سلیم احمد مشرق ہار گیا۔۔۔۔۔۔۔۔سلیم احمد

دانائی سے کیا مراد ہے آپ کی، گٹ فیلینگ؟ میرے خیال میں تو روحانیت زیادہ بہتر ہے مشرقی مکتبہ فکر کی نمائندگی کے لیے۔
مجھے حیریت ہے۔ آپ ہندوستانی مٹی کی پیداوار ہو کر اگر یہ خیال رکھتی ہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ مشرق واقعی ہار گیا ہے۔ اتنی بری طرح کہ اس کی اولاد اپنے اجداد کو نہیں پہچانتی۔
مسلمانوں کو چھوڑیے کہ ان بےچاروں کا حوالہ انھی کے مار ہائے آستین گوارا نہیں کرتے، خود قدیم ہندوستان سے پاننی، پنگل اور چانکیہ کے افکار کا مطالعہ کیجیے۔ شاید آپ کو اندازہ ہو کہ تہذیب ہی نہیں اغلباً عقلیات کی نشوونما کا آغاز بھی مشرق سے ہوا تھا گو اس کی منطق وہ نہ تھی جو عقلیاتِ جدید کی ہے۔ لسانیات سے لے کر ریاضیات تک اور سیاسیات سے اقتصادیات تک کیا ہے جس کی بنا ان حکما کی نگارشات میں نہ ڈال دی گئی ہو؟
معذرت چاہتا ہوں مگر میں کسی عاقل کا ایک بڑا ہی جامع فقرہ یہاں نقل کیے بغیر رہ نہیں سکتا جو اس نے ہمارے زمانے کے ناخداؤں اور ان کی جانب سے کیے جانے والے عوام کے نفسیاتی استحصال کی نسبت کہا ہے۔
They can't be smarter; so they make you dumber!​
 

نمرہ

محفلین
مجھے حیریت ہے۔ آپ ہندوستانی مٹی کی پیداوار ہو کر اگر یہ خیال رکھتی ہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ مشرق واقعی ہار گیا ہے۔ اتنی بری طرح کہ اس کی اولاد اپنے اجداد کو نہیں پہچانتی۔
مسلمانوں کو چھوڑیے کہ ان بےچاروں کا حوالہ انھی کے مار ہائے آستین گوارا نہیں کرتے، خود قدیم ہندوستان سے پاننی، پنگل اور چانکیہ کے افکار کا مطالعہ کیجیے۔ شاید آپ کو اندازہ ہو کہ تہذیب ہی نہیں اغلباً عقلیات کی نشوونما کا آغاز بھی مشرق سے ہوا تھا گو اس کی منطق وہ نہ تھی جو عقلیاتِ جدید کی ہے۔ لسانیات سے لے کر ریاضیات تک اور سیاسیات سے اقتصادیات تک کیا ہے جس کی بنا ان کی نگارشات میں نہ ڈال دی گئی ہو؟
معذرت چاہتا ہوں مگر میں کسی عاقل کا ایک بڑا ہی جامع فقرہ یہاں نقل کیے بغیر رہ نہیں سکتا جو اس نے ہمارے زمانے کے ناخداؤں اور ان کی جانب سے کیے جانے والے عوام کے نفسیاتی استحصال کی نسبت کہا ہے۔
They can't be smarter; so they make you dumber!​
عام طور پر ریشنلزم وغیرہ کے ڈانڈے مغربی فلاسفروں سے ہی ملائے جاتے ہیں۔ یہاں یہ خیال رہے کہ مسلمان فلاسفروں کو بھی مغربی مکتبہ فکر میں شمار کیا جاتا ہے، مشرقی میں نہیں۔
 

