حقیقت کیا ہے ؟---- نور سعدیہ شیخ

نور وجدان

لائبریرین
محبت کیا ہے ؟ حقیقت ہے ؟ مجاز ہے ؟وجود ہے ؟ نفس ہے؟ حواس ہیں؟ محبت کے بارے میں میری یہ تیسری تحریر ہے ۔ پہلی تحریر جس میں مجاز کی حقیقت سے انکار کا نام محبت کو دے کر ، دوسری وہ جس میں مجاز سے راستہ نکلتا ہے حقیقت کا ، اور یہ تحریر وہ ہے جو مجاز اور مظاہر سے ہوکر گزرتی حقیقت کو پاتی ہے ، یہ لے جاتی ہے محبت سے عشق کے عین کی طرف۔۔۔! عشق کے راستے میں ناگن کا پہرا ہوتا ہے کہ انسان کو سپیرا بننا پڑتا ہے اور جوگ پال پال کر ، ساز سے کرنا ہوتا رستہ استوار۔۔۔۔! بڑی مشکل راہ ہے محبت سے عشق کی ۔۔۔۔۔! محبت کے کچے رنگوں پر عشق کا رنگ چڑھتا نہیں اس لیے محبت کے درجے ہیں جبکہ عشق کی انتہا کوئی نہیں ہے ۔ یوں کہ لیں کہ ابتدا ہی انتہا ہے اور انتہا بھی ابتدا ہے ۔

محبت ،تصوف اور ادب تینوں کا رشتہ ایک ہی تار میں بندھا ہے . یہ پہچان کا راستہ ہے ، مجاز سے محبت صرف انسان کی اپنی پہچان کا باعث بنتی ہے کہ انسان کی پہچان اس وسیلے سے بنتی ہے ، جس سے اس کو محبت ہوتی ہے۔۔۔! . جبکہ مظاہر جیسے آگ ، پانی ، مٹی ، ہوا .... ان سے گزر کو مزید حقیقت کو پانے کی جستجو لے جاتی ہے اللہ کے قریب۔۔۔۔۔۔ ! اس کائنات کو بنانے والا کون ہے ؟ ایک ہے ؟ بادل چلتے ہیں اور بارش ہوتی ہے ، یہ بارش کئی جگہوں پر طوفان تو کئی جگہوں پر زندگی کا سندیسہ بنتی ہے ۔۔۔!. زرخیز مٹی اور بنجر مٹی کی تفریق بارش سے ہوتی ہے . بارش آسمان سے برستی ہے مگر زمین پر پہنچ کر اس کی تاثیر زمین والی مٹی کے مطابق ہوجاتی ہوجاتی ہے . طوفان بارش لاتی ہے اگر مٹی کی زرخیری بڑھانی ہو ...بصورت سیلاب مٹی کے کٹاؤ سے دریا میں بہ جانی والی مٹی اصل مٹی سے مل کر زرخیز ہوجاتی ہے .


محبت صرف رقص کا نام تو نہیں۔۔! ! ایک باب کا نام تو نہیں اس کے تو کئی دروازے ہیں . ایک باب'' حرم ''ہے اور دوسرا باب ''کرم'' ہے اور ایک باب'' ادب و حیا'' کا ہے ، ایک باب ''مراد'' کا ہے . ان کے درمیاں جانے کتنے ''در'' عشاق پر کھلے ہیں اور کتنے اس کوکھولنے میں کامیاب ہوئے ؟ ہر کوئی روح کے اندر نہیں جاسکتا . مگر روح سے روح تک کا راستہ ، یعنی روح سے اصل تک کا راستہ ہی ''وصل'' کا راستہ ہے .روح سے انصال دو طریق سے ہے ، ایک طریقہ بذریعہ رہنما سے یا دوسرا مجاز کے عشق سے ، جبکہ دوسرا طریقہ براہ راست ہے .

