ہمارا ادب گشت میں

دانشوروں کو شکایت ہے کہ ہمارا ادب جمود کا شکار ہے انہیں چاہیے کہ بسوں، ٹرکوں، ٹیکسیوں اور رکشوں کے پیچھے پینٹ کیے ہوئے نظم و نثر کے ان شاہکاروں پر بھی نظر ڈال لیا کریں جو دن رات حرکت میں رہتے ہیں،،
یہ ادب " ادب برائے ادب"اور" ادب برائے زندگی" جیسے گمبھیر نظریات سے ماورا ہے ۔اس کا مرکزی خیال ہے "ادب برئے عبرت"۔۔۔
ایک دوست نے بتایا کہ وہ کسی سواری کے انتظار میں اپنے گھر کے باہر کھڑے تھے،انھوں نے ایک ٹیکسی رکوائی۔اس وقت وہ بہت جلدی میں تھےلیکن جب ٹیکسی ان کے آگے آکر رکی تو وہ اس میں سوار نہیں ہوئے۔اس کے پیچھے لکھا تھا ۔" کیا آپ نے اللہ سے ملاقات کی تیاری کر لی ہے؟"
بعض گاڑیوں کے پیغامات بڑے معنی خیز ہوتے ہیں 1960 کے عشرے میں ہم سکوٹر چلاتے تھے۔ہمیں ایک روز ٹرک نے سائیڈ سے ہلکی سی ٹکر ماری۔ہم نے سڑک پر گرتے ہی آگے نکل جانے والے ٹرک پر ایک قہر آلود نظر ڈالی۔وہاں لکھا تھا۔ " اچھا دوست پھر ملیں گے"
یعنی آج کے لیے اتنا ہی کافی ہےکہ صرف کپڑے خراب ہوئے اور معمولی خراشیں آئی، بقیہ" مرمت" اگلی ملاقات پر!
پاکستان میں چلنے والی گاڑیوں کا ایک پسندیدہ جملہ ہے۔" پپو یار تنگ نہ کر" ۔ یہ پپو کون ہے؟ اس کا حسب ونسب کیا ہے؟ اور یہ اپنے دوستوں کو تنگ کیوں کرتا ہے کوئی نہیں جانتا۔
بہت سے ٹرکوں پر لکھا ہوتا ہے' نصیب اپنا اپنا' رکشوں پر اس کا پشتو ترجمہ" نصیب اخیل اخیل" آنے لگا ہے۔بعض گاڑی والے دوسری گاڑی والوں کو ٹریفک کے قواعد سکھاتے پھرتے ہیں ۔مثلا " ہارن دے کر پاس کریں یا گاڑی سے فاصلہ رکھیں"۔ جبکہ بعض دوسروں کو کھلم کھلا چیلنج دیتے ہیں " ہمت ہے تو پاس کر" ہمارا مشورہ ہے کہ ایسا " وحشیانہ"چیلنج کبھی قبول نہ کریں۔ ایک کھٹارا بس کے ڈرائیور نے اپنی گاڑی کے بارے مسافروں کو اطمینان دلایا"دیکھنے میں ڈولی، چلنے میں گولی"۔
رکشوں کی پسندیدہ عبارت ہے " ماں کی دعا جنت کی ہوا" بھائی آپ ماواں ٹھنڈیاں چھاواں سے زیادہ دعائیں کیوں نہیں لیتے؟ کیا خدمت میں کوئی کسر رہ گئی تھی جو آپ رکشے پر رکے ہوئے ہیں! ویسے ایک رکشہ اس سلسلے میں پر امید نظر آیا۔اس کے پیچھے لکھا تھا " میں بڑا ہو کر ٹرک بنوں گا"
مختصر یہ کہ کتابی ادب پر جمود ہو تو ہو گشتی ادب شب وروز حرکت میں ہے۔ اب ہم لوگ اس کی طرف توجہ ہی نہ دیں تو اس میں قصور ہمارا اپنا ہے۔
 
Top