نمرہ

محفلین
مجھے حیریت ہے۔ آپ ہندوستانی مٹی کی پیداوار ہو کر اگر یہ خیال رکھتی ہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ مشرق واقعی ہار گیا ہے۔ اتنی بری طرح کہ اس کی اولاد اپنے اجداد کو نہیں پہچانتی۔
مسلمانوں کو چھوڑیے کہ ان بےچاروں کا حوالہ انھی کے مار ہائے آستین گوارا نہیں کرتے، خود قدیم ہندوستان سے پاننی، پنگل اور چانکیہ کے افکار کا مطالعہ کیجیے۔ شاید آپ کو اندازہ ہو کہ تہذیب ہی نہیں اغلباً عقلیات کی نشوونما کا آغاز بھی مشرق سے ہوا تھا گو اس کی منطق وہ نہ تھی جو عقلیاتِ جدید کی ہے۔ لسانیات سے لے کر ریاضیات تک اور سیاسیات سے اقتصادیات تک کیا ہے جس کی بنا ان حکما کی نگارشات میں نہ ڈال دی گئی ہو؟
معذرت چاہتا ہوں مگر میں کسی عاقل کا ایک بڑا ہی جامع فقرہ یہاں نقل کیے بغیر رہ نہیں سکتا جو اس نے ہمارے زمانے کے ناخداؤں اور ان کی جانب سے کیے جانے والے عوام کے نفسیاتی استحصال کی نسبت کہا ہے۔
They can't be smarter; so they make you dumber!​
نیز یہ کہ اگر منطق کو نکال دیا جائے تو پھر تو دانائی گٹ فیلینگ یا intuition ہی رہ جاتی ہے میرے خیال میں۔ اگر آپ کے نزدیک کچھ اور ہے تو بتائیے۔
 

فلک شیر

محفلین
اس نظم کو پڑھ کر کے کے عزیز کی کتاب " مرڈر آف ہسٹری " یاد آ گئی ، اسے پڑھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ مشرق میں تھا ہی کیا ہارنے کو !
رہی اقدار کی بات تو مغربی اقدار ( سنی سنائی نہیں ) مشرق سے کہیں دیانت دار ہیں خواہ بری ہیں یا بھلی مگر ریا اور منافقت میں لپٹی ہوئی نہیں ہیں ۔ اب اس پر کئی انگلیاں اٹھیں گی مگر سچ یہ ہے کہ ہم اپنا سچ نہیں جانتے اور نہ ہی جاننا چاہتے ہیں ۔
جب مشرق کے پاس ہارنے کو کچھ نہیں تھا، تو مغرب نے کیا جیتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مغرب کی اس جیت کی قیمت کون ادا کر رہا ہے، خود مغرب یا مشرق و مغرب دونوں؟
 

فلک شیر

محفلین
مجھے حیریت ہے۔ آپ ہندوستانی مٹی کی پیداوار ہو کر اگر یہ خیال رکھتی ہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ مشرق واقعی ہار گیا ہے۔ اتنی بری طرح کہ اس کی اولاد اپنے اجداد کو نہیں پہچانتی۔
مسلمانوں کو چھوڑیے کہ ان بےچاروں کا حوالہ انھی کے مار ہائے آستین گوارا نہیں کرتے، خود قدیم ہندوستان سے پاننی، پنگل اور چانکیہ کے افکار کا مطالعہ کیجیے۔ شاید آپ کو اندازہ ہو کہ تہذیب ہی نہیں اغلباً عقلیات کی نشوونما کا آغاز بھی مشرق سے ہوا تھا گو اس کی منطق وہ نہ تھی جو عقلیاتِ جدید کی ہے۔ لسانیات سے لے کر ریاضیات تک اور سیاسیات سے اقتصادیات تک کیا ہے جس کی بنا ان حکما کی نگارشات میں نہ ڈال دی گئی ہو؟
معذرت چاہتا ہوں مگر میں کسی عاقل کا ایک بڑا ہی جامع فقرہ یہاں نقل کیے بغیر رہ نہیں سکتا جو اس نے ہمارے زمانے کے ناخداؤں اور ان کی جانب سے کیے جانے والے عوام کے نفسیاتی استحصال کی نسبت کہا ہے۔
They can't be smarter; so they make you dumber!​
نظم کے پس منظر میں غور کیا جائے ، تو سلیم احمد کو مشرق سے کتنے ہی سورج نکلنے کا جو دعوا ہے، وہ اس پس منظر میں دیکھا جا سکتا ہے ۔
 
