غزل برائے اصلاح: فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن

تیری آنکھ بس حسنِ یار دیکھ سکتی ہے
آنکھ چائے پسِ دیوار دیکھ سکتی ہے
بھیددل کے چشمِ بینا پہ ہیں کھلے اکثر
سبک تہہ نہیں دلِ فگار دیکھ سکتی ہے
لمحہ اک یا دن ماہ و سال یا کہ ہوں صدیاں
آنکھ چائے تو سب ادوار دیکھ سکتی ہے
آنکھ کو ہو خالق کے جلوے کی طلب تو پھر
جلوہ اک کیا جلوے ہزار دیکھ سکتی ہے
چشم امید کو رہتی ہے ہمیشہ مثبت رو
ہو خزاں بھی تومنظر ِبہار دیکھ سکتی ہے
عیب اپنے پر نابینا ہو جاتی ہے اکثر
بات غیر کی ہو اک قطار دیکھ سکتی ہے
پردہ چشم پہ بس چندا یا چاندسے چہرے
کھول درِبصیرت تو مدار دیکھ سکتی ہے
کون جو کرے یوں اپنا محاسبہ عارشؔ
موت کو بھی چشمِ ذوالفقار دیکھ سکتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
کیا روزے میں چائے یاد آ رہی تھی بار بار؟
مذاق بر طرف۔ یہ نثری غزل کا تجربہ لگتا ہے۔ عروض سے کچھ واقفیت حاصل کر لیں تو اچھا کہہ سکتے ہیں۔ خیالات تو اچھے ہیں۔
 
السلام علیکم! سر سوری دیر سے حاضر ہوا۔اصل میں تھوڑا اردو ٹائپنگ اور عروض کا بھی مسئلہ ہے۔میں چائنہ میں ہوں۔انشاءاللہ اگلے ہفتے چھٹیاں ہوں گی،دو مہینے یہی ارادہ ہے۔یہاں اسی لیے حاضر ہوتا ہوں کہ تھوڑی بہت اساتذہ سے رہنمائی ملتی رہی
 
Top