براہ راست طریقہ عدم کی مٹی پر استوار وجودیت کی نفی سے ہوتا وصل کی شراب سے ہمکنار کرتا ہے . اس راستے پر کوئی نہیں چل سکا سوائے'' ایک'' انسان کے ۔۔۔۔۔! اُن کا خمیر خاص ہے . جن کے لیے یہ کائنات بنائی گئی وہ تو اس کائنات کا حسن ہے اور خلیفہ ہیں. ایسے خلیفہ جو باقی پیغمبروں کے امام ہیں مگر ان کے امتی ۔۔۔! اس کے راستے پر چلنے والے ۔۔۔! ان کے خلیفہ ہیں ۔جن کے مراتب ان پیامبروں سے بڑھ کر ہیں . معراج کے راستے پر سب سے بڑا درجہ ''عبد'' کا ہے .کامل درجہ پانے کے بعد ''ورا سے ماوار '' تک کا سفر کیا ہے .'' روح'' سائنس کی رُو سے ''ہوا'' ہے اور ''ہوا'' کو سائنس کی رُو سے دیکھا نہیں محسوس کیا جاسکتا ہے اس لیے آنکھ سے ''ہوا'' کو دیکھنے پر سائنس کچھ نہیں کرسکتی سوائے کچھ ایسے آلات جو شفافیت ختم کرسکیں . روح کو کون دیکھ پایا ؟ مگر اس کا ماورا کہنا ، مادیت کی توہین کہ جو بقاء ہے تو روح کو تو ہے . یہی مادیت کی سب سے ہلکی نشانی ہے ، مائع اور گیس سب نکل جائیں تو باقی ''ہوا '' رہ جاتی ہے . روح کہاں سے ماوار ہے ؟ روح کو محسوس کریں اور روح آپ کو باقی دنیا محسوس کروائے گی .


براہ راست کے بعد وسیلہ حضور پاکﷺ کی ذات ہے .جب مومن ان کا دیدار کرتے ہیں تو گویا حضور پاکﷺ ان کو دیکھ رہے ہیں کہ ان کی آنکھ نورانی ہے ، اس کے ناز و انداز مست و بے خود کرتے ہیں . جب ہم ان کی طرف دیکھیں تو حقیقت میں ہم نے اللہ کو پالیا . اس کی تمثیل اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیؑ کو جواب ہے کہ جب اللہ نے حضرت موسی ؑ جو نبی دلال تھے ، کہا

اے اللہ ! میں تجھ کو دیکھنا چاہتا ہوں!

موسی ! تو مجھے دیکھ نہیں سکتا مگر یہ نہ سمجھنا کہ کوئی بھی نہیں سکتا . ہاں ایک ہے میرا بندہ جس کو'' قاب قوسین ،ثمہ دنا '' کی رفعتیں عطا کروں گا ۔۔۔! اے موسی! تو مجھے نہیں دیکھ سکتا مگر مصطفیٰ کی آنکھوں میں دیکھ لینا ! وہ میرے جلوؤں کا نظارہ لے کر لوٹتا ہوگا ۔ اس کی آنکھوں میں دیکھ لینا ! تجھے رب کا نظارہ ہوجائے گا!

اس لیے سید مہر علی شاہ نے کیا خوب کہا ہے کہ ایسے بندے جن کے رتبے بنی اسرائیل کے پیامبروں سے زیادہ ہوں گے جو صدیق ہوں گے ۔۔۔وہ بندے ایسے الفاظ میں ثناء کا حق ادا کرتے ہیں ۔

''مکھ چن ، بدن شاسانی ہے
متھے چمک دی لاٹ نورانی ہے
کالی زلف تے اکھ مستانی ہے
مخمور اکھی ہن مد بھریاں
اس صورت نوں میں جان آکھاں
جان آکھاں تے جان جہان آکھاں
سچ آکھاں تے رب دی میں شان آکھاں۔۔۔''

