غالب عشق مجھ کو نہیں، وحشت ہی سہی (مرزا اسداللہ خاں غالب)

طارق شاہ

محفلین
غزل
مرزا اسداللہ خاں غالب
عشق مجھ کو نہیں، وحشت ہی سہی
میری وحشت، تِری شہرت ہی سہی

قطع کیجے نہ، تعلّق ہم سے
کچھ نہیں ہے، توعداوت ہی سہی

میرے ہونے میں، ہے کیا رُسوائی؟
اے، وہ مجلس نہیں، خلوت ہی سہی

ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے
غیر کو تجھ سے محبت ہی سہی

اپنی ہستی ہی سے ہو، جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں، غفلت ہی سہی

عمر ہر چند کہ ہے برق خرام
دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی

ہم کوئی ترک وفا کرتے ہیں
نہ سہی عشق، مصیبت ہی سہی

کچھ تو دے، اے فلکِ نا انصاف
آہ وفریاد کی رُخصت ہی سہی

یار سے چھیڑ چلی جاے، اسد
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
 

ثقیل ساقی

محفلین
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تری شہرت ہی سہی

قطع کیجے نہ تعلّق ہم سے
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی

میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی
اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی

ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے
غیر کو تجھ سے محبّت ہی سہی

اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی

عمر ہر چند کہ ہے برق خرام
دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی

ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں
نہ سہی عشق مصیبت ہی سہی

کچھ تو دے اے فلکِ نا انصاف
آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی

ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی

یار سے چھیڑ چلی جائے اسد
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
 
Top