عام طور پر ریشنلزم وغیرہ کے ڈانڈے مغربی فلاسفروں سے ہی ملائے جاتے ہیں۔ یہاں یہ خیال رہے کہ مسلمان فلاسفروں کو بھی مغربی مکتبہ فکر میں شمار کیا جاتا ہے، مشرقی میں نہیں۔
کیا آپ بھی یہ سادہ سا نکتہ نہیں سمجھ سکتیں کہ فاتح مفتوح سے ہمیشہ تعصب برتتا آیا ہے؟
جہاں تک مسلمان فلسفیوں کے مغربی تواریخ میں تذکرے کا ذکر ہے تو وہ ظاہر ہے جب آئیں گے ہسپانیہ اور ترکیہ ہی سے آئیں گے۔ مشرقی فلسفے کی الگ سے جو تاریخیں لکھی گئی ہیں ان میں مسلمانوں سے وہی تعصب برتا گیا ہے جو برتا جانا چاہیے تھا۔
نیز یہ کہ اگر منطق کو نکال دیا جائے تو پھر تو دانائی گٹ فیلینگ یا intuition ہی رہ جاتی ہے میرے خیال میں۔ اگر آپ کے نزدیک کچھ اور ہے تو بتائیے۔
بی‌بی، اس میں دو باتیں ہیں۔
اول یہ کہ منطق کوئی جامد شے نہیں۔ یہ اس نظام کا نام ہے جس کے تحت کائنات اور اس کے مظاہر کی ایسی توجیہ کی جا سکے جس سے عقل مطمئن ہو جائے۔ اور میری رائے میں ایسے لاتعداد نظام ایک ہی وقت میں موجود ہو سکتے ہیں۔ سائنس ایک نظام رکھتی ہے۔ فلسفہ دوسرا۔ مذہب تیسرا۔ فن چوتھا۔ قس علیٰ ہٰذا۔
گڑبڑ تب پیدا ہوتی ہے جب ہم سائنس کی منطق کو معیار بنا کر دوسروں کی عقلیات کو کالعدم سمجھ لیتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ سب مذہبی لوگ دیوانے نہیں ہوتے۔ سب فن‌کار سڑی نہیں ہوتے۔ سب فلسفی خبطی نہیں ہوتے۔ یہ تمام لوگ اپنا نظامِ توجیہ یعنی منطق رکھتے ہیں اور پوری عقلی دیانت‌داری کے ساتھ اس کے تحت کام کرتے ہیں۔
دوسری بات کہ منطق کو نکال دینے کے بعد دانائی محض احساس یا وجدان رہ جاتی ہے، عقل والوں کی سادگی پر دلیل ہے۔ جاننا محض سمجھنے کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ یہ تو درحقیقت نہایت ناقص بنیاد ہے۔ اہلِ مذہب کے ہاں جو دانائی پائی جاتی ہے اس کا غالب حصہ "سمجھنے" کے علیٰ‌الرغم "دیکھنے" سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ اپنی اصل میں سائنس ہی کے نزدیک ہے جس میں مشاہدہ اصلِ اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ دقت صرف اس قدر ہے کہ ایسے دانا جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دکھا نہیں سکتے۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں​
یہ وہ چیز ہے جسے القا، الہام، مکاشفہ، مشاہدہ وغیرہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مگر صاف ظاہر ہے کہ ناقابلِ ابلاغ (uncommunicable) ہونے کے باعث اسے منطق میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بہرحال طے ہے کہ دانائی محض اٹکل‌پچو، ٹامک‌ٹوئیوں اور "سمجھنے" کی خام کوششوں کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ٹیکنالوجی کا فسوں ایسا ہے کہ سب کچھ اپنے ساتھ ہی بہا کر لے گیا۔ مغرب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے صرف فلسفہ نہ بگھارا، ایک قدم آگے بڑھے اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ایسے جھنڈے گاڑھے کہ اب ہر میدان عملی طور پر ان کے ہی نام ہے۔ تاہم، اس سے یہ مراد یہ نہیں ہے کہ مشرقی دانش نے تہذیب و تمدن کے فروغ میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے۔
 

فلک شیر

محفلین
ٹیکنالوجی کا فسوں ایسا ہے کہ سب کچھ اپنے ساتھ ہی بہا کر لے گیا۔ مغرب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے صرف فلسفہ نہ بگھارا، ایک قدم آگے بڑھے اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ایسے جھنڈے گاڑھے کہ اب ہر میدان عملی طور پر ان کے ہی نام ہے۔ تاہم، اس سے یہ مراد یہ نہیں ہے کہ مشرقی دانش نے تہذیب و تمدن کے فروغ میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے۔
فلسفہ تھا اور اسی کی بنیاد پہ وہاں موجودہ مادی ترقی ہوئی۔
 

فرقان احمد

محفلین
فلسفہ تھا اور اسی کی بنیاد پہ وہاں موجودہ مادی ترقی ہوئی۔
فلسفہ تو یقینی طور پر تھا بھیا، تاہم، 'مادی ترقی' تبھی ہوئی جب انہوں نے یہ جان لیا کہ محض لفاظی سے کچھ نہ ہو گا۔ موجودہ دور کی سائنس نے اسی فلسفے سے جنم لیا تاہم اب سائنس و ٹیکنالوجی کا ہی چلن ہے اور گورے فی زمانہ اس میں 'امام' کے درجے پر فائز ہیں۔ یہ 'مادی ترقی' سائنس کی مرہون منت ہے اور اس میں مشرقی دانش کا بھی حصہ رہا ہے جس کی طرف محترم راحیل فاروق نے اشارہ کیا ہے۔ اس میں احساس کم تری کی بات نہیں ہے تاہم گوروں کو جو کریڈٹ جاتا ہے، وہ تو جاتا ہی ہے۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
اور یوں بھی، سلیم احمد مرحوم سے مکمل طور پر اتفاق نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس نظم کا اپنا بھی ایک خاص تناظر تھا جس میں اسے دیکھا جانا چاہیے۔ خیال رہے، یہ نظم 1970 کے عام انتخابات میں جماعتِ اسلامی کی شکست کے بعد لکھی گئی تھی اور سلیم احمد کی جماعت اسلامی کے ساتھ وابستگی کی بابت بہتوں کو علم ہو گا۔ اس موقع پر عام طور پر جذباتیت کا شدید غلبہ ہوا کرتا ہے اور نظم کا طنزیہ لہجہ بھی ایک الگ داستان سناتا نظر آتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس نظم سے حتمیت کے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ 'مشرق ہار گیا ہے'، مناسب نہیں۔
 

نمرہ

محفلین
کیا آپ بھی یہ سادہ سا نکتہ نہیں سمجھ سکتیں کہ فاتح مفتوح سے ہمیشہ تعصب برتتا آیا ہے؟
جہاں تک مسلمان فلسفیوں کے مغربی تواریخ میں تذکرے کا ذکر ہے تو وہ ظاہر ہے جب آئیں گے ہسپانیہ اور ترکیہ ہی سے آئیں گے۔ مشرقی فلسفے کی الگ سے جو تاریخیں لکھی گئی ہیں ان میں مسلمانوں سے وہی تعصب برتا گیا ہے جو برتا جانا چاہیے تھا۔

بی‌بی، اس میں دو باتیں ہیں۔
اول یہ کہ منطق کوئی جامد شے نہیں۔ یہ اس نظام کا نام ہے جس کے تحت کائنات اور اس کے مظاہر کی ایسی توجیہ کی جا سکے جس سے عقل مطمئن ہو جائے۔ اور میری رائے میں ایسے لاتعداد نظام ایک ہی وقت میں موجود ہو سکتے ہیں۔ سائنس ایک نظام رکھتی ہے۔ فلسفہ دوسرا۔ مذہب تیسرا۔ فن چوتھا۔ قس علیٰ ہٰذا۔
گڑبڑ تب پیدا ہوتی ہے جب ہم سائنس کی منطق کو معیار بنا کر دوسروں کی عقلیات کو کالعدم سمجھ لیتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ سب مذہبی لوگ دیوانے نہیں ہوتے۔ سب فن‌کار سڑی نہیں ہوتے۔ سب فلسفی خبطی نہیں ہوتے۔ یہ تمام لوگ اپنا نظامِ توجیہ یعنی منطق رکھتے ہیں اور پوری عقلی دیانت‌داری کے ساتھ اس کے تحت کام کرتے ہیں۔
دوسری بات کہ منطق کو نکال دینے کے بعد دانائی محض احساس یا وجدان رہ جاتی ہے، عقل والوں کی سادگی پر دلیل ہے۔ جاننا محض سمجھنے کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ یہ تو درحقیقت نہایت ناقص بنیاد ہے۔ اہلِ مذہب کے ہاں جو دانائی پائی جاتی ہے اس کا غالب حصہ "سمجھنے" کے علیٰ‌الرغم "دیکھنے" سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ اپنی اصل میں سائنس ہی کے نزدیک ہے جس میں مشاہدہ اصلِ اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ دقت صرف اس قدر ہے کہ ایسے دانا جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دکھا نہیں سکتے۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں​
یہ وہ چیز ہے جسے القا، الہام، مکاشفہ، مشاہدہ وغیرہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مگر صاف ظاہر ہے کہ ناقابلِ ابلاغ (uncommunicable) ہونے کے باعث اسے منطق میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بہرحال طے ہے کہ دانائی محض اٹکل‌پچو، ٹامک‌ٹوئیوں اور "سمجھنے" کی خام کوششوں کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔
تعصب کی بحث سے قطع نظر میرا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ روحانیت کو مشرقی فلسفے کے عنصر کے طور پر ہی پہچانا جاتا ہے اور مغرب والے اسے صرف امپورٹ کیا کرتے ہیں تو یہ ایک بنیادی فرق ہے مشرق اور مغرب میں۔
سائنس اور فلسفے کے میدان جدا جدا ہیں اور ان دونوں کے بیک وقت ٹھیک ہونے سے منطق کے متعدد نظاموں کی موجودگی ثابت نہیں ہوتی۔
دوئم یہ کہ مشاہدے کی بات کریں تو وہ ایمپریسیزم یے اور اس میں منطق کا بالکل عمل دخل ہے ۔ القا الہام البتہ الگ ہیں۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
جب مشرق کے پاس ہارنے کو کچھ نہیں تھا، تو مغرب نے کیا جیتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مغرب کی اس جیت کی قیمت کون ادا کر رہا ہے، خود مغرب یا مشرق و مغرب دونوں؟
فلک شیر بھائی
ہمارے لئے اپنا سچ جاننا بہت اہم ہے ، کیا ہم اپنی سچائی سے واقف ہیں ؟ ہماری سچائی ہمارے نصابی علم سے کوسوں دور کھڑی ہنس رہی ہے ہم پر ۔
جس بہادر شاہ ظفر کا حوالہ دیا آپ نے یہی بہادر شاہ ظفر فرنگیوں کو خط لکھ لکھ کر واسطے دیتے رہے کہ انہیں انہی کی قوم سے بچایا جائے ، اقتدار کس کے ہاتھ میں تھا اور کس نے دیا یہ سب تاریخ جانتی ہے ۔
 

نمرہ

محفلین
نظم ایک مرتبہ پھر پڑھی اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کا اشارہ اس صورت حال کی جانب یے جسے کہا جاتا ہے کہ ہم مغرب کے کلچر سے مرعوب ہو کر اسے اپنا رہے ہیں۔
اس ضمن میں میرا خیال تو یہ ہے کہ ہماری مرعوبیت بھی سطحی ہوا کرتی ہے اور ہم ظاہر کو دیکھتے ہیں، ان اقدار اور اس فکری نظام کو نہیں جن پر اس کلچر کی بنیاد استوار ہے۔ پھر ہم واقعی کس حد تک اسے اپنا رہے ہیں، یہ بھی ایک سوال ہے. ہم میں کتنے لوگ شیکسپئر اور رلکے پر گفتگو کرتے ہیں؟ ہاں اقبال اور بلھے شاہ ، بیدل اور حافظ کو ہم نہیں پڑھتے، یہ درست ہے۔
نیز ان ناموں کے ساتھ اکبر کا نام آتا نہیں قدرتی طور پر۔
 

سعادت

تکنیکی معاون
اول یہ کہ منطق کوئی جامد شے نہیں۔[…]
دخل در معقولات کی پیشگی معذرت۔ کم علم آدمی ہوں، سو برا نہ منائیے گا…
[…] یہ اس نظام کا نام ہے جس کے تحت کائنات اور اس کے مظاہر کی ایسی توجیہ کی جا سکے جس سے عقل مطمئن ہو جائے۔ اور میری رائے میں ایسے لاتعداد نظام ایک ہی وقت میں موجود ہو سکتے ہیں۔ سائنس ایک نظام رکھتی ہے۔ فلسفہ دوسرا۔ مذہب تیسرا۔ فن چوتھا۔ قس علیٰ ہٰذا۔
کیا منطق کی تعریف صرف یہ نہیں ہے کہ یہ دلائل اور استدلال کو پرکھنے کا ایک نظام ہے؟ منطقی مغالطہ چاہے سائنس کے کسی موضوع پر غور کرتے ہوئے وقوع پذیر ہو یا کسی فلسفیانہ بحث کے دوران، اسے جانچنے کا نظام تو مشترک ہی رہے گا؟ آپ کی بیان کردہ تعریف، ’یہ اس نظام کا نام ہے جس کے تحت کائنات اور اس کے مظاہر کی ایسی توجیہ کی جا سکے جس سے عقل مطمئن ہو جائے،‘ منطق سے زیادہ سائنس کی تعریف معلوم ہوتی ہے۔
 

نمرہ

محفلین
دخل در معقولات کی پیشگی معذرت۔ کم علم آدمی ہوں، سو برا نہ منائیے گا…

کیا منطق کی تعریف صرف یہ نہیں ہے کہ یہ دلائل اور استدلال کو پرکھنے کا ایک نظام ہے؟ منطقی مغالطہ چاہے سائنس کے کسی موضوع پر غور کرتے ہوئے وقوع پذیر ہو یا کسی فلسفیانہ بحث کے دوران، اسے جانچنے کا نظام تو مشترک ہی رہے گا؟ آپ کی بیان کردہ تعریف، ’یہ اس نظام کا نام ہے جس کے تحت کائنات اور اس کے مظاہر کی ایسی توجیہ کی جا سکے جس سے عقل مطمئن ہو جائے،‘ منطق سے زیادہ سائنس کی تعریف معلوم ہوتی ہے۔
بحث میں سب کو دخل در معقولات کی آزادی ہے۔ پھر بلاگ کو تو آپ نے کنارے لگا رکھا ہے، یہیں پڑھنے کو مل سکتا ہے شاید :)
 

نمرہ

محفلین
فلسفے کے نظاموں پر بحث اچھی چل رہی ہے لیکن میرا بنیادی سوال اپنی جگہ ہے۔
نظم کا مرکزی خیال : مغربی اقدار نے مشرق پر قبضہ کر لیا ہے ( نوکر، بچے، رلکے کا مطالعہ حافظ کی جگہ وغیرہ) سو مجھے نفرت کی آگ میں سب جلا دینا چاہیے۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیا پرانی اقدار کے لیے نئی اقدار کو سراسر مسترد کرنے والا یہ رویہ طرز کہن پہ اڑنے والے شعر سے تھوڑی سی بھی مطابقت نہیں رکھتا؟
 