محبت روح ہے جو مجاز کی سیڑھی سے حق کی طرف جانے کا ذریعہ ہے . مجاز کی سیڑھی ، رہنما کی سیڑھی ہوتی ہے ، عشق کا ''عین '' اس کے بغیر ملتا نہیں ہے انسان کی پہچان مجاز سے منطبق ہے اگر وہ مظاہر سے جڑ کے خالق سے نہ جڑپائے تو وہ بے چین و بے قرار ہوجاتا ہے . اس کی مثال اس طرح کہ رہنماء دو جہاں نے غور و فکر میں مشغول چالیس سال گزار دیے اور تنہائی میں رہنے لگے ، دنیا سے کنارا کرلیا تب ان پر ایک دن الہام کا سلسلہ واراد ہوا اور ان کی روح کو علم سے نوارا گیا . وحی کا سلسلہ کچھ لمحات پر محیط تھا اس نے سرر طاری کردیا ، چالیس سال کی محنت کے بعد وہ لمحہ پایا ....!اس کے بعد وہ نیک بندے تلاش حق میں مشغول ہوئے کہ کب مزید ان کو عطا ہو .... !کبھی کبھی غم انتہا کو پہنچ جاتا اور پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے اس پر سے نیچے گرنے لگتے کہ انتہائے غم میں یہ حالت ہوجاتی تھی . تب بچانے والی ذات قادر المطلق کی تھی ...! ان پر سلسلہ شروع ہوا اللہ کے کلام کا ...! اللہ کے کلام نے براہ راست جوڑا آپﷺ کو اللہ سے ... یہ کلام ہر انسان کے لیے رہنمائی ہے . کہ اس سے جڑنا یا اس پر غور و فکر کرنا ایسا ہے جیسے آپ کی بات اللہ تعالیٰ سے ہورہی ہے کیونکہ آیات پر غور و فکر کرنا کائنات پر غور کرنا ہے ، یعنی اللہ کی بنائی گئی اشیاء کو پہچاننا کہ ان کو کس مقصد کے لیے بنایا گیا اور اس کے پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے ،اس سفر سے ہوتے ہوئے انسان خود کو پہچانتا کہ اس کے پیدا ہونے میں کیا حکمت ہے ....میں نے فارسی سنی مگر سمجھ نہیں آئی ... اس کی زبان کی چاشنی میں کھو گئی بالکل اسی طرح پہلے قران کی مٹھاس کو روح میں رس گھلتی ہے اور روح خود ترتیل سے کلام الہی کی تلاوت کرنے لگتی ہے اس راستے میں اللہ سے محبت کے تمام راستے اور تمام سرے مل جاتے ہیں . خالق کے کلام کی ہر آیت تجلی لیے ہوئے ہے . جو اس تجلی کو پاگیا اس نے اصل میں قران پاک کی نعمتوں سے مزہ اٹھایا . اس لیے ہر مومن کا راستہ اللہ تعالیٰ سے قران پاک سے جڑتا ہے جبکہ حضور پاکﷺ وسیلہ ہیں . اصل ذات اللہ تعالیٰ کی ہے اور رہنمائی کو حضور پاکﷺ اس دنیا میں تشریف لائے ہیں .
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
بہت عمدہ لکھا ہے یعنی ذہنی کیفیات کو عمدہ طریقے سے بیان کیا ہے میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ کا شعر آپ کے لیئے
عاماں بے اخلاصاں اندر خاصاں دی گل کرنی
میٹھی کھیر پکا محمد، کتے اگے دھرنی
 
نہیں@محمد فہد بھائی ایسا نہیں ہے
عمل کی اصلاح کا نام ہرگز اسلام نہیں اور نہ ہی نیت کی اصلاح کا نام تصوف ہے ۔تصوف کے مطالب بہت سارے ہیں ہر صوفی نے اپنی کیفیات اور سمجھ کے مطابق تصوف کی تشریح کی ہے ۔
بہرحال آپ نے جو سوال کیا ہے اس کا جواب متقدمین سے دیتا ہوں۔
شیخ اقبال لاہوری اپنے خطبات میں مسلمان کامل کے لیئے ۳ درجے بتاتے ہیں ،ایمان ،فکراور معرفت ۔پہلے ضروری ہے کہ ایمان لایا جائے پھر ان اصولوں میں فکر سے کام لے جو اس نے بطورِ ضابطہ حیات قبول کیئے ہیں اس کے بعد ان اصولوں کی معرفت حاصل ہوجائے گی اور روح اسلام سمجھ میں آجائے گی۔
 
نہیں@محمد فہد بھائی ایسا نہیں ہے
عمل کی اصلاح کا نام ہرگز اسلام نہیں اور نہ ہی نیت کی اصلاح کا نام تصوف ہے ۔تصوف کے مطالب بہت سارے ہیں ہر صوفی نے اپنی کیفیات اور سمجھ کے مطابق تصوف کی تشریح کی ہے ۔
بہرحال آپ نے جو سوال کیا ہے اس کا جواب متقدمین سے دیتا ہوں۔
شیخ اقبال لاہوری اپنے خطبات میں مسلمان کامل کے لیئے ۳ درجے بتاتے ہیں ،ایمان ،فکراور معرفت ۔پہلے ضروری ہے کہ ایمان لایا جائے پھر ان اصولوں میں فکر سے کام لے جو اس نے بطورِ ضابطہ حیات قبول کیئے ہیں اس کے بعد ان اصولوں کی معرفت حاصل ہوجائے گی اور روح اسلام سمجھ میں آجائے گی۔
السلام علیکم!۔ میں آج کل خطبات کا مطالعہ کر رہا ہوں ۔ یہ آپ نے اقبال کے کس خطبے کا حوالہ دیا ہے ؟ اگر آپ پہلے خطبے کی بات کر رہے ہیں تو اسے میں جتنا سمجھ پایا ہوں وہ وجدان اور فکر میں اختلاف و ارتباط کی بات کرتے ہوئے اسے فلسفے سے جوڑتے ہیں اور الہٰیات کا حصہ بناتے ہیں۔مسلمان کامل کے تین درجات میرے مطالعے میں نہیں آئے۔
 
Top