین اور لام کی حرکات مخلوط ہو گئی ہیں، مسلمان بروزن مفاعیل)
کاش کوئی پوچھ سکتا یہ مرنے والوں سے
کاش کوئی پوچھ سک تا یہ مرنے والوں سے
-
مزید یہ کہ "متاع" کو غزل میں مذکر باندھا گیا ہے، یہ جائز ہے، البتہ فصیح اس لفظ کی تانیث ہے
 
محترم محمد ریحان قریشی صاحب اور محترم مہدی نقوی حجاز صاحب آپ کی رہنمائی کا بہت شکریہ۔

صلاح بہرحال اساتذہ فرما دیں گے، ادنیٰ کی رائے درج ہے:
جب کبھی بحر کے ارکان مساوی تقسیم ہوتے ہوں، یعنی مربع ترتیب دیتے ہوں تو مناسب نہیں ہوا کرتا کہ لفظ درمیان سے ٹوٹ جائیں، ملاحظہ ہو

یہ بات کسی حد تک ذہن میں تھی لیکن غزل کہتے ہوئے اس طرف بالکل خیال نہیں گیا۔ میں نے آپ حضرات کی رہنمائی میں اس عیب کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں!

فاعلن مفاعلن فاعلن مفاعلن

حسنِ زندگی بتا وہ جمال کیا ہوا
اک ذرا سی دیر میں تیرا حال کیا ہوا

وقت ہی بھلا گیا ذہن سے نقوش سب
یہ بتا کہ تیرا اس میں کمال کیا ہوا

عشق میں لٹا گئے سب متاعِ جاں اور اب
پوچھتے ہیں خود سے ہم اعتدال کیا ہوا

کاش پوچھے تو سہی مرنے والوں سے کوئی
وہ غرور و ناز وہ جان و مال کیا ہوا


مسلمان کو فاعلات کے وزن پر بندھا میں نے آج تک نہیں دیکھا۔
مری کمی علمی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
مجھے تو یہ بھی پسند نہیں آتا کہ دو حصوں میں منقسم بحر میں فقرہ بھی ٹوٹے۔ الفاظ ٹوٹنا تو بھاری جرم سہی، لیکن فقرہ بھی ٹوٹنا درست نہیں مانتا۔
یہ بتا کہ تیرا اس ۔۔۔ میں کمال کیا ہوا
مطلع میں حسنِ زندگی لفظ کے استعمال پر حیران ہوں کہ کیا مراد ہے!
 
مجھے تو یہ بھی پسند نہیں آتا کہ دو حصوں میں منقسم بحر میں فقرہ بھی ٹوٹے۔ الفاظ ٹوٹنا تو بھاری جرم سہی، لیکن فقرہ بھی ٹوٹنا درست نہیں مانتا۔
یہ بتا کہ تیرا اس ۔۔۔ میں کمال کیا ہوا
مطلع میں حسنِ زندگی لفظ کے استعمال پر حیران ہوں کہ کیا مراد ہے!

سر الف عین اب دیکھئے:

فاعلن مفاعلن فاعلن مفاعلن

یہ بتا تُو زندگی وہ جمال کیا ہوا
اِک ذرا سی دیر میں تیرا حال کیا ہوا

وقت ہی بھلا گیا ذہن سے نُقوش جو
یہ اگر کمال ہے یہ کمال کیا ہوا

عشق میں لٹا گئے سب متاعِ جاں اور اب
پوچھتے ہیں خود سے وہ اعتدال کیا ہوا

کاش پوچھے تو سہی مرنے والوں سے کوئی
ناز و نخرہ کیا ہوا جان و مال کیا ہوا
 

الف عین

لائبریرین
ہاں اب الفاظ یا فقرے نہیں ٹوٹ رہے ہیں۔ یہ خامی تو دور ہو گئی ہے۔ ابھی بھی آخری شعر میں حروف کا اسقاط اچھا نہیں لگ رہا۔ محض ’پوچھ تو سہی، مرن وال سے کُئی‘ الفاظ یا نشست بدل کر دیکھو۔
 
Top