دخل در معقولات کی پیشگی معذرت۔ کم علم آدمی ہوں، سو برا نہ منائیے گا…
بھائی، کیوں شرمندہ کرتے ہیں؟ میں کون سا ارسطو ہوں؟ :):):)
کیا منطق کی تعریف صرف یہ نہیں ہے کہ یہ دلائل اور استدلال کو پرکھنے کا ایک نظام ہے؟ منطقی مغالطہ چاہے سائنس کے کسی موضوع پر غور کرتے ہوئے وقوع پذیر ہو یا کسی فلسفیانہ بحث کے دوران، اسے جانچنے کا نظام تو مشترک ہی رہے گا؟ آپ کی بیان کردہ تعریف، ’یہ اس نظام کا نام ہے جس کے تحت کائنات اور اس کے مظاہر کی ایسی توجیہ کی جا سکے جس سے عقل مطمئن ہو جائے،‘ منطق سے زیادہ سائنس کی تعریف معلوم ہوتی ہے۔
بھیا، کبھی غور فرمایا کہ یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ استدلال کو پرکھنے کا یہ نظام درست ہے یا نہیں؟ یعنی منطق یہ فیصلہ تو کرتی ہے کہ فلاں دلیل درست ہے اور فلاں غلط۔ مگر منطق کے اصول کون طے کرتا ہے؟
ظاہر ہے کہ بشر اور اس کی عقل۔ اب ہے یوں کہ بشر اپنے تجربات کے تنوع کی بنیاد پر مختلف چیزوں کو ناقابلِ سوال (axiomatic) ٹھہرا دیتا ہے۔ یہی axioms کسی منطق کی نیو ڈالتے ہیں۔ مثلاً اقلیدس (geometry) میں نقطے (point) پر آپ سوال نہیں اٹھا سکتے۔ اس کا ثبوت فراہم نہیں مگر اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔ مذہب میں عموماً آپ خدا اور تقدیر پر اسی طرح انگشت‌نمائی نہیں کر سکتے۔ فن میں تخلیقِ فن اور سببِ تخلیق نہیں پوچھے جا سکتے۔ فلسفے سے یہ دریافت نہیں کیا جا سکتا کہ عقل ہی معیار کیوں رکھی جائے۔ یہ سوالات بالکل ناممکن نہیں مگر مدعا یہ ہے کہ ان کو اٹھا کر آپ ان شعبہ ہائے علم و حکمت کے اندر نہیں رہ سکتے۔ نقطے کی تحقیق آپ کو اقلیدس سے باہر بھیج دیتی ہے۔ خدا کی تلاش مذہب سے خارج کر دیتی ہے۔ و علیٰ ہٰذا القیاس۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ انسان کی عقلی زندگی کا ہر پہلو کچھ axioms کو بلا حیل و حجت تسلیم کرتا ہے اور پھر آگے بڑھتا ہے۔ گویا آپ لامتناہی طور پر سوالات نہیں کر سکتے۔ آپ کو اپنے پاؤں کسی ان‌دیکھی زمین پر ضرور گاڑنے ہوں گے۔ یہ زمین ہر تناظر میں مختلف ہوتی ہے۔ اور اس کے بعد اس سے سر نکالنے والا علم کا ہر بوٹا عقل ہی کی روشنی میں نمو پاتا ہے۔ مگر زمین کا فرق اس کے رنگ‌ڈھنگ پر نمایاں طور پر اثرانداز ہوتا ہے۔ گویا مختلف منطقیں مختلف چیزوں کو ناقابلِ سوال ٹھہرا کر اپنے نظام ہائے توجیہ قائم کرتی ہیں۔
اب رہی سائنس کی تعریف تو وہ میرے نزدیک ایک ایجابی منطق کی عملی صورت ہے بالکل اسی طرح جیسے فلسفہ ایک ہمہ‌گیر منطق کی عملی صورت ہے اور فن جمالیاتی منطق کی۔ گویا سائنس بذاتِ خود کسی نظام کا نام نہیں بلکہ ایک نظام کے تحت وقوع‌پذیر ہونے والے اعمال کا نام ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا پرانی اقدار کے لیے نئی اقدار کو سراسر مسترد کرنے والا یہ رویہ طرز کہن پہ اڑنے والے شعر سے تھوڑی سی بھی مطابقت نہیں رکھتا؟
آپ درست فرما رہی ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جو نئی اقدار زیرِ بحث ہیں وہ محض نئے زمانے کی نہیں بلکہ ایک بالکل مختلف تہذیب اور طرزِ فکر کی پیداوار ہیں۔ زمانے کے تغیر کو تو ضرور قبول کیا جانا چاہیے کہ وہ خود خدا ہے مگر اپنی تہذیب اور وجود کے منافی اقدار کو اس آڑ میں نہیں گھسنے دیا جا سکتا۔ جو چیزیں ہمارے تمدن کے موافق ہیں وہ اپنے نئے رنگوں میں بھی قبول ہیں۔ :)
 

عثمان

محفلین
بھیا، کبھی غور فرمایا کہ یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ استدلال کو پرکھنے کا یہ نظام درست ہے یا نہیں؟ یعنی منطق یہ فیصلہ تو کرتی ہے کہ فلاں دلیل درست ہے اور فلاں غلط۔ مگر منطق کے اصول کون طے کرتا ہے؟
ظاہر ہے کہ بشر اور اس کی عقل۔ اب ہے یوں کہ بشر اپنے تجربات کے تنوع کی بنیاد پر مختلف چیزوں کو ناقابلِ سوال (axiomatic) ٹھہرا دیتا ہے۔ یہی axioms کسی منطق کی نیو ڈالتے ہیں۔ مثلاً اقلیدس (geometry) میں نقطے (point) پر آپ سوال نہیں اٹھا سکتے۔ اس کا ثبوت فراہم نہیں مگر اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔ مذہب میں عموماً آپ خدا اور تقدیر پر اسی طرح انگشت‌نمائی نہیں کر سکتے۔ فن میں تخلیقِ فن اور سببِ تخلیق نہیں پوچھے جا سکتے۔ فلسفے سے یہ دریافت نہیں کیا جا سکتا کہ عقل ہی معیار کیوں رکھی جائے۔ یہ سوالات بالکل ناممکن نہیں مگر مدعا یہ ہے کہ ان کو اٹھا کر آپ ان شعبہ ہائے علم و حکمت کے اندر نہیں رہ سکتے۔ نقطے کی تحقیق آپ کو اقلیدس سے باہر بھیج دیتی ہے۔ خدا کی تلاش مذہب سے خارج کر دیتی ہے۔ و علیٰ ہٰذا القیاس۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ انسان کی عقلی زندگی کا ہر پہلو کچھ axioms کو بلا حیل و حجت تسلیم کرتا ہے اور پھر آگے بڑھتا ہے۔ گویا آپ لامتناہی طور پر سوالات نہیں کر سکتے۔ آپ کو اپنے پاؤں کسی ان‌دیکھی زمین پر ضرور گاڑنے ہوں گے۔ یہ زمین ہر تناظر میں مختلف ہوتی ہے۔ اور اس کے بعد اس سے سر نکالنے والا علم کا ہر بوٹا عقل ہی کی روشنی میں نمو پاتا ہے۔ مگر زمین کا فرق اس کے رنگ‌ڈھنگ پر نمایاں طور پر اثرانداز ہوتا ہے۔ گویا مختلف منطقیں مختلف چیزوں کو ناقابلِ سوال ٹھہرا کر اپنے نظام ہائے توجیہ قائم کرتی ہیں۔
اب رہی سائنس کی تعریف تو وہ میرے نزدیک ایک ایجابی منطق کی عملی صورت ہے بالکل اسی طرح جیسے فلسفہ ایک ہمہ‌گیر منطق کی عملی صورت ہے اور فن جمالیاتی منطق کی۔ گویا سائنس بذاتِ خود کسی نظام کا نام نہیں بلکہ ایک نظام کے تحت وقوع‌پذیر ہونے والے اعمال کا نام ہے۔
آپ axioms پر سوال اٹھا سکتے ہیں اور اس سوال کے جواب کی تلاش میں ایک نیا علم جنم لیتا ہے۔ مثلاً Non-Euclidean Geometry کی داغ بیل Parallel Postulate کو رد کرنے سے ہی پڑی تھی۔ ریاضی میں ایسی اور مثالیں بھی موجود ہیں اور میرا خیال ہے دیگر علوم بھی اس خوبی سے خالی نہیں ہیں۔
میرے خیال میں axioms علوم کے منفرد دائرہ کار کو واضح کرتے ہیں ان کی حدود پر کلی قدغن نہیں لگاتے۔ اس لحاظ سے یہ خوبی ہوئی خامی تو نہ ہوئی۔ البتہ شائد مفروضات کسی نا کسی شکل میں موجود رہتے ہیں۔
کیا الہامی علوم کے axioms پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے؟
خدا کی تلاش مذہب سے خارج کیوں کرتی ہے ؟
کچھ جزویات پر اختلاف کے علاوہ آپ کا نقطہ نظر عمدہ ہے۔ :)
 
آخری تدوین